Haifa and Zanisha Novel Part 17 is one of the top romance Urdu novels, filled with emotions, love, and drama. Read this heart-touching Urdu love story online or download the free romantic Urdu novel PDF.

Haifa and Zanisha Novel Part 17 – Romance Urdu Novels
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 16 – Urdu Stories Online
فیصل میران پیلس میں کسی کو یہ سب بتانے کی گستاخی بالکل بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔ سوائے شمسہ بیگم کے ۔۔۔۔ مگر وہ انہیں بھی یہ سب بتا کر اب
مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
کیونکہ آژ میر کو سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔۔ وہ تب ہی
سنبھلتا تھا جب اُس کا غصہ اتر جاتا۔۔۔۔
لیکن اب اتنی دیر گزر جانے کے باوجود آژ میر کو نہ سنبھلتا دیکھ فیصل نے ہمت جمع کرتے ، اپنے انجام سے اندر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔ آژ میر کا جلالی روپ دیکھ فیصل خوف سے کانپ کر رہ گیا تھا۔۔۔ وہ چھوٹے
بے پرواہ
قدم اُٹھاتا آژ میر کے پاس پہنچا تھا۔۔۔
اُس نے دھیمی آواز میں آزمیر کو پکارا تھا۔۔۔۔
مگر آژ میر کو دیکھ کر لگ رہا تھا اُس نے سنا ہی نہ ہو۔۔۔۔
سر ایک گھنٹے بعد آپ کی بہت امپورٹنٹ میٹنگ ہے۔۔۔
فیصل اب کے قدرے اونچی آواز میں بولتا آژمیر کو اپنی جانب متوجہ کر گیا
تھا۔۔۔۔
آژمیر نے ہاتھ روکتے لہور نگ آنکھوں سے فیصل کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ فیصل کو لگا تھا آژمیر کا پڑنے والا ایک بینچ بھی اُس کا جبڑا ہلا کر رکھ جائے
اسی خوف سے اس نے میٹنگ والی فائل آژمیر کی جانب بڑھ
تھی۔۔۔۔ تم آفس جا کر ٹیم کو ریڈی کرو میں کچھ دیر
” تک آتا ہوں۔۔۔۔
آژمیر سردو سپاٹ لہجے میں بولتا فیصل کو جانے کے لیے بول گیا تھا۔۔۔ آژمیر کی یہی خاصیت تھی کہ وہ کسی اور کا غصہ کسی دوسرے پر نہیں نکالتا تھا۔۔۔۔۔ ورنہ اس وقت وہ جتنی تکلیف میں تھا وہ صرف تنہار ہنا چاہتا
تھا۔۔۔
مگر اس میٹنگ میں نہ جاکر وہ ایک ویک سے اس پر اجیکٹ پر کام کرتی اپنی
ٹیم کی محنت رائیگان نہیں جانے دے سکتا تھا۔۔۔۔
اُسے اپنے درد میں بھی اپنے سے منسلک لوگوں کا خیال تھا۔۔۔اور حاعفہ اسی اچھے انسان کا دل دکھانے کی وجہ بن گئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@
میٹنگ روم میں داخل ہوتے ہی آژمیر کا پہلا سا منا ملک زوہان سے ہوا تھا۔۔۔۔ زوبان آژمیر کو دیکھ پل بھر کے لیے چونک اٹھا تھا۔ جن آنکھوں میں اس نے ہمیشہ ایک شان بے نیازی اور کامیابی کی چمک دیکھتی تھی۔۔۔۔ آج اُن کی بجھی جوت اور ویرانیاں اُس کے لیے کافی
حیرت کی بات تھی۔۔۔۔
کیا ہوا آژمیر میران۔۔۔۔ ؟؟؟ تمہاری شکل سے لگ رہا ہے۔۔۔اس پراجیکٹ پر مجھ سے لڑنے سے پہلے ہی خوف کھا گئے ہو ۔۔۔۔
زوہان آژمیر کے ساتھ والی کرسی پر براجمان ہوتے اُسے چھیڑنے کی غرض
سے اسے مخاطب کر بیٹھا تھا۔۔۔
میرے خیال اس کا فیصلہ وقت پر ہی چھوڑ دیتے ہیں کہ جیت کس کی قسمت میں لکھی ہے اور ہار کس کی ۔۔۔۔
اپنی اندر بڑھتی بے چینی پر قابو پانے کی کوشش کرتے آژمیر نے سیگریٹ
سنگھا یا تھا۔۔۔
“اینی پر اہلم۔۔۔۔”
زوہان کو آژمیر کا اتنے آرام سے دیئے جانے والا جواب چونکا گیا تھا۔۔۔۔
نجانے کس احساس کے تحت اُس نے آژمیر سے پوچھا تھا۔۔۔
تم جانتے ہو اگر تم اس دنیا
کے آخری انسان بھی ہو گے تب بھی میں کم از کم تم سے
ہمدردی لینا پسند نہیں کروں گا۔۔۔ تو ایسے سوال پوچھو ہی مت جن کے
“جواب نہیں ملنے۔۔۔۔
آژمیر نپے تلے الفاظ میں زوہان کو اُس کی حد بتا گیا تھا۔۔۔ زوہان اُسے کوئی سخت جواب دینا چاہتا تھا مگر نجانے کس کیفیت کے زیر اثر وہ خاموش ہی رہا
میٹنگ روم میں تقریبا تمام کمپنیز کے ہیڈ آچکے تھے ۔۔۔۔ اب وہاں اُس انٹر نیشنل کلائنٹ کے آنے کا انتظار تھا۔۔۔ جو مارکیٹ میں اب تک کا سب سے بڑا پراجیکٹ دلوانے والا تھا۔۔۔ جس کے بعد کوئی بھی کمپنی آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جاتی۔۔۔۔۔ ہر کمپنی آج دل و جان سے یہ پراجیکٹ اپنے نام
کرنے کی تیاری سے آئی تھی۔۔۔ آج کا مقابلہ کافی ٹف ہونے والا
تھا۔۔۔۔
سب اُس کلائنٹ کے منتظر تھے۔۔۔ جب اُسی لمحے میٹنگ روم کا دروازہ کھلا
تھا۔۔۔
اور اندر آنے والی ہستی کو دیکھ سب کی آنکھیں غیر یقینی کی حد تک کھلنے کے ساتھ ساتھ اس سے ہٹ کر آژ میر کی جانب اٹھی تھیں۔۔۔ جس کے چہرے کا بدلتار نگ اُس کی اندر کی کیفیت بتا گیا تھا۔۔۔
“سویر اشیخ۔۔۔۔۔”
زوہان نے ہونٹ گول کرتے سامنے سے چل کر آتی لیڈی کا نام پکارا
تھا۔۔۔
جہاں سب شاک میں تھے۔۔۔ وہاں آژ میر کے علاوہ ایک زوہان ہی تھا جو اِس ساری سیچویشن کو انجوائے کر رہا تھا۔۔۔
آژ میر میران اور سویرا شیخ والے واقع سے بزنس کمیونٹی کا کوئی فرد ایسا نہیں
تھا جو واقف نہ ہو۔۔۔۔
سویر اشیخ پوری دلجی کے ساتھ ارد گرد موجود لوگوں کی پرواہ کیے بغیر آژ میر میر ان کو نہار تی اپنی سیٹ پر جا بیٹھی تھی۔۔۔۔
آژمیر نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا یہاں سے ابھی اُٹھ کر چلا جائے۔۔۔ مگر اپنے ٹیم ممبر ز کے فیسز دیکھ وہ تنے
ہوئے نقوش کے ساتھ وہیں بیٹھا رہا تھا۔۔۔۔
ہیلو ایری ون۔۔۔ آئی ہوپ آپ سب ٹھیک ہونگے۔۔۔ اور مجھے اِس سیٹ پر دیکھ کر خوش بھی۔۔۔۔۔ پر
سویرا آژمیر میر ان پر وارفتگی بھری نظر ڈالتی باقی سب سے مخاطب ہوئی
تھی۔۔۔
آژمیر کے سوا باقی سب کی نظریں سویر اشیخ پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ سیاہ پینٹ کورٹ میں ملبوس اپنے سیاہ سلکی بالوں کو کھلا چھوڑ رکھا تھا۔۔۔ فل میک اپ میں ریڈلپسٹک لگائے وہ آژمیر میر ان کو گھائل کرنے کے پورے ارادے کے ساتھ آئی تھی۔۔۔۔
مگر آژمیر میران نے ایک نگاہ غلط بھی ڈالنا گوارہ نہیں کی تھی اس پر۔۔۔۔
وہ سامنے پڑے پیپر ویٹ کو گھماتا اپنے اشتعال کو کنٹرول کرنے لگا تھا۔۔۔۔ مگر اُس کا غصہ اُس کے چہرے سے عیاں ہونے لگا تھا۔۔۔۔
میٹنگ کے حوالے سے کچھ پوائنٹس کلیئر کرتی سویرا گاہے بگاہے آژ میر کو آخر
دیکھ رہی تھی۔۔۔ زوہان کا دھیان بھی اُن دونوں پر ہی تھا۔۔۔۔ جب اچانک میٹنگ کے دوران ہی اپنا غصہ ضبط نہ کر پاتے آژ میر کرسی دھکیل کر وہاں سے اُٹھا تھا۔۔۔ سب حیرت سے اُس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔۔۔ آژ میر کے غصے سے وہاں سب واقف تھے۔۔۔ مگر وہ اس طرح اتنی امپورٹنٹ میٹنگ چھوڑ کر جائے گا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔۔۔ جب سویرا کے آنے پر سب یہ بھی جان چکے تھے کہ یہ پرا جیکٹ ہر صورت میں آژ میر میر ان کی کمپنی کو ہی ملنے والا تھا۔۔۔۔
آژمیر میٹنگ روم کا درازہ زور سے بند کرتا باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔
حیرت کی بات ہے ویسے۔۔۔ مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ آژ میر میران ” میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں میں سے ہے۔۔۔۔ ایک لڑکی کا مقابلہ نہیں
“کر سکتے تم ۔۔۔۔۔
آژ میر کے پیچھے اُٹھ کر آتے زوہان کے سخت الفاظ آژ میر کے قدم روک
گئے تھے۔
وہ خود پر بہت مشکل سے ضبط کرنے کی کوشش کرتا مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔۔ ووان لوگوں کے ساتھ ساتھ اس جگہ کا حلیے نہیں بگاڑ نا چاہتا تھا۔۔۔۔ جہاں تمہارے اور اس لڑکی جیسے گھٹیا لوگ موجود ہوں۔۔۔ وہاں بیٹھنا
” میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔۔۔
زوہان کے مقابل آکر کھڑے ہونے پر آژ میر ا سے خونخوار نظروں سے
دیکھتا اسے منہ توڑ جواب دے گیا تھا۔۔۔
مگر اُس کی بات پر زوہان کو غصہ نہیں آیا تھا بلکہ اُس نے چہرے پر دل جلاتی مسکراہٹ سجائے آخر میر کے پیچھے آتی سویرا کو دیکھا تھا۔۔۔
جب تم سے منسلک رشتے خود ہی تمہارے ساتھ مخلص نہیں تو میں کیا”
” کر سکتا ہوں۔۔۔۔
زوہان نے سویرا کی جانب اشارہ کرتے لاپر واہی سے کندھے اچکائے
‘ زوہان پلیز . ۔ “
سویرانے اسے آژمیر کے غصے کی آگ پر مزید تیل چھڑکنے سے باز رکھنا چاہا
تھا۔۔۔۔
آژمیر پلیز ایک بار میری بات سن لیں آپ۔۔۔۔۔
سویرا بات کرتے دوران آژمیر کے قریب آتی اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ
گئی تھی۔۔۔۔
لیکن اُس کے زرا سے لمس پر آژ میر میر ان کے چہرے پر ناگواریت پھیل گئی
تھی۔۔۔
اس نے بنا اس کی پوری بات سنیں۔۔۔ اُسے اپنے بازو سے دور جھٹک دیا تھا۔۔۔ ہیل پہنے کی وجہ سے سویر ابُری طرح لڑکھڑائی تھی۔۔۔ مگر زوہان کے سہارا دینے پر منہ کے بل گرنے سے بچ گئی تھی۔۔۔
دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ دوبارہ میری نظروں کے سامنے آنے کی ” کوشش مت کرنا۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔۔
آزمیر اسے نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتےغصہ میں بولتا وہاں سے
نکل گیا تھا۔۔۔۔
جب تم جانتی ہو کہ آژ میر میر ان کبھی کسی کی غلطی معاف نہیں کرتا۔۔۔” اور جو تم نے کیا وہ تو کبھی کسی قیمت پر معاف ہونے والا ہی نہیں ہے تو پھر
” کیوں واپس ذلیل ہونے آگئی ہو ۔۔۔ ؟؟
زوہان اس کی روہانسی صورت دیکھ استہزا یہ لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔۔۔ کیونکہ
آژ میر تکلیف میں ہیں۔۔۔ میں اُنہیں ایسے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔
سویرا گالوں پر بہہ آئے آنسو صاف کرتی زوہان کی جانب دیکھتے بولی
تھی۔۔۔
اوہ۔۔۔ اچھا۔۔؟؟؟؟ لگتا ہے باہر رہ کر تمہارا سینس آف ہیومر کافی اچھا”
ہو گیا ہے۔۔۔ تم وہی لڑکی ہو ناجو دو سال پہلے آژ میر میر ان کی پیٹھ میں خنجر
کھونپ کر گئی تھی۔۔۔۔
زوہان نے اس پر گہر اطنز کرتے اس کا مذاق اُڑایا تھا۔۔۔
آپ ایسے کیسے سارا الزام مجھ پر ڈال سکتے ہیں؟ آپ نے وہ سب سے
” مجھ سے۔۔۔۔
سویر از وہان کے اِس طرح پینترا بدلنے پر افسوس اور دکھ بھری نظروں سے
دیکھتے بولی تھی۔۔۔
میں تو سر عام بولتا ہوں۔۔۔ بھائی نہیں دشمن ہوں اُس کا۔۔۔۔ اُسے بر باد کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاؤں گا۔۔۔۔ مگر تم۔۔۔ تم پر تو آژ میر کے اتنے احسان تھے نا۔۔۔۔اُس کے باوجو د میرے ایک بار کہنے آثر میر کو دھوکا
دے دیا۔۔۔۔ اور اب جا کر احساس ہو رہا ہے تمہیں کہ محبت کرتی تھی تم اُس سے۔۔۔۔ واو امیز نگ۔۔۔۔ عجیب ہو تم لڑکیاں بھی۔۔۔۔ تمہیں پیسہ بھی چاہیے اور باقی سب بھی۔۔۔۔
زوبان تفصیل سے اُس کی بات کا جواب دیتا اسے آئینہ دکھا گیا تھا۔۔۔۔ اِس کا مطلب وہ لڑکی جو ابھی آژمیر کے ساتھ اتنا بڑاد ھو کا کر کے گئی ہے “
” وہ بھی آپ نے بھیجی تھی۔۔۔۔؟؟
سویرا نے شاک کی کیفیت میں زوبان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ کون سی لڑکی ؟؟؟”
زوہان اُس کی بات کو سیر یسں لیے بغیر اُسی سے سوال کر گیا تھا۔۔۔ دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں مسٹر ملک زوہان میر ان۔۔۔۔اتنے ” بے رحم مت بنوں کے بعد میں آپ کو ہی اُس سب کا بھگتان بھگتنا پڑے۔۔۔ جو کچھ آپ آژ میر کے ساتھ کر رہے ہیں۔۔ جو پیٹھ پیچھے گندی گیمز کھیل رہے ہیں وہ بہت غلط ہے۔۔۔۔۔
میں نے تو صرف دھوکا دیا تھا مگر اس بار آژ میر کا دل ٹوٹا ہے۔۔۔۔ اُن کے دل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔۔۔۔ ایک بار خود کو آژ میر کی جگہ پر رکھ کر سوچیں۔۔۔ کہ اگر اسی طرح ایک دن زنیشہ آپ کو چھوڑ کر چلی گئی تو کیسا فیل کریں گے آپ۔۔۔۔ پھر آپ کو سمجھ آئے گا کہ آپ دشمنی میں کس حد
” تک گر چکے ہیں۔۔۔۔
سویرا کو زوہان کا یہ پر سکون اور لاپر واہ اند از آگ لگا گیا تھا۔۔۔۔ جو ہر بار آژمیر کو تکلیف دینے کے بعد ایسے ہی خوش رہتا تھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کی زوہان اس کی اتنی بکو اس کے جواب میں کچھ کہتا سو پر اوہاں سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔۔
زوبان کتنے ہی لمحے وہاں کھڑ اکسی غیر مری نقطے کو گھور تارہا تھا۔۔۔ زنیشہ کے دور جانے والی بات تیر بن کر اُس کے دل میں چبھی تھی۔۔۔ اگلے ہی لمحے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اُسی خاموشی سے وہاں سے نکل گیا
تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
اُن کی گاڑی مظفر آباد کے گاؤں نور پورا میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ جہاں ہر طرف دور دور تک پھیلے سبزے کو دیکھ دونوں کا موڈ کچھ حد تک فریش ہوا
پہاڑوں کے بیچ گھرا یہ گاؤں حُسن اور دلکشی میں اپنی مثال ایک تھا۔۔۔ “آپی کیا ہم یہاں رہیں گے ؟”
ماورا کو یہ جگہ بہت پسند آئی تھی۔۔۔۔ اپنے اندر کی اُداسی اور درد پر قابو پاتے وہ ہشاش بشاش لہجے میں حائفہ سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ حائفہ کے سامنے اپنی تکلیف ظاہر کر کے اُسے مزید دکھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ آج تک حائفہ نے اس کے لیے بہت کچھ کیا تھا اب اس کی باری تھی۔۔۔۔ “ہاں تمہیں اچھی لگی یہ جگہ ؟؟؟”
حاعفہ نے رکت سے مسکراتے چہرا موڑ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔
ہاں بہت زیادہ۔۔۔۔ نگنیہ بائی نے ہمیں یہاں بھیج کر زندگی میں پہلی بار
” کوئی تو اچھا کام کیا۔۔۔
ماور اپہاڑوں کی بلندیوں پر نظریں نکائے بولی۔۔۔۔
“ہاں اُنہوں نے میری بہت مدد کی ہے۔۔۔۔”
حاعفہ نے دل سے اقرار کیا تھا۔۔۔ اس بات سے انجان کے یہاں بھی
نگنیہ اس کی قیمت وصول چکی ہیں۔۔۔ یہاں سے ایک گھنٹے کے وقفے
پر ایک میڈیکل کالج ہے۔۔۔۔
تمہارے کالج والوں سے سارے معاملات کلیئر ہو چکے ہیں۔۔۔ اب باقی
جتنا ٹائم رہ گیا ہے۔۔۔ تم یہیں اپنی ڈگری کمپلیٹ کرو گی ۔۔۔۔ حائفہ پہلے سے ہی ماورا کے حوالے سے تمام معاملات کلیئر کر چکی تھی۔۔۔۔ کچھ ہی لمحوں بعد اُن کی گاڑی ایک انتہائی خوبصورت بنگلے کے بڑے سے سفید گیٹ کے آگے جاکرر کی تھی۔۔۔۔
گیٹ کی دائیں جانب سفید اور سیاہ رنگ کی تختی موجود تھی۔۔۔۔ جس پر لکھا نام حائفہ نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔ اگر دیکھ پاتی تو کبھی اس گھر میں داخل
نہ ہوتی۔۔۔۔
سفید تختی پر سیاہ لفظوں میں کندہ آژ میر آشیانہ پوری آب و تاب سے جگمگا رہا
حائفہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس شخص سے فرار ہو کر وہ اتنے دور آئی ہے۔۔۔۔ اس وقت اُسی کے گھر میں پناہ گزیں ہے
گاڑی سے اُترتے وہ دونوں سے بھی اندر داخل ہوئی تھیں۔۔۔ وہاں پہلے سے
ہی ملازمین موجود تھے۔۔۔ اور اُن کی آمد کے منتظر
دو خواتین اندر جبکہ دو گارڈز باہر موجود
تھے۔
حائفہ کو نگینہ بائی نے بتایا تھا کہ اُنہوں نے اُن دونوں کے لیے الگ سے ایک گھر ار پینج کر دیا ہے۔۔۔ جہاں انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں
ہو گی۔۔۔۔
مگر وہ گھر اتنا شاندار اور پر آسائش ہو گا حاعفہ کو قطعا اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔اور
نہ ہی نگینہ بائی کو ۔
بہت خوبصورت گاؤں ہے یہ۔۔۔۔۔ آپ شروع سے یہیں رہتی”
” ہیں۔۔
ماور اسامنے ٹیبل پر چائے رکھتی ملازمہ سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔ شکریہ بی بی جی۔۔۔۔ ہم تو یہیں کی پیدوار ہیں بی بی جی۔۔۔۔ اور ساری” زندگی اپنے مالکوں کی خدمت میں وقف کر نا ہی ہمار اکام ہے جی۔۔۔۔۔
ملازمہ بھی کافی باتوں کی شوقین معلوم ہو رہی تھی۔۔۔
حاعفہ کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔۔ اس وقت چائے اُسے غنیمت لگی تھی۔۔۔ وہ تنگ ہو نٹوں سے لگائے خاموشی سے اُن کی باتیں سن رہی
تھی۔۔۔۔
“كون مالك…؟؟؟”
ماورا کو شروع سے ایساوڈیروں ٹائپ سسٹم دیکھنے کا بہت شوق رہا تھا۔۔۔۔
جی ہمارے سائیں۔۔۔ وہی۔۔۔ جن کا یہ گھر ہے۔۔۔ بلکہ یہ پورا گاؤںانہیں کی جاگیر ہی تو ہے۔۔۔۔ یہاں پاس ہی اُن کی بہت بڑی حویلی ہے۔۔۔۔ بہت پیاری حویلی ہے جی اُن کی۔۔۔ لوگ ترستے ہیں اُن کی
” حویلی کو اندر سے دیکھنے کے لیے۔۔۔
ملازمہ پورے جوش و خروش سے اپنے مالکوں کی تعریف بیان کر رہی
تھی۔۔۔
اوہ پھر تو ہم بھی دیکھنا چاہیں گی۔۔۔ ایسا کیا ہے اس حویلی”
” میں۔
ملازمہ کی باتیں سن ماورا کا اشتیاق بڑھا تھا۔۔۔
ماورا کے چہرے پر کھلی مسکراہٹ دیکھ حائفہ کے دل کا بوجھ تھوڑا کم ہوا
تھا۔۔۔ وہ بھی ہولے سے مسکرادی تھی۔۔۔
جی بی بی جی۔۔۔ وہ لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔۔۔ آپ کی آمد کا اگر حویلی” کی خواتین کو پتا چلا تو وہ آپ کو ضرور دعوت دیں گی۔۔۔ بڑی بی بی جی بہت
” اچھی ہیں۔۔۔۔
ماور انے ایسے ملازمین پہلی بار دیکھے تھے ۔۔۔ جو اپنے مالکان سے اس حد تک محبت کرتے تھے۔۔۔ اب تو دودان حویلی والوں سے لازمی ملنا چاہتی
@@@@@@@@
سویرا شیخ آژمیر کی سگی خالہ کی بیٹی تھی۔۔۔ وہ آژمیر کی ایج فیلو تھی اور بچپن سے اُن دونوں کی بہت دوستی رہی تھی۔۔۔ آژمیر شروع سے ہی بہت ہی کیئر نگ اور اپنے سے منسلک رشتوں کو اہمیت دیتا تھا۔۔۔۔ وہ ابھی ٹینٹھ سٹینڈرڈ میں تھے جب ایک پلین کریش میں سویرا کے پیر نٹس کی
ڈیتھ ہو گئی تھی۔۔۔
اُس کے بعد سے آژمیر نے ایک کزن اور دوست ہونے کے ناطے اُس کا
بہت خیال رکھا تھا۔۔۔ وہ اُن کے گھر میں انہیں کے ساتھ رہنے لگی
تھی۔۔۔
آژمیر نے ہر جگہ ، ہر معاملے میں سویرا کو فل سپورٹ کیا تھا۔۔۔
سویر اکب آژمیر سے محبت کرنے لگی تھی اسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔۔۔
مگر آژمیر نے اُسے ہمیشہ ایک دوست اور بہن ہی مانا تھا۔۔۔۔ آژمیر کے دل میں اُس کو لے کر ایسا کوئی خیال نہیں رہا تھا کبھی کبھی۔۔۔۔ اور نہ ہی سویرا کی اپنے متعلق فیلنگز سمجھ پایا تھا۔۔۔
وہ اپنی تعلیم کے آخری مراحل میں تھے جب سویرانے دل کے ہاتھوں مجبور اپنی محبت کا اظہار آژمیر کے آگے کر دیا تھا۔۔۔
جس پر آژمیر نے نہ صرف اُسے صاف لفظوں میں انکار کیا تھا۔۔۔ بلکہ اُس کی دن بدن قریب آنے کی کوشش کرنے والی عجیب و غریب حرکتوں پر
اُسے بُری طرح جھڑ کا بھی تھا۔۔۔۔
آزمیر کو یہ عشق و محبت ہمیشہ سے دنیا کے سب سے فضول کام لگتے تھے۔ وہ ایسی چیزوں سے دور ہی رہنا چاہتا تھا۔۔۔ جو اسے مینٹلی و یک کر دیں۔۔۔ سویرا کی فیلنگز جاننے کے بعد آژ میر اس سے دور ہو گیا تھا۔۔۔ سویر اجو ہر وقت آزمیر کے ساتھ رہنے کی عادی تھی۔۔۔ اُس کا اگنور کرنا بر داشت
نہیں سریا ۔۔۔ اور اندر ہی اندر آہستہ آہستہ اُس کے خلاف ہونے
لگی تھی۔۔۔۔
جس کا زوہان نے بھر پور فائدہ اُٹھایا تھا۔۔۔ زوہان ہمیشہ سے آژ میر کو نیچا دکھانے اور اُس سے بدلہ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ اُس نے آہستہ آہستہ سویرا کی برین واشنگ کر کے اُس سے آژ میر کے بالکل خلاف کر دیا تھا۔۔۔
سویرا آژ میر کے ساتھ اس کے آفس میں کام کرتی تھی۔۔۔ اور آژ میر نے بھی اُس پر ٹرسٹ کر کے اپنی تمام امپورٹنٹ فائلز اسی کے حوالے کر رکھی
تھیں۔۔۔۔ جب اِسی طرح کے ایک انٹر نیشنل پراجیکٹ کی میٹنگ کے دوران جہاں آژ میر کی ٹیم نے اپنے کام کی ڈاکو منٹری دیکھائی تھی۔۔۔۔ سویرا نے انتہائی چالا کی سے سی ڈی بدلتے بزنس سوسائٹی کے تمام معزز لوگوں کے سامنے خاص طور پر ایڈٹ کروائی اپنی اور آژ میر کی انتہائی گھٹیا
ویڈیو آن کردی تھی۔۔۔
جو دیکھ سب کو گہر ا جھٹکالگا تھا۔۔۔۔
آژ میر میر ان جو اپنے حلقے کے تمام لوگوں کے لیے انتہائی مقابلے عزت اور معزز انسان تھا۔۔۔ آژ میر کے کہنے سے پہلے ہی بہت سے لوگ خود ہی اس ویڈیو کے فیک ہونے کا کہہ اُٹھے تھے۔۔۔
مگر وہیں مخالفین نے اس بات کو بہت بُری طرح اُچھالا تھا۔۔۔۔ نہ صرف وہ پراجیکٹ آژ میر کے ہاتھ سے نکلا تھا بلکہ اگلے چھ مہینوں تک اُسے بہت
ٹف ٹائم دیکھناپڑا تھا۔۔۔
میران پیلس کے ہر فرد نے سویرا کی اس گھٹیا حرکت پر اُسے بھر پور لعنت ملامت کی تھی۔۔۔ جس پر سویرا کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔۔۔ اُس نے آژمیر سے معافی مانگنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ مگر تب سے لے کر اب تک آژمیر اس جیسی لڑکی کی شکل دیکھنے کاروادار نہیں تھا۔۔۔ جس نے اسے بد نام کرنے کے لیے خود کو اس قدر نیچے گرادیا
تھا۔
سویرا نے سب کو بتادیا تھا کہ اسے ایسا کرنے کے لیے زوہان نے کہا تھا۔۔۔۔ اور زوہان نے سب کے سامنے اس بات کا اقرار بھی کیا تھا کہ و
آژمیر سے بدلہ لینے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔
آژمیر کو اُس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔۔۔ مگر جس لڑکی کا اُس نے شروع سے ساتھ دیا تھا۔۔۔ اُسے اِس مقام تک پہنچایا تھا اسی نے اُس کی پیٹھ میں مخنجر گھونپ دیا تھا۔۔۔ اس واقع نے آژمیر کا لوگوں پر سے اعتبار اٹھا دیا
تھا۔۔۔
مگر اب بہت عرصے بعد اُس نے دل سے بغاوت کر کے ایک لڑکی پر نہ صرف پورا بھروسہ کیا تھا بلکہ اپنا دل بھی اس کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔۔۔ جسے وہ لڑکی اپنے پیروں تلے روند تے جاچکی تھی۔۔۔ آج تک آژمیر میر ان کی زندگی میں بہت طوفان آئے تھے۔۔۔ کبھی کوئی ۔۔ اُسے اس کی جگہ سے بلا بھی نہیں یا یا
مگر حاعفہ نور نے اُسے ایسی
گہری چوٹ دی تھی۔ جس کا بھر پانا اب اس کی زندگی بھر کے لیے ناممکن
تھا۔۔۔۔
اُس کے خلاف سازشیں کر کے کے اُسے کمزور کرنے والے اس کے دشمن
پہلی بار کامیاب ہوئے تھے۔۔۔
سویر امیران پیلس میں رہ کر سب کی بے رخی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔اس لیے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امریکہ چلی گئی تھی۔۔۔
لیکن یہاں بھی اُس نے کچھ ایسے لوگ چھوڑ رکھے تھے جو اُسے آژمیر کی پل پل کی خبر دے رہے تھے ۔۔۔۔ آژمیر کی زندگی میں کسی لڑکی کے آنے کا سن کر اُسے بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔۔۔
مگر اس لڑکی کے آژمیر کو دیئے دھوکے کی خبر سویرا کو ہلا کر رکھ گئی تھی۔۔۔ جسے برداشت نہ کر پاتے وہ پاکستان واپس لوٹ آئی تھی۔۔۔
آژمیر میر ان کی خاطر۔۔۔
اور اب وہ ہر حال میں آژمیر سے معافی مانگ کر اُسے منانے کا ارادہ رکھتی
تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
زنیشہ باہر لان میں جھولے پر آنکھیں موندے بیٹھی مسکرار ہی تھی۔۔۔۔ زوہان کے کیے جانے والے اظہار نے اُسے فرش سے عرش پر پہنچادیا
تھا۔۔۔۔ وہ اس وقت خود کو دنیا کی سب سے زیادہ خوش قسمت لڑکی تصور
کر رہی تھی۔۔۔۔
اب اُسے پورا یقین تھا کہ وہ آژ میر اور زوہان کہ بیچ دشمنی کی وجہ جان کر اُنہیں ایک ضرور کرے گی۔۔۔۔ وہ دونوں ہی اُس سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔۔۔ وہ اپنی زندگی کے ان دوسب سے اہم لوگوں کو ایک ساتھ دیکھنا
چاہتی تھی۔۔۔
زوہان کی سوچوں میں کھوئے اُس کے چہرے کی دلکش مسکراہٹ مزید بڑھ
گئی تھی۔۔۔
چپکے سے اُس کے قریب آتی فریحہ اور صدف نے اُس کی مسکراہٹ کو
ذو معنی نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔
” بھابھی۔۔۔۔۔۔”
صدف نے زنیشہ کے زرا سا قریب ہوتے فریحہ کو مخاطب کر کے اپنا گلا
کھنکھارا تھا۔۔۔۔
زنیشہ ہڑ بڑا کر سیدھی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور اُن دونوں کے چہروں پر سجی ز و معنی مسکراہٹ دیکھ جھینپ گئی تھی۔۔۔
بھا بھی اِن محترمہ کی فکر میں، میں نے ان کے اُن مسٹر ہٹلر کی ڈانٹ ” کھائی۔۔۔ مجھے لگا یہ میری بچاری معصوم سی کزن کہیں اپنے ہٹلر ہز بینڈ کو اچانک سامنے دیکھ بے ہوش ہی نہ ہو جائے۔۔۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور لگ رہا ہے۔۔۔ لگتا ہے ملک زوہان میر ان کا اپنی بیوی کے سامنے آتے
” ساری ہٹلر گری نکل گئی۔۔۔۔
وہ دونوں اُس کی شر میلی صورت دیکھ ہنستے ہوئے بولیں۔۔۔ ” تم چپ کرو۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔”
زنیشہ زوہان کی باتیں اور حرکتیں یاد کرتی شرم سے دوہری ہوئی تھی۔۔۔
“. اچھا تو مجھے بتادو۔۔۔ کیسا ہے پھر ؟”
فریحہ بھی فل مستی میں تھی آج ۔۔۔۔
بھا بھی آپ بھی۔۔۔۔ ؟؟ مجھے بات ہی نہیں کرنی آپ دونوں “
ز نیشہ اُن دونوں کے ٹانگ کھینچنے پر جلدی سے وہاں سے کھسک گئی
تھی۔۔۔۔۔
اُس کا رخ شمسہ بیگم کے کمرے کی جانب تھا۔۔۔۔
وہ ان سے آژمیر کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ڈرائنگ روم کے پاس سے گزرتے اس کے قدموں کو بریک لگی تھی۔۔۔
اندر آژمیر کا خاص آدمی فیصل قاسم صاحب اور شمسہ بیگم کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔ نجانے وہ کیا بتارہا تھا جسے سن کر شمسہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو
تھے۔۔۔۔
زنیشہ کا دل پریشان ہوا تھا۔۔۔
وہ ڈرائنگ روم کی اُس طرف بنی کھڑکی کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ جہاں سے اندر کی ساری باتیں واضح طور پر سنائی دیتی تھیں۔۔۔
مگر وہاں آتے جو باتیں زنیشہ کے کانوں میں پڑی تھیں۔۔۔ اُس کا دل ہلا کر رکھ گئی تھیں۔۔۔ ہمیشہ اُن سب کی خوشیوں کا خیال رکھنے والا اُس کا جان
سے پیارا بھائی، جو زوہان سے اتنی دشمنی ہونے کے باوجود صرف اُس کی خوشی کی خاطر جھک گیا تھا وہ اس وقت اتنی تکلیف میں تھا اور انہیں پتا ہی
نہیں تھا۔۔۔۔
فیصل یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر آژ میر کو پتا چل گیا کہ اُس نے اُس کی فیملی کو یہ ساری باتیں بتادی ہیں۔۔۔ آژ میرا سے چھوڑیں گا نہیں۔۔۔۔ اس کے باوجود وہ یہاں آن پہنچا تھا۔۔۔۔ وہ آژ میر کو اتنی اذیت اور خود کو ٹارچر کرتا
نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔
اُس نے حائفہ کے طوائف والے حصے کو چھوڑ کر باقی تمام حقیقت قاسم صاحب کے سامنے بھی رکھ دی تھی۔۔۔۔۔
زنیشہ نے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی سکی کو روکا تھا۔۔۔ اُس کا پورا چہرا آنسوؤں
سے تر ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے ،اس سب کے پیچھے کون ہو سکتا ہے۔۔؟؟
قاسم صاحب نے فیصل کی رائے جاننی چاہی تھی۔۔ کیونکہ وہ ہر وقت
آژ میر کے ساتھ رہتا تھا۔۔۔
سر میرے خیال میں ملک زوہان۔۔۔سویر اشیخ والا معاملہ ہمارے سامنے ہی ہے۔۔۔ اُن کے علاوہ بھلا اور کون ہے آژ میر کادشمن۔۔۔۔ فیصل نے اپنی سوچ کے مطابق رائے دی تھی۔۔۔ جسے سنتے زنیشہ کو گہرا صدمہ پہنچا تھا۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ زوہان اس حد تک گر سکتا
ہے۔۔۔۔
زوبان کی آژ میر سے نفرت بالکل بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی۔۔۔۔ زنیشہ نے ملازمہ کو اشارہ کر کے اپنی شال لانے کو کہا تھا۔۔۔۔
” تمہارے سر اس وقت کہاں ہیں۔۔۔؟؟”
گاڑی میں آکر بیٹھتے زنیشہ نے حاکم کو کال ملائی تھی۔۔۔ وہ زوہان سے فیس ٹو فیس بات کرنا چاہتی تھی۔۔۔ جس کی گھٹیا سازشوں کی وجہ سے اس کا
بھائی اتنی تکلیف میں تھا۔۔۔۔
وہ آج صبح ہی گاؤں پہنچے ہیں۔۔۔اس وقت اپنے سفید بنگلے پر موجود “
ہیں۔۔۔
حاکم کو سمجھ نہیں آئی تھی وہ بھلا یہ بات کیوں پوچھ رہی تھی۔۔۔ ز نیشہ نے مزید کوئی بات کیے بنافون رکھ دیا تھا۔۔۔ اور ڈرائیور کو وہیں
پورے راستے زمیشہ جلتی بھنتی آئی تھی۔۔۔ اسے رو رو کر اس لڑکی پر غصہ آرہا تھا۔۔۔ جس نے آژمیر میران جیسے انسان کو دھوکا دیا تھا۔۔ جس انسان
کے ساتھ کے لیے لڑکیاں مری تھیں۔ وہ اس کو چھوڑ کر چلی
تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
منہاج درانی ماورا کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو چکا تھا۔۔۔ مگر وہ اُسے کہیں
نہیں ملی تھی۔۔۔
اُس رات کی ملاقات کے بعد وہ خوشی خوشی ماورا کو اپنے بابا سے ملوانے کے لیے لینے آیا تھا۔۔۔ مگر ماور اکو وہاں نہ پا کر اُس کے حواس گم ہوئے تھے۔۔۔ اُسے یہی لگا تھا کہ شاید کسی نے ماورا کو کڈنیپ کروایا ہے۔۔۔
ور نہ ماور اخو د یوں بنا بتائے اُسے چھوڑ کر نہ جاتی۔۔۔۔
منہاج نے نجانے کتنی بار اس کا نمبر ٹرائے کیا تھا۔۔۔۔۔ مگر ہر بار دوسری
جانب سے ملنے والا ایک ہی جواب اس کی پریشانی مزید
بڑھا گیا تھا۔۔۔
وہ صبح تک مورا کو پا کر خوش تھا کہ اس کی محبت ، اس کی بیوی اب ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے اس کے گھر میں آجائے گی۔۔۔
منہاج باسل وارڈن پر اچھا خاصہ بھڑک کر اس پر ایف آر کٹوانے کی
دھمکی دے کر نکل ہی رہا تھا۔۔۔ جب اُسی لمحے رات کی ڈیوٹی پر معمور سٹاف میں سے ایک خاتون اندر داخل ہوتی اس کی جانب ایک چھوٹاسا
ریکارڈر بڑھا گئی تھی۔۔۔
منہاج نے نا سمجھی سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی سیکنڈ اس میں سے نکلتی آواز منہاج جو ساکت کر گئی تھی۔۔۔
منہاج درانی تمہیں کیا لگتا ھے صرف تم ہی دھوکا دے سکتے ہو۔۔۔ تم ہی” دلوں سے کھیل کر لطف اندوز ہو نا جانتے ہو کوئی اور نہیں۔۔۔ تمہیں کیا لگا میں اب بھی محبت کرتی ہوں تم سے۔۔۔ تمہارے اتنے بے عزت کرنے کے بعد بھی۔۔۔۔ بھول تھی یہ تمہاری۔۔۔۔ میں نے معاف کر دینے کا
ناٹک کر کے یہ سب پیار محبت کا کھیل کھیلا تا کہ تمہیں بتا سکوں کہ جب و ھو کا اور دھتکار ملتی ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔
میں جارہی ہوا یہ نئی دنیا بسانے۔۔۔ اگر تم
میں تھوڑی سی بھی سیلف ریسپیٹ ہوئی تو مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔ میں نہ تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔اور نہ تمہارے ساتھ
” رہنا۔۔۔۔
ریکارڈنگ ختم ہو چکی تھی۔۔۔ مگر منہاج درانی ابھی تک اپنی جگہ ویسے ہی
ساکت کھڑا تھا۔۔
مادر اجانتی تھی کہ منہاج اُسے ڈھونڈنے کی بھر پور کوشش کرے گا۔۔۔ اس لیے وہاں پہنچ کر اس نے یہ ریکارڈنگ خاص طور پر منہاج کے لیے سینڈ کی تھی۔۔۔ تاکہ اسے سن کر وہ اور اسے نفرت کرنے لگے ۔۔۔۔ اور اُسے ڈھونڈنے کے بجائے اپنے کام پر فوکس کرے۔۔۔۔
مگر ایسا نہیں ہو پایا تھا۔۔۔۔ منہاج ماورا کے بے وفا ہونے پر یقین کرنے
تیار ہی نہیں تھا۔
نہیں جھوٹ ہے یہ سب۔۔۔۔ بالکل جھوٹ۔۔۔۔ ماور امجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
منہاج ماورا کی کہیں جانے والی باتوں پر بھی یقین نہیں کر پارہا تھا۔۔۔ ماورا اس سے بہت محبت کرتی تھی۔۔۔ اُس نے یہ سب کیوں بولا تھا اور وہ کہاں گئی تھی۔۔۔ منہاج کو جلد از جلد اس بات کا پتا لگا نا تھا۔۔۔۔
پچھلے کچھ دنوں سے اپنی فلائٹ کا ہوش بھلائے وہ مسلسل اسی کام میں جٹا ہوا
تھا۔۔۔ مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ پار ہا تھا۔۔۔
جب آخر کار پوری ایک ہفتے کی بھاگ دور کے بعد ناچار اُسے بناماور اسے ملے پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔۔۔ مگر وہ یہاں اپنے آدمیوں کو چھوڑ گیا تھا جو ماورا کی تلاش کے ساتھ ساتھ اس سے رابطے میں بھی تھے
وہاں جا کر بھی منہاج کا سارا دھیان ماورا کی طرف ہی تھا۔۔۔ مگر اندر ہی اندر وہ
ماور اسے ناراض ہونے کے ساتھ ساتھ اُس پر غصہ بھی تھا۔۔۔ کہ اُس نے ایک بار پھر اُس پر اعتبار نہیں کیا تھا۔۔۔ اور بنابتائے اتنی خاموشی
سے اس کی زندگی سے نکل گئی تھی۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
آژمیر نے آج تک ہر ایک کی خوشی کا خیال رکھا تھا۔۔ مگر اُسے اُتنے ہی دکھ ملتے تھے ۔۔۔ کئی آنسو آنکھوں سے ٹوٹ کر اس کی گالوں پر پھسل گئے
اُسے اب ہر حال میں زوہان اور آژمیر کے بیچ نفرت کاریزن جاننا تھا۔۔۔
آژمیر میران جس کے لیے اپنے رشتے ہر شے سے بڑھ کر تھے وہ بھلا اپنے سگے بھائی سے اتنا دور کیوں تھا۔۔ ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ اُس سے اتنی نفرت کرتا
تھا۔۔
گاڑی جھٹکے سے زوہان کے سفید کاٹیج کے سامنے آن کی تھی۔۔ سرسبز پہاڑیوں میں گھرا یہ کا بیج زنیشہ کو بے حد پسند تھا۔۔ وہ کئی بار اسے باہر سے دیکھ چکی تھی۔۔۔ اندر سے دیکھنے کا اتفاق آج ہونے والا تھا۔۔۔ مگر اس
وقت وہ الگ ہی موڈ میں تھی۔۔۔
زنیشہ کو وہاں دیکھ حاکم کے اشارے پر گارڈنے اُس کے لیے دروازہ کھول دیا
تھا۔۔۔
بی بی جی آپ یہاں ۔۔۔ سب ٹھیک ؟؟؟؟ ۔۔۔
حاکم کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے ۔۔۔ جب زنیشہ کے غصے بھری نظروں سے اُسے گھورنے پر وہ ہاتھ باندھے سر جھکا گیا تھا۔۔۔ ملک زوہان کی بیوی اُس کی ٹکر کی نہ ہو یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔۔۔ زنیشہ خاموشی سے کاٹیج کے اندر داخل ہو گئی تھی۔۔۔ جہاں اُسے ملازمہ ڈرائنگ روم کی ڈسٹنگ کرتی نظر آئی تھی۔۔۔
“تمہارے صاحب کہاں ہیں ؟؟”
زنیشہ نے سوالیہ نظروں سے ملازمہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ بی بی جی صاحب تو اوپر اپنے کمرے میں سورہے ہیں۔۔۔ اور کچھ گھنٹے پہلے ہی سوئے ہیں۔۔۔ اتنی جلدی تو نہیں اُٹھیں گے۔۔
ملازمہ اپنے صاحب کی روٹین سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔ جس رات
سے زیادہ صبح سونا ہوتا تھا۔۔۔۔
“روم کدھر ہے اُن کا ؟؟؟”
زنیشہ شام تک یہاں بیٹھ کر اُس کے اُٹھنے کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ ملازمہ کے اشارے پر وہ سیڑھیاں چڑھتی زوہان کے روم کی جانب بڑھ گئی
تھی۔۔۔
کمرے میں قدم رکھتے لمحہ بھر کو اس کے قدم لڑکھڑائے تھے۔۔۔ پورا کمرہ اند میرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ ایک طرف جلتے آتش دان کی مدھم روشنی پورے کمرے کو خواب ناک ماحول میں تبدیل کر رہی تھی۔۔۔ وہیں کھڑے اُس کی نظریں بیڈ کی جانب اٹھی تھیں۔۔۔ جہاں وہ ستمگر پوری
طرح کمبل تا نے گہری نیند سو یا ہوا تھا۔۔۔
اتنے اندھیرے میں اُس کے قریب جانے کی ہمت اور حوصلہ نہیں تھا اُس میں۔۔۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہاں آکر اُس نے غلط کیا تھا یا ٹھیک۔ اُسے نے پوری جرات کا مظاہرہ کرتے لائٹ آن کر دی تھی۔۔۔ وہ ابھی تک دروازے کو پکڑ کر کھڑی تھی۔۔۔ دروازے کو کھلار کھتے جیسے ہی چند قدم آگے بڑھی دروازہ آٹو میٹک ہونے کی وجہ سے فور بند ہوا تھا۔۔۔
زنیشہ کی سانسیں تیز ہوئی تھیں۔۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی زوہان کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ زوہان اوندھے میں لیٹا تکیے کا اپنے نیچے دبوچے ہوئے تھا۔۔۔ وہ اتنی ٹھنڈ میں بھی شرٹ لیس سو یا ہوا تھا۔۔۔ کمبل سے جھانکتے اُس کے کسرتی بازو د یکھ زنیشہ
نے فور آنگاہیں پھیری تھیں۔۔۔۔
” مجھے آپ سے بات کرنی ہے “
ز نیشہ نے ایک طرف کھڑے ہوتے زوہان کو اونچی آواز میں پکارا تھا۔۔۔ مگر وہ ایسے ہی آنکھیں موندے پڑار ہا تھا۔۔۔ زوہان کی بند آنکھوں پر سایہ فگن پلکیں بہت خوبصورت تھیں۔۔۔ زنیشہ اکثر دل میں اس بات کا اقرار کر چکی تھی۔۔۔ اُسے زوبان کی پلکیں بہت پسند تھیں۔۔۔ مگر یہ بات زوہان کے سامنے تو کبھی نہیں کہنے والی تھی۔۔۔
ز نیشہ دور سے کھڑے ہو کر اُسے کئی بار پکار چکی تھی۔۔۔ مگر زوہان ویسا ہی
بے خبر سوتارہا تھا۔۔۔
زنیشہ اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ تپ چکی تھی۔۔۔اُس کا دل چاہا تھا۔۔ بیڈ
سائیڈ پر رکھا پانی کا جگ اس بندے پر انڈیل دے۔۔۔۔
مگر ایسا وہ صرف سوچ سکتی تھی۔۔۔ کرنے کی ہمت نہیں تھی اُس میں۔۔۔ اُس نے کافی فاصلہ رکھتے زرا سا آگے کو جھکتے زوہان کا کندھا ہلانے کے ساتھ
ساتھ اسے آواز دی تھی۔۔۔۔
یہی وہ لمحہ تھا جب زوہان نے اُس کی کلائی دبوچتے اسے ایک ہی جست میں
پوری طرح اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ تھی ۔۔۔ اُس کے منہ سے بے ساختہ چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔ وہ زوہان کے اس جارحانہ عمل کے لیے ایک
پرسنٹ بھی تیار نہیں تھی۔۔۔
ز نیشہ سیدھی زوہان کے سینے پر جا گری تھی۔۔۔
زوہان نے بنا کچھ بولے اُسے پوری طرح اپنے شکنجے میں دبوچتے اُسے کمبل کے اندر لیا تھا۔۔۔ زنیشہ کو بچوں کی طرح اپنی گود میں لے کر زوہان نے اپنے ساتھ لپٹا تے بنا کچھ بولے آنکھیں واپس موند لی تھیں۔۔۔
بیڈ کا منظر بدل چکا تھا جہاں کچھ دیر پہلے تکیہ تھا وہاں پے اب زنیشہ تھی۔۔۔
زوہان کے بے حد قریب۔۔۔
زنیشہ کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہوا تھا۔۔۔
زوہان نے یہ سب اتنا اچانک کیا تھا کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔ جب سنبھلی تب زوہان اُسے پوری طرح اپنی گرفت میں قید کر چکا
تھا۔۔۔
پلیز چھوڑیں مجھے۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟
زوہان کا ایک ہاتھ زنیشہ کی گردن اور کندھے کے گرد لپٹا ہوا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ زنیشہ کی کمر کے گرد حمائل تھا۔۔۔ زنیشہ ایک انچ بھی بل نہیں پارہی
تھی۔۔۔
اُوپر سے چہرے پر پڑتیں زوہان کی تپیش زدہ گرم سانسیں رہی سہی کسر بھی پوری کر رہی تھیں۔۔۔ اس کی شال سر سے لڑھک
کر شانوں پر گر چکی تھی۔۔۔
میں کچھ نہیں کر رہا۔۔۔ صرف سورہا تھا تم نے مجھے ڈسٹرب کیااب جب تک میں نیند پوری نہیں کر لیتا تم اس طرح یہیں رہو گی زوہان بات ختم کرتا چہرا اس کی گردن میں چھپا گیا تھا۔۔۔۔ ز نیشہ کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ زوہان کی گرم سانسیں اسے جھلسا رہی تھیں۔۔ اس کی دھڑکنیں بے قابو ہوئی تھیں۔۔۔
“ز وہان پلیز ۔۔۔۔
زنیشہ نے کا نیتی آواز میں اُسے پکارا تھا۔۔۔ اُس کا پورا چہرا شرم اور حیا سے
لال ٹماٹر ہو چکا تھا۔۔۔
میری بنا پر میشن نہ کوئی میرے گھر میں گھس سکتا ہے، نہ میرے کمرے” میں اور نہ ہی میرے دل میں۔۔۔ تم نے یہ ساری گستاخیاں کی ہیں جس کی اتنی سی سزا تو بنتی ہے۔۔۔ اور میری نیند خراب کرنے والے کے لیے تو کوئی
” معافی ہے ہی نہیں۔۔۔
ز وہان بند آنکھوں سے بولتا ز نیشہ کے لال اناڑی گال پر اپنا گہر اشدت بھرا
لمس چھوڑتا اُ سے وارن کر گیا تھا۔۔۔۔
ز نیشہ جو زوہان کی زراسی قربت برداشت نہیں کر پاتی تھی۔۔۔اس وقت زوہان کی بولتی قربت پر اُس کی جان آدھی ہوئی تھی۔۔۔ زوہان کی گستاخیوں پر زنیشہ مزید کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔۔ اُس کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا۔۔۔
کچھ لمحے بعد زنیشہ کو زوبان کی گہری ہوتی سانسیں محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ اُس نے چہرا موڑ کر زوہان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو بڑے سکون سے اُس
کی گردن میں منہ چھپائے سو رہا تھا۔۔۔
زنیشہ اُسے کتنے ہی لمحے تکے گئی تھی۔۔۔ اُس کی بانہوں میں آتے وہ یہ تو بھول ہی گئی تھی کہ وہ یہاں کس قدر غصے میں اُس سے لڑنے آئی ہے۔۔۔ اُس کا پور اوجود زوہان کی گرفت میں ہولے ہوئے لرز رہا تھا۔۔۔ جسے محسوس کرتے زوہان کے ہونٹ مسکرائے تھے۔
اُسے مسکر استاد یکھ زنیشہ کو چالیس والٹ کا جھٹکالگا تھا۔۔۔ وہ سو نہیں رہا تھا اور وہ کب سے اُسے گھوری جارہی تھی۔۔۔۔اس نے فوراً نظروں کا زاویہ بدلہ
تھا۔۔۔
“دیکھ سکتی ہو۔۔۔ اتنا حق دیتا ہو تمہیں۔۔۔۔”
آنکھیں موندے جیسے اُس پر احسانِ عظیم سیاسی مقصد
پلیز چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ مجھے آپ کیوں اور کس مقصد کے لیے کھلونا بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ میں آج اچھے سے سمجھ گئی ہوں۔۔۔ زنیشہ اس کی ڈھیلی پڑتی گرفت پر اس کا بازو اپنی کمر کے گرد سے ہٹاتے
بولی۔۔۔
جس پر جھٹکا لگنے کی باری اب زوبان کی تھی۔ ” یہ کیا بکواس ہے ؟؟؟”
زوہان نے نیند کے خمار سے سرخ پڑتی آنکھوں سے اُسے گھور تھا۔۔۔
بکواس نہیں سچ ہے۔۔۔۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا آپ میرے لالہ کو اذیت دینے کے لیے اس حد تک گر جائیں گے کہ عورتوں کو مہرے کی
” طرح استعمال کریں گے آپ۔۔۔۔
زنیشہ اس کی گرفت سے آزاد ہو تی بیڈ سے اتر گئی تھی۔۔۔
تم پاگل ہو گئی ہو۔۔۔۔ کیا بکو اس کیے جارہی ہو ؟؟ کس عورت کا استعمال “
” کیا ہے میں نے۔۔۔
ایک تو اس لڑکی نے اُس کی نیند خراب کر دی تھی۔۔۔ اوپر سے اس کی اوٹ پٹانگ باتیں زوبان کا دماغ تھماگئی تھیں۔۔
@@@@@@@@@
میں دنیا کا سب سے زیادہ بزدل اور ظالم باپ ہوں۔۔۔ جو اس قابل ہی نہیں تھا کہ اُسے اولاد نصیب ہو ۔۔۔۔ اللہ نے مجھے میرے اُسی گناہ کی سزا دی۔۔۔ اور دیکھو ایک بار اولاد جیسی نعمت کو ٹھکرانے کے بعد اُس نے مجھے
دوبارہ اُس شرف سے نہیں نوازا۔۔۔ کیونکہ میں اس قابل ہی نہیں
ہوں۔۔۔
قاسم صاحب جھکے کندھے اور نم آنکھوں سے بولتے اپنے جگری دوست شہاب درانی کے سامنے اپنے اندر کا درد بیان کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔ شہاب درانی آج بہت دنوں کے بعد میران پیلیس آئے تھے۔۔۔ قاسم
صاحب سے ملنے
غلطیاں زندگی میں ہر انسان سے ہوتی ہیں۔۔۔”
تم نے بھی کی۔۔۔ مگر اتنے سالوں سے اُس کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی تو کر رہے ہونا۔۔۔ مجھے یقین ہے ایک دن تم ضرور سر خرو ہو گے۔۔۔۔ بس … حوصلہ رکھو اور ہمت مت ہارو
شہاب درانی اُن کا کندھا تھپتھاتے اُن کی ہمت بڑھاتے ہوئے۔۔۔ مگر میری بیٹیاں مجھ سے بہت نفرت کرتی ہیں۔۔۔۔ حائفہ تو میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔ اگر اسے پتا چل گیا کہ اس وقت وہ اپنے باپ کے
علاقے میں ہیں تو وہ کبھی وہاں لوٹ کر نہیں آئے گی۔۔۔ اتنی نفرت کرتی
” یے وہ مجھ سے۔۔۔
قاسم صاحب یہ الفاظ ادا کرتے رو پڑے تھے
شہاب درانی اور قاسم میر ان کالج لائف سے بہت گہرے دوست تھے۔۔۔ دونوں ہی اچھی فیملیز سے بی لانگ کرتے تھے اور اچھی عادات کے مالک
تھے۔
لیکن ایک دن باقی دوستوں کے ساتھ ہاری شرط نے قاسم میران کی زندگی
میں ایک تاریک پہلو ہمیشہ کے لیے رقم کر دیا تھا۔۔۔
ان کے گروپ میں سب لڑکوں نے ایک دوسرے پر مختلف شرطیں رکھتے
ایک دوسرے کو شطر نج کی گیم میں چیلنج کیا تھا۔۔۔ دودو کی ٹیم میں جو جو بازی ہارتا اسے شرط پوری کرنی پڑتی۔۔۔۔ قاسم میران کی شرافت اور اُس کا لڑکیوں سے لیے دیئے کرنے والا رویہ دیکھتے اس پر قریبی ایک کوٹھے پر جاکر ایک بار طوائفوں کار قص دیکھنے کی شرط رکھی گئی تھی۔۔۔
اُن کے اپنے چند دوستوں کے ساتھ ساتھ باقی بھی بہت سے امیر گھرانوں
کے اوباش سٹوڈنٹس وہاں پائے جاتے تھے۔۔۔۔
شطر نج کی بازی کا پکا کھلاڑی قاسم میران شرط پر کافی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے باوجود حامی بھر گئے تھے۔۔۔ کیونکہ وہ جانتے تھے انہیں شطرنج
میں ہر انا آسان کام نہیں تھا۔۔۔
لیکن اس نا جانے کیا ہوا کہ قاسم میران بد قسمتی سے نہ صرف گیم ہارے
تھے بلکہ انہیں کو ٹھے پر
جانا پڑا تھا۔۔۔ اُنہوں نے ساتھ میں زبر دستی
شہاب درانی کو بھی گھسیٹ لیا تھا۔۔۔۔
وہ بے دلی سے رقص کرتی طوائفوں کو دیکھ رہے تھے جب اُن کی نظر سلمہ بیگم پر پڑی تھی اور پھر جیسے پلٹنا بھول چکی تھی۔۔۔
ایسی نازک اندام حسینہ اُنہوں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔۔۔ اُنہیں محسوس ہوا ہے کہ وہ پہلی نظر کی محبت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔۔۔
مگر پھر اسے وقتی پسندیدگی سمجھ کر وہ ٹال گئے تھے۔۔۔ لیکن اُن کا دل روز سلمہ جو دیکھنے کو چاہتا اور کو ٹھے ہر آکر اُسے باقی مردوں کے سامنے رقص
کرتا دیکھ اُن کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے تھے۔۔۔۔
جب یہ سب نہ برداشت کر پاتے انہوں نے سلمہ کی ماں کو بھاری قیمت کے عوض سلمہ سے نکاح کرنے کی شرط رکھی تھی۔۔۔ ان پیسوں کے بچاریوں
کو اور کیا چاہیئے تھاوہ مان گئے تھے۔۔۔۔
شباب درانی نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر اس وقت محبت کے نشے میں مست وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پائے تھے۔۔۔ آہستہ آہستہ وقت سر کنے لگا تھا۔۔۔ وہ دو بیٹیوں کے باپ بن چکے تھے۔۔۔ انہوں نے اپنے گھر میں اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کے والد صاحب خاندان سے باہر شادی کرنے کے حق میں نہیں تھے۔۔۔ طوائف کا نام سن کر تو انہیں وہیں گاڑھ دیتے۔۔۔۔
share with your friends Facebook
1 Comment
Add a Comment