In Part 19, the Haifa and Zanisha novel reaches a bold and emotionally intense turning point. This episode brings out hidden desires, deep emotional pain, and the kind of love that fights society’s limits. If you’re a fan of bold love stories in Urdu literature, this part will surely leave an impact.
The storytelling captures both heartache and passion, giving you moments to feel, think, and connect.

Haifa and Zanisha Novel Part 19 – Bold Love Story in Urdu
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 18 – Urdu Novels Online
قاسم صاحب حائفہ کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھ اذیت بھرے لہجے
میں بولے تھے۔۔۔۔
میں آپکی بیٹی نہیں ہوں۔۔۔۔ میرے لیے میرا باپ میری ماں کے ساتھ ہی مر چکا ہے۔۔۔۔ آپ یہ سب کر کے اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔
حائفہ شدت جذبات سے مٹھیاں بھینچے بولی تھی۔۔۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا۔۔۔۔اس شخص سے کہیں دور بھاگ جائے۔۔۔۔ مگر آژ میر کا احساس اُسے ایسا کرنے نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔
حائفہ بیٹا میں جانتا ہوں میں دنیا کا سب سے ظالم باپ ہوں۔۔۔۔ میں نے ” تم لوگوں کو یوں بے آسرا چھوڑ کر بہت بڑا گناہ کیا ہے۔۔۔۔۔ پر بیٹا میں اب تم لوگوں کو تمہاری اصل حیثیت اور مقام دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔ جو تم لوگوں کا حق ہے۔۔۔۔ تم چاہے مجھے معاف نہ کرو۔۔۔۔ مجھ سے نفرت کرنی ہے کرو۔۔۔۔۔ مگر اپنے اصل گھر لوٹنے سے انکار مت کرو۔۔۔۔ میرے لیے
سب سے بڑی تکلیفوں سے بڑی یہی تکلیف ہے کہ میری بیٹیاں بے آسرا ہو کر در بدر بھٹک رہی ہیں۔۔۔۔ اپنے اس گنہ گار باپ کی یہ اذیت ختم
“کردو۔۔۔۔
قاسم صاحب بات کرتے آخر میں رو دیئے تھے ۔۔۔ مگر حائفہ اُن کے حوالے سے اپنا دل نرم کرنے کو بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔ اس نے اپنی ماں کو جس طرح تڑپتے دیکھا تھا اور جس قدر اذیت بھری زندگی اس نے سر کی تھی۔۔۔اس کادل اپنے باپ کے لیے پھر پوچھا
تو کیا آپ کی فیملی اب ایک طوائف کی بیٹیوں کو قبول کرنے کو تیار
” ہو جائے گی۔۔۔۔۔
حائفہ نے اُن کی بات پر گہر اطنز کرتے کہا۔۔
میری آژمیر سے بات ہو چکی ہے۔۔۔ وہ میری خاطر سب کو منالے گا۔۔۔۔ اُس نے وعدہ کیا ہے مجھ سے۔۔۔۔
قاسم صاحب کے منہ سے نکلا نام سن کر حائفہ کو شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔اُس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے پاس کھڑی ماورا کو گھورا تھا۔۔۔ آژمیر میران ان کے سگے بھیجے ہیں۔۔۔ ماورا نے دھیمے لہجے میں حائفہ کی کنفیوژن دور کی تھی۔۔۔
مطلب جس گھراُسے جانے کے لیے بولا جارہا تھا وہاں وہ دشمن جاں بھی
رہتا تھا
رہتا تھا۔۔۔۔ یہ جان کا آژمیر کی دیوانی کو ایک لمحہ لگا تھا پگھلنے میں۔آژمیر سے اُس کا صرف دل کا نہیں بلکہ خون کا رشتہ بھی تھا۔۔۔ یہ احساس ہی حائفہ کے دل میں پھول کھلا گیا تھا۔۔۔ وہ بھلا اس گھر میں جانے سے انکار کیسے کر سکتی تھی جو آژمیر
میر ان کا تھا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ ہم آپ کے ساتھ میران پیلس جانے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ مگر صرف اس شرط پر کہ آپ اس سے زیادہ کی توقع نہیں کریں
” گے مجھ سے۔۔۔۔
ماورا حاعفہ کے فوراً حامی بھرنے پر مسکرادی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ حاعفہ کی اپنے باپ سے بے پناہ نفرت سے بھی واقف تھی اور آژمیرکے لیے محبت
سے بھی۔۔۔۔
مگر آج یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اُس کی آژمیرکے لیے محبت ہر شے سے بڑھ کر تھی۔۔۔ وہ اس کی خاطر اپنے بڑے سے بڑے مجرم کو معاف بھی کر سکتی تھی اور پوری دنیا سے ہمیشہ کے لیے تعلق بھی توڑ سکتی
تھی۔۔۔۔
میران پیلس میں اس وقت بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔ سب گم صم سے سر جھکائے بیٹھے تھے ۔۔۔ کسی کو بھی اپنے کانوں سنی حقیقت پر یقین نہیں آرہا
تھا۔۔۔۔
قاسم میر ان کا ماضی ایسا بھی ہو سکتا تھا۔۔۔ اُن میں سے کوئی بھی یقین نہیں کر پار ہا تھا۔۔۔۔ قاسم صاحب اپنے منہ سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کا اقرار کرتے اب سر جھکائے ہوئے تھے۔۔۔
شمسہ بیگم اور باقی سب نے بھی گھبرا کر حمیرا بیگم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ مگر اُن کے چہرے کا اطمینان بتا رہا تھا کہ وہ پہلے سے ہی سب کچھ جانتی ہیں۔۔۔ یہ بات ان سب سے لیے دوہرے شاک کی بات تھی۔۔۔۔ مجھے آپ کے کیے گئے کسی بھی فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ آپ اپنی بیٹیوں کو اس گھر میں لا سکتے ہیں۔۔۔ اسی بہانے کیا پتا میری ممتا کی پیاس
” بھی بجھ جائے۔۔۔۔
حمیرا بیگم اپنے شوہر کو سب خاندان والوں کے سامنے اس طرح شرمندگی کا شکار ہوتے نہیں دیکھ پائی تھیں۔۔۔اس لیے سب کو حیران چھوڑتیں وہ قاسم صاحب کی خوشی کی خاطر بہت بڑا فیصلہ کر گئی تھیں۔۔۔
حمیرا کیا تم دل سے ایسا چاہتی ہو ؟؟؟
شمسہ بیگم نے حمیرا بیگم کا ہاتھ تھامتے اُن سے پوچھا تھا۔۔۔ جی بھا بھی۔۔۔۔ قاسم کی اولاد میری بھی اولاد ہے۔۔۔۔ میں دل سے چاہتی ہوں کہ وہ اس گھر میں آئیں۔۔۔۔ اگر آپ سب کو کوئی اعتراض نہ ہو
حمیر ابیگم اب کسی صورت گوارہ نہیں کر سکتی تھیں کہ ان کا شوہر مزید اپنی
بیٹیوں کی جدائی میں تڑپے۔
ہم سب کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے چچی جان۔۔۔۔ مگر آژ میر لالہ کیا وہ یہ “
“سب قبول کریں گے۔۔۔۔
زنیشہ کو فوراً آژ میر کی فکر لاحق ہوئی تھی۔۔۔۔ جس کا فیصلہ ہمیشہ ایسے
معاملوں میں کافی سخت رہتا تھا۔۔
زنیشہ کی بات پر سب کی سوچوں کا رخ بدلہ تھا اور سب نے ہی فکر مندی سے قاسم صاحب کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے آژ میر ڈار ئنگ میں داخل ہوا تھا۔۔۔ وہ سب کی باتیں ان چکا
تھا۔۔۔
” مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔۔”
آژ میر کے یہ چند الفاظ سب کے چہروں پر بہار لے آئے تھے۔۔۔ آج اتنے دنوں بعد اُن سب نے قاسم میر ان کی ویران آنکھوں میں آسودگی بھری
چمک دیکھی تھی۔۔۔
اتنے سالوں کی تڑپ کے بعد آج جا کر وہ اپنی بیٹیوں کو اُن کے اصل مقام پر لانے والے تھے۔۔۔ اب آگے کی زندگی اپنے سائے تلے رکھ کر گزارنا
چاہتے تھے۔۔۔۔
واؤ کتنا مزا آئے گا۔۔۔۔اب دو مزید کزنز بھی آنے والی ہیں گھر میں ۔۔۔۔ زنیشہ کی شادی پر توانجوائمنٹ مزید دوبالا ہو جائے گی۔۔۔۔
صدف کے چہک کر کہنے پر زنیشہ نے اپنی کے ذکر کر گھور کر اُس کی جانب
دیکھا تھا۔۔۔
اس کی شادی تو مزید ایک ویک لیٹ ہو چکی تھی نا۔۔۔ زنیشہ نے سوالیہ نظروں سے شمسہ بیگم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ ان سب باتوں میں میں آپ لوگوں کو ایک بات بتانا ہی بھول گئی۔۔۔۔” میری نفیسہ بہن سے آج صبح ہی بات ہوئی ہے۔۔۔۔ وہ لوگ شادی کو ایک ہفتہ لیٹ نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ شادی انہیں پہلی تاریخوں پر ہی
ہو گی۔۔۔۔ شمسہ بیگم کی بات زنیشہ کی سانسیں روک گئی تھی۔۔۔ زوہان اُس پر ان قدر کی شدید غصہ تھا۔۔۔اس دوران شادی۔۔۔ خوف کے مارے زنیشہ ابھی سے ہی کانپنے لگی تھی۔۔۔ جس انسان کے سامنے وہ تھوڑی دیر نہیں ٹک پاتی تھی۔۔۔ اُس کی لمحہ بھر کی قربت جان لیوا ثابت ہوتی تھی۔۔۔ ہمیشہ کے
لیے اس کے ساتھ کیسے رہے گی وہ۔۔۔۔
آگے کا سوچتے زنیشہ ہولے ہولے لرزنے لگی تھی۔۔۔اس نے اُمید بھری نظروں سے آژ میر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ کیا پتا وہ کوئی اعتراض
اُٹھائے۔۔۔۔ مگر قاسم صاحب کے ساتھ کوئی بات کرتے اس نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا تھا۔۔۔۔ جس کا یہی مطلب تھا کہ آژ میر سے پوچھ کر ہی شمسہ بیگم نے ایسی کوئی بات کہی تھی۔۔۔۔
زنیشہ کی ساری اُمید میں ختم ہو چکی تھیں۔۔۔۔ اب اُسے اُس جلاد کے شکنجے
سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔۔۔۔
سب خواتین تو ایک دم سر پے آجانے والی شادی کے بارے میں ڈسکس
کرنے لگی تھیں۔۔۔۔
جب کوئی فون سنتے آژ میر جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔۔۔۔ اُس کے تاثرات ایک دم
سرد ہوئے
۔۔۔ باقی سب بھی پریشانی سے اُسے دیکھ رہے
“اوکے میں ابھی پہنچتا ہوں۔۔۔۔۔”
آژ میر کے ماتھے پر واضح شکنوں کا جال بن چکا تھا۔۔۔ ” کیا ہوا آژ میر سب خیریت ہے ؟؟؟”
قاسم صاحب فکر مندی سے بولے تھے۔۔۔
جی سب ٹھیک ہے۔۔۔۔ ایک ضروری کام کے لیے مجھے ابھی شہر کے “
” لیے نکلنا ہو گا۔۔۔۔
آژ میر کی بات پر سب نے اداسی بھری نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
اتنے دنوں بعد تو وہ میران پیلس میں پایا گیا تھا۔۔۔۔ مگر اب تھوڑی دیر میں
پھر واپس جارہا تھا۔۔۔۔
آژ میر مجھے بھی آپ کے ساتھ شہر جانا ہے۔۔۔ پلیز مجھے بھی لیتے جائیں۔۔۔ ابھی کچھ دیر میں اندھیرے ہونے والا ہے تو ڈرائیور کے ساتھ
” جانا۔۔۔۔
اچانک سویرانے وہاں آتے آژمیر کے بازو پر ہاتھ رکھتے ملتجی لہجے میں
ریکوسٹ کی تھی۔۔۔
اُسے اپنی حویلی میں دیکھ آثر میر نے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے تھے۔۔۔
اور اس کے ساتھ ساتھ ایک سخت نظر باقی سب پر ڈالی تھی۔۔۔ جنہوں نے
اس لڑکی کو یہاں جگہ دی تھی۔۔۔
” سٹے اوے۔۔
آژمیر ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ بازو سے دور کیا تھا۔۔۔ جس پر سویرا
لڑکھڑا کر چند قدم دور ہوئی تھی۔۔۔
آژمیر کی دھاڑ پر باقی سب بھی اپنی جگہوں سے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔
جن پر ایک سر و نگاہ ڈالتا آژمیر وہاں سے نکل گیا تھا۔
سویراشر مندہ سی لال چہرا لیے وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔ آژمیر میران اتنی جلدی کسی کی خطا معاف نہیں کرتا تھا۔۔۔ اسی لیے سب اُس کے سامنے غلطی کرنے سے ڈرتے تھے۔۔۔ کیونکہ اُس کے بعد سخت ترین مرحلہ آژمیر میران نے معافی مانگنا ہوتا تھا۔۔۔ جو قسمت کے ساتھ ہی جا کر ملتی
تھی۔۔۔۔
میں نے آپ سب سے کہا تھا اس لڑکی کو لالہ سے دور ہی رکھیں۔۔۔۔ اب دیکھیں بلاوجہ آژمیر لالہ ہم سب پر بھی ناراض ہو کر چلے گئے۔۔۔۔ زنیشہ کو آژ میر کی لال آنکھیں فکر میں مبتلا کر رہی تھیں۔۔۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ سب سویرا کی وجہ سے نہیں تھا۔۔۔ آژمیر کی اس بے چینی کی وجہ وہ لڑ کی ہی تھی۔۔۔ جو اُس کے بھائی کو چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔۔۔ زنیشہ کا دل چاہا تھا اُس لڑکی کو ڈھونڈ کر اُس کا منہ توڑ دے۔۔
@@@@@@@@
بیٹا تم فکر مت کر وسب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ میرے آدمی مسلسل اُن لوگوں کی تلاش میں ہیں۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں جلد ہی اپنی بہو کو ڈھونڈ کر
” رہوں گا۔۔۔۔
شہاب درانی منہاج سے فون پر بات کرتے اسے تسلی دیتے بولے۔۔۔۔
بابا میں واپس آرہا ہوں۔۔۔ میں کوشش کے باوجود اپنے کسی کام پر توجہ
نہیں کر پا رہا۔۔۔ پتا نہیں
ماورہ کس حال میں ہو گی۔۔۔ یہ خیال مجھے سکون نہیں لینے دے
” رہا۔۔۔۔۔
منہاج کی اُداسی بھری آواز اُس کا حال دل بیان کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ اس وقت کتنی تکلیف میں تھا۔۔۔ اس بیان کرنا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔
منہاج بیٹا میں سمجھ رہا ہوں اس سیچویشن میں آپ کے لیے وہاں رہنا کتنا ” مشکل ہو رہا ہے۔۔۔ لیکن بیٹا مجھ پر ٹرسٹ رکھو۔۔۔ اور تھوڑا سا مزید وقت دو مجھے ۔۔۔ میں سب ٹھیک کر دوں گا۔۔۔۔ ویسے بھی تھوڑا سا ٹائم ہے تمہار ا مزید وہاں۔۔۔۔ تم جلدی سے وہ سب نبٹاؤ۔۔۔۔اور مجھ پر بھر وسہ ” رکھو۔۔۔ یہاں آکر تمہیں اچھی خبر ہی ملے گی۔
شہاب درانی منہاج کو سمجھاتے ہوئے بولے۔۔۔ وہ اپنے بیٹے کو کوئی بھی جذباتی فیصلہ اُٹھا کر اپنا مستقبل خراب کرنے نہیں دینا چاہتے تھے۔۔۔
با با پلیز۔۔۔ کچھ بھی کر کے ڈھونڈیں اُسے۔۔۔۔ میں بہت محبت کرتا
ہوں اُس سے۔۔۔ نہیں رہ پاؤں گا اُس کے بغیر ۔۔۔
منہاج کی آواز سے لگ رہا تھا جیسے ابھی رودے گا۔۔
شہاب درانی نے اسے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اُن کی پریشانی کئی
گناہ بڑھ گئی تھی۔۔۔
منہاج کو بہت ساری تسلیاں دے سکتے
یقین دلاتے وہ فون بند کر گئے۔۔
منہاج موبائل بیڈ پر اُچھالتا سرد ہوا میں ٹیرس پر آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اُسے اب احساس ہو رہا تھا ماورا کی فیلنگز کا۔۔۔اُسے تب کیسا محسوس ہوا ہو گا۔۔ جب منہاج نے بنا کسی قصور کے اُسے اتنی بڑی سزادی تھی۔۔۔ ماورا کی اُس ریکارڈنگ میں کہی گئی باتیں منہاج کے کانوں میں گونجتی اُسے بے چین کر جاتی تھیں۔۔۔ وہ اس سب پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔۔۔
مگر وہیں دوسری طرف دماغ کی تاویلیں اُسے دوسرے رُخ پر سوچنے پر مجبور کر رہی تھیں۔۔۔۔ لیکن پھر بھی اُسے ایک بات کی طرف سے سکون تھا کہ ماورا اُس کے نکاح میں تھی۔۔۔۔وہ چاہ کر بھی اُسے دھوکا دے کر کسی
اور کی نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
آج تو جیسے آژمیر آشیانے میں رونقیں اتر آئی تھیں۔۔۔۔ آژمیر کے علاوہ میران پیلس کے تمام افراد پوری عزت و احترام اور چاہت کے ساتھ اُن دونوں کو لینے آئے تھے۔۔۔۔ اورماور اتو اتنا بھرا پر خاندان دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کی بچپن سے یہ ایک بہت بڑی خواہش رہی تھی کہ اس کا بھی ایسا ہی ایک خاندان ہو۔۔۔۔ جہاں بہت سارے کزنز ہوں۔۔۔۔جو
آج پوری ہو چکی تھی۔۔۔۔
حاعفہ ماورا کو خوش دیکھ کر خوش تھی۔۔۔۔
سب اُن سے بہت محبت سے ملے تھے۔۔۔ جس پر حائفہ نے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے اُن کی گرمجوشی کا جواب انہیں کے انداز میں دیا تھا۔۔۔۔ اُس کا پر ابلم صرف اپنے باپ سے تھا۔۔۔۔ جس کے لیے وہ باقی سب کو کسی بھی بات کا قصور وار نہیں جھتی تھی۔۔۔
خاندان کے تقریباً سبھی لوگ آئے تھے۔۔۔ آژ میر کو اُن میں نہ دیکھ ۔۔۔۔
ڈری
حاعفہ کافی حد تک نارمل ہوتی۔۔۔۔سب سے
اچھی طرح بات کر رہی تھی۔۔۔
آپ بہت بیوٹی فل ہو ۔۔۔۔ اور کیوٹ بھی معصومیت اور حُسن کا ملاپ کتناد لکش ہوتا ہے آپ کو دیکھ کر صاف پتا چل رہا ہے ۔۔۔۔ اور آپ
” کی سمائل بھی بہت پیاری ہے۔۔۔۔
زنیشہ کو دھیمی نرم مسکراہٹ والی حائفہ بہت پسند آئی تھی۔۔۔
اُس کی اتنی تعریف پر حائفہ ہولے سے مسکرادی تھی۔۔۔ جس پر اُس کے گالوں کے گڑھے واضح ہوئے تھے ۔۔۔ اس کے ہونٹوں کے اوپری تل کی
اُداسی بہت حد تک ختم ہو چکی تھی۔۔۔
آپ خود بھی کسی سے کم نہیں ہو ۔۔۔۔ “
حائفہ اس کی حسین آنکھوں کی جانب دیکھتی دل سے بولی تھی۔۔۔ آپی یہ سب لوگ بہت اچھے ہیں مگر آپ کی ساس اور نند تو بہت زیاد وا چھیہیں۔۔۔ کس قدر لکی ہیں آپ۔۔۔۔
ماور اُس کے کان میں سر گوشی کرنے سے باز نہیں آئی تھی۔۔۔ شٹ اپ ماورا۔۔۔۔ کسی نے سن لیا تو ۔۔۔۔ ؟؟ پہلے تو میں بچ گئی تھی مگر اب کی بار آژمیر میران نے میرا قتل کر کے چھوڑنا ہے۔۔۔۔ حاعفہ نے اُسے سختی سے ٹوک تھا۔۔۔
آپ کے حسن کے آگے اُن کے اپنے گھائل ہونے کے چانسز ہیں۔۔۔” کرنے کے نہیں۔۔۔ ویسے بھی دیکھیں۔۔۔ آپ کی دلکشی کی وجہ سے
خاندان کے کسی فرد کی نگاہیں بھی آپ سے نہیں ہٹ رہیں۔۔۔ میں تو حیران ہوں اپنے جیجو پے کہ ایسے کیسے آپ کو دور رکھا ہوا آپ کو خود
ماورا بولنے سے باز نہیں آئی تھی۔۔۔
اور یہ سچ بھی تھا۔۔۔ حائفہ کا بے پناہ حسن ہمیشہ ہر جگہ اُسے نگاہوں کا مرکز بنادیتا تھا۔۔۔ اس کے تیکھے دلکش نقوش تو ویسے ہی قیامت خیز تھے مگر اس کے دودھیا نرم و ملائم ہاتھ پیر بھی سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے
تھے۔
وہ ایک کانچ کی حسین گڑیا ہی لگتی تھی۔۔۔ جسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اندر سے کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ۔۔۔ جسے جوڑنے کا ہنر صرف ایک انسان کے پاس ہی تھا۔۔۔۔ اور وہ تھا حاعفہ کا وہ ستمگر آژ میر میران۔۔۔۔ پوری دنیا جس لڑکی کے حسن کی اسیر تھی وہ دیوانی لڑکی
صرف آژمیر میر ان کے قدموں میں بچھنا چاہتی تھی۔۔۔اور اُسی دشمن جاں پر دل و جان سے مرتی تھی ۔۔۔۔
کافی دیر کی گپ شپ اور ڈنر کے بعد وہ سب حائفہ اور ماورا کو اپنے ساتھ لیے میران پیلس کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔۔۔
اُن دونوں کی سب کے ساتھ اچھا خاصہ میل جول بن چکا تھا۔۔۔۔ گھر کے سب افراد کو بھی وہ بہت پسند آئی تھیں۔۔۔ ایک طوائف کی بیٹیوں کے ناطے جیسا وہ اُن کے بارے میں اندازے لگائے بیٹھے تھے وہ سب غلط ثابت
ہوئے تھے۔۔۔
وہ دونوں ہی انہیں بہت ہی سلجھی ہوئی اور باوقار سی لگی تھیں۔۔۔۔سب کو ہی وہ بہت پسند آئی تھیں۔۔۔ مگر وہیں سویرا کو حائفہ کے حُسن کے قصیدے آگ لگا گئے تھے۔۔۔۔ شمسہ بیگم اور زنیشہ کی نگاہوں میں حائفہ کے لیے اتنی پسندیدگی دیکھ اسے کچھ غلط ہونے کا الارم مل رہا تھا۔۔۔۔
مجھے جلد از جلد آژمیر سے معافی مانگ کر ۔۔۔ واپس سے اُس کی زندگی میں جگہ بنانی ہو گی۔۔۔ اس سے پہلے کہ حائفہ کا جاد و آژمیر میران پر بھی چڑھ جائے۔۔۔ جتنی معصوم یہ لڑکی بن رہی ہے۔۔۔۔ ہے نہیں۔۔۔۔ اسے اپنے حُسن کا اچھے سے اندازہ ہے۔۔۔۔اور جس طرح یہ خاندان کے باقی لڑکوں کو لفٹ نہیں کروار ہی اُس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آژمیر پر ہی لوٹو ہو گی۔۔۔۔۔ مگر میں یہ نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔
سویرا دل ہی دل میں حائفہ کے خلاف پلاننگ شروع کر چکی تھی۔۔۔ اُسے حائفہ سے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ وہ حائفہ کو آژ میر سے دور ہی رکھنا
چاہتی تھی۔۔۔
اس بات سے انجان کے آژ میر میر ان پر تو بہت پہلے ہی حائفہ نور کا جادو چل چکا تھا۔۔۔ اب ان سب حد بندیوں کی ضرورت دونوں کے لیے نہیں
تھی
@@@@@@@@@
آژمیر گاڑی کی سیٹ سے سر ٹکائے اپنے اندر اٹھتے اضطراب پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ جب گاڑی اچانک ایک جھٹکے سے لڑکی تھی ۔۔۔
” کیا ہوا فیصل۔۔۔۔؟؟”
آر میر نے آنکھیں کھولتے ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے فیصل کو
مخاطب کیا تھا۔۔۔۔ سر وہ ملک زوہان
فیصل نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔۔۔ زوبان اپنی گاڑی اُن کی گاڑی کے بالکل سامنے کھڑی کرتے ان کا راستہ روکتے اب
گاڑی سے نکل آیا تھا۔۔۔۔
اُس کی یہ حرکت آژمیر کا دماغ گھما گئی تھی۔۔۔
گاڑی سے نکلتے وہ طیش کے عالم میں اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جو بڑے مزے سے گاڑی کے دروازے سے ٹیک لگائے اُس پر نگاہیں گاڑھے کھڑا
تھا۔۔۔۔
کیوں اپنی موت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو ۔۔۔۔ میں اپنے ہاتھ
گندے نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔
آژمیر نے آگ اگلتی نگاہوں سے اُسے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔
یا تو یہ کام کر کے اپنے ہاتھ گندے کر لو یا پھر میرا مجرم میرے حوالے”
” کر کے مجھے میرے ہاتھ گندے کرنے دو۔۔۔
زوبان آژمیر کی نسبت نارمل لہجے میں بولا تھا۔۔۔
اُس کا اشارہ فیاض میران کی جانب تھا۔۔۔۔ جو کومہ میں تھے اور آژمیر نے انہیں زوبان سے بچا کر کسی خفیہ جگہ پر رکھا ہوا تھا۔۔۔ سیکیورٹی کے تحت گھر کے کسی بھی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی سوائے آژمیر
کے ۔۔۔۔۔
زوہان کی آژمیر سے نفرت کرنے کی یہی وجہ تھی۔۔۔ کہ آژمیر نے اس کی ماں کے قاتل ملک فیاض کے پناہ دینے کے ساتھ ساتھ ، ان کے اس جرم کے ہمراز میران پیلس کے باقی افراد کو بھی اپنی حفاظت میں رکھا ہوا تھا۔۔۔
یہ دشمنی یہاں سے شروع ہونے کے بعد باقی بہت سے واقعات کے ساتھ
آہستہ آہستہ بڑھتی گئی تھی۔۔۔۔
اور اب آگے نجانے مزید کتنی تباہی خود میں سمیٹے کس موڑ تک پہنچنے والی تھی
کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
میرے سامنے میرے باپ کے مجرم ہونے کا ثبوت پیش کرو۔۔۔ میں
تمہاری بات مان جاؤں گا۔۔۔۔
آژ میر کا لہجہ ہنوز سرد تھا۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی ماں کو زندگی جلتے دیکھا ہے۔۔۔۔ اس سے ” بڑا ثبوت میرے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
یہ الفاظ ادا کرتے زوبان کی آنکھیں لہو رنگ ہوئی تھیں۔۔ میں نہیں مانتلاس ثبوت کو۔۔۔۔
آژ میر اُس کی جانب سے نگاہیں پھیر چکا تھا۔۔۔۔
اتنے ظالم مت بنو آژ میر میران۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو زندگی تم سے بھیتمہاری کوئی قیمتی شے چھین لے۔۔۔ اور میری طرح اُس پر رونے نڑاپنے
” کے سوا کچھ نہ کر سکو۔۔۔
زوہان کی بات پر حائفہ کے چہرا آژ میر کی نگاہوں کے سامنے جھلملا گیا۔۔اس کے دل میں عجیب
بے چینی گھل گئی تھی۔۔۔
تھا۔۔۔
” بد دعادے رہے ہو مجھے۔۔۔۔؟؟
آژ میر نے طنز یا نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تمہیں میری اس اذیت اور درد کا ” اندازہ ہو۔۔۔ جس کی وجہ سے میں اتنے سالوں سے تڑپتا آرہا ہوں۔۔۔۔ زوہان اُس پر ایک زخمی نگاہ ڈالتا گاڑی میں بیٹھتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ آژ میر کتنی ہی دیر اُس جگہ پر کھڑ از وہان کی گاڑی کے پیچھے اُڑتی دھول کو
دیکھتارہا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
کل زنیشہ کی مایوں تھی جس کے بعد لگاتار شادی کے باقی فنکشن شروع ہو جانے تھے۔۔۔۔ جہاں گھر کے باقی تمام افراد زوہان اور زنیشہ کی شادی کو لے کر بہت زیادہ ایکسائیٹنڈ تھے۔۔۔ وہیں زنیشہ کی خوف کے مارے جان
آدھی ہو چکی تھی۔۔۔
جب بھی آنے والے لمحوں کا سوچتی تھی تو اس کی روح فنا ہونے لگتی
حائفہ بھی پوری طرح شمسہ بیگم اور گھر کی باقی خواتین کا کام میں ہاتھ بٹار ہی تھی۔۔۔ جبکہ ماور اگھر ساری ینگ پارٹی کے ساتھ ہلا گلا کرنے میں مصروف
حاعفہ جب سے یہاں آئی تھی اُس کے بعد سے آژ میر ایک بار بھی وہاں نہیں آیا تھا۔۔۔ جہاں یہ بات حائفہ کے لیے تسلی بخش تھی وہیں اس کا دل اُس سے بغاوت کرتا آژ میر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔۔۔
مگر اُس ظالم شخص کو اپنی اس پاگل دیوانی پر زرا برابر رحم نہیں آرہا تھا
شاید۔۔۔۔
” بھا بھی آژ میر نے کب تک آتا ہے۔۔۔ کچھ بتا یا اس نے۔۔۔۔” حمیرا بیگم کو اچانک آژ میر کا خیال آیا تھا۔۔۔ کیونکہ خاندان کے تقریباً تمام لوگ ہی میران پیلس پہنچ چکے تھے سوائے آژ میر کے۔۔۔۔
آژ میر کے نام پر دوپٹے کی لیس ٹانکتی حائفہ نے بے دھیانی میں سوئی اپنی
انگلی میں گھسادی تھی۔۔۔۔
اُن کے ہاں
بہن کی مہندی کا جوڑا خاص طور پر گھر کی خواتین
اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی تھیں۔۔۔ اس وقت وہ سب ڈرائنگ روم میں
بیٹھیں اسی کام میں مصروف تھیں۔۔۔
“کیا ہوا بیٹا آپ ٹھیک ہو ؟؟؟”
حمیرا بیگم حائفہ کی سسکاری پر فکر مندی سے بولی تھیں۔۔۔
” حج جی میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔”
شمسہ بیگم کی جانب سے اُن کا جواب سننے کی منتظر حاعفہ نے جلدی سے
جواب دیا تھا۔۔۔۔
بالکل آژ میر کا اس شادی کے تمام فنکشن میں ہو نا بنتا بھی ہے۔۔۔ آخر کو اس کی لاڈلی بہن کی شادی ہے۔۔۔۔۔
آمنہ بیگم نے بھی بیچ میں حصہ ڈالا تھا۔۔۔ حاعفہ کو اس وقت یہ تمام خواتین پہلے سے بھی زیادہ اچھی لگی تھیں۔۔۔
ہاں میری آج صبح ہی بات ہوئی ہے آژ میر ہے۔۔۔۔ وہ آج یا کل تک پہنچ جائے گا۔۔۔۔ زنیشہ کے کسی معاملے میں اس نے کبھی کو تا ہی نہیں کی۔۔۔
“اب اتنے اہم موڑ پر بھلا کیسے کر سکتا ہے۔۔۔
شمسہ بیگم کے لہجے میں اپنے بیٹے کے لیے بے پناہ محبت تھی ۔۔۔۔ ہاں یہ تو سچ ہے۔۔۔۔ اپنی زمہ داریاں کیسے نبھائی جاتی ہیں آژ میر سے بہتر
“کوئی نہیں جانتا ہو گا۔۔۔۔۔
حمیرا بیگم بھی آژ میر کی تعریف کر تیں فخریہ لہجے میں بولی تھیں۔۔۔
آژ میر میر ان ہر معاملے میں اول نمبر پر تھا۔۔۔۔ حائفہ تو پہلے ہی اس شخص کے عشق میں پاگل تھی۔۔۔ یہ سب باتیں تو اس کی دیوانگی میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ آژ میر کی آمد کے خیال سے اُس کا دل ابھی
سے ہی بُری طرح دھڑکنا شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔
کام کے خوش گپیوں میں مصروف جب حاشر گھبرایا ہوا ہاتھ
میں موبائل پکڑے نیچے اترا
تھا۔۔۔
“کیا ہوا حاشر ۔۔۔۔؟؟؟”
سب سے پہلے شمسہ بیگم کی نظر ہی اُس پر پڑی تھی۔۔
وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ زوبان لالہ کی گاڑی پر حملہ ہوا ہے۔۔۔۔۔ حاشر شدید پریشانی کے عالم میں بولتا دروازے میں کھڑی زنیشہ کی دھڑکنیں
ساکت کر گیا تھا۔۔۔
ز وہان۔۔۔۔ ز وہان ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔؟؟؟”
یہ خبر باقی سب پر بھی قیامت بن کر ٹوٹی تھی۔۔۔
” ان کے ڈرائیور کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔۔۔۔ اور ز وہان لالہ ۔۔۔۔”
حاشر کی پوری بات سننے سے پہلے ہی زنیشہ اپنے حواس کھوتے زمین بوس
ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
آژمیر فون کان سے لگائے ساکت بیٹھا تھا۔۔۔ اُسے لگا تھا جیسے کسی نے اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو۔۔۔
أسے فیصل کی کال موصول ہئی
جس کہ مطابق زوہان کی
گاڑی پر ہوئی فائرنگ کے نتیجے میں۔۔۔ اس کے ڈرائیور اور گارڈ کے ساتھ
ساتھ زوہان بھی جگہ پر دم توڑ چکا ہے۔۔۔۔
یہ کوئی خبر تھی یا قیامت برسی تھی اس پر۔۔۔۔۔
” جلدی سے ہاسپٹل چلو۔۔۔۔ گو فاسٹ ۔۔۔
آژمیر شدت ضبط سے چیخا تھا۔۔۔۔
ڈرائیور نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے گاڑی ہاسپٹل کے راستے پر موڑ دی
تھی۔۔۔
اگر کوئی اس وقت آژ میر کی لال آنکھیں دیکھ لیتا تو کبھی یقین نہ کر پاتا کہ اُسی ملک زوہان کے ساتھ اتنے سالوں سے وہ کیسی دشمنی نبھاتا آیا تھا۔۔۔۔ آژ میرکے لیے اس وقت دنیا اندھیر ہو چکی تھی۔۔۔ وہ پہلے اپنے باپ کو
نہیں بچا پایا تھا۔۔۔
مگر اب اپنے بھائی کو اُسی مقام پر نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔اس ایک خبر پر اس کی نفرت کہیں دور جاسوئی تھی۔۔۔
ہاسپٹل کے آگے گاڑی رکتے ہی وہ باہر نکلتا تیز رفتاری سے اندر کی جانب بھاگا تھا۔۔۔ ارد گرد موجود گارڈز اور باقی لوگوں کی اُسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ وہ بس اندھادھند اندر بھاگ رہا تھا۔۔۔ نرس کے بتانے پر وہ دائیں جانب موجود کو ریڈور کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جس طرف آئی سی یو تھا۔۔۔
” زوہان۔۔۔۔۔”
وہ اُونچی آواز میں چلا یا تھا۔۔۔ جب سامنے ہی خون آلود لباس میں ملبوس ڈاکٹر کے ساتھ پریشانی کے عالم میں بات کرتے زوہان نے اپنے نام کی اس
بے قراری بھری صدا پر پلٹ کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ اِس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا یا بولتا ۔۔۔ آژمیر آگے بڑھتا اسے بغل گیر ہو چکا تھا۔۔۔ زوبان کو کے گرد بازو پھیلائے وہ اس کے صحیح سلامت ہونے
کا یقین کر رہا تھا۔۔۔۔
ویسے ہی جیسے بچپن میں زوہان پر اپنے بڑے ہونے کا رعب جماتے آژمیر
اُس کو پروٹیکٹ کیا کہ سا تھا ۔۔
زوہان کتنے ہی لمحے بل بھی نہیں پایا تھا۔۔۔
تم ٹھیک ہو ؟؟؟” آژمیر جو بُری خبر سن چکا تھا اُس کے بعد زوہان کو یوں سہی سلامت کھڑے دیکھنا اس کے لیے کس قدر سکون کا باعث تھی وہ بیان نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
” میں بالکل ٹھیک ہوں آژ میر ۔۔۔۔۔”
زوہان آژ میر کا یہ روپ دیکھتا کافی دیر بعد وقتوں سے بول پایا تھا۔۔۔۔ زوہان کی آواز نے آثر میر کو فوراً حقیقت میں لا پنچا تھا۔۔۔۔۔ وہ ایک ہی جھٹکے میں پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔ زوہان یک تک اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جبکہ اسے زندہ سلامت وہاں موجود دیکھ آژمیر کی سانسیں بحال ہوئی
تھیں۔ ابھی جو کچھ گزرے لمحوں میں
ہوا ۔۔۔۔ آژ میر کی اپنے لیے دلی کیفیت
جو اُجاگر ہوئی تھی۔۔
اُس نے زوہان پر بھی گہر انشان چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
دونوں اس وقت ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے عجیب سی کیفیت
کا شکار تھے۔
“سروہ۔۔۔۔”
فیصل آژ میر کو غلط خبر پہنچانے پر شر مندہ سااُس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔ مگر اس کے قریب آتے ہی آژ میر کا پڑنے والا تھپڑ فیصل کا منہ دوسری جانب
پھیر گیا تھا۔۔۔
سر آئم سوری۔۔۔
فیصل کو اپنی غلطی کی سنگینی کا اندازہ تھا۔۔۔ اس نے بنا تصدیق کیے اتنی غلط خبر پہنچائی تھی۔۔۔۔ جس پر وہ نادم ساسر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔ گیٹ لاسٹ ۔۔۔۔۔”
آژ میر اتنے عرصے میں پہلی بار فیصل پر چلایا تھا۔۔۔
زوہان بنا کچھ بولے خاموشی سے کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا کہ آژمیر کے اس طرح غصے کرنے کی کیا وجہ تھی۔۔۔ زوہان کے حوالے سے ایسی جھوٹی خبر کے ساتھ ساتھ ، آژ میر کو زوہان پر اس کے لیے اپنی فکر آشکار ہونا بھی کھل رہا تھا۔۔۔
جس کا غصہ وہ فیصل پر نکال رہا تھا۔۔۔
لمحے بھر کو ایک مسکراہٹ زوہان کے ہونٹوں پر ابھری تھی۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے معدوم بھی ہو چکی تھی۔۔۔
مجھ پر حملہ کروایا ہے اکرام حنیف نے۔۔۔ شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد سے وہ و ھمکیاں دے رہا تھا۔۔۔۔اور آج اُس پر عمل پیرا ہو کر اپنی درد ناک موت کو مزید یقینی بنادیا ہے۔۔۔ میر ے ڈرائیور کی ڈیتھ ہو چکی ” ہے۔۔۔ اور گارڈ کی کنڈیشن کافی سیر میں ہے۔۔۔۔
زوہان نے رخ موڑے آژمیر کو ساری حقیقت بتادی تھی۔۔۔ اتنے سالوں میں پہلی بار وہ دونوں اِس طرح نارمل انداز میں بات کر رہے تھے۔۔۔ جسے دیکھ اُن کے ارد گرد کھڑے اُن کے خاص آدمی فیصل اور حاکم تقریبا کو مہ
میں جاچکے تھے۔۔۔۔
کیونکہ اُن کے لیے یہ بات معجزے سے کم نہیں تھی۔۔۔ اگر ز نیشہ یہ سب دیکھتی تو خوشی سے پاگل ہوا ٹھتی۔۔۔۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ درمیان میں چاہے جتنی دشمنی سہی وہ دونوں بھائی تھے۔۔۔۔ کوشش کے باوجو د بھی ایک دوسرے کو تکلیف میں دیکھ
خود کو روک نہیں پاتے تھے۔۔۔
اکرام حنیف کے نام پر آژ میر نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں ۔۔۔ اب اس شخص کو سبق سیکھانے کا وقت آگیا تھا۔۔۔۔
آژمیر یہاں صرف زوہان کی خاطر آیا تھا۔۔۔ اسے اپنی آنکھوں سے سہی سلامت دیکھ وہ بنا مزید کوئی بات کیسے واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔ زوہان کی نظروں نے اس کے منظر سے اوجھل ہوتے تک اس کا پیچھا کیا تھا۔۔۔۔ وہ چند پل کے لیے آژ میر کے حوالے سے نرم پڑا تھا۔۔۔ مگر اپنے بھیانک ماضی کا خیال آتے ہی اُس کے نقوش سختی سے تن گئے تھے۔۔۔ یہ وہی شخص تھا جو اس کی ماں کے قاتل کو پناہ دیئے ہوئے تھا۔۔ وہ بھلاس انسان کے سامنے کیسے نرم پڑ سکتا تھا۔۔۔ جو اس کی تکلیف دیکھنے کے باوجود اُس کے آگے ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔۔
ڈاکٹر نے آکر زوہان کو گارڈ کے خطرے سے باہر ہونے کا بتایا تھا۔۔۔اُس کے ڈرائیور کی ڈیڈ باڈی اُس کے گھر میں پہنچادی گئی تھی۔۔۔ زوبان لہو
رنگ آنکھیں لیے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
چاہے جو بھی ہوتا۔۔۔ خسارہ ہمیشہ اسی کی قسمت میں لکھا ہوتا تھا۔۔۔۔ وہ ہر شے پر سمجھوتا کر سکتا تھا۔۔۔۔ چاہے اس سے سب کچھ چھین لیا جاتا وہ رہ لیتا۔۔۔ مگر ز نیشہ میر ان کے بغیر وہ نہیں رہ سکتا تھا اب۔۔۔۔ اور نہ کسی کو اتنی پاور دینے والا تھا کہ کوئی اس سے زنیشہ میران کو چھینتا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
میری جان ابھی آژمیر سے بات ہوئی میری۔۔۔۔ زوبان بالکل ٹھیک
” ہے۔۔۔
زنیشہ نے ہوش میں آتے ہی زوہان کو پکار ناشروع کر دیا تھا۔۔۔ اُس کی زوہان کے لیے ایسی دیوانگی دیکھ وہاں موجود گھر کے سبھی افراد حیران ہونے
کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوئے تھے۔۔۔
زنیشہ اس قدر چاہتی تھی زوہان کو کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔ وہ کسی کے بھی بتانے پر یقین نہیں کر رہی تھی۔۔۔ وہ زوہان سے ملنا اور اپنی
آنکھوں سے اسے دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔
زوہان کو کال کرنے کے لیے اُس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اُٹھایا تھا۔۔۔ وہاں حاکم کی جانب سے موصول ہوا نوٹیفیکشن دیکھ ۔۔۔ ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیسے زنیشہ نے وہ اوپن کیا تھا۔۔۔ جہاں جگمگاتی تصویر اس کو بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔
کیا ہو از نیشہ تم ٹھیک ہو ؟؟؟” فریجہ اسے اچانک روتے سے مسکر اتادیکھے فکر مندی سے بولی تھی ۔۔۔۔ باقی سب نے بھی حیرت بھری نظروں سے زنیشہ کو دیکھا تھا۔۔۔ جس پر زنمیشہ نے مسکراتے موبائل کی سکرین اُن سب کی جانب موڑ دی تھی۔۔۔ جہاں حاکم نے اُن دونوں کا گلے لگنے والا لمحہ قید کر کے زنیشہ کو سینڈ کیا ہوا
تھا۔۔
” مطلب ان دونوں کی صلح ہو گئی۔۔۔؟؟؟” حمیرا بیگم خوشی سے بول بھی نہیں پائی تھیں۔۔۔
صلح نہیں ہوئی۔۔۔۔ یہ صرف اتنی دیر کے لیے ہی تھا۔۔۔” کمرے میں داخل ہوتے حاشر نے سب کی خوش فہمی پر پانی پھیر دیا تھا۔۔۔
کوئی بات نہیں۔۔۔ اگر اتنی تبدیلی آئی ہے۔۔۔ تو میر اپر ور دگاراندونوں کے دل ایک دوسرے کے لیے مزید نرم بھی کر دے گا۔۔۔۔ شمسہ بیگم پر امید لیے میں بولتیں باقی سب کا بھی حوصلہ بڑھا گئی تھیں۔۔۔ موبائل سکرین سینے سے لگاتے زنیشہ نے آسودگی سے آنکھیں موند لی تھیں۔۔۔ اب وہ ان دونوں کو قریب لا کر ہی سکون سے میٹھنے والی تھی۔۔۔
@@@@@@@@@
زنیشہ کو مایوں بیٹھا دیا گیا تھا۔۔وہ ایک بار زوہان سے ملنا چاہتی تھی۔۔ مگر گھر میں شادی کا جو ماحول بنا ہوا تھا۔۔۔ اُس کے بعد تو ز وہان سے ملنا ویسے ہی
اُس کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔۔۔۔
نجانے کتنی بار وہ اسے کال کر چکی تھی ۔۔۔ جو وہ کھڑوس شخص اٹینڈ کرنے کا
نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔
باقی سب لڑکیاں بھی اس وقت پوری تیاری کے ساتھ اُس کے کمرے میں موجود تھیں۔۔۔ نیچے فنکشن کی ارینجمنٹ کی جاچکی تھیں۔۔۔ یہ فنکشن خاص طور پر عورتوں کا تھا اس لیے مرد حضرات اپنی الگ محفل سجائے باہر
لان میں تشریف فرما تھے۔۔۔
صدف پلیز میری ہیلپ کر دو۔۔۔ میں ان میں سے کونسے ائیر نگز پہنوں۔۔۔ کونسے والے سوٹ کریں گے مجھے ۔۔۔۔ اور آژمیر کو مجھ پر
” اچھے بھی لگیں گے ۔
زنیشہ کے روم میں داخل ہوتی حائفہ کے کانوں میں سویرا کا جملہ پڑتا اُسے بے چین کر گیا تھا۔۔۔ وہ جب سے آئی تھی۔۔۔اس لڑکی کے منہ سے ہر وقت آژ میر کا نام سن کر بہت خوفزدہ ہو چکی تھی۔۔۔ اگر آژ میر بھی اسے
ایسے ہی چاہتا ہو ا تو ؟؟؟؟
اس سے آگے وہ کچھ سوچ بھی نہیں پاتی تھی۔۔۔۔
حاعفہ نے ایک نظر لہنگے میں ملبوس سویر اپر ڈالی تھی۔۔۔ جو فل میک اپ اور پھولوں کا زیور پہنے تمام ہتھیاروں سے لیس کافی خوبصورت لگ رہی
تھی۔۔۔
حائفہ سب کے فورس کرنے کے باوجو د نہایت ہی سادہ لباس میں ملبوس
لپسٹک تک سے عاری تھی۔۔۔
اُس کی آژ میر سے سامنے کرنے کے خیال سے ہی جان نکل رہی تھی۔۔۔ تیار ہو کر وہ اس کے غصے کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔۔۔ زنیشہ اور اُس کے ساتھ بیٹھی ماورا نے ایک نارضگی بھری نظر حاعفہ کے حلیے
پر ڈالی تھی۔۔۔
حائفہ میں آپ سے بالکل بھی بات نہیں کرنے والی اب۔۔۔۔۔۔۔ آپ
نے بالکل بھی ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔
ز نیشہ کی بات پر اپنی سوچوں سے نکلتے حاعفہ اس کی جانب متوجہ ہوئی
تھی۔۔۔۔۔
لک۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟؟؟؟”
حائفہ ایک دم گھبراگئی تھی۔۔۔
آپ جو میرے ساتھ یہ سوتیلوں والا سلوک کر رہی ہیں اس کے “
لیے۔
زنیشہ کی بات کا مطلب سمجھتی حائفہ مسکرادی تھی۔۔۔
آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ پر آئی پر امس کل ضرور تیار ہو نگی “
“جیسا تم چاہو گی۔۔۔۔
حائفہ اُس کا ہاتھ تھامے نرمی سے مسکرائی تھی۔۔۔
مگر زنیشہ اُس کا کوئی ایکسکیوز سننے کو تیار نہیں تھی۔۔۔
پہلے دن سے ہی زنیشہ کو دھیمے مزاج کی نرم خوسی حائفہ بہت پسند آئی تھی۔۔۔ وہ اپنے باپ کی اتنی زیادتیوں کے باوجود میران پیلس کے افراد
کے لیے دل میں بے پناہ محبت رکھتی تھی۔۔۔ وہ سب کا بہت اچھے سے
خیال رکھ رہی تھی۔۔۔۔
زنیشہ کو وہ آث ژمیر کے لیے بہت زیادہ پسند آئی تھی۔۔۔ مگر وہ ابھی اپنی اس خواہش کا اظہار کسی کے آگے بھی نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔
آپی۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟؟؟ ۔۔
ہی شوہر ٹرے میں سجا کر کسی اپنا
اور کے آگے پیش کر رہی ہیں۔۔۔۔ دیکھیں زرا اس چڑیل کو کیسے آپ کے شوہر کے لیے سج سنور کر اُچھلتی پھر رہی ہے۔۔۔ اور آپ ہیں۔۔۔ جو اس بات کا قانونی اور شرعی حق رکھتی ہیں۔۔۔ وہ ایسا کچھ نہیں کر رہیں۔۔۔ کیا آپ چاہتی ہیں کہ آژ میر بھائی آپ کی جانب سے پوری طرح منہ موڑ کر اس لڑکی کی جانب متوجہ ہو جائیں۔۔۔۔
زنیشہ کو اندر آتی شمسہ بیگم کی جانب متوجہ ہو تادیکھ ماورائے حائفہ کو آڑے
ہاتھوں لیا تھا۔۔۔۔
ماورا جیسا تم سمجھ رہی ہو سب کچھ اُتنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔ آژ میر مجھے سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔ جو کچھ میں اُن کے ساتھ کر چکی ہوں اُس کے بعد میری شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے وہ۔۔۔۔ اور تم چاہتی ہو۔۔۔ میں تیار ہو کر ان کے سامنے جاؤں۔۔۔ تاکہ اُن کا غصہ مزید بھڑک
” تھے۔۔
حائفہ نے اپنے اندر کا خوف ماورا کے سامنے بیان کر دیا تھا۔۔۔۔ اف اوہ آپی ۔۔۔۔ آپ ہمیشہ ایکسٹرا کیوں سوچتی ہیں ؟؟ ہمیشہ میں نے ” آپ کی بات مانی ہے۔۔۔۔ پلیز آج میری سن لیں۔۔۔۔ ایک بار سوچیں ذرا۔۔۔ جو شخص آپ کے سادگی بھرے حلیے پر فدا ہوا ہے۔۔۔۔ وہ آپ کا وہ ہوشر باحسن دیکھ کر اپنا غصہ کیسے برقرار رکھ پائے گا۔۔۔۔ پلیز ایک بار
” مان لیں نامیری۔۔۔۔
ماور ابضد ہوئی تھی۔۔۔
ماورا۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتی اُنہیں۔۔۔۔ اُن کا غصہ بہت غضب ناک ہوتا”
” ہے۔۔۔
حائفہ گزری ملاقاتیں یاد کرتی کپکپاتے لہجے میں بولی تھی۔۔۔ دی گریٹ حائفہ نور کو اپنے شوہر نامدار سے اس طرح خوفزدہ ہوتے اور ” اُن کے ذکر پر لرزتے کانپتے دیکھ بہت اچھا لگا۔۔۔ مگر میری مان لیں۔۔ مزید اچھا ہو گا۔۔۔۔ کیوں تائی جان۔۔۔ حائفہ آپی کو بھی باقی سب کی طرح تیار ہو نا چاہیے نا۔۔۔۔ آپ کہیں نان سے میری تو سن ہی نہیں رہی
ہیں۔۔۔۔
ماورا اُسے چھیڑنے کے ساتھ ساتھ شمسہ بیگم کو بھی اپنی جانب متوجہ کر چکی
تھیں۔۔۔
ارے حائفہ بیٹا آپ تیار کیوں نہیں ہو ئیں ابھی تک ؟؟ نیچے
” شروع ہونے والا ہے۔۔۔’فنکشن
شمسہ بیگم حائفہ کی اس تیاری کو کسی خاطر میں لائے بغیر بیو ٹیشن کی جانب اشارہ کر چکی تھیں۔۔۔ اُنہوں نے گھر کی باقی لڑکیوں کے ساتھ حائفہ اور ماورا کے بھی ڈریسر تیار کروائے تھے۔۔۔۔
حائفہ کے نہ نہ کرنے کے باوجود ۔۔۔ اُس کو اُن تینوں خواتین نے مل کر تیار
کیا تھا۔۔۔۔ اور بیج اور ریڈ کمرہ مینیشن کی شارٹ چولی اور زمین کو چھوتا ملٹی شیڈ ڈلہنگا پہنے
وہ نازک سی گڑیا جیسی بے پناہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔
پھولوں کے زیور اور ماتھا پٹی لگائے۔۔۔ مایوں کے لائٹ میک اپ میں ۔۔۔۔ اپنے گھنے بالوں کو کرل کر کے کھلا چھوڑ رکھا تھا۔۔۔۔ دونوں
کلائیاں گجرے اور کانچ کی ریڈ چوڑیوں سے بھی ایک الگ ہی بہار پیش
کر رہی تھیں۔۔۔
ماورا کے بہت اصرار کے باوجود بھی اُس نے نیٹ کا پیلادوپٹہ سر پر لے لیا تھا جو اس کا ہو شر باحسن چھپانے میں پوری طرح ناکام تھا۔۔۔
حاعفہ اب پورا ارادہ کر چکی تھی۔۔۔ کہ آژمیر کے آتے ہی وہ اپنے کمرے میں چھپ جائے گی۔۔۔۔ وہ اس کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔
@ @ @ @ @ @ @ @ @ @
حائفہ بیٹا۔۔۔ زرا یہ میٹھائی کی ٹوکری تو وہاں ٹیبل پر رکھ آئیں۔۔۔۔ مایوں کا فنکشن شروع ہو چکا تھا۔۔۔ پھولوں سے سجے جھولے پر سیلو لہنگے میں مایوں کی دلہن بنی زنیشہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی
تھی۔۔۔ موتیوں کے کر آگے ایک طرف ڈالے ۔۔۔۔ چہرے پر شر میلی مسکان اور آنکھوں میں اُس ستمگر کا احساس لیے وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ اس پر بہت رُوپ آیا تھا۔۔۔۔۔ شمسہ بیگم نجانے کتنی بار اس کی نظر اتار چکی
ویسے زوہان بھائی کا بھی حق بنتا ہے تمہیں اِس رُوپ میں دیکھنے کا۔۔۔۔ مایوں کی ہی سہی مگر دلہن تو ان کی ہی ہونا۔۔۔۔
ماور از نیشہ کی کیفیت سے حظ اُٹھاتے شرارتی لہجے میں بولی۔۔۔ خبر دار ایسا کچھ سوچا بھی تو ۔۔۔۔۔
زنیشہ اسے تیز نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولی۔۔۔۔ وہ کچھ دنوں میں ہی ماورا کے شوخ و شریر مزاج سے واقف ہو چکی تھی۔۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ آپ دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ آپ دونوں تو ایسے ڈرتی ہو اپنے شوہروں سے جیسے وہ انسان نہیں بلکہ خون پینے والے جانور
” ہیں۔
ماور از نیشہ کے پاس سے اُٹھتی دائیں جانب کھڑی حائفہ سے مخاطب ہوئی
تھی۔۔۔۔
خبر دار۔۔۔ اُن کے بارے آئندہ ایسا کوئی فضول استعمال کیا تو ۔۔۔۔ آثر میر کو اتناغلط بولے جانے پر حائفہ بھڑ کی تھی۔۔۔ جس کے جواب میں
ماورا اپنی ہنسی نہیں روک پائی تھی۔۔۔
اور دونوں دیوانی بھی ہو۔۔۔۔
ماورا اُسے مزید چڑھاتی وہاں سے کھسک گئی تھی۔۔۔۔
حائفہ بے چینی سے ادھر اُدھر دیکھتی ایک کونے میں آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ آژمیرا بھی تھوڑی دیر میں پہنچنے والا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ ہی لمحہ
بالحہ حائفہ کی دھڑکنیں بھی رفتار پکڑ رہی تھیں۔۔۔
” حائفہ بیٹا۔۔۔۔”
اُس نے ہال سے فرار ہونے کا سوچا ہی تھا۔۔۔ جب حمیرا بیگم کی پکار اُس کے
قدم وہیں روک کئی بھی ۔۔۔۔
حائفہ بیٹا یہ میٹھائی تو وہاں زنیشہ کے پاس ٹیبل پر رکھ دیں۔۔۔ اور ساتھ ہی وہاں پڑے پھول بھی ٹھیک کر دیجیے گا۔۔
حمیرا بیگم کے ہاتھ سے ٹوکری پکڑتے ناچار اُسے اُس طرف جانا پڑا تھا۔۔۔ حاعفہ ابھی ٹوکری رکھنے کے لیے جھکی ہی تھی ۔۔۔ جب اُس کے کانوں میں پڑتی حاشر کی چہکتی آواز اُس کے ہوش اُڑ گئی تھی۔۔۔
“آژ میر لالہ آگئے ہیں۔۔۔۔”
حائفہ ٹیبل پر جھکی اُسی پوزیشن میں اپنی جگہ جم سی گئی تھی۔۔۔ اُسے اپنے دل کی دھڑکنیں ڈھولک پر بجتے گانوں سے زیادہ اونچی سنائی دینے لگی تھیں۔۔۔ کیونکہ آژ میر قاسم صاحب کے ساتھ وہاں ہال میں داخل ہو چکا تھا۔۔۔اب فرار کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا حائفہ کے پاس۔۔۔۔
” کیسی ہے میری گڑیا ؟؟؟؟” نہایت قریب سے سنائی دیتی آژ میر کی گھمبیر بھاری آواز اُس کی حالت غیر کر گئی تھی۔۔۔ مٹھائی کی ٹوکری چھوٹ کر ٹیبل پر جا گری تھی۔۔۔۔
“لالہ ۔۔۔۔ آپ آگئے۔۔۔۔”
آژ میر کو اپنے سارے ضروری کام پس پشت ڈال کر صرف اپنی خاطر وہاں آتا دیکھ زنیشہ خوشی سے کھل اٹھی تھی۔۔۔
اُس کے سینے سے لگتے زنیشہ کے چہرے پر سکون پھیل گیا تھا۔۔۔۔ یہ دو لوگ اُس کی زندگی کا حاصل تھے ۔۔۔ وہ یہ جان کر بے پناہ خوش تھی کہ ان دونوں کے دل میں بھی ایک دوسرے کے لیے نفرت نہیں تھی۔۔۔ وہ
دونوں بھی ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ بس اس احساس کو خود ساختہ نفرت کے منہ کھوٹے کے نیچے چھیار کھا
تھا۔۔۔
میری گڑیا، بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔۔
آژمیر زنیشہ کو بازو کے حلقے میں لیے کھڑا تھا۔۔۔ اس کی نظر ابھی تک ٹیبل
پر جھکی حائفہ پر نہی پڑ سکی تھی ۔۔۔۔
:
جو اپنے گرد پھیلی اس کی خوشبو اپنی سانسوں میں اترتی محسوس کر رہی
تھی۔۔۔۔
آخر میر میری بیٹیوں سے نہیں ملو گے۔۔۔۔؟؟؟
share with your friends on Facebook
1 Comment
Add a Comment