Haifa and Zanisha Novel Part 26 – Romantic Urdu Novels | Read Online & PDF Download

The love story of Haifa and Zanisha continues to captivate readers in Part 26. This chapter is a heartfelt addition to the world of romantic Urdu novels, blending deep emotions, bold storytelling, and unforgettable drama.

As their relationship faces new challenges, this episode takes readers on an emotional rollercoaster filled with intense love, trust, and moments of heartbreak.

romantic urdu novels

Haifa and Zanisha Novel Part 26 – Romantic Urdu Novels

Haifa and Zanisha Novel Part 25 – Urdu Story PDF

زنیشہ اس کے ہاتھوں ایک بار پھر پاگل بن جانے پر آپ کر بولی تھی ۔۔۔۔ اور اپنے آپ کو اس کے حصار سے نکالنے کی
کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔۔
اچھا اور جو تم نے ابھی کیا وہ بھلا کون کرتا ہے۔۔۔۔۔ اپنے نئے نویلے بچارے معصوم دلہے کے ساتھ۔۔
زوہان کو اُس کے ناراضگی سے پھولے گلابی گالوں پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔
معصوم۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ آپ نہ ہی معصوم ہیں اور نہ ہی بچارے۔۔۔۔۔۔ بہت تیز ہیں آپ۔۔۔۔۔ وہ چڑیل آپ کا
پیچھا کب چھوڑے گی۔۔۔۔
زنیشہ مسلسل اس کا حصار توڑنے کی کوششوں میں تھی۔۔۔۔۔
مگر زوہان اُسے اسی طرح بانہوں میں اُٹھائے صوفے پر آن بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ زنیشہ آرام سے اس کی گود میں سما گئی تھی۔۔۔۔وہ جو کب سے اُس پر اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔۔
اچانک اُس کی اتنی قربت کا احساس ہوتے وہ دور کھسکی تھی۔۔۔۔ مگر اب دیر ہو چکی تھی۔۔۔۔ زوہان کی مضبوط گرفت
نے اُسے اس بات کی اجازت نہیں دی تھی۔۔۔۔
میں بہت تھک گئی ہوں۔۔۔۔ مجھے چینج کر کے آرام کرنا ہے ۔۔۔۔”
زنیشہ کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھیں۔۔۔۔

اور تمہیں ایسا کیوں لگتا کہ میں آج کی رات تمہاری ایک بھی سنوں گا۔۔۔۔۔
زوہان نے جھک کر اُس کے گجرے کی مہک کو اپنی سانسوں میں اُتارتے کہا ۔۔۔۔۔ اُسے کے بے حد قریب آجانے پر
زنیشہ کی حالت غیر ہوئی تھی۔۔۔۔۔
” مجھے آپ کا گھر دیکھنا ہے۔۔۔۔۔۔”
زنیشہ اُس کی توجہ خود پر سے ہٹانے کے لیے کچھ بھی بول رہی تھی۔۔۔۔
“رئیلی تم ابھی یہ گھر دیکھنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔
زوہان اُسے اپنے مزید قریب کر تا گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
زنیشہ کو سمجھ نہیں آئی تھی وہ کیا کرے۔۔۔۔ زوہان کی بے باک نگاہیں اُسے ہوش بھلارہی تھیں۔۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں مڑورتے وہ کنفیوژ ہوتی زوہان کی وارفتگیوں پر سر تا پالال ہوئی تھی۔۔۔
دروازہ لاک کر کے تو بڑی شیر نی بن رہی تھی۔۔۔۔ اب کیا ہوا؟؟؟ کہاں گئی ساری بہادری۔۔۔۔۔ ؟؟؟ زنیشہ کا یہ شرمایا گھبر ایا حسین رُوپ اُسے گستاخی پر اکسار ہا تھا۔۔۔۔۔

اُس نے ہاتھ بڑھا کر زنیشہ کی ماتھا پٹی کو چھیڑ ا تھا۔۔۔۔ زنیشہ اُس کے ہاتھوں کی بڑھتی چھیڑ خانیوں پر لال ہوتی اس کی بات
کا کوئی جواب نہ دے پائی تھی۔۔۔
ثمن آپ کے اتنے کلوز کیوں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟؟”
زنیشہ کی سوئی ابھی بھی وہیں انکی دیکھ زوہان گہر اسانس بھر کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
وہ صرف میری دوست ہے۔۔۔۔اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔۔۔ اُس کا اور تمہارا کوئی مقابلہ نہیں۔۔۔۔ بلکہ میری نظر میں تمہارا کسی بھی لڑکی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔۔۔۔ تم میرے دل میں بستی ہو۔۔۔۔ جہاں پر آج تک کوئی اور رسائی حاصل نہیں کر پایا۔۔۔۔۔ اور نہ آگے ایسا ممکن ہے۔۔۔۔۔ تم مجھے عطا کیا گیا وہ انمول تحفہ ہو۔۔۔ جسے پانے کے بعد میری یہ نامکمل ذات مکمل ہوتی معلوم ہو رہی ہے۔۔۔۔ آج تک میں کسی کے آگے نہ جھکاہوں۔۔۔نہ کسی کے آگے اپنی اذیت بیان کی ہے۔۔۔۔ سوائے تمہارے۔۔۔۔ کیونکہ تم ہی وہ واحد ہستی ہو۔۔۔۔ جو صرف میرے لیے اُتاری گئی ہو۔۔۔۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہاری زندگی میں، میں بہت بعد آتا ہوں۔۔۔ ہمیشہ ہر جگہ فرسٹ پریفرینس رہنے والا۔۔۔ میر ا یہ محبت کا پجاری دل تمہارے معاملے میں اتنے پر بھی اکتفا کرنے کو تیار ہو گیا ہے۔۔۔۔ تو سوچوپھر کیا ہو
تم ملک زوہان کے لیے۔۔
زوہان نے اُس کے کانوں کی لوح کو چھوتے اُسے اُس کی حیثیت سے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔۔ جبکہ اُس کی آنکھوں میں ناچتی اذیت دیکھ زنیشہ کو اپنا دل کٹتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔

” آپ کو کس نے کہا میرے دل کے بارے میں کوئی بھی ججمنٹ دیں۔۔۔۔۔؟”
زنیشہ کے دل میں اُس کی ایک بات کھب کر رہ گئی تھی کہ ملک زوبان زنیشہ میر ان کی زندگی میں بہت بعد میں آتا تھا۔۔۔۔ وہ اُس کا حصار ڈھیلا پڑنے پر اُس کے اوپر سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا یوں دور ہو ناز وہان کا کس قدر ناگوار گزرا تھا۔۔۔۔
اُس کی آنکھوں میں اُبھر تا سر دین واضح کر گیا تھا۔۔۔
“تو کیا محبت بھی نہیں ہے مجھ سے۔۔۔۔۔؟؟؟؟۔”
زوہان نے طنز کرتے سائیڈ دراز سے سیگریٹ نکالتے ۔۔۔۔ سیگریٹ کے ساتھ ساتھ اُسے بھی اچھی طرح سلگھا دیا
تھا۔۔۔۔۔
محبت نہیں ہے۔۔۔۔ اسی لیے سب سے بغاوت کی تھی آپ سے شادی کرنے کے لیے۔۔۔۔۔ زنیشہ کو زوہان کا اس قدر بے اعتبار ہونا اور اس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتی اذیت تڑپ گئی تھی۔۔۔۔
تم ابھی بھی بھول رہی ہو۔۔۔۔ مجھ سے شادی سے انکار کرنے والی تم ہی سب سے پہلی تھی۔۔۔۔ زوہان اپنا ٹھکرایا جانا بھولا نہیں تھا۔۔۔۔ زوہان اپنی جگہ سے اٹھتا ہو تا اُس کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ وہ کسی مصلحت کے تحت تھا۔۔۔ مگر اُس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔ اور آپ میری فرسٹ
پریفرینس نہیں۔۔۔۔

زنیشہ اُس کی آنکھوں میں جھانکتے بولی۔۔۔۔
“تو کیا ہوں میں۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان اُس کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔۔۔۔
” میں جواب دوں گی۔۔۔ مگر پہلے اسے ہٹائیں۔۔۔۔”
زنیشہ کا اشارہ سیگریٹ کی جانب تھا۔۔۔۔ وہ جس طرح دھواں اپنے اندرلیتا پھر باہر نکل رہا تھا۔۔۔ زنیشہ اس ہٹ دھرم
شخص کے خود کو اذیت دیتے اس انداز پر شدید تکلیف سے دو چار ہوتی ہے بسی سے اُسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
یہ میرانشہ ہے۔۔۔ میں نہیں چھوڑ سکتا ہے۔۔۔ اور ویسے بھی ایک نشہ چھوڑ ناتب ہی آسان ہوتا ہے۔۔۔۔ جب اُس سے کہیں زیادہ پاور فل ڈوز دی جائے۔۔۔۔ اور ویسے بھی اسے منہ سے ہٹا کر میں کیا کروں گا جب میری بیوی مجھے منہ
لگانے کو تیار ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔
زوہان اس کے ریڈ لپسٹک سے سجے ہو نٹوں پر چوٹ کر تا اس کو سر تا پالال کر گیا تھا۔۔۔۔
” آپ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟”
اُس کے قریب آتے وہ اُس کی آنکھوں میں جھانکتے بولی۔۔۔۔
مطلب تم ابھی تک جانتی ہی نہیں ہو کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔

زوہان اُس کے سوال پر سوال کر رہا تھا۔۔۔۔
اُس کی بات پر زنیشہ بنا کچھ کہے آگے بڑھی تھی۔۔۔۔ اس کی شرٹ سینے سے مٹھیوں میں جکڑے اُس کے بے حد قریب
آئی تھی۔۔۔
آج تک ہمیشہ وہ اپنی محبت کا اظہار کرتا آیا تھا۔۔۔ اُس کے قریب آنے کی کوششیں کر تارہا تھا۔۔۔ لیکن زنیشہ نے ہمیشہ اُس سے دور جانے کی کوشش ہی کی تھی۔۔۔۔ کبھی اس کی جانب خود سے قدم نہیں بڑھائے تھے۔۔
اُسے زوہان کا ایک ایک شکوہ حق بجانب لگا تھا۔۔۔۔
آپ کیا ہیں میرے لیے آپ کبھی جان ہی نہیں سکتے۔۔۔۔ زنیشہ میر ان سانسیں لینا تو چھوڑ سکتی ہے۔۔۔ مگر ملک زوہان کے بغیر جینا نہیں۔۔۔۔ آپ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ کسی اور سے شادی کرنے سے بہتر میں نے زہر کھانے کو تر جی دی
آپ کو ہمیشہ خود سے دور کرنے کی کوشش صرف اس لیے تا کہ آپ اور لالہ آپس میں الجھ کر ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچادیں۔۔۔۔ آپ میری پہلی ترجیح ہیں۔۔۔۔
ز نیشہ ایک ہی سانس میں بولتی زوہان کو جیسے الگ ہی دنیا کا راہی بنا گئی تھی۔۔۔۔
کچھ دیر رک کر اُس نے اپنے اُٹھائے جانے والے اگلے قدم کے لیے خود کو تیار کیا تھا۔۔۔۔

آپ کو یہ نشہ چھوڑنا ہو گا۔۔۔۔ کیونکہ اب اس سے پاور فل نشہ آپ کے پاس ہے۔۔
زنیشہ یہ کہتے ساتھ اُسی کے سہارے پنجوں کے بل او پر ہوتے اُس کے ہونٹوں سے سیگریٹ نکال کر دور پھینکتی۔۔۔۔ اُس کے عنابی ہو نٹوں پر اپنے نازک لبوں کا ہلکا سا لمس چھوڑتے پیچھے ہٹی ہی تھی ۔۔۔ جب زوہان اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُس کی ساری راہیں مسدود کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ اُسے چند سیکنڈز کے لیے جس نشے سے روشناس کروانا چاہتی تھی۔۔۔ زوہان پل بھر میں اُس کا شکار
ہو تاز نیشہ کو خود میں اُلجھا گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کو اُس کی نازک کمر سے تھامے اُسے پوری طرح اُٹھائے زوہان خود کو سیراب کرتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اُس کی اس قدر دیوانگی پر سہم کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ اُس نے زوہان کے کندھے کو مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا۔۔۔۔ زوبان کو اُس کی گہری سانس مزید مد ہوش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
آج پہلی بار تو وہ اس کے قریب آئی تھی خود سے۔۔۔۔ وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کے موڈ میں لگ رہا تھا۔۔۔ جب کافی دیر بعد جا کر زوہان نے اس کی سانسوں کو آزادی بخشتے اس کے لال چہرے اور بھیگی آنکھوں کی جانب دیکھا
تھا۔۔۔
جو ایک نگاہ سے گھورتی۔۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اُس کی بے باک نگاہوں پر چہرا اُس کے سینے میں چھپ گئی تھی۔۔۔۔
تھینکس اس میٹھے نشے کا عادی بنانے کے لیے۔۔۔۔۔

زوہان کی بے باک سر گوشی زنیشہ کو خود میں سمٹنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔۔۔
زوہان نے اُس کے چہرے پر تھکن کے آثار دیکھتے ہاتھ بڑھا کر اُس کے کے دوپٹے کی پینز نکالتے اُس کا بوجھ ہلکا کرنا چاہا
تھا۔۔۔۔۔
” میں کرلوں گی۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے بنا اس کی شوخ نگاہوں کی جانب دیکھتے کہا تھا۔۔۔
” آریو شیور۔۔۔۔۔”
زوہان نے اس کے نیکلیس کو چھوتے پوچھا تھا۔۔۔۔
یہ نازک سی لڑکی اپنی ہمت سے کہیں بڑی حرکت کر کے اُس کے سارے شکوے دور کر گئی تھی۔۔۔۔۔
زنیشہ نے اثبات میں سر ہلاتے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔۔
زوہان اُسی سمت چہرا کرتے بڑے سکون سے صوفے پر براجمان ہوا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ بنادیکھے بھی اُس کی نگاہوں کی تپیش خود پر محسوس کرتی حد سے زیادہ نروس ہو رہی تھی۔۔۔۔ اُس زوہان کے خیال سے ہی ابھی تک وہ بھاری دو پٹہ اپنے کندھے پر ڈال رکھا تھا۔۔۔۔۔

اور ساتھ ساتھ اپنا نیکلیس کی ڈوری کھولنے میں مصروف تھی۔۔۔۔ جو اُس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کی وجہ سے کھل ہی
نہیں رہی تھی۔۔۔۔
” کیا میں کوئی مد دکر سکتا ہوں۔۔۔۔؟”
زوہان کب سے اُسے ڈوری سے اُلجھتا دیکھ اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔
” نہیں۔
اُسے اپنی جانب آتا دیکھ زنیشہ نے صاف انکار کیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ زوہان ہی کیا جو کسی کی اتنی آسانی سے سن لے۔۔۔۔۔ زنیشہ اُلٹے قدموں دور ہوئی تھی۔۔۔۔ جب زوہان نے قریب آتے ایک ہی جست میں اُس کی نازک کلائی کو جکڑتے اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا تھا۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے سامنے مرر میں دونوں کا نمایاں ہو تا عکس زنیشہ کے چہرے پر گھبراہٹ کے ساتھ ساتھ مسکراہٹ بھی
بکھیر گیا تھا۔۔۔۔۔
” تم آج اتنی حسین لگ رہی ہو ۔۔۔ کہ دل چاہ رہا ہے ایک پل کے لیے بھی تمہیں اپنے سینے سے جدا نہ کروں۔۔۔۔ ہمیشہ سے میں تمہارے اِس قیامت خیز حسن سے گھائل ہو تا آیا ہوں۔۔۔ پہلے تو ہمیشہ اپنے بہک جانے کے خوف سے اِس حسن کو خراج نہیں بخش سکا۔۔۔۔۔۔ لیکن آج میں ہر حد بندی توڑ کر تمہیں بتانا چاہتا ہوں۔۔۔ کہ تم کس قدر قیمتی ہو

میرے لیے۔۔۔۔ میری نس نس میں نشہ بن کر اتر چکی ہو۔۔۔۔ جس میں اب ساری زندگی گزار دینے کی خواہش رکھتا
ہوں میں۔۔۔۔۔۔
زوہان اُس کے کانوں میں رس گھولتا اُس کے نیکلس کو ۔۔۔۔ نازک گردن سے جدا کر گیا تھا۔۔۔۔ جو پوری طرح لال
ہو چکی تھی۔۔۔۔
زوہان جھکا تھا اور اُس پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑ تاز نیشہ کو بوکھلا کر رکھ گیا تھا۔۔۔۔ زوہان کے اس جارحانہ عمل پر زنیشہ
کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں۔۔۔۔
لیکن اس بار زنیشہ نے اُس سے دور جانے کی غلطی نہیں کی تھی۔۔۔۔
” مجھے میری منہ دیکھائی چاہیے۔۔۔۔”
زنیشہ کو اُس کا دھیان بھٹکانے کے لیے اس سے بہتر جواز کوئی نہیں ملا تھا۔۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی زوہان کو ان سب
رسموں کا نہ کچھ آئیڈیا تھا اور نہ خاص انٹرسٹ۔۔
لیکن اُس کا منہ حیرت سے اُس وقت کھلا تھا جب زوہان اپنی پاکٹ سے دو انتہائی بیش قیمت پائل نکالتا اس کے قدموں کے
قریب جھکا تھا۔۔۔۔
زنیشہ سکتے میں آتی اُس کی کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

جو اس کے نازک پیر کو اپنے گھٹنے پر رکھ گیا تھا۔۔۔۔ اس کے گلابی ملائم پیروں کی نرماہٹیں محسوس کرتے اس نے باری باری اُن میں نازک سی پائلیں پہنا دی تھیں۔۔۔۔
زنیشہ اُس کے اتنے محبت بھرے انداز پر اس کی اسیر ہوئی تھی۔۔۔۔ملک زوہان کی دشمنی کی شدت تو سب نے دیکھی تھی۔۔۔ مگر اُس کی محبت کی شد تیں دیکھنا صرف زنیشہ کو نصیب ہو رہی تھیں۔۔۔۔
اس وقت اُسے اپنا آپ ہواؤں میں اُڑتا محسوس ہو ا تھا۔۔۔
وہ تھکی تھی اور بنا زبان سے کوئی لفظ ادا کیے اُس نے زوہان کی چوڑی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیئے تھے۔۔۔
اس نرم گرم لمس نے زوہان کو اندر تک سر شار کر دیا تھا۔۔۔
میں اپنی رسم پوری کر چکا ہوں۔۔۔ اب تمہاری باری ہے۔۔۔
زوہان اپنی جگہ سے اٹھتا اُسے سر تا پا گہری نظروں سے دیکھتا خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔۔
“میرے پاس کوئی گفٹ نہیں ہے۔۔۔۔”
زنیشہ نے اُس کے تیوروں سے گھبر اکر پیچھے ہٹتے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔
“تمہارے پاس سب کچھ ہے۔۔۔۔”
زوہان کو اُس کے چہرے پر چھائے قوس و قزاح کے رنگ بہکنے پر مجبور کر رہے ۔

” مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گی نا۔۔۔۔۔ ؟؟؟ “
زوہان اس کو الٹے قدموں پیچھے جاتے دیکھے دیوانہ وار نگاہوں سے اُس کے سہانے روپ کو آنکھوں میں بسائے بولا تھا۔۔۔
” کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔”
زنیشہ کے لب بمشکل ہلے تھے۔۔۔۔
” میں چاہے جتنا بھی بُر ابن گیا تب بھی۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان آنے والے وقت سے آگاہ تھا۔۔۔۔
” آپ کو سدھاروں گی۔۔۔۔ مگر چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔”
زنیشہ آج اسے اپنے سارے اقرار سونپ دینا چاہتی تھی ۔۔۔۔ وہ اس مشکل ترین شخص کو پیار سے ٹھیک کرنا چاہتی تھی۔
اور اگر نہ سدھرا تو۔۔۔۔۔۔۔
زوہان نے اُس کا دوپٹے کا پلو کھینچا تھا۔۔۔۔ اُسے بھاری بھر کم دوپٹے کے بوجھ کو وہ پہلے ہی بہت مشکل سے اُٹھائے ہوئے تھی۔۔۔۔ اُس کے زرا سے جھٹکے پر وہ زنیشہ کے نازک وجود سے جدا ہوا تھا۔۔۔۔۔
پردہ ہٹ جانے پر اُس کے نازک وجود کی رعنائیاں زوہان کو مزید بہک گئی تھیں۔۔۔۔

تو آپ کو اتنا پیار دوں گی۔۔۔ کہ آپ میری بات ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔۔ زنیشہ اس کی بے باک نگاہوں کے وار سہتی شرم سے دوہری ہوئی تھی۔۔۔۔
” تو پھر کیا خیال ہے۔۔۔۔ اُس پیار کی شروعات آج اور ابھی سے ہی نہیں کر دینی چاہیے۔۔۔۔” زوہان کی آنکھوں کا بدلتا رنگ دیکھ وہ چند قدم پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔۔ جب بے دھیانی میں اُس کا پیر لہنگے میں اُلجھا تھا۔۔۔
مگر اُس کے گرنے سے پہلے ہی زوہان نے اُسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا تھا۔۔۔۔۔
مجھ سے فرار نا ممکن ہے۔۔۔ چاہے جتنا بھی بھاگ لو۔۔۔ لوٹ کر انہیں پناہوں میں آنا ہے تمہیں۔۔۔۔۔”
زنیشہ کو بانہوں میں بھرتا وہ بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
زنیشہ نے کچھ بولناچاہا تھا۔۔۔ مگر زوہان اُس کا سر تکیے پر ٹکا تا اس کے چہرے پر اپنی محبت کے پھول کھلا تا اُس کی جان نکلا
گیا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے اُس کا کالر سختی سے مٹھیوں میں جکڑ رکھا تھا۔۔۔۔
آئی کانٹ لو ود آؤٹ یو۔۔۔۔۔

زوہان نے اُس کے کان پر جھک کر سر گوشی کرتے۔۔۔۔ اُس کے کانوں کی لوح چوم لی تھی۔۔۔۔ کیا تم پوری دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرو گی میری خاطر ۔۔۔۔؟؟؟ صرف میر ابن کر رہنے کے لیے؟؟؟” زوہان اُس پر اپنی شدتیں اور محبتیں انڈیلتا اس کے تن من میں صرف اپنی چھاپ چھوڑ جانا چاہتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اس کے لمس میں بڑھتی دیوانگی دیکھ کانپ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
ایک دنیا اس انسان کے خلاف تھی مگر اُسے قطعا پر واہ نہیں تھی۔۔۔۔ اُسے تو بس اپنی بانہوں میں پناہ گزیں صرف اِس
ایک لڑکی سے غرض تھی۔۔۔۔
اُس کی محبت کے معاملے میں وہ خود غرض ہو جانا چاہتا تھا۔۔۔۔
زوہان کی بات کے جواب میں زمیہ نے بمشکل اثبات میں سر ہلایا تھا۔
” میں ہمیشہ سے آپ ہی کی تھی۔۔۔۔۔”
زنیشہ نے اس کی شدتوں سے گھبراکر اس کے سینے میں پناہ ڈھونڈتے نہایت ہی مدھم سرگوشی کی تھی۔۔۔۔
لیکن یہ جان لیوا سر گوشی زوہان کے کانوں سے ٹکراتی اس کے جذبات میں مزید طغیانی بر پا کر گئی تھی۔۔۔
” زوہان۔۔۔۔”

وہ اُس کی گردن پر جھکا ہی تھا۔۔۔ جب زنیشہ کی کمزور سی خوف سے کانپتی آواز نے اُسے اُس کے سرخی مائل اُس کی قربت
سے دہکتے چہرے کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔
“کیا ہوازندگی۔۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان نے اُن کی ٹھوڑی پر لب رکھتے اُس کا چہرا اپنے بے حد قریب کیا تھا۔۔۔۔
” مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔”
زنیشہ اُس کی والہانہ نگاہوں کی جانب دیکھنے سے اجتناب برت رہی تھی۔۔۔۔
کس سے۔
زوہان نے جھک کر اس کے گلابی نرم و ملائم گال پر پانے ہونٹوں کا شدت بھر امس چھوڑتے اس کی جان مزید مشکل میں
ڈالی تھی۔۔۔۔
آپ سے۔۔۔۔
زندیشہ کی آواز کانپ اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
جبکہ اُس کی بات پر زوہان کا بے ساختہ قہقہ بر آمد ہوا تھا۔۔۔۔ جس پر زنیشہ نے اپنا مذاق اُڑانے پر اُسے گھورا تھا۔۔۔۔ لیکن اس کے خوبرو دلکش نقوش سے پھر نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔۔۔

کوئی مرد ہنستے ہوئے بھلا اتنا خو بصورت اور پیارا بھی لگ سکتا تھا۔۔۔۔۔ زنیشہ یک ٹک اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔
” آج تو تمہیں مجھ سے ڈرنا بھی چاہیے۔۔۔۔۔ کیونکہ آج میں تمہاری ایک نہیں سننے وال۔۔۔۔۔” زوہان اُس کو اپنی جانب مبہوت ہو کر دیکھتا پا کر اس کے لال ہوتے ناک کو چھو گیا تھا۔۔۔۔
” پہلے جیسے میری ہر بات مانتے ہیں نا ” .
زنیشہ نے اُسے یاد دلانا چاہا تھا کہ وہ اُس کی کوئی بات نہیں سنتا تھا۔۔۔۔
تم نے کبھی پیار سے منوانے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔۔”
زوہان اُس کے بالوں کا جوڑا کھولتے اُن میں چہر اچھپاتے بولا۔۔۔۔
زنیشہ کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔ جسے محسوس کرتے زوہان اُسے پوری طرح خود میں سمیٹنے لگا تھا۔۔۔
” تو اگر پیار سے منایا تو مان جائیں گے۔۔۔۔۔؟؟؟”
زنیشہ جان بوجھ کر بات کو طویل کر رہی تھی۔۔۔
مگر وہ اپنی ان معصوم ہو شیاریوں میں ملک زوہان میر ان کو نہیں الجھا پائی تھی۔۔۔۔

“میری اتنی مجال کہ نہ مانوں۔۔۔۔۔۔ جانِ من سب مانوں گا مگر اس وقت جو تم کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔ وہ نہیں
ہونے دوں گا۔۔۔۔۔”
زوہان اُسے دور کھسکتے دیکھ اُس کی چوری پکڑ چکا تھا۔۔۔۔ ایک ہی جھٹکے میں زنیشہ کو اپنی جانب کھینچتے وہ اُس پر حملہ آور ہوا
تھا۔۔۔ اور اُس کے نازک وجود کو پوری طرح اپنے مضبوط چوڑے وجود کے پیچھے چھپا گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے جارحانہ انداز پر ز نیشہ کھکلا اٹھی تھی۔۔۔۔ اُس کی ہنسی کی جلترنگ میں کھو تا زوہان اُسے پوری طرح اپنے آپ میں اُلجھا گیا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ کے چہرے پر خوشی اور آسودگی کے رنگ دیکھ زوہان کا دل بھی سکون سے بھر گیا تھا۔۔۔۔۔
اس پھولوں سی لڑکی نے آج اُس کی زندگی میں داخل ہو کر ۔۔۔۔ اُس کی بے چین کب سے تڑپتی بھٹکتی روح کو قرار بخش دیا
تھا۔۔۔۔
باہر ہر شے برف کی پھوار سے ڈھکی جاچکی تھی۔۔۔ لیکن آج کی رات زوہان میر ان کی زندگی میں اُجالا بن کر اُتری تھی۔۔۔۔ اُسے اُس کی سب سے قیمتی ہے سوپ گئی تھی ۔۔۔۔۔
زنیشہ کی خود سپردگی پر زوہان اُسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتا اپنے اندر سمیٹ گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@

منہاج ماورا کے روم کا دروازہ دھکیلتا اندر داخل ہوتے پلٹ کر لاک چڑھا گیا تھا۔۔۔۔اس لڑکی کی لاپر واہی پر اُسے جی بھر
کر غصہ آیا تھا۔۔۔۔
مگر کمرے میں قدم رکھتے اُسے لگا تھاوہ کسی فریزر میں آن گھسا ہو۔۔۔۔ میر ان پیلس کے ہر کونے پر ہیٹر آن تھے۔۔۔۔
کوریڈور بھی انتہائی گرم تھے۔۔۔۔
مگر ماورا کے کمرے میں تو لگتا تھا برف جمی ہو۔۔۔
منہاج نے فکر مندی سے ارد گرد نظریں دوڑائی تھیں۔۔۔۔ جب وہ اُسے بیڈ پر سکٹڑی سمٹی پڑی نظر آئی تھی۔۔۔۔ منہاج ایک لمحے کی بھی دیر کیے بنا اس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اور اُس کے برف ہوئے وجود کو اپنی پناہوں میں لیتے۔
اُس کا چہرا تھپتھپایا تھا۔۔۔۔
“ماورا آنکھیں کھولو۔۔۔۔ماورا۔۔۔ ؟؟؟”
منہاج اُسے آنکھیں نہ کھولتے دیکھ بے چین ہوا تھا۔۔۔۔ وہ خود بھی ڈاکٹر تھا سمجھ گیا تھا اُسے اس وقت حرارت کی ضرورت تھی۔۔۔۔ شدید ٹھنڈ کے باعث بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔۔ اُسے بیڈ پر لٹا کر۔۔۔ سر احتیاط سے تکیے پر لگاتے منہاج نے کمفر ٹر اس پر اور ھادیا تھا۔۔۔۔

کھڑ کی بند کر کے پر دے برابر کرتے اُس نے ہیٹر آن کر دیا تھا۔۔۔۔ اور واپس اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جس کے ہونٹ بالکل نیلے ہو چکے تھے۔۔۔۔
منہاج اُسے کے برابر میں لیٹتا اُسے اپنے قریب کھینچتا۔۔۔۔ اپنے وجود کی حرارت بخشنے لگا تھا۔۔۔۔ خود پر اوڑھی گرم شال بھی اُس نے ماورا کے گر داوڑھ دی تھی۔۔۔۔ اُس کے نازک سفید پڑتے ہاتھوں کو مسلتے منہاج اُسے خود میں بھینچ گیا
تھا۔۔۔۔۔
جب اُس کی نظر ماورا کی باریک نائٹی پر پڑی تھی ۔۔۔۔ بمشکل اس کے ہوش رباحسن سے نظریں چراتے منہاج اٹھا تھا اور الماری سے اُس کے لیے گرم سی ٹی شرٹ نکال لایا تھا۔۔۔۔ اتنی ٹھنڈ میں اس قدر باریک نائٹی پہنے کا کام اس لڑکی کے سوا کوئی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
اس نے دوبارہ اس کے قریب نیم دراز ہوتے اسے وہ ٹی شرٹ پہنا دی تھی۔۔۔۔۔ یہ سب کرتے وہ اس کے بے پناہ قریب تھا۔۔۔ اُس کے وجود کی رعنائیوں سے اُس نے کیسے نظریں چرائی تھیں۔۔۔۔ یہ وہی جانتا تھا۔۔۔۔
منہاج کی بھر پور کوششوں کے بعد جا کر بلا آخر ماورا کی ٹھنڈ کم ہونے لگی تھی۔۔۔۔
منہاج نے اُس کو نارمل ہوتے دیکھ جھک کر اُس کی پیشانی چوم لی تھی۔۔۔۔اس لڑکی نے کچھ دیر کے لیے اُس کی جان اٹکا کر رکھ دی تھی۔۔۔۔
اُس کے لمس پر نیند میں بھی کسمساتی وہ منہاج کے گرد اپنا بازو حمائل کرتی اپنا چہرا اس کے سینے میں چھپا گئی تھی۔۔۔۔۔

منہاج جو کب سے خود پر ضبط کیے بیٹھا تھا اس کی یہ بے خودی میں سرزد کی جانے والی حرکتیں منہاج کے جذبات بھڑ کا گئی
تھیں۔۔۔۔
“میرے ساتھ بہت غلط کیا تم نے۔۔۔۔۔ بہت بڑی سزا دوں گا اس کے لیے۔۔۔۔
منہاج کروٹ کے بل اُس پر جھکتا اُس کے کان میں سر گوشی کرتے بولا تھا۔۔۔۔
ماورا جس کے حواس اب پوری طرح سے بیدار ہو رہے تھے۔۔۔۔ خود پر کسی کو پوری طرح حاوی دیکھ وہ جی جان سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔ مگر منہاج کی سرگوشی اُسے بند آنکھوں کے ساتھ مسکرانے پر مجبور کرگئی تھی۔۔۔۔
جب منہاج کی اگلی حرکت اُس کی آنکھیں کھولنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔ اس کے چودہ طبق روشن کر گئی تھی۔۔۔۔
کیونکہ منہاج اُس کی گردن پر چھوڑے گئے اپنے نشان پر دوبارہ لب رکھ چکا تھا۔۔
ماورا کو اپنی سانسیں رکھتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔
اُس نے منہاج کو دور کرنا چاہا تھا جس پر وہ اُس کی دونوں کلائیاں گرفت میں لیتا تکیے کے ساتھ لگا گیا تھا۔۔
” منہاج ۔۔۔۔۔
وہ تڑپی تھی۔۔۔۔
منہاج کی بڑھی شیو کی چبھن اس کی سانسیں بکھیر گئی تھیں۔۔۔۔

اس کے وجود میں ہوتی لرزش محسوس کرتے منہاج اُس سے دور ہو ا تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کے پاس سے اٹھتا ماورا
اُس کا کالر اپنی مٹھی میں جکڑتی اُسے اپنے قریب ہونے پر مجبور کرگئی تھی۔۔۔۔
” آپ مجھ سے دور نہیں جاسکتے۔۔۔۔”
ماورا کی آواز بھیگی تھی۔۔۔۔ پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ اب بھی اس کا چہرا نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔۔ لیکن منہاج کی کی جانے والی سر گوشیاں اُسے اُس کے ہونے کا یقین دلا گئی تھیں۔۔۔۔
” کیوں ایسا کرنے کا حق صرف تمہارا ہی ہے۔۔۔۔؟؟؟”
منہاج اس کی شہہ رگ پر انگلی پھیر تا سر د لہجے میں بولتا اس کو خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔
” میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا۔۔۔۔”
ماورا کی آنکھیں سے آنسو لڑھکا تھا۔۔۔۔
مگر میں اب جو کروں گا۔۔۔۔وہ جان بوجھ کر ہی ہو گا۔۔۔۔ اور تمہارے لیے میرے جنون کو سہہ پانا مشکل ہو جائے
گا۔۔۔”
منہاج اُس کے بال ہٹا تا اُس کے کندھے پر جھکا تھا۔۔۔۔
اور اپنے جارحانہ عمل سے ماورا کو کسمسانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔

ماورا کی گرفت اس کے کالر پر مضبوط ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ شدید غصے میں تھا جس کا اندازہ ماورا اس کے لمس سے لگا پار ہی تھی۔۔۔۔
اُسے اس وقت مزید چھیڑنے کی ہمت نہیں تھی ماورا میں۔۔۔۔
اُس نے منہاج کا کالر اپنی مٹھی سے آزاد کر دیا تھا۔۔۔ وہ سر تا پا لرز رہی تھی۔۔۔۔ منہاج نے کچھ ہی دیر میں اس پر اپنی
قربت کارنگ چڑھا دیا تھا۔۔۔۔۔
” تیار رہنا۔۔۔۔ میر اجنون اور انتقام سہنے کے لیے۔۔۔۔”
اُس کے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اُس کا چہرا اپنے چہرے کے بے پناہ قریب کرتے ، اُس کی نرماہٹوں اور حد توں کو محسوس
کرتا۔۔۔۔ ایک بات پھر اُس کی جان نکال گیا تھا۔۔۔
منہاج جاچکا تھا مگر کتنی ہی دیر ماورا خود کو سنبھال نہیں پائی تھی۔ اس کے دھکتے گال گزرے لمحوں کی داستان
سنار ہے
تھے
اپنی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کا شمار لگاتے نجانے کب اُس کی آنکھ لگی تھی۔۔۔۔وہ جان نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔ سوتے وقت بھی ایک میٹھی سی مسکان اُس کے لبوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@

زوہان نے آنکھیں کھولتے ہی اپنی خواہش کے عین مطابق زنیشہ کے حسین ترین چہرے کو اپنے سب سے قریب پایا
تھا۔۔۔۔ اُس کے سینے سے لگی وہ پوری طرح اُس کے وجود میں چھپی ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کے چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ زوہان کو دنیا کا سب سے دلفریب اور اچھوتا منظر لگا تھا۔۔۔۔وہ جھکا تھا اور اُس کے لبوں کی دلکش مسکان کو نہایت ہی نرمی سے چھو گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ ہولے سے کسمسائی تھی۔۔۔۔
مگر اُس کے سینے پر نازک بازو ٹکائے مزید اُسی کے اندر سمٹی تھی۔۔۔۔
زوہان اُس کی اس ادا پر جیسے نہال ہوا تھا۔۔۔ نیند میں بھی وہ اُسے ہی ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔
زوہان یہی تو چاہتا تھا وہ سوتے جاگتے۔۔۔۔ پورے ہوش و حواس میں یا حواس سے بیگانہ ہو کر۔۔۔۔ صرف اور صرف اُسے
ہی ڈھونڈے۔۔۔۔۔
تھینکیو سونچ جان زوہان ۔۔۔ میری بنجر اور ویران زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرنے کے لیے۔۔۔۔” زوبان اُس کی پیشانی پر لب رکھتا اُس کے ساتھ گزرے اپنی زندگی کے حسین ترین لمحوں کا تصور زہن میں لا تا سر شار ہوا
تھا۔۔۔۔۔
وہ نجانے کب تک ایسے ہی اُس کی حسین وجود کی نشیب فرازی میں کھویا رہتا۔۔۔ جب موبائل پر ہوئی ہلکی سی بپ پر اُس کی توجہ بٹی تھی۔۔۔۔

ز نیشہ کو اسی طرح اپنے ساتھ لگائے زوہان نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا تھا۔۔۔۔ مگر موبائل کے اوپر جگمگاتی تاریخ اس کا
سارافسوں ختم کرتی۔۔۔۔ اس کے چہرے پر ایک بار پھر سے اذیت رقم کر گئی تھی۔۔۔۔۔
زوہان کی آنکھیں لہو رنگ ہوئی تھیں۔۔۔۔
دس سال پہلے آج ہی کہ دن وہ بھیانک واقعہ پیش آیا تھا اُس کی زندگی میں۔۔۔۔ جب انتہائی بے دردی سے اُس سے اُس کی ماں کا چھین لیا گیا تھا۔۔۔۔ جس کے قصور وار تھے میر ان پیلس کے مکین ۔۔۔۔۔۔
زوہان کوشش کے باوجود وہ واقع آج تک اپنے ذہن کے پردے سے نہیں ہٹا پا یا تھا۔۔۔۔
ہمیشہ سے سال کا یہ دن اُس کی زندگی کا سب سے تاریک دن رہا تھا۔۔۔۔۔لیکن وہ اپنے ساتھ ساتھ زندیشہ کو اس تاریکی کا
حصہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔۔۔
وہ بہت خوش تھی۔۔۔۔ زوہان اُس کی خوشی خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
وہ فیصلہ کر چکا تھ اب اسے کیا کرنا ہے۔۔۔ بہت بھاری دل کے ساتھ زنیشہ کو خود سے دور کر تا۔۔۔
اُس کا سر نہایت احتیاط سے تکیے پر رکھتا، اس کے دلنشین چہرے کے ایک ایک نقش کو ہو نٹوں سے چھو تاوہ اُس کے پاس
سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@

حاعفہ نے کسمساتے آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔۔ اُسے ہمیشہ تہجد کے ٹائم اٹھنے کی عادت تھی۔۔۔اس وقت بھی روم میں پھیلی نیم تاریکی پر وہ یہی ٹائم سمجھی تھی۔۔۔۔
پوری طرح نیند سے بیدار ہوتے گردن پر دہکتے کو ہلوں سی تپیش محسوس ہوئی تھی اُسے۔۔۔۔۔
جب خود کو آژمیر میر ان کی مضبوط پناہوں میں محسوس کرتی رات کا ایک ایک لمحہ زہن میں تازہ ہو تا اُس کو شرم سے لال کر گیا تھا۔۔۔۔ آژمیر نے اُس پر اپنی والہانہ چاہت۔۔۔۔ اور محبت بھری شد تیں دل کھول کر نچھاور کرتے اُسے اپنے ہونے پر نازاں کر دیا تھا۔۔۔۔
آژمیر نے جس احتیاط اور نرمی سے اُسے چھوا تھا حا عفہ کو یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے وہ کوئی موم کی گڑیا ہو۔۔۔۔ اور زراسی سختی پر پگھل جانے کا ڈر ہو۔۔۔۔
اس وقت بھی اُسے اپنے مضبوط حصار میں قید کیے۔۔۔۔ چہرا اس سیاہ زلفوں میں چھپائے گہری نیند میں ہونے کے باوجود
خود سے جدا نہیں کیا تھا۔۔۔
حائفہ کو اپنی گردن اُس کی گرم سانسوں سے جھلستی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس نے ہولے سے سر موڑتے آژمیر کے مغرور نقوش کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے اُس کی کھڑی ناک پر لب رکھ
دیئے۔۔۔۔ جو ہر وقت غصے کا شکار ہی رہتی تھی۔۔۔۔

گھنیری مونچوں تلے سختی سے پیوست عنابی سیاہی مائل لبوں پر انگلی پھیرتے وہ رات کو کی گئی ان لبوں کی گستاخیاں یاد کرتے
شرم سے دوہری ہوئی تھی۔۔۔۔
جس خیال کے ساتھ ہی فوراً سے اُس نے اُٹھنے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی ایک بار یہ شخص اُٹھ گیا تو اس کی خیر
نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ ابھی رات کی ہی اُس کی شدتوں پر سنبھل نہیں پائی تھی۔۔۔۔
آژ میر کا ایک بازو حائفہ کے سر کے نیچے سے گزر کر اُس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ دوسر ا حائفہ کے گرد حصار باندھے اُس کی گردن سے گزر تاکندھے کے اوپر تھا۔۔۔۔۔
حائفہ پوری طرح اُس کے نیچے دبی ہوئی تھی۔۔۔۔ آژمیر کا ایک بازو بھی ہلا پانا اس کے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔ اپنی ساری ہمتیں مجتمع کرتے اُس نے آژمیر کا بازو اپنے اوپر سے ہٹانا چاہا تھا۔۔۔ وہ پوری احتیاط برت رہی تھی کہ کہیں آژمیر جاگ نہ
اس نے آژمیر کا بازو کندھے سے ہٹا کر پیچھے کیا ہی تھا۔۔۔ جب آدھے میں اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔۔۔ اور بازو چھوٹ کر اُس کے سینے پر گر تا حائفہ کی سانسیں روک گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ نے چہرا موڑ کر آزمیر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو ابھی تک ویسے ہی سو یا ہوا تھا۔۔۔۔

حاعفہ نے اُس کے بازو کو دوبارہ تھا منا چاہا تھا۔۔۔ جب آژ میر اُس کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتے اُسے بھی
قید کر گیا تھا۔۔۔۔
آژ میر جاگ رہا تھا۔۔۔ اس سوچ کے ساتھ ہی حائفہ شرم سے پانی پانی ہوئی تھی۔۔۔۔
“میری جان کیا میں جان سکتا ہوں یہ صبح صبح میرے ساتھ کشتی کس خوشی میں کھیلی جارہی تھی۔۔۔۔”
آژ میر اُس کی گردن میں چہراچھپائے بولتا حاعفہ کی سانسیں اتھل پتھل کر گیا تھا۔۔۔۔
” نہیں وہ۔۔۔
حاعفہ نے کچھ بولنا چاہا تھا جب آژ میر کے ہونٹوں کا شدت بھر المس اُسے بات بھلا گیا تھا۔۔۔۔
یار کیا جادو کر دیا ہے مجھ پر ۔۔۔ میری پیاس ختم ہی نہیں ہو رہی۔۔۔ دل کی تشنگی مزید بڑھتی جارہی ہے۔۔۔۔
آژ میر کی اس بے باکی پر حائفہ کو اپنے کانوں کی لوح تپتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
آژمیر مجھے تجہد پڑھنے کے لیے جانا ہے۔۔۔۔
حائفہ اُسے ایک بار پھر بہکتا دیکھ لیجی آواز میں بولی تھی۔۔۔
اچھا دن کے گیارہ بجے کونسے تجہد پڑھے جاتے ہیں مجھے بھی بتاؤذر ا۔۔۔۔۔

آژمیر نے آنکھیں کھولتے اُس کے کھلے کھلے سہانے رُوپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اُس کی قربت نے حائفہ کے حسن کو مزید نکھار
بخش دیا تھا۔۔۔۔
“واٹ۔۔۔۔ دن کے گیارہ بجے۔۔۔۔ اور ہم ابھی تک سورہے ہیں۔۔۔۔۔”
حاعفہ نے حیرت زدہ سائٹڑ کر گھڑی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔
“ہاں۔۔۔۔ اور مجھے ابھی بہت نیند آرہی ہے۔۔۔ ابھی میر اٹھنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔۔۔۔۔”
آژمیراُسے تکیے کی طرح اپنے حصار میں لیتا اُس کی سانسوں کی مہک اپنے اندر اُتار تا اُس کے ہوش اُڑا گیا تھا۔۔۔۔
” میں نے کب کہا آپ اُٹھیں۔۔۔ ؟؟ مجھے تو جانے دیں نا۔۔۔”
حاعفہ کو اتنی دیر ہو جانے پر اب باہر والوں سے سامنے کرنے کا سوچ کر ہی شدید شرم نے آن گھیر انتھا۔۔۔۔
” اور تو تمہارے بغیر میں یہاں کیا کروں گا۔۔۔۔۔
آژمیرنے آنکھیں کھول کر اُسے گھورا تھا۔۔۔
جو اُس کی نیند کی دشمن بن چکی تھی۔۔۔۔۔
اُس نے نوٹ کیا تھا کہ حائفہ صاف اُس کی جانب دیکھنے سے گریزاں تھی۔۔۔۔ اُس کی شرم سے جھکی پلیکیں اور فرار کی یہ معصوم کوششیں آژمیر کو مزید اس کا اسیر کر رہی تھیں۔۔۔۔

باہر سب ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔ ابھی تک کوئی ہمیں بلانے بھی نہیں آیا۔۔۔ حائفہ اُس کی توجہ اپنی جانب سے ہٹانے کے لیے کچھ بھی بول رہی تھی۔۔۔۔
کوئی آئے گا بھی نہیں۔۔۔۔
آژمیر گھر میں اپنی دہشت سے واقف تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اُسے ڈسٹرب کرنے کی جرآت کوئی نہیں کرے گا۔۔۔
اُس کی بات کا مطلب سمجھتے حاعفہ نے اُسے پلٹ کر گھورا تھا۔۔۔۔
” آپ نے ہر ایک کو اپنے غصے سے ڈرا کر رکھا ہوا ہے۔۔۔۔”
حاعفہ فرار کی تمام راہیں بند ہوتی دیکھ اس خفگی سے بولتے اس کے قریب سے اٹھی تھی۔۔۔۔
لیکن تمہیں تو میں غصے میں کیوٹ لگتا ہوں ۔۔۔
آژ میر نے اُس کی بات دوہراتے اُسے واپس اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
حائفہ سیدھی اُس کے سینے پر جاگری تھی۔۔۔۔
” آژمیر ۔۔۔۔”

حائفہ نے اُسے پھر سے گستاخی پر آمادہ ہو تا دیکھ گھورا تھا۔۔۔۔ جب آژ میر نے اُسے ایسے ہی سینے سے لگائے سائیڈ دراز سے
ایک مخملی ڈبیا نکالی تھی۔۔۔۔ حاعفہ نے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
رات کو تم نے میرے حواسوں پر پوری طرح سوار ہوتے یہ اہم رسم تو بھلا ہی دی مجھے۔۔
آژمیر ڈبیا سے ایک انتہائی نفیس ساڈائمنڈ نیکلس نکلتے اپنے بھول جانے کا الزام اُس پر ڈالا تھا۔۔۔۔ حاعفہ نے جو ابا اُسے
گھورا تھا۔۔۔ اُس سے بہتر رات کی اس شخص کی مد ہوشیاں بھلا کون جان سکتا تھا۔۔۔۔
ہوش تو آژ میر نے اُس کے ٹھکانے لگائے تھے۔۔۔
آژ میر نے جھک کر اُس کی شفاف گردن پر نیکلس پہناتے اُس پر لب رکھ دیئے تھے۔۔
تھینکس۔۔۔۔
حائفہ کے لیے آژ میر میر ان کی جانب سے ملنے والی چھوٹی سے چھوٹی شے انتہائی قیمتی تھی۔۔۔ اسے یہ نیکلس بہت پسند آیا تھا۔۔۔ وہ اب ایسے ہی اسے ہمیشہ اپنی گردن میں سجا کر رکھنے والی تھی۔۔۔۔
“آئی لویو۔۔۔۔۔”
آژ میر اس کے چہرے کی شرمگی مسکان کو والہانہ نظروں سے دیکھتے بے ساختہ اپنی محبت کا اظہار کر گیا تھا۔۔۔

” جانتی ہوں۔۔۔”
حاعفہ نے مغروریت سے جواب دیا تھا۔۔۔۔ آژ میر کو اُس کے انداز پر بہت پیار آیا تھا۔۔
” یہ جواب نہیں ہو تا اس کا۔۔۔۔”
آژ میر نے اُسے یہ الفاظ دوہرانے پر اکسایا تھا۔۔۔۔
جواب دیا تو آپ جانے دیں گے۔۔۔۔”
حاعفہ نے شرط رکھی تھی۔۔۔۔
“ہاں۔۔۔۔”
آژ نے آنکھوں میں شرارت بھرے جواب دیاتھا
” میں بھی بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔ اور اب ساری زندگی ان پناہوں میں گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔۔”
حائفہ صدقے دل سے بولتی آژ میر کا قرار لوٹ گئی تھی۔۔۔
” تو پھر ابھی جانے کی ضد کیوں کر رہی ہو سو یٹ ہارٹ۔۔۔
آژ میر اس کے وجود کی رعنائیوں میں گم ہوتا اُسے واپس کمبل کے اندر کھینچ گیا تھا۔۔۔

“آژ میر یہ چیٹنگ ہے۔۔۔۔”
حاعفہ نے احتجاج کیا تھا۔۔۔۔
جان آژمیر میں ہر روز ایسی ہی چیٹنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔۔”
آژ میر حائفہ کے سارے احتجاج خود میں سمیٹتا اس کی سانسوں کو اپنے اندر مقید کر گیا تھا۔۔۔
@@@@@@@@@@
ماورا نے نیند میں بند آنکھوں سے ہاتھ بڑھا کر اپنے پہلو میں کچھ ٹولا تھا۔۔۔۔ مگر خالی بیڈ محسوس کرتے وہ جھٹ سے اُٹھ
بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
اُس نے بے چینی سے چاروں جانب نگاہیں دوڑائی تھیں۔۔۔ مگر منہاج اُسے کہیں نہیں ملا تھا۔۔۔۔
“رات کو جو ہوا وہ سب۔۔۔۔؟؟؟؟ “
ماوراسلوٹوں سے پاک بیڈ کی چادر دیکھ ٹھٹھی تھی۔۔۔۔
کیا وہ سب میرا کوئی خواب تھا۔۔۔۔ ؟؟؟

ماورانے بالوں میں اُنگلیاں پھنساتے خود سے سوال کیا تھا۔۔۔
نہیں وہ سب خواب نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ منہاج رات کو میرے بے حد قریب تھے۔۔۔
ماورارات کو گزرے حسین لمحات یاد کرتی پوری طرح لال ہوئی تھی۔۔۔۔ منہاج کی سر گوشیاں ابھی تک اُس کی سماعتوں
میں گونجتی۔۔۔ کانوں کی لوح سرخ کر گئی تھیں۔۔۔۔
وہ بے قرار سی شش و پنج میں مبتلا چھینج کرنے کی غرض سے واش روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ جب ڈریسنگ ٹیبل پر نظر
پڑتے اُس کے قدم تھم سے گئے تھے۔۔۔
سونے سے پہلے اُس نے پنک کلر کی ٹی شرٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس نے آنکھوں میں اُبھرتی چمک کے ساتھ ارد گرد نگاہیں گھمائی تھیں۔۔۔۔ کمرے میں ہوئی تبدیلیاں اُس کے ہونٹوں نے آکر
کی مسکان گہری کر گئی تھیں۔۔۔
ونڈو بند تھی، ہیٹر آن تھا۔۔۔
ماورا یہ سوچ کر شرم سے دوہری ہوئی تھی کہ یہ شرٹ اُسے منہاج نے پہنائی تھی۔۔۔۔
وہ جلدی سے واش روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ چینج کر کے نکلتے اُس کا رُخ باہر کی جانب تھا۔۔۔۔ وہ منہاج کو ڈھونڈ لینا
چاہتی تھی۔۔۔۔ جو اس کے ساتھ یہ آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہا تھا۔۔۔۔۔

صبح صبح اُس نے ایک بار پھر پورے میر ان پیلس کو چھان مارا تھا۔۔۔۔ مگر منہاج کا کہیں بھی نام و نشان تک نہیں تھا۔۔۔۔
ماور امزید الجھتی مایوس سی اپنے روم کی جانب پلٹی تھی۔۔۔۔ صبح صبح ہر طرف خاموشی ہی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ جب قاسم صاحب کی پکار پر اُس نے اپنی آنکھوں کی نمی دوپٹے میں جذب کرتے پلٹ کر اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
بیٹا اگر آپ مصروف نہیں ہیں تو کیا ہم کچھ دیر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔۔۔۔”
قاسم صاحب کے محبت بھرے انداز پر ماورا اس پل چاہنے کے باوجو د انہیں انکار نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔۔ “جی با باشیور۔۔۔۔ آپ پلیز آئیں نا۔۔۔۔”
سامنے اپنے روم کی جانب اشارہ کرتے وہ قاسم صاحب کے ساتھ اندر بڑھی تھی۔۔۔۔
بیٹا میں آپ سے ایک بہت اہم بات کرنے والا ہوں۔۔۔۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ میر امان ضرور رکھیں
قاسم صاحب نے بات کرنے سے پہلے تمہید باندھی تھی۔۔۔
جی بابا کیوں نہیں۔۔۔۔ بیٹیاں باپ کا مان ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ آپ مجھے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ آپ کو پورا حق
ہے۔۔۔۔”
ماورا اصل بات جانے بغیر حامی بھر تے بولی۔۔۔۔

مجھے تم سے یہی امید تھی بیٹا۔۔۔۔ میرے دوست شہاب سے تو ملی ہو نا تم۔۔۔۔ وہ میر ابہت اچھا دوست ہے۔۔۔ کل تم
سے ملنے کے بعد اُس نے مجھ سے کچھ ایساما نگا کے میں انکار نہیں کر پایا۔۔۔۔
قاسم صاحب پل بھر کے لیے رکے تھے۔۔۔۔
شہاب نے اپنے بیٹے کے لیے تمہارا رشتہ مانگا ہے۔۔۔۔ اور میں نے اُسے رضامندی دے دی ہے۔۔۔۔ کیونکہ مجھے یقین تھا تم میر امان ضرور رکھو گی۔۔۔۔ باقی سب بھی کل اُس سے مل چکے ہیں۔۔۔۔ سب کو وہ بہت پسند آیا ہے۔۔۔۔ بہت اچھالڑ کا ہے۔۔۔۔ حائفہ کی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔۔۔۔ جس کا میرے دل پر بہت بوجھ ہے۔۔۔ مگر میں
چاہتا ہوں تمہیں اپنے ہاتھوں سے اچھی جگہ سونپ کر اپنے باپ ہونے کا فرض ادا کروں۔۔۔۔
قاسم صاحب کا لہجہ آخر میں نم ہو ا تھا۔۔۔۔ جبکہ ماور اسانس رو کے یک تک اُنہیں سن رہی تھی۔۔۔۔ اُسے لگا تھا پورا میر ان پیلس اُس کے سر پر آن گرا ہو۔۔۔۔وہ انکار کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ انہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سے
آگاہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ایسا کچھ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
اُس کی آواز اُس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔
” بابا۔۔۔
اس کے لفظ پھڑ پھڑا کر رہ گئے تھے۔۔

Share with your friends on Facebook

Updated: May 2, 2025 — 4:13 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *