Haifa and Zanisha Novel Part 23 – Urdu Love Story | Read Online & Download Free PDF

The emotional journey of Haifa and Zanisha continues to grow deeper in Part 23. This chapter is a true Urdu love story, filled with powerful emotions, romantic chemistry, and bold moments that will keep you connected to the characters’ hearts.

If you love reading romantic Urdu novels that combine drama, love, and passion, you will truly enjoy this part.

love urdu story

Haifa and Zanisha Novel Part 23 – Urdu Love Story

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 22 – Urdu Yum Stories

“کیا۔۔۔۔؟؟؟ تو تم ہو وہ دھوکے باز لڑ کی۔۔۔۔ تم نے آژ میر کا دل دکھایا۔۔۔۔۔”
زنیشہ کے پاس کھڑی سویر اجو حاعفہ کا مقام جان کر اندر ہی اندر جل بھن چکی تھی۔۔۔۔ آنکھوں میں نفرت بھرے حاعفہ کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے ہی زنیشہ نے ہاتھ تھام کر اسے روک دیا تھا۔۔۔
نہیں سویر ایہ لالہ کی گنہگار ہے۔۔۔۔ اسے سزا بھی لالہ ہی دیں گے۔۔۔۔اس کا پہلے کا کیا تو شاید لالہ معاف کر دیں۔۔۔۔ مگر آج جو یہ کر چکی ہے۔۔۔ اُس کے بعد مجھے نہیں لگتا لالہ اس کی صورت دیکھنا بھی پسند کریں۔۔۔۔۔”
زنیشہ کی بات پر حاعفہ نے تڑپ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
کیا کیا ہے آج حاعفہ نے۔۔۔۔۔” یہ سوال کرنے والے قاسم صاحب تھے۔۔۔۔ اُن کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بھی سوالیہ نظروں سے زنیشہ کی طرف
دیکھا تھا۔۔۔۔
جس پر یہ نخوت بھری نگاہوں سے حاعفہ کی جانب دیکھتی ہوئی تمام واقع سناگئی تھی ۔ جس کے بعد سب کی نفرت
بھری نگاہیں حائفہ کی جانب اٹھی تھیں۔۔۔۔
” نہیں میری بیٹی ایسا کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔۔”
یہ الفاظ ادا کرنے والے قاسم صاحب تھے۔۔۔ حائفہ نے بے یقینی سے اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جس شخص کو اُس نے آج تک اپنے باپ کا درجہ نہیں دیا تھا۔۔۔۔ وہ آج بنا ساری حقیقت جانے اس پر یقین کر رہا تھا۔۔۔

اپنے باپ کے اس ایک یقین پر حائفہ کے دل سے اُن کے لیے موجو د سارا غصہ دھلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔ بعد میں چاہے جو بھی ہو تا۔۔۔ مگر یہ ایک جملہ ادا کر کے انہیں نے بھرے مجمعے میں جس طرح اپنی بیٹی کا مان رکھا تھا۔۔۔ وہ حاعفہ کے لیے بہت بڑی بات تھی۔۔۔۔
چھا سائیں آپ نہیں جانتے وہاں کیا سچویشن بن چکی تھی۔ لالہ کو گولی بھی لگی صرف اس خود غرض لڑکی کو بچانے کی خاطر ۔۔۔۔۔
زنیشہ کے لیے زندگی میں آژمیر سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔۔۔ وہ اپنے بھائی کو ہرٹ کرنے والے لوگوں کے لیے نفرت کے سوا کوئی جذبہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔
” بابا۔۔۔۔۔”
حائفہ کی اس درد بھری پکار پر قاسم نے نم ہوتی آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ماورا کا اس پل دل چاہا تھا خو د کو ختم کر دے۔۔۔ اُس کی وجہ سے اُس کی بہن کو کہاں کہاں رسوا ہو نا پڑ رہا تھا۔۔۔۔
ز نیشہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔۔ میں نے ہر بار آژ میر کو دھوکا دیا ہے۔۔۔۔ انہیں مارنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔ انہیں ہرٹ کیا ہے۔۔۔۔ اُن کا دل توڑا ہے۔۔۔۔ آپ لوگ اس کے لیے مجھے جو سزا دینا چاہیں۔۔۔ مجھے قبول
ہے۔۔۔۔۔’
حائفہ اپنے سارے گناہوں کا اقرار کرتی چہر جھکائے اُن کے سب کے درمیان میں آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔

اس کے ہاتھ جڑے ہوئے تھے۔۔۔۔ جبکہ پورا وجو د ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔اس کے ماتھے سے بہتے خون کی پر واہ اس سمیت کسی کو نہیں تھی۔۔۔۔ جو انکشاف سب کے سامنے ہو رہے تھے ۔۔۔۔ اس جانب کسی کا دھیان جاہی نہیں سکا
تھا۔۔۔۔
وہ اُن سب کے سامنے اسی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔ جب ہال میں گونجتی آژ میر کی آواز حاعفہ سمیت باقی سب کو بھی اپنی جانب متوجہ کر گئی تھی۔۔۔۔
سزا یہ لوگ کیوں دیں۔۔۔۔۔؟؟ تم میری گنہگار ہو۔۔۔ سزا بھی میں دوں گا۔۔۔۔۔” آژمیر کی گھمبیر بھاری آواز پر سب نے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔ اُس کی بات پر سویرا کے ہونٹوں پر کمینگی بھری مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔۔ اُس کے تو بنا کچھ کیے ہی ہر شے اُس کے فیور میں آگئی تھی۔۔۔۔۔ اُسے اس وقت
اکرام حنیف اپنا سب سے بڑا خیر خواہ لگا تھا۔۔۔۔ جس نے اُس کی اتنی مدد کر دی تھی۔۔۔۔ حاعفہ نے جھٹکے سے سر اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو اُس پر اپنی گہری نظریں گاڑھے قریب آرہا تھا۔۔۔
حائفہ کے آنسوؤں میں مزید روانی آچکی تھی۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں بسا خوف کئی گناہ بڑھا تھا۔۔۔۔ لیکن آژمیر نے اس کے قریب پہنچتے حائضہ سمیت وہاں موجود ہر شخص کو حیران کرتے۔۔۔۔ اُسے بازو سے تھام کر اپنے قریب کرتے۔۔۔۔ سینے میں بھینچ لیا تھا۔۔۔۔

تمہاری سزا یہ ہے کہ اب آگے کی ساری زندگی یوں ہی میری بانہوں میں رہ کر۔۔۔۔ میری محبت بھری شد توں کو برداشت کرنا ہو گا۔۔۔ اور مجھ سے دور بھاگ کر جس قدر مجھے تڑپایا ہے۔۔۔۔ اُس ایک ایک پل کی تڑپ کا سود سمیت حساب دینا ہو گا۔۔۔۔۔ بولو قبول ہے۔۔۔۔۔” اُس کے نازک وجود کو سینے میں بھینچے سر گوشیانہ لہجے میں بولتا وہ حائفہ کو نئی زندگی بخش گیا تھا۔۔۔۔ حاعفہ اُس کی شرٹ سینے مٹھیوں میں مضبوطی سے دبوچتی اُن پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔۔۔اب اُس کی آنکھوں سے بہے جانے والا ہر آنسو تشکر بھرا تھا۔۔۔۔
اس مہربان شخص نے یہاں پر بھی اُس کا مان رکھ کر اُس پر واضح کر دیا تھا۔۔۔ کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کے ساتھ ساتھ اُس پر اعتبار بھی کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ آژمیر نے اُسے اپنی قیمتی متاع کی طرح سینے میں مضبوطی سے بھینچ رکھا تھا۔۔۔۔وہ دونوں ہی بھول چکے تھے کہ اس وقت
وہ اپنے بیڈ روم میں نہیں بلکہ پورے خاندان کے بیچوں بیچ کھڑے تھے۔۔۔۔
آژمیر کا یہ روپ دیکھ وہاں موجود بہت سے لوگ سکتے میں آچکے تھے۔۔۔ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی اُسے معافی نہ دینے والا۔۔۔۔۔ اس لڑکی کی اتنی غلطیوں کے باوجو د اُسے معافی مانگنے کا موقع دیئے بغیر ہی سینے سے لگا گیا تھا۔۔۔۔۔۔

جبکہ شمسہ بیگم اپنے بیٹے کا یہ بدلہ رویہ دیکھ بے پناہ خوش تھیں۔۔۔۔ اس لڑکی نے نادانیوں کے ساتھ ہی مگر ان کے بیٹے کو محبت کرنا سیکھا دیا تھا۔۔۔۔ اور اب اُن کے بیٹے کی اُداسیوں بھری زندگی بہت جلد خوشیوں میں بدلنے والی تھی۔۔۔۔ انہیں اس بات کا پورا یقین تھا۔۔۔۔۔
سویرا کے سر پر تو جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔۔۔۔ اُسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ آژ میر حائفہ سے اس قدر محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔ زنیشہ اور باقی سب بھی الجھی نگاہوں سے یہ سب دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ زنیشہ اتنا تو جانتی تھی کہ اُس کا بھائی کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔ مگر جو کچھ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی اُس کے فوراًبعد یہ سب۔۔۔۔۔ اُس کی سمجھ سے باہر
تھا۔۔۔۔۔
” آہم آہم ۔
ماورا اپنی بھیگی آنکھیں صاف کرتی خوشی سے چہکتی اُن کے دونوں کے قریب آکر کھنکاری تھی۔۔۔۔ جو حقیقتا سب کی
موجودگی فراموش کر چکے تھے۔۔۔۔
آئم سوری ڈسٹرب کرنے کے لیے۔۔۔۔ مگر وہ میں آپ دونوں کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ پورا میر ان پیلس آپ لوگوں کی
جانب ہی متوجہ ہے۔۔۔۔ اور آپ لوگوں کی رخصتی ہو نا بھی باقی ہے ابھی۔۔۔۔۔”
ماورانے آژ میر کے خیال سے کافی مودبانہ لہجے میں کہتے اُن دونوں کو ہی ہوش کی دنیا میں کھینچا تھا۔۔۔ حائضہ کو ایک دم شرم و حیا نے آن گھیر ا تھا۔۔۔ اُس نے آژ میر کا حصار توڑ کر دور ہو نا چاہا تھا۔۔۔ مگر آژمیر نے اُسے ابھی اس بات کی اجازت نہیں دی تھی۔۔۔۔

وہ ابھی اس کا مقام اپنے گھر والوں کے سامنے واضح کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کی بیوی کو کٹہرے میں کھڑا
کر کے جو پنچایت لگائی گئی تھی وہ اسے کسی صورت برداشت نہیں ہو پائی تھی۔۔۔۔
حائفہ کو اُسی طرح ساتھ لگائے وہ شمسہ بیگم اور باقی سب کی جانب پلٹا تھا۔۔۔
” حائفہ میری زندگی میں آنے والی وہ پہلی اور آخری لڑکی ہے۔۔۔ جس نے مجھے محبت کرنا سکھایا ہے۔۔۔۔ اُس نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا۔۔۔۔اکرام حنیف کی بہت بلیک میلنگ کے باوجو د بھی وہ میرے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں کر پائی۔۔۔۔ کیونکہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔۔۔۔ حاعفہ نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی۔۔۔۔ ہر تکلیف سے مجھے اور میرے خاندان کو بچا کر اور اُنہیں خود پر جھیل کر اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مضبوط اور سچی لڑکی ہے۔۔۔۔ جسے رشتے نبھانا بھی آتا ہے۔۔۔ اور محبت کرنا بھی۔۔۔۔ اور میر ا اور حائفہ کا نکاح جن حالات میں ہوا۔۔۔۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ اُس میں۔۔۔ میں آپ سب ں سے معذرت خواہ ہوں کہ اس میں ۔ میں آپ سے اپنوں کو شریک نہیں کر سکا۔۔۔۔ حائفہ میری بیوی ہے۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں جتنی عزت اور محبت میرے لیے آپ لوگوں کے دلوں میں ہے۔۔۔ اتنی ہی حائفہ کے لیے بھی ہونی چاہیئے۔۔۔ کیونکہ وہ اس سب کی حقدار ہے۔۔۔۔” آژ میر نے سب کے سامنے حائفہ کو معتبر کرتے اُس کا جھکا سر اُٹھا دیا تھا۔۔۔ حاعفہ سکتے کے عالم میں یک تک اُسے دیکھے گئی
اس شخص سے عشق کی منزلوں سے بھی بہت آگے نکل چکی تھی وہ۔۔۔۔۔۔۔

شمسہ بیگم کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔۔ انہیں اس لمحے اپنے بیٹے پر بہت زیادہ فخر محسوس ہوا
تھا۔۔۔۔
جو اپنی بیوی کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔
“مگر جو کچھ زنیشہ نے بتایا وہ۔۔۔۔۔”
سویر اسے یہ منظر دیکھنا کسی صورت برداشت نہیں ہو ا تھا۔۔۔ وہ آگے بڑھی تھی۔۔۔۔ مگر آژمیر کی ایک ہی سخت نگاہ
اُسے وہیں خاموشی کر وا گئی تھی۔۔۔
اکرام حنیف جیسے گھٹیا شخص کے جھوٹ پر مجھ سمیت آئی تھنک میرے گھر کے کسی بھی فرد کو ایک پر سنٹ بھی یقین نہیں
ہو گا۔۔۔۔اس لیے میں نہیں چاہتا گزری باتوں کو دوہر ایا جائے۔۔۔۔”
آژمیر جانتا تھا کہ زنیشہ کی کہی باتیں سویر اسمیت باقی سب لوگوں کے دماغ میں بھی ہو نگی۔۔۔اس لیے وہ سب پر یہ بات بھی واضح کر گیا تھا۔۔۔۔
جس کے بعد حائفہ پر شک کی کوئی گنجائش نہیں بچتی تھی۔۔۔۔
“ماشاء اللہ ۔۔۔۔ میرے بچوں کی جوڑی سلامت رہے۔۔۔۔ میں بھی سوچتی تھی کہ میرے اس بے حد وجیہہ بیٹے کے
ساتھ بھلا کون سی لڑ کی سوٹ کرے گی۔۔۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنی پیاری چاندی ہو ملے گی

شمسہ بیگم آگے بڑھتیں حائفہ کو اپنے سینے سے لگا گئی تھیں۔۔۔۔ حائفہ تو ابھی تک سکتے سے باہر ہی نہیں نکل پارہی
تھی۔۔۔۔ آژمیر کی جانب والی اتنی بڑی خوشی اس سے سنبھالی نہیں جارہی تھی۔۔۔۔۔
آژ میر حاعفہ کو سب کے درمیان چھوڑتا ایک محبت بھری نظر اس کی گم صم صورت پر ڈالتا اپنے روم کی جانب بڑھ گیا
تھا۔۔۔۔۔
حاعفہ نے سب کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو لوگ کچھ وقت پہلے اُسے حقارت آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔اب آژمیر میر ان کے یوں معتبر کر دینے پر انہیں سب کی آنکھوں میں محبت اور عزت کی جھلک نمایاں تھی۔۔۔۔ ز نیشہ اپنی جگہ شرمندہ ہی ہوتی اپنے روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اُسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔ جذبات میں آکر اُس نے حاعفہ کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا تھا۔۔۔
@@@@@@@@@@
آپی آج بہت ہلکا فیل کر رہی ہوں۔۔۔ فائنلی آپ کو آپ کا رائٹ مین۔۔۔ رائٹ پلیس پر مل گیا۔۔۔۔ ویسے اگر دنیا کے سارے مرد آژمیر لالہ جیسے ہو جائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔۔۔۔۔ بنا ساری حقیقت جانے بھی انہوں نے جس طرح آپ پر ٹرسٹ کر کے آپ کو سب لوگوں کے سامنے ڈیفینڈ کیا۔۔۔۔ کیا ہی بات ہے۔۔۔۔ اُن کی نگاہوں میں آپ کے لیے عزت، اعتبار اور بے پناہ محبت دیکھی ہے میں نے۔۔۔۔ اصل مر دہی
وہ ہی ہو تا ہے۔۔۔ جو اپنی عورت کی عزت کرنا اور کروانا جانتا ہو۔۔

ماورا اُس کے مقابل بیٹھتی اُس کی چوٹ کی ڈریسنگ کرنے کے لیے فرسٹ ایڈ باکس لیے اُس کی جانب بڑھی ہی تھی
جب دروازہ ناک ہو ا تھا۔
“كون … ؟؟؟”
ماورا اُٹھ کر دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ مگر سامنے کھڑے آژ میر کو دیکھ وہ حیران ہوئی تھی۔۔۔ لیکن پھر آژمیر کے سنجیدہ تیور دیکھ بنا کچھ بولے سائیڈ پر ہوئی تھی۔۔۔۔
” آؤٹ۔۔۔
آثر میر اُس کے ہاتھ سے باکس لیتا نرمی سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔ مگر اُس کا نرم انداز بھی ماورا کو اچھا خاصا خوفزدہ کر گیا
تھا۔۔۔
اف اللہ جی۔۔۔۔ یہ کتنے سڑیل ہیں۔۔۔۔ باہر جانے کو ایسے بولا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں سے مجھے دھکے مار کر نکال
رہے ہوں۔۔۔۔”
ماور ایوں کمرے سے نکالے جانے پر منہ بسورتی آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔
@@@@@@@@@
حائفہ جو گزرے لمحوں کے سحر میں جکڑی بیٹھی تھی۔۔۔ماورا کو دروازے سے نہ پلٹتا دیکھ اس نے نظریں گھما کر اُس جانب
دیکھا تھا۔۔۔
جہاں کھڑے آژمیر کو دیکھ اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔۔

آژ میر ہاتھ میں باکس تھامے اُس کے قریب آن بیٹھا تھا۔۔۔۔ “خود کو ہرٹ کرنے کی عادت گئی نہیں نا ابھی تک تمہاری۔۔۔۔”
آژمیر نے سرد خفگی بھری نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ حائفہ کی بولتی تو ویسے ہی آژمیر کے سامنے بند ہو جاتی
تھی۔۔۔۔اس وقت تو اُس کی حالت ویسے ہی بہت خراب تھی۔۔۔۔
اُس نے کچھ بولنا چاہا تھا مگر اس کی آواز نے ساتھ نہیں دیا تھا۔۔۔ نازک گلابی لب کپکپا کر رہ گئے تھے۔۔۔۔ آژ میر کی
گہری نگاہوں نے دلچسپی سے یہ منظر دیکھا تھا۔۔۔
وہ بنا مزید کچھ بولے اُس کی ڈریسنگ کرنے لگا تھا۔۔۔ جیسے وہ ہمیشہ سے کرتا آیا تھا۔۔۔۔۔ حاعفہ کی چوٹ پر مرہم لگانا صرف آژمیر میر ان ہی جانتا تھا۔۔۔۔
حائفہ یک ٹک دیوانہ وار نگاہوں سے اُس کے دلکش مغرور نقوش سے سجے چہرے کو تکنے لگی تھی ۔۔۔۔
” مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔۔”
کافی دیر بعد حائفہ با مشکل بول پانے کے قابل ہوئی تھی۔۔۔۔۔
” مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔۔”
آژمیر کا وہی سر داند از دیکھ حائفہ کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔
” آپ مجھ سے ناراض ہیں۔۔۔۔”
پیشانی پر محسوس ہو تا اُس کی اُنگلیوں کا لمس حائفہ کو الگ دنیا میں پہنچا گیا تھا۔۔

آثر میر کی ناراضگی کا خیال اُسے تڑپا گیا تھا۔۔۔۔
“تمہیں فرق پڑتا ہے۔۔۔۔”
آژمیر کی بات پر حاعفہ نے شاید پہلی بار شکوہ کناں نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
اُسے زندگی میں اپنی سانسوں سے بھی زیادہ آژ میر میر ان کے ایک ایک عمل سے فرق پڑتا تھا۔۔۔ مگر یہ بھی سچ تھا کہ اس نے نہ ہی آج تک اس شخص کو اپنے عشق کی گہرائیوں سے آگاہ کیا تھا۔۔ اور نہ ہی کبھی اُسے اعتبار کامان سونپا تھلے۔۔۔
” آژمیر
آژ میر کو اپنا کام کمپلیٹ کر کے اٹھتا دیکھ حاعفہ نے نہایت ہی آہستہ آواز میں اُسے پکارا تھا۔۔۔
جس پر وہ رُکا تھا مگر پلٹا نہیں تھا۔۔۔۔
” مجھے بہت فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔”
آژمیر کے مقابل آتے اُس کی شخصیت کے رعب میں ہمیشہ کچھ بول دل جانے کیا امیر کی میں تھی۔ آمیر کے مقابل
نہیں پاتی تھی۔۔۔
اب بھی ادھوراجملہ بولتے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
جو آژمیر کو شدید غصہ دلا گئے تھے۔۔۔۔
آژ میر نے اس کی نازک کمر کو اپنے بازو کے شکنجے میں جکڑتے اپنے بے انتہاہ قریب کر لیا تھا۔۔۔۔

حاعفہ اس عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔ آژ میر کے اتنے قریب آجانے پر اس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا
تھا۔۔۔ آژ میر کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے اس کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں۔۔۔۔ لیکن آژ میر کا اگلا عمل پل بھر کے لیے اس کی سانسیں روک گیا تھا۔۔۔۔ جب آژ میر نے جھک کر اس کی گالوں پر لڑھکے
آنسو ہونٹوں سے چن لیے تھے۔۔۔
اُس کے شدت برے لمس پر اُس کی مونچھوں کی چھبن حائفہ کو جی جان سے لرزا گئی تھی۔۔۔۔ آژمیر میر ان کی قربت ہمیشہ اُس کی نازک جان پر بھاری ثابت ہوتی تھی۔۔۔۔۔ ” آج کے بعد میں یہ آنسو نہ دیکھوں۔۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو جس انداز میں، میں چپ کرواؤں گا وہ تم بر داشت نہیں کر پاؤ
آژمیر کے لمس میں چھپی وار سنگ تو وہ پہلے ہی جی جان سے سمجھ چکی تھی۔۔۔ اب اُس کے ادا کیے الفاظ اپنا باقی کا کام بھی کر گئے تھے۔۔۔۔
آژ میر میر ان کی بیوی ہو تم ۔۔۔۔ کسی سے ڈرنے یا جھکنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔۔۔ ڈرنا ہے تو صرف میری محبت
کی شدتوں سے ڈرنا۔۔۔۔ کیونکہ وہ سہنا تمہارے لیے بہت مشکل امر ہونے والا ہے۔۔۔”
اُس کے کان کی لوح کو دانتوں سے دباتے وہ حائفہ کی رہی سہی جان بھی نکال گیا تھا۔۔۔۔ اگر حائفہ اُس کے سہارے نہ
کھڑی ہوتی تو اب تک زمین بوس ہو چکی ہوتی۔۔۔۔
اُس کا دل تیز رفتاری سے دھڑکتا باہر آنے کو تیار تھا۔۔۔۔

آژ میر اس کے شرم و حیا سے لال ہوئے حسین چہرے کو آنکھوں میں قید کرتا اُس سے دور ہوا تھا۔۔۔۔ لیکن اُس کے وہاں سے جانے سے پہلے ہی حائفہ اُس کا بازو اپنی نازک گرفت میں تھام گئی تھی۔۔۔۔
” آپ ناراض ہیں مجھ سے۔۔۔۔”
حائفہ کو ابھی تک یہی فکر ستائے جارہی تھی۔۔۔۔
جو کی بھی نکلی تھی۔۔۔۔
“میری بیوی مجھ پر اعتبار نہیں کرتی کیا اس بات پر میر اناراض ہونا بھی نہیں بنتا۔۔۔۔ تم دو بار مجھ پر اعتبار نہ کر کے خود کو خطرے میں ڈال چکی ہو۔۔۔۔ جس پر میر اغصہ کس قدر بڑھ چکا ہے۔۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔اور نہ میں اس کے
لیے تمہیں معاف کروں گا۔۔۔۔”
آژمیر حائفہ کے سامنے اپنی ناراضگی کی وجہ واضح کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
@@@@@@@@@
” مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ میں نے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ مگر اُس ٹائم جو کچھ تمہارے منہ سے لالہ کے بارے میں سنا میں وہ برداشت نہیں کر پائی۔۔۔ سگا بھائی نہ ہونے کے باوجو دلالہ نے آج تک سگوں سے کئی گنا بڑھ پر پیار دیا ہے مجھے ۔۔۔۔ میں اُن کی تکلیف نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔اس لیے بنا تصدیق کیے وہ سب بول

دیا تمہیں۔۔۔۔ جس پر میں بہت زیادہ شرمندہ ہوں۔۔۔ بہت ہرٹ کیا میں نے تمہیں۔۔۔۔ پلیز جتنا غصہ ہونا ہے ، ڈانٹنا ہے، ڈانٹ لو۔۔۔۔ مگر مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔”
زنیشہ حائفہ کے سامنے ہاتھ جوڑے شرمندگی سے سر جھکائے بولتی اپنی تھوڑی دیر پہلے کی گئی غلطی کی معافی مانگتے بولی
ز نیشہ یہ کیا کر رہی ہو تم ۔۔۔۔؟؟؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں تم سے۔۔۔۔ میں جانتی ہوں تم نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا۔۔۔۔ وہ سب نیچر لی عمل تھا۔۔۔۔ کوئی بھی بہن اپنے بھائی کے بارے میں وہ الفاظ برداشت نہیں کر سکتی جو میں نے ادا کیے۔۔۔۔۔
حائفہ اُس کے ہاتھ تھام کر محبت سے بولتی اُس کی شرمندگی ختم کر گئی تھی۔۔۔ تم بہت محبت کرتی ہو نالالہ سے۔۔۔۔۔ میں کتنی بے وقوف ہوں۔۔۔۔ میری بھا بھی میرے سامنے تھی اور میں پہچان ہی نہیں پائی۔۔۔۔ ویسے ایک دو بار تم پر لالہ کی نگاہیں نوٹ کی تھیں میں نے۔۔۔۔ مگر پھر اُسے اپنا ہم سمجھ کر اگنور
کر دیا۔۔۔۔” زنیشہ حائفہ کی فراخ دلی پر اس سے متاثر ہوئی تھی۔۔۔۔ اِس لڑکی سے بہتر اس کے لالہ کے ساتھ پر فیکٹ میچ اور کوئی نہیں
ہو سکتا تھا۔۔۔۔
“کیا واقعی…؟؟؟؟”
حافظہ کو زرا بھی یقین نہیں آیا تھاز نیشہ کی بات پر۔۔۔۔

“ہاں سچی۔۔۔۔ مجھے ہمیشہ سے یہی لگتا تھا کہ اگر لالہ محبت کریں گے تو ایسی ہی ہو گی۔۔۔۔ دھواں دھار شد توں بھری۔۔۔۔ ویسے وہ آپ کے معاملے میں کافی پوزیسو بھی ہیں۔۔۔۔ بہت سے واقعات اب آہستہ آہستہ زہن میں کلیئر
ہو رہے ہیں۔۔۔۔”
زنیشہ کی باتیں سن کر حائفہ اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی آژمیر کے ابھی تھوڑی دیر پہلے کے الفاظ یاد کر کے اُس کی دھڑکنیں بے قابو ہوئی تھیں۔۔۔۔ ” ارے اس روٹھنے منانے کو اب بریک لگائیں۔۔۔۔ اور جلدی سے اپنے حلیے درست کریں۔۔۔۔ آپ دونوں لیڈیز کی
ابھی تھوڑی دیر میں مہندی کی رسم کی جانی ہے۔۔۔۔۔۔ اور ہاں حائفہ آپی آپ کے لیے ایک بہت امیز نگ نیوز ہے۔۔۔۔ کل زنیشہ کے ساتھ ساتھ آپ کے پیا بھی آپ کو رخصت کروانے کا نیک ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ بڑوں کے در میان سارے معاملات طے پاچکے ہیں۔۔۔۔۔۔” ماورا دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی دونوں کے سر پر بم پھوڑ گئی تھی۔۔۔۔ زنیشہ تو اب سارا حلیہ خراب ہونے کے بعد مہندی کا سن کر خفگی کا شکار ہوئی تھی۔۔۔۔ جبکہ کل ہی کل رخصتی کا سن کر حائفہ کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی
مگر مجھ سے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں۔۔۔۔۔” حائفہ صدمے کی کیفیت میں بولی تھی۔۔۔

آپ کو لگتا ہے آپ کے ان مسٹر ہٹلر نے کسی اور سے پوچھا ہو گا۔۔۔۔۔ یا کسی کی چلنے دی ہو گی۔۔۔۔ ان کے آج کے
تیور دیکھ کر تو مجھے لگ رہا تھا کہ آج ہی اُٹھا کر لے جائیں گے آپ کو ساتھ ۔۔۔۔۔”
ماورا کو اُن دونوں کی اُڑی رنگت دیکھ بہت مزا آیا تھا۔۔۔۔ خاص کر حاعفہ کو دیکھ کر۔۔۔۔ اس کی ٹانگ کھینچنے پر زنیشہ نے بھی مسکراتے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
آپ کی بھی جو مسکراہٹیں نکل رہی ہیں نا۔۔۔۔ نیچے اُس بڑوں کی محفل میں آپ کے سیاں بھی بھی شریک ہیں۔۔۔۔”
ماورا کی اس نئی اطلاع پر زنیشہ کی بھی آنکھیں گھومی تھیں۔۔۔۔
“کیوں سب خیریت ہے۔۔۔۔؟؟؟ زوہان اِس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔ ؟؟؟”
اب ہوائیاں اُڑنے کی باری زنیشہ کی تھی۔۔۔
“کیا پتا آپ کو مہندی لگانے کے لیے۔۔
ماورا اپنی مستیوں سے باز نہ آتی اُسے چھیڑ گئی تھی۔۔
میری دعا ہے بہت جلدی ہمیں بھی ایسا کوئی زبر دست سا موقع مل جائیں۔۔۔۔ پھر دیکھنا تم سارے بدلے لینگی ہم گن
گن کے۔۔۔۔۔” زنیشہ نے شرار تأاُسے دھمکی دیتے کہا تھا۔۔۔۔ اس بات سے انجان کے اُس کے کہے الفاظ بہت جلد پورے ہونے والےتھے۔۔
@@@@@@@@@

جن جن شہروں کی میں نے نشاندہی کی ہے۔۔۔۔۔ اس کے کونے کونے میں پھیل جاؤ۔۔۔۔ اگلے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر مجھے رزلٹ چاہیے۔۔۔۔۔ اگر تم نے اور تمہاری ٹیم نے یہ کر دیکھایا تو منہ مانگی قیمت ادا کروں گا میں۔۔۔۔ منہاج واپس آچکا تھا۔۔۔۔ اور واپس آتے ہی اُس نے ایک سپیشل ایجنسی کی ایک ٹیم کو ہائر کیا تھا۔۔۔۔۔
وہ جلد از جلد ماورا تک پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔۔
اُس کا ضبط جواب دے گیا تھا۔۔۔۔
اُس کا دل کس قدر تکلیف میں تھا۔۔۔۔ وہ کسی کے سامنے بیان نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
اگر ماورا کسی پر ابلم میں نہیں تھی اور اُس نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تو منہاج اُسے کسی صورت بخشنے کا ارادہ نہیں رکھتا
تھا۔۔۔۔۔
اور وہ چاہتا تھا ایسا ہی کچھ ہو۔۔۔۔۔
ماورا بہت تڑ پار ہی ہو مجھے۔۔۔۔ کاش تمہیں اندازہ ہو پاتا کہ میں کس قدر تکلیف میں ہوں تو تم مجھ سے یوں دور کبھی نہ
جاتی۔۔۔۔ منہاج خود سے ہمکلام ہو تا۔۔۔۔۔ آنکھوں میں اتر آئی نمی کو اندر دھکیل وہ اذیت کا شکار تھا۔۔۔۔
” جی سر ہم اپنی پوری جی جان لگا دیں گے میڈم کو ڈھونڈنے میں۔۔۔۔”
اُس کی ہدایت پر وہ شخص سر ہلا تا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ ” منہاج وہ لڑ کی تمہاری قسمت میں ہوئی تو تمہیں ضرور ملے گی۔۔۔۔ تم اس طرح خود کو ہلکان مت کرو۔۔۔۔

منہاج کو صبح سے ان گنت سیگریٹ پیتیاد یکھے اس کے سامنے اٹھے شہاب درانی اب کی بار خاموش نہیں رہ پائے تھے۔۔۔
” تو اور کیا کروں بابا۔۔۔۔”
منهاج خود اذیتی سے بولا تھا۔۔۔
میرے اور شہریار کے ساتھ قاسم کی بیٹی کی شادی میں چلو۔۔۔۔ وہاں کا کلچر اور روایات دیکھ تمہارا موڈ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ بہت ہی اچھے اور ملنسار لوگ ہیں۔۔۔۔ اُن سے مل کر بہت اچھا لگے گا تمہیں۔۔۔۔
شہاب درانی اُسے بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔۔۔۔
” نہیں۔۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔۔۔ آپ لوگ جائیں انجوائے کریں۔۔۔۔”
منہاج صاف انکار کرتا وہاں سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔ شہاب درانی نے دکھ بھری نظروں سے اُسے جاتے دیکھا تھا۔۔۔۔ اُن کا دل شدت سے دعا گو تھا کہ اُن کے بیٹے کو اُس کی محبت جلد مل جائے۔۔۔۔۔ وہ اُسے مزید اس حال میں نہیں دیکھ سکتے
@@@@@@@@@
زنیشہ کزنز کی مدد سے دوبارہ تیار ہو چکی تھی۔۔۔ نئے پھولوں کے گجرے پہنے وہ مہندی کے گرین اور نج امتزاج کے پیروں تک آتے لانگ بھاری کا مدار فراک میں نازک سی گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔۔ جس کا پنک دوپٹہ اس نے پیچھے سے سر پے
اوڑھ رکھا تھا۔۔۔۔۔ اُس کار عنائیاں بکھیر تا دلکش نازک وجود بے پناہ دلفریب لگ رہا تھا۔۔۔
جیولری اور میک اپ نے اُس کے حسین رُوپ کو مزید نکھار دیا تھا۔۔۔۔۔

فجر نے اس کی پکس بنا کر اُسے سینڈ کر دی تھیں۔۔۔۔ جنہیں دیکھتے زنیشہ نے نجانے کس احساس کے تحت ایک فل پک زوہان کے نمبر پر سیکنڈ کر دی تھی۔۔۔۔ لیکن پھر اگلے ہی لمحے اپنی حرکت پر خود کو ڈپٹتے ڈیلیٹ کرنی چاہی تھی۔۔۔۔ مگر تب تک وہ سین کر لی گئی تھی۔۔۔
گہر ا صدمہ اور شدید غصہ تو اُسے تب آیا تھا جب زوہان نے تصویر سین کر لینے بعد بھی کوئی رپلائے نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ جس کے ساتھ ہی زنیشہ کا موڈ سخت آف ہوا تھا۔۔۔۔
کس قدر کھڑوس اور گھمنڈی شخص ہے۔۔۔۔۔ ایک طرف میرے حصے کی گولی کھانے بیچ میں کود پڑتا ہے۔۔۔ اور دوسری طرف یہ اٹیٹوڈ۔۔۔۔۔
لڑکیوں سے زیادہ نخریں ہیں۔۔۔ پتا نہیں کیا ہو گا میرا۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ابھی تکلیف کیا تھی مجھے ، کیوں بھیجی میں نے
اپنی پک۔۔۔۔۔ زنیشہ نے جلنے کڑھنے کے ساتھ ساتھ پک بھی ڈیلیٹ کر دی تھی۔۔۔۔ زوہان اُسے آن لائن ہی شو ہورہا تھا۔۔۔۔ شاید وہ اُس کی یہ حرکت نوٹ کر چکا تھا۔۔۔۔۔ زنیشہ موبائل غصے سے وہیں پھینکتی باہر نکل گئی تھی۔۔۔ جب اُسے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔۔۔۔۔
بھاری قدموں کی چاپ بنا دیکھے بھی وہ پہچان گئی تھی۔۔۔۔ کہ کس کی ہو سکتی تھی۔۔۔۔ اُسے تو لگا تھا زوہان اب تک جاچکا ہو گا۔۔۔۔ مگر اس کے قریب آنے پر حصار میں جکڑتی اس کی سحر انگیز خوشبوز نیشہ کو ایک ہی جگہ پر جکڑ گئی تھی۔۔۔۔

وہ ہل بھی نہ پائی تھی۔۔۔۔۔
جب زوہان سینے پر باز و باند ھے اس کے مقابل آن کھڑا ہو ا تھا۔۔۔۔۔ اس کی نگاہ ابھی زنیشہ کے سندر مکھڑے پر پڑی ہی تھی۔۔۔۔ جب اگلے ہی لئے زنیشہ چہرے پر گھونگھٹ کرتی رخ موڑ گئی تھی۔۔۔۔۔
” یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟”
زوہان کی پیشانی پر خفگی سے بل واضح ہوئے تھے۔۔۔۔
” آپ کو تو ویسے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔ مجھے دیکھنے میں۔۔۔۔ اور یہ رسم کا ایک حصہ ہے۔۔۔ آپ کل تک میرا
چہرا نہیں دیکھ سکتے۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے بھی اپنا غصہ نکالنے کا یہ طریقہ نکالا تھا۔۔۔۔
یہ مغرور شخص ویسے تو قابو آنے والا نہیں تھا۔۔۔۔۔
یہ
یہ سب تم پر ہی مہنگا پڑ سکتا ہے۔۔۔۔سو پلیز میرے سامنے یہ ناٹک بند کرو۔۔۔
زوہان کے آگے بڑھنے پر زنیشہ چند قدم مزید پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔۔
” میں کوئی ناٹک نہیں کر رہی۔۔۔۔۔ صرف اپنی شادی کی رسمیں نبھارہی ہوں۔۔۔۔”
زنیشہ بھی اپنی جگہ پر ڈٹی اُس کو اپنا چہرا دیکھانے کو بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔۔ اُس کی بے چینی پر زنیشہ کو بہت مزا آرہا تھا۔

لیکن اگلے ہی لمحے بے ساختہ اس کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔۔ جب زوہان نے اُس کی نازک کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
اور ہاتھ بڑھا کر اُس کا دوپٹہ سر سے بھی پیچھے الٹتے اس نے اس کے حسین رُوپ سے اپنی بے قرار روح کو ٹھنڈک بخشی
“میرے خیال میں تم کل کے بجائے آج رخصت ہونا چاہتی ہو ۔۔۔۔۔ اور ٹرسٹ می میران پیلس کے کسی ایک فرد کی بھی جرات نہیں کہ مجھے میری بیوی کو یہاں سے لے جانے سے روکے۔۔۔۔ تمہارے بھائی کی بھی نہیں۔۔۔۔۔” زوہان کی گرم سانسیں محسوس کرتے زنیشہ نے اس سے دور ہو نا چاہا تھا۔۔۔۔
” آپ بہت بُرے ہیں۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے اس کی حرکت پر ناراضگی سے کہا تھا۔۔۔
” یہ میں جانتا ہوں کوئی نئی بات کرو۔۔۔۔”
زوہان اُس کے دلفریب مہک اُڑاتے سراپے کا دیوانہ ہوا تھا۔۔۔ یہ دلنشین نازک سراپا صرف اُس کے نام پر سجایا گیا تھا۔۔۔۔ یہ احساس ہی اتنا انو کھا اور فرحت بخش تھا کہ زوہان اُس کی تصویر دیکھ کر خود کو یہاں آنے سے روک نہیں پایا
تھا۔۔۔۔۔۔
” آپ کو مجھ سے بالکل بھی محبت نہیں ہے۔۔۔۔”
زنیشہ نے مزاحمت کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی معلومات میں بھی اضافہ کیا تھا۔۔۔۔

جب اگلے ہی لمحے زوہان اُسے دیوار کے ساتھ لگاتا اس کی دونوں کلائیاں پکڑ کر دائیں بائیں دیوار کے ساتھ نکا تا پوری طرح
اُس پر حاوی ہو ا تھا۔۔۔۔
اس بات کا جواب میں تمہیں کل ہی دوں گا۔۔۔ عملاً پوری محبت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔”
زوہان کا ہو نٹوں سے عین نیچے معلوم ہوتا دھکتا لمس اور اُس کی جان نکالتی سر گوشی سن کر زنیشہ کے وجود کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کے چہرے کی نرماہٹیں محسوس کرتے زوہان کے پتتے بھڑکتے دل کو جیسے سکون محسوس ہونے لگا تھا۔ یہ واحد ہستی تھی اُس کی زندگی میں جو اُسے سکون پہنچا سکتی تھی۔۔۔۔ جس کی قربت میں وہ اپنے دل کا درد فراموش کر جاتا تھا۔۔۔۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔
کل کا دن جہاں اُسے اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی سونپنے والا تھا۔۔ وہیں اُس سے اگلا دن ہر سال کی طرح اُس پر بہت بھاری ثابت ہونے والا تھا۔۔۔۔۔ پرسوں کے دن ہی اُس کی ماں کو اُس کی آنکھوں کے سامنے انتہائی بے دردی سے
جلا کر ختم کیا گیا تھا۔۔۔۔
اُس کی ماں کو اُس سے چھین لیا گیا تھا۔۔۔
یہ مہینہ شروع ہوتے ہی زوہان کی تکلیف کئی گنابڑھ جاتی تھی۔۔۔۔ اور برسی والے دن تو زوہان خود کو ایک کمرے میں بند
رکھتا تھا۔۔۔۔ نہ کسی سے کوئی بات کرتا اور نہ کسی کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتا تھا۔۔۔۔۔

اُس کی زندگی کے مشکل ترین دنوں میں سب سے زیادہ مشکل دن تھے یہ ۔۔۔۔۔ وہ ان دنوں میں کوئی ایسا ہی ساتھی چاہتا
تھا جو اُسے سنبھالے۔۔۔ اُسے اپنے ہونے کا سکون بخشے۔۔۔
اور اس بار وہ لاشعوری طور پر اس بات کی توقع کر رہا تھا۔۔۔ اپنی عزیز از جان ہستی اپنی بیوی سے۔۔۔
” زوہان۔۔۔۔۔۔”
زوہاناُس کی گردن پر جھکتا اپنا گہر ا لمس چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔ زندیشہ اُس کی شدت پر لرز اٹھی تھی۔۔۔۔
” جی میری جان۔۔۔۔۔۔”
زوہان اپنی ایک چھوٹی سی گستاخی پر اُس کی غیر ہوتی حالت دیکھ مسکرائے بنا نہیں رہ پایا تھے۔۔۔ ” تم میری سوچ سے بھی زیادہ نازک ہو ۔۔۔۔ ڈونٹ وری بہت احتیاط سے رکھو گا تمہیں۔۔۔۔۔” زوہان اُس کی پھولی سانسوں اور لال چہرے پر چوٹ کرتا معنی خیزی سے بولا تھا۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اُس کی پیشانی پر لب
رکھتا پلٹا ہی تھا۔۔۔۔ مگر اس کے دور ہونے سے پہلے ہی زنیشہ اُس کا کالر اپنی نازک گرفت میں مقید کرتی اس کا رخ اپنی جانب موڑ گئی تھی۔۔۔۔
زوہاناُس کی اس حرکت پر حیران ہوتے پلٹا تھا۔۔۔
آپ کو کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟” زوہان کی لال آنکھیں زندیشہ کو بے چین کر گئی تھیں۔۔۔۔ اُس کی کارگزاری کے بعد پھولی سانسیں بہال کرتے اُس نے نازک لبوں سے بمشکل یہ الفاظ ادا کیے تھے۔

زوبان کی آنکھوں میں چھپی وحشت اور تکلیف کا احساس زنیشہ کو بھی پریشان کر گیا تھا۔۔۔۔ جس پر زخمی مسکراہٹ سے اس کی جانب دیکھتے زوہان ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا تھا۔۔۔۔ ” میں بہت بکھرا ہوا ہوں۔۔۔۔ مجھے سمیٹ لو۔۔۔۔ کیونکہ ایسا کرنے کا حق تمہارے علاوہ میں نے کبھی کسی کو نہیں دیا۔۔۔۔ محبت اور سکون چاہتا ہوں میں اب اپنی زندگی میں۔۔۔۔ تھک چکا ہوں خود سے لڑ لڑکے ۔۔۔۔۔ اور یہ دونوں
چیزیں صرف تم ہی دے سکتی ہو مجھے۔۔۔۔ میں اپنے آپ کو پوری طرح تمہارے سپر د کر تاہوں۔۔۔۔ مجھے سنبھال
لو۔۔۔۔ اور سمیٹ لو۔۔۔۔
بہت بُرا بھی ہوں۔۔۔ ضدی بھی اور انا پرست بھی۔۔۔۔۔ لیکن تمہارے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔ مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا۔۔۔۔ اگر تم مجھ سے دور ہوئی تو پوری دنیا کو جلا کر رکھ دوں گا۔۔۔۔۔ نجانے کیوں اِس دل کو لگتا ہے۔۔۔۔ اب
تک کی طرح آگے بھی میری بیوی پوری دنیا کا اعتبار کرلے گی۔۔۔ سوائے مجھ پر بھروسہ کرنے کے۔۔ تمہیں بھی تو میں ہمیشہ ہر معاملے میں غلط ہی لگا ہوں نا۔۔۔۔۔ لیکن دیکھو میرا دیوانہ دل پھر بھی تمہیں چھوڑ نہیں
پایا۔۔۔۔ تمہاری اسیر کی دن بدن اِس دل میں بڑھتی ہی جارہی ہے۔۔۔۔۔” زوہان زنیشہ کو پل بھر میں اپنا آپ سو نپتا اس کے بے یقینی سے آدھ کھلے ہونٹوں کو چھو تا وہاں سے پلٹ گیا تھا۔۔۔ جبکہ زنیشہ کتنے ہی لمحے وہاں سے مل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔
زوبان کا کہا ایک ایک لفظ اُس کے کانوں میں گردش کرتا اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ جانے کا سبب بنا تھا۔۔۔۔ لیکن پھر بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہ ہولے سے مسکرا بھی دی تھی۔۔۔۔

آپ صرف اور صرف میرے ہیں۔۔۔۔ اتنی محبت سے سمیٹوں گی آپ کو ۔۔۔۔۔ کہ گزرا اذیت ناک ماضی بہت جلد
بھول جائیں گے آپ۔۔۔۔۔”
اپنے ارد گرد پھیلی اُس کی مسحور کن خوشبو سانسوں میں بساتی وہ واپس روم کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ کیونکہ اُس کا وہ جانِ ستمگر ایک بار پھر اُس کا حلیہ خراب کر گیا تھا۔
@@@@@@@@@
رات گئے میر ان پیلس میں ایک بار پھر شہنائیاں بج اٹھی تھیں ۔۔۔۔ مہمان تو جاچکے تھے مگر گھر کی نوجوان پارٹی کسی
صورت مہندی کا فنکشن پورا کیے بغیر ٹلنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔۔
دونوں دلہنوں کے حلیے درست کر کے انہیں گھونگھٹ کے ساتھ ہی سٹیج پر بیٹھا یا گیا تھا۔۔۔ مگر دونوں دلہاحضرات آج جو مار دھاڑ کر کے آئے تھے۔۔۔ انہیں بلانے کی جرآت اُن میں سے کوئی نہیں کر پایا تھا۔۔ تمام کز نز اور فرینڈ ز ڈھول پیٹنے کے ساتھ ساتھ لڈی بھنگڑے میں بھی مصروف تھے۔۔۔۔۔
جبکہ خواتین انہیں مہندی لگانے میں مصروف تھیں۔۔۔ جن کے ہٹتے ہی تمام بینگ پارٹی اُن دونوں پر حملہ آور ہوئی
یار کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ دی گریٹ آژ میر میر ان۔۔۔۔ جن کی ایک دھاڑ پر اگلے کی خوف کے مارے جان نکل
جاتی ہے۔۔۔۔ اُسی آژ میر میر ان کی اتنی رومینٹک سائیڈ بھی دیکھنے کو ملے گی کبھی۔۔۔۔۔

فجر حائفہ کو مہندی لگانے کے ساتھ ساتھ با آواز بلند بولتی سب کے چہروں پر شرارتی مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔۔۔۔ جبکہ حائفہ کا چہرا شرم سے لال ہو ا تھا۔۔۔۔
آژمیر کی جان لیوا قربت کے لمحے یاد کرنے سے ہی حائفہ کا وجو د لرز اُٹھا تھا۔۔۔۔
اُسے ابھی اپنے روٹھے دشمن جاں کو منانے کا مشکل ترین مرحلہ پار کرنا تھا۔۔۔۔ آنے والے لمحوں کا سوچ اُس کی جان
آدھی ہو چکی تھی۔۔۔۔ جتناوہ اب اب تک آژمیر کو تڑپا چکی تھی۔۔۔۔ کل اس سب کا ہی حساب دینا تھا۔۔۔۔ اس بار اُسے کسی قسم کی کوئی مہلت نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔۔ اور وہ اس محبت بھرے بھرے طوفان سے بچنے کی خواہش رکھتی بھی نہیں تھی۔۔۔۔
اُسے اب صرف اُن مضبوط پناہوں کی چاہت تھی۔۔۔۔ جنہوں نے اُس کے سارے غم خود میں سمیٹ لیے تھے۔۔۔۔ وہی تو میں کہوں کہ لالہ کو اچانک نیچے کی سٹڈی سے اوپر بکس رکھنے کا خیال کیوں آگیا اچانک۔۔۔۔ان کے ہٹلر شوہر نامدار سے برداشت نہیں ہوا کہ میں اُن کی بیوی کا نام زبان پر لایا ہی کیوں۔۔۔۔ بھا بھی جان پہلے ہی بتادیتیں تو اس معصوم
کی یہ نازک کمر تو ٹوٹنے سے بچ جاتی۔۔۔۔
حاشر کی روہانسی آواز میں کہی جانے والی بات پر سب حیران ہوئے تھے۔۔۔۔
مگر جیسے جیسے وہ ساری بات بتاتا گیا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہاں قہقوں کا سیلاب آچکا تھا۔۔۔
“واؤ آژ میر لالہ کتنے اتنے پوزیسیو ہیں۔۔۔ یقین نہیں آتا۔۔۔۔۔”
اریبہ بہت متاثر نظر آئی تھی۔۔۔۔

ظاہر سی بات ہے۔۔۔۔ آژمیر لالہ کے سامنے اُن کی بیوی کو چھیڑو گے تو یہ حشر تو ہو گا۔۔۔۔ شکر کرو ابھی وہ درگت
نہیں بنی جو زوبان لالہ نے حسیب کی بنائی تھی۔۔۔۔”
فجر نے لقمہ لگاتے اپنے ہی بھائی کا مذاق اُڑایا تھا۔۔۔۔
اور پھر سب کے توپوں کے رُح سب سے مزے سے ہنستی، انجوائے کرتی زنیشہ کی جانب مُڑ چکے تھے۔۔۔۔ ” تو اور کیا۔۔۔ ایک ہی وار میں مقابل کا شکار کرنے والا۔۔۔۔ میر ان پیلس کے ہر فرد کو اپنی انگلیوں پر نچا کر رکھنے والا اس
بُری طرح سے ہماری زنیشہ کی محبت کا شکار ہو جائے گا بھلا یہ بات کون جانتا تھا۔۔۔۔
یہ بولنے والا ذیشان تھا۔۔۔۔ اُس کی بات کے جواب میں لگائے جانے والے قہقہوں پر زنیشہ انہیں گھور بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
ہاں تو اور کیا۔۔۔۔۔اتنے سالوں میں میران پیلس پر ایک نگاہ غلط نہ ڈالنے والا۔۔۔۔ اب اپنی دلہنیا کولے جانے کے
لیے بے قرار کتنے چکر لگا چکا ہے۔۔۔۔۔ محبت انسان کو ایسے ہی بدل دیتی ہے۔۔۔۔۔
فریحہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ وہ ابھی بھی اُتنے ہی اکڑو اور گھمنڈی ہیں۔۔۔۔۔ میری وجہ سے تو بالکل بھی نہیں بدلے۔۔۔۔ غصہ ایسے ہی ناک پر سوار رہتا ہے۔۔۔۔۔”
وہاں آژ میر اور باقی سب مرد حضرات کے ساتھ داخل ہوتے زوہان سے انجان زندیشہ بڑے مزے سے اُس کی شان میں
قصیدہ گوئی کر گئی تھی۔۔۔۔

سب کی نظر شمسہ بیگم کے بہت اصرار پر بلا کر لائے قاسم صاحب کے ساتھ کھڑے دونوں دلہا صاحبان پر پڑ چکی تھی۔۔۔
سوائے حاشر کے۔۔۔۔
یہ تو سچ ہے۔۔۔۔ جب تک اُن دونوں کے ناک پر بیٹھا غصہ نہ دیکھ لیں۔۔۔۔ یقین ہی نہیں ہو تا کہ اُن کی سانسیں چل بھی رہی ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔
حاشر کی بات ابھی کمپلیٹ ہی ہوئی تھی۔۔۔۔ جب آژمیر نے پیچھے سے آکر اُس کا کان پکڑ لیا تھا۔۔۔
“رئیلی۔۔۔۔ اپنے ان خیالات کا اظہار پہلے کیوں نہیں کیا تم نے۔۔۔۔۔”
اُسے کان سے پکڑ کر اوپر اٹھاتے آژمیر مصنوعی خفگی سے بولا تھے۔۔۔۔ اُسے اتنے عرصے بعد اس طرح خوشگوار رُوپ میں دیکھ سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔
گھونگھٹ کے نیچے سر جھکائے بیٹھی حائفہ آژمیر کی موجودگی محسوس کرتی مزید خود میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ جبکہ زنیشہ بھی ابھی اپنے بولے جانے والے جملوں پر خود کو کوس کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ گھونگھٹ کے اندر سے زوہان کے
تاثرات دیکھ وہ اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ وہ اس کی بات سن چکا ہے۔۔۔
وہ دونوں رف حلیے میں بھی بھر پور مردانہ وجاہت کے ساتھ محفل پر چھائے معلوم ہوئے تھے ۔۔۔اُن کے آتے ہی
محفل کے رنگ بدل گئے تھے۔
پہلے جو اُن کی دلہنوں کے کان کھا رہے تھے۔۔۔ اب اُن کے قریب بھی نہیں بھٹکے تھے۔
@@@@@@@@@

آژمیر بازو صوفے کی پشت پر پھیلاتے پھیل کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔ جس سے حائفہ کا نازک وجود پوری طرح اُس کے حصار میں معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
حائفہ کی تو یہ سوچ سوچ کر جان نکل رہی تھی کہ آژمیر کو منائے کیسے ۔۔۔۔۔ کیونکہ جو ابا آژمیر سے کسی شرافت کی اُمید قطعا نہیں تھی اُسے۔۔۔۔
جب اچانک کسی خیال کے تحت اُس کی گلابی پنکھڑیاں مسکرا اٹھی تھیں۔۔۔۔ اس سے اچھا موقع اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔۔ زوہان اور زنیشہ الگ صوفے پر بیٹھے تھے۔۔۔ جبکہ باقی سب ناچ گانے میں مصروف تھے ۔۔۔ ابھی اُن کی جانب کوئی مخاطب نہیں تھا۔۔۔۔ وہ آرام سے آژمیر سے بات کر سکتی تھی۔۔۔۔ اور وہ یہاں سب کے سامنے کوئی گستاخی بھی
نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ جو کہ سراسر حاعفہ کی خام خیالی تھی۔۔۔۔۔
مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔۔۔ بلکہ معافی مانگنی ہے۔۔۔۔۔ حاعفہ جھکی گردن او پر اٹھاتی گھونگھٹ کے اندرسے آژمیر سے مخاطب ہوئی تھی۔
لیکن میں نے معافی کا مطالبہ کیا ہی نہیں۔۔۔۔ آثر میر اُس کی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔
وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ کس طرح آج اکرام حنیف نے اسے آژمیر کی جان کے بدلے بلیک میل کر کے وہ سب بولنے پر
مجبور کیا تھا۔۔۔۔

حاعفہ نے گھونگھٹ کے اندر سے ہی اُس کو گھورا تھا۔۔۔ جب اُسی لمحے آژمیر نے بھی چہرا گھما کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ گرین اور بیلو امتزاجسے کے فراک پہنے، پوری طرح سجی سنوری اُس کے پہلو میں بیٹھی یہ لڑکی اس کے لیے زندگی سے بڑھ کر تھی۔۔۔۔
اُس کا یہ نرم و نازک خوشبوئیں بکھیر تا وجود اُس کے حواسوں پر اثر انداز ہوتا اُسے بہکنے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔ اُوپر سے اُس
کے منانے کی یہ ننھی منی کوششیں سونے پر سوہاگہ کا کام کر رہی تھیں۔۔۔۔
اُس کے پنک جالی دار دوپٹے سے آژمیر اُس کی گھوری با آسانی دیکھ پایا تھا۔۔۔۔ خود پر ضبط نہ رکھ پاتے ہلکا ساجھکا تھا اور
باری باری اُس کی دونوں آنکھیں چوم لی تھی۔۔۔۔۔
ماورا کے کیمرے سے یہ دلکش منظر محفوظ نہیں رہ پایا تھا۔۔۔
حائفہ تو آژمیر کی اس کھلے عام بے باکی پر جی جان سے لرز اٹھی تھی ۔۔۔۔۔ اس شخص کو وہ کہیں بھی چھیڑنے کی غلطی
نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ ” آج تک کسی کی جرات نہیں ہوئی میرے سامنے غصہ دیکھانے کی۔۔۔۔ مگر میں دل و جان سے چاہتا ہوں۔۔۔ تم مجھے پر
غصہ کرو اور پھر میں اُسے ایسے ہی اپنے طریقے سے ٹھنڈا کروں۔۔۔۔
آژمیر نے اُس کی کمر میں بازو حمائل کر کے اُسے اپنے قریب کھینچتے سر گوشی بھرے انداز میں بولتے حائفہ کے الفاظ اُس کے حلق میں ہی انکا دیئے تھے۔۔۔۔ جو گھبراہٹ کے مارے آہستہ آہستہ اُس سے دور کھسک رہی تھی۔۔۔۔۔ آژمیرکی

زیرک نگاہ سے اُس کی یہ چوری پوشیدہ نہیں رہ سکی تھی۔۔۔۔ وہ اس شخص کے کیسے سمجھاتی کہ اس وقت وہ دونوں سٹیج پر
بیٹھے سب کی نگاہوں کا مرکز تھے۔۔۔
” آپ مجھے منانے ہی نہیں دے رہے۔۔۔۔ کیسے مناؤ میں آپ کو۔۔۔۔۔”
کافی دیر کے بعد حائفہ بول پانے کے قابل ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کے اتنے معصومانہ انداز میں خفگی کرنے کا اند از آژ میر کا دل
لوٹ گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے لبوں پر ان چھوئی دلکش مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔ جس کی ایک دنیا دیوانی تھی ۔۔۔
میری جان یہ آپ پر ڈیپنڈ کرتا ہے۔۔۔۔ کہ کیسے مناتی ہیں آپ مجھے۔۔۔۔ ویسے میں بہت ہی عام سا بندہ ہوں۔۔۔۔ پیار محبت کی زبان بہت اچھے سے سمجھتا ہوں۔۔۔۔ مجھے منانا تو مشکل ہے ہی نہیں۔۔۔۔
آژ میر کی بات میں چھپی معنی خیزی حائفہ کو سر تا پالال کر گئی تھی۔۔۔۔
آژ میر کا بازو ابھی تک اُس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا۔۔۔ جو حائفہ کے بھاری دوپٹے کی وجہ سے ابھی تک کسی کی نگاہوں میں
نہیں آسکا تھا۔۔۔ لیکن اُس کے ہاتھ کی نہ رکتی گستاخیاں حائفہ کی دھڑکنیں منتشر کر گئی تھیں۔۔۔۔
جب اُسی لمحے سویرا انہیں اپنی جانب آتے دیکھائی دی تھی۔۔۔ ہاتھ میں بہت ہی پیارا ڈیکوریٹڈ باؤل اُٹھائے، جس میں
گلاب جامن موجو د تھے وہ اُن کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو آپ دونوں کو۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوں آپ لوگوں کے لیے۔۔۔ اور تھینکیو سوچ آژمیر آپ
نے مجھے معاف کر دیا۔۔۔۔۔

Share with your friends on Facebook

Updated: April 28, 2025 — 3:49 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *