Haifa and Zanisha Novel Part 21 – Free Urdu Font Story | Read Online


The story of Haifa and Zanisha moves forward with even more emotions and drama in Part 21. This latest part offers a free Urdu font story with smooth, beautiful writing — perfect for readers who love bold romance and deep feelings.

Written in clean Urdu script, it gives you the perfect reading experience whether you choose to read online or download the PDF.

Haifa and Zanisha Novel Part 21 – Free Urdu Font Story

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 20 – Hot Romantic Story in Urdu

کک کون؟؟؟؟”
وہ اُس کو اتنی دیر تک نہ بولتاد یکھ اُلجھ گئی تھی۔۔۔
یہ کمرہ کس کا تھا۔۔۔۔ اس حویلی میں رہنے کے باوجود وہ پہلی بار یہاں آئی
جب اُسے نیچے اُتارتے وہ شخص اُس کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اُسی لمحے کمرے کی لائٹ آن ہوئی تھیں۔ اور پورا کمرا روشنیوں میں نہا گیا
تھا۔۔۔۔
سامنے موجود شخص کو دیکھ زنیشہ کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔۔ وہ ساکت کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے کھڑے شخص کی جرات دیکھ
رہی تھی۔۔۔۔
“مزمل ؟؟؟؟؟”
سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس وہ کوئی زوہان نہیں مزمل تھا۔۔۔ زنیشہ کے چہرے کی ہوائیاں اڑ چکی تھیں۔۔۔ ایک غیر شخص اسے اس طرح اُٹھا کر
یہاں کیوں لایا تھا۔۔۔۔
تم ۔۔۔۔۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہ گھٹیا حرکت کرنے کی۔۔۔۔” آژمیر لالہ اور زوہان تمہیں چھوڑیں گے نہیں۔۔۔۔ تم کتنے بڑے فراڈ ہو میں اب اُن دونوں کو بتاؤں گی۔۔۔۔
زنیشہ غصے سے چلاتی واپس جانے کے لیے پلٹی تھی۔۔۔ جب مزمل نے اُس کی کلائی دبوچ کے اپنی جانب کھینچتے اپنے بے حد قریب کر لیا تھا۔۔۔۔ وہ پینوٹائز سا اُس کا یہ سہانا روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔ زر د لہنگے میں دوپٹے کو دلہنوں کی طرح سر پر سجائے سیاو زلفوں کی ناگن چٹیا آگے ڈالے وہ مہندی، گجرے اور ابٹن کی خوشبوؤں میں رچی بھی سامنے کھڑے اپنے دیوانے کو
مزید پاگل کر گئی تھی۔۔۔۔
” چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے اُس سے اپنے آپ کو آزاد کروانا چاہا تھا۔۔۔ جب اُس کی آنکھوں
میں جھانکتے اُسے بریک لگی تھی۔۔۔
داڑھی اور مونچھوں کے پیچھے چھپا چہرا ۔۔۔۔ ؟؟؟
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
تم سوچ بھی کیسے سکتی ہو کہ ملک زوہان کے علاوہ کوئی تمہارا باڈی گارڈ ہو سکتا ہے
تمہارے قریب آنے سے پہلے اُس شخص کی سانسیں نہ
” چھین لوں۔۔۔۔
زنیشہ کے گال پر ہونٹ لگائے بولتا وہ اس کی سانسیں منتشر کر گیا
تھا۔۔۔۔۔
اُس کے دہکتے لمس نے زنیشہ کے ہوش گم کر دیئے تھے۔
و وہ اس انکشاف پر اپنے چہرے سے داڑھی اور مو مچھیں ہٹاتے زوہان کو دیکھ
رہی تھی۔۔۔
آپ۔
اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مزمل زوہان بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔
@@@@@@@@
زنیشہ نے زوہان سے دور ہو نا چاہا تھا۔۔۔ مگر زوہان نے اس کی کمر پر گرفت مضبوط رکھتے اُسے اپنے مزید قریب کر لیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ جہاں اس کے خطرناک تیور دیکھ خوفزدہ تھی۔۔۔ وہیں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے سہی سلامت کھڑا دیکھ کل سے دل پر چھائی بے چینی اور
اضطراب ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔
دودن۔۔۔۔ صرف دو دن کے بعد تم اس وقت مکمل طور پر میری دسترس میں ہو گی۔۔۔۔ پھر میں تم سے اپنی ایک ایک اذیت اور تمہاری ہر
” بے اعتبائی کا حساب سود سمیت لو نگا۔۔
زوہان اُس کی گردن پر اپنی گرم سانسیں چھوڑ تاوارن کر گیا اس جان لیواد ھمکی کے ساتھ زنمیشہ کو کانپنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ کی خوشبو سے پاگل کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ جس غصے کہ ساتھ یہاں آیا تھا۔۔۔۔ اب چاہنے کے باوجود برقرار نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔۔
” جاسکتی ہو تم اب یہاں سے ۔
اگلے ہی لمحے زوہان اُسے اپنی گرفت سے آزاد کر تارخ موڑ گیا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ زنیشہ اس کا سخت خفا ہو جانا ہی تھا۔۔۔
اس بات سے انجان کے اس کے اس گریز کی وجہ احتیاط تھی۔۔۔ جو وہ خود کو زنیشہ کے اس ہوش رباحسن سے بہکنے سے بچانے کے لیے کر رہا
تھا۔۔۔۔
زنیشہ خاموشی سے کھڑی اُس کی چوڑی پشت کو گھورتی رہی تھی۔۔۔۔ اُس میں ہمت بالکل بھی نہیں تھی آگے بڑھ کر زوہان کو چھیٹر نے کی۔۔۔۔ مگر وہ اپنی باتوں اور حرکتوں سے اُسے بہت زیادہ ناراض کر چکی تھی۔۔۔ جس کا خمیازہ بھی عنقریب اُسے ہی بھگتنا تھا۔۔۔۔ لیکن اس کے لیے پہلے وہ اس بپھرے شیر کو تھوڑا نرم کر کے جانا چاہتی تھی۔۔۔۔
زنیشہ پوری ہمت جمع کرتی آگے بڑھی تھی اور پیچھے سے زوہان کے گرد بازوؤں کا حصار باندھ کر اُس کے سینے پر نازک ہتھیلیاں پھیلاتے وہ چہرا اُس کی پشت پر ٹکا کر آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ زبان سے اقرار نہیں کر پائے گی۔۔۔ مگر وہ اپنے اس عمل سے زوہان کی اپنے دل میں اہمیت اس پر واضح کر دینا چاہتی تھی۔۔۔ زوہان جسے لگا تھا کہ اس کے کہنے پر زنیشہ خاموشی سے نکل جائے گی۔۔۔ اُس کا نرم گرم لمس محسوس کرتے زوہان کتنے ہی لمحے حرکت نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کے لمس سے اُسے اپنے رگ وپے میں سکون سا سرایت
کرتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
وہ کب سے تنہا بھٹکتے بھٹکتے تھک گیا تھا۔۔۔۔ اب اُسے زنیشہ میران اپنی
سانسوں سے بھی قریب تر چاہیے تھی۔۔۔
یہ لڑکی اس کے لیے کتنی ضروری تھی آژمیر کے علاوہ یہ بات آج تک کوئی نہیں جان پایا تھا۔۔۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آژمیر نے اتنی دشمنی کے باوجود
بھی زنمشہ کو اس کی دسترس میں سونپ دیا تھا۔۔۔
مگر زنیشہ میران اسے کبھی سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔ ہمیشہ اپنے خاندان والوں کی خاطر اس کے اگینسٹ جا کر اس پر نجانے کیا کیا الزام لگائے تھے۔۔۔ جن میں حقیقت نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔
سینے پر محسوس ہوتے اُس کے نازک ہاتھوں کے لمس پر اس کے دل میں چھائی ساری دھند چھٹنے لگی تھی۔۔۔ مگر وہ پلٹا ابھی بھی نہیں تھا۔۔۔
“آئم سوری۔۔۔۔”
زنیشہ کے لب ہولے سے پھڑ پھڑائے تھے۔۔
فارواٹ۔۔۔۔؟؟؟؟
زوہان نے بنا پلٹے ، بنا اس کے کپکپاتے وجود کو کوئی سہارادیئے بے لچک انداز
میں سوال کیا تھا۔۔۔
ور نہ اُس کے اندر اس وقت جذبات کا کیسا طوفان اُٹھا ہوا تھا۔۔۔ وہ بیان سے
باہر تھا۔۔۔۔۔
اس دن آپ کو ہرٹ کرنے کے لیے۔۔۔۔ زنیشہ ہولے سے منمنائی تھی۔۔۔۔
تم نے تو ہر دن ، ہر ملاقات میں مجھے ہرٹ کیا ہے۔۔۔۔ کس کس بات کی معافی مانگو گی۔۔۔۔؟؟؟
اپنے آپ سے چھٹری جنگ ہار تازو ہان اُس کی نرم گداز انگلیوں کو چھوتا اُس کے گجرے کے پھولوں سے چھیڑ خانی کرتے بولا۔۔۔۔اُس کی یہ شوخ جسارت زنیشہ کا چہرا لال کر گئی تھی۔۔۔ اس نے حصار ختم کر کے پیچھے ہٹنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر زوہان اب کی بار اسے مہلت نہ دیتے کلائی سے پکڑ کر اپنی
جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
“اب بولو کیا بول رہی تھی ؟؟؟”
زوہان کا موڈ ز نیشہ کی اس ایک استحقاق بھری حرکت سے بالکل فریش ہو چکا
تھا۔۔۔۔
کک کچھ نہیں۔۔۔۔
زوہان کی تپیش زدہ نگاہوں کی تاب نہ لاتے زنیشہ کی زبان لڑکھڑائی تھی۔۔۔ اسے موڈ میں آتادیکھ اب بو کھلانے کی باری زنیشہ کی تھی۔۔۔۔ اسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی نرم پڑ جائے گا۔۔۔۔۔۔ کیونکہ زنیشہ ابھی تک اُس کی اپنے لیے بے پناہ شدتوں سے واقف نہیں تھی۔۔۔۔
“رئیلی کچھ نہیں ؟؟؟”
زوبان نے اس کے گداز ہونٹوں پر انگوٹھا پھیر کر اسے وارن کرتے بات
کرنے پر اکسایا تھا۔۔۔
جس پر زنیشہ اُسے گھور کر رہ گئی تھی۔۔۔
یہ شخص بناد ھمکی دیئے اس سے کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ محبت کیسے
جتاتا ؟؟؟
آپ بہت بڑے دھو کے باز ہیں۔۔۔۔”
زنیشہ جب بولی تو ایک ہی جملے سے زوبان کا دماغ تھا گئی تھی ۔۔۔۔
” واٹ ؟؟؟؟”
زوہان نے یہ بولنے کی توقع بالکل بھی نہیں کی تھی۔۔۔
زوبان کے ری ایکشن پر زنیشہ غلط الفاظ کا انتخاب کرنے پر گھبرائی تھی۔۔۔ مم میر امطلب مجھے اور لالہ کو دھوکا دیا۔۔۔۔ مجھے اتنے ٹائم مزمل کے نام پر بے وقوف بنائے رکھا۔ لالہ کو پتا چلا تو بہت ناراض ہو نگے۔۔۔ زنیشہ نے اس کے خطرناک تیور دیکھ فور آبات کو کور کرنا چاہا تھا۔۔۔۔ جس پر لمحہ بھر کو ایک صدیوں سے بھولی بسری دلکش مسکراہٹ زوبان کے ہونٹوں پر اپنی چھب دکھلا کر غائب ہوئی تھی۔۔۔
پہلی بات تو یہ کہ تمہارے لالہ اب اس سب کے بارے میں جان چکے ہیں اور دوسری بات۔۔۔۔ یہ میر ادھو کا نہیں تمہاری بے وقوفی اور نادانی ہے کہ اتنے قریب رہنے کے باوجود مجھے پہچان نہیں پائی۔۔۔۔
زوہان نے اُس کے الفاظ اُسی پر لوٹا دیئے تھے۔۔ “اوکے۔۔۔۔آئم سوری۔۔۔۔
زنیشہ نے اب کی بار بھی ہتھیار ڈال دیئے تھے۔۔۔
تم یہ سوری کی گردان کر کے کیا سمجھ رہی ہو۔۔۔۔۔ کہ آنے والےمیرے وقت میں خود کو مجھ سے بچالو گی۔۔۔۔
زوہان نے زنیشہ کے دوپٹے کو سر پر لگی پنوں سے آزاد کرتے دور اچھال دیا
تھا۔۔۔۔
زنیشہ کا چہرا حیا اور خوف سے لال پر گیا تھا۔
” زوہان یہ۔۔۔۔”
اُس نے کچھ بولنا چاہا تھا مگر زوہان کے اُس کی چٹیا کی جانب بڑھتے ہاتھ اُس کی
بولتی وہیں بند کر گیا تھا۔۔۔
یہ شخص ہر حال میں اُس پر بھاری تھا۔۔۔اس کے غصے اور محبت دونوں
کرنے کا انداز ہی جان لیوا ہوتا تھا۔۔۔۔
” مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔۔
ایک آخری الجھن جو مزمل کو لے کر ابھی بھی اُس کے دماغ میں چھپی ہوئی تھی
” بولو۔۔۔۔
زوہان اچھے سے جانتا تھا کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہی ہے
لالہ تو مزمل سے ملے تھے نا پھر وہ کیسے آپ کو پہچان نہیں پائے۔۔۔۔۔ اور اُس دن آفس کے باہر مزمل پر آپ کے آدمی گن تانے کھڑے
” تھے۔۔۔۔ جبکہ آپ تو اند ر تھے۔۔۔۔
زنیشہ کا دماغ بالکل اُلجھ چکا تھا۔۔۔۔ یہ انسان ہمیشہ سے اُسے گھما کر رکھ دیتا تھا۔۔۔اس بار تو اُس کا دماغ کچھ زیادہ ہی اُلٹ گیا تھا۔۔۔
زوہان اچھے سے جانتا تھا کہ کوئی اُسے پہچانے نہ پہچانے مگر آژ میر میران اُسے پہچانے میں دھو کا بالکل بھی نہیں کھائے گا۔۔۔۔۔ اس لیے اس نے اپنے گارڈز میں سے اپنے اُس آدمی کو چنا تھا، جو اکثر سیکورٹی ریز نز کی وجہ سے بھی اس کے باڈی ڈبل کا فریضہ سرانجام دیتا تھا۔۔۔
اور دونوں کے داڑھی مونچھیں لگانے سے بالکل مماثلت ہو رہی تھی۔۔۔ آژمیر کے سامنے بھی وہی گیا تھا۔۔۔ اور اس دن زنیشہ کو آفس تک لے کر بھی وہی آیا تھا۔۔۔۔ اور زنیشہ کو خوفزدہ کرنے کے لیے زوہان نے دھمکی کے طور پر اُس شخص کے ساتھ اپنے آدمیوں کو وہ سب کرنے کو کہا تھا۔۔۔
جو صرف ایک دکھاوا ہی تھا۔۔۔
زوہان کی بات پر زنیشہ اسے گھور کر رہ گئی تھی۔۔۔ اس انسان کا دماغ کہاں کہاں اور کیسے کیسے چلتا تھا کوئی جان نہیں سکتا تھا۔۔۔
وہ اتنا ٹائم بے وقوف بنی تھی اس بندے کے ہاتھوں۔۔۔اسی خفگی کے اظہار کے طور پر زنیشہ وہاں سے پلٹی تھی۔۔۔ مگر دور جانے سے پہلے ہی زوہان اس کی کلائی دبوچ کر اپنے قریب تھینچ چکا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ نے بمشکل اس کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں ٹکاتے درمیانی فاصلہ بر قرار رکھا تھا۔۔۔ جس چکر میں اس کے ہاتھوں پر لگی ہلدی زوہان کے کریم کلر کے سوٹ پر نشان چھوڑ گئی تھی۔۔۔
تم مجھے اگلے دونوں فنکشنز میں گھونگھٹ کے اندر چاہیئے ہو ۔۔۔۔ مجھے سے پہلے تمہارا سجا سنور اروپ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔ کسی نے اگر ایسا کرنے کی گستاخی کی تو اس کا انجام بہت بُرا ہو گا۔۔۔۔
زوہان اُس کے کان کی لوح کو ہونٹوں سے چھوتا، اُس کے بالوں کو ہر قید سے آزاد کر گیا تھا۔۔۔ زنیشہ کی دلفریب خوشبو سے اپنی سانسوں کو معطر کرتا
زوبان آہستہ آہستہ اپنا اختیار کھو رہا تھا۔۔۔۔
دھمکیاں دینے کے علاوہ آپ کو کچھ نہیں آتا نا۔۔۔۔؟؟؟ اس کے علاوہ بھی کچھ طریقے ہوتے ہیں بات منوانے کے۔۔۔۔؟؟؟؟؟
زنیشہ اس کی دی جانے والی خطرناک دھمکیوں کے بدلے بے قابو ہوتی اپنی دھڑکنوں کو سنبھالنے میں ناکام ہو رہی تھی۔۔۔ اُوپر سے اُس کی بڑھتی گستاخیاں الگ زنیشہ کے ہوش اُڑارہی تھیں۔۔۔
طریقے بہت ہیں۔۔۔ بشرط یہ کہ تم برداشت کر پاؤ۔۔۔۔” زوبان اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولتا اسے اپنے سہارے کھڑا کر گیا
تھا۔۔۔۔
جبکہ اس کی معنی خیز بات زنیشہ کا چہرا بالکل لال کر گئی تھی۔۔۔
یہ ۔۔۔ یہ کس کا کمرہ ہے…؟؟؟ میں اس سے پہلے اس کمرے میں کبھی
” نہیں آئی۔۔۔۔
زنیشہ نے اُس کے خطرناک تیوروں سے گھبرا کر بات ہی بدل دی
تھی۔۔۔۔
وہ فل بلیک کلر میں ڈیزائن کیا یہ انتہائی منفر دروم دیکھ کافی حیران تھی۔۔۔ جہاں کی ہر شے میں بلیک کلر ہی نمایاں تھا۔۔۔ اُس نے اِس گھر میں رہنے
کے باوجود آج تک یہ نہیں دیکھا تھا۔۔۔
یہ میراروم ہے۔۔۔ بچپن کی ساری باتوں کے ساتھ یہ بھی بھول چکی ہو تم۔۔۔ یہاں میران پیلس میں تمہارے علاوہ ایک یہی شے تو ہے
“میری۔۔۔۔۔۔
زوہان نے کمرے پر ایک نگاہ ڈالتے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
تھا۔۔۔
جس پر زنیشہ کتنے ہی لمحے اُس کے خوبرو چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔۔۔ زوہان کی اذیت زنیشہ کا دل بے چین کر گئی تھی۔۔۔ یہ شخص زندگی میں صرف زنیشہ میر ان کو چاہتا تھا۔۔۔ کہ وہ اس کی ہو کر رہے۔۔۔ اُس کی فکر کرے۔۔۔ اس کو سنبھالے۔۔۔۔اتنے سالوں سے بھٹکتی اس کی بے چین روح کو قرار بخش دے۔۔۔ مگر وہ کیا کر رہی تھی۔۔۔۔ اس پیارے لیکن ہر ایک سے خفا شخص کی اذیت کا باعث بن رہی تھی۔۔۔۔ یہ شخص اُس کی خاطر اپنی انا، انتظام ، غصہ ،ضد اور نفرت بھلا کر میران پیلس آیا تھا۔۔۔ یہاں کے لوگوں سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔ مگر وہ ابھی بھی ملک زوہان پر اپنی زندگی میں اُس کی اہمیت واضح نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ زوہان اُس کی سانسوں میں بستا تھا شاید اس بات کا اقرار وہ زبان سے نہ کر پاتی۔۔۔۔ لیکن اب اُسے اپنے ہر عمل سے ظاہر کرنا تھلاس روٹھے ہوئے شخص کو کہ وہ صرف اُسی کی تھی۔۔ اور ہمیشہ اُسی سے جڑ کر رہنا چاہتی ہے
اُس کی زندگی کی ساری بہاریں اُس کی زندگی کے محبوب ترین انسان ملک زوہان میر ان کے دم سے ہی تھیں۔۔۔ جنہیں وہ اب اتنے عرصے بعد ہر
گز بھی خود سے دور نہیں جانے دینا چاہتی تھی۔۔۔
میں آپ کے حوالے سے کچھ نہیں بھولی ہوں۔۔۔ یہ روم چینج ہو چکا “
” ہے۔۔۔۔اس لیے میں اسے پہچان نہیں پائی۔۔۔۔
زنیشہ نے اس کے شکوے پر اسے سرد گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔ اچھا تو کیا کیا یاد ہے میرے بارے میں تمہیں۔۔۔۔ کیا یہ بات یاد نہیں کہ ” میں بچپن سے ہی کتنا پوزیسیو ہوں تمہیں لے کر ۔۔۔۔ نجانے کتنوں کی تو ہڈیاں بچپن میں ہی توڑ ڈالی تھیں ۔۔۔۔ تم پر کسی کی اُٹھتی غلط نگاہ برداشت نہیں ہے مجھے ۔۔۔۔ اگر میں نے کسی کو ایسا کرتے دیکھ لیا تو اس کو ملنے والی سزا زندگی بھر یاد رہے گی اُسے۔۔۔۔
زوہان کی آنکھوں میں شرارے پھوٹ پڑے تھے ۔۔۔۔
اُف یہ شخص اور اس کی پوزیسیو نیسں۔۔۔ زنیشہ یہ سوچتے لال ہوئی تھی۔۔۔اور ساتھ ہی اُسے زوہان سے مزید محبت محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ اور اگر میں نے کسی لڑکی کو آپ کے قریب دیکھ لیا تو ۔۔۔۔ اس کی سزا کیا
ہو گی۔۔۔؟؟؟
زنیشہ زوبان کا کالر مٹھیوں میں جکڑ کر اسی کے سہارے اوپر کو اٹھتی اسے لمحے کے لیے حیران کر گئی تھی۔۔۔ کیونکہ یہ پہلی بار تھا کہ زنیشہ تھو ڑا ہی
سہی مگر اُس کے قریب آئی تھی۔۔ یہ تو تمہیں ڈیسائیڈ کرنا ۔ مجھے نہیں۔۔۔ میں بھلا کیوں اُن
لڑکیوں کو سزا دوں۔۔۔
زوہان کو پہلی بار تو آنکھوں کے سامنے زنیشہ کا یہ جیلسی بھر اروپ دیکھنے کو
ملا تھا۔۔۔ جسے انجوائے کرتے اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نے چھپ
دکھلائی تھی۔۔۔
جبکہ اس کی بات زنیشہ کو اندر تک جلا کر راکھ کر گئی تھی۔۔۔
تو پھر ابھی بھی اُنہیں کے پاس جائیں۔۔۔۔۔۔ یہاں آپ کر کیار ہیں
ہیں؟؟؟
زنیشہ کا پارہ چڑھ چکا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
آژ میر حاعفہ کو بانہوں میں اُٹھائے بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اور نہایت ہی
احتیاط سے اُسے بیڈ پر لٹاتے اپنا لمبل اوڑھا دیا
تھا ۔۔۔۔۔ آژ میر میر ان کو
اپنی کوئی شے بھی شیئر کرنے کی عادت نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔
جس طرح ابھی اس نے حاعفہ کو یہ جگہ دی تھی۔۔۔ یہ عام بات نہیں تھی۔۔۔۔ آژ میر کے بارے میں سب جاننے والے حائفہ کی اس کی زندگی
میں اہمیت کا انداز ولگا سکتے تھے ۔۔۔
” پلیز میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔”
آژ میر کو ڈاکٹر کو کال ملاتے دیکھ حاعفہ نے اُس کی مضبوط ہتھیلی کو اپنی نازک
سی ہتھیلی سے تھامتے روکا تھا۔۔۔۔
اگر تم ٹھیک ہو تو تمہارا سر کیوں چکر ایا۔۔۔۔؟؟؟؟”
آژ میر نے اسے سخت تیوروں سے گھورا تھا۔۔۔ وہ شدید پریشانی میں اس وقت یہ نہیں دیکھ پایا تھا کہ وہ کیسے کھلے عام اُس کی فکر میں پاگل ہو رہا تھا۔۔۔ حائفہ کے سامنے جو چیز وہ نہیں لانا چاہتا تھا وہ نادانستگی میں آچکی
وہ میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔ شاید اس۔۔۔ حائفہ کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔۔۔ آدھی بات کر کے اُس نے زبان دانتوں تلے دبادی تھی۔۔۔ مگر تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔۔۔۔ واٹ۔۔۔۔ تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔ اپنی حالت دیکھی ہے۔۔” پہلے ہی اتنی دھان پان سی ہو ۔۔۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی تم چلتی پھرتی کیسے
” ہو۔۔۔۔
آژ میر اس کے کمبل میں چھپے نازک سراپے پر ایک بھر پور نگاہ ڈالتا۔۔۔۔
اُسے جی جان سے لرزا گیا تھا۔۔۔۔
اس نے پیچھے کو کھسکتے کمبل پر گرفت مزید مضبوط کی تھی۔۔۔ اس کی یہ حرکت آژ میر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔
انٹر کام پر ملازمہ کو کھانے کا کہتا وہ حائفہ کی جانب جھکا تھا۔۔۔۔ جس دن میں نے قریب آنے کا ڈیسائیڈ کر لیا۔۔۔۔ تو تمہاری یہ کمزور حد بندیاں میر اکچھ بگاڑ نہیں پائیں گی۔۔۔۔ سوا بھی یہ سب کر کے اپنے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش مت کرو۔۔۔۔
آژ میر اُس کی آنکھوں میں جھانک کر بولتا۔۔۔۔اُس کے سُرخ پڑتے ناک پر مہر محبت ثبت کر گیا تھا۔۔۔
جب اس کی نظر حائفہ کے لال ہوتے کانوں پر پڑی تھی۔۔۔ جو جیولری کے وزن برداشت کرتے ہلکان ہو رہے تھے۔۔۔۔
آژ میر اس کے قریب جھکا تھا۔۔۔ حائفہ کی سانسیں پل بھر کے لیے تھم سی گئی تھیں۔۔۔۔ آژ میر میر ان کی یہ جان لیوا قربت سہنا آسان نہیں تھا۔۔۔
مگر اُس نرمی بھری گرفت اپنے کانوں پر محسوس کرتے حائفہ کا چہر الال ہوا
تھا۔۔۔۔
ایک ایک کرتے اُس نے حائفہ کے سارے زیورات اُتار دیئے تھے۔۔ حائفہ تو اس سارے عمل کے دوران دیوانہ وار نگاہوں سے اس مغرور شخص کے کے وجیہہ چہرے کو گھورتی رہی اس چہرے پر وہ مر مٹی
تھی۔۔
دروازہ ناک ہونے پر آژ میر اُٹھ کر ملازمہ سے ٹرے پکڑ کر دروازہ لاک کرتا
واپس اس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
حائفہ تو یک تک اپنی زندگی کا یہ خوبصورت ترین منظر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جو ہمیشہ سے اُس کا خواب رہا تھا۔۔۔۔
اٹھو۔۔
آژ میر نے اُسے پکڑ کر تکیے کے سہارے بیٹھا یا تھا۔۔۔۔ وہ اُسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہے ۔۔۔ مگر آژ میر کے تاثرات کچھ سننے کے نہیں
لگ رہے تھے۔۔
” تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔۔ تو تم بتا نہیں سکتی تھی مجھے۔۔۔۔” آژ میر اپنے ہاتھوں سے اُسے کھانا کھلاتے کڑے تیوروں سے استفسار کرتے
بولا۔۔۔
مگر میں بالکل ٹھیک ہوں۔
حائفہ ہولے سے منمنائی تھی۔۔۔۔ اور یہ سچ بھی تھا۔۔۔ یہ ذراساسر چکرانا
تو کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔
اُس نے تو شدید بخار میں رقص تک کیا تھا لیکن آج تک کسی نے اُس کی اتنی
کیئر کبھی نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔
اُسے آژمیر میر ان اپنی ماں کی دی گئی دعاؤں کا ثمر اور اب تک کی ساری
اذیتوں کا مداوا معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔
اس انسان کو اُس نے کس قدر ہرٹ کیا تھا مگر یہ اس کی پوری اصلیت جانے
بغیر بھی اُس کے ساتھ اتنی محبت سے پیش آرہا تھا۔۔۔
میں اچھے سے جانتا ہوں کہ تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔۔ اور تمہیں میری اس کیئر “
کی کوئی ضرورت ہے بھی نہیں۔۔۔ مگر میں کسی کو
اپنے سامنے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔
چاہے وہ تم ہو یا کوئی اور ۔۔۔
آثر میر سخت الفاظ ادا کرتا اُسے کھانا کھلا کر اُس کے
میں نہیں وہ اٹھا تھا۔۔۔۔
جبکہ اس کی بات پر دکھی ہونے کے بجائے حاعفہ مسکرادی تھی۔۔۔ اُس نے آژمیر کی آنکھوں میں اپنے لیے جو فکر دیکھی تھی وہ کبھی کسی اور کے لیے
نہیں ہو سکتی تھی ۔۔۔۔
بس اُس کا یہ کھڑوس دشمن جاں اُس کے سامنے اتنی جلدی ہار ماننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔۔۔اس لیے یہ سب کر رہا تھا۔۔۔ حاعفہ بھی اس کے پیچھے بیڈ سے اٹھی تھی۔۔۔
” مجھے اپنے روم میں جانا ہے۔۔۔۔”
آژمیر کو موبائل پر مصروف ہوتا دیکھ وہ اندر ہی اندر ناراضگی کا اظہار سا کرتی دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔۔
جب دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی آژمیر آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں اٹھا چکا تھا۔۔۔۔ اور بنا ایک لفظ اد ا کیسے باہر نکل آیا تھا۔۔۔
حائفہ تو آژمیر کی اتنی قربت کے ساتھ ساتھ باہر کسی کے دیکھ لینے کے خوف سے بھی آدھی ہوئی تھی مگر وہاں باہر گیلری میں کوئی نہیں تھا۔۔۔۔ حائفہ کے روم میں داخل ہوتے آژمیر نے آگے بڑھ کر اسے بیڈ پر لٹا دیا
اب صبح تک یہاں سے اٹھنا مت۔۔۔۔ ورنہ تمہیں یہاں سے اٹھا کر واپس” اپنے روم تک لے جانے میں مجھے زیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔۔۔۔ آژ میر اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر وارن کرتا واپس پلٹا تھا۔۔۔ حاعفہ نے محبت وارفتگی بھری نگاہوں سے اُس کی چوڑی پیشانی کو نہارا تھا۔۔۔۔ اور پھر آسودگی سے پلکیں موند لی تھیں۔۔۔ وہ اچھے سے جانتی
تھی کہ آج اُسے نیند نہیں آنے والی تھی ۔۔۔۔۔ وہ سونا چاہتی بھی نہیں
تھی۔۔۔۔
اس گزرے اپنی زندگی کے حسین لمحوں کو وہ آج کی پوری رات آنکھوں
میں بسا کر گزارنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@
زنیشہ زوہان سے ناراضگی کا اظہار کرتی اپنا باز و چھڑانے کی کوشش کرتی وہاں سے جانے کو تیار تھی۔۔۔
وہ مایوں کے لہنگے میں اب کھلے بالوں کے ساتھ مزید حسین لگ رہی
تھی۔۔۔
وہ میری مایوں کی دلہنیں نہیں ہیں۔۔۔۔۔ تم ہو۔۔۔ اس لیے تمہارے “
” پاس ہی آؤں گانا۔۔۔۔
زوبان اگلے ہی لمحے اُسے بانہوں میں اُٹھانا صوفے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ جبکہ زنیشہ اپنی فرار کی ساری راہیں مسدود ہوتی دیکھ مزید گھبرا گئی تھی۔۔۔
یہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔ پلیز مجھے نیچے اتاریں۔۔۔۔ زوہان کے بہت زیادہ قریب آجانے پر اُس کا دل بے ہنگم انداز میں دھڑک
اُٹھا تھا۔۔۔۔
” جو مایوں کی دلہن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔۔۔۔”
زوبان اُسے کی غیر ہوتی حالت پر محظوظ ہوتا اُسے صوفے پر بیٹھا گیا
تھا۔
ز نیشہ کی شرم سے سرخ پڑتی رنگت اور اٹھتی گرتی گھنیری پلکوں کار قص اُسے پاگل کر رہا تھا۔۔۔۔ مگر اپنی ناراضگی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ
پوری احتیاط برتے ہوئے تھا۔۔۔۔
زوبان اُسے صوفے پر بیٹھا کر اُس کے سامنے ٹیبل پر بیٹھتاز نیشہ کی سانسیں
منتشر کر گیا تھا۔۔۔۔
زوہان اِس وقت کریم کلر کے سوٹ میں ملبوس، اپنے سیاہ بالوں جیل کی مدد سے سیٹ کیے، اپنی مغرور نقوش اور چوڑی پیشانی کے ساتھ زنیشہ کو اپنا
مزید دیوانہ بنارہا تھا۔۔۔۔
لک کیا ؟؟؟؟”
ز نیشہ پوری زرد ہو چکی تھی۔۔۔ کیونکہ زوہان سے وہ کبھی بھی کچھ بھی امید
کر سکتی تھی۔۔۔۔
جب اُس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے باول پر پڑی تھی۔۔۔ جسے میں گھلی ہلدی دیکھ زنیشہ نے حیرانگی سے زوہان کو دیکھا تھا۔۔۔۔
آپ مجھے ہلدی لگائیں گے
زنیشہ کو بالکل بھی یقین نہیں آیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زوہان کو یہ ساری رسمیں فضول ہی لگتی تھیں۔۔۔ اور وہ ان کے حق میں تھا بھی
نہیں۔۔۔۔
میں نے سنا ہے کسی سے کہ اگر دلہا دلہن کو ہلدی لگاتا ہے تو دلہن پر رُوپ زیادہ آتا ہے۔۔۔ تو سوچا کیوں نہ میں بھی یہ کر کے دیکھ لوں۔۔۔ زوہان کی معنی خیزی سے کہیں بات پر زنیشہ کے گال تپ اٹھے تھے۔۔۔ اُس کا دل چاہا تھا۔۔۔ ماور اکا ابھی جا کر اپنے ہاتھوں قتل کر دے۔۔۔ اُسی نے یہ بات مذاق میں ماورا کے سامنے کہی تھی کیونکہ اس کی شروع سے ایسی سیدھی خواہشیں رہی تھیں۔۔۔ مگر ا سے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ باقی سب باتوں کے ساتھ زوہان اُس کی یہ بات بھی پوری کرنے پہنچ جائے گا۔۔۔۔
ز نیشہ اب کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کی لرزتی پلکیں اور کپکپاتے ہونٹ زوہان کو پاگل کر رہے تھے۔
اُس نے ہاتھ بڑھا کر زنیشہ کے دائیں گال پر ہلدی لگادی تھی۔۔۔ زنیشہ کی رنگت اس کے دھکتے لمس پر تپ اُٹھی تھی ۔۔۔۔
” زنیشہ میران پر صرف ملک زوہان کا حق ہے۔۔۔۔۔”
یہ الفاظ ادا کرتے زوہان کی آنکھیں مسکرائی تھیں۔۔۔اُس نے جھک کر زنیشہ کی ٹھوڑی پر لب رکھ دیئے تھے۔۔۔۔
اُس کی گھمبیر سر گوشی اور شدت بھرے لمس پر زنیشہ کی جان نکل گئی
جب اگلے ہی لمحے زوبان اُس کے سامنے سے اُٹھتا رخ پھیر گیا تھا۔ زنیشہ جانتی تھی وہ بہت سی باتیں دل میں جمع کیسے ابھی بھی اس سے ناراض تھا۔۔۔۔۔ جن کو ختم کر کے اُسے منانا بہت مشکل ہونے والا تھا۔۔۔۔ مگر
ز نیشہ زوہان میر ان کے اندر پنپتے ہر دکھ اور درد کو سمیٹ لینا چاہتی
تھی۔۔۔۔۔
وہ ہاتھ میں ٹشو پکڑے اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔۔۔ اور بے قابو ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ زوبان کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
بنا کچھ بولے زوہان کے مزید قریب ہوتے وہ اُس کی شرٹ پر لگے ہلدی کے داغ ٹشو کی مدد سے صاف کرنے لگی تھی۔۔۔۔

زوہان بنا کوئی موومنٹ کیسے یک تک اُسے دیکھے گیا تھا۔۔۔۔ میں اپنے شوہر سے اپنی ہر نادانی کی معافی مانگ کر اسے منا لینا چاہتی”
” ہوں۔۔۔
ز نیشہ اس کے پیروں پر پیر رکھ کر اس کے قریب ہوتی اس کی ٹھوڑی پر لب رکھے واپس پلٹی ہی تھی۔۔۔ جب زوہان اس کے اتنے خوبصورت انداز پر
پوری طرح گھائل ہوا تھا۔۔۔
زنیشہ کا اُسے والہانہ نظروں سے دیکھنے کا انداز ، اس کے گالوں کی سُرخی اور اظہار کرنے کی خاطر کھلتے بند ہوتے یہ نازک لب اس پر واضح کر جاتے تھے
کہ یہ لڑکی واقعی اس کی دیوانی تھی۔۔۔
اور اب تو ز نیشہ کا یہ جان لیوا عمل زوہان کا ضبط ختم کر گیا تھا۔۔۔ زنیشہ کی نازک سی کمر میں بازو حمائل کر کے اُسے اوپر اٹھاتے زوہان اُس کے بالوں میں چہرا چھپاتے اُس کی گردن پر جھک گیا تھا۔۔۔ زنیشہ اس سے ایسی کسی شدت پسندی کی اُمید نہیں رکھ رہی تھی۔۔۔
اُس کا شدت بھر المس محسوس کرتے زنمیشہ کی جان نکل گئی تھی۔۔۔۔
” میں اپنی بیوی کے منانے کا منتظر رہوں گا۔۔۔”
زوہان اُس کی گردن پر اپنی محبت کا گہر انشان چھوڑتا اس کے کانپتے لرزتے وجود پر ایک شوخ نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
زنیشہ جو کچھ دیر پہلے بہادر بنی زوہان کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی۔۔۔ اس کی جوابی کارروائی زنیشہ کے ہوش اڑا گئی تھی ۔۔۔ یہ شخص اس کی سوچ سے بھی زیادہ مشکل تھا ۔۔۔ کب، کہاں، کیسے اُس کا موڈ بدل جاتا تھا یہ کبھی کوئی
سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔۔۔
زنیشہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنی گردن کو چھوا تھا۔۔۔ جہاں ابھی بھی اُسے کو ملے دھکتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔۔ جب کافی دیر بعد سانسیں بحال ہوتے ایک شرمگی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
میران پیلس میں بجتی شہنائیاں جلد ہی ماتم میں بدلنی ہونگیں۔۔۔ اور کسی بھی قیمت پر اُن دونوں بھائیوں کو ایک نہیں ہونے دینا۔۔۔۔اگر وہ ایک
” ہو گئے تو انہیں برباد کر نانا ممکن ہو جائے گا۔۔۔۔
اکرام حنیف اپنے سارے پلانز فیل ہو جانے کے بعد اب ہاتھ ہر ہاتھ دہرے نہیں بیٹھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ میران پیلس میں لگی رونقیں اس کے اندر آگ لگارہی تھیں۔۔۔۔ اس کی سگی اولاد کی شادی تھی اور وہی وہاں داخل
بھی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔۔
تو کیا کریں اب ہم ۔۔۔۔ اُن دونوں کو ہر طرح سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔۔ مگر وہ کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں دے رہے۔۔۔ اکرام حنیف کا بھتیجا بھی زنیشہ کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ اب پوری طرح ایکٹیو
ہو چکا تھا۔۔۔
اب بھی ہے ایک آژ میر میر ان کی کمزوری۔۔۔۔۔ جو ہماری ہی بنائی گئی ہے۔۔۔۔ اس کے ذریعے آژ میر میر ان کو آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔۔۔۔
اور ویسے بھی اُس لڑکی نے ہمیں دھوکا دیا تھا۔۔۔اُس سے بھی بہت سارے حساب نکلتے ہیں ہمارے۔۔۔۔ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے ۔۔۔اور یہ نشانہ چلایا جائے گاز وہان کے کندھے پر رکھ کے ۔۔۔۔ جس سے نہ صرف اپنی محبت کھو دینے پر آڑ میر میر ان پاگل ہو جائے گا۔۔۔ بلکہ ایک بار پھر زوہان کو اپنا دشمن مانتے نفرت سے دھتکار دے گا۔۔۔ اور اُن کی اس
” بر بادی کے ساتھ ہی ہماری کامیابی ہو گی۔۔۔۔۔
اکرام حنیف سارا پلان ترتیب دیتا آخر میں کمینگی سے مسکرادیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@
حائفہ بیٹا آج بہت عرصے بعد میران پیلیس کے تمام افراد ایک ساتھ ناشتہ ” کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں آپ بھی ہمارے
” ساتھ شامل ہوں۔۔۔۔
حائفہ شاور لے کر بال ڈرائیر سے خشک کرنے میں مصروف تھی۔۔۔ جب حمیرا بیگم دروازه ناک کرتے اندر داخل ہوئی تھیں۔۔۔
ماور اتو کب کی نیچے جاچکی تھی۔۔۔ مگر حاعفہ آژمیر سے سامنا کرنے کے خیال سے جھجھک رہی تھی۔۔۔ اس کے سامنے آنے کا سوچ کر ہی اُس کا دل
زوروں سے دھڑک اُٹھتا تھا۔۔۔
” جی ماما میں بس آہی رہی تھی۔۔۔”
حاعفہ ان کی اتنی محبت پر چاہ کر بھی انہیں انکار نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ وہ اس وقت مہرون گرم سوٹ میں ملبوس دھلی دھلائی سفید رنگت کے ساتھ بہت دلکش لگ رہی تھی۔۔۔ ہو نٹوں پر پنک کلر کالائٹ سالپ گلاز لگارکھا تھا۔۔۔ جو اُس کی گلابیاں
چھلکاتی شفاف رنگت پر مزید چار چاند لگارہا تھا۔۔۔۔
حمیرا بیگم کی معیت میں دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے ڈائننگ ہال میں قدم رکھا تھا۔۔۔۔ جہاں سامنے ہی اُس ستمگر کو اپنی سحر انگیز شخصیت کے ساتھ بیٹھادیکھ اس کی سانسیں اتھل پتھل ہوئی تھیں۔۔۔۔
وہاں تقریباً خاندان کے سبھی لوگ موجود تھے۔۔۔
آژمیر کے ساتھ والی سیٹ پر سویرا کو بیٹھا دیکھ حائفہ کا موڈ آف ہوا تھا۔۔۔۔ کل رات کے بعد آژمیرکولے کر اُس کی سوچ بدل چکی تھی۔۔۔ اب وہ اُس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔ بلکہ اس کے قریب سے قریب تر ہونا چاہتی تھی۔۔۔ وہ اُس کا شوہر تھا۔۔۔ اور اُس پر وہ اپنے علاوہ کسی لڑکی کو حق
جتاتا نہیں دیکھ سکتی تھی اب۔۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں اُداسی بھرے آژمیرکے سامنے والی کرسی پر آن بیٹھی تھی۔۔۔
حاعفہ نے نوٹ کیا تھا کہ اُس کے آنے کے بعد آژمیرنے ایک کے بعد دوسری نگاہ نہیں ڈالی تھی اس پر۔۔۔۔ ایک تو اسے سویرا کو آژمیرکے
ساتھ بیٹھے دیکھنے پر غصہ تھا۔۔۔ اُوپر سے اُس کا اس قدر اگنور کرنا حاعفہ کی
آنکھوں میں نمی بھر گیا تھا۔۔۔۔
جسے چھپاتی وہ سر جھکا گئی تھی۔۔۔۔
” واؤ آج تو بڑی محفل سجی ہوئی ہے ناشتے ہے۔۔۔۔۔”
حاشر حائفہ کے ساتھ پڑی خالی کرسی پر آن بیٹھتا خو انگوار لہجے میں مخاطب ہوا
تھا۔۔۔
میرے لالہ کی پرسنیلٹی ہی اتنی جاندار ہے۔۔۔۔ جہاں آجائیں وہاں محفل سج ہی جاتی ہے۔۔۔۔۔
جواب زنیشہ کی جانب سے آیا تھا۔۔۔ جو آج کچھ الگ ہی خوشی سے چیک رہی تھی۔۔۔۔ جو بات سب نے ہی نوٹ کی تھی۔۔۔
لگتا ہے میرے خون پسینے سے ارینج کی گئی کل کی دونوں ڈیٹس ہی کامیاب گئی ہیں۔۔۔۔ چہروں پر چھائی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی۔۔۔۔۔ ماور از نیشہ کے کان میں سر گوشی کرتے بولی۔۔۔۔
ڈیٹ کی بچی ۔۔۔۔۔۔ جو تم نے کل کیا ہے۔۔۔ اُس کا بدلہ تو میں ضرور ” لوٹاؤں گی۔۔۔۔ تمہاری ڈیٹ ارینج کر کے ۔۔۔۔۔ آج صبح ہمارے اٹھنے سے پہلے ہی تم کمرے سے نکل گئی ورنہ آج ہمارے ہاتھوں تمہاری درگت
” بنا یقینی تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازتے دھمکی دی تھی۔۔۔
وہ کنیز آنٹی کیا کہہ رہی تھیں کل آپ کو ۔۔۔۔ اُنہیں اماں
ماور پسند آئی ہے اُن کے بیٹے کے لیے۔۔۔ اور وہ جلد از جلد رشتے کے لیے انکے بیٹے کے لیے
” آنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ زنیشہ نے مزے لیتے جو بات کہی تھی، وہ اور ا کے سر پر ایک زوردار بم کی طرح پھوٹی تھی۔۔۔۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ اور حائفہ کو بھی اس معاملے میں کافی حد تک رضامند دیکھ ماورا کے چھکے چھوٹ چکے
اُس نے بے بسی سے موبائل فون کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ جب سے میران پیلس آئی تھی۔۔۔ نجانے کتنی بار منہاج کا نمبر ملا چکی تھی۔۔۔ مگر
ہر بار وہ آف ہی مل رہا تھا۔۔۔
ماور اسب کے سامنے ہنستی کھیلتی اپنے اندر کتنی بڑی تکلیف چھپائے ہوئے
تھی کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔
وہ حائفہ کو اتنے عرصے بعد ۔۔۔۔ یا شاید اب تک کی زندگی میں پہلی بار اتنا
خوش اور آسود و دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ اُسے ایک بار پھر ان سے پریشانیوں میں نہیں دھکیلنا چاہتی
تھی ۔۔۔۔ اس لیے اُس کے سامنے زیادہ سے زیادہ خوش رہنے کی کوشش
کرتی تھی۔۔۔۔۔
لیکن اب جو سر پر نئی تلوار لٹکنے لگی تھی۔۔۔ اس نے اسے بے چین کر کے
رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اب اُسے جلد از جلد منہاج سے رابطہ کرنا تھا۔۔۔
@@@@@@@@@@
بابا اتنے دن گزر چکے ہیں اور آپ اب تک اُس کا پتا نہیں لگوا پائے۔۔۔” پلیز با باوہ میرے لیے بہت امپورٹنٹ ہے۔۔۔۔ میں اُس کے بغیر نہیں رہ پاؤں گا ہا ہا پلیز ۔۔۔۔ ڈو سمتھنگ۔۔۔۔۔ میں جلد از جلد واپس آنے کی بابا پلیز۔۔۔۔ مگر میں تب تک کے لیے بھی ویٹ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔
کسی مشکل میں نہ ہو۔۔۔۔۔ میں اتنا تو جانتا ہوں کہ
وہ کسی مجبوری کی وجہ سے ہی گئی ہے۔۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی
ہے۔۔۔
منہاج سمندر پار بیٹھا تڑپ رہا تھا۔۔۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اُڑ کر یہاں پہنچ جائے۔۔۔۔ اور اپنی قیمتی متاع کو کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالے
جو نجانے اچانک کہاں کھو گئی تھی۔۔۔۔۔
ہمیشہ سے اُس نے سنا تھا کہ سچی محبت اتنی آسانی سے کبھی نہیں ملتی تھی ۔۔۔۔ اس بات کی سچائی اسے آج سمجھ آرہی تھی۔۔۔۔ ماور اُس کی
ہو کر بھی اُس کے پاس نہیں تھی۔۔۔۔ اس نے اپنی محبت کو پا کر کھو دیا
تھا۔۔۔۔
اُسے یہی لگ رہا تھا کہ اُس نے محبت میں جتناماور ا کو تڑپایا تھا اب قدرت اُس سے، اُن سب باتوں کا انتقام لے رہی تھی۔۔۔۔
منہاج بیٹا کول ڈاؤن۔۔۔۔ میں نے پر امس کیا ہے نا آپ۔
میں اپنی بہو کو اس گھر میں لا کر رہوں گا۔۔۔۔
شہاب درانی نے منہاج کو
تسلی دینی چاہی تھی۔۔۔۔ وہ کسی قیمت پر اپنے
بیٹے کی اکلوتی خوشی اس سے دور نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔۔ مگر منہاج کا یہ جذباتی بن بھی انہیں پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔۔ بابا کاش آپ میری تکلیف سمجھ پاتے۔۔۔۔ یہاں میرا ایک ایک سیکنڈ ” کس قدر اذیت میں گزر رہا ہے میں بتا نہیں سکتا۔۔۔۔
منہاج اُن کا ایک بار پھر وہی تسلی بھر اجملہ سنتا افسردگی سے بول کر فون بند
کر گیا تھا۔۔۔۔۔
تمہارے بغیر اس قدر بے چین اور پاگل ہو جاؤں گا، میں نے کبھی نہیں” سوچا تھا۔۔۔۔ اب احساس ہو رہا ہے کہ کس قدر شدت سے چاہا ہے تمہیں۔۔۔ ایک بار مل جاؤ۔۔۔۔ پھر کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی خود سے
” دور نہیں کروں گا۔۔۔۔۔
منہاج خود کلامی کرتا کرسی کی پشت سے سر ٹکا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اُسے بس یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ ماورا کسی پر اہلم میں نہ ہو۔۔۔۔۔
اُسے رورہ کر خود غصہ آرہا تھا کہ ماورا کو ڈھونڈے بغیر وہ یہاں آیا ہی کیوں
تھا۔۔
@@@@@@@@@@
ارے پہلے بڑی بہن کی شادی ہو گی ، اس کے بعد چھوٹی کی۔۔۔۔۔ پہلے تو ہمیں حائفہ کے لیے کوئی اچھا سالڑ کا ڈھونڈنا ہو گا۔
حمیرا بیگم کی بات پر شمسہ بیگم نے آژ میر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جوان لیڈیز کی باتوں پر بناتوجہ دیئے قاسم صاحب کے ساتھ آفس کے کوئی معاملات
ڈسکس کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔
شمسہ بیگم کو حائفہ آژ میر کے لیے بہت پسند آئی تھی۔۔۔ یہ دھیمے نرم مزاج
کی صابر سی لڑکی ہی ان کے مشکل ترین بیٹے کو سنبھال سکتی تھی ، اسے سمجھ
سکتی تھی۔
جس کے موڈ سے
کے ساتھ بدلتے تھے۔۔۔ اور غصہ تو تقریب ہر وقت
ناک پر دھڑا رہتا تھا۔۔۔۔
لیکن شمسہ بیگم ابھی اس بات سے انجان تھیں۔۔۔ کہ حائفہ نہ صرف اُن
کے مٹے کو سمجھ چکی تھی بلکہ اسے سنبھالنے کے لیے بھی دل و جان سے تیار
تھی۔۔۔
” قاسم بھائی کیا خیال ہے اس بارے میں آپ کا ۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے جان بوجھ کر آژ میر کو متوجہ کرنے کے لیے قاسم صاحب کو
مخاطب کیا تھا۔۔۔۔
خیالات تو نیک ہی ہونے چاہئیں۔۔۔ اور ساتھ میں قریب کی نظر بھی تیز “
” ہونی چاہیئے۔۔۔۔
عاشر نے پسندیدگی بھری نظروں سے حائفہ کو دیکھتے لقمہ لگایا تھا۔۔۔۔ حائفہ کے غیر معمولی حسن کی وجہ سے وہ تقریباً خاندان کے سبھی لڑکوں کی پسند بن چکی تھی۔۔۔۔ اور اب سب ہی اُسے حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ا
تھے۔۔۔۔
جسٹ سٹاپ اٹ۔۔۔۔ یہ ڈائینگ ٹیبل ہے کوئی میرج بیورو نہیں کہ ” سب رشتے کروانے والی ڈیوٹی نبھارہے ہیں۔۔۔ ابھی جس کی ہو رہی ہے
اُس کی آرام سکون سے ہونے دیں۔۔۔۔ باقیوں کی بعد میں دیکھی جائے
“گی۔۔۔۔
آژمیر جس کے کانوں میں حائفہ کو لے کر کب سے یہ ساری باتیں پڑرہی
تھیں۔۔۔ آخر کار اس کا ضبط جواب دے گیا تھا۔۔۔
جبکہ آژمیر کے اتنے شدید ری ایکشن اور ایک دم غصہ ہو جانے پر سب ایکدم گھبراگئے تھے۔۔۔۔ سوائے حاعفہ کے۔۔۔۔۔ جو کب سے اِسی بات کا ویٹ کر رہی تھی کہ آژمیر سب کو چپ کروائے گا۔۔۔۔۔
اس نے آژمیر کے غصے سے لال چہرے کو محبت پاش نگاہوں سے دیکھا
تھا۔۔۔۔۔
مضبوط
جان اور تحفظ کا احساس کیسا ہوتا ہے۔۔۔ یہ آج حائفہ
نے محسوس کیا تھا۔۔۔۔۔
” حاشر آؤ میرے ساتھ کچھ کام ہے تم سے۔۔۔۔۔”
آژمیر اپنی جگہ سے اٹھتا، حاشر کا بھی ساتھ لے گیا تھا۔۔۔۔ جو اُس کی بیوی کے پاس بیٹھ کر اُسے گھور رہا تھا۔۔۔۔اب کوئی نہیں جانتا تھا کہ حاشر کو اُس کی اس گستاخی کی کیا سزا ملنے والی تھی۔۔۔ جو وہ انجانے میں کر گیا تھا۔۔۔
@@@@@@@@@@
جی فرقان صاحب آپ اس میٹنگ کو دو دن بعد کے لیے رکھ دیں۔۔۔” ” آج اور کل میں میرا آفس آنا پا سبل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
آژمیر فون پر بات کرتا اپنے روم سے نکل کر سٹڈی کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ جب اُس کی نگاہ سامنے کی جانب اٹھی پھر واپس پلٹنا بھول چکی تھی۔۔۔۔ حائفہ زرد رنگ کی سادہ سی شارٹ شرٹ اور کھلے پائنچوں والا ٹراؤزر پہنے، شرٹ کی سلیوز کو کہنیوں تک فولڈ کیے ، دودھیا ہا تھوں کو بازوؤں تک فل مہندی سے بھرے وہ سادگی میں بھی قیامت ڈھارہی تھی۔۔۔۔۔ سر پر اوڑھا دوپٹہ سلکی بالوں کی وجہ سے نیچے پھسل آیا تھا۔ جس میں سے جھانکتی اس کی جوڑے میں مقید ناگن زلفیں آڑ میر میران کو چاروں شانے چت کر گئی تھیں۔۔۔۔ اُسے حائفہ کے بال بہت پسند تھے۔۔۔۔ جنہیں وہ ہر وقت اُس سے چھپا کر ہی رکھتی آئی تھی ۔۔۔۔
حائفہ جو اپنے دھیان میں چلتی اُس کی جانب ہی بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ کسی خیال کے زیر اثر اُس نے نگاہیں اُٹھا کر سامنے دیکھا تھا۔۔۔ آژ میر کو وہاں کھڑا دیکھ اُس کے قدم اپنی جگہ پر ساکت ہوئے تھے۔۔۔۔ اُس نے ہڑ بڑاہٹ میں دوپٹہ سر پر
اوڑھنا چاہا مگر پھر
ہاتھوں کو بے بسی سے دیکھ کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔
وہ ماورا کی گھنٹوں کی محنت اس طرح ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ آژ میر اس کے قریب آچکا تھا۔۔۔۔۔ حائفہ کی پلکیں گھبراہٹ کے زیر اثر کوشش کے باوجود دوبارہ نہیں اُٹھ پائی تھیں۔۔۔۔
آژ میر آگے بڑھا تھا اور جھک کر اُس کی دونوں کلائیوں سے اُٹھتی مہندی کی مسحور کن خوشبو سے اپنی سانسیں معطر کرتا اسے اپنے قریب کر گیا
تھا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا عقب سے حاشر کی کمزور سی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
لالہ نیچے سے ساری بکس اور پر شفٹ کر دی ہیں۔۔۔۔ اب میں
“جاؤں۔۔۔۔۔
حاشر آژمیر کے چوڑے وجود کے پیچھے چھپی حائفہ کو نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔۔۔ اتنی ٹھنڈ میں بھی پوری طرح پیسنے
میں شرابور وہ بہت تھکا ہو الگ رہا تھا۔۔۔۔
آئندہ ایسی گستاخی ہو گی۔۔۔۔؟؟؟” آژمیر حائفہ کے چہرے پر پھسلی لٹ کو دیکھتا سر دلہجے میں حاشر سے مخاطب ہو ا تھا۔۔۔۔ حائفہ کو لمحہ لگا تھا سمجھنے میں کہ حاشر کو کس بات کی سزا مل رہی
ہے۔
صبح ناشتے کے ٹیبل پر اُس نے حائفہ کے ساتھ جو فری ہونے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ اور جو الٹے سیدھے ڈائیلاگ مارے تھے ۔۔۔ آژ میر کی جانب
سے یہ اُن کاری ٹرن تھا۔۔۔
حاشر کی شکل دیکھ حائفہ کے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھری تھی۔ جسے اس نے آژمیر سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے چہرا جھکا
لیا تھا۔۔۔۔
نہیں لالہ آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔”
حاشر منمنا یا تھا۔۔۔۔اب تو وہ ساری بات سے لا علم ہوتے ہوئے ۔۔۔۔ حاعفہ کو بھا بھی ہی بولنے والا تھا۔۔۔ کیونکہ آج تک آژ میر نے اتنا کنسرن کسی لڑکی کے لیے نہیں دیکھایا تھا۔۔۔ جتنا اسے حاعفہ کے ساتھ
حاشر کا یہ فضول باتیں کر نائر الگا تھا۔۔۔
آژمیر نے ہاتھ کے اشارے سے حاشر کا جانے کو بول دیا تھا۔۔۔۔۔ حاعفہ ابھی تک آژمیر کے سامنے اُسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔۔۔۔۔ “کل زنیشہ کے ساتھ ساتھ تمہاری رخصتی بھی ہو گی تیار رہنا۔۔۔۔

share with your friends on Facebook


Updated: April 27, 2025 — 5:08 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *