Haifa and Zanisha Novel Part 22 – Urdu Yum Stories | Read Online & Download PDF


The journey of Haifa and Zanisha becomes even more intense and emotional in Part 22. This latest episode is a perfect example of Urdu yum stories, offering bold romance, heartfelt emotions, and gripping drama in a smooth Urdu font.

If you enjoy romantic Urdu stories with strong emotions and real depth, you will love this chapter.

Urdu yum stories

Haifa and Zanisha Novel Part 22 – Urdu Yum Stories

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 21 – Free Urdu Font Story

آژمیر بہت ہی پر سکون انداز میں اُس کے سر پر بم پھوڑ تا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ حائفہ کے قریب سے اُٹھتی خوشبو
اُسے بہکنے پر مجبور کر رہی تھی۔۔۔
لک کیا۔۔۔۔۔۔ کل رخصتی ۔
حائفہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ جو اس نے سنا ہے وہ سچ ہے یا اُس کا کوئی وہم۔۔۔۔۔۔
اس کے سوال پر آژ میر واپس پلٹا تھا۔۔۔۔
اور حائفہ کی نازک کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے بے حد قریب کر گیا تھا۔۔۔۔

“کل تمہیں پوری طرح میری دسترس میں آنا ہو گا۔۔۔۔ اور اب تک جو جو کار نامے تم کر چکی ہو۔۔۔۔ ایک ایک کر کے اُن سب کا حساب دینا ہو گا۔۔۔۔۔میری محبت اور غصے دونوں کی شدتوں کو سہنا ہو گا۔۔۔۔۔ میرے اندر بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہو گا۔۔۔۔۔ میرے بے چین دل کا قرار بننا ہو گا۔۔۔۔۔”
آژ میر اُس کے کان کی لوح کو ہونٹوں تلے دباتا، اس کی گردن پر اپنا گہر ا لمس چھوڑ تا اُسے ابھی سے ہی اپنی شدتوں سے آگاہ کر گیا تھا۔۔۔۔
حاعفہ تو کتنی ہی دیر اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔ آژ میر میر ان جیسے مشکل بندے کی قربت بر داشت کرنا بھی آسان نہیں تھا۔۔۔۔
حاعفہ آنے والے لمحوں کا سوچتی جی جان سے لرز اٹھی تھی۔۔۔۔ اُس کے پورے وجود پر ابھی سے لرزا طاری ہو چکا
تھا۔۔۔۔ اُس کے گلابی گال حیا اور گھبر اہٹ سے تپ اُٹھے تھے۔۔۔۔
آژ میر گھر والوں کو کیسے بتانے والا تھا کیا کرنے والا تھا۔۔۔۔ اُسے کچھ اندازہ نہیں تھا۔۔۔ مگر اُسے اتنا پتا تھا کہ آخر میر اُس کے کر دار پر کبھی کوئی بات نہیں آنے دیگا۔۔۔۔ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے اپنی بیوی کا سر نہیں جھکنے دے گلا۔
@@@@@@@@@@
” مجھے ملک زوہان سے بات کرنی ہے۔۔۔۔”
زنیشہ کو زوہان کا پر سنل نمبر آف ملا تھا۔۔۔ اس لیے اُس نے زوہان کی پی اے کے نمبر پر کال کی تھی۔۔۔

آئم سوری میم۔۔۔ مگر سر اس وقت میٹنگ میں ہیں۔۔۔ مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔۔ آپ کچھ گھنٹوں بعد
کال کر لیجئے گا۔۔۔
پی اے مصروف سے انداز میں جواب دیتی۔۔۔ زنیشہ کی اگلی بات سنے بغیر فون رکھ گئی تھی۔۔۔
جس بات نے زنیشہ کو مزید تپادیا تھا۔۔۔۔
اُس نے دوبارہ کال ملائی تھی۔۔۔۔
” کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ اُن کی میٹنگ کس کے ساتھ چل رہی ہے۔۔۔۔؟”
زنیشہ نے دانت چبا کر بولتے اپنے لہجے کو مہذب رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔ ثمن خان کے ساتھ اگلے ایک بہت امپورٹنٹ پراجیکٹ کی ڈسکشن کر رہے ہیں۔۔۔۔۔
پی اے کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ز نیشہ کو آگ لگا گئے تھے۔۔۔۔ اُس نے فوراً سے کال کاٹتے ، حاکم کا نمبر ملایا
تھا۔۔۔۔۔
اپنے سر سے بات کرواؤ میری ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔۔”
زنیشہ کو شدید غصہ آرہا تھا۔۔۔۔ آج اُن کی مہندی تھی مگر اس کے شوہر کو آج بھی اپنی میٹنگ عزیز تھیں۔۔۔۔ وہ بھی
اُس لڑکی کے ساتھ جو دل و جان سے اُس کے شوہر پر فدا تھی۔۔۔۔
“او کے میم۔۔۔۔۔”

حاکم کو پہلے ایک بار بات نہ کروانے کی وجہ سے زوبان سے ڈانٹ پر چکی تھی۔۔۔اس لیے وہ اب خاموشی سے اندر کی جانب
بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
“سر ز نیشہ میڈم کی کال ہے۔۔۔۔”
میٹنگ روم میں اس وقت شمن اور زوبان کے علاوہ پانچ لوگ اور بھی موجود تھے۔۔۔۔ زوہان حاکم کو یوں بیچ میں آکر
ڈسٹرب کرنے پر گھور رہا تھا۔۔ جب اُس نے آگے سے زنیشہ کا فون پکڑا دیا تھا۔۔۔
” مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔۔ اُسی کی رخصتی کروائیں، جسے ہر وقت اپنے ساتھ لیے گھوم رہے ہوتے
ہیں۔۔۔۔۔
زنیشہ نے کوئی اور بات کرنے کے لیے فون کیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ غصے میں بول کچھ رہی تھی۔۔۔
” ایکسیوز می۔۔۔۔۔
زوہان میٹنگ سے کچھ وقت کی بریک لیتا باہر نکل ا ا ا ا
کیا کہ تم نے ؟ اب بولو ۔۔۔
زوہان کی سنجیدہ آواز سپیکر سے اُبھری۔۔۔۔
اُس کے ورکرز کے سامنے شیر نی بنی ایک دم بھیگی بلی بنی تھی ۔۔۔۔ ” تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔۔رئیلی ؟؟؟؟” زوہان نے اس کی خاموشی پر اُس کی کہی بات دوہرائی تھی۔۔۔۔

تو مطلب میں ثمن سے شادی کر لوں۔۔۔۔ یہ بھی اجازت دے دی ہے تم نے۔۔۔۔۔ویسے بھی اس سے دوسری شادی
تو کرنی ہے تھی۔۔۔۔ تو کیوں نہ اب پہلی کر لوں۔۔۔۔ دوسری تم سے کرلوں گا۔۔۔۔”
زوہان اُس کی غصہ ضبط کرنے کی کوشش میں لیتی گہری گہری سانسوں کو سنتازیر لب مسکرادیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ میر ان بھی اُس کے لیے اتنی ہی پوزیسو تھی جتناوہ پوزیسو تھا۔۔۔۔۔
” آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔”
اُس کے ایسے مذاق پر بھی زنیشہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔ ” تم نے مجھے منانا تھا۔۔۔۔ مگر یہ سب کر کے تم مجھے مزید خفا کر رہی ہو۔۔۔۔
زوہان نے اُسے یاد دلایا تھا۔۔۔۔
مگر مجھے اب آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔ آپ کے لیے وہ لڑکی مجھ سے بڑھ کر ہے میں جان چکی ہوں۔۔۔۔
زنیشہ روہانسے لہجے میں بولتی زوہان کی مسکراہٹ گہری کر گئی تھی۔۔۔۔
“کاش تم اس وقت میرے قریب ہوتی تو میں تمہیں بتاتا تم کیا ہو میرے لیے۔۔۔”
زوہان کے گھمبیر بھاری لہجے میں ادا کیے جانے والے جملے پر زنیشہ کی ہتھیلیاں بھیگ گئی تھیں۔۔۔۔
” وہ آپ سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔”
زنیشہ کو ثمن کا زوہان کے ساتھ رہنا اسی وجہ سے ہضم نہیں ہو تا تھا۔۔۔
مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔

زوہان نے مختصر اجواب دیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اس وقت اُس سے جو وضاحت مانگ رہی تھی۔۔۔ زوہان جان بوجھ کر اُسے وہ دینے کو تیار نہیں تھا۔۔۔۔ اُسے زنیشہ
کا یہ جیلسی بھرا انداز بہت مزادے رہا تھا۔۔۔
مجھے اب آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔ آپ بہت بُرے ہیں۔۔۔۔ زنیشہ شدید ناراضگی کا اظہار کرتی کال کاٹ گئی تھی۔۔۔۔
“میری معصوم سی بیوی تو شدت پسندی میں مجھ سے بھی آگے نکل گئی ہے۔۔۔۔
زوہان زیر لب مسکرا تا آفس کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
مہندی کا فنکشن بھی میران پیلس کے بڑے سے لان میں ہی منعقد کیا گیا تھا۔۔۔۔ہر طرف سجی برقی قمقموں اور زرد
پھولوں نے ایک سماں باندھ رکھا تھا۔۔۔
تقریب کے لیے تقریباً سارے انتظامات مکمل کر دیئے گئے تھے۔۔۔ زنیشہ حائفہ کے ساتھ پارلر تیار ہونے گئی
تھی۔۔۔۔
مہمان آہستہ آہستہ آنا شروع ہو چکے تھے۔۔۔۔
گھر کے تمام افراد وہاں پر موجود آنے والوں کا خوشدلی سے استقبال کرنے میں مصروف تھے۔۔۔۔

حمیر از راپتا تو کرواؤ۔۔۔۔ زنیشہ اور حائفہ کب تک پہنچیں گی۔۔۔۔۔ ابھی تک تو انہوں نے آجانا تھا۔۔۔۔اتنی لیٹ کیوں ہو گئیں۔۔۔۔ کہا بھی تھا بیو ٹیشن کو یہیں بلوالیں۔۔۔ مگر یہ لڑکی میری سنتی کہاں ہے۔۔۔۔”
شمسہ بیگم حمیر ابیگم کے پاس آتی فکر مندی سے بولی تھیں۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر میں زوہان اور نفیسہ بیگم بھی مہندی لے کر اپنے دوست احباب کے ساتھ وہاں پہنچنے والے تھے۔۔۔ ‘بھا بھی پریشان نہ ہوں میں کال کرتی ہوں۔۔۔ ویسے بھی اتنے سارے سیکیورٹی گارڈز ہیں تو سہی اُن کے ساتھ ۔
اللہ سب خیر کرے گا۔۔۔۔”
حمیر ابیگم انہیں تسلی دے کر زنیشہ کا نمبر ملا تیں دوسری جانب بڑھ گئی تھیں۔۔۔۔
” بھا بھی نمبر نہیں مل رہا دونوں کا۔۔۔۔۔”
حمیر ابیگم بھی اب شدید پریشانی کا شکار اُن کے قریب آئی تھیں۔۔۔۔
شمسہ بیگم کے بلانے پر قاسم صاحب بھی وہاں آچکے تھے۔۔۔۔ کسی گارڈ کا نمبر بھی نہیں مل رہا تھا۔۔۔
اب سب کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔۔۔۔
مہندی آچکی تھی مگر کسی کو پریشانی میں اُن کا ویلکم کرنے کا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔۔۔
“ز نیشہ کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان کے کانوں تک بھی اس بات کی بھنک پڑ چکی تھی۔۔۔ وہ ضبط سے لال ہوتی آنکھوں کے ساتھ سختی سے مٹھیاں
بھینچے اُن کے قریب آیا تھا۔۔۔۔

جو بات اُسے پتا چلی تھی اس نے زوہان کی سانسیں چھین لی تھیں۔۔۔ اس کی زنیشہ مسنگ تھی۔۔۔۔ اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔۔۔ ” وہ آژمیر لالہ آگئے۔۔۔۔”
حاشر کی نظر اندر داخل ہوتے آژ میر پر پڑی تھی۔۔۔۔
آژمیر کو بھی اُن دونوں کی گمشدگی کی خبر مل چکی تھی۔۔۔۔
” آپ لوگ اس سچویشن میں اُن دونوں کو مجھ سے پوچھے بغیر یوں بھیجنے کی غلطی کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔۔ اُن دونوں کو اگر زرا
سی خراش بھی آئی تو میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔”
وہ لہو رنگ آنکھوں اور پتھریلے تاثرات کے ساتھ سب پر ایک سخت نگاہ ڈالتارخ موڑ گیا تھا۔۔۔
جبکہ زوہان کا بس نہیں چل رہاہ تھا کہ پورے میران پیلس کو اُن کے مکینوں سمیت آگ لگا دیے۔۔۔۔ جو اُس کی زنیشہ کے
حوالے سے اتنی لا پرواہی برت چکے تھے۔۔۔
اُن کی حالت ہی اس وقت قابلے رحم تھی۔۔۔۔ کیونکہ اس وقت اُن کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔ وہ یہاں کھڑے رہ کر کسی بُری خبر کا انتظار نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔ ابھی انہیں نے باہر کی جانب قدم بڑھاتے ہی
تھے۔۔۔۔ جب سامنے سے آتے فیصل کو دیکھ وہ دونوں اپنی جگہ ساکت ہوئے تھے۔۔۔۔
فیصل۔
؟؟؟؟”
آژمیر نے سوالیہ نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جس کی جھکی نگاہیں کچھ غلط ہونے کا پیغام دے رہی تھی۔۔

“سائیں۔۔۔۔ وہ سیکیورٹی خدشات کے تحت۔۔۔۔ زنیشہ بی بی جی اور حائفہ بی بی جی کو الگ الگ گاڑیوں میں یہاں واپس
لایا جار ہا تھا۔۔۔۔
فیصل سے اپنے مالک کی اذیت کا سوچ کر اگلا جملہ ادا کرنامشکل ہوا تھا۔۔۔۔
باقی سب کی سانسیں رک سی گئی تھیں۔۔
اکرام حنیف کے آدمیوں نے دونوں گاڑیوں پر حملہ کر کے زنیشہ بی بی جی کو اغوا کر لیا ہے۔۔۔۔ اور حاعفہ بی بی جی جس گاڑی میں تھیں۔۔ وہ تباہ کر دی گئی ہے۔۔۔۔ ابھی ہمارے آدمی اس تباہ کن ملبے سے باڈی پارٹس ڈھونڈنے کی کوشش
کر رہے ہیں۔۔۔۔” فیصل کے الفاظ قیامت بن کر ٹوٹے تھے اُن سب پر ۔۔۔۔ قاسم صاحب سکتے کے عالم میں یہ سب دیکھ سن رہے
تھے۔۔۔۔ جبکہ باقی سب کا بھی یہی حال تھا۔۔۔۔
فیصل کے الفاظ نے آژ میر کے جسم سے روح کھینچ لی تھی۔۔۔ مگر اس نے آگے بڑھتے ایک زناٹے دار تھپڑ فیصل کے منہ پر رسید کیا تھا۔۔۔۔ جس سے فیصل لڑا کھڑا کر پیچھے جا گرا
“تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی حائفہ کے بارے میں ایسی بکو اس کرنے کی۔۔۔۔۔حاعفہ کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔۔ کوئی اُسے
کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔ میں پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا۔۔۔۔۔

آژ میر اس وقت آپے سے باہر ہو چکا تھا۔۔۔ حائفہ کے لیے ڈیڈ باڈی کا لفظ اُس کا دل چیر گیا تھا۔۔۔ جبکہ باقی سب حیرت و بے یقینی سے آژ میر کا یہ الگ رُوپ دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ حائفہ کے لیے اُس کا یہ دیوانہ پن اُن سب کو ہی شدید حیرت میں
ڈال گیا تھا۔۔۔
جبکہ ماورا بھیگی آنکھوں سے یہ سب دیکھتی پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔۔ حائفہ کی خواہش تھی آژمیر میر ان کی آنکھوں میں اپنے لیے ایسی ہی دیوانگی اور چاہت دیکھنے کی۔۔۔۔۔ وہ چاہتی تھی جیسے وہ آژمیر کو ٹوٹ کر چاہتی تھی۔۔۔۔ اُس کی
ایک جھلک پر پاگل ہو اُٹھتی تھی۔۔۔ ویسی ہی محبت آژمیر میر ان اُس سے کرے۔۔۔۔۔
آج وہ سب ہو رہا تھا۔۔۔ مگر اسے دیکھنے والی موجود نہیں تھی۔۔۔۔
” آژمیر بیٹا ہمیں جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہو گا۔۔۔۔ اکرام حنیف نے جو کیا ہے اُسے اُس کی عبرت ناک سزا
ضرور ملے گی۔۔۔”
شاکر صاحب نے آگے بڑھتے آژ میر کو نارمل کرنا چاہا تھا۔ ” نہیں جب تک میں حائفہ کو سہی سلامت اپنے سامنے نہ دیکھ لوں۔۔۔ اور اُس کمینے کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دوں۔۔۔
آرام سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔۔۔۔” وہ اُن کا ہاتھ جھٹکتا فیصل کے ہاتھ سے بندوق چھینتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ زوہان پہلے سے ہی باہر کی جانب جا چکا تھا۔۔۔
اُس کی لال آنکھیں اور بھینچے نقوش بتا رہے تھے۔۔۔ کہ اس وقت وہ کس اذیت سے گزر رہا تھا۔۔۔

بے پناہ محبت کر تا تھاوہ زنیشہ سے۔۔۔ اپنی ماں کے بعد اب اُسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کے بغیر اس
کی زندگی کتنی خالی اور ویران تھی۔۔۔ اُسے آج شدت سے اندازہ ہوا تھا۔۔۔
وہ دونوں لڑتے تھے جھگڑتے تھے۔۔۔ مگر زوہان سکون بھی صرف اسی کی قربت میں محسوس کرتا تھا۔۔۔
وہ اپنی زندگی کا یہ واحد سکون اور دل کا قرار خود سے دور نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
زوہان اور آژمیر کو یوں بھرے زخمی شیروں کی طرح میران پیلس کی دہلیز پار کر تادیکھ۔۔۔ اُن سب کے دل ہول اُٹھے
تھے۔۔۔۔
شمسہ بیگم تو لڑ کھڑا کر پیچھے پڑی کرسی پر جاگری تھیں۔۔۔۔ بہت مشکلوں سے تو ان کی بیٹی کی زندگی میں خوشیاں داخل ہوئی تھیں۔۔۔۔ جن کو پورا ہونے سے پہلے ہی نظر لگ گئی تھی۔۔۔۔ اور
آژ میر ۔۔۔ حائفہ کے لیے اُس کی تڑپ دیکھ وہ ایک پل میں سمجھ گئی تھیں۔۔۔ کہ یہ وہی لڑکی تھی جس سے ان کے بیٹے نے ٹوٹ کر محبت کی تھی۔۔۔۔۔ اور تقدیر نے اُسے۔۔۔۔ اُس کی زندگی میں شامل ہونے سے پہلے ہی چھین لیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@
آژ میر اور زوہان اپنے آدمیوں کی پوری فوج کے ساتھ اکرام حنیف کے اس خفیہ ڈیرے پر پہنچ چکے تھے۔۔۔ جو اس کے مطابق ابھی تک کسی کی نظر میں نہیں تھا۔۔۔
مگر یہ اُس کی غلط فہمی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں بہت پہلے سے اکرام حنیف کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔۔۔۔ حاعفہ والے واقع کے بعد سے آژمیر کو اکرام حنیف کی تلاش تھی۔۔۔۔

جو پوری ہوئی بھی تھی تو آج۔۔۔۔۔
زوہان تم باہر ہی رکو۔۔۔۔ میں اندر جاؤں گا۔۔۔۔ ہمیں پوری طرح شیور نہیں ہیں کہ وہ لوگ اندر ہوں.
ہمارے لیے کوئی ٹریپ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔”
آژمیر اپنے ساتھ ساتھ زوہان کو بھی خطرے کے منہ میں نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔اس لیے سر د تاثرات کے ساتھ
اُسے وہیں رکنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھا تھا۔۔۔
” نہیں میں بھی ساتھ چلوں گا۔۔۔۔اندر تمہارا اکیلا جانا مناسب نہیں ہے۔۔۔۔ باہر ہمارے آدمی موجود ہیں سب سنبھال
لیں گے۔۔۔۔۔”
زوہان بھی آژمیر کو اکیلے جانے دینے کے حق میں نہیں تھا۔۔۔۔ اُن کے پیچھے کھڑے فیصل اور حاکم ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے تھے ۔۔
ن دونوں بائیوں کی محبت بھری نفرت کو لوگ آج تک سمجھ نہیں پاے تھے جواپنے ساتھ ساتھ بات ان کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک رہے تھے۔۔۔۔
اس وقت بحث کرنے کا ٹائم نہیں تھا۔۔۔۔ وہ دونوں ہی اندر کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔
اُنہوں نے اب تک پولیس کو انفارم نہیں کیا تھا۔۔۔۔ وہ ابھی اکرام حنیف کو اپنے پلان کے مطابق اس طرح ہی قابو کرنا
چاہتے تھے۔۔۔۔
اس پاگل شخص کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔۔۔۔ خود کو بچانے کی خاطر وہ اپنی بیٹی کو بھی نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔۔

اُس اندھیرے میں ڈوبے بنگلے کے باہر ہی اکرام حنیف کے آدمی بندوقیں اُٹھائے مستندی سے کھڑے تھے ۔۔۔۔ جن کو ٹھکانے لگانے کا کام فیصل اور حاکم کا ہی تھا۔۔۔۔
اکرام حنیف کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ جو لوگ اکیلے اکیلے ہی اس پر بھاری تھے ان کا گھٹ جوڑ اس پر کتنا بڑا قہر بن کر ٹوٹنے
والا تھا۔۔۔۔۔
وہ دونوں کھڑکی کے راستے اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔ جہاں طرف اندھیرا ہی چھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔ اُن کے قدم روشن دان سے جھانکتی چاند کی ہلکی سی روشنی میں نظر آتی سیڑھیوں کی جانب بڑھے ہی تھے۔۔۔ جب اوپر سے سنائی دیتی زنیشہ کی چیخ اُن دونوں کو ہی تڑ پاگئی تھی۔۔۔۔۔
وہ بنا ایک لمحے کے لیے بھی سوچے دیوانہ وار سیڑھیاں چڑھتے آواز کی سمت کا تعین کرنے لگے تھے۔۔۔۔ جب دائیں
جانب موجود روم سے دوبارہ چیخنے کی آواز پر وہ لمحہ بھی ضائع کیے اندر داخل ہوئے تھے۔
@@@@@@@@@@
” مجھے شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ تم جیسا گھٹیا انسان میر اباپ ہے۔۔۔۔۔ جو آج تک اپنی بیٹی کے لیے کچھ کر تو نہیں پایا بلکہ اس کا حق چھیننے کے لیے اس کی شادی کے دن اُسے اغوا کرنے پہنچ گیا۔۔۔۔۔ اگر میری زندگی میں آژ میر لالہ اور
زوہان جیسے مرد نہ ہوتے تو آج میں مرد ذات سے شدید نفرت کرتی۔۔۔۔ صرف تمہاری وجہ سے

مگر ایک بات یادر کھنا تم چاہے جتنے مرضی پلان بنالو۔۔۔۔ کبھی کامیاب نہیں ہو پاؤ گے۔۔۔۔ آ‌‌ ‌‌‌میر لالہ اور زوہان ایسا کبھی ہونے ہی نہیں دیں گے۔۔۔۔۔ اور ابھی جو تم نے کیا ہے نا۔۔۔۔۔اس کی سزا کے طور پر انہوں نے تمہیں کتے کی موت نہ مارا تومیر انام بدل دینا۔۔۔۔۔۔”
زنیشہ کا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑے اپنے اس نام نہاد باپ کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر دے۔۔۔۔۔ جس نے آج تک اُسے اور اُس کی ماں کو ذلت اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں دیا تھا۔۔۔۔
بھلا کو نسا باپ اپنی بیٹی کو اُس کی شادی کے فنکشن میں سے اغوا کر سکتا تھا۔۔۔۔ وہ جائیداد کی خاطر۔۔۔۔۔ ” تیری بہت زبان چلنے لگ گئی ہے۔۔۔۔۔ اپنے اس شوہر اور بھائی کے دم پر وہ سنتے ہونگے تیری یہ زبان درازی میں
نہیں سن سکتا ۔۔۔۔ لگتا ہے سب سے پہلے اسے ہی کاٹنا پڑے گا۔۔۔۔۔”
اکرام حنیف کے دل میں سامنے بیٹھی مہندی کی دلہن کی طرح سجی اپنی سگی بیٹی کے لیے رحم نہیں تھا۔۔۔۔
” حائفہ کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ زنیشہ کو حاعفہ کی فکر کھائے جارہی تھی۔۔۔۔ جو شخص بیٹی ہونے کے باوجود اُسے نہیں بخش رہا تھا۔۔۔ اُس نے حائفہ کے
ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا یہ سوچ ہی اُس کا دل دہلا دیتی تھی۔۔۔۔
” بڑی فکر ہے تجھے اس لڑکی کی۔۔۔۔ عجیب دوغلے لوگ ہو تم سب میر ان پیلیس والے۔۔۔۔ یہ وہی لڑکی ہے جس نے میرے کہنے پر تیرے بھائی کو دھوکا دیا۔۔۔۔ اُسے مارنا چاہا۔۔۔۔ اور اب تیرا بھائی واپس اُسے سر پر بیٹھانا چاہتا ہے۔۔۔۔

پوری دنیا کے سامنے اپنا نام بنانے والا در حقیقت اتنا بے وقوف ہے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں اپنی بر بادی لکھنے کا
بہت شوق ہے اُسے۔۔
ویسے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اب بھی وہ لڑکی میرے ساتھ مل کر یہ سب کر رہی ہو۔۔۔۔ اور جو کام پچھلی بار ادھورارہ گیا ہو۔۔۔ وہ اب پورا کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔”
اکرام حنیف نے نہایت ہی چالاکی سے زنیشہ کے دماغ کے ساتھ کھیلنا چاہا تھا۔۔۔
اور زنیشہ کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ کافی حد تک کامیاب ہو بھی چکا ہے۔۔۔۔۔
زنیشہ کی نظروں کے سامنے ایک ایک پل گھومنے لگا تھا۔۔۔۔ حائفہ کا آژمیر سے چھپنا،ماورا کی سر گوشی میں کی جانے والی باتوں پر شرمانہ اور آژمیر کا پلٹ کر اُسے دیکھنا، اُسے نہ پا کر ہر طرف متلاشی بے قرار نگاہوں سے اُسے ڈھونڈ نا۔۔۔۔ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ یہ سب کیسے نہیں محسوس کر پائی تھی ۔۔۔۔ کہ حائفہ ہی وہ لڑکی ہے جس سے اُس کے لالہ نے بہت محبت کی تھی۔۔۔۔ حائفہ ہی کے کہنے پر وہ آج گھر میں تیار ہونے کے بجائے پار لر گئی تھی۔۔۔۔ اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس معصوم صورت کے پیچھے اتنا گھٹاؤ نار وپ چھپا تھا۔۔۔ وہ ایک بار پھر اس کے لالہ کو دھوکا دے رہی تھی۔۔۔ زنیشہ کو اس لمحے حائفہ سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔
جو اُس کے لالہ کے دل اور زندگی دونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔۔۔
” وہ کہاں ہے اس وقت …. ؟؟؟”
زنیشہ ایک آخری بار حائفہ سے ملنا چاہتی تھی اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ آخر وہ اس کے بھائی کی دشمن کیوں تھی۔۔۔

بہت جلد پتا چل جائے گا تمہیں۔۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے تمہیں یہ پیپر ز سائن کرنے ہونگے۔۔
اگرام حنیف اپنا ایک داؤ کھیل چکا تھا۔۔۔ اب دوسرے کی باری تھی۔۔۔۔
نہیں میں سائن نہیں کروں گی۔۔۔۔ میں یہ جگہ تمہارے نام کر کے ، وہاں بسے لاکھوں یتیموں کو بے گھر نہیں
کر سکتی۔۔۔۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔۔۔۔”
زنیشہ صاف انکاری تھی۔۔۔۔ جس پر اکرام حنیف نے اپنے وقت کا زیاں ہوتے دیکھ ایک زور دار تھپڑ ز نیشہ کے چہرے
پر رسید کیا تھا۔۔۔۔
درد اور خوف کے مارے زنیشہ کے ہونٹوں سے بے ساختہ چیخ بر آمد ہوئی تھی۔۔۔۔
” سائن تو تجھے کرنے پڑیں گے۔۔۔۔۔ ورنہ آج میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔”
زنیشہ کو بالوں کو بے دردی سے کھینچتے اُس نے ایک اور زور داد تھپڑ ز نیشہ کے چہرے پر رسید کیا تھا۔۔۔۔
جس پر وہ نازک جان درد سے بلبلا اٹھی تھی۔۔۔۔
مگر اس سے پہلے کی اکرام حنیف مزید اُسے تکلیف دیتا دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔ اور اندر داخل ہوتے دونوں افراد کو دیکھ جہاں زنیشہ کی آنکھوں کی بھی جوت دوبارہ جل اٹھی تھی۔۔۔۔ وہیں اکرام حنیف کو اپنی موت سر پر ناچتی محسوس ہوئی
تھی۔۔۔۔۔
دیکھو تم دونوں قریب مت آنا۔۔۔۔ ورنہ میں اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دوں گا۔۔۔۔

زنیشہ کی کنپٹی پر بندوق تانے وہ اُن دونوں کے قدم وہیں جکڑ گیا تھا۔۔۔۔ آژ میر نے زنیشہ کو وہاں سہی سلامت دیکھ بے
قراری سے ارد گرد نگاہیں دوڑائی تھیں۔۔۔۔ مگر حائفہ کو وہاں نہ پا کر اُس کا دل پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔
اُس کا دل چاہا تھا ابھی اسی وقت اس درندے کی کھو نپڑی اڑا دے۔
زنیشہ اُن کی نگاہوں کے سامنے تھی اُسے تو وہ بچالیتے۔۔ مگر حاعفہ کا ابھی تک کچھ پتا نہیں تھا۔۔۔ وہ ایسار سک نہیں لے سکتے تھے۔۔۔۔
یہ تمہاری بیٹی یے اسے چھوڑ دو۔۔۔۔۔ تمہاری دشمنی ہم سے ہے۔۔۔۔ جو کرنا ہے ہمارے ساتھ کرو۔۔۔۔۔” آژمیر نے اُسے لفظوں کے جال میں اُلجھانا چاہا تھا۔۔۔۔ حائفہ کی فکر میں اُس کا دل خون کے آنسورور ہا تھا۔۔۔جو حاعفہ
کے بارے میں کہاجارہا تھا اگر وہ واقعی سچ ہو تا تو۔۔۔۔ اس سے آگے کی سوچ اُس کی روح فنا کر جاتی تھی۔۔۔۔ ز نیشہ کی ساری جائید اداب میرے نام ہے۔۔۔۔ اُس کے سائن کرنے یا اُسے نقصان پہنچانے سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں
ہو گا۔۔۔۔”
زوہان نے ایک قدم آگے اُٹھاتے جھوٹ کا سہارا لیتے زنیشہ کے ماتھے پر ٹکی اُس بندوق کا رُخ اپنی جانب مڑوانا چاہا
تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔ مگر زوہان کی آنکھوں کے سر د اشارے پر وہ بہتی آنکھوں سے اُن دونوں کو دیکھے گئی

جو آج ایک بار پھر اس کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے وہاں آن پہنچے تھے ۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اکرام حنیف سب
سے زیادہ انہیں کو دشمن سمجھتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کے چہرے پر بنے انگلیوں کے نشانات قریب آجانے کی وجہ سے زوہان پر واضح ہوتے اس کا خون کھولا گئے
“تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔۔”
اکرام حنیف اُلجھ چکا تھا۔۔۔۔
یہ بالکل سچ کہہ رہا ہے۔۔۔۔ ہمیں پتا تھا کہ تم زنیشہ پر اس جائیداد کو لے کر حملہ کرواسکتے ہو۔۔۔اس لیے حفاظتی اقدام کے طور پر ساری جائیداد زوہان کے نام کر دی گئی تھی۔۔۔”
آژمیر بھی مصلحت کے تحت بولے جانے والے اُس کے جھوٹ میں شریک ہوا تھا۔۔۔۔
ز نیشہ کو ہمارے حوالے کر دو۔۔۔۔ میں پراپرٹی کے یہ سائن پیپر تمہارے حوالے کر دوں گا۔۔۔۔۔” زوہان نے پاکٹ سے کوئی پیپر نکال کر اکرام حنیف کی جانب بڑھائے تھے۔۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ سے زنیشہ کو مانگا
تھا۔۔۔۔
اکرام حنیف للچائی آنکھوں میں پیپرز کی جانب دیکھتا پیپر تھامنے کے ساتھ ساتھ زنیشہ کو بھی زوہان کی جانب دھکیل گیا
تھا۔۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ اُس کے ساتھ کوئی ہوشیاری نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ابھی
آژ میر کی جان اُس کے پاس قید تھی۔۔۔۔

ڈری سہمی ، روتی بلکتی زندیشہ کو خود میں بھینچتے زوہان نے اس کے کر کے پیچھے رسیوں سے باندھے ہاتھوں کھول کر ۔۔۔۔
نرمی بھرے انداز میں سہلائے تھے۔۔۔۔
زنیشہ کی رسیوں کے نشان سے ہوتی لال کلائیاں دیکھ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔۔۔۔ مگر حاعفہ کے خیال سے بہت مشکل سے وہ خود پر ضبط کیسے کھڑارہا تھا۔۔۔۔
زوہان نے جائیداد کے وہ جعلی پیپرز بھی کچھ عرصہ پہلے اس طرح بنوائے تھے۔۔۔ کہ کسی بہت ہی ایکسپرٹ کا پکڑپانا بھی مشکل ہو جاتا۔۔۔۔ اکرام حنیف بھی اُن کا غذات کی ہر طرح سے جانچ پڑتال کرنے کے بعد انہیں نہایت ہی حفاظت سے
اپنے کوٹ کی پاکٹ میں سجا گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟؟” آژمیر کی آواز میں موجو د تڑپ پر زوہان کے سینے سے لگی زنیشہ نے بھی سر اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ کچھ دیر پہلے کی اگرام حنیف کی کہیں باتیں اُس کے دماغ میں گونجنے لگی تھیں۔۔۔۔۔
وہ اب اُس مطلبی اور احسان فراموش لڑکی کے ہاتھوں اپنے بھائیوں کو مزید تکلیف اُٹھاتے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔۔۔۔ ” اپنی بہن سے پوچھو۔۔۔۔ وہ زیادہ اچھے سے بتاسکتی ہے تمہیں۔۔۔۔”
اکرام حنیف کی بات پر آژ میر اور زوہان دونوں نے زنیشہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جس پر زنیشہ بھائی کی تکلیف پر بھیگتی آنکھوں کے ساتھ اکرام حنیف کے منہ سے ادا کی گئی ساری بات انہیں بتاتی چلی گئی
تھی۔۔۔۔

اکرام حنیف کی نگاہیں آژ میر پر فوکس تھیں۔۔۔وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آژمیر اس کہانی پر یقین کرے گا یا اسے اب کوئی نئی چال چلنی پڑے گی۔۔۔۔
جیسے جیسے زنیشہ بول رہی تھی آژمیر کے چہرے کے نقوش بدلتے جارہے تھے ۔۔۔۔ اُس کے رگ وپے میں ایک سکون سا سرایت کر گیا تھا یہ جان کر کہ اُس کی حائفہ زندہ تھی۔۔۔۔ اُس کے لیے اس سے بڑھ کر آج کی تاریخ میں کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
زوہان نے بھی شکر ادا کیا تھا۔۔۔۔۔ اُس سے بہتر آژ میر کی تکلیف کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔۔۔۔ ” میں یقین نہیں کر سکتا اس سب پے۔۔۔۔ یہ تمہاری بنائی گئی کوئی کہانی بھی ہو سکتی ہے۔۔۔۔ کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو
بتاؤ۔۔۔۔”
آژ میر نے سرد تاثرات کے ساتھ اکرام حنیف کو گھورا تھا۔۔۔ جس نے زنیشہ کی زبانی یہ کہانی اس تک پہنچائی
خود پر اتنا بڑا الزام لے کر مجھے کوئی کہانی سنانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ یہ دیکھ لو اپنی آنکھوں سے۔۔۔۔ اس کے بعد بھی اگر تم سمجھے کہ یہ لڑکی معصوم اور بے قصور ہے تو تم سے بڑا بے وقوف اور عقل کا اندھا اِس پوری دنیا میں کوئی نہیں
ہو گا۔۔۔۔۔”
اکرام حنیف نے اُس کا خیر خواہ بنتے موبائل نکال کر اُس پر ریکارڈ کی گئی حائفہ کی ویڈیو آژمیر کے سامنے لہرائی تھی۔۔۔۔

مہندی کے لباس میں سجی سنوری وہ آژمیر کی تڑپ مزید بڑھا گئی تھی۔۔۔۔ اُس کی پیشانی سے نکلتا خون دیکھ آژمیر نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔۔
مگر حائفہ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ آژمیر سمیت، زنیشہ اور زوہان کو بھی ساکت کر گئے تھے۔۔۔ “میں آژمیر میر ان کی زندگی میں صرف ایک دھوکا اور فریب بن کر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔ مجھے نہ پہلے اس شخص سے محبت تھی نہ ہی اب ہے۔۔۔۔ میں نے یہ سب اکرام حنیف کے کہنے پر کیا۔۔۔ پہلے اپنی بہن کی زندگی محفوظ کرنے کے لیے اور اب اپنی۔۔۔۔ کیونکہ مجھے آژمیر سے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔ جو شخص مجھے ایک جگہ قید کر کے۔۔۔ اور اپنے سہارے باندھ کر رکھے مجھے ایسا مرد نہیں چاہیئے۔۔۔۔ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آژمیر میر ان کو مجھ سے محبت نہیں بلکہ کوئی شریف مرد کسی طوائف زادی سے نہ ہی محبت کر سکتا ہے اور نہ اُسے اپنی بیوی بنا سکتا ہے۔۔۔ اتنا بڑ اظرف آج کل کسی مرد میں بھی نہیں ہے۔۔۔ میرے نام کے ساتھ قاسم میر ان کا نام ہی کیوں نہ جڑا ہو۔۔۔ میری ساری زندگی تو ایک کو ٹھے میں ذلت اور رسوائی کے زیر اثر ہی گزری ہے۔۔۔ اور ویسے بھی آژمیر میر ان کا میری زندگی میں کوئی مقام نہیں ہے۔۔۔۔ جس شخص کو میں اپنے ہاتھوں ختم کرنا چاہتی تھی اور آج بھی اپنے پیچھے موت کے منہ میں دھکیل رہی ہوں۔۔۔ بھلا اُس کی جگہ میرے دل میں تو دور کی بات میری زندگی میں بھی کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔
مجھے صرف اُن پیسوں سے غرض تھا۔۔۔۔ جو مجھے اب مل چکے ہیں۔۔۔۔ اب میں آگے کی زندگی کسی کے بھی سائے تلے نہیں بلکہ آزاد گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔

حائفہ مضبوط اور بے لچک لہجے میں بنار کے بول رہی تھی۔۔۔ اور اُس کی آنکھیں بھی اُس کے الفاظ کا پورا ساتھ دے رہی تھیں۔۔۔۔ دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ کسی نے یہ سب حائفہ سے زبر دستی بلوایا ہو۔۔۔۔
زنیشہ آژمیر کے چہرے پر تکیلف کے آثار دیکھ بلک بلک کر رو دی تھی۔۔۔۔
آخر ہمیشہ اُس کے بھائی کے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو تا تھا۔۔۔۔ آژمیر مٹھیاں بھینچے پتھریلی نگاہوں سے یک ٹک ایک ہی جگہ کو گھور رہا تھا۔۔۔۔
زوہان آژمیر کی جانب پلٹا تھا۔۔۔۔ دونوں کی نگاہیں چار ہوئی تھیں۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ نگاہیں پھیر تے اکرام حنیف پر گاڑھ گئے تھے۔۔۔
یہ لڑکی میری سب سے بڑی گنہ گار ہے۔۔۔۔ تم سے بھی زیادہ۔۔۔ ایک بار میں دل کے ہاتھوں مجبور اسے معاف کر چکا ہوں۔۔۔ مگر اب ایسی بے وقوفی کر کے اسے اپنے دل سے دوبارہ کھیلنے کا موقع نہیں دے سکتا۔۔۔۔ میں اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ اگر تم مجھے ایسا کرنے دو تو آج کے دن تمہاری جان بخشی ہو سکتی ہے۔۔۔”
آژ میر ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتا ز نیشہ کو خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔۔
” لالہ نہیں پلیز یہ غلط ہے۔۔۔۔ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔۔ زوہان پلیز روکیں نالالہ کو۔۔۔۔” زنیشہ اپنے بھائی کو قتل کرنے نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔ اُسے خود اس وقت حائفہ سے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔ مگر آژ میر کے ہاتھ خون سے رنگتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی وہ۔۔۔۔
وہ جو کرنے جارہا ہے اُسے کرنے دو۔۔۔۔

زوہان نے سرد لہجے میں وارن کرتے زنیشہ کو وہیں خاموش کروا دیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں بھائی ایک دوسرے کو جتنا اچھے سے سمجھتے تھے۔۔۔۔ شاید آج تک اتنا اُنہیں کوئی نہیں سمجھ پایا تھا۔۔۔ “ٹھیک ہے۔۔۔ میں تمہاری بات ماننے کو تیار ہوں۔۔۔ مگر جب تک تم اس لڑکی کو ختم نہیں کر دیتے۔۔۔ یہ دنوں میرے
نشانے پر ہونگے۔۔۔۔ بنا کسی ہتھیار کے۔۔۔۔۔
اکرام حنیف نے بھی ثابت کر دیا تھا کہ وہ کوئی کچا کھلاڑی نہیں تھا۔۔۔۔
“ٹھیک ہے۔۔۔۔ مجھے منظور ہے۔۔۔۔۔”
آژ میر نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔ مگر اُس سے پہلے ہی زوہان نے حامی بھر لی تھی۔۔۔۔
وہ آژ میر کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگارہا تھا۔۔۔۔ کیونکہ اکرام حنیف کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔۔۔وہ وعدہ کرنے کے باوجو د
بھی اُن پر گولی چلا سکتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے حیرت بھری نگاہوں سے اُن دونوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو ایک پل کے لیے ایک دوسرے کی جان لینے کو تیار رہتے تھے اور اگلے ہی پل ایک دوسرے کی خاطر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔۔۔۔ ان دونوں کے اس انوکھے رشتے کو سمجھنا اس کے لیے زندگی کا سب سے مشکل ترین کام تھ۔۔۔۔
آژ میر نظروں ہی نظروں میں زوہان کو کوئی اشارہ کرتے اکرام حنیف کے آدمی کے ساتھ وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
@@@@@@@@@@
آژ میر اکرام حنیف کے آدمی کے ساتھ ہی دوسرے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔

جہاں سامنے ہی اس کی دشمن جاں چھرا گھٹنوں پر گرائے بازو اپنے گرد مضبوطی سے پھیلائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔
آژمیر کی اپنی گن پر گرفت مزید تیز ہوئی تھی۔۔۔۔
آہٹ پر حاعفہ نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تھا۔۔ اور پھر اُس کے لیے جیسے دنیا تھم گئی تھی۔۔۔
آژ میر جن نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا حائفہ سمجھ چکی تھی کہ وہ اُس کی ریکارڈنگ سن چکا ہے۔۔۔۔ جس کے بعد نفرت کے سوا آژمیر کے دل میں اُس کے لیے کسی اور جذبے کا بچنا ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔۔
حائفہ اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔۔۔ اُس کا پوراوجو دلرز رہا تھا۔۔۔۔
اُس اپنی موت سے زیادہ آژمیر کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھنے کا غم کھائی جارہا تھا۔۔۔۔۔
آژمیر اس پر نظریں گاڑھے مضبوط قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھ رہا تھا
حائفہ دھندلائی آنکھوں سے اُس کے خوبرو چہرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جس کے تنے نقوش اُس کے خوف میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔۔۔ اُسے آج زندگی میں پہلی بار خود پر ترس آیا تھا۔۔۔۔ وہ کس قدر بد نصیب تھی۔۔۔ اپنی محبت کو پاکر ، اب اپنے ہی ہاتھوں کھو رہی تھی۔۔۔۔
آج پہلی بار وہ اپنے اللہ سے شکوہ کر رہی تھی۔۔۔ اُس نے زندگی میں بس ایک اسی شخص کا ساتھ ہی تومانگا تھا۔۔۔۔ کیا وہ
اتنی بڑی اور اس قدر گنہگار تھی کہ اُس کی یہ ایک واحد دعا بھی قبول نہ ہو پاتی۔۔۔۔

حائفہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہو چکی تھیں۔۔۔۔
پلیز اللہ جی آژ میر کی آنکھوں میں نفرت دیکھانے سے پہلے مجھے موت دے دے۔۔۔۔ میں اُن کے بغیر اب مزید اپنی اس ویران اور اذیت بھری زندگی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔۔۔۔ اُن کے ہاتھوں مرنا اتنا تکلیف دہ نہیں ہو گا۔۔۔۔ مگر اُن کے منہ سے اپنے لیے نفرت کا اظہار سننا مجھے ختم کر دے گا۔۔۔۔۔”
حائفہ دل ہی دل میں اپنے پروردگار کو مخاطب کرتی آژ میر کے قریب آن کھڑے ہونے پر نظریں جھکا گئی تھی۔۔۔۔
” آریو او کے۔۔۔۔۔”
آژمیر کے منہ سے نکلنے والے غیر متوقع الفاظ پر حاعفہ نے نگاہیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جو انہیں سر د نگاہوں سے اُسے گھور تا سوالیہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
حاعفہ نے کپکپاتے ہو نٹوں اور بھیگے چہرے کے ساتھ سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔۔۔۔
آژمیر نے ایک نظر حاعفہ پر بندوق تانے کھڑے شخص پر ڈالتے پلٹ کر دروازے میں کھڑے شخص کو دیکھا تھا۔۔۔۔
جس کے نشانے پے وہ خود تھا۔۔۔۔
وہ گولی لگنے سے کسی ایک کو بچا سکتا تھا۔۔۔۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا اس کے لیے مشکل بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔ ان گزرے لمحوں میں حائفہ کی گمشدگی اُس کو کس قدر اذیت میں مبتلا کر گئی تھی۔۔۔ وہ بیان نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔ یہ لڑکی اپنی بے پناہ غلطیوں اور نادانیوں کے باوجود آج بھی اُس کے دل و جان میں بستی تھی۔۔۔۔ حائفہ سے نفرت کرنے کا مطلب تھا اپنی روح سے نفرت کرنا۔۔۔۔۔

حاعفہ اس کے منہ پر کھڑے ہو کر بھی اگر وہ سب بول دیتی تو آژ میر تب بھی اُسے کچھ نہ ہونے دیتا۔۔۔۔ یہ لڑکی اس کی رگِ جاں سے بھی قریب تر تھی۔۔۔۔ وہ بھلا اس کو خود سے جدا کرنے کی سوچ بھی کیسے دل و دماغ میں لا سکتا تھا۔۔۔ اللہ کا نام لیتے اگلے ہی لمح حاعفہ کا بازو تھام کر اپنی جانب کھینچتے آژمیر نے اکرام حنیف کے پوری طرح چوکس کھڑے آدمی پر فائر سادھ دیا تھا۔۔۔۔
جس پر وہ چند سیکنڈز میں ڈھیر ہو ا تھا۔۔۔۔ لیکن دروازے میں کھڑے شخص نے بھی
آژمیر کو مہلت نہیں دی تھی۔۔۔۔
آژ میر حائفہ کو پوری طرح اپنے مضبوط شکنجے میں قید کیے الماری کے پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔
مگر تب تک اُس آدمی کی چلائی گولی آژمیر کا بازو چھلنی کر گئی تھی۔۔۔۔ گولی آژمیر کو لگی تھی۔۔۔ مگر اس کے درد پر چیخ حائفہ کی نکلی تھی ۔۔۔۔ اس کے سینے سے لگی وہ بھیگی آنکھوں سے اُس کا
تکلیف ضبط کر تا چہرا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جو اُسے بچانے کے لیے خود پر گولی کھا گیا تھا۔۔۔۔ گولی کہیں پر بھی لگ سکتی تھی۔۔۔
آژ میر میر ان نے اپنی زندگی داؤ پر لگاتے پہلے اس کی حفاظت کا سوچا تھا۔۔۔ پھر ابھی بھی وہ کیسے سوچ سکتی تھی کہ یہ شخص
اُس سے محبت نہیں کرتا تھا۔۔۔۔
آژمیر کی محبت تو اُسے آج اپنی محبت سے کئی گنا بڑھ کر لگی تھی۔۔۔۔
آژ میر نے پلٹ کر اُس آدمی پر وار کرتے اگلے ہی لمحے اُسے بھی مار گرایا تھا۔۔۔۔
اُسے اب زوہان اور زنیشہ کی فکر تھی۔۔۔۔

وہ حائفہ کو اسی طرح اپنے حصار میں لیے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
” آژمیر آپ کا بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے۔۔۔۔”
حاعفہ آژمیر کا خون دیکھ پریشانی سے بُری طرح رو دی تھی۔۔۔۔ مگر آژمیر نے اُسے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا
تھا۔۔۔۔ حاعفہ نے نگاہیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کے چہرے کے پتھر یلے تاثرات حائفہ کو مزید خوفزدہ کر رہے تھے۔۔۔
فیصل اور حاکم بھی باقی آدمیوں کے ساتھ اندر پہنچ چکے تھے۔۔۔
” تھینک گارڈ تم لوگ ٹھیک ہو ۔۔۔۔”
زوہان اور زنیشہ کو روم سے نکلتا دیکھ آژمیر نے تشکر بھری سانس خارج کی تھی۔۔۔۔
زنیشہ حائفہ کو آژمیر کے حصار میں دیکھ سکھ کا سانس بھر کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا بھائی اُس کا آئیڈیل تھا۔۔۔ وہ بھلا کسی کے ساتھ غلط کیسے کر سکتا تھا۔۔۔ اور وہ بھی کسی لڑکی کے ساتھ ۔۔۔۔ یہ تو امپاسبل تھا۔۔۔۔
” ہم تو ٹھیک ہیں مگر کسی اور کو ٹھیک کرنا باقی ہے ابھی۔۔۔۔۔” زوہان نے آژمیر کی جانب دیکھتے اندر کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔۔ جہاں اُس کے آدمی اکرام حنیف کو پکڑے کھڑے تھے۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں پولیس نے آجانا تھا مگر اس سے پہلے ہی ودلوگ اُس گھٹیا شخص کی عقل ٹھکانے لگانا چاہتے تھے ۔۔۔۔ جس نے اُن سے اُن کی زندگیاں چھیننے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔

تم لوگ۔۔۔ حائفہ اور زنیشہ کو بحفاظت میران پیاس پہنچو۔۔۔ پولیس کے سامنے یہ دنوں نہیں آنی چاہئیں۔۔۔ ہم
دونوں اپنا کام پورا کر کے آتے ہیں۔۔۔۔”
آژمیر نے فیصل اور حاکم کو حکم دیتے اپنی دونوں قیمتی متاع اُن کے حوالے کی تھیں۔۔۔۔
مگر لالہ آپ کو گولی لگی ہے۔۔۔۔ “
جو بات حائفہ بولنے والی تھی۔۔۔۔ وہ اُس سے پہلے ہی زنیشہ نے بولتے زوہان کی توجہ بھی اُس جانب مرکوز کروائی
” میں ٹھیک ہوں۔۔۔ تم لوگ فورا نکلو یہاں سے۔۔۔۔”
آژمیر نے سخت لہجے میں حکم دیتے اُن کو مزید کچھ بولنے کا موقع نہیں دیا تھا۔۔۔۔
فیصل۔۔۔۔۔ آئم سوری۔۔۔۔۔”
آژمیر نے شاید آج پہلی بار جذبات میں آکر آپکو اپنے کسی ملزم پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ جس پروہ بہت شر مندہ
تھا۔
” ارے سر پلیز ۔۔۔۔ مجھے شرمندہ نہ کریں۔۔۔۔ میں نے بھی تو ٹھیکا اٹھارکھا ہے آپ کو غلط خبریں دینے کا۔۔۔۔ آپ
مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔”
فیصل کو انہیں سب خصوصیت کی وجہ سے ہی تو اپنے مالک سے بے پناہ محبت تھی۔۔۔۔۔
آژ میر اُس کا کندھا تھپکتاباہر جانے
کا بول گیا تھا۔۔۔

” مجھے معاف کر دو۔۔۔ آئندہ کبھی تمہاری زندگیوں میں نہیں آؤں گا۔۔۔ بلکہ اس ملک سے بھی بہت دور چلا جاؤں
گا۔۔۔۔ خدا کے لیے میری جان بخش دو۔۔۔۔۔
اکرام حنیف اُن دونوں کو اندر آتا دیکھ اُن کے سامنے ہاتھ جوڑ تارو دیا تھا۔۔۔۔ مگر جس قدر وہ اُن کی زندگیوں میں زہر گھول چکا تھا۔۔۔۔ اُس کے بعد اُن سے رحم کی توقع کرنا بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔ یہ اُس کے آخری الفاظ ہی تھے کیونکہ اُس کے بعد دونوں نے اُسے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔
پے در پے پڑنے والی لاتوں اور گھونسوں نے اُسے چند منٹوں میں ہی آدھ موا کر دیا تھا۔۔۔۔
میری بیوی کو بلیک میل کرو گے گھٹیا انسان۔۔۔۔ میری بہن پر ہاتھ اُٹھاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔ آژ میر کے کانوں میں حائفہ کے بولے جانے والے الفاظ گونجتے اُسے آپے سے باہر کر گئے تھے۔۔۔ اکرام حنیف کا منہ بُری طرح لہولہان کرتے وہ اُسے بالکل ختم کر دینے کے درپے تھا۔۔۔۔جب زوہان نے پیچھے سے جاکر
اُسے پکڑتے بمشکل روکا تھا۔۔۔۔
” وہ مر جائے گا۔۔۔۔۔”
زوہان نے اُسے بازو سے کھینچ کر اوپر اٹھایا تھا۔۔۔۔ وہ آژ میر کی فرسٹریشن اچھے سے سمجھ رہا تھا۔۔۔۔
اس لیے اُس کا کندھا سہلاتے اُسے نارمل کرتے چند قدم دور ہٹ گیا تھا۔۔۔۔

کئی جگہوں پر ایک ساتھ ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے بہت دور تھے ۔۔۔۔ اُن کے درمیان ابھی بھی ایک بہت بڑا خلا تھا۔۔۔ جس کو پاٹنا بہت اذیت ناک ہونے والا تھا۔۔۔۔
پولیس کے آتے ہی وہ دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔ کیونکہ اکرام حنیف اپنے لہولہان وجود کے ساتھ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔
” تمہارا خون کافی بہہ چکا ہے۔۔۔ گھر جانے تک زیادہ پرابلم ہو سکتی ہے۔۔۔۔ڈاکٹر آچکا ہے پہلے تم اپنی ڈریسنگ کرواو
زوہان پہلے ہی ڈاکٹر کا کال کر کے بلو ا چکا تھا۔۔۔۔۔
” تم شاید بھول رہے ہو۔۔۔۔ ہم اب بھی دشمن ہی ہیں۔۔۔۔۔
آژ میر کو اُس کی یہ عنایت کافی کھلی تھی۔۔۔۔
اپنا آپ بھول سکتا ہوں مگر ہماری دشمنی اور اس کی وجہ نہیں بھول سکتا۔۔۔۔۔ یہ دشمنی میں تب ہی قائم رکھ پاؤں گا۔۔۔ جب تم رہو گے۔۔۔۔ اس لیے میں نہیں چاہتا کہ
میر احساب چکانے سے پہلے ہی تمہیں کچھ ہو۔۔۔۔۔” زوہان بھی آژ میر کا طنز اتنی آسانی سے برداشت کرنے والا بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
اس کے جواب پر آژمیر کے ہونٹوں پر منفی بھری مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔۔

اس ڈاکٹر سے اپنا علاج کروالیا تو مجھے تمہارا احسان مند ہونا پڑے گا۔۔ جو کہ میں ہر گز نہیں ہونا چاہتا۔۔۔۔ ڈونٹ وری یہ معمولی ساخون بہا تمہارے اِس دشمن کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔۔۔۔ جتنا درر اب تک بر داشت کر چکاہوں۔۔۔۔ اُس کے
مقابلے میں یہ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔ اور تمہارا حساب چکائے بغیر کہیں نہیں جانے والا میں اس دنیا سے۔۔۔۔ آژمیر بھی حساب برابر کرتا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ کچھ لمحے اُس کی پشت کو گھورتے رہنے کے بعد زوہان بھی خاموشی سے دوسری طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ یہ الگ بات تھی کہ اُس کا دل آژمیر کی فکر میں اندر ہی اندر بے چین تھا۔۔۔۔ مگر یہ فکر وہ ہونٹوں پر لانے کے حق میں نہیں تھا۔۔۔ نہ ہی اس
کا اقرار اپنے سامنے کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@
حائفہ اور زنیشہ کو گھر واپس صحیح سلامت لو نا دیکھ پورے میران پیلس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔ مگر اُن دونوں کا غیر معمولی سنجیدہ پن اُن سب کو فکر میں بھی مبتلا کر گیا تھا۔۔۔۔
“کیا ہو از نیشہ سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔؟؟؟ آژ میر اور زوہان۔۔۔ وہ دونوں ٹھیک ہیں نا؟؟؟؟ آئے کیوں نہیں وہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔ کہاں ہیں وہ لوگ۔۔۔۔؟؟”
شمسہ بیگم زنیشہ کو اپنے حصار میں لیتیں فکر مندی سے بولی تھیں۔۔۔۔ حائفہ تو کچھ بولنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھی۔۔۔۔ وہ جب سے آئی تھی حمیر ابیگم کے گلے لگ کر آژمیر کو کھونے کے خوف سے پھوٹ پھوٹ کر روہی رہی تھی۔

اس کے آنسور کنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔۔ جس بات نے سب گھر والوں کو پریشان کر دیا
تھا۔۔۔۔
مہمان توکب کے رخصت ہو چکے تھے۔۔۔۔اب وہاں صرف نفیسہ بیگم اور گھر کے باقی لوگ ہی موجو د تھے۔۔
” وہ دونوں بالکل ٹھیک ہیں۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر میں آتے ہونگے۔۔۔۔”
زنیشہ نے اُسی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا تھا۔۔۔۔
” وہاں کچھ ہوا ہے۔۔۔؟؟؟ ز نیشہ بتاؤ ہمیں۔۔۔۔۔ میر ادل بیٹھا جارہا ہے۔ شمسہ بیگم اور باقی سب کو بھی کسی شدید گڑ بڑ کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔۔ حائفہ کا اِس طرح رونا کوئی معمولی بات نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
” حائفہ ہی وہ لڑکی ہے جو آژمیر لالہ کو اتنا بڑا دھوکا دے کر بھاگ گئی تھی۔۔۔۔ اور وہ صرف اُن کی محبت نہیں بلکہ ۔۔۔۔
زنیشہ یہ الفاظ ادا کرتی ایک سیکنڈ کے لیے رکی تھی۔۔۔۔ اور ساتھ ہی باقی سب کی سانسیں بھی روک گئی تھی ۔۔۔۔ ” بلکہ اُن کی بیوی بھی ہے۔۔۔۔ اِن دونوں کا بہت پہلے نکاح ہو چکا ہے۔۔۔۔۔”
زنیشہ کے خاموش ہونے کے ساتھ ہی پوری ہال میں سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔ صرف حائفہ کی سسکیوں کی آواز ہی گونج رہی تھی۔۔۔۔ اُسے کسی کا خوف نہیں تھا۔۔۔۔سوائے آژ میر کو کھونے کے۔۔۔۔۔
اُس کا دل آنے والے لمحوں کا سوچ تڑپ رہا تھا۔۔۔۔

Share with your friends on Facebook


Updated: April 27, 2025 — 2:39 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *