Haifa and Zanisha Novel Part 18 – Urdu Novels Online | Read Free Romantic Story


Welcome to Part 18 of the trending romantic series Haifa and Zanisha – a name that’s becoming a favorite among Urdu novels online. This chapter dives deeper into their emotional connection, intense moments, and a storyline that captures the heart.

If you’re searching for a romantic Urdu novel that’s powerful yet poetic, this part is your next read. The storytelling in this episode makes it one of the top-read Urdu novels online in 2025.

Urdu Novels Online

Haifa and Zanisha Novel Part 18 – Urdu Novels Online

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 17 – Romance Urdu Novels

اور یہیں پر قاسم میران نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے اپنے ماں باپ کے کہنے پر خالہ زاد حمیر ابیگم سے شادی کر لی تھی۔۔۔ اور سلمہ بیگم اور اپنی دونوں

بیٹیوں کو پوری طرح سے فراموش کر گئے تھے ۔۔۔۔

سلمہ بیگم تو اپنی بیٹیوں کے آنے والے مستقبل کی فکر میں رونے کے سوا کچھ

نہیں کر پائی تھیں۔۔۔

مگر اُن کے پروردگار نے قاسم میر ان کو اُن کا کیا اُن کے منہ کے سامنے

ضرور لایا تھا۔۔۔ شادی کرنے 

کے بعد بھی وہ اور حمیرا بیگم اولاد کی نعمت سے محروم

رہے تھے۔۔۔ انہوں نے کوئی ڈاکٹر حکیم اور پیر فقیر نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔

مگر وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رہے تھے۔۔۔

جب اُنہی دنوں انہیں اپنی غلطی کا ادراک ہوا تھا۔۔۔۔ ہر روز رات کو آتے

بُرے خواب اُنہیں سونے نہیں دیتے تھے۔۔۔

حمیر ابیگم بھی انہیں لے کر بہت پریشان تھیں۔۔۔ جب قاسم میران نے اپنے دل پر پڑے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے ساری سچائی اپنی شریک حیات

کے آگے رکھ دی تھی۔۔۔ جسے سن کر حمیرا بیگم کو گہر ا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ اتنی بڑی سچائی ایک عورت ہونے کے ناطے برداشت کرنا بہت مشکل تھا مگر اپنے شوہر کی تکلیف کو دیکھتے اُنہوں نے انہیں اپنی بیٹیوں سے ملنے اور انہیں یہاں لانے کی اجازت دے دی تھی۔۔۔۔

مگر قاسم میر ان کا اصل امتحان تو تب شروع ہوا تھا۔۔۔

کوٹھے پر جاکر ملنے والے خبر اُن کے دل کا بوجھ مزید بڑھا گئی تھی۔۔۔ سلمہ اُن کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔۔۔ اور اُن کی

بیٹیوں کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔

قاسم میران کی تکلیف مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔

لیکن ہمت نہ ہارتے وہ ہر مہینے وہاں کا چکر لگاتے تھے۔۔۔۔ مگر اتنے سالوں تک اُن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کر پائے تھے۔۔۔۔

جب ایک دن انہیں نگینہ بائی پر شک ہونے لگا تھا۔۔۔۔ بعد میں اُن کا شک

ٹھیک بھی نکلا تھا۔۔۔

انہوں نے بھاری رقم کی آفر کرتے اپنی بیٹیوں کے بارے میں ساری معلومات نگینہ بائی سے نکلواتے اُن کی مدد لیتے ماورا اور حائفہ کو ہمیشہ کے

لیے اُس دلدل سے نکلوادیا تھا۔۔۔۔

حائفہ جو یہ سمجھتی تھی کہ نگینہ بائی کو واقعی اس پر رحم آگیا ہے اور اسی ہمدردی

میں وہ اُن کی مدد کر رہی ہیں ایسا نہیں تھا۔۔۔

شہر بھیجنے کی بجائے گاؤں میں ہی

نے حائفہ اور ماورا کو ہی موجود آژ میر کے دوسرے گھر میں ٹھہرادیا تھا۔۔۔ جو آژ میر نے اپنی

پسندیدہ جگہ پر نہر کے قریب بنوایا تھا۔۔۔

حاعفہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے باپ کے علاقے اور شوہر کے گھر میں انہیں دونوں سے چھپ کر پناہ گزیں تھی۔۔۔۔

 تم نے حویلی میں کسی کو بتا یا اس بارے میں۔۔۔۔۔

شہاب درانی کئی سالوں تک اُن کے واحد ر از دادر ہے تھے ۔۔۔ اور آج تک

کبھی کسی کے سامنے اُن کا رازنہیں کھولا تھا۔۔۔۔

حمیرا کے علاوہ ابھی تک کسی کو نہیں بتایا۔۔۔قاسم میران اپنی آنکھیں پو نچھتے ہوئے۔

میرے خیال میں تمہیں آژمیر کو بھی اس بارے میں بتادینا چاہئے تھا۔۔۔وہ تمہاری مدد ضرور کرے گا۔۔۔

شہاب درانی فیملی فرینڈ ہونے کے ناطے اُن کے خاندان کے ہر بندے سے

واقف تھے۔۔۔۔

ہاں میں اب یہی سوچ رہا ہوں۔۔۔ ویسے بھی وہ دونوں آژ میر کے گھر میں ہی ٹھہری ہوئی ہیں۔۔۔ابھی آژ میر سے بات نہیں کی میں نے۔۔۔ کرنی بہت ضروری ہے۔۔۔۔ وہیں ہے جو خاندان والوں کے سامنے میرے لیے کھڑا ہو سکتا ہے۔۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔

آژ میر کا ذکر کرتے وہ فخریہ لہجے میں بولے تھے۔۔۔اس حقیقت سے

انجان کے وہ صرف اُن کا بیٹا نہیں داماد بھی تھا۔۔۔۔

@@@@@@@

آژمیر کا دماغی سکون تباہ ہو چکا تھا۔۔۔ وہ حائفہ کو کسی صورت اپنے حواسوں سے نہیں اتار پارہا تھا۔۔۔ ہر طرف ہر جگہ اسے وہی نظر آرہی تھی۔۔۔ اُس کے اتنے بھرے دھو کے کے بعد بھی دل اُس سے نفرت نہیں کر پارہا

تھا۔۔۔

اسی بات نے آژمیر کا مزید غصہ دلایا ہوا تھا۔۔۔اُس کے آدمی مسلسل حاعفہ کو ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے۔۔۔ مگر وہ نہیں مل پئی تھی۔۔۔ جس

کے ساتھ ہی آژمیر کی فرسٹریشن مزید بڑھ رہی تھی۔۔۔

وہ جب بھی ایسے خود کو اکیلا محسوس کرتا تھا تو اُس کا ٹھکانہ اُس کا آژمیر آشیانہ ہوتا تھا۔۔۔ جہاں وہ تن تنہا ہر شے کو دماغ سے جھٹک کر سکون محسوس کرتا

تھا۔۔۔۔

اِس لیے آج بھی اُس کا رُخ اُسی گھر کی طرف تھا۔۔۔ آ میر کو وہاں آتا دیکھ ملازموں

کی ہوائیں اُڑی تھیں۔۔۔ کیونکہ اندر موجود دو ہستیوں کا علم نہیں تھا آژمیر کو۔۔۔۔

بلا  اجازت کسی کو اس گھر میں داخل ہونے کی

اجازت نہیں دیتا تھا۔۔۔ اب آژ میر کے ہاتھوں کس کی شامت آنے والی

تھی کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔

ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھتے آڑ میر نے موبائل نکال کر سوئچ آف کرنا چاہا تھا۔۔۔ جب غلطی سے گیلری والے آپشن پر ہاتھ لگنے سے حائفہ کی تصویر

سکرین پر جگمگا اٹھی تھی ۔۔۔۔

یہ اُس دن کی تصویر تھی جب آژمیر کو سیگریٹ پیتے دیکھ حاعفہ نے بُرے بُرے منہ بنائے تھے۔۔۔اور اُس کے بعد کھانس کھانس کر اُس کی بُری

حالت ہوئی تھی۔۔۔

اُس دن کے بعد سے آژ میر نے کبھی حاعفہ کے سامنے سیگریٹ نہیں پیا تھا۔۔۔ ہر شے سے بڑھ کر سیگریٹس کو امپورٹنس دینے والا اس بے وفالڑ کی

کی خاطر اس معاملے میں بھی کمپرومائز کر گیا تھا۔۔۔۔

اُس دن کا واقعی یاد کرتے آرژمیر کے ہونٹوں پر بے ساختہ ایک خوبصورت سی مسکان آن کی تھی۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اس لڑکی کادھو کا یاد کرتے آزمیر اس کی تصویر ڈیلیٹ کر کے فون کو

  آف کر کے بیڈ روم کی

جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔

یہ بہت غلط ہو گیا ہے…. حائفہ بی بی آژ میر سائیں کے کمرے میں ہی

” ہیں۔۔۔۔

ڈرائنگ روم کے دروازے میں کھڑی دونوں ملازمہ آژ میر کو اندر جاتا دیکھ

خوفزدہ ہوئی تھیں۔۔۔

آژ میر روم میں آتے بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ سائیڈ دراز سے سیگریٹ کی ڈبی نکالتے اُس نے لائٹر سے اُسے جلا کر ہو نٹوں میں دبایا تھا۔۔۔ اپنی دھن میں وہ واش روم کااند دسے لاک در وازہ نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔ اپنے اندر کی اذیت کو کم کرنے کے لیے بنابر یک لگائے وہ ایک کے بعد

دوسراسیگریٹ پیئے جار ہا تھا۔۔۔

سائیڈ پر پڑا تکیہ اُٹھانے کے لیے اُس نے ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔ جب تکیے کے اُوپر رکھا حائفہ کا ریڈ شیفون کا خوشبو میں اُڑا تاد و پٹہ تکیے کے ساتھ لڑھکتا اُس کے چہرے پر آن گرا تھا۔۔۔۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

مجھے سب پتا چل چکا ہے۔۔۔ آپ نے لالہ کے پاس ایک پلان کے تحت ” اُس لڑکی کا بھیجا۔۔۔ جس نے آپ کے کہنے پر نہ صرف میرے لالہ کی فیلنگز کے ساتھ کھیلا ہے بلکہ انہیں مارنے کی کوشش بھی کی ہے۔۔۔۔۔ میں اب

سب کے لیے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ آخر کیا بگاڑا ہے میرے لالہ نے آپ کا ۔۔۔۔ کیوں اُن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔ جو انسان اپنے سگے بھائی کی زندگی برباد کرنے کے لیے اس حد تک گر سکتا ہے مجھے بہت افسوس اور شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میں اُس شخص کی بیوی ہوں۔۔۔۔ جسے اپنی بلاوجہ کی نفرت اور انتقام کے علاوہ

کچھ نہیں آتا۔۔۔۔ جو انتہائی خود غرض اور مفاد پرست ہے۔۔۔۔۔  لالہ کا خیال بالکل ٹھیک تھا آپ کے بارے میں۔۔۔ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے۔۔۔۔ آپ نے مجھ سے نکاح صرف اپنا انتظام پورا کرنے کے لیے کیا ہے۔۔۔۔ آپ جو یہ سب کر رہے ہیں ایک دن اس کے لیے بہت پچھتانا

” پڑے گا آپ کو ۔۔۔۔

ز نیشہ زوبان کے مقابل کھڑی نان سٹاپ بولے جارہی تھی۔۔۔۔ جب اُس کی دل کو چیرتی باتیں سن کر زوبان کی ہمت ختم ہوئی تھی۔۔۔۔

” بس۔۔۔”

زوہان کی دھاڑ پر زنیشہ کی زبان کو بریک لگی تھی۔۔۔۔۔

زوہان کی وحشت ناک آنکھیں اور ضبط سے لال پڑتا چہرا دیکھ زنیشہ لمحہ بھر کو

خوفزدہ ہوئی تھی۔۔۔

تو بس اتنی سی محبت تھی زنیشہ میر ان کو مجھ سے۔۔۔۔۔ کہ میرے خلاف ایک بات سن کر میری محبت کی دھجیاں اڑادیں۔۔۔۔۔ زوہان کی سرد نگاہیں زنیشہ کے چہرے پر لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔ اس کے قریب آکر کھڑے ہونے پر زنیشہ نے الٹے قدموں پیچھے ہٹنا چاہا تھا۔۔۔۔ جب اُس کا ارادہ بھانپتے زوہان اُس کی کمر میں باز و حمائل کرتا اپنے بے حد قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔

نفرت کرتا ہوں میں اپنے بھائی سے۔۔۔۔ اور میران پیلس کے ہر فرد” سے۔۔۔ جانتی ہو کیوں ؟؟ کیونکہ اُن سب نے مجھ سے میری ماں چھینی ہے۔۔۔۔ میری ماں کے قاتل کا محافظ بن کر بیٹھا ہے وہ آژ میر میران۔۔۔۔ زندہ جلایا گیا تھا میری ماں کو۔۔۔۔ اُن کی چیخوں کی آوازیں

آج بھی میری سماعتوں سے ٹکراتی ہیں۔۔۔ آج تک سکون سے نہیں سو پایا میں۔۔۔۔ میرے دل میں سالوں سے آگ بھڑک رہی ہے۔۔۔ جس کو وہ

آژمیر میر ان بجھنے نہیں دے رہا۔۔۔۔

زوہان جب بولنے پر آیا تو نان سٹاپ بولتا اب تک کی زندگی میں پہلی بار اپنے دل کی بھڑاس نکال گیا تھا۔۔۔ وہ بھی صرف اس لڑکی کے سامنے جو اس کے دل کی ملکہ تھی۔۔۔ مگر ہر بار اس کے دل کا خون کرنے میں سر فہرست

رہتی تھی۔۔۔

زوہان خون رنگ آنکھوں سے بولتاز نیشہ کو ساکت کر گیا تھا۔۔۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے صدمے کی کیفیت میں زوہان کی جانب دیکھ رہی

تھی۔۔۔۔۔۔

ہمارا باپ ملک فیاض قاتل ہے میری ماں کا۔۔۔۔۔ بہت بے دردی سے قتل کیا ہے ۔

اور میران خاندان کا ہر فرداس

معاملے میں بے حس بن کر میری ماں کے مجرم ہیں۔۔۔۔ اور آژ میر میران

تمہیں اپنا بھائی دنیا کا سب سے سچا اور کھراا انسان لگتا ہے نا۔۔۔۔ جو کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کرتا، نہ کسی کے ساتھ ناانصافی ہونے دیتا ہے ؟؟؟؟ تمہار ا وہی فرشتہ صفت بھائی ابھی تک اپنے باپ کو بچائے ہوئے ہے۔۔۔۔ اُس انسان کے اتنے ظلم کے باوجود آژ میر اس انسان کا علاج کروا کر واپس اُسے میرے سامنے لا کر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کہاں چھپا کر رکھا ہے اس نے اپنے باپ کو ۔۔۔۔ لیکن میں بھی اسے ایک دن کو ڈھونڈ کر اور ختم کر کے رہوں گا۔۔۔۔ پھر تمہار اوہ آژ میر میران کچھ نہیں

کر پائے گا۔۔۔۔ زوہان کی آنکھوں سے نفرت اور انتظام کے شرارے پھوٹ رہے تھے۔۔۔

زنیشه ساکت و جامد کھڑی اُسے سن رہی تھی۔۔۔

تم نہیں سمجھ پاؤ گی ۔۔۔۔ کوئی نہیں سمجھ پائے گا۔۔۔۔ تنہازندگی گزار نا” کتنا مشکل، کس قدر تکلیف دہ ہے۔۔۔۔ جب پوری دنیا آپ کے خلاف

ہو۔۔۔

تم جانتی ہو ملک زوہان میر ان کو زندگی میں پہلی اور آخری بار ایک غلط فہمی

ہوئی تھی ۔۔۔ جانتی ہو وہ

غلط فہمی کیا ہے۔۔۔۔

؟؟؟

زنیشہ کی کمر میں بازو حمائل کر کے اُس کا چہرا اپنے بے حد قریب لاتے زوہان اپنا ہی مذاق اُڑاتے بولا تھا۔۔۔

غلط فہمی تھی کہ زنیشہ میر ان مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔ اور کوئی سمجھے  نہ سمجھے زنیشہ زوہان کو ضرور سمجھے گی۔۔۔۔ مگر تم نے تو اتنا گھٹیا الزام مجھ پر لگا۔۔۔۔ مجھ پر واضح کر دیا ہے کہ تم مجھ سے محبت تو دور مجھے اچھے انسانوں کی کیٹیگری میں بھی شامل نہیں کرتی۔۔۔۔ بہت شکریہ مجھے یہ بتانے کے لیے کہ میں بالکل تنہا ہوں اس دنیا میں۔۔۔۔ میں تمہیں کبھی اس موڑ پر لانا بھی نہیں چاہتا کہ تمہیں اپنے شوہر اور بھائی میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا پڑے۔۔۔۔ یہ میری تمہارے لیے محبت ہے۔۔۔۔ اور اس بات کا بھی پورا

یقین ہے کہ اگر خدانخواستہ کبھی ایسی سچویشن آئی تو تم مجھے سب سے پہلے

چھوڑو گی۔۔۔۔

اس لیے اب دل نے تمہارے حوالہ سے یہ آخری امید بھی چھوڑ دی

” ہے۔۔

زنیشہ کا چہر ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ اُس کے بہتے آنسو صاف

کرتے بولا تھا۔۔۔

مگر ایک بات ہمیشہ یادر کھنا۔۔۔ زنیشہ میر ان زوہان میر ان کا قتل بھی کر دے تب بھی زوہان کی محبت کی پہلی حقدار ہو گی۔۔۔۔۔ یہ دل تم سے محبت کرنا کبھی بند نہیں کر سکتا۔۔۔۔ ہاں مگر تھوڑی دوری برقرار ضرور

“رکھ سکتا ہے۔۔۔۔۔

زوہان زنیشہ کے چہرے کو ہولے سے چھوتا اُس کے ماتھے پر لب رکھ گیا تھا۔۔۔ کچھ لمحے اس کا نرم گرم لمس محسوس کرنے کے بعد اس نے زنیشہ کو

اپنی گرفت سے آزاد کر دیا تھا۔۔۔۔۔ اور اپنے اندر کے اُٹھتے در داور

اضطراب پر قابو پانے کی خاطر رخ موڑ گیا تھا۔۔۔

ز نیشہ پہلے اس کے الفاظ اور اب اُس کے لمس کی وجہ سے جی جان سے لرز اٹھی تھی۔۔۔۔ مگر زوہان کے یوں رُخ موڑنے پر تڑپ اُٹھی تھی۔۔۔ وہ اُسے ہمیشہ غلط گردانتی آئی تھی۔۔اس بات سے انجان کے وہ تن تنہا بنا کسی سہارے اور ایموشنل سپورٹ کے اپنی جنگ اکیلے لڑتا آیا تھا۔۔۔۔ جس سے ساتھ چاہا تھا اسی نے دوہرے الزاموں کی برسات کر دی تھی۔۔۔۔

ز وہان میری بات۔۔۔۔۔

زنیشہ نے آگے بڑھتے زوبان کے کندھے ہر ہاتھ رکھتے بھیگی آواز میں کچھ

بولنا چاہا تھا۔۔۔۔

میں کچھ نہیں سنا چاہتا اب۔۔۔۔ تم جاسکتی ہو یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ اور اُس لڑکی کو آژ میر کے قریب میں نے نہیں بھیجا تھا اگر یہ کام میرا ہو تا تواب

تک آژ میر میران بر باد ہو چکا ہوتا۔۔۔۔۔ کیونکہ صرف ہم دونوں ہی ایک

” دوسرے کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔

زوہان اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکتا اُس کے لگائے گئے الزام کی تردید

کر گیا تھا۔۔۔

زوہان۔۔۔۔

سے آنسو برسات کی طرح ٹپک پڑ۔

زندیشہ میر ان چلی جاؤ  

یہاں سے  

میں اس

زیادہ خودپر   

ضبط نہیں  

” کر سکتا۔۔۔۔ وہ مٹھیاں بھینچے کتنی مشکل سے اپنے غصے کو ضبط کیے ہوئے تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔۔۔۔ پاس کھڑی لڑکی پر نہ وہ اپنا غصہ نکالنا چاہتا تھا اور نہ ہی اُس کے سامنے اپنے غصے کی شدت ظاہر کرناچاہتا تھا۔۔۔ جانتا تھا اس کی یہ نازک بیوی دیکھ بھی نہیں پائے گی۔۔۔۔

اُس کی ہلکی سی دھاڑ پر خوفزدہ ہوتی زنیشہ وہاں سے پلٹ گئی تھی۔۔۔۔

زنیشہ کے وہاں سے نکلتے ہی زوہان نے اپنا سارا غصہ کمرے میں پڑی بے جان  چیزوں پر نکالتے سب کچھ توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

کیوں ؟؟؟؟۔۔۔ کیوں ہر بار یہ دونوں بھائی میر اپلین چوپٹ کر دیتے  ہیں۔۔۔۔ میرے اتنے ٹائم کی محنت پر پانی پھیر دیا اس آژ میر میران نے۔۔۔۔۔ کتنی ہو شیاری سے دولت ہضم کرنے کی خاطر زنیشہ کا نکاح اپنے بھائی سے کر واد یا آژ میر میران نے۔۔۔۔۔ تاکہ ساری جائیداد گھر میں ہی رہے۔۔۔۔۔۔اب تو میں نہیں چھوڑوں گا ان دونوں کو۔۔۔۔۔ سمجھتے ہیں یہ زوہان سے نکاح کروانے کے بعد یہ زنیشہ کو ہمیشہ کے لیے مجھے سے چھین لیں گے ۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔

اب اِس دونوں بھائیوں کو پہلے تڑپنا اور پھر مرنا ہو گا۔۔۔۔ان دونوں کے سامنے میں ان کی بیویوں کو چھین کر لاؤں گا۔۔۔۔۔

میری اتنی بڑی پلاننگ کے باوجود آژمیر میر ان کو وہ لڑکی بر باد نہیں کر

پائی۔۔۔ اب اسی لڑکی کو آژ میر کی کمزوری بنا کر استعمال کروں گا میں۔۔۔۔۔ پھر تڑپے گے یہ دونوں مگر بچا نہیں پائیں گے انکو۔

اُس حاعفہ نور کو تو مر نا ہی ہو گا اب۔۔۔

حنیف اکرام ایک بار پھر اپنا نیا پلان ترتیب دے چکا تھا۔۔۔۔۔ مگر باس آژ میر میر ان تواب نفرت کرتا ہے اُس لڑکی سے۔۔۔۔ اُسے بھلا کیا فرق پڑے گا اُس کے مرنے کا۔۔۔ بلکہ وہ تو خود اُسے مارنا چاہتا

حنیف اکرام کے آدمی نے اُسے سچائی بتانی چاہی تھی۔۔۔ جس کے جواب میں حنیف اکرام کا بے ساختہ قہقہ گو نجا تھا۔۔۔۔۔ آث میر میر ان ہمارے ساتھ ساتھ اپنی آنکھوں میں بھی دھول جھونک رہاہے۔۔۔۔ وہ اُس لڑکی کو دیوانوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔۔اگر مار نا ہوتا

تو اسی رات مار دیتا جس رات سچائی پتا چلی تھی اُس کی۔۔۔۔ وہ اُس لڑکی کو مار ناتو دور ایک خراش تک نہیں پہنچنے دے گا۔۔۔۔اور اُس کی یہی کمزوری

” ہم اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں گے ۔۔۔۔۔

حنیف اکرام اپنی نئی سازش سے اُن سب کی زندگیوں میں نیا طوفان لانے کو تیار تھا۔۔۔۔ جس کے بعد کس کی زندگی بگڑنے اور کس کی سنورنے والی

تھی کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔

@@@@@@@@@

میران پیلس میں آج گھر کے تمام افراد ڈرائنگ روم میں جمع شام کی چائے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔۔۔ جب دروازے سے داخل ہوتی ہستی کو دیکھ سب کے چہروں کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔۔۔

سب نے ہی نخوت سے چہرا موڑ لیا تھا۔۔۔۔ سویرانے جو کچھ آژمیر کے ساتھ کیا تھا اس کے بعد کوئی اس کی شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں تھا۔۔۔

میں جانتی ہوں میں نے جو کیا وہ بہت غلط تھا۔۔۔ میں اُس سب کے لیے کبھی بھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گی۔۔۔ مگر ابھی میرے یہاں آنے کا مقصد بھی صرف آژ میر ہی ہے۔۔۔۔ آژ میر اس وقت بہت تکلیف میں ہیں۔۔۔ انہیں ہم سب کے ساتھ کی ضرورت ہے۔۔۔۔ وہ اس وقت جس مینٹلی سٹریس سے گزر رہے ہیں۔۔۔ وہ ڈ پریشن میں بھی جا سکتے ہیں۔۔۔

میں جانتی ہوں آپ سب کے لیے آژ میر کی خوشی سے زیادہ کچھ بھی اہم

” نہیں۔

اس نے ہاتھ جوڑے کھڑے جو بات کہی تھی۔۔۔ اُس پر

سب کے

سب نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔۔۔ بھا بھی کیا کہہ رہی ہے یہ لڑکی ؟؟؟ کیا ہوا ہے ہمارے آژ میر کو ؟؟؟

“…  مجھے سب جاننا ہے

سویرا کو صاف نظر انداز کرتے حمیر ابیگم نے شمسہ بیگم کو مخاطب کیا تھا۔۔۔

شمسہ بیگم کا سنجیدہ انداز دیکھ باقی سب نے بھی منتظر نگاہوں سے اُن کی

جانب دیکھا تھا۔۔۔

جس پر شمسہ بیگم نے بنا کچھ بھی چھپائے فیصل کی بتائی ہر بات ان کے سامنے

رکھ دی تھی۔۔

جسے جان کر ب کے چہرے پر واضح اذیت کے تاثرات پھیل گئے

تھے۔

@@@@@@@@@

آژ میر نے حیران ہوتے وہ دوپٹہ اپنے چہرے سے اُٹھایا تھا۔۔۔۔ کسی لڑکی کا دوپٹہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا ؟؟؟؟

کوئی بنا اجازت اُس کے روم میں کیسے آسکتا تھا۔۔۔۔ آژ میر کے چہرے کے نقوش تن گئے تھے۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ غصے کی شدت سے چلاتے ملازمہ کو آواز دیتا۔۔۔۔ جب واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی

تھی۔۔۔۔ آژمیر نے چونک کر اس جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔ اُس کا پہلے واش

روم کی جانب دھیان ہی نہیں گیا تھا۔۔۔۔

ایک ہاتھ میں دوپٹہ اور دوسرے کی انگلیوں میں سیگریٹ دبائے  آژمیر کی غصیلی سرخ نگاہیں باہر آنے والے کی منتظر تھیں۔۔۔۔

جب اسی لمحے سیاہ گھنے لمبے بالوں کو ٹاول میں لپیٹنے کی کوشش کرتی ایک نازک اندام سی دوشیزہ واش روم سے باہر آئی تھی۔۔۔ بالوں کی وجہ سے اُس کا چہراڈھکا ہوا تھا۔۔۔ مگر آژمیر میران بنا چہراد سیکھے ہی ساکت ہو

تھا۔۔۔

پہلے دوپٹے سے اُٹھتی خوشبو اور اب یہ نازک دلکش سرا پا۔۔۔۔ بنا فیس دیکھے ہی آژمیر میران سامنے کھڑی لڑکی کو پہچان گیا تھا۔۔۔ اور یہی بات

اسے شاک میں مبتلا کر گئی تھی۔۔۔

وہ یقین نہیں کر پار ہا تھا۔۔۔۔

ریڈ کلر کے سادہ سے شیفون کے ڈریس میں جس کے کناروں پر گولڈن لیس کا کام کیا گیا تھا۔۔۔ بنادوپٹے کہ اس کا نازک بھیگا سراپا اپنی بھر پور رعنائیاں اُجاگر کرتا ہوش اُڑانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔

حاعفہ نے جیسے ہی بال جھٹکے اُس کا بھیگا دودھیا چھلکا تا چہرا آژ میر کے سامنے

تھا۔۔۔

لمحہ بھر کے لیے آژمیر کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ جس لڑکی کو اس کے آدمی پاگلوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈتے پھر رہے

گھر

یہاں اُسی کے گھر میں چھپی بیٹھی تھی ۔۔۔۔

بالوں سے پانی خشک کرتے حائفہ نے ٹاول کی مدد سے اُن کو پیچھے جھٹکا تھا۔۔۔ بالوں کا پردہ چہرے سے ہٹ جانے کی وجہ سے اب وہ پوری طرح

آژمیر کے سامنے تھی۔۔۔۔

آژمیر میر کتنے ہی لمحے یک تک اُسے دیکھے گیا تھا۔۔۔۔

حاعفہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُس کا ستمگر اُس کے کس قدر پاس موجود ہے۔۔۔۔ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وہ دن رات تڑپ رہی تھی۔۔۔۔ اس کے دیدار کے لیے مانگی اُس کی دعائیں قبول ہو چکی

تھیں۔۔۔

حافظہ کو اچانک خود پر کسی کی گہری تپیش زدہ نگاہوں کا احساس ہوا تھا۔۔۔ اس نے بے ساختہ نگاہیں گھما کر ارد گرد دیکھا تھا۔۔۔ جب بیڈ پر نظر پڑتے پورا کمرا اُس کی نگاہوں میں گھوم گیا تھا۔۔۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔ ٹاول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا۔۔۔۔

اُسے روم میں آکسیجن کی کمی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔

آژمیر بھی اپنی جگہ کھڑا اُسے غضبناک نگاہوں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔ اس کے حسین قیامت خیز سراپے سے نظریں چراتے اُس کے اندر لگی آگ ہر شے پر حاوی ہونے لگی تھی۔۔۔۔

“آژمیر ۔۔۔۔۔۔۔”

حائفہ کے لب ہولے سے پھڑ پھڑائے تھے۔۔۔

اُس کی آنکھوں کے کٹورے آنسوؤں سے بھر گئے تھے۔۔۔۔۔وہ ٹرانس کی کیفیت میں چلتی آژمیر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔

اس اس وقت آژمیر کا غصہ ، اُس کی سرد نگا ہیں، اس کی بھینچی مٹھیاں اور طیش کے عالم میں تنے نقوش کچھ بھی دیکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔۔ اسے صرف اتنا پتا تھا کہ اس کی زندگی ، اس کی سانسوں کا امین اور دل کا قرار اُس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔اس سب کو اپنا وہم ہی گردانتی مگر وہ اُس کی پر چھائی کو بھی چھونا چاہتی تھی۔۔۔۔

اپنے بنا دوپٹے کے بھیگے سراپے کی پرواہ کیے بنا اس کے بے حد قریب آن

کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

” میں کیسے بتاؤں آپ کو۔۔۔۔ آپ دنیا ہو میری۔۔۔۔”

آژ میر کا چہرا اپنی نازک ملائم ہتھیلیوں میں بھرتی حائفہ سر گوشی نما لہجے میں بولتی اس کے دونوں پیروں پر اپنے پیر جماتی اس کے بے حد قریب آن

کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

سامنے کھڑے آژ میر کو اپنا وہم سمجھتی وہ اپنے حواسوں میں بالکل بھی نہیں

آژ میر کے سہارے ہی اُس کے مقابل آن کھڑے ہونے پر حاعفہ کے لبوں پردلکش مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔ اس کے ہونٹوں کا اوپری تل

ساتھ مسکرادیا تھا۔۔۔۔۔

ہولے سے اوپر کو اٹھتے اس نے آژ میر کے دائیں گال پر بوسہ دیا تھا۔۔۔ اُس کی نرم گرم قربت اور اس محبت بھری بے خودی نے آثر میر کو کچھ لمحوں کے لیے ہپینوٹائز سا کر دیا تھا۔۔۔ یہ لڑکی وہی تھی ناجو اُسے مارنا چاہتی تھی۔۔ اس سے جھوٹی محبت کا ناٹک کرنے دھوکا دے کر بھاگ گئی تھی۔۔۔ وہ اب پھر اُس پر اپنی محبت کا جال پھینک رہی تھی۔۔۔۔

آژمیر ایک دم ہوش میں لوٹا تھا۔۔۔اس لڑکی کادیا ایک ایک زخم پھر سے

کھل گیا تھا۔۔۔۔

اُس نے ایک جھٹکے سے حاعفہ کو خود سے دور جھٹکا تھا۔۔۔ حائفہ جو پوری طرح اُس کے سہارے کھڑے تھی لڑکھڑا کر نیچے جاگری تھی۔۔۔۔ اس نے بے بی یقینی سے آژمیر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اب گہرادھچکا لگنے کی باری حاعفہ کی تھی۔۔۔ وہ اس کا وہم نہیں حقیقت میں اس کے سامنے کھڑا

تھا۔۔۔۔ وہ دونوں اس وقت ایک ہی چھت کے نیچے ، ایک ہی کمرے

ایک دوسرے کے مقابل تھے۔۔۔

حاصفہ کی دھڑکنوں کا شور بڑھ گیا تھا۔۔۔

تم یہاں میرے گھر میں کیا کر رہی ہو ؟؟؟… اب میرے گھر کے کسی فرد “

… کو پھنسایا ہے اپنی اداؤں میں

حائفہ ابھی تک اُسی طرح بیٹھی تھی جب آژ میر آنکھوں میں نفرت سموئے اُس کے قریب آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ اُس کے الفاظ حاعفہ کا دل چھلنی کر گئے

وہ اپنے آنسو اندر اتارتی اپنی جگہ سے اٹھ کی ۔۔۔۔ ” میں نہیں جانتی تھی یہ آپ کا گھر ہے۔۔۔۔”

حاعفہ نے سر جھکائے جواب دیا تھا۔۔۔

اُس کا اپنی جانب دیکھ کر بات نہ کرنا آژ میر کو غصہ دلا گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ وہاں سے ہلنے لگی تھی جب آژمیر نے اُس کی کمر میں باز و حمائل کرتے اُسے اپنے کھینچ لیا تھا۔۔۔۔ گیلے بالوں کی وجہ سے حائفہ کی شرٹ بھی پیچھے سے گیلی ہو چکی تھی۔۔۔ آژ میر کا وہاں شدت

بھر المس محسوس کرتے اُس

کا چہرالال ہوا تھا۔۔۔۔

مگر اس وقت وہ کوئی بھی مزاحمت کر کے اس بھرے زخمی شیر کو مزید غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی۔۔۔۔وہ آژمیر کے ساتھ لگی اپنا شرم اور حیا سے اناری

پڑتا چہرا جھکائے ہوئے ہی۔

“میری طرف دیکھ کر میری بات کا جواب دو۔۔۔۔”

آژ میر اُس کے گیلے بالوں میں ہاتھ پھنسائے اُس کا چہرا اپنے بے حد قریب

کر گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ کو اپنے حواس جاتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔ آژ میر کی گرم سانسیں اُس کا چہرا جھلسار ہی تھیں۔۔۔

مجھے یہاں محفوظ پناہ گاہ کہہ کر بھیجا گیا تھا۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی یہ آپ

 کا علاقہ ہے۔۔۔۔

حائفہ نے آژ میر کی آنکھوں میں دیکھتے جواب دیا تھا۔۔۔ جس کے نتیجے میں کئی آنسو اس کے چہرے پر بکھر گئے تھے۔۔۔ یہ سچ تھا آژمیر سے زیادہ محفوظ پناہ گاہ اُس کے لیے کوئی نہیں تھی۔۔۔۔

تم کیا سمجھ رہی ہو ۔۔۔ یہ سب ناٹک کر کے میرے قہر سے بچ جاؤگی۔۔۔۔ تمہارا یہ روناد ھونا، میرے قریب آکر جھوٹی محبت کا اظہار کر کے ایک بار پھر مجھے بے وقوف بنالو گی۔۔۔۔؟؟؟

آژ میر نے اُس کا چہرا اپنے مزید قریب کر لیا تھا۔۔۔ ” میری محبت جھوٹی نہیں تھی

حائفہ اس کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جمائے اسے یقین دلاتے بولی۔۔۔۔ اُس کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔ جو آژمیر میران با آسانی محسوس کر پار ہا تھا۔۔۔ آژمیر کی قربت کے ساتھ ساتھ اس کیکیکاہٹ کی وجہ ٹھنڈ بھی تھی۔۔۔۔ اس کے نیلے پڑتے ہونٹ اس بات کے گواہ

آژمیر جو اُسے نجانے کیا کیا سزادینے کا سوچے بیٹھا تھا اُس کے قریب آنے پر وہ کوئی سنگین قدم نہیں اٹھا پارہا تھا۔۔۔

اس لڑکی کے معاملے میں وہ اتنا الگ انسان کیوں بن جاتا تھا وہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔۔ کیسی بے بسی تھی یہ ۔۔۔۔ کیوں وہ چاہ کر بھی اُس کو کوئی سزا نہیں

دے پارہا تھا۔۔۔۔

ور نہ جو یہ لڑکی اُس کے ساتھ کر چکی تھی۔۔۔اگر کسی اور نے کیا ہو تا تواس

وقت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوتا۔۔۔۔

وہ اپنی زندگی میں کسی شے کو بھی اپنی کمزوری نہیں بنانے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ اس لیے بہتر تھا اپنی زندگی کی اس سب سے کمزور کڑی کو ہمیشہ کے لیے توڑ

پھینکے۔۔۔۔

تم جیسی لڑکی آژ میر میر ان کی بیوی بننے کے قابل بالکل بھی نہیں” ہے۔۔۔۔۔اور ویسے بھی یہ رشتہ دھوکے کی بنیاد پر رکھا گیا تھا تو سب سے

” پہلے اسی کا ختم ہو جانا چاہئے۔۔۔۔

آژ میر کے منہ سے نکلنے والے الفاظ حائفہ کی سانسیں چھین گئے تھے۔۔۔۔ اُس نے نفی میں سر ہلاتے پھٹی پھٹی آنکھوں سے آژ میر کی جانب دیکھا

تھا۔۔۔۔

اسی خوف سے تو وہ یہاں چھپ کر بیٹھی تھی۔۔۔۔

اُسے لگا تھا آژ میر نے اسے چھوڑنے کی بات نہیں کی تھی بلکہ اس سے

سانسیں چھیننے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔۔

ن نہیں آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔۔ اس کے علاوہ آپ چاہے جو  مرضی سزادے دیں مجھے ۔۔۔ مگر پلیز مجھ سے اپنا نام مت چھینیں

” میں مر جاؤں گی۔۔۔۔

حائفہ آژ میر کے روح فساں الفاظ سن کر پھوٹ پھوٹ کر روتی اُس کے

قدموں میں بیٹھ گئی تھی۔۔۔

آژ میر کے لیے حائفہ کا یہ رد عمل بہت حیران کن تھا۔۔۔ جب وہ اُس سے محبت کرتی ہی نہیں تھی۔۔۔ صرف ایک فریب بن کر اُس کی زندگی میں

آئی تھی تو پھر یہ سب کیا تھا۔۔۔۔۔۔

آژ میر کو اس کی یوں اپنے قدموں میں گرنے والی حرکت انتہائی ناگوار گزری تھی ۔ والے ہی سے کان سے پکڑ کرے اور اپنی جانب کھنی چا

تھا۔۔۔

” یہ کیا نیا ناٹک ہے ؟؟؟”

آژمیر کا دماغ حائفہ کی طلاق کے نام پر خراب ہوتی حالت دیکھ اُلجھ چکا

تھا۔۔۔

میں ناٹک نہیں کر رہی۔۔۔۔ سچی محبت کرتی ہوں آپ سے.

مجھ سے زبر دستی کر وایا گیا تھا۔۔۔ میں مر کر بھی آپ کو تکلیف پہنچانے کے

” بارے میں نہیں سوچ سکتی۔۔۔

حاعفہ جذبات کے عالم میں آخر کار اونچی آواز میں چلاتی اپنی محبت کا اظہار کر

گئی تھی۔۔۔۔

اوہ رئیلی تمہیں لگتا ہے میں اب بھی تمہاری بات پر یقین کروں گا۔۔۔۔” مجھے تم پر اب ایک پر سنٹ بھی ٹرسٹ نہیں رہا حائفہ نور۔۔۔۔ تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرا بھروسہ کھو چکی ہو۔۔۔۔ تم نے مجھ سے اپنی اصلیت چھپائی،

کہ طوائف زادی ہوتے میرے سامنے باپردہ ہونے کا ناٹک کر کے مجھے محبت کے جال میں پھنسایا اور پھر آخر میں مجھے زہر دے کر مار نا چاہا۔۔۔۔ کیا یہی ہے تمہاری محبت ؟؟؟ ایسی محبت سے بہتر میں ساری زندگی کے لیے تنہا

” رہنا پسند کروں گا۔۔۔۔

آژ میر اپنے اندر کی بھڑاس اُس پر نکال رہا تھا۔۔۔ اور حائفہ بے بسی سے اُسے سکی جارہی تھی۔ یہ شخص اُس کی زندگی تھا جو اس سے بہت جارہی تھی۔۔۔ اُس کی اب تک کی زندگی دکھوں سے بھری پڑی تھی۔۔۔ مگر اتنی

اذیت اُسے آج تک محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جتنی اس وقت آژ میر کے

الفاظ نے اسے دی تھی۔۔۔

آژمیر ابھی اُسے اُس کی سزا سنانے ہی والا تھا۔۔۔ جب موبائل پر آتی کال نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔۔۔

دوسری جانب سے قاسم صاحب کے ارجنٹ بلاوے پر وہ فکر مند ہوا

تھا۔۔۔

“کیا ہواسب خیریت ہے ؟ آپ ٹھیک ہیں ؟؟؟” آژ میر کو ایک دم اُن کی فکر ہوئی تھی۔

“اوکے میں ابھی پہنچتا ہوں۔۔۔۔”

آثر میر انہیں جواب دے کر فون رکھتا واپس حائفہ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔ جو اُس کو جاتا دیکھ وہاں سے کھسکنے کو پر تول رہی تھی۔۔۔

آژ میر کو اُس کا بار بار یہ اپنی نظروں سے اوجھل ہونے کی کوشش کرنا بہت

بُرا لگا تھا۔۔۔

حاعفہ کی دونوں کلائیوں دبوچ کر اُس کی کمر کے پیچھے موڑتے آژمیر نے اُسے پوری طرح اپنے حصار میں لیتے اپنے بے حد قریب کیا تھا۔۔۔۔ خبر دار جو یہاں سے کہیں بھی بھاگنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔ اگر تم یہاں”سے غائب ہوئی تو تمہیں ڈھونڈ کر اپنے ہاتھوں سے یہ نازک گردن دبادوں

گا۔۔۔ یادر کھنا۔۔۔

آژ میر کی گرم سانسیں حائفہ کو اپنی گردن پر محسوس ہوئیں تو وہ جی جان سے لرز اٹھی تھی۔۔۔۔

اُس کی شہہ رگ پر اپنا شدت بھر المس چھوڑتا اگلے ہی لمحے وہ وہاں سے نکل گیا تھا ۔۔۔۔ حاعفہ کتنے ہی لمحے اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔ آژمیر کے سر دو سیاٹ لہجے میں ادا کیے الفاظ اُس کی سماعتوں میں ابھی بھی

گونج رہے تھے۔۔۔۔

دھیرے سے قدم اٹھاتے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس ستمگر کے غصے میں چھوڑے لمس کا نشان اُس کی سُرخ پڑتی گردن پر واضح تھا۔۔۔ حائفہ کا چہراتپ اُٹھا تھا۔۔۔۔

آژ میر کے الفاظ یاد کرتے اُس کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ چھا گئی

آژ میر کی دھمکی میں چھپا اقرار اُس کے دل کو خوش فہمیوں کی دنیا میں دھکیل گیا تھا۔۔۔۔ آژمیر اُسے یہاں سے نہ جانے کا بول کر گیا تھا۔۔۔ جس کا مطلب تھا اُسے حائفہ کا خود سے دور ہو نا بر داشت نہیں تھا۔۔۔۔ حائفہ کے لیے اُس کا غصے اور مصنوعی نفرت میں چھپا یہ چھوٹاسا اقرار بھی کافی تھا۔۔۔ اب وہ مر کر بھی آژمیر میر ان سے دور جانے کا نہیں سوچنے والی

تھی۔۔۔

میں جانتی ہوں آپ اب بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔ تبھی تو میری اتنی غلطیوں کے باوجود مجھے زراسی سزا بھی نہیں سنا سکے۔۔۔۔ میں اب کسی

قیمت پر آپ سے دور نہیں جاؤں گی۔۔۔۔ آپ مجھے بیوی کے روپ میں چاہے قبول نہ کریں۔۔۔ میں ساری زندگی کے لیے آپ کی باندی بن کر جینے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ حائفہ آژمیر ہمیشہ سے صرف آپ کی تھی۔۔۔

اور آگے بھی ہمیشہ آپ ہی کی رہے گی۔۔۔۔

نجانے کتنے عرصے بعد حائفہ کا مرجھا یازندگی سے دالبر داشتہ چہرا کھل اُٹھا

تھا۔۔۔

وہ دیوانی لڑکی آژمیر میر ان کی ایک دھمکی پر خوشی سے پاگل ہو اُٹھی تھی۔۔۔۔ اگر جو کبھی آژ میر میران اس سے محبت سے بات کر لے۔۔۔۔

پھر تو حائفہ نور کا حواس کھونا متوقع تھا۔۔۔۔۔

-@@@@@@@@

میران پیلس کے مکینوں نے آژ میر میر ان کی خاطر سویرا کو ایک اور موقع سے دیا تھا۔۔۔وہ سب بس آژ میر کو خوش و خرم دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔اگر

سویرا ایسا کرنے کا یقین دلا چکی تھی اُنہیں تو ان سب کو اس سے زیادہ کچھ

اُس کے اتنا بُرا کرنے کے باوجو د سب نے اُسے مزید ایک موقع دے دیا تھا۔۔۔ اب وہ کسی بھی صورت آژمیر کو منا کر اپنی جانب راغب کرنے کا اراد ہ ر کھتی تھی

ز نیشہ میری جان کیا ہوا ؟؟؟ کوئی پرابلم ہے کیا ؟؟” شمسہ بیگم زنیشہ کو ایک جگہ پریشان اور گم صم بیٹھا دیکھ اُس کے قریب آتے فکر مندی سے بولی تھیں۔۔۔۔

اماں سائیں میں نے اپنی سب سے قیمتی اور عزیز ترین شے کو اپنے ہاتھوں” خود سے دور کر دیا ہے۔۔۔ میں بہت بُری ہوں۔۔۔۔ مجھے خود سے نفرت

“محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔

زنیشہ روہانسی آواز میں بولتی آخر میں رودی تھی۔۔۔۔

زنمیشہ میرے بچے کیا ہوا ہے۔۔۔۔ زوہان سے کوئی لڑائی ہوئی “

” ہے۔۔۔۔؟؟؟

شمسہ بیگم اچھے سے جانتی تھیں اُن کی بیٹی کا اتنا افیکٹ ملک زوہان ہی کر سکتا

وہ مجھ سے بہت سخت ناراض ہو گئے ہیں۔۔۔۔ اب کبھی مجھ سے بات “

نہیں کریں گے۔۔۔ اب میں کیا کروں۔۔۔۔

زنیشہ بچوں کی طرح روتی شمسہ بیگم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی

تم نے ناراض کیا ہے۔۔۔ تو مناؤ بھی سہی۔۔۔ میں جانتی ہوں میرا بگڑا” ہوا بیٹا میری اس جھلی بیٹی سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ پائے گا۔۔۔ شمسہ بیگم اس کا ماتھا چوم کر اسے مفید مشورے سے نواز میں وہاں سے اُٹھ

گئی تھیں۔۔۔۔

@@@@@@@@@

آژ میر شاک کی کیفیت میں قاسم میر ان کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ کسی طرح بھی اپنے چا چا  

قاسم میر ان کا ماضی ایسا سیاہ ہو گا اُسے بالکل اندازہ نہیں تھا۔۔

وہ دونوں چچا بھتیجے سے زیادہ بہترین دوستوں کی طرح تھے ۔۔۔۔ مگر قاسم

میر ان کی سچائی جان کر آژ میر کو بہت افسوس ہوا تھا۔۔۔۔

میں جانتا ہوں آژمیر بیٹا۔۔۔۔ میرا گناہ بہت بڑا ہے۔۔۔ مگر ساری زندگی ” اولاد سے محروم رہ کر مجھے اس کی بہت بڑی سزا مل چکی ہے۔۔۔۔ مجھ میں اب مزید یہ بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔۔۔۔ میں اپنی بیٹیوں کو اب اپنی آگے کی زندگی میں اپنے پاس دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ بچپن سے اب تک وہ باپ کی جس شفقت سے محروم رہی ہیں انہیں وہ سونپنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں حائفہ  اور ماورا کو بتانا چاہتا ہوں کہ اُن کا باپ اتنے سالوں سے

” اُن کے لیے کا قدر تڑپتا آیا ہے۔۔۔۔

خاموشی سے قاسم صاحب کی بات سنتے حائفہ کے نام پر اُس نے جھٹکے سے اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ سب سے بڑا شاک تھا اُس کے لیے۔۔۔۔ حائفہ اس کے چچا کی بیٹی اُسی کے خاندان کا ہی حصہ تھی ۔۔۔۔ آژمیر نے سختی سے مٹھیاں بھینچتے ایک

گہر اسانس ہوا میں خارج کرتے خود پر ضبط پانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ وہ جتنا اس لڑکی سے دور جانے کی

کوشش کر رہا تھا وہ اتنا ہی اُس کے قریب تر آرہی  ہے

آژمیر کو ایک لمحہ لگا تھا سارا معاملہ سمجھنے میں۔۔۔۔۔ کچھ لمحے پہلے وہ جو حائفہ کی اپنے بیڈ روم میں موجودگی پر حیران تھا۔۔۔ اب سب کچھ اُس کے

سامنے واضح ہو چکا تھا۔۔۔

بیٹا کیا آپ میر اساتھ دو گے۔۔۔۔ میری بیٹیوں کو میران پیلس میں جگہ ” دلوانے میں میر اساتھ دو گے ؟؟؟ میں جانتا ہوں تم ہی وہ واحد انسان ہو ۔۔۔ جو سب گھر کے سب افراد کو اس کے لیے راضی بھی کر سکتے ہو۔۔۔

اور برادری کے لوگوں کا منہ بھی بند کر سکتے ہو۔۔۔۔ میں تمہارا یہ احسان

کبھی نہیں بھولوں گا۔۔۔۔

قاسم صاحب آنکھوں سے پھسل آئے آنسو صاف کرتے اذیت بھرے لہجے میں بولتے آژمیر کے لیے انکار کرنے کی ساری وجوہات ختم کر گئے

آژمیر میر ان جو ہمیشہ اپنوں کے مشکل وقت میں اُن کے ساتھ کھڑا ہوتا آیا تھا۔۔۔ بھلاس مقام پر قاسم میر ان کو کیسے انکار کر سکتا تھا۔۔۔۔ آپ فکر مت کریں۔۔۔ میں سب کا منالوں گا۔۔۔۔ مگر کیا آپ کی  بیٹیاں آپ کو قبول کریں گی ۔۔۔۔ ابھی آپ نے بتایا آپ کی بڑی بیٹی بہت

” نفرت کرتی ہے آپ سے۔۔۔۔

آژ میر نے حائفہ کا ذکر کرتے اجنبی لہجہ اختیار کیا تھا۔۔۔۔ وہ اپنے رشتے کی سچائی فلحال تو کسی کے سامنے بھی لانے کے حق میں نہیں تھا۔۔۔۔

ہاں ماورا اور نگینہ بائی دونوں سے بات ہوئی ہے میر ی۔۔۔۔۔ حائفہ  نے میری وجہ سے  بہت مشکل زندگی گزاری ہے۔۔۔۔ میں سب سے زیادہ مجرم اسی کا ہوں۔۔۔۔ وہ نفرت کرتی ہے مجھ سے ۔۔۔ لیکن میں فلحال بس اُسے میران پیلس میں رہنے کے لیے منالینا چاہتاہوں۔۔۔۔تاکہ وقت کے

ساتھ اپنی کی

زیادتیوں کا ازالہ کر کے اُس کا دل اپنی جانب سے نرم کر سکوں

قاسم صاحب آژمیر سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہتے تھے۔۔۔ میں سمجھا نہیں کیسی اذیت اور تکلیف برداشت کی ہے اُس

 نے۔۔۔۔؟؟؟

آژ میر کا دل بے چین ہوا تھا ماعنہ کی سچائی جاننے کے لیے۔۔۔۔ وہ اس کی گنہ گار تھی مگر اُس سے بھی پہلے اُس کی محبت تھی۔۔۔ وہ اُس کی زندگی کے

بارے میں جاننا چاہتا تھا۔۔۔۔

آزمیر کے سوال پر قاسم صاحب نے بھیگتی آنکھوں سے نگینہ بائی اور ماورا کی زبانی بتائی تمام حقیقت آژمیر کو بتادی تھی۔۔۔۔ مگر دانستہ طور پر حائفہ کے نکاح والی بات پوشید ور کھی تھی۔۔۔ کیونکہ ماورا کو اُس نے سختی سے کسی منع کر رکھا تھا اس لیے ماورا نے قاسم

کو کچھ بھی آژمیر

کا نام نہیں بتایا تھا۔۔ اور نگینہ بائی نے بھی حائفہ کی قسم کے مطابق کسی کو بھی آژ میر کانہ بتانے کا عہد کر رکھا تھا۔۔۔۔اس لیے قاسم صاحب یہاں آژمیر کے سامنے اپنی بیٹی کی عزت رکھ گئے تھے۔۔۔

اِس بات سے انجان کے آژ میر اُن کی بیٹی کو اُن سے زیادہ بہتر جانتا تھا۔۔۔۔ میرے خیال میں آپ کے پاس اپنی بیٹی کے حوالے سے معلومات ناکافی  ہے۔۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ کی بیٹی اتنی معصوم بھی نہ ہو ۔۔۔ جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔۔۔ اپنی وے آپ کو میری جو ہیلپ بھی چاہئیے میں اُس کے لیے تیار ہوں۔۔۔ ابھی مجھے ایک ضروری کام کے لیے شہر کے لیے نکلنا ہے۔۔۔۔ کل ملاقات ہو گی آپ سے۔۔۔۔

حائفہ کے بارے میں جان کر آژ میر کے دل کی بے چینی مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔ وہ لڑ کی اتنی قصور وار نہیں تھی جتناوہ اسے سمجھ رہا تھا۔۔۔ مگر وہ اس کے دل کا خون کرنے کی خطاوار تھی۔۔۔۔ جس کے لیے وہ اسے اتنی آسانی

سے معاف کرنے کے حق میں نہیں تھا۔۔۔

آژ میر میر ان کا دل اتنا ارزاں بالکل بھی نہیں تھا کہ کوئی بھی آکر اس سے کھیل کر چلا جاتا۔۔۔۔

آژ میر نے صرف ایک لڑکی کو اپنے دل تک رسائی دی تھی۔۔۔ مگر اُسی لڑکی کا دل پر کیا وار بہت کاری تھا۔۔۔۔ جسے اتنی جلدی بھول پانا آژ میر کے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔

@@@@@@@@@

زوہان پلیز بس کرو۔۔۔ کیوں جان بوجھ کر اپنی جان کے دشمن بنے پڑے

ہو ۔۔۔۔ پلیز مزید سیگریٹ مت پینا۔۔۔۔

شمن زوہان کے پاس کھڑی منت بھرے لہجے میں بولی۔۔۔۔ اُس میں اتنی

ہمت نہیں تھی کہ اس کے سامنے ٹیبل پر رکھی سیگریٹ کی ڈبیا خو داٹھا کر

پھینک دیتی۔۔۔

تمہیں کس نے کہا ہے یہاں بیٹھنے کو

جاوا اپنے گھر ۔۔۔ مجھے اکیلا

“رہنا ہے۔۔۔۔

زوہان اُس کے ٹوکنے پر اسے وہیں ڈپٹ گیا تھا۔۔۔۔

اُسے ہمیشہ اپنے قریب صرف ایک انسان کی خواہش ہی رہی تھی۔۔۔ مگر اُس ہستی نے ہر بار اس پر الزاموں کی برسات کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔۔اس لیے اگر وہ نہیں تو زوہان کو کوئی بھی نہیں چاہیئے تھا۔۔۔ شمن بے بسی سے اُسے دوبارہ سیگریٹ سلگھا تا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جب سائیڈ ٹیبل پر رکھا زوہان کا موبائل بج اٹھا تھا۔۔۔ زوہان ویسے ہی آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔۔۔۔

“…. زنیشہ کی کال ہے”

شمن کب سے بجتے فون کی جانب دیکھتی زوہان کو پکار بیٹھی تھی ۔۔۔۔ ز نیشہ کے نام پر زوہان نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں ۔۔۔۔۔ مگر فون اٹینڈ کرنے کے بجائے وہ بڑے آرام سے کال کاٹ گیا تھا۔۔۔۔ شمن افسوس سے سر ہلا کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ ہمیشہ اس مشکل ترین انسان کو سمجھنا اس کے لیے کٹھن رہا تھا۔۔۔۔

ایک طرف جس کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر وہ اپنی صحت خراب کر رہا تھا دوسری طرف اُس کی بات سننے کا بھی روادار نہیں تھا۔۔۔۔۔ مگر دوسری جانب بھی کوئی اور نہیں زنیشہ میران بھی۔۔۔۔۔ جب تک زوہان کی بات نہ سن لیتی باز نہیں آنا تھا اُس نے۔۔۔۔ ثمن ان دونوں کی ایک دوسرے کے لیے اتنی شدت پسندی دیکھ کر حیرت زدہ تھی۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے بھی بہت تھے مگر ضدی بھی حد درجے کے

تھے۔

“کیا پرابلم ہے ؟؟؟؟”

زوہان شدید غصے کے باوجود اُس کی کال زیادہ دیر اگنور نہیں کر پایا

تھا۔۔۔۔۔

” مجھے بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔۔۔”

دوسری جانب سے زنیشہ کی فکر بھری روہانسی آواز سنائی دی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے کسی قسم کی ہمدردی نہیں چاہیئے۔۔۔۔ اور نہ اس وقت میں تم سے “

” بات کرناچاہتا ہوں۔ مجھے تنگ مت کرو۔۔۔

زوہان پیشانی مسلتے خود پر ضبط پاتے بولا۔۔۔۔۔ آج اتنے سالوں بات اُس نے اپنی ماں پر ہوئے ظلم کی حقیقت کسی کے سامنے دوہرائی تھی۔۔۔۔

جس سے اس کے زخم ایک بار پھر ادھڑ چکے تھے۔۔۔۔ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں ملک زوبان کو کسی کی ہمدردی کی کبھیضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ اور نہ میں ایسا کر رہی ہوں۔۔۔۔ میں معافی

“مانگنا۔۔۔۔

زنیشہ کے الفاظ ا بھی منہ میں ہی تھے ۔۔۔۔ جب دوسری جانب سے کال

کاٹ دی گئی تھی۔۔۔۔۔

زنیشہ نے آنکھیں پھاڑے موبائل سکرین کو گھورا تھا ۔۔۔۔۔۔ مگر جو کچھ وہ زوہان کو کہہ چکی تھی۔۔۔ اُس سب کا یہ رد عمل تو کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔ وہ زوہان کے غصے سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔ جو اس کے اتنے غلط الزامات لگانے کے باوجود اُسے اچھی خاصی مہلت دے گیا

@@@@@@@@@

حائفہ سامنے کھڑے قاسم میر ان کو اپنے باپ کے روپ میں دیکھتی شاک میں تھی۔۔۔ جس انسان سے وہ اتنا عرصہ بھا گئی آئی تھی آج آخر کار وہ اس تک پہنچ ہی گیا تھا۔۔۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اپنے باپ کے ڈھائے سارے ظلم یاد کرتے اُس نے رُخ موڑ لیا تھا۔۔۔۔

حائفہ بیٹا پلیز ایک بار میری بات سن لو۔۔۔۔

Share with your friends on Facebook


Updated: April 21, 2025 — 11:08 am

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *