In Part 20 of the ongoing Haifa and Zanisha series, the emotional and romantic intensity reaches new heights. This episode explores their bold love story in Urdu, filled with deep passion, heartfelt decisions, and unpredictable twists. Readers who enjoy hot romantic Urdu novels will find this part especially captivating, as it perfectly blends Urdu love story drama with bold emotions.
If you’re looking for a bold romantic Urdu story, full of feeling, fire, and real connection, then this chapter is a must-read.

Haifa and Zanisha Novel Part 20 – Hot Romantic Story in Urdu
Read Here Haifa and Zanisha Novel Part 19 – Bold Love Story
حمیرا بیگم کہ نظر ماور اپر پڑی تھی جو ز نیشہ کے ساتھ کھڑی حسرت بھری نظروں سے بھائی بہن کے اس پیارے رشتے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ حمیر ابیگم کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔۔ وہ ماورا کو بازو کے حلقے میں لیے آژ میر
کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔۔
” یہ ماور امیری چھوٹی بیٹی۔۔۔۔”
حمیرا بیگم جس اپنائیت سے ماور ا کا تعارف کروارہی تھیں۔۔۔
” السلام و علیکم ۔۔۔”
آژ میر کو اُسی طرح خاموش کھڑا دیکھ اور انے پہل کی تھی۔۔۔ اُسے محسوس ہوا تھا شاید حائفہ کی وجہ سے آژمیر اس سے بھی بات کرنا پسند نہ
کرے۔۔۔
” وعلیکم اسلام ! آپ کو اپنی اصل جگہ پر دیکھ کر بہت اچھا لگا۔۔۔۔”
آژ میر سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔”
آژمیر کے اتنے اچھے سے بات کرنے پر ماورا کھل اُٹھی تھی۔۔۔ “کیا میں آپ کو لالہ کہہ سکتی ہوں ؟؟؟
آژ میر کے الفاظ پر اس کی ہمت بندھی تھی۔۔۔ آژ میر کی رعب دار شخصیت دیکھ وہ اچھے سے حائفہ کے خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سمجھ گئی
تھی۔۔۔۔
حائفہ دوپٹہ کا پلو چہرے کے آگے ٹھیک کرتی خاموشی سے وہاں سے کھسکنے کا
ارادہ کرتے مڑی تھی۔۔۔
جی کہہ سکتی ہیں۔۔۔۔ آپ بھی میرے لیے زنیشہ کی طرح ہیں۔۔۔ کبھی”
بھی کوئی بھی پرابلم ہو آپ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں۔۔۔۔ آژمیر کو یہ نروس سی معصوم لڑکی بہت اچھی لگی تھی۔۔۔ جو بالکل زنیشہ کی طرح اس کے سامنے کچھ کہنے نہ کہنے کی کشمکش میں مبتلا کھڑی تھی۔۔۔ آژمیر اُس کی کیفیت سمجھتا اُس کی ہمت بڑھا گیا تھا۔۔۔۔
تھینکیو سوچ لالہ۔۔۔۔ آپ میری سوچ سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔۔۔۔” ماورا کو یہ سامنے کھڑا پر کشش پرسنیلٹی کا شخص اپنی پیاری بہن کے لیے
بالکل پر فیکٹ لگا تھا۔۔۔۔
ارے حائفہ بیٹا کہاں جارہی ہو ۔۔۔؟؟؟ آژمیر سے نہیں ملو گی ؟؟؟ یہاں آو
شمسہ بیگم وہاں سے رخ موڑے جاتی حائفہ کو دیکھ کر پکار بیٹھی تھیں۔۔۔ جہاں حائفہ کے قدم زمین میں جکڑے گئے تھے۔۔۔ وہیں آژ میر کی نگاہیں بھی بے اختیار اس کی جانب اٹھی تھیں۔۔۔
رُخ موڑے کھڑی اُس سجی سنوری دوشیزہ کو دیکھ آژ میر یہاں سے بھی اُس کی کپکپاہٹ کا اندازہ لگا سکتا تھا۔۔۔
حائفہ دوپٹہ مٹھیوں میں جکڑے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ پلٹی
اماں سائیں مجھے ابھی آپ لوگ اپنا فنکشن انجوائے کریں۔۔۔ باقی باتیں “
” بعد میں ہو نگی۔۔۔۔
آژ میر اپنی جانب پلٹتی حائفہ پر ایک نگاہ غلط بھی ڈالے بغیر وہاں سے ہٹ گیا
تھا۔
زنیشہ نے خنگی نظروں سے دور جاتے بھائی کو دیکھا تھا۔۔۔ جو کبھی
کبھار یوں ہی روڈ ہو جاتا تھا۔۔۔
باقی سب بھی شرمندہ ہی ہو گئی تھیں۔۔۔
” حائفہ بیٹا وہ اجلدی میں تھا۔
شمسہ بیگم نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔۔۔
” تائی جان کوئی بات نہیں۔۔۔۔
حائفہ بمشکل مسکرا کر انہیں جواب دیتی وہاں سے جلدی سے نکل آئی تھی۔۔ کیونکہ کچھ منہ زور آنسو اُس کی پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آگرے
تھے۔۔۔
آژمیر کا اس طرح صاف نظر انداز کرنا حائفہ کی تکلیف میں مزید اضافہ کر گیا تھا۔۔۔ جس کے لیے اُس نے اپنا یہ روپ سجایا تھا۔۔۔اُس کے لیے وہ کسی
قابل ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@
زوہان اپنے سامنے لیپ ٹاپ کھولے۔۔۔۔ اپنے لندن والے کلائنٹ سے
ویڈیو ڈسکشن میں بہت
انہماک سے میٹنگ کرنے
میں مصروف تھا۔۔۔۔ جب سائیڈ ٹیبل پر رکھے اُس کے موبائل کی
خاص رنگ ٹون بجی تھی۔۔۔۔
جو اُس نے خاص طور پر زنیشہ کی کال اور میسیجز کے لیے مختص کر رکھی
تھی۔۔۔۔
اِس وقت بھی میٹنگ میں ہونے کے باوجود وہ موبائل اُٹھاتا وہ میسج نوٹیفیکیشن اوپن کر گیا تھا۔۔۔۔ مگر سکرین پر ابھرتی تصویر دیکھ وہ کتنے ہی
لمے نظریں پھیر نے کے قابل نہیں رہا تھا۔۔۔۔
سلورر نگ کے لہنگے میں پھولوں کے زیور سے سجی وہ حسین پری کوئی اور نہیں بلکہ اس کی زنیشہ میران تھی۔۔۔۔۔ اس سے ناراضگی کے باوجود زوہان اُس کو کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
جبکہ سامنے لیپ ٹاپ کی سکرین پر کچھ امپورٹنٹ پوائنٹ ڈسکس کرتا مسٹر ڈیویڈا سے بلا بلا کر تھک گیا تھا مگر زوہان کے لیے تو جیسے وہ تصویر اس کڑوروں کی ڈیل سے کہیں زیادہ قیمتی تھی ۔۔۔۔
اور اوپر سے یہ تصویر اُسے زنیشہ نے خود اپنے موبائل سے سینڈ کی
مسٹر زوہان آریو او کے۔۔۔۔۔؟؟؟؟”
مسٹر ڈیویڈ بچارہ اُسے پکار پکار کر آخر میں مایوسی بھرے لہجے میں اُسے
پکارتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
اوہ آئم سوری مسٹر ڈیویڈ۔۔۔۔۔ پلیز
زوہان کو اچانک ہوش آیا تھا۔۔۔
اُس کے اتنی دیر بعد جاکر رسپانس کرنے پر مسٹر ڈیویڈ نے بھی شکر ادا کیا
تھا۔۔۔۔
لیکن اُس کے بعد زوہان کوشش کے باوجود پوری میٹنگ میں ایک بار بھی ٹھیک سے دھیان نہیں دے پایا تھا۔۔۔۔
اور میٹنگ انتہائی بُری رہی تھی۔۔۔
مگر زوہان کو اس کی پر واہ نہیں تھی۔۔۔
لیپ ٹاپ بند کرتے اُس نے فلحال کے لیے ساری ناراضکی پس پشت ڈالتے زنیشہ کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔۔
یہ ایک چھوٹی سی بات ہی اُس کا دل نرم کرنے کی وجہ ثابت ہوئی تھی کہ
زنیشہ نے خود اُسے اپنی تصویر سینڈ کی ہے۔۔
@@@@@@@@@
” آپی آپ یہاں ہیں اور میں کب سے آپکو ہال میں ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔” ماورا حائفہ کو سیڑھیوں کی جانب بڑھتا دیکھ اس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
ہاں میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔۔۔ میں ریسٹ کرنے اپنے روم”
” میں جارہی ہوں۔۔۔
حائفہ اُس سے اپنے آنسو چھپاتے رخ موڑے بولی۔۔۔
آپی آپ اتنی جلدی ہمت کیسے بار سکتی ہیں۔۔۔ ؟؟؟ مجھے بابا نے بتایا ہے کہ
آژ میر لالہ کی سپورٹ کی وجہ سے ہی ہمیں اس گھر میں سب نے قبول کیا ہے۔۔۔۔ تو اس کا مطلب یہی ہوانا کہ آژمیر الہ بھی آپ کو یہاں دیکھنا
” چاہتے ہیں۔۔۔
ماورا اس کی بھیگی آنکھیں دیکھ چکی تھی۔۔۔ ماورا۔۔۔۔۔
میں نے ہار نہیں مانی اور ا۔۔۔۔۔ اور نہ کبھی زندگی میں آژ میر کے حوالے
سے ہار مانوں گی۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے میں محبت کی دہلیز پار کر کے اُن سے عشق کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہوں۔۔۔ ان کے لیے میری چاہت دیوانگی کی حدوں کو چھو چکی ہے۔۔۔۔ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ جو کچھ
میں اُن کے ساتھ کر چکی ہوں۔۔۔ اُس کے بعد میں اُن کے اس سے بھی
کہیں زیادہ بُرے رویہ کی مستحق ہوں۔۔۔۔۔اُن کی عزت میری نگاہوں میں مزید بڑھ چکی ہے۔۔۔ آژ میر میران جیسا انسان قسمت والوں کو ملتا ہے۔۔۔۔ اور میں اپنے آپ کو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی تصور کر
تی ہوں۔۔۔۔
مگر ناجانے کیوں دل کو عجیب سادھڑ کا لگا ہوا ہے۔۔۔۔ میں آژ میر کو پانے سے پہلے ہی کھو دینے سے ڈرتی ہوں۔۔۔ مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے دور ہو جائیں گے۔۔۔۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں زندہ نہیں رہ پاؤں ” مر جاؤں گی اُن کے بغیر میں۔۔۔۔
حائفہ آنسوؤں کے درمیان بولتی ماورا کا دل بھی دکھ سے بھر گئی تھی۔۔۔۔ نجانے وہ دن کب آنے والا تھا جب اس کی بہن کی دکھوں بھری زندگی
خوشیوں میں بدلے گی۔۔۔
چی چی ۔۔۔۔ بچاری حائفہ ۔۔۔۔۔ میری دیکھا دیکھی آژ میر کے لیے ” تیار ہوئی تھی تم ۔۔۔۔ اور انہوں نے تم پر ایک نگاہ ڈالنی بھی ضروری نہیں
سمجھا۔۔۔۔۔ کہیں آژ میر میر ان کے اس محل میں آکر اُن کے دل کی ملکہ
” بننے کے سپنے تو نہیں دیکھنے لگ گئی تم۔۔۔۔
حائفہ کی آخر میں بولی آدھی ادھوری بات سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے سویرا اپنے اندر کی بھٹڑ اس اُس پر نکال گئی تھی۔۔۔۔
سویرا اپنی زبان سنبھال کر بات کرو۔۔۔۔
ماورا نے پلٹ کر اسے ٹو کا تھا۔۔۔۔۔ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ سویر ا حائفہ
کے
معمولی حسن سے کس قدر خائف ہے۔۔۔۔
” کیا ہو رہا ہے یہاں ….؟؟؟؟”
اِس سے پہلے کہ سویرا مزید اپنی زبان کھولتی۔۔۔۔ حاعفہ کو اپنے عقب سے اُس دشمن جاں کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔۔ اس کی دھڑکنیں پھر سے بے
قابو ہو ئی تھیں۔۔۔۔
” کچھ نہیں وہ۔۔۔۔۔”
سویرا آژ میر کے سامنے اپنا یہ روپ نہیں لانا چاہتی تھی اس لیے ایک دم
گھبراگئی تھی۔۔۔
میں زنیشہ کی خوشی میں کوئی فضولیات نہیں چاہتا۔۔۔۔۔” سویرا کےاوپر ایک سخت نظر ڈال کر اسے وارن کرتے آژ میر نے وہاں سے جانے کا اشارہ کر دیا تھا۔۔۔۔
جس پر سویرا کے ساتھ ساتھ ماور ابھی جلدی سے نکل آئی تھی ۔۔۔۔ حاعفہ نے بھی اُن کے پیچھے جانے کے لیے قدم آگے بڑھائے ہیں تھے۔۔۔۔ جب عین پیچھے کھڑے آخر میر نے اس کی کلائی دبوچتے اپنی
جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔
حاعفہ اس حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔
سیدھی اس کے سینے
سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
حائفہ کا پور اوجود آژمیر کے لمس پر لرزنے لگا تھا۔۔۔ جبکہ آژمیر تو حائفہ کا یہ قاتلانہ حسن دیکھ پہلی نگاہ میں ہی پوری طرح گھائل ہو گیا تھا۔۔۔۔
جس قدر غصے میں اُس نے حائفہ کو اپنے قریب کیا تھا۔۔۔حاعفہ کا یہ سہانہ رُوپ اُس کو ہیپنو ٹائنز سا کر گیا تھا۔۔۔اُس کا ہر ہر عمل بتاتا تھا اُسے اب بھی
بے پناہ محبت بھی
تھی۔۔۔۔
شفاف گالوں پر بلش آن سے قربت کی سرخی چھا گئی تھی ۔۔۔۔ لال پیسٹک لگے اس کے کپکپاتے ہونٹ زرا او پر چمکتا سیاہ تل آژ میر کو مکمل طور پر اپنے سحر میں جکڑ گئے تھے۔۔۔ حافظہ اس کے چوڑے سینے پر دونوں ہتھیلیاں
کھڑی پوری
طرح سے اس کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔۔
وہ دونوں ہی اس وقت بھول چکے تھے کہ وہ بیڈ روم میں نہیں بلکہ مہمانوں سے بھرے گھر کے ڈرائنگ روم میں کھڑے ہیں۔۔
مگر وہ آخر میر میر ان تھا اُسے اپنے آپ پر پورا اختیار تھا۔۔۔ اس کے مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کا ثبوت ہی یہی تھا کہ وہ کمزور لمحوں میں بھی حائفہ
جیسی بے حد حسین قیامت خیز حسن کی مالک لڑکی کو اپنے قریب آنے سے
دھتکار چکا تھا۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب کر گے ۔۔۔۔ میرا اپیار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گی۔۔۔۔ ؟
حائفہ کے بالوں میں ہاتھ پھنسائے وہ اُس کا چہرا اپنے چہرے کے بے حد قریب کر چکا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے آژ میر کا شدت بھر المس اسے اپنے تل پر محسوس ہوا تھا۔۔۔ حاعفہ اس دہکتے لمس پر جی جان سے لرز اٹھی تھی۔۔۔۔ آژ میر کی گرم سانسیں اس کا چہرا جھلسار ہی تھیں۔۔۔
حائفہ کی جان مشکل میں پڑ چکی تھی۔۔ اس شخص کی اتنی قربت بر داشت کرنا اُس کے بس کی بات نہیں ہیں ۔
اُس نے چند قدم پیچھے ہٹنا چاہا تھا جب آژ میر اُس کی نازک کمر میں ہاتھ ڈالتا اپنے مزید قریب کر گیا تھا۔۔۔ اتنا کہ دونوں ایک دوسرے کی سانسیں با
آسانی محسوس کر سکتے تھے۔
ایسی غلطی دوبارہ مت کرنا۔۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں”
” ہو گا۔۔۔۔
حائفہ کے کان پر جھک کر گھمبیر بھاری سر گوشیانہ لہجے میں بولتا وہ اُس کی دھڑکنوں کا نظام درہم برہم کر گیا تھا۔۔۔۔۔ حائفہ کا یوں دور ہونا
آژ میر کو
شدید غصہ دلا گیا تھا۔۔۔ اس لیے اس نے فور آواران کیا تھا۔۔۔۔ حائفہ اس کے ہاتھ کا لمس اپنی کمر پر محسوس کرتی کانپ اٹھی تھی۔۔۔۔ اس نے آژ میر کی شرٹ دونوں مٹھیوں میں دبوچ لی تھی ۔۔۔۔
“….. آژمیر ۔۔۔۔ میں “
حاعفہ نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔۔۔
مگر اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی آژمیر حاعفہ کو اپنی گرفت سے آزاد کر گیا
تھا۔۔۔۔
حاعفہ نے اُس کے یوں اچانک دور ہو جانے پر خوفزدہ نظروں سے اُس کی
جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
“میرے لیے چائے لے کر آؤ۔۔۔۔۔”
آژ میر اُس کی خطرناک حد تک لال پڑتی رنگت دیکھ کر بولتا ہال کی جانب
بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
آژمیر کو خود پر اس وقت شدید غصہ آرہا تھا۔۔۔۔ اسے ہمیشہ اپنے آپ پر کنڑول رہا تھا۔۔۔ مگر آج وہ خود پر قابو نہیں رکھ پارہا تھا۔۔۔ دل ہمک ہمک
کر حائفہ کی قربت کا خواہاں تھا۔۔
مگر دماغ اس کی غلطی اتنی جلدی
معاف کرنے پر رضامند نہیں تھا ۔۔۔۔
آژ میر اسی سب میں الجھتا مزید جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔۔۔۔ حائفہ کے قریب آنے سے جو سکون اسے ملتا تھا وہ اُسی کا متلاشی تھا۔۔۔۔
حائفہ کو چائے لانے کا حکم دیتا وہ ہال میں قاسم صاحب اور باقی سب کزنز کے
در میان آن بیٹھا تھا۔۔۔ جہاں اب ساری فیملی موجود تھیں۔۔۔
اور سب کی آپس میں مستی سٹارٹ ہو چکی تھی ۔
سویرا اور صدف سب کو ملازمین کے ساتھ مل کر چائے سرو کرنے میں
مصروف تھیں۔۔۔۔
جب سویرا آژ میر کو وہاں آتا دیکھ نہایت خوشی سے اسے چائے دینے کے لیے اس کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
نو
تھینکس۔
چائے کی شدید طلب ہونے کے باوجود وہ سویر اسے چائے لینے سے انکار کر چکا تھا۔۔۔ اور سب کی
نگاہیں اپنا لہنگا سنبھالے ہال میں چائے لے کر انٹر
ہوتی حائفہ پر تھیں۔۔۔۔ جو وہاں اس کے
کیونکہ اُس گرد بیٹھے سب کزنز کی وجہ
سے آگے آنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی ۔۔۔۔
آژمیر اتنے دور بیٹھے بھی اُس کی پر ابلم سمجھ گیا تھا۔۔۔
تھکاوٹ کی وجہ سے میرے سر میں درد ہے۔۔۔۔ میں اپنے روم میں جارہا
ہوں۔۔۔۔
شمسہ بیگم کو انفارم کرتے آژمیر دروازے کے بیچوں بیچ حائل حائفہ کے
قریب آیا تھا۔۔۔۔
چائے میرے روم میں لے کر آؤ۔۔۔۔”
آژ میر اسے سر سے پیر تک گہری نگاہوں سے گھورتانیا حکم صادر کر گیا تھا۔۔۔۔ جس کے جواب میں حائفہ کے ہاتھ میں چائے کانگ لرز کر رہ گیا
تھا۔ سب کے سامنے اُسے چائے دینے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔۔
وہ جو
کمرے میں اکیلے ہونے کے احساس سے وہ کانپ اٹھی تھی۔۔۔۔۔ اُس پر اس وقت وہ محاورہ فٹ بیٹھتا تھا۔۔۔ آسمان سے گرا کھجور میں
اڑکا۔
مگر اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو قابو کرتے وہ آژمیر کے کمرے کی جانب
بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
ماورا کی بچی آج تم میرے ہاتھوں نہیں بچ پاؤ گی۔۔۔۔ یہ کیا کیا تم “
” نے۔۔۔؟؟؟
ز نیشہ ہاتھ میں موبائل پکڑے زوہان کی آتی کال دیکھ گھبراہٹ کا شکار ہوئی
مادر انے اُسے بنا بتائے شرارتا اس کی تصویر زوہان ن کو سینڈ کر دی تھی۔۔۔ زنیشہ کو جیسے ہی ماورا کا یہ کارنامہ پتا چلا اسی لمحے زوہان کی کال آنا بھی شروع
ہو چکی تھی۔۔۔۔
احسان فراموش لڑکی میں نے تو ہیلپ کی تمہاری۔۔۔۔۔ دیکھو میری” ایک حرکت سے تمہارے روٹھے پیا کیسے مان گئے ہیں۔۔۔۔ ماورا اس کی رونی صورت دیکھ اپنی ہنسی کنٹرول نہیں کر پائی تھی۔۔۔
تمہارے اس احسان کا بدلہ تو میں بعد میں پورا کرتی ہوں۔۔۔ پہلے اس
ہٹلر سے نبٹ لوں۔۔۔۔
زنیشہ اُسے زبردست گھوری سے نوازتی موبائل ہاتھ میں لیے سائیڈ پر ہوئی
تھی۔۔۔
کال اٹینڈ کرتے ہی اُس کی سماعتوں سے زوہان کی آواز ٹکراتی اُس کی سانسیں
منتشر کر گئی تھی۔۔۔
دہ ہاتھوں سے آدھ کھلا دروازہ دھکیلتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ اس نے ایک متلاشی نگاہ پورے کمرے پر دوڑائی تھی۔۔۔ مگر آژمیر کہیں نہیں
تھا۔۔۔۔
حائفہ کہ ہمت بندھی تھی۔۔۔ وہ جلدی سے چائے وہاں رکھ کر آژمیر کے
آنے سے پہلے کے ارادے سے آگے بڑھی تھی ۔۔۔
اتنے دنوں سے یہاں ہونے کے باوجود آج پہلی بار حائفہ آثر میر کے کمرے میں آئی تھی۔۔۔ اُسے باقی سب سے ہی پتا چلا تھا کہ آثر میر کو بالکل بھی پسند نہیں تھا کہ کوئی بلا وجہ اس کے کمرے میں داخل ہو ۔۔۔۔
اُس کے جہازی سائز بیڈ کی جانب بڑھتی حائفہ اُس کے عالی شان کمرے سے بہت متاثر ہوئی تھی۔۔۔ یہ شاید اس محل نماگھر کا ماسٹر بیڈروم
تھا۔۔۔ جو میران پیلس کے سب سے لاڈلے سپوت اور کافی حد تک خاندان کے مانے جانے والے سربراہ کے پاس ہونا ہی ڈیزرو کرتا
حائفہ بیڈ سائیڈ پر ٹرے رکھتی پلٹی ہی تھی جب دائیں جانب کھلتے واش روم کی دروازے کی آواز پر حائفہ کی سانسیں تھم سی گئی تھیں۔۔۔ اُس نے ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں مڑور تے لرزتی گھنیری پلکیں اُٹھا کر
آژمیر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
مگر اگلے ہی لمحے وہ حیا اور خفت سے چہرا جھکا گئی تھی۔۔۔۔ کیونکہ آژمیر بلیک ٹراؤزر میں ملبوس شرٹ لیس کھڑا تھا۔۔۔۔
اُس کا کسرتی سینہ اور کندھے اُس کی مضبوط باڈی میں نمایاں تھے۔۔۔۔ حائفہ کے پسینے چھوٹ چکے تھے۔۔۔ وہ واقعی اس شخص کے سامنے چیونٹی کی
حیثیت رکھتی تھی۔۔۔۔
” وہ چائے ۔۔۔۔”
حائفہ چائے کی جانب اشارہ کرتی جھکے چہرے پر گر آئی بالوں کی لٹوں کو کان
کے پیچھے اڑستے بولتی جانے کے لیے پر تولنے لگی ہی۔
آثر میر کی طرف سے اس کی بات کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا مگر حائفہ بنا دیکھے ہی اس کی اپنی جانب ہوتی پیش قدمی محسوس کر سکتی تھی۔۔۔ حائفہ پر ایک بار پھر لرزا طاری ہو چکا تھا۔۔۔اُسے کمرے سے آکسیجن ختم ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے اپنے لہنگے کو دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں
میں جکڑ لیا تھا۔۔۔
اس کی یہ ساری گھبراہٹ اور ہڑ بڑا اہٹ آژمیر سے بالکل بھی پوشیدہ نہیں رہ
سکی تھی۔۔۔
وہ حائفہ کے بے حد قریب آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ مگر حائفہ چہرا موڑ کر اُس کی جانب دیکھنے کی بھی جرات نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔
آژمیر نے زرا سا آگے کو جھکتے پھونک مار کر اس کے چہرے اور ہو نٹوں کو بار بار چھوتی لٹوں کو باہر کاراستہ دیکھا یا تھا۔
نجانے کیوں اسے بار بار حائفہ
کے بالوں کا ہو نٹوں سے آکر ٹچ ہو نا نا گوار گزر رہا تھا۔۔۔
جس کا بنا اظہار کیے جتاتے حائفہ کے چہرے سے
کانوں کے پیچھے
کر گیا تھا۔۔۔۔ اوپر سے حائفہ کے لال ہونٹ آژ میر کے خوف سے لرزتے کانپتے اُسی کے لیے اس وقت ایک بہت بڑا امتحان بن گئے تھے۔۔۔
“سر میں جاؤں۔۔۔۔۔”
حائفہ نے با مشکل یہ الفاظ ادا کر ہی لیے تھے۔۔۔
“ڈور کلوز کر کے آؤ۔۔۔۔”
آژمیر اُس کی خود سے فرار ہونے کی کوشش نوٹ کرتا اپنا نیا حکم صادر کر گیا
تھا۔۔۔۔ جس پر حاعفہ نے خوفزدہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا
تھا۔۔
مگر وہ اس کے بے انتہا قریب کھڑی تھی۔۔۔ اس لیے فورا نظریں جھکا گئی تھی۔۔۔۔ اس کا دل دھڑک دھڑک کر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔۔۔ مگر آژمیر کی حکم عدولی وہ کسی قیمت پر نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
آنے والے وقت کا سوچ کر غیر ہوتی حالت کے باوجو د حائفہ مرے مرے باوجود
قدم اٹھاتی دروازے کی جانب بڑھ گئی تھی۔
@@@@@@@@@
آژمیر کے کہے کے مطابق دروازے کو کانپتے ہاتھوں سے لاک کرتی وہ پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتی واپس آژمیر
کی جانب پلٹی تھی۔۔۔
اور سر جھکائے اُس سے کافی فاصلے پر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
آثر میر سینے پر باز و باند ھے اُس کے سہانے رُوپ کو گہری نظروں سے گھورتا اس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ حائفہ نے خوفزدہ ہونے کے باوجود زرا سا بھی اپنی جگہ سے پیچھے بنے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ وہ اب سمجھ چکی تھی کہ آژمیر کو اس بات سے چڑتھی
آج بھی کوئی نشہ آور دوا لے کر آئی ہو ۔۔۔۔۔ یا پھر پہلے ہی میری چائے
میں ملا چکی ہو۔۔۔ تاکہ میرے بے ہوش ہوتے ہی تم پھر یہاں سے بھاگ
” نکلو۔۔۔
آژمیر نے اس کے بے حد قریب آکر کھڑے ہوتے گہر اطنز کیا تھا۔۔۔۔ جس پر حاعفہ نے تڑپ کر سر اٹھاتے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔جو وحشت ناک نگاہوں سے اپنے گزرے اذیت بھرے لمحے یاد کر تاحاعفہ کو
نڑ پا گیا تھا۔۔۔
“آژمیر ۔۔۔۔۔
جاعفہ نے بھیگتی آنکھوں سے اُسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔
آژ میر اب سیاہ سلیو لیس بنیان پہن چکا تھا۔۔۔اس لیے حائفہ بھی اب
کمفرٹیل تھی۔۔۔
اب مر جاؤں گی۔۔۔۔ مگر ایسا کبھی نہیں کروں گی۔۔۔۔” حائفہ آژمیر کا بھروسہ واپس جیتنے کے لیے خود کو پوری طرح تیار کر کے آئی
تھی۔۔۔۔
اس کے باقی الفاظ منہ میں ہی روگئے تھے۔۔۔ جب آژ میر نے اس کی نازک کمر کو اپنی سخت گرفت میں دبوچتے اپنے بے پناہ نزدیک کر لیا تھا۔۔۔۔ مسز حائفہ آژ میر ۔۔۔۔ میری ایک بات غور سے سن لو اور اپنے دل و دماغ ” میں اچھی طرح بیٹھا بھی لو۔۔۔ مجھے بات دوہرانے کی عادت نہیں ” ہے۔۔۔۔ کیونکہ پھر میں بات دوہراتا نہیں سزا دیتا ہوں۔۔۔۔ اتنی ٹھنڈ میں بھی حائفہ کے ماتھے پر گھبراہٹ کے مارے پسینے کی نھی بوندیں نمودار ہوئی تھیں۔۔ جنہیں اپنی مضبوط ہتھیلی میں جذب کرتے وہ حاعفہ کو سانس روکنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔
حائفہ دل و جان سے اُس کی اگلی بولی جانے والی بات کی جانب متوجہ ہوئی
تھی۔۔۔۔۔
” تم صرف اور صرف میری ہو۔۔۔۔۔”
آژ میر یہ الفاظ ادا کرنے کے ساتھ حائفہ کو مزید اپنے قریب کر گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ بالکل اس کے سینے سے لگی آنکھیں پھاڑے بے یقینی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے کھڑی تھی۔۔۔۔
تم پر تم سے بھی پہلے میر احق ہے۔۔۔۔ اور میرے علاوہ کسی کا “
“نہیں۔۔۔۔
آژمیر بول رہا تھا جبکہ حائفہ اپنے آپ کو آسمانوں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ اُس کے کندھے پر دونوں ہتھیلیاں جمائے اُسے بے خود سی
سنے جارہی تھی۔۔۔
اور نہ ان آنکھوں میں میرے علاوہ کسی کے لیے آنسو ہیں گے۔۔۔۔انہونٹوں کی مسکان کی وجہ صرف میں ہو نا چاہئے ہوں۔۔۔۔ اور ان کے
خوف سے لرزنے اور کانپنے کاریزن میری قربت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا
” چاہئے۔۔۔۔۔
آژمیر کا ہاتھ اس کی آنکھوں سے ہوتا ہو نٹوں پر آن رکا تھا۔۔۔۔ جن پر لگی ریڈلپسٹک پہلی نظر سے ہی اُس کی نگاہوں کے حصار میں تھی۔۔۔۔ اور اُس کے ضبط کو آزماتی اسے کب سے بے قرار کیسے دے رہی تھی۔۔۔۔ آژمیر کتنی مشکل سے خود پر کنڑول کیے ہوئے تھا یہ صرف وہی جانتا
تھا۔۔۔۔
حائفہ بے قابو ہوتی سانسوں کے ساتھ کھڑی صرف اُسے تکے جارہی تھی
“آژمیر آپ۔۔۔۔۔”
حاعفہ نے اُسے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔۔ مگر آژ میر کو اپنی بات کے دوران اُس کا
یوں ٹوکنا بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔
جس کی سزا کے طور پر آژمیر حائفہ پر جھکتا اُس کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں اُلجھا گیا تھا۔۔۔۔ وہ ان لال رس بھرے ہو نٹوں کا وار مزید نہیں سہہ
پایا تھا۔۔۔
حائفہ اس حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی وہ لڑکھڑائی تھی۔۔۔ مگر
آژ میر اس کی نازک کمر میں دونوں بازو حمائل کرتا اُسے اپنی بانہوں میں
پوری طرح بھر گیا تھا۔۔۔
اُس کے لمس میں چھپی ناراضنگی ، غصہ، جھنجھلاہٹ، اضطراب، بے چینی اور بے قراری کے ساتھ ساتھ کتنی کیئر اور والہانہ چاہت چھپی تھی حائفہ
با آسانی محسوس کر سکتی تھی
اس کے لمس میں کبھی نفرت کا احساس
نمایاں نہیں ہو تا تھا۔۔۔۔ وہ شدید غصے اور طیش کے عالم میں بھی اسے
انتہائی نرمی سے چھوتا تھا کہ حائفہ کو اپنے ہونے پر ناز ہوا تھا۔۔۔۔ مگر وہیں
آژ میر کے لمس کی شدت برداشت کرنا بھی اس کے لیے آسان
نہیں تھا۔۔۔
اس وقت بھی لمحہ بالمحہ مدھم ہوتی سانسوں کے ساتھ اُس کی شد تیں برداشت کرتے حائفہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلا تھا۔۔۔۔ جس کے بعد
ہی آژمیر کو بھی اُس پر رحم آ گیا تھا۔۔۔۔
آژمیر حائفہ کو آزاد کرتا پیچھے ہٹا تھا۔۔۔ جبکہ حائفہ گہرے گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتی آژ میر کے سینے میں چہرا چھپاگئی
نجانے کتنے ہی لمحے گزر گئے تھے مگر حائفہ اس کے سینے سے لگی کھڑی ساری دنیا کا سکون اپنی اس مضبوط پناہ گاہ میں محسوس کر رہی تھی۔۔۔ جس کے علاوہ اُسے زندگی میں کسی شے کی طلب نہیں تھی۔۔۔
آژ میر میر ان اُس کی پوری دنیا تھا۔۔۔۔
نجانے کس احساس کے زیر اثر آژمیر چاہ کر بھی اُسے خود سے دور نہیں کر
پایا تھا۔۔۔
اُس کا دل ابھی کچھ دیر پہلے اُس پر پوری طرح واضح کر گیا تھا کہ وہ نہ اس لڑکی
کو اپنے دل سے نکال پایا تھا اور نہ اُس کی محبت کو ۔۔۔۔
مگر جو غلطی حائفہ نے کی تھی۔۔۔۔ اس کے بعد دوبارہ حائفہ پر اعتبار کرنا اور
اتنی جلدی اُسے معاف کرنے کو آث میر کسی صورت تیار نہیں تھا۔۔۔۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی تھی ۔
جس پر حائفہ ہوش کی دنیا میں آتے ہوئے اس
سے دور ہوئی تھی۔۔۔ اپنی بے خودی پر حائفہ کا چہرا شرم وحیا
سے لال ہوا تھا۔۔۔
اور ساتھ ہی دروازے پر کسی کے ہونے کا خیال اُسے الگ گھبراہٹ میں مبتلا کر گیا تھا۔۔۔ کیونکہ ماورا کے علاوہ اس گھر میں کوئی بھی اُن کے رشتے کی
حقیقت سے آگاہ نہیں تھا۔۔۔۔
مگر وہیں آژمیر کے تاثرات ہنوز تھے ۔۔۔ جیسے حاعفہ کا اُس کے کمرے میں
پایا جانا کوئی بڑی بات نہ ہو۔۔۔
آژمیر کو دروازے کی جانب بڑھتا دیکھ حائفہ چاہنے کے باوجود اُسے روک
نہیں پائی تھی۔۔۔
آژمیر کے دروازہ کھولتے ہی دوسری جانب سے سویرا کی چہکتی آواز اندر کھڑی حائفہ کو شدید جلن میں مبتلا کر گئی تھی۔۔۔ سویرا یہ اس وقت اُس کے
شوہر کے کمرے میں کیا کرنے آئی تھی۔۔۔
سویرا جو ہر طرف حائفہ کی غیر موجودگی نوٹ کرتی یہاں تک آئی تھی۔۔۔
آژ میر کو دروازے میں استہزاد ہ دیکھ وہ اس کے چوڑے وجود سے پیچھے کچھ میں وہ
دیکھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
وہ خالہ جانی نے بتایا ہے کہ آپ کے سر میں درد ہو رہا تھا تو میں آپ کے لیے چائے اور پین کلر لائی تھی۔۔۔ یہ سٹرانگ سی چائے پینے سے آپ کی
” ساری تھکاوٹ اُتر جائے گی۔۔۔۔
سویرا کی بات پر حائفہ نے خفگی سے آژ میر کی پشت کو گھور اتھا۔۔۔۔ کیونکہ سویرا کا انداز بتارہا تھا کہ وہ اس سے کافی بے تکلف تھی۔۔۔
اتنی بے تکلفی دیکھانے کی ہمت تو حاعفہ اُس کی بیوی ہونے کے بعد بھی نہیں
کر پائی تھی۔۔۔
میرے پاس چائے بھی ہے۔۔۔ سر درد اور تھکاوٹ ختم کرنے کی دوا بھی موجود ہے۔۔۔۔ تمہیں فکر مند ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں
آثر میر کا اشارہ حائفہ کی جانب تھا جسے سمجھتے حائفہ کے ہونٹوں پر
شر مگیں مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔ یہ شخص شدید ناراضگی کے باوجود بھی کسی دوسری عورت کی جانب متوجہ نہیں ہوا تھا۔۔۔ اور حائفہ کے اتنے بڑے
دھو کے کے باوجو داُس کے ساتھ زرا سا بھی سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا۔۔ دو اس شخص کے ساتھ پر نازاں نہ ہوتی تو کیا کرتی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
آژ میر سویرا کی مزید کوئی بات سنے بغیر دروازہ بند کرتا واپس پلٹ آیا تھا۔۔۔ جبکہ اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ حائفہ کی جان پھر سے آدھی ہوئی
تھی۔۔۔۔۔
ایک طرف وہ آژ میر کی نگاہوں سے اوجھل بھی نہیں رہنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ وہیں دوسری جانب آخر میر کی سلگتی قربت برداشت کرنا بھی اس کے بس
سے باہر تھا۔۔۔۔
” میں جاؤں۔۔۔۔
حائفہ آژمیر کی تپیش زدہ نگاہوں سے گھبرا کر کچھ کی جگہ کچھ بول گئی تھی۔۔۔۔وہ کہنا کچھ اور چاہتی تھی اور اُس کی زبان سے گھبراہٹ میں کچھ
اور ہی نکل گیا تھا۔۔۔
اُسے زرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے منہ سے نکلنے والے یہ چند الفاظ
آژمیر کا اچھا خاصہ بدلتا موڈ خراب کر دیں گے۔۔۔۔
تم ہر وقت مجھ سے فرار کے ہی موقع کیوں ڈھونڈتی رہتی ہو ۔۔۔۔ کیا میر اساتھ اس قدر ناگوار ہے تمہارے
آژمیر کا موڈ ایکدم بدل گیا تھا۔۔۔ حائفہ کا اس وقت خود کو ڈھیروں گالیاں دینے کا دل چاہا تھا۔۔۔ وہ آژمیر کے سائے سے ہٹنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ لیکن آزمیر کے تاثرات دیکھ اُسے لگا تھا وہ ابھی اُسے پکڑ کر کمرے سے نکال باہر کرےگا۔
لیکن اگلے ہی لمحے آث میر کی کی جانے والی حرکت اُسے حیران کر دی تھی۔۔۔ آژ میر نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ پر ترتیب سبھی چادر کھولی ہی تھی۔ جس کے نتیجے میں بیڈ پر رکھا کمیل اور تکیوں کا ڈھیر کارپٹ پر بکھر گئے تھے۔۔۔۔ حاعفہ حیرت زدہ سی منہ کھولے کھڑی تھی۔۔۔ اُسے اِس لمحے آژمیر سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔ اُسی پل آژ میر نے بھی حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
وہ اُسے آنکھیں پھاڑے خوفزدہ نگاہوں سے اپنی جانب دیکھتی بہت کیوٹ
لگی تھی۔۔۔۔
آژ میر نے ہاتھ بڑھا کر اس کا نیٹ کا دوپٹہ گرفت میں لیتے اپنی جانب کھینچ لیا
نے کہا تھا نا مجھ سے دور جانے کی بات غلطی سے بھی اپنی زبان پر مت میں
” لانا۔۔۔۔
حاعفہ کے کانوں میں پہنی پھولوں کی بالیوں کی خوشبو اپنی سانسوں میں
جذب کرتا وہ اس پر جھکا ہوا تھا۔۔۔
حائفہ نے نا سمجھی سے چہرا موڑتے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جس پر بے دھیانی میں حائفہ کے گداز ہونٹ آژمیر کے گال سے ٹکراگئے تھے۔۔۔ حائفہ کے پورے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی۔۔۔۔
یہ بیڈ شیٹ اور اس پر موجود باقی تمام چیزیں مجھے پہلے والی ترتیب میں ” چاہیئے۔ جلدی سے لگ جاؤ اپنے کام پر ۔۔۔۔
آژ میر اُسے سزا سنا تا مزے سے صوفے پر جا بیٹھا تھا۔۔۔ جبکہ حاعفہ اُس کی اس انوکھی سزا پر منہ کھولے حیرت ک مجسمہ بنی کھڑی تھی۔۔۔
آژ میر صوفے پر نیم دراز ٹانگیں سامنے پڑے ٹیبل پر رکھے اُسے کام کرتے
دیکھ رہا تھا۔۔۔ جس کی چوڑیوں کی چھن چھن پورے کمرے میں پھیلی آژمیر کے دل کے تار طرح چھیڑنے کی گستاخی کر گئی تھی۔۔۔ حاعفہ اپنے بھاری لہنگے ، نازک کمر پر آبشار کی طرح بکھرے لمبے بالوں اور بار بار پھسلتے دوپٹے سے الجھتی آژ میر کی نگاہیں خود سے ملنے نہیں دے رہی
تھی۔۔۔
آژ میر نے اپنے بے قابو ہوتے جذبات پر بندھ باندھنے کے لیے سائیڈ ٹیبل
سے سیگریٹ اُٹھا کر سلگھا لیا تھا۔۔۔
اس چلتی پھرتی قیامت کی تباہ کاریاں برداشت کرنا آسان کام بالکل بھی نہیں
تھا۔۔۔۔
اُس نے جو الفاظ سویرا کے سامنے ادا کیے تھے ۔۔۔ وہ بالکل سچ ثابت ہی ہو رہے تھے۔۔۔ تھکاوٹ تو کیا سر کا درد بھی بھاگ گیا تھا۔۔۔ اب بس رگوں میں اس لڑکی کا احساس نشہ بن کر دوڑنے لگا تھا۔۔۔۔ حائفہ اُس کی گہری سلگتی نگاہوں کی تاب نہ لاتی لرزتے ہاتھوں سے تکیہ بیڈ پر پر رکھتی آخر کار اپنا کام پورا کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔۔۔۔ مگر آژ میر کا ابھی کوئی موڈ نہیں تھا اسے اپنی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل اپنی جگہ سے اٹھتا حاعفہ کی جانب بڑھا تھا
ویلڈن ۔۔۔۔ مگر ابھی تمہاری سزا پوری نہیں ہوئی۔۔۔۔
حائفہ کی نازک ہتھیلی میں اپنی انگلیاں پھنساتے وہ اسے کھینچ کر اپنے قریب
کرگیا تھا ۔۔۔۔
یہ لڑکی اُس کے حواسوں پر پوری طرح حاوی ہو چکی تھی۔۔۔۔اس کے وجود سے اُٹھتی پھولوں اور مہندی کی ملی جلی خوشبو اپنی سانسوں میں اُتارتے آژ میر اُس کی نازک گردن پر اپنا گہر المس چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ آژمیر کا باز و جکڑتے اُس کے شدت بھرے لمس پر لرز اُٹھی
تھی۔۔۔۔
” آپ کی دی جانے والی ہر سزا میرے لیے سر آنکھوں پر رہے گی۔۔۔۔” حائفہ نے نم آلود آنکھوں سے آژ میر کی جانب دیکھتے جواب دیا تھا۔۔۔۔ وہ اپنی محبت کے ہر قدم پر کھڑی اترنا چاہتی تھی۔۔۔۔ آژمیر کو جتنی تکلیف اس نے پہنچائی تھی اس کے آگے یہ سزا تو کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔ آژمیر اس کے لفظوں پر ایک دم ہوش میں آتا ا سے اپنی گرفت سے آزاد کرتا الماری کی جانب بڑھا تھا اور سامنے کے ریک میں تہہ شدہ تمام کپڑے ہاتھ مار کر سامنے پڑے ٹیبل پر اچھال دیئے تھے۔۔۔
“سمیٹوا نہیں۔۔۔۔”
حائفہ کے منہ سے نکلا ہر لفظ اُس پر بھاری پڑ رہا تھا مگر وہ پھر بھی دل و جان سے اِس شخص کو منا لینے کا جذ بہ لیے اُس کے اِس عمل پر بھی دل ہی دل میں
مسکرادی تھی۔۔۔۔
اُسے آژمیر میر ان پر اس وقت ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔
اگر وہ اسے اپنے کمرے میں اپنے پاس دیکھنا چاہتا تھا تو سیدھی طرح کہہ دیتا یہ سب کروانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ مگر نہیں انا اور اکٹر تو اس مغرور انسان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ اُسے روم سے نہ جانے دینے کی خاطر یہ عجیب و غریب سزائیں دے رہا
تھا۔۔۔
حائفہ محبت اور
عقیدت بھرے انداز میں آژ میر کا ایک ایک سوٹ تہہ کر کے رکھ رہی تھی۔۔۔۔ بنا دیکھے بھی وہ خود پر آژ میر کی نگاہوں کاتسلسل
محسوس کر پارہی تھی۔۔۔
جس کے بعد اتنے دنوں سے اُس کے دل پر چھائی پژمردگی اور بو جھل پن کہیں دور جاسوئے تھے۔۔۔ آژمیر میران نہ ہی اُس سے نفرت کرتا تھا اور نہ کبھی اُسے خود سے دور کرنے والا تھا۔۔۔۔اس بات کا اُس کے دل کو
پوری طرح یقین ہو چکا تھا۔۔۔
حائفہ کا دل اس وقت خوشی سے جھوم رہا تھا۔۔۔
جب آگے کو جھک کر کپڑے رکھتے اچانک اُس کا سر چکرایا تھا۔۔۔کوشش کے باوجود وہ خود کو سنبھال نہیں پائی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی آژمیر نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیسے بنا اُس کے قریب آتے اُسے اپنی بانہوں کے مضبوط حصار میں قید کر لیا تھا۔۔۔۔
” حائفہ کیا ہوا تم ٹھیک ہو ؟؟؟”
کچھ دیر پہلے کا غصہ بھی اس وقت اُس کے لہجے سے مفقود تھا۔۔۔۔ وہ بے جا پریشانی کے عالم میں حائفہ کے گال تھپتھپاتے بولا تھا۔۔۔۔
” میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
حافظ نے اس کے سینے پر سر رکھے نیم واں آنکھوں سے
مسکراتے جواب دیا
تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
” آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔؟”
زنیشہ کا کل سے بے چین دل کو اس کی آواز سن کر جیسے قرار آیا تھا۔۔۔
لیکن وہ ستمگر بھی اتنی محبت سے جواب دے دے ایسا ممکن نہیں تھا۔۔۔۔ اتنی دیر سے کال کیوں نہیں پک کر رہی تھی۔۔۔ ؟؟؟
زوہان کو یہ انتظار پسند نہیں آیا تھا۔۔۔
اُس کے روڈ انداز پر زنیشہ نے گھوم کر ماورا کو گھورا تھام تھا ۔۔۔۔ یہ
م شخص کبھی
نرمی بھرے لہجے میں بات نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
آئم سوری۔۔۔۔ مگر اس وقت میری مایوں کا فنکشن چل رہا”
ہے۔۔۔۔ میں یہاں کھڑے ہو کر آپ کی کال نہیں سن
سکتی۔
زنیشہ کو لگا تھا وہ اُس کی تعریف میں کچھ کہے گا۔۔۔ مگر وہ تو پھر ہمیشہ کی
طرح تھانیدار بن چکا تھا۔۔۔
تم اس حلیے میں اپنے کزنز کے سامنے نہیں بیٹھو گی۔۔۔ تمہیں اس روپ میں دیکھنے کا حق صرف میرا ہے۔۔۔۔مایوں کا جتنا فنکشن ہونا تھا ہو گیا۔۔۔۔ اب خاموشی سے اپنے روم میں جا کر آرام کرو۔۔۔۔ زوہان کے اس حکم پر زنیشہ نے موبائل کان سے ہٹا کر سکرین پر جگمگاتے
اس کے نام کو گھورا تھا۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟؟ میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں۔۔ ؟؟؟ یہ میری…. مایوں کا فنکشن ہے
زنیشہ جو اپنی تصویر دیکھ لینے کے بعد اُس سے کسی تعریفی جملے کی امید کر رہی تھی۔۔۔ اب منہ پھلائے اُس سے ٹھیک سے لڑ بھی نہیں پارہی تھی۔۔۔۔ اس کی غیر ارادی نظر ایک طرف بیٹھے تمام کزنز پر پڑی تھی۔۔۔ جن میں باقی سب تو اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔۔ مگر حسیب مسلسل اُسے ہی گھور رہا تھا۔۔۔۔ اُس کے دیکھنے کا انداز بہت عجیب تھا۔۔۔ جو ز نیشہ کو
بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔
اُسے اب سمجھ آئی تھی زوبان کی بات کی۔۔۔وہ جسے پابندی لگانا سمجھ رہی تھی اُس میں اُسی کی بھلائی نکلی تھی۔۔۔
وہ شخص دور بیٹھ کر بھی اُس کے بارے میں سب خبریں رکھتا تھا۔۔۔۔ میں ایسا نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ سب لوگ یہاں میری وجہ سے ہی جمع
ہیں۔۔۔
زنیشہ کو یوں فنکشن سے اٹھ جانا مناسب نہیں لگا تھا۔۔۔ لیکن اپنی بات
میں دوسری جانب چھائی خاموشی پر اُس نے
سکرین کو گھورا تھا۔۔۔۔ وہ اس کے انکار پر غصے سے فون بند کر چکا تھا۔۔۔
اف میرے خدا کتنا غصہ کرتا ہے یہ بندہ۔۔۔۔
زنیشہ نے سر پکڑ لیا تھا۔۔۔۔
“کیا ہوا؟؟؟”
ماورا اُس کی مایوس صورت دیکھ قریب آئی تھی۔۔۔
” تمہارا سر ۔۔۔۔ اُس ہٹلر کو چھیڑنے کی ضرورت کیا تھی۔۔۔”
زنیشہ کو اب اُس کے مزید ناراض ہو جانے کی ٹینشن ہونے لگی تھی۔۔۔
اوہ آئم سوسوری۔۔۔۔ مجھے لگا کچھ اچھا ہو گا۔۔۔”
ماورا اس کی پریشان صورت دیکھ شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ تم سوری مت بولو۔۔۔ ملک زوہان میر ان کے دماغ کے پیچ”
ہیں ہی ڈھیلے۔۔۔۔
زنیشہ ماورا کو مسکرا کر کہتی آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔ مگر جھولے پر بیٹھ کر رسموں کے دوران بھی اُس کا پورا دھیان زوہان کی طرف تھا۔۔۔۔ جواب اُس سے پہلے سے بھی زیادہ ناراض ہو چکا تھا۔۔۔
@@@@@@@@
“کیا ہواز نیشہ بیٹا آپ ٹھیک ہو ؟؟؟”
شمسہ بیگم بار بار زنیشہ کو ما تھا مسلتے دیکھ فکر مندی سے بولی تھیں۔۔۔ جی اماں سائیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ بس سر میں ہلکا سا درد ہو رہا”
” ہے۔۔۔ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔
زنیشہ نے ہولے سے مسکراتے انہیں مطمئین کیا تھا۔۔۔ ز نیشہ گیس واٹ۔۔۔ کون آیا ہے باہر ۔۔۔۔؟؟؟”
فریحہ بھا بھی اُس کے ساتھ بیٹھیں اُس کے دونوں گالوں پر اُبٹن لگارہی تھیں۔۔۔ جب اریبہ چہکتی ہوئی اُن کے قریب آئی تھی۔۔۔
“کون آیا ہے؟؟؟”
زنمیشہ نے لا پرواہی سے پو چھا تھا۔۔۔
زوہان لالہ آئے ہیں۔۔۔ دیکھ لو ان سے اپنی مایوں کی دلہن دیکھے بغیر نہیں رہا گیا۔۔۔۔ مگر اُنہیں یہ نہیں پتا کہ وہ اب بارات تک اپنی دلہن کا چہرا
نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔۔
صدف نے قریب آتے زنیشہ کو چھیڑ ا تھا۔۔۔۔ زنیشہ جو پہلے شدید
گھبراہٹ کا شکار ہوئی صدف کی اگلی بات
سن کر اُس نے سکھ کا
سانس لیا تھا۔۔۔ مگر شاید وہ یہ بھول چکی تھی۔۔۔۔
کہ زوہان کو اس سے ملنے کے لیے کسی قسم کی حد بندیاں نہیں روک سکتی
تھیں۔۔۔
اُس کی مایوں کی رسم جاری تھی۔۔۔ سب خواتین باری باری آکر اُس کے چہرے اور ہاتھوں پر ابٹن لگارہی تھیں۔۔۔
تمام مرد حضرات زوہان کی آمد کی وجہ سے وہاں سے اٹھ کر باہر جاچکے سے
تھے۔
زنیشہ نے اس کی بات نہیں مانی تھی۔۔۔ مگر زوہان نے خود ہی حسیب کو
وہاں سے اُٹھادیا تھا۔۔۔۔
ز نیشہ تمہارے سر میں درد ہو رہا نا ؟؟؟”
ماورا اُس کے پاس آن کر بیٹھتی جیسے پوچھ نہیں بتارہی تھی۔۔۔۔ ” نہیں اب بہتر ہے
زنیشہ ابھی جواب دے ہی رہی تھی کہ ماورا کی کاٹی والی چٹیا پر کراہ کر رہ گئی
تھی۔۔۔۔
بیچاری کے سر میں بہت درد ہے۔۔۔ دیکھیں کیسے کر اور ہی ہے۔۔۔۔” ماورا نے اپنی جانب متوجہ سب خواتین کو اس بات کی یقین دہانی کرواتے کہا
تھا۔۔
جب اُسی لمحے لائٹ آف ہو جانے پر ہال میں ہر شے اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔۔۔۔ ہر طرف شور سا مچ گیا تھا۔۔۔ جز یٹر کا پورا انتظام تھا پھر لائٹ
بھلا کیسے جا سکتی تھی ۔۔۔۔
زنیشہ بھی اس قبر جیسے اندھیرے کو دیکھ سہم سی گئی تھی۔۔۔۔ جب اُسے اپنی دائیں جانب سے کسی کی گرم سانسیں خود پر پڑتی محسوس
تھیں۔۔۔
یہاں تو لائٹ آف ہونے سے پہلے ماورا بیٹھی تھی۔۔۔۔ زنیشہ خوفزدہ ہو کر چیخ مارنے ہی والی تھی۔۔۔ جب مقابل نے اُس کے ہونٹوں پر اپنی مضبوط ہتھیلی جماکر ، اس کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا
تھا۔۔۔۔
اتنے قریب آجانے پر اُس کی مسحور کن خوشبوز نیشہ کے نتھنوں سے ٹکراتی
اُسے ساکت کر گئی تھی۔۔۔۔۔
“زوہان۔۔۔۔”
اپنی نازک گرفت سے مقابل کی مضبوط ہتھیلی نیچے کرتے اُس کے لب ہولے سے پھڑ پھڑائے تھے۔۔۔۔ اس کی خوشبو کے ساتھ ساتھ اس کا لمس بھی زنیشہ کو سمجھا گیا تھا کہ یہ شخص ملک زوبان کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا
تھا۔۔۔ زوہان کے چہرے انداز بہت مختلف تھا ۔۔۔ وہ جس استحقاق
بھرے انداز میں اُسے اپنے قریب کرتا ویسا کرنے کی ہمت کسی کی
نہیں تھی۔۔۔
ز نیشہ کے ہونٹوں سے ادا ہو تا نام مقابل کے کانوں سے ٹکرایا تھا۔۔۔ جس پر اگلے ہی لمحے وہ اُسے اپنی بانہوں میں اُٹھاتا سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔۔۔۔ کچھ ہی لمحوں بعد پورا ہال روشنیوں سے نہا گیا تھا۔۔۔ مگر جھولے سے دلہن غائب دیکھ سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔۔۔۔
“ارے زنیشہ کہاں گئی ؟؟؟”
شمسہ بیگم پریشانی سے بولی تھیں۔۔
آپ سب پریشان مت ہوں۔۔ زنیشہ کے سر میں بہت درد ہو رہا ” تھا۔۔۔۔ اس لیے میں ابھی اُسے روم میں چھوڑ آئی ہوں۔۔۔۔ پین کلر دے کر سلا دیا ہے اُسے۔۔۔۔ ابھی تو ویسے بھی ڈانس ٹائم شروع ہونے والا ہے۔۔۔ رسمیں تو ہو چکی نا پوری۔۔۔۔ تو ہم اپنا انجوائے کرتے
” ہیں۔۔۔
ماور اساری بات اپنے اوپر لیتی ۔۔۔۔ان سب کا دھیان زنیشہ سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
زوہان میں جانتی ہوں یہ آپ ہیں۔۔۔۔ چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔ نیچے سب
” پریشان ہو جائیں گے۔۔۔۔
زنیشہ ہاتھ پیر چلانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔ مگر مقابل موجود شخص اُسے حویلی کی نجانے کون کون سی بھول بھلیوں سے گزار تا اند ھیرے کے بیچ آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ زنیشہ دیکھ پارہی تھی کہ حویلی کے باقی حصوں میں لائٹ آچکی تھی۔۔۔۔ صرف یہ حصہ ہی تاریک تھا۔۔۔
جب یوں ہی اُسے بانہوں میں اُٹھائے وہ ناک کی سیدھ میں چلتا ایک کمرے
کے آگے آن رُکا تھا۔۔۔
دروازے کو پیر مار کر کھولتے اندر داخل ہو کر دروازہی
بند کرتے
لاک چڑھا دیا تھا۔۔۔
زنیشہ کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ اور دل بُری طرح
خوفزدہ ہوا تھا۔۔۔۔۔
کمرے میں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔ جس کے باوجود وہ اپنے بے حد قریب موجود شخص کا چہرا نہیں دیکھ پارہی تھی۔۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ
اندھیرے میں کھڑے تھے۔۔
Share with your friends on Facebook
hi