Urdu Digest novels have a special place in the hearts of readers, and Haifa and Zanisha is one such story that has gained immense popularity. With romance, suspense, and emotional twists, this novel keeps readers engaged till the end. If you have read Part 1, get ready for Haifa and Zanisha Novel Part 2, where the story takes a new turn.

Haifa and Zanisha Novel Part 2 – Urdu Digest Novel
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 1
زوہان اُسے سر جھکائے اپنے سامنے آن کھڑا ہوتا دیکھ زرا بر ہمی سے بولا تھا۔
” سائیں وہ بُری خبر ہے۔۔۔”
حاکم اُسی طرح جھکائے بولا تھا۔۔۔۔
“…. کیا ہوا؟”
زوہان کے تاثرات منجمند ہوئے تھے۔
سائیں وہ آژ میر میران نے جمشید کو کل رات مروا دیا ہے۔۔۔۔ وہ جان گیا تھا جمشید اُس کے ساتھ رہ کر ہمارے لیے کام کر رہا ہے۔۔۔ حاکم چہرا جھکائے مجرمانہ انداز میں بولا تھا۔ جیسے سارا قصور اُسی کا ہو۔۔۔۔ جبکہ اپنے اتنے اہم آدمی کی موت کا سن زوبان غصے سے بپھر گیا تھا۔ اُس کا دل چاہا تھا اسی وقت آثر میر اور اس کے خاندان کے پر خچے اڑادے۔۔۔۔ ہر بار آثر میر میر ان اُس کا ایسے ہی نقصان کر جاتا تھا۔
زوہان نے ہاتھ میں پکڑا چائے کا مگ پوری قوت سے سامنے پڑے کانچ کے ٹیبل پر دے مارا تھا۔ جو کافی مضبوط ہونے کے باوجو د درمیان سے چکنا چور
ہوا تھا۔
حاکم خوف کھانا چند قدم پیچھے بنا تھا۔
آژ میر اب مزید نہیں ۔۔۔۔ اب مزید اپنا نقصان نہیں ہونے دوں گا” تمہارے ہاتھوں۔۔۔۔اب بر بادی تمہارے مقدر میں لکھی جائے گی۔۔۔ تمہیں ایسا بر باد کروں گا کہ دوبارہ میرے سامنے تو کیا کسی کے مقابل آنے
” کی ہمت نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔
زوبان غصے سے دھاڑا تھا۔ اُس کے اشارے پر حاکم نے اس کے کسی خاص آدمی کو فون ملا کر مو بائل اُس کے ہاتھ میں رکھا تھا۔
“میرا کام کہاں تک پہنچا؟”
زوہان کی آواز میں شعلوں کی سی لپک تھی۔
سائیں کام ہو گیا ہے۔۔۔۔ ملک آثر میر میر ان کا غرور بہت جلد ٹوٹنے والا “
” ہے۔۔۔۔
دوسری جانب بیٹھا شخص اثبات میں جواب دیتا کافی پر اُمید لگا تھا۔ اِس کام میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا میں۔۔۔۔” وہ سرد لہجے میں کہتا فون کاٹ گیا تھا۔ وہ جب تک اِس پلین میں کامیاب نہ ہو جاتا تب تک خوشیاں نہیں منانا چاہتا تھا۔۔۔
حاکم۔۔۔۔ تیاری پوری رکھو، میران پیلیس جانا ہے میں نے آخر کو ز نیشہ میر ان کی شادی ہے۔۔۔۔ اسے نیگ دینا تو بنتا ہے نا۔۔۔۔۔ زوہان زہر خند مسکراہٹ سے بولتا او پر اپنے روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔ حاکم
اُسے وہاں جانے کے لیے روکنا چاہتا۔ مگر اُس کی اتنی ہمت تھی ہی نہیں۔۔۔ زوہان کا وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مگر اگر اس نے ٹھان لی تھی تو اس کار کنا تقریباً ناممکن تھا۔ حاکم بے بس ساسر پکڑے بیٹھا تھا۔ جب اس کے دماغ میں کسی کی شبیہ لہرائی تھی۔ ایک ہستی تھی جو ملک
زوہان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال سکتی تھی۔ جس کی بات ٹالناملک زوہان
کے لیے کافی مشکل تھا۔
حاکم جلدی سے اُٹھ کر نمبر ڈائل کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔ زوہان کو وہاں جانے سے روکنے کی وہ اپنی سر توڑ کوشش کرنا چاہتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زنیشہ ٹانگے فولڈ کر کے سینے سے لگائے اُن پر چہر اٹکائے نڈھال سی بیڈ پر بیٹھی تھی۔ جب ثمر ہ اور فریحہ اُس کا سُرخ کا مدار بھاری لہنگا اور باقی سارا سامان اٹھائے اُس کے روم میں داخل ہوئی تھیں۔
زینی کیسی طبیعت ہے اب ؟
ثمر چیزیں صوفے پر رکھتی اس کے قریب آئی تھی۔ زنیشہ نے چہرا اٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔ اس کا گلابی سو جا چہرامسلسل رونے کی گواہی دے رہا
تھا۔
بھا بھی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔
زنیشہ اس کا ہاتھ تھامتی خوف سے لرزتی آواز میں بولی تھی۔ ” کس سے ؟ زوہان سے یا آژ میر سے۔۔۔۔”
دونوں سے۔۔۔۔۔
زنیشہ کی آواز میں نمی کا تاثر نمایاں تھا۔ اُس کی جان اس وقت سولی پر اٹکی
ہوئی تھی
جبکہ سوچنا اس وقت تمہیں ذیشان کے بارے میں چاہیئے جس کے نام کچھ
دیر میں تم اپنے تمام جملہ حقوق لکھنے والی ہو ۔۔۔۔
فریحہ اُس کے قریب آ بیٹھتی شوخی سے بولی تھی۔ وہ سب اس وقت اندر سے خوفزدہ تھے۔ مگر زنیشہ کی حالت زیادہ تشویش ناک تھی۔ اس کی بہتی آنکھیں سب کو ہی تکلیف میں مبتلا کر رہی تھیں۔ مگر اُن میں سے کوئی بھی اس سب پر اختیار نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔
کیا حالت بنارکھی ہے تم نے۔۔۔۔ آج شادی ہے تمہاری۔۔ اگر اتنی وافر مقدار میں ٹینشن لیتی رہی تو ۔۔۔ تم نے تو نکاح سے پہلے ہی اللہ کا پیارا ہو جانا
” ہے۔۔۔۔
فریحہ اُس کی پڑی زدہ ہونٹ، زردرنگت اور خوف سے کپکپاتے وجود کی
جانب تاسف بھری نظروں سے دیکھتے بولی۔۔
مجھے بھی یہی آسان حل لگا تھا، اس اذیت اور خوف سے چھٹکارا پانے کا۔۔۔ مگر میرے نصیب میں تو لگتا ہے ابھی یہ نجات بھی نہیں
لکھی۔۔۔۔
زنیشہ خود اذیتی کی انتہا پر تھی۔۔
پریشان مت ہو ، سب ٹھیک ہو گا ۔۔۔ پوری حویلی کے گرد گارڈز کا بہت سخت پہرا ہے۔۔۔ زوہان تو کیا اُس کا کوئی آدمی بھی اندر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔ آژ میر لالہ ابھی کچھ دیر پہلے کسی کام سے نکلے ہیں۔۔۔ نکاح سے پہلے
” پہلے پہنچ جائیں گے۔۔۔
ثمرہ نے اُس کی معلومات میں اضافہ کرتے ،اُسے کچھ حد تک تسلی دینی چاہی تھی۔ مگر زنیشہ کو کسی طور قرار نہیں آرہا تھا۔۔
آژ میر لالہ گھر پر نہیں ہیں ؟ وہ اس وقت باہر کیوں گئے ؟ صرف وہی ہیں جو ملک زوہان کواندر آنے سے روک سکتے ہیں۔۔۔۔
آژ میر کی غیر موجودگی کا سن کر زنیشہ کے خوف میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
ابھی کچھ دیر تک آجائیں گے پریشان مت ہو ۔۔۔ ذیشان اور باقی لوگ جو
یہاں موجود ہیں۔۔۔ سب سنبھال لیں گے ۔۔۔
فریحہ نے اُسے تسلی دی تھی۔ جب وہ لوگ خود بھی جانتی تھیں۔۔۔کہ زوہان کے سامنے ان سب میں سے کسی نے نہیں ٹک پانا تھا۔۔۔ چلو اب اُٹھو۔۔۔۔ جلدی سے تیار کر دیں تمہیں۔۔۔ پہلے ہی اتناٹائم
ویسٹ ہو گیا ہے۔۔۔
ثمر ہ اُسے اُٹھنے کا کہتی اُس کا لہنگا ڈریسنگ روم میں ہینگ کرنے چل دی تھی۔ زنیشہ کا اس سب کے لیے ایک پر سنٹ بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ایک بوجھل سانس ہوا میں خارج کرتے وہ بیڈ سے
اُٹھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپی یہ ملازمہ پیکنگ کیوں کر رہی ہیں ہماری ؟ ہم کہیں جارہی ہیں کیا ؟
ماور اشاور لے کر نکلتی صوفے پر بیٹھی حائفہ کے پاس آئی تھی۔ اس کی حیرت بھری نگاہیں دونوں کا سامان پیک کر تیں ملازمین پر ٹکی ہوئی تھیں۔ حاعفہ اُس کی بات کا جواب دیئے بنا نگاہیں کسی غیر مرئی نقطے پر نکائے گہری سوچ میں گم تھی۔ وہ کرامت کے سامنے تو بے دھڑک حامی بھر آئی تھی۔ مگر آگے پیش آنے والی صورت حال کا سوچ وہ کافی پریشان تھی پتا نہیں وہ شخص کون تھا ؟ کیسا تھا؟
جس کے قریب جا کر اُسے اپنی محبت کے جال میں پھنسانا تھا۔ آج تک وہ اپنی
بھر پور ذہانت اور عقل مندی کی بنا پر اپنی عصمت محفوظ رکھتی آئی تھی۔ مگر اب آگے اُس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ یہ سوچ کر ہی اُس کا دل کانپ
اُٹھتا تھا۔
اُسے ہمیشہ اپنی اور اپنی بہن کی عزت کی حفاظت کرنے کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی تھی۔ مگر اس بار تو نجانے اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہونے والا
تھا۔
اُسے ملازمہ نے ہی کرامت اور نگینہ بائی کی باتیں سن کر بتا یا تھا کہ وہ لوگ
اس کام کے لیے بھاری معاوضہ وصول کر چکے تھے۔ اب چاہ کر بھی حاعفہ کے لیے فرار ممکن نہیں تھا۔۔۔
آپی آپ بہت پریشان لگ رہی ہیں۔ سب ٹھیک ہے نا؟” ما ور اد وزانو اس کے قریب آن بیٹھی تھی۔ اور اس کے نرم ملائم ہاتھ تھامتی اس کی پریشانی سے لبریز شہد آگئیں آنکھوں میں دیکھتے بولی تھی۔
تمہاری نادانی کی قیمت چکانی ہے مجھے ۔۔۔۔
کہا تھا کسی مرد پر
بھروسہ مت کرنا۔۔۔ وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیتے۔۔۔ یہ مرد ہم طوائف زادیوں کے جسم کی طلب میں
سب کچھ وار سکتے مگر ہم
سے محبت کر کے اپنا دل میلا کر نا اُن کے لیے گناہ کبیرہ ہے۔۔۔۔ ماضی کے کس خیال سے حائفہ کی آنکھ سے آنسو نکلتے اُس کی نرم گداز گالوں
پر بکھر گئے تھے۔
آپی۔۔۔ نہیں آپ میری سزا اپنے سر لینے کے لیے۔۔۔ اپنے ساتھ کچھ
غلط نہیں ہونے دیں گی۔۔۔۔
ماورا اس کی بات کا مفہوم کسی حد تک سمجھتی تڑپ اٹھی تھی۔ اس کی بہن صرف اُس کی خاطر اس گندگی میں رہ رہی تھی، جہاں سب کی نظروں میں وہ ایک طوائف ہی تھی۔ جس نے اپنا سب کچھ گاہکوں کے آگے لٹاد یا تھا۔ صرف ماور اتھی جو اس کی پاکدامنی کی گواہ تھی ۔ اور اس کی اس پاکدامنی پر داغ لگتا ماور ا کو کسی صورت برداشت نہیں تھا۔ یہ سب کچھ ایک ہی شخص کی وجہ سے ہوا تھا۔ جسے ماور اکسی قیمت پر بخشنے کو تیار نہیں تھی. اس شخص نے اسے اپنی محبت کی جال میں پھنسا کر ذلیل اور رسوا کیا تھا۔ اُس کو واپس اسی ذلت کے زندان میں لا پھینکا تھا۔ ماورا کے دل سے اُس کے لیے بدعائیں ہی
نکل رہی تھیں۔۔۔
جس کے دھوکے نے اُس کی بہن کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔
میری قسمت میں جو لکھا ہے وہ تو میرے ساتھ ہو کر ہی رہے گا۔۔۔ مگر
” تمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا۔۔۔۔
حائفہ اُس کے گلابی آرزوں پر لڑھکے آنسو اپنی لانبی مخروطی انگلیوں سے چنتی
نرمی سے گویا ہوئی تھی۔
ماور ابنا
بولے یک تک اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔
تم آئندہ یہ بات کبھی نہیں بھولو گی کہ تم شہزادی ہو میری۔۔۔۔ یہ دنیاکے مرد تمہاری جیسی صاف دل اور پیاری لڑکی کے قابل بالکل بھی نہیں ہیں۔۔۔ اپنے آپ کو دوبارہ کسی کے آگے بے مول نہیں کرو گی۔۔۔ یہاں
محبت نہیں دھوکا اور فریب ہے صرف۔۔۔
حائفہ اُس کا چہرا ہا تھوں کے پیالے میں بھرے محبت سے گویا ہوئی تھی۔ ان دونوں میں بمشکل چار تین سال کا فرق تھا مگر حائفہ اُسے بالکل چھوٹی بچی کی طرح ٹریٹ کرتی تھی۔ ماں کی وفات کے بعد حاعفہ وقت سے پہلے ہی بڑی ہو گئی تھی کیونکہ اس کی ماں اس پر ،اس کے ساتھ ساتھ اس کی بہن کی
حفاظت کی زمہ داری بھی ڈال کر گئی تھی۔ جسے حائفہ اب تک بہت اچھے
سے نبھاتی آئی تھی۔۔۔
” میں آپ کے ساتھ رہوں گی نا۔۔۔”
ماورا نے اس کی باتوں سے سوال اخذ کرتے پوچھا تھا۔
نہیں۔۔۔ تم ہاسٹل واپس جاؤ گی۔۔۔ اور اپنی ڈگری کمپلیٹ کرو گی۔۔۔۔” تم جانتی ہو نا امی جان کا خواب تھا تمہیں ڈاکٹر بنانا۔۔۔۔ تم کسی قیمت پر وہ
” ادھورا نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔
حاعفہ نے اُس کے انکار کا جواز ہی نہیں چھوڑا تھا۔ ماور احاعفہ کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ مگر اُس کے دوٹوک انداز پر خاموش ہو گئی تھی۔۔۔ ماورا کے دل میں اچانک سے ایک خیال زہر بن کر پھیل گیا تھا۔ وہاں تو وہ شخص بھی تھا جو اُس کا گنہ گار تھا۔ جس کی وجہ سے اُس کی بہن کا آگے نجانے کیا کیا سہنا پڑ نا تھا۔ جس نے اُسے اپنی بہن کے سامنے شر مندہ کر کے رکھ دیا تھا۔ اُس کا مردوں کے حوالے سے رہاسہ اعتبار بھی چکنا چور کر دیا تھا۔ اُس
نفرت کے قابل شخص کا سامنا کرنے سے ماورا کو اپنی آنکھیں نوچ لیناز یادہ
بہتر لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائیں آپ کا شک ٹھیک نکلا۔۔۔۔ ملک زوہان کے ثمن خان کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔۔۔ اکثر ملک زوہان کے شہر والے گھر اور ہوٹلز میں انہیں اکٹھا دیکھا گیا ہے ۔۔۔۔ وہ ہمار اپر اجیکٹ آگے کبھی نہیں جانے دے
گی۔۔۔۔
شمن خان ملک زوہان کی ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔۔۔ا نہیں کے چکروں میں وہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔۔۔ کبیر آژمیر کے قریب آن کھڑا ہوتا اسے اس کی مانگی گئی معلومات مہیا کر گیا تھا۔ جسے سن کر آژمیر میر ان کے جبڑے مزید سختی سے بھینچ گئے تھے۔ وہ کرسی کے ہینڈ کو پوری مضبوطی سے جکڑے اپنے اند راٹھتے اُبال پر قابو پانے لگا تھا۔ اُس کی کنپٹی کی رگیں باہر کی جانب اُبھر آئی تھیں۔۔ اس کے
چہرے پر اتر آئی غضبنا کی اور دہشت آس پاس کھڑے اس کے آدمیوں کو
بھی سما گئی تھی۔
تو ملک زوہان کے اُس عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔۔۔۔ یہ الفاظ ادا کرتے آژمیر میر ان کے وجیہہ چہرے پر نرمی کا کوئی تاثر موجود نہیں تھا۔ اس کے اشارے پر پاس کھڑے کریم نے سیگریٹ سلگھا کر اسے تھمادیا تھا۔ جس کا دھواں اپنے اندر اتارتے اس نے اپنے اضطراب پر قابو پانا
چاہا تھا۔۔۔
سائیں صرف اس کے ساتھ نہیں۔۔۔۔ بلکہ ملک زوہان کو مظفر آباد کے خفیہ ٹھکانوں پر بنائے گئے طوائفوں کے کو ٹھوں پر بھی جاتے دیکھا گیا
ہے۔۔۔۔
فیصل کی اگلی بات آثر میر میر ان کو جھلسا کر رکھ گئی تھی۔۔۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا اس وقت ملک زوہان اُس کے سامنے ہو اور وہ اس شخص کا حشر بگاڑ دے۔۔۔۔ جو اُس کے معزز خاندان کا نام بد نام کرنے پر تلا ہوا تھا۔۔۔۔
سائیں اُس کو ٹھے پر جاکر ملک زوہان کے خلاف ثبوت با آسانی اکٹھے کیے
جا سکتے ہیں۔۔۔
فیصل نے اپنی سوچ کے مطابق مشورہ پیش کیا تھا۔
نہیں۔۔۔۔ ابھی اُس کے خلاف کچھ نہیں کرنا۔۔۔۔ میں دیکھنا چاہتا”
خود
ہوں۔۔۔ میرے خلاف جانے کے لیے وہ کس حد تک خود کوگراتا ہے
آژ میر کے دماغ
میں اس وقت کچھ اور چل رہا تھا۔ جسے سمجھنا اُن میں سے
کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔
آژمیر اپنے آدمیوں کو کچھ ضروری ہدایت دیتا وہاں سے نکل آیا تھا۔ اُس کی لاڈلی بہن کی شادی تھی آج۔۔۔ اِس وقت اُس سے ضروری آژمیر میران
کے لیے کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
چوڑے مضبوط شانے، روشن پیشانی جو ہمیشہ شکن آلود ہی رہتی تھی، سختی سے ایک دوسرے میں پیوست عنابی لبوں پر سجی گھنی مونچھیں۔۔۔ کھڑی
مغرور ناک۔۔۔۔ وہ حُسن و وجاہت کامنہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔۔اُسے دیکھ کر ہی کسی فاتح کا گمان ہوتا تھا۔۔۔ اُسے ہر میدان میں کامیابیاں سمیٹنے کی عادت تھی۔۔۔۔ ہارنا اور جھکنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ اُس کے تیکھے سرد نقوش ہر وقت تنے ہی رہتے تھے۔ غصہ ہر وقت اُس کے ناک پر سوار رہتا تھا۔ جہاں وہ اپنے سے منسلک لوگوں پر زرا سی آنچ آتی برادشت نہیں کر سکتا تھا ، ہمیشہ ان کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتا تھا۔ وہیں اُن میں سے کسی کی جرات نہیں تھی ملک آژ میر میران کے کیے
گئے فیصلے سے انکار کرنے یا اُسے جھٹلانے کی۔۔۔۔
یہی وجہ تھی کہ زنیشہ نے اس کے کیے گئے شادی کے فیصلے سے انکار کرنے کے بجائے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دیا تھا۔۔۔
ملک آژ میر میران اچھوں کے لیے بہت اچھا اور بُرے کے ساتھ بہت بُرے سے پیش آتا تھا۔ اُسے جھوٹ بولنے والے اور دھو کے باز لوگوں سے شدید نفرت تھی. اس کی زندگی میں ایسے لوگوں کی کوئی جگہ نہیں
تھی۔۔۔۔۔اُسے دھوکا دینے والوں کا انجام وہ بہت بد تر کرتا تھا۔۔۔لوگ اُس کی دوستی اور دشمنی دونوں سے ہی ڈرتے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینے کے سامنے کھڑی زنیشہ پتھرائی آنکھوں سے اپنا پور پور سجاسر ا پادیکھ رہی تھی۔ ہمیشہ سادگی میں رہنے والی آج بلڈریڈ لہنگے میں غضب ڈھا رہی تھی۔ اس کا قیامت خیز حسن دیکھنے والوں پر قاتلانہ ثابت ہو نا تھا۔ لہنگے میں اس کے متناسب تراشیدہ بدن کی رعنائیاں واضح ہو تیں مزید دلکشی
بکھیر رہی تھیں۔۔۔ ہاف سلیوز سے جھانکتی اُس کی نازک کلائیوں میں سونے کے کنگن اور سرخ چوڑیاں بے پناہ حسین لگ رہی تھیں ۔۔۔ نازک صراحی دار گردن میں بھاری بار اور کانوں میں لٹکتے بھاری جھمکے اُس کے
روپ کو مزید چار چاند لگارہے تھے۔۔۔ چھوٹی سے ناک میں پہنائی نتھ اس کے نازک ہونٹوں سے مس ہو رہی تھی۔ اس کے لال لپسٹک سے سجے ہونٹ اُس کے ہوش رباحسن کو مزید دو آتشہ بنا گئے تھے۔۔۔
وہ لوگ زنیشہ کو تیار کر کے جاچکی تھیں۔ ابھی کچھ دیر میں اُسے نکاح کے لیے نیچے لے جایا جانا تھا۔ اس کی بھیگی اداس آنکھیں خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں . میک اپ واٹر پروف ہونے کی وجہ سے کافی بچت ہو گئی
زنیشہ نجانے کتنے ہی لمحے بت بنی وہاں کھڑی رہتی جب کھٹر کی پر ہوتی آہٹ پر اس کا دل اچھل کر حلق میں آن گرا تھا۔ وہ خوف زدہ ہوئی پلٹی تھی۔ کھڑکی سے روم کے اندر پڑ تا سایہ دیکھ اس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپنے
لگا تھا۔
جب اگلے ہی لمحے اُس سائے کا مالک کھڑ کی سے اندراس کے روم میں کود گیا تھا۔ کسی مرد کو اپنے روم میں دیکھ زنیشہ کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹنے کو تیار ہوئی تھیں۔۔۔ اُس کے بے جان قدموں میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی. کہ بھاگ کر روم سے نکل جائے ۔۔۔ کسی کے آکر ڈسٹرب کرنے کے خیال
سے اُس نے دروازے کو اندر سے لاک کر رکھا تھا۔ کیونکہ اُسے کم از کم اس آافت کا اندازہ تو بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔
وہ سیاہ پینٹ شرٹ میں ملبوس، چہرے کو سیاہ مفلر سے پوری طرح لیٹے لمبا چوڑا دراز قد شخص اُس کی جانب بڑھا تھا۔ اس کے کسرتی مضبوط وجود کے آگے زنیشہ کا دھان پان ساوجود کسی چیونٹی کی مانند ہی لگ رہا تھا۔ اوپر سے اس کا ہوش ربا سجا سنور اروپ، زنیشہ کا پور اوجود خوف کے مارے لرز اٹھا
لک۔۔۔ کون ہو تم ۔۔۔ کیوں آئے ہو یہاں۔۔۔۔ تم۔۔۔
اُس کا کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔ اس لیے چلانے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں تھا۔۔۔ اس کی لرزتی کا نیتی آواز پر مقابل کی گہری سیاہ آنکھیں مسکائی تھیں۔۔۔ حیرت کی بات ہے۔۔۔۔ میری پر نسز اپنے پرنس کو نہیں پہچان پائی۔۔۔۔ تمہیں اس رُوپ میں میرے علاوہ اور کون دیکھنے کی گستاخی
کر سکتا ہے۔۔۔ کون چاہے گا بھلا اس کی آنکھیں نوچ کر ہتھیلی پر سجادی
جائیں۔۔۔۔
یہ سرد ٹھٹھڑا دینے والا وحشت ناک گھمبیر لب ولہجہ ۔۔۔۔ زنیشہ خوف کے مارے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ اُسے دیکھتی اپنی جگہ سے لڑ کھڑ اگئی تھی۔۔۔وہ بھلا کیسے نہ پہچان پاتی اس سفاکیت سے بھرے لب ولہجے کو۔۔ ملک زوہان نے پورا مفلر سے ڈھانپ
رکھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بس ایک بار یک لائن کا فاصلہ تھا۔۔۔اس وجہ سے زنیشہ اُسے پہچان نہیں پائی تھی۔۔۔ مگر جیسے جیسے وہ قریب آرہا تھا۔ اس کی مسحور کن دلفریب خوشبوز نیشہ کے نتھنوں سے ٹکراتی اُس کے حواسوں پر چھانے لگی
تھی۔
چلے ۔۔۔۔ جا۔۔ جائیں۔۔ یہاں۔۔۔ مجھے ۔۔ آپ ” س۔۔سے۔۔۔ کوئی۔۔۔ بات ۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ کرنی ۔۔۔۔۔
زنیشہ کے منہ سے ہکلاتے بمشکل یہ جملے ادا ہوئے تھے۔اتنے سخت پہرے کے باوجود بھی یہ جنونی شخص یہاں آن پہنچا تھا۔ اکثر سب زنیشہ کے ملک زوہان سے اتنے خوفنر دہ ہونے پر حیران بھی ہوتے تھے۔ مگر ہر بار اس کے ڈر کی وجہ سچ ہو کر ہی رہتی تھی۔ ہر بار یہ ثابت ہو جاتا تھا کہ اُس سے بہتر
ملک زوہان کو کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔
مجھے یہاں آنے کا کچھ خاص شوق ہے بھی نہیں۔۔۔ چلا تو جاؤں گا ہی سہی مگر جو کام کرنے آیا ہوں۔۔۔ وہ کرنے کے بعد ۔
زوہان اُس کے مقابل پہنچتا چہرے سے مفلر ہٹا تا بیڈ پر اچھال گیا تھا۔ زنیشہ بالکل دیوار کے ساتھ چپکی کھڑی تھی۔ جیسے دیوار میں گھس کر اس منظر
سے غائب ہونے کی خواہش ہو۔۔۔۔
اُس نے لرزتی پلکیں اُٹھا کر اپنے قریب آکر کھڑے ہوتے اس حسن و وجاہت کے دیوتا کو دیکھا تھا۔ جس کے تنے خوبرو نقوش سے سجا مغرور چہرا اور شکنوں سے سجی روشن پیشانی زنیشہ کا دل بُری طرح دھڑ کا گئی تھی۔۔۔
جبکہ مقابل کی بے تاثر ، منجمند کر تیں نگاہیں زنیشہ کے قیامت خیز حسین روپ پر جم چکی تھیں۔۔۔ اس کا پور اوجود ہولے ہولے کپکپا تا ملک زوہان کو
پوری طرح اپنی جانب متوجہ کر گیا تھا۔۔۔
زوہان در میان میں بچاد و قدم کا فاصلہ عبور کرتا اس کے بے انتہا قریب آن
کھڑے ہوا ۔۔۔ بازو اس کے دائیں جانب دیوار پر لگاتے تقریباً اس پر جھک آیا تھا۔ ۔۔۔۔ زنیشہ کی در زیدہ نگا ہیں اس کے مغرور چہرے پر
تھیں۔۔۔
میری منگ ہوتے تم کسی اور کی دلہن کیسے بن سکتی ہو ۔۔۔۔ میرے نام کی انگوٹھی اپنی انگلی سے نکالنے کی ہمت بھی کیسے ہوئی تمہاری۔۔۔۔۔ زوہان شعلے برساتی آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھتے دھیمی آواز میں غرایا
تھا۔
چہرے پر پڑتیں اس کی گرم سانسوں کی تپیش اور لہجے کی سفا کی اُسے جی
جان سے لرز گئی تھی۔
زنیشہ سے خوف کے مارے بولنا محال ہوا تھا۔۔۔ ملک زوہان کا نارمل مزاج بھی برداشت کرنا اُس کے لیے مشکل تھا۔۔۔ اور اس وقت تو وہ شدید غصے میں بھی تھا۔۔۔ زنیشہ کو اگر دیوار کا سہارا نہ ہوتا تو وہ اب تک زمین بوس
ہو چکی ہوتی۔۔۔
ملک زوہان کے وجود سے اٹھتی مسحور کن خوشبوز نیشہ کے حواس جکڑ رہی تھی۔۔۔ وہ اسں شخص کی نگاہوں سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔۔۔ لیکن
ملک زوہان کے سامنے اُس کے علاوہ کسی اور کی خواہش پوری یہ ناممکنات
میں سے ہی تھا۔۔۔۔
مگر زوہان کا اب بھی اُسے منگ کہنا اس کی آنکھوں میں مرچیں سی بھر گیا
تھا۔۔۔
آآاپ۔۔۔۔ آپ نے۔۔۔۔۔خود۔۔۔ ٹھک ٹھکرایا تھا مجھے۔۔۔۔وہ بھی۔۔۔۔ وہ۔۔۔ بھی پورے۔۔۔۔خاندان۔۔کے سامنے۔۔۔۔
زنیشہ کے سُرخ شیریں لبوں سے شکوہ ٹوٹ کر زوہان کے کانوں سے ٹکرایا
تھا۔۔۔۔
میں تمہیں تمہارے خاندان والوں کے سامنے ٹھکراؤں یا پوری دنیا کے۔۔۔۔ مگر میری ایک بات ہمیشہ کے لیے زہن نشین کر لو۔۔۔۔ تم پر پہلا اور آخری حق میرا ہے۔۔۔۔ صرف میرا۔۔۔ ملک زوہان کا ۔۔۔۔ اگر خود کو کسی اور کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش بھی کی تو اس کا وہی حشر ہو گا۔۔۔ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اُس ذیشان کا کر چکا ہوں۔۔۔۔ ملک زوہان کے زہر میں ڈوبے الفاظ پر زنیشہ کی آنکھوں کی پتلیاں خوف اور بے یقینی کے عالم میں پھیل کر مزید دلکش لگی تھیں۔۔۔ اس کے خوشبوؤں میں مہکتے وجود کی دلفر یہی کسی کو بھی اپنے سامنے چاروں شانے چت کر سکتی تھیں۔۔۔ لیکن اس وقت اس کے سامنے ملک زوہان کھڑا تھا۔۔۔ جو دوسروں کے سامنے جھکنا نہیں بلکہ لوگوں کو اپنے آگے جھکانے پر ایمان
رکھتا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کے مطابق اس شخص کو نہ اُس کی ظاہری دلفر یہی میں
کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی اس کی ذات میں۔۔۔۔
تھی ۔ این ضد اور انا عزیز کی ان فرض
صرف صرف اپنی تھی۔۔۔ چاہے اس کار استہ کسی کا دل چیر کر نکلتا ہو۔۔
لک۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا کیا آپ نے اُس کے ساتھ ۔۔۔۔۔
زندیشہ اس سفاک شخص کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولی۔۔۔وہ اُس کے بے انتہا قریب کھڑا تھا۔۔۔ اس کی گرم سانسوں سے زنیشہ کو اپنا چہرا بالکل آگ کی مانند جلتا محسوس ہوا تھا۔۔۔ مگر وہ اُسے دور ہٹانے یا یہاں سے جانے کا کہنے کی غلطی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ کیونکہ اس شخص سے کوئی بعید نہیں تھی۔۔۔ یہاں سے جانے سے ہی انکار کر دیتا ۔۔۔۔
بہت جلد پتا چل جائے گا تمہیں۔۔۔۔ مگر ابھی فوراً سے پہلے اپنا حلیہ
درست کرو۔۔۔۔۔ملک زوہان نے اپنی پاکٹ
سے سفید کلر کار ومال نکال کر اس کی جانب بڑھا یا۔۔
میں ۔۔۔ ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔
انکار کرتے زنیشہ کا دل خوف سے پھڑ پھڑا یا تھا۔۔۔
میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤز نیشہ میر ان۔۔۔۔ تم جانتی ہو مجھے اپنا کہا دوہرانے کی عادت نہیں ہے۔۔۔۔ صاف کرو اس سب کو اپنے چہرے سے۔۔۔۔ سب سے پہلے اپنے ہونٹ صاف کر و۔۔
ملک زوبان کی گہری نگاہیں اپنے چہرے کے نقوش پر پڑتیں اس کی جان نکال رہی تھیں۔۔۔ آخری بات کہتے اس نے جس طرح زنیشہ کے ہونٹوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ زندیشہ اندر تک کانپ کر رہ گئی تھی۔۔۔
لیکن پھر بھی وہ بنا کوئی حرکت کیے ایسے ہی بت بنی کھڑی رہی تھی۔۔۔
لیکن اس کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے اس وقت پھٹی تھیں۔۔۔۔ جب زوہان نے گن نکالتے اس کی کنپٹی پر رکھی تھی ۔۔۔۔
یہ نیک کام میں اپنے ہاتھوں سے بھی کر سکتا ہوں۔۔۔ مجھے میری بنائی گئی
حدود سے تجاوز کرنے پر مجبور مت کرو۔۔۔۔۔
زوہان نے اپنی شعلے برساتی نگاہیں اُس کی نگاہوں میں گاڑھتے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا تھا۔۔۔ زنیشہ میر ان اس کی حکم عدولی کر رہی تھی۔۔۔ یہ بات وہ بھلا کیسے برداشت کر سکتا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ نے بے یقینی سے اپنے سر پر رکھی اُس کی گن کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اور رہی سہی کسر اُس کے الفاظ نے پوری کر دی تھی۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت اُس کے گالوں پر لڑھک آئے تھے۔۔
اُس نے زوہان کے ہاتھ سے رومال تھامتے اپنے ہونٹوں پر رکھتے لپسٹک کو بے دردی سے رگڑ دیا تھا۔۔۔ زوہان ابھی بھی اس پر کنپٹی پر پسٹل رکھے ہوئے اسے یک ٹک دیکھے جارہا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے لرزتے ہاتھوں سے اپنا سارا میک اپ صاف کر دیا تھا۔۔۔۔ اس نے رومال ہاتھ میں کی دبوچ رکھا تھا۔۔۔۔ جب زوہان نے ہاتھ بڑھاتے بنا اُسے چھوئے اُس کی مٹھی سے اپنار ومال نکال کر واپس پاکٹ میں رکھ لیا
تھا۔۔
زنیشہ نے عجیب نظروں سے اُس کی یہ حرکت دیکھی تھی۔۔۔۔ اسے بھلا ان عام سے رومالوں کی کیا کمی تھی جو وہ اس کا میک اپ سے بھرار ومال اپنی پاکٹ میں اتنا سنبھال کر رکھ رہا تھا۔۔۔۔
یہ جیولری بھی اُتاروجلدی۔۔۔۔۔
زوہان نے نیا حکم صادر کرتے زندیشہ کو جلا کر راکھ کیا تھا۔۔۔
زنیشہ کی ملک زوبان کے حوالے سے تھوڑی بہت خوش فہمی ۔۔۔۔ غلط فہمی میں تبدیل ہو کر ختم ہو چکی تھی۔۔۔۔ یہ شخص اس کے سر پر ا گر بندوق تان سکتا تھا تو کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔۔ ۔
زنیشہ کپکپاتے ہاتھوں سے اپنی جیولری اتارنے لگی تھی جب جھمکے
اُتارتے اُس کے بال جھمکے میں اُلجھ گئے تھے ۔۔۔ کھنچنے کی وجہ سے اس کے
منہ سے ہلکی سی کراہ بر آمد ہوئی تھی ۔۔۔۔
اُس کی جانب ساکت نظروں سے دیکھتا ملک زوہان کچھ لمحے اُسے ایسے ہی
زور آزمائی کرتے دیکھے گیا تھا۔۔۔
زنیشہ کی نازک جان پر یہ تکلیف بھی شاید کافی زیادہ تھی۔۔۔ اُس کا چہرا بالکل سرخ پڑ چکا تھا۔ زوہان نے اس کی حالت دیکھتے نا چاہتے ہوئے بھی بے اختیار ہاتھ اس کی جانب بڑھادیا تھا۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی زوہان کی اُنگلیاں زنیشہ کی اُنگلیوں سے مس ہوئیں۔۔۔ اُسے ایسے جھٹکالگا تھا جیسے بجلی کی ننگی تاروں کو چھو لیا ہو ۔۔۔۔
زنیشہ نے اُس کا لمس محسوس کرتے فورااس کا ہاتھ دور جھٹک دیا تھا۔۔۔ جو کہ ملک زوہان کی انا پر کافی کاری ثابت ہوا تھا۔۔۔۔۔
اُس نے ہونٹ بھینچتے غصے بھری نظروں سے زنیشہ کو دیکھتے اس کی دونوں کلائیاں اپنی گرفت میں جکڑتے دیوار کے ساتھ لگادی تھیں ۔۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے جھمکے سے بالوں کی پھنسی لٹیں آزاد کرتے لال
سرخی مائل آنکھیں اُس پر گاڑھ رکھی تھیں۔۔۔۔ زنیشہ کا دل زور زور سے
دھک دھک کرنے لگا تھا۔۔۔
زوہان اُس کا جھمکاتار کر دور اُچھال گیا تھا۔
آئندہ مجھے انکار کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔ بہت بُرے سے پیش آؤں گا۔۔۔۔۔
اُس نے ہونٹ بھینچتے غصے بھری نظروں سے زندیشہ کو دیکھتے اس کی دونوں کلائیاں اپنی گرفت میں جکڑتے دیوار کے ساتھ لگادی تھیں ۔۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے جھمکے سے بالوں کی پھنسی لٹیں آزاد کرتے لال
سرخی مائل آنکھیں اُس پر گاڑھ رکھی تھیں۔۔۔۔ زنیشہ کا دل زور زور سے
دھک دھک کرنے لگا تھا۔۔۔
تھا۔۔۔۔
را با سی ان ان کی لڑکی کےلیے نا مکن
زوہان اُس کا جھمکاتار کر دور اُچھال گیا تھا۔
آئندہ مجھے انکار کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔ بہت بُرے سے پیش آؤں گا۔۔۔۔
بنا اُس کی کلائیاں آزاد کیسے زوہان اپنا چہرا اُس کے مزید قریب لاتا اُس آنکھوں میں جھانک کر اُسے وارن کرتا وہاں سے پلٹتا، جس راستے سے آیا تھا۔۔۔وہیں سے واپس نکل گیا تھا۔۔۔
جبکہ زنیشہ اپنے بے قابو ہوتے دل کو تھامتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا کچھ دیر پہلے کا سجا سجا یا حسین رُوپ یہ بے رحم شخص پل بھر میں اُجاڑ کر رکھ گیا تھا۔۔۔۔
پتا نہیں اُس نے زیشان کے ساتھ کیا کیا تھا۔۔۔ زنیشہ کا دل آنے والے وقت کی فکر میں بیٹھا جارہا تھا۔۔۔ جب آثر میر کو ملک زوہان کے اِس کار نامے کا پتا چلے گا تو اس کا جوابی وار بھی کچھ کم نہیں ہونے والا
تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماورا میں نے جو کہا ہے اُس پر عمل کرنا ۔۔۔۔ میری اور اپنی زندگی کو مزید مشکل میں مت ڈالنا۔۔۔۔ ہم دونوں کی زندگی کی ایک کی خواہش ہے۔۔ اس نمائش گاہ پر بکاؤ مال بننے سے بچ کر ایک عزت والی زندگی گزارنی
۔ جس میں ہمیں کوئی ہمیں ایک طوائف کی ناجائز اولاد کر کے نہ
پکارے بلکہ ایک نیک عورت کی جائز اولاد کی حیثیت سے ہی جانا ہے
جو کہ ہماری حقیقت ہے۔۔۔
حائفہ ماورا کو وہاں سے رخصت کرتے وقت اُسے اپنے مقابل کھڑا کیے بھاری دل کے ساتھ بولی تھی۔ ہر بار اُسے خود سے جدا کر کے دوسروں کے بارا کر رحم و کرم پر بھیجنا اُس کے لیے ایسے ہی مشکل ہو جاتا تھا۔ ماورا کے معاملے
میں وہ کسی پر ٹرسٹ نہیں کرتی تھی۔
مجھے معاف کر دیں آپی۔۔۔۔ میری ایک سنگین غلطی کی وجہ سے آپ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔۔۔ میں اب آگے کچھ غلط نہیں کروں گی۔۔۔۔ مگر میرادل آپ کے حوالے سے بہت افسردہ ہے۔۔۔ مجھے ملازمہ سے پتا چلا ہے ۔۔۔ جہاں آپ جارہی ہیں وہ لوگ بہت خطرناک ہیں۔۔۔۔ آپ کے لیے اپنی جان و عزت کی حفاظت کرنا بہت مشکل
ہو جائے
آپی مان لیں میری بات۔۔۔ ہم چھپ کر بھاگ
جاتی۔۔۔۔۔۔
ماورا کے باقی الفاظ منہ میں ہی تھے۔ جب حاعفہ نے ہتھیلی اس کے ہونٹوں پر
رکھتے اُسے وہیں خاموش کر واد یا تھا۔
ہمیشہ فضول مت بولا کرو۔۔۔۔ آگر کسی نے سن لیا تو ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔۔۔۔ان لوگوں سے بیچ کر نکلنا اتنا آسان ہوتا تو میں کب کی اپنی جان اس غلاظت بھری زندگی سے چھڑوا چکی ہوتی۔۔۔۔
یہ جملہ ادا کر تے آخر میں حائفہ کی آنکھوں میں سے آنسو بہہ نکلے تھے ۔۔۔۔ یہاں رہنا اُس کے لیے کتنا اذیت ناک تھا، کوئی سمجھ نہیں پاتا۔۔۔۔ آپی ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔۔۔۔ آئی لو یو سومچ ۔۔۔۔ آپ جیسی صاف نیت پیاری لڑکی کو میرے رب نے جب اس گندگی اور غلاظت کے ڈھیر میں اب تک محفوظ رکھا ہوا ہے تو مجھے یقین ہے آگے بھی ایسا ضرور
ہو گا۔۔۔۔۔جیسا ہم چاہتی ہیں۔۔۔۔
ماورا حاعفہ سے گلے مل کر اُس کے گال پر بوسہ دیتی محبت اور عقید بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔
لو یو ٹو میری جان۔۔۔۔ اپنا بہت سارا خیال رکھنا۔۔۔
حائفہ بھی اُسے ملتی وہاں سے رخصت کر گئی تھی۔ کرامت خان کا ڈرائیور اور ایک ملازمہ اُسے ہاسٹل تک چھوڑ آئے تھے۔ جہاں اب اُس پر نگرانی مزید بڑھ گئی تھی۔ وہ ہاسٹل یا یونیورسٹی کچھ بھی کرتی پھرتی اس سے نہیں
پوچھا جاتا تھا۔ لیکن یہاں سے کرامت کا خاص آدمی جو کہ یہاں اُس کی نگرانی ہر معمور تھا، اُسے بنا بتائے جانے کی پر میشن نہیں تھی۔ لیکن اب تو وہ مر کر بھی کوئی ایسی ویسی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔ جس کا دوہرا بھگتان اُس کی بہن کو بھگتنا پڑتا۔۔۔۔ ہمیشہ وہ یہاں خوشی خوشی آتی تھی۔ مگر اس بار اس کا یہاں آنے کو دل نہیں چاور ہا تھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ یہاں ہوا تھا ۔۔۔ اُسے کوشش کے باوجود دماغ سے نہیں کھر چ پارہی تھی۔
مگر جس نے اس کے ساتھ یہ سب کیا تھا وہ اسے کسی بھی قیمت پر بنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
حاعفہ اپنی پیکنگ مکمل کر چکی تھی۔ اُسے کچھ ہی دیر میں یہاں سے نکنا تھا۔ اس غلاظت کے ڈھیر سے نکالنا اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش
تھی۔۔۔ مگر آج جب وہ جارہی تھی یہاں سے تو اس کے دل پر ایک بھاری
بوجھ آن ٹھہر ا تھا۔
کیونکہ جس مقصد کے لیے وہ جارہی تھی، وہ کرنے سے بہتر وہ یہاں رہنا ہی سمجھتی تھی۔ یہاں کم از کم اس نے اپنی عزت تو محفوظ ر کھی ہوئی تھی۔ حافظہ کو نگینہ ہائی اور کرامت نے جانے سے پہلے کچھ ہدایات دینے کے لیے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ وہ اس طرف ہی جارہی تھی جب اُسے وہاں سے گزرتے ساتھ والے ایک روم سے کسی لڑکی کے چیخنے کی آوازیں تھیں۔۔۔۔ یہ دل دہلا دینے والی بے بسی بھری چیخیں یہاں اُسے اکثر سننے کو ملتی تھیں۔۔ مگر جو لڑ کی خود اپنے حالت سے بے بس تھی۔ وہ بھلا کسی اور
کے لیے کیا کر سکتی تھی۔۔۔۔
پھر بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُس نے اندر جھانکا تھا۔ جہاں نئی لائی گئی لڑکی کو سج سنور کر کسی کا بستر آباد کرنے کا کہا جار ہا تھا۔
اور اُس لڑکی کے مسلسل انکاری ہونے پر نگینہ بائی کی خاص ملازمائیں اُسے
بُری طرح پیٹ رہی تھیں۔۔
وہ لڑکی دیکھنے میں ہی کسی مڈل کلاس گھرانے کی شریف سی لڑکی لگ رہی تھی۔۔۔ مگر اُس کا بے پناہ حسین شاید یہاں موجود باقی لڑکیوں کی طرح اُس کا دشمن نکالا تھا۔ اب تو حائفہ کے منہ سے اکثر یہی دعا نکلتی تھی کہ اس کا رب اسے دیا یہ حسن چھین لے ، وہ بد صورت ہو کر عزت کی زندگی تو گزارے۔
حافہ اکثر یہاں آئی لڑکیوں کی اپنے اختیار کے مطابق خفیہ طریقے سے کچھ نہ کچھ مدد کر ہی دیتی تھی۔ لیکن نگنیہ بائی کو اس بارے میں کچھ حد تک خبر ہو چکی تھی۔ وہ حاعفہ پر نظر رکھوانے لگی تھی۔ جس کی وجہ سے حائفہ کافی سنبھل گئی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی نگینہ بائی اُسے تو کچھ نہیں کہے گی۔۔۔ مگر ماورا کے حوالے سے ضرور کوئی الٹا قدم اٹھائے گی ۔۔۔۔ وہ لوگ پہلے ہی
ماورا کے ڈاکٹر بننے کے کافی خلاف تھے۔۔۔
مگر حاعفہ نے اُن کو کچھ اس طرح بلیک میل کیا تھا کہ انہیں حامی بھرنی ہی
پڑی تھی۔
حائفہ اس لڑکی کی حالت دیکھ ابھی بھی بے حس بن کر گزر جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر نجانے کیا کشش تھی کہ وہ اپنے قدم کمرے کے اندر بڑھنے
سے روک نہیں پائی تھی۔
کیا ہوا ہے۔۔۔؟ کیوں مار رہی ہوا سے تم لوگ۔۔؟
حائفہ نے قریب آتے سرسری ساپو چھا تھا۔ اُس کی آواز پر دونوں ملازمہ
پیچھے ہوتی اس کی جانب پلٹی تھیں۔۔۔
رانی صاحبہ دو دن ہو گئے ہیں اسے یہاں آئے۔۔۔۔۔ مگر یہ مہارانی نہ رقص کے لیے راضی ہو رہی ہے۔۔۔ نہ کسی گاہک کے سامنے پیش ہونے
کے لیے۔۔۔۔
ملازمہ اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتی اُس ڈری سہمی زخموں سے نڈھال بیٹھی لڑکی کی جانب حقارت بھری نظروں سے دیکھتے بولی۔۔۔۔
اُس کی بات پر حائفہ نے مٹھیاں بھینچے بہت مشکل سے خود پر قابو پایا
تھا۔۔۔۔
اُس کے لیے یہ نئی بات نہیں تھی۔۔۔ یہاں لڑکیوں کو ایسے ہی جانور سمجھا
جاتا تھا۔۔۔ حیوان
ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ۔۔۔ میں اپنے طریقے سے سمجھاتی ہوں
حائفہ اُس ڈری
معصوم سی لڑکی پر ترس کھاتی اُن دونوں سے مخاطب
ہوئی تھی۔۔۔۔ جس پر وہ دونوں اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئی
تھیں۔۔۔۔
اس لڑکی نے امید بھری نظروں سے حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔ جو ان خرانٹ ہٹی کئی ظالم عورتوں کی طرح نہیں لگ رہی تھی۔
رائل بلو سٹائلش سے گرم سوٹ پر شانوں کے گرد شال لپیٹے ، سیاہ سلکی بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے سامنے کھڑی اس حسن و نزاکت کی مورتی کو اُس
لڑکی نے اُمید بھری نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔اُسے یہ گھنیری خمدار پلکوں تلے ڈھکی شہد آگہی نگاہیں اپنائیت لیے اپنی جانب اٹھتی محسوس ہوئی
تھیں۔۔۔
کیوں ان کی بات سے انکار کر کے خود پر مزید ظلم کر رہی ہو ؟۔ یہاں سے چھٹکارا پانا آسان کام نہیں ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے کے یہ تمہاری چمڑی ادھیر
کر رکھ دیں۔۔۔ ان کی بات مان لو۔۔۔۔۔
وہ لڑ کی زمین پر اپنے گھٹنوں کے گرد باز و باند ھے سکڑی سمٹی بیٹھی تھی۔۔۔ حاعفہ اُس کے قریب رکھی چیز پر بیٹھتی اُسے مفید مشورے سے
نواز گئی تھی۔۔۔
آپ چاہتی ہیں۔۔۔۔ میں اپنی عزت پامال کر دوں۔۔۔۔
اُس لڑکی نے سرد تاثرات سے حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔ اُسے تو لگا تھا شاید یہ پری پیکر اس کی مدد کرے گی۔۔۔ مگر یہ تو الٹا اسے اند ھیری کھائی میں
کودنے کو بول رہی تھی۔۔۔۔
… یہاں کیسے پہنچی تم ؟؟
اُس کے سوال کے جواب میں حاعفہ نے دوہر اسوال کیا تھا۔ حائفہ کی بات پر وہ لڑ کی گڑ بڑاتی نظریں چراگئی تھی۔۔۔ حائفہ اپنی سوچ کی درستگی پر تلخی سے
مسکرادی تھی۔۔۔
عزت تو تم اپنی پہلے ہی پامال کر چکی ہو ۔۔ اپنے ماں باپ کو دھوکا دے کر
۔۔۔ گھر سے بھاگ کر ۔۔۔۔
حائفہ کرسی کے ہینڈ پر پڑی دھول کو انگلی صاف کرتی چاہنے کے باوجود
اپنے لہجے کو طنز یا ہونے سے روک نہیں پائی تھی۔
آپ کو کیسے پتا؟
اُس لڑکی نے حیرت سے حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
یہاں آئی اکثر لڑکیوں کی یہی کہانی ہوتی۔۔۔ کسی نامحرم کے پیار میں پڑ کر ۔۔۔اُس پر اپنے بوڑھے ماں باپ کی عزت داغدار کرنے میں لمحہ نہیں لگا تیں۔۔۔اور اُن کا وہی عاشق۔۔۔ جو اُن کے لیے جان دینے کی قسمیں
کھا چکا ہوتا ہے۔۔۔ چند پیسوں کے عوض اپنی محبوباؤں کو یہاں پیچ جاتے ہیں ۔۔۔۔ آج کل تو محبت جیسے پاکیزہ رشتے کو دلوں کے ملن سے زیادہ جسموں کا ملن بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔ تم لوگوں نے ۔۔۔۔ محبت جیسا خالص جذ بہ اب دھو کے اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں رہا ۔۔۔۔ کتنی ناشکری ہیں نا تم جیسی لڑکیاں۔۔۔ اپنے ماں باپ کی عزت و محبت بھری چار داری کی چھاؤں چھوڑ کر ۔۔۔ خود کو ایسی پُر فریب دنیا میں پٹخ دیتی ہو۔۔۔ ہم جیسیوں سے پوچھو۔۔۔ جن کی ساری عمر اس عزت بھری چار دیواری کی نکل جاتی۔۔۔ اور آخر میں عزت بھرا کفن بھی نصیب نہیں
ہوتا۔۔۔۔۔
حائفہ آنکھوں میں اتر آئی نمی اندر دھکیلتی یاسیت بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔ اس کے لہجے میں پنپنتاد کھ اور محرومی وہ اجنبی لڑکی محسوس کرتی مزید شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔۔ پچھتاوں نے پہلے ہی اُسے اندر سے ختم کر
چھوڑا تھا۔۔۔اُوپر سے حائفہ کی باتوں نے اُسے مزید پستی میں دھیکل دیا
تھا۔۔
آپ یہاں۔۔۔۔
اُس لڑکی نے سوالیہ انداز میں حائفہ کی جانب دیکھتے اپنی بات ادھوری چھوڑ
دی تھی۔۔۔
میں ایک طوائف زادی ہوں۔۔۔۔ میرا جنم تو اسی کوٹھے پر ہوا
دنیا کی بد قسمت ترین لڑکیوں میں سے ایک۔۔۔۔۔ حاعفہ نے اپنا ہی تمسخر اُڑایا تھا۔۔۔۔ جیسے اِس جگہ پیدا ہو نا اُس کا قصور
تھا۔۔۔۔
کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔؟
حاعفہ نے سرسری سا پوچھ لیا تھا۔۔۔
بینش ۔۔۔۔۔۔
وہ لڑکی اب حائفہ کے سامنے ندامت کے مارے چہرا نہیں اُٹھا پار ہی
تھی۔۔۔
کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں ۔۔۔۔ ؟؟؟ میں مانتی ہوں میری غلطی معاف کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔۔۔ مگر میں یہ سب برداشت نہیں
کر پاؤں گی ۔۔۔ مر جاؤں گی میں۔۔۔۔
وہ لڑ کی حائفہ کے پیر پکڑتی اس کے قدموں میں آن گرتی آنے والے وقت کے خوف سے بلک بلک کر رودی تھی۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو تم ؟؟؟ ٹھو یہاں ہے۔۔۔۔
حائفہ اس کی حرکت پر ایک دم بو کھلاتی پیر پیچھے ہٹا گئی تھی۔۔۔ حائفہ کا ایک لمحے کو دل چاہا تھا اس لڑکی کو اپنے ساتھ ملازمہ بنا کر ہی لے جائے۔۔۔ مگر پھر نگنیہ ہائی کا خیال آتے وہ سوچ بدل گئی تھی۔۔۔ نگنیہ بائی اُس کے ساتھ اپنی کسی خاص ملازمہ کو ہی بھیجنے والی تھی۔۔۔ جو پوری طرح
سے اُس کی جاسوسی کر سکے۔۔۔۔
پلیز۔۔۔۔ خدا کے لیے میری مدد کر دیں۔۔۔ اللہ آپ کی مدد کرے”
حاعفہ کچھ دیر خاموش نظروں سے اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ پھر ایک بو جھل سانس ہوا میں خارج کرتے اُسے کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا
تھا۔۔۔
جو میں کہوں گی وہ مانو گی۔۔۔
حائفہ خود کو اس لڑکی کی مدد کرنے سے روک نہیں پارہی تھی۔۔۔۔ حائفہ کے نرم لہجے پر بینش نے فورازور و شور سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ یہ لوگ تمہیں جیسا کہہ رہی ہیں ویسے تیار ہو جاؤ۔۔۔ اور جس کے پاسبھی بھیجنا چاہیں خاموشی سے وہاں چلی جاؤ۔۔۔۔
حائفہ کی بات پر اُس لڑکی کی آنکھوں میں جلتے اُمید کے دیئے بج گئے۔۔۔۔
تمہیں وہاں جا کر صرف ایک کام کرنا ہو گا پوری ہوشیاری اور کانفیڈنس کے ساتھ۔۔۔۔اگر زرا سی بھی چو کی تم اپنے کام سے تو بہت بُری پھنسو
گی۔۔۔۔۔
حائفہ کی اب کی کہی بات پر بینش سانس روکے ہمہ تن گوشہ ہوئی
جب حائفہ نے اپنی ٹراؤزر میں بنی خفیہ پاکٹ سے ایک چھوٹی سی تھیلی نکالی تھی۔ جو سوتے میں بھی وہ اپنے پاس رکھتی تھی۔۔۔۔
اس تھیلی میں سے چند گولیاں نکال کر اس نے بینش کے ہاتھ پر رکھی تھیں۔۔۔۔ یہ وہی گولیاں تھیں۔۔۔ جو آج تک اُس کی نجات کا باعث بنی ہوئی تھیں۔۔۔۔ بینش شاید وہ واحد لڑکی تھی جس کے سامنے حائفہ اپنار از
کھول رہی تھی۔
بینش نے اپنی ہتھیلی پر رکھی گولیوں کو دیکھتے سوالیہ نگاہیں حائفہ کی جانب
اُٹھائی تھیں۔۔۔
Please Share with your friends on Facebook


Pingback: Haifa and Zanisha Novel Part 3 – Urdu Font Stories | Online Free