In Part 28 of the Haifa and Zanisha series, the story transforms into a deeply moving and heartbreaking Urdu sad story. This emotional chapter captures the raw pain of love, the intensity of separation, and the struggle of holding on when everything seems lost.
Fans of emotional Urdu novels, romantic Urdu tragedy, and sad love stories in Urdu will find this episode unforgettable. Beautifully written in clean Urdu font, this part is not just a story — it’s a reflection of true emotional depth.

Haifa and Zanisha Novel Part 28 – Urdu Sad Story
Read here Haifa and Zanisha Novel Part 27 – Free Urdu Love Story
گھر میں ماورا کی شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔۔۔ جو کہ منہاج کے کہنے پر دو دن بعد ہونی طے پائی تھی۔۔۔۔ماورا
نے خود کو کمرے میں بند کر کے رکھا ہوا تھا۔۔۔ اُس نے قاسم صاحب اور حائفہ کے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی منہاج اور اپنے نکاح کے بارے میں بتانے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔۔
مگر کوئی اُس کی سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔۔
ماورا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔۔ نہ منہاج کا نمبر لگ رہا تھا۔۔۔ اور نہ اس کی بیلا سے کوئی بات ہو پارہی
تھی۔۔۔
اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سوچ سوچ کر اُس کا دماغ پھٹ جائے گا۔۔۔۔ اُس کا دماغ مختلف سوچوں کی اماہ جگا بنا خود میں ہی اُلجھ کر رہ گیا تھا۔
اُس رات کی منہاج کی قربت وہ بھلائے نہیں بھول رہی تھی۔۔۔۔ وہ کسی طور اُسے اپنا خواب تصور کرنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔۔ وہ منہاج ہی تھا اُسے اس بات پر سو فیصد یقین تھا ۔۔۔۔ لیکن اپنی ایک جھلک دیکھا کر کہاں غائب ہو گیا تھا
ماورا کا اِس سب سے کہیں دور بھاگ جانے کو دل چاہا تھا۔۔۔
وہ اس طرح خود سے لڑنے میں مصرو تھی جب فجر اور رامین نا کرتیں اندر داخل ہوئی تھیں۔۔۔
جن کے ہاتھوں میں پکڑے سجے سنورے تھال دیکھ ماورا نے رخ پھیر لیا تھا۔۔۔
ماوراتمہارے ہونے والے ان کی چوائس تو بہت اعلی ہے۔۔۔۔۔ دیکھو تو کیسی ایک سے بڑھ کر ایک شے بھیجی
ہے۔۔۔۔۔
رامین اُس کی بے رخی نوٹ کرنے کے باوجود اپنی ہانکے گئی تھی۔۔۔۔
پلیز تم لوگ جاو یہاں سے۔۔۔ میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔ ماورا کی روہانسی آواز پر وہ دونوں خاموشی سے نکل گئی تھیں۔۔۔
بھا بھی یہ ڈرامہ مزید کب تک چلانا ہے۔۔۔۔ماور ا کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔۔۔”
وہ دونوں ماورا کے روم کے باہر کھڑی حائفہ کو دیکھ فکر مندی سے بولی تھی۔۔۔ جو ابھی فون پر منہاج سے یہی بات ڈسکس کر رہی تھی۔۔۔۔۔ اسی لمحے زنیشہ بھی وہاں آئی تھی۔۔۔۔
زوہان اُسے صبح چھوڑ گیا تھا۔۔۔ خود اُس کا رات تک میران پیلس آنے کا ارادہ تھا۔۔۔۔ زنیشہ بھی آتے ساتھ اُن سب کے پلان میں شریک پوری طرح اُن کی مدد کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔ جس قدر ماورا نے اُسے تنگ کیا تھا۔۔۔۔ اب اُس کے ہاتھ میں بھی موقع لگ چکا تھا سارے بدلے پورے کرنے کا۔۔۔۔ ساتھ ہی وہ ماورا کے لیے بہت خوش بھی
تھی۔۔۔۔
“منہاج کا بھی یہی کہنا ہے کہ اُسے بیمار دلہن بالکل نہیں چاہیے۔۔ماورا کو سب بتا دینا چاہیے۔۔۔”
حاعفہ نے مسکراتے اُن تک منہاج کے خیالات پہنچائے تھے۔۔۔۔۔
منہاج شہاب درانی کے ساتھ واپس جاچکا تھا۔۔۔ اب انہیں دو دن بعد وہاں بارات لے کر ہی پہنچنا تھا۔۔۔ “ہم میر ابھی یہی خیال ہے۔۔۔۔ بیچاری اپنی غلطی سے زیادہ سہہ چکی ہے۔۔۔۔
وہ چاروں ایک ساتھ اندر داخل ہوئی تھیں۔۔۔۔
یار کیا پرابلم ہے تم سب کو ۔۔۔۔ مجھے تھوڑی سی پرائیوسی ملے گی۔۔۔۔
ماورا ایک بار پھر اُن کو آتا دیکھ تپ اُٹھی تھی۔۔۔۔
اچھا غصہ تو مت کرو۔۔۔ وہ تمہارے ہونے والے ہر بینڈ تم سے تمہارا رنگ سائز پوچھنا چاہتے ہیں۔۔۔ ایک بار بات تو کر لو اُن سے۔۔۔۔ جب سے تمہاری تصویر دیکھی ہے۔۔۔۔ بے تاب ہوئے پڑے ہیں تم سے بات کرنے کے لیے۔۔۔۔
زنیشہ شریر مسکان کے ساتھ بولتی ان تینوں کو بھی مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔
بھاڑ میں جائے وہ۔۔۔۔ اپنی بے تابیوں کے ساتھ۔۔۔۔
ماورا کا اِس لمحے دل چاہا تھا۔۔۔ اُٹھا کر کچھ سر پر مار دے ان چاروں کے ۔۔۔۔ جو اُسے سمجھنے کے بجائے مزید تنگ کر رہی
” آریو شیور تمہیں بات نہیں کرنی۔۔۔۔ بات نہیں کرنی۔
حائفہ نے آخری بار پوچھا تھا۔۔۔۔۔
“ہاں نہیں کرنی مجھے کسی بھی اُلو، جاہل گنوار سے بات۔۔۔۔۔”
ماورا صبح سے اس شخص کو اسی طرح کے نجانے کن کن القابات سے نواز چکی تھی۔۔۔
اس سے پہلے کہ حائفہ کچھ بولتی۔۔۔۔۔ ملازمہ گھبرائی بو کھلائی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
“بی بی جی وہ ۔۔۔۔۔ آژ میر صاحب۔۔۔۔
ملازمہ کے انداز نے اُن سب کو پریشان کر دیا تھا۔۔۔۔
“کیا ہو ا سا جدہ ۔۔۔۔”
حائفہ آژمیر کے نام پر ملازمہ سے سوال کرتی باہر کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔۔
ماور اسمیت باقی سب بھی پریشانی کے عالم میں باہر بھاگی تھیں۔۔۔ کیونکہ ملازمہ کے تیور اُن کی جان نکالنے کے لیے کافی
تھے۔۔۔۔
@@@@@@@@@
ماضی۔
ملک فیاض میر ان کی تحریمہ ( زوہان کی ماں) سے پہلی ملاقات ایک پارٹی میں ہوئی تھی۔۔۔ وہ اُن کے بزنس پارٹنر کی بیٹی تھی۔۔۔۔ جو اپنے دھیمے مزاج اور پر کشش شخصیت کی وجہ سے بہت پسند آئی تھی۔۔۔۔
نجانے کب اُن کا دل تحریمہ بیگم کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھاوہ جان ہی نہیں پائے تھے۔۔۔۔ تحریمہ کا تعلق ایک اپر کلاس
کے امیر کبیر گھرانے سے تھا۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی لاڈلی اولاد تھیں۔۔۔ جن کی زندگی خوشیوں اور آسائشوں
سے مالا مال تھی۔۔۔۔ اُن کے بابا کی اُن کے بچپن میں ہی ڈیتھ ہو چکی تھی۔۔۔۔ اور ماما بھی کافی بیمار رہنے لگی تھیں۔۔۔ جس وجہ سے بہت کم عمری میں ہی اُنہوں نے اپنے وسیع و عریض بزنس کو سنبھال لیا تھا۔۔۔۔ جس کی شاخیں دوسرے ملکوں تک بھی پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔۔
تحریمہ بیگم بچپن سے ہی اپنے فرسٹ کزن فائز سے منسوب تھی۔۔۔۔ اور دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند بھی کرتے
تھے۔۔۔۔ فائز کے علاوہ اُنہوں نے کسی کو اپنے جیون ساتھی کے رُوپ میں نہیں سوچا تھا۔۔۔
تحریمہ کو بالکل خبر نہیں ہوئی تھی۔۔۔ کہ کوئی ہر پارٹی میں صرف اُن کی وجہ سے شرکت کر تا تھا۔۔۔ اور گھنٹوں انہیں یک ٹک دیوانہ وار نظروں سے دیکھتا محبت میں بہت آگے نکل چکا تھا۔۔۔
تحریمہ بیگم کو جھٹکا تو اس دن لگا جب ایک بزنس میٹنگ سے واپسی پر اُن کا ڈرائیور گاڑی خراب ہو جانے کی وجہ سے ٹائم پر
ملک فیاض کو اپنی محبت کے اظہار کا اِس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں ملا تھا۔۔۔۔ انہوں نے تحریمہ بیگم کو ڈراپ کرنے کی آفر کی تھی۔۔۔ جو خود بھی کافی رات ہو جانے کی وجہ سے یہاں اکیلے رکنا مناسب نہ سمجھتیں۔۔۔ اُن کی آفر قبول کر چکی
لیکن ملک فیاض نے آدھے راستے پر پہنچ پر گاڑی ایک سائیڈ پر روکتے تحریمہ بیگم کو اچھا خاصہ خوفزدہ کر دیا تھا۔۔۔ آپ نے یہاں گاڑی کیوں روک دی۔۔۔۔۔؟؟
تحریمہ بیگم نے قدرے سختی سے استفسار کیا تھا۔۔۔۔
جس کے جواب میں ملک فیاض آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے اُن کی جانب مڑتے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرتے چلے
گئے تھے۔۔۔۔
جسے سن کر تحریمہ بیگم کتنے ہی لمحے شاک کی کیفیت سے باہر نہیں آپائی تھیں۔۔۔۔
انہوں نے آج تک ملک فیاض کو ایک بزنس پارٹنر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا تھا۔۔۔ اُن کے منہ سے اپنے بارے میں ایسے
خیالات تحریمہ بیگم کا چہرا غصے کی شدت سے لال کر گئے تھے۔۔۔۔
مگر اپنے غصے پر قابو پاتے وہ اُن کو نہایت ہی مناسب الفاظ میں انکار کر کے ۔۔۔۔ عنقریب ہونے والی اپنی شادی کے بارے
میں بتاتیں اُسی لمحے گاڑی سے اتر گئی تھیں۔۔
ملک فیاض نے انہیں روکنے کی اپنی محبت کا یقین دلانے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ مگر جب وہ اس شخص کے حوالے سے کچھ فیل کرتی ہی نہیں تھیں تو کس بنیاد پر رکھتیں۔۔۔۔ اُن کی چاہت اُن کے بچپن کا منگیتر فائز تھا۔۔۔۔ جس سے بہت جلد اُن کی شادی ہونے والی تھی۔۔۔
ملک فیاض کو صاف لفظوں میں انکار کر کے وہ یہی سمجھی تھیں۔۔۔ کہ بات وہیں ختم ہو چکی ہے۔۔۔ مگر ملک فیاض جیسے جنونی شخص نے اُن کی پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔ وہ کال میسجز کر کے انہیں اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے
تھے۔۔۔
جب انہیں دنوں انہیں ارجنٹ بیسز پر میر ان پیلس بلوالیا گیا تھا۔۔ تحریمہ بیگم سے محبت میں وہ دو اہم باتیں تو فراموش ہی کر چکے تھے۔۔۔۔ اُن کے خاندان میں نہ ہی آؤٹ آف فیلی شادی کا رواج تھا اور سب سے اہم بات وہ بچپن سے اپنی کزن شمسہ بیگم سے منسوب تھے۔۔۔۔
انہیں میران پیلس بلائے جانے کا مقصد بھی یہی تھا۔۔۔ اُن کے والد ملک احمد نے اُن کی شادی کی تاریخ رکھ دی تھی۔۔۔۔ شمسہ بیگم اُن کی فرسٹ کزن ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں پسند بھی تھی۔۔۔۔ مگر تحریمہ بیگم سے وہ محبت کرتے تھے۔۔۔۔ اُن کے لیے دونوں سے دستبردار ہو پانا مشکل تھا۔۔۔۔ اسی لیے انہوں نے اپنے دل و دماغ میں چھڑی جنگ کے زیر اثر شادی کے لیے حامی بھر لی تھی۔۔۔ اُن کا انکار انہیں اپنے باپ کی ساری دولت جائیداد اُن سے چھینے کا باعث بن سکتا تھا۔۔۔
وہ نہ شمسہ بیگم سے شادی سے انکار کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی خاندان میں کوئی فساد چاہتے تھے۔۔۔
ملک فیاض کا شمار بزدل مردوں میں ہو تا تھا۔۔۔۔ جو اپنے مفاد کی خاطر کسی کو بھی استعمال کر سکتے تھے۔
شمسہ بیگم سے شادی کر کے انہوں نے خاندان میں اپنے تمام معاملات سنوار لیے تھے۔۔۔۔ شمسہ بیگم بھی اُن کے محبت بھرے اند از پر بہت خوش تھیں۔۔۔۔
ملک فیاض کا ابھی ایک ہفتہ مزید حویلی میں رکنے کا ارادہ تھا۔۔۔ جب تحریمہ بیگم کی طے پا جانے والی شادی نے اُن کی
مردانہ انا پر کاڑی وار کیا تھا۔۔۔۔
اُن سے کسی طور برداشت نہیں تھا کہ اُن کے دل میں بسنے والی لڑکی کسی اور کی سیج سجائے۔۔۔۔ اس لیے انہوں نے اپنی گھٹیا سازش چلتے فائز پر قاتلانہ حملہ کروانے کے ساتھ ساتھ تحریمہ کو اُٹھوالیا تھا۔۔۔
تحریمہ بیگم پر تو جیسے تکلیفوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔۔۔۔ ملک فیاض کو اپنے سامنے دیکھ وہ یقین نہیں کر پائی تھیں۔۔۔
کہ یہ بظاہر معزز دکھنے والا شخص اندر سے اس قدر کمینگی بھر ادل رکھتا تھا۔۔۔
اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھیڑیے مختلف رُوپ میں انسان کی کھال پہنے چھپے ہوئے تھے۔۔۔۔ جس کا ایک رُوپ اُس دن اُنہوں نے دیکھا تھا۔۔۔۔۔
ملک فیاض نے انہیں زبر دستی نکاح پر امادہ کرنے کے لیے دھمکی دی تھی۔۔۔۔ کہ اگر وہ اُن سے نکاح نہیں کریں گی تو وہ فائز کو مارنے کے ساتھ ساتھ زبر دستی حاصل کر لیں گے۔۔۔۔ تحریمہ بیگم کی اتنی منتوں اور آہوں کا اُس ظالم شخص پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔۔ بہت دقتوں کے بعد اپنے او پر جبر کرتے
تحریمہ بیگم نے فائز کی جان اور اپنی عزت بچانے کی خاطر نکاح کے لیے حامی بھر لی تھی۔۔۔۔
فائز ہاسپٹل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ وہ اپنے مردہ وجود کے سہارے بیٹھیں وہاں اپنا آپ ایک وحشی درندے کے نام کر گئی تھیں۔۔۔
جو محبت کا سب سے بڑا دعوے دار محبت جیسے جذبے کے مفہوم سے بھی نابلد معلوم ہوا تھا انہیں۔۔۔۔
ملک فیاض نے اپنی ضد اور مردانہ انا کو تسکین پہنچاتے تحریمہ بیگم کے وجود کو تو حاصل کر لیا تھا۔۔۔ مگر اُن کے دل تک
رسائی حاصل نہیں کر پائے تھے۔۔۔۔
فائز کی حالت کچھ بہتر تھی۔۔۔ لیکن تحریمہ بیگم کی ماں اپنی بیٹی کی عین شادی کے موقع پر گمشدگی اور میڈیا پر چلتی اس کے
کردار کو لے کر روح اُدھیڑتے الزام نہ سہہ پاتے انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جاچکی تھیں۔۔۔۔
تحریمہ بیگم دکھ سے نڈھال ہوتی گم صم سی ہو کر رہ گئی تھیں۔۔۔ اُنہیں کسی کے اپنے آس پاس ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔
ملک فیاض کو میر ان پیلس سے آژمیر کی پیدائش کی خبر ملی تھی۔۔۔ جس پر وہ تحریمہ بیگم کو اسی حال میں چھوڑتے بھاگے بھاگے شمسہ بیگم کے پاس پہنچے تھے۔۔۔۔ بیٹے کے جنم پر وہ بے پناہ خوش تھے۔۔۔ اور وہ کتنے عرصے کے لیے تحریمہ بیگم کے پاس ہی جانا فراموش کر گئے تھے۔۔۔۔
وقت آہستہ آہستہ گزرنے لگا تھا۔۔۔۔ تحریمہ بیگم کو ملک فیاض نے ایک گھر تک محصور کر کے رکھا ہوا تھا۔۔۔اتنے صدمے برداشت کرنے اور یوں تنہائی کا شکار ہونے کی وجہ سے اُن کا زہنی توازن ٹھیک نہیں رہا تھا۔۔۔
جب انہیں دنوں تحریمہ بیگم نے ایک بہت پیارے سے بیٹے کو جنم دیا تھا۔۔۔
زوہان کا چہرا دیکھتے ہی اتنے عرصے میں پہلی بار اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔۔ ملک فیاض کا بیٹا ہونے کے باوجود وہ اُسے خود سے دھتکار نہیں پائی تھیں۔۔۔ کیونکہ وہ اُن کے جگر کا ٹکڑا بھی تھا۔۔۔۔۔
انہیں لگا تھا انکا بیٹا ان کی ڈھال ضرور بنے گا۔۔۔ اور اس درندہ صف شخص کے کیے کی سز اضر ور دے گا اسے۔۔۔۔
زوہان کو گود میں اُٹھاتے ملک فیاض کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا تھا۔۔۔
تحریمہ بیگم کے حوالے سے تو انہیں کبھی ایسا خیال نہیں آیا تھا۔۔۔۔ مگر زوہان کو وہ اُس کے اصل مقام میر ان پیس لے جانا چاہتے تھے۔۔۔۔
انہوں نے سب سے پہلے شمسہ بیگم کو اعتماد میں لیتے کچھ سچ جھوٹ کی ملاوٹ کرتے، انتہائی مجبوری میں دوسری شادی
کرنے کا جھوٹ بولتے بہت کوششوں کے بعد آخر کار منانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔۔۔
لیکن یہی بات سنتے میران پیلس میں ایک طوفان برپا ہوا تھا۔۔۔۔ جسے آہستہ آہستہ ملک فیاض دبانے میں کامیاب ہو چکے
تبدیلی یہ آئی تھی کہ تحریمہ بیگم کو میر ان پیلس میں ان کی دوسری بیوی کا مقام مل چکا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ اب بھی اس گھر میں بھی ایک قیدی سے زیادہ کچھ نہیں تھیں۔۔۔۔ انہیں ملک فیاض کی جانب سے نہ تو کہیں جانے کی اجازت تھی اور نہ کسی سے فون پر بات کرنے کی۔۔۔۔
اب تو اس گھٹیا شخص نے فائز کو ختم کر دینے کی دھمکی کے ساتھ ، اپنی سگی اولا د زوہان کے حوالے سے بھی انہیں دھمکانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔
ملک فیاض کے والد کی ڈیتھ کے بعد میر ان پیلس کے سربراہ وہی بن چکے تھے۔۔۔۔ اب انہیں کسی کا کوئی ڈر نہیں
ملک فیاض نے بہت کوشش کی تھی کہ تحریمہ بیگم کا رویہ اُن کے ساتھ ویسا ہی محبت بھر اہو جائے جس کی وجہ شروع سے خواہش کرتے آئے تھے۔۔۔۔۔
مگر وہ جس قدر ظلم اُن پر ڈھا چکے تھے۔۔۔۔ تحریمہ بیگم اُن کی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں تھیں۔۔۔۔ وہ بار ہاں انہیں اُن کے منہ پر بدعائیں دینے کے ساتھ ساتھ شدید نفرت کا اظہار کر چکی تھیں۔۔۔ جس کے بعد انہیں ہمیشہ کی طرح ملک
فیاض کا در ندوں جیسا روپ ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔۔۔۔
جس کے ساتھ ہی اُن کی نفرت میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔۔۔
شمسه بیگم سمیت گھر کے تمام افراد ملک فیاض کا تحریمہ سے روار کھا جانے والا نارواں سے رواں سلوک نوٹ کرنے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتے تھے ۔۔۔۔ شمسہ بیگم تحریمہ بیگم کی سوتن ہونے کے باوجود اُن کی خستہ حالت اور ہر وقت یا تو گم صم رہنے یا پھر کسی کونے میں چھپ کر روتا دیکھنا بر داشت نہیں کر پارہی تھیں۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھیں اصل معاملہ کیا تھا۔۔ نہ ہی ملک فیاض نے انہیں اس معاملے پر بولنے کی اجازت دی تھی۔۔۔۔ مگر وہ دل میں تحریمہ بیگم کے لیے ہمددری رکھتے اُن سے بات کرنے کی کئی بار کوشش کر چکی تھیں۔۔۔ لیکن تحریمہ بیگم نے کبھی
بھی اُن کی کسی بات کا پلٹ کر جواب نہیں دیا تھا۔۔۔ وہ اس بھلی عورت کی زندگی اپنی وجہ سے مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی
آژمیر اور زوہان کو ان معاملات سے دور ہاسٹل میں رکھا گیا تھا۔۔۔۔ جہاں سے وہ مہینے بعد دو دن کے لیے ہی لوٹتے تھے۔۔۔ زوہان کو تحریمہ بیگم سے دور رکھنا بھی ملک فیاض کی سزا کا ایک حصہ تھا۔۔۔۔ دونوں بھائیوں میں بے پناہ پیار تھا اس لیے زوہان کے ساتھ ساتھ آژمیر نے بھی ضد کرتے ایک ہی جگہ پر پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔۔۔۔۔ آژمیر اور زوہان گھر کے بڑے بچے ہونے کے ناطے سب کے بہت لاڈلے تھے۔۔۔ اُن کا آپسی پیار بھی مثالی تھا۔۔۔ اُن کو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ ماؤں کی طرف سے وہ سوتیلے ہیں۔۔۔ اور اُن دونوں کی لاڈلی تھی۔۔۔ زنیشہ۔۔۔۔۔ آژ میر ہمیشہ زنیشہ کو بہنوں کی طرح پروٹیکٹ کرتا تھا۔۔۔ زوہان کے لیے بھی وہ گلابی گالوں والی گڑیا ہر شے سے بڑھ کر تھی۔۔۔ مگر بچپن سے ہی سب کے کہنے کے باوجود وہ اُسے بہن نہیں کہتا تھا۔۔ بلکہ اُس کی زبان پر نجانے کہاں سے سن کر یہی جملہ چڑھا ہوا تھا کہ میں زنیشہ سے شادی کروں گا۔۔۔۔
اُس کے معصومیت بھرے انداز پر سب مسکرا اٹھتے تھے۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُس کا کچی عمر سے ہی شروع ہوا اُس کا جنون ہمیشہ اُس کے ساتھ رہنے والا تھا۔۔۔۔
تحریمہ بیگم نے زوہان کا بچپن خراب ہونے کے خیال سے اُسے اُس کے باپ کی حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ اُن کا بیٹا ان کے مجرم سے اُن کا انتقام لے۔۔۔۔ مگر وہ چاہ کر بھی ایک بیٹے کو اُس کے باپ کے خلاف نہیں کر پائی تھیں۔۔۔۔
انہیں دنوں میران پیلس میں ایک نئی ملازمہ آئی تھی۔۔۔ تحریمہ بیگم بالکل بھی نہیں جانتی تھیں۔۔۔ کہ وہ فائز کی بھیجی گئی اُس کی خیر خواہ تھی۔۔۔۔
فائز جو اتنے سالوں سے تحریمہ بیگم کو مسلسل ڈھونڈنے میں لگا تھا۔۔۔۔ آخر کار اُن تک آن پہنچا تھا۔۔
لیکن گزرے سالوں میں ملک فیاض اتنا پاور فل ہو چکا تھا کہ فائز اس سے الجھنے کی حیثیت میں نہیں تھا۔۔۔ اُسے کسی بھی
صورت تحریمہ بیگم کو میر ان پیلس سے باہر نکالنا تھا۔۔۔
جس کے لیے اُس کی بھیجی گئی ملازمہ مدد گار ثابت ہوئی تھی
تحریمہ بیگم فائز کا پیغام ملتے ہی نئے سرے سے جی اُٹھی تھیں۔۔۔ اتنے سالوں بعد ہی مگر انہیں اس درندہ صفت شخص سے
آزادی ملنے والی تھی۔۔۔۔۔
ملک فیاض کے بھانجے کا عقیقہ تھا ہمیشہ کی طرح ملک فیاض کی جانب سے تحریمہ بیگم کو میر ان پیلس سے نکلنے کی اجازت
نہیں تھی۔۔۔۔
تحریمہ بیگم کو اس سے اچھا موقع کوئی نہیں ملا تھا۔۔۔ ملازمہ کے ذریعے انہوں نے فائز تک پیغام بھجوادیا تھا کہ وہ گھر والوں کے نکلتے ہی میران پیلس کے پچھلے گیٹ سے انہیں لینے آجائیں۔۔۔۔۔
پلان کے مطابق فائز نے ویساہی کیا تھا۔۔۔ لیکن یہاں پر بھی قسمت نے تحریمہ بیگم کا ساتھ نہیں دیا تھا۔۔۔ ملک فیاض کوئی اہم فائل لینے گھر آن پہنچے تھے۔۔۔۔
اپنی بیوی کو اُس کے محبوب کے ساتھ فرار ہوتے دیکھ ملک فیاض کا بھیڑیا نماز وپ ایک بار پھر سامنے آچکا تھا۔۔۔۔۔
تحریمہ بیگم کے لاکھ گڑ گڑانے اور پیر پڑنے کے باوجود انہیں رحم نہیں آیا تھا۔۔۔۔انہوں نے تحریمہ بیگم پر ایک اور ظلم داستان رقم کرتے اُن کی آنکھوں کے سامنے فائز کو گولیوں سے بھن کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اُسی لمحے گھر والوں کو سرپرائز دینے کی خاطر ہنسی خوشی وہاں داخل ہوتے پندرہ سالہ آژمیر اور زوہان گولیوں کی آواز پر اُس سمت کا تعین کرتے تہہ خانے کی جانب دواڑے تھے۔۔۔۔
جس کا دروازہ اندر سے بند دیکھ وہ دونوں جلدی سے کھڑ کی تک پہنچے تھے۔۔۔ جہاں کا منظر دیکھ اُن دونوں کے کچے زہنوں
کو ہلا کر رکھ گیا تھا۔۔۔۔
ملک فیاض جسے وہ اپنے آئیڈیل باپ کے روپ میں دیکھتے تھے۔۔۔ اُسے کسی کے قاتل کے رُوپ میں دیکھنا اُن دونوں کی ہستی فنا کر گیا تھا۔۔۔ زوہان کی نظر خون میں لت پت فائز کے مردہ وجود پر سر رکھے روتی اپنی ماں پر پڑی تھی۔۔۔۔
اُن کے لیے معاملہ سمجھ پانا مشکل تھا۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے تحریمہ بیگم کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ زوہان کے کچے دماغ پر رقم ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
جو روتی بلکتی ملک فیاض کو بد دعائیں دیتی اُن کا ایک ایک ظلم گنواتی چلی گئی تھیں۔۔۔۔ وقت بدل گیا تھا۔۔۔ مگر ملک فیاض
کی سوچ اور روایتی بزدل اور کم ظرف مردوں جیسی چھوٹی سوچ نہیں بدلی تھی ۔۔۔۔
اپنی بیوی کے منہ سے اپنے لیے نکلنے والے توہین آمیز الفاظ اور اُس کی اپنے محبوب کے ساتھ فرار ہونے کے لیے کی جانے
والی کوشش ملک فیاض کی نظروں میں غلطی نہیں بلکہ ایک ایسا گناہ تھا جس کی کوئی معافی نہیں مل سکتی تھی۔۔۔۔ اپنے مقابل آن کھڑی ہوتی تحریمہ بیگم کے منہ پر تھپڑ رسید کرتے انہیں زمین کی نظر کرتے کچھ فاصلے پر پڑا مٹی کا تیل اُن پر چھڑک دیاتھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کے آژمیر اور زوہان اُن کا مقصد سمجھ پاتے انہوں نے ظلم کی انتہا کرتے تحریمہ بیگم کے وجو د کو آگ کی نظر
کر دیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں چیختے چلاتے دروازہ پیٹتے رہ گئے تھے۔۔۔ مگر ملک فیاض بت بنا کھڑارہا تھا۔۔۔۔ طاقت کے نشے نے اُس شخص کا دماغ خراب کر دیا تھا۔۔۔۔ وہ کمزور انا پرست مرد ایک عورت کے منہ سے نکلنے والی اپنی اصلیت برداشت نہیں کر پایا
تھا۔
وہ اُس عورت سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رکھ پاتے اُس کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر گیا تھا۔۔۔ تحریمہ بیگم شروع سے کہتی آئی تھیں۔۔۔ اس شخص کو اُن سے محبت نہیں تھی۔۔۔ محبت تو انسان کا ظرف بڑھا دیتی ہے۔۔۔ اُس کی سوچ میں وسعت لاتی ہے۔۔۔۔ اپنے محبوب کو اپنے ساتھ باندھنا نہیں بلکہ اُس کے سکھ میں اپنی خوشی ڈھونڈ نا سیکھاتی ہے۔۔۔۔ محبت تو وہ تھی جو فائز نے اُن سے کی تھی۔۔۔ اور آج اُسی محبت کی خاطر اپنی جان تک قربان کر گیا تھا۔۔۔
ملک فیاض کا شمار معاشرے کے اُن مردوں میں ہوتا تھا جو عورت کے وجود سے تسکین حاصل کرنے سے زیادہ اُنہیں کوئی اہمیت دینا نہیں جانتے تھے۔۔۔ اُن کے مطابق عورت کا مرد سے اونچی آواز میں بات کر نامر دذات کی توہین تھی۔۔۔۔ لیکن مرد اُس بے ضرر مخلوق کے ساتھ ہر طرح کا سلوک رکھنے کے حقدار تھے۔۔۔۔
زوہان اور آژ میر کی لگاتار کوششوں کے بعد وہ بہت مشکلوں سے دروازہ توڑنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔۔۔ مگر اندر داخل ہوتے ہی اپنی ماں کا راکھ بنا وجود دیکھ زوہان کی تو جیسے دنیائٹ چکی تھی۔۔۔۔۔
آژمیر بھی پھٹی پھٹی نگاہوں سے صدمے کی حالت میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔ تحریمہ بیگم اُس کے لیے بھی ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔۔۔۔
اُس کا دل چاہا تھا اپنے ہاتھوں سے اپنے درندے صفت باپ کو ختم کر دے۔۔۔۔ مگر اُس کی سوچ سے پہلے ہی زوہان اِس بات پر عمل پیر اہو تاملک فیاض کی گری گن اُٹھاتا۔۔۔۔ اس میں موجود ساری گولیاں ملک فیاض کے وجو د میں اُتار تا چلا
گیا تھا۔۔۔۔
آژمیر کے زوہان تک پہنچنے تک زوہان اپنی ماں کا انتقام پورا کر چکا تھا۔۔۔۔
آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میران پیلس میں کے سارے ملازمین بھی اس تقریب میں شرکت کرنے گئے تھے۔۔۔ اور آج
کے آج ہی میران پیلس پر قیامت ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔
” زوہان یہ کیا کیا تم نے۔۔۔۔؟؟؟ چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔”
آژمیر زوہان کے ہاتھ سے گن کھینچتا اُسے اپنے ساتھ گھسیٹتے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
آژ میر ابھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔۔۔۔ میں مار ڈالوں گا اُسے۔۔۔۔ اُس نے میری ماں کو مجھ سے چھین
لیا۔۔زوہان چلا تارہ گیا تھا۔۔۔ لیکن آژ میر اس خوف سے کہ کہیں ملک فیاض کے قتل کے الزام میں زوہان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔۔۔۔ وہ اُسے لیے میر ان پیلس سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ وہ دونوں جس خاموشی کے ساتھ وہاں آئے تھے اُسی راز داری
کے ساتھ واپس چلے گئے تھے۔۔۔
آژ میر سے زوہان کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔۔۔ جو ظلم کی انتہا وہ دونوں دیکھ چکے تھے۔۔۔ زوہان کے ساتھ ساتھ آژ میر کا دل بھی خون کے آنسور ور ہا تھا۔۔۔۔
آژ میر نے زوہان کو قسم دے کر خاموش کروادیا تھا کہ وہ کسی کے سامنے ملک فیاض کو مارنے کا سچ نہیں کہے گا۔۔۔۔ اگر اُس نے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی تو آژ میر اُس کا الزام اپنے سر لے لے گا۔۔۔۔ گن پر دونوں کی انگلیوں کے نشان تھے۔۔۔ اور دونوں ہی اُس وقت وہاں موجود تھے۔۔۔
اُن کی زندگیوں کا وہ بھیانک ترین واقع اُس دن کے بعد سے زوہان اور آژ میر کی شخصیات کو ایک دم بدل کر رکھ گیا تھا۔۔
زوہان کو جیسے ہی ملک فیاض کے بچ جانے کا پتا چلا تھا۔۔۔۔وہ آژ میر پر شدید غصہ ہونے کے ساتھ ساتھ بد گمان ہوا
تھا۔۔۔۔ وہ اس وقت زہنی طور پر اس قدر تباہ ہو چکا تھا کہ اُسے ہر شخص اپنا دشمن لگ رہا تھا۔۔۔۔
وہ ملک فیاض کو ختم نہیں کر پایا تھا کیو نکہ عین وقت پر آژمیر اُسے وہاں سے لے آیا تھا۔۔۔۔اس بات پر وہ آژمیر کو کبھی معاف نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔ اور جس طرح خاندان کی بدنامی کے ڈر سے میران پیلس کے ہر فرد نے یہ اتنا بڑا ظلم چھپا لیا تھا اُس چیز نے زوہان کو ہر شخص سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔
آژمیر کے حوالے سے اُس کے دل میں بہت سی باتیں چلتی رہی تھیں۔۔۔ اُسے آژ میر میر ان پیلس کے باقی افراد کی طرح
ظالم لگا تھا۔۔۔
اور دونوں کے درمیان اصل نفرت کا آغاز تو اُس وقت ہوا تھا جب زوبان کو پتا چلا تھا کہ آژ میر کے کال کروانے پر ہی گھر والوں نے بروقت پہنچ کر ملک فیاض کو ہاسپٹل پہنچایا تھا۔۔ اور یہی ریزن تھا کہ ملک فیاض کی جان بچ گئی تھی۔۔۔ مگر
ایک ساتھ چھ گولیاں لگنے کی وجہ سے اُن کا بہت خون بہہ گیا تھا۔۔۔۔
جس کی وجہ سے وہ کومہ میں چلے گئے تھے ۔۔۔۔ اور اتنا سال گزر جانے کے باوجو د وہ ٹھیک نہیں ہو پائے تھے۔۔
آژمیر چاہتا تھاوہ ٹھیک ہوں۔۔۔ اور انہیں بھی ویسی ہی اذیت ناک سزا ملے جو ۔۔۔ انہوں نے دو معصوم لوگوں کی جانیں لے کر دی تھی۔۔۔۔
لیکن اللہ نے ملک فیاض پر اپنی جانب سے ہی سزا تجویز کر دی تھی۔۔۔ جس کے تحت وہ پچھلے اتنے سالوں سے زندہ لاش
بنے بیڈ پر پڑے تھے۔۔۔۔
وہ دیکھ اور سن سکتے تھے۔۔۔ مگر کچھ بولنے اور اپنے جسم کے کسی بھی حصے کو زر اسا بھی ہلا پانے کے قابل نہیں تھے۔۔۔۔
اُن کے گھمنڈ اور تکبر نے انہیں اس حال میں پہنچا دیا تھا۔۔۔
زوہان آژ میر سے بہت لڑا تھا۔۔۔ اُسے پتا تھا آژمیر کے کہنے پر ہی ملک فیاض کو سخت سیکیورٹی میں رکھا گیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ملک فیاض تک پہنچ کر ۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے اُس کا گلا دبا کر ختم کر دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ لیکن آژمیر اُسے کچھ بھی بتانے کے
حق میں نہیں تھا۔۔۔۔
وہ اپنے بھائی کے ہاتھ اپنے ہی باپ کے خون سے رنگتے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ اُس دن کے بعد سے دونوں کی دشمنی کا
آغاز ہوا تھا۔۔۔۔
جس کی شروعات زوہان نے ہی کی تھی۔۔۔ لیکن اس کاریزن آژ میر تھا۔۔۔۔ کیونکہ آژ میر زوہان کے سر کوئی الزام نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
زوہان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میر ان پیلس چھوڑ کر جاچکا تھا۔۔۔۔ سب نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ مگر
آژ میر نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔۔۔۔
آژمیر کے مطابق زوہان کا فلوقت یہاں سے چلے جانا اُس کی زہنی کنڈیشن کے لیے ٹھیک تھا۔۔۔۔
زوہان کو اُس بکھری حالت میں تحریمہ بیگم اور فائز کی مشترکہ کزن نفیسہ بیگم نے اپنی ممتا بھری آغوش میں لیتے سنبھالا تھا۔۔۔ تحریمہ بیگم کے غائب ہونے کے بعد سے نفیسہ بیگم ہی اُن کا سارا بزنس سنبھال رہی تھیں۔۔۔۔ فائز نے میران پیلس جانے سے پہلے نفیسہ بیگم کو ساری حقیقت سے آگاہ کر رکھا تھا۔۔۔
نفسیہ بیگم جو اپنی بہن جیسی کزن کے مل جانے پر بے پناہ خوش ہوئی تھیں۔۔۔ کچھ گھنٹوں کے بعد اُن کی ڈیڈ باڈیز نے انہیں زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے دو چار کر دیا تھا۔۔۔۔۔ لیکن اس مشکل وقت میں اُنہوں نے اپنا غم بھلا کر زوبان کو سنبھالا تھا۔۔۔۔ زوہان کو بہت عرصہ لگا تھا سنبھلنے میں۔۔۔۔۔۔۔ وہ اندر سے بالکل کھو کھلا ہو چکا تھا۔۔۔ محبت بھر ادل رو کھنے والا نرم دل شخص خود پر بے حسی اور سر دین کی چادر چڑھا گیا تھا۔۔۔
اُس کی میران پیلس والوں کے لیے نفرت دن بدن بڑھتی چلی گئی تھی۔۔۔ وہ اتنے بڑے ظلم پر خاموش ہو کر خود بھی اُس ظلم میں برابر کے شریک ہو چکے تھے۔۔۔
زوہان کے کہنے پر نفیسہ بیگم نے اُن پر کیس کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر کوئی ٹھوس ثبوت اور زوہان کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کیس لمبے عرصے تک نہیں چل پایا تھا۔۔۔۔
زوہان نہیں جانتا تھا لیکن اکثر اس کی غیر موجودگی میں آژمیر اور زنیشہ نفیسہ بیگم سے ملنے آتے رہے تھے ۔۔۔۔ اور آژمیر
زوہان کے حوالے سے پوری طرح اُن سے رابطے میں رہا تھا۔۔۔۔
زوہان نے آژمیراور میر ان پیلس کے باقی افراد کو ٹارچر کیار کھا تھا۔۔۔ آژمیرزوہان کو اپنے ساتھ الجھائے رکھنے اور وہ
کوئی انتہائی قدم نہ اُٹھا لے۔۔۔۔ اسی غرض سے اُسے اب تک اس دشمنی کو طول دیتا آیا تھا۔۔۔
مگر زنیشہ کے حوالے سے وہ کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔ اُسے پہلے یہی لگا تھا کہ زوہان کی زنیشہ کے لیے یہ چاہت دیکھنا اُس کے انتقام کا ہی ایک حصہ تھا۔۔۔۔
لیکن جب اُسے یقین ہوا کہ زوہان سچ میں زنیشہ سے محبت کرتا ہے تو اس نے یہ رشتہ جوڑنے میں زرا سا بھی ٹائم نہیں لگایا
وہ اندر ہی اندر زوہان کو ایک مخلص ساتھی مل جانے پر دل سے خوش تھا۔۔۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ زنیشہ کے لیے زوبان سے بہتر جیون ساتھی کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔
اتنے سال بیت چکے تھے۔۔۔ مگر نہ زوہان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوئی تھی۔۔۔ اور نہ اُن دونوں بھائیوں کے بیچ سکا نفرت کی چنگاری بجھ پائی تھی۔۔۔۔۔
لیکن آژ میر نہیں جانتا تھا کہ زوبان کی اتنے سالوں کی کوششیں رنگ لانے والی تھیں۔۔۔۔وہ بہت حد تک ملک فیاض کا سراغ لگا چکا تھا۔۔۔ اب بس تھوڑا سا انتظار تھا۔۔۔۔ جس کے بعد وہ اُس درندے کو اُس کی اصل جگہ پہنچانے والا
تھا۔
@@@@@@@@
“کیا ہو اشا کر بھائی۔۔۔ آژمیر نے کچھ بتایا ہے۔۔۔۔ وہ اس طرح پریشانی میں کہاں گیا ہے۔۔۔۔۔ ؟؟؟”
آژمیر کے اس طرح اچانک چلے جانے پر وہ سب ہی اپنی جگہ پریشان بیٹھے تھے۔۔۔ کیونکہ آژ میر کال پک نہیں کر رہا تھا۔۔۔ اور وہ جس طرح پریشانی کے عالم میں نکلا تھا۔۔۔ اُس کا اند از نارمل بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔
فیصل سے بات ہوئی ہے میری ابھی۔۔۔۔”
شاکر صاحب آگے بولے جانے والے الفاظ پر اٹکے تھے ۔۔۔ سب کی نگاہیں اُن پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ ” فیاض لالہ کو ہوش آگیا ہے۔۔۔۔ اور آژمیر سے بھی پہلے زوہان وہاں پہنچ گیا ہے۔۔۔۔۔اسی پریشانی میں آژمیر اتنی
تیزی سے نکلا ہے یہاں سے۔۔۔۔ اب اللہ خیر ہی کرے۔۔۔ قاسم کی بات ہوئی ہے۔۔۔۔ شہاب بھائی صاحب
سے ۔۔۔۔ وہ لوگ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ زوہان کو فیاض لالہ تک نہ پہنچنے دیں۔۔۔ لیکن آپ سب واقف تو ہیں زوہان کے غصے سے۔۔۔۔ اور جس قدر نفرت وہ اپنے باپ سے کرتا ہے۔۔۔۔وہ اگر اُن تک پہنچ گیا تو۔۔۔۔ مزید سانسیں لینے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔
شاکر صاحب کی بات پر وہاں موجود حقیقت سے آگاہ لوگوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔
جبکہ باقی سب نے حیرانگی بھری نظروں سے شاکر صاحب کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
آژ میر نے ملک فیاض کو ٹریٹمنٹ کے لیے زوہان سے چھپا کر شہاب درانی کے ہاسپٹل میں رکھا ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ اُن کے علاوہ اتنا ٹرسٹ کسی پر نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اور شہاب درانی نے بھی اُس کے بھروسے کی لاج ہمیشہ رکھی تھی ۔۔۔۔ زوبان کے آدمی کئی بار اُن کے ہاسپٹل تک پہنچے تھے ۔۔۔ مگر شہاب درانی نے اُن کو بھنک بھی نہیں پڑنے دی تھی۔۔۔ اُن کے ریکارڈز میں ملک فیاض کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔۔۔ لیکن اس بار زوہان نے پوری تیاری کے ساتھ اُن کو کچھ بھی کرنے
کا موقع نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔
قاسم آژ میر کے پیچھے جا چکا ہے۔۔۔ میں بھی جارہا ہوں۔۔۔۔۔
شاکر صاحب مزید کوئی بات کیسے بنا وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔۔
مجھے زوہان کے پاس جانا ہے اماں سائیں۔۔۔ وہ کچھ غلط نہ کر دیں۔۔۔
زنیشہ کا دل زوہان کی فکر میں بیٹھا جارہا تھا۔۔۔ اُس کا غصہ کتنا جنونی تھا وہ سب اچھے سے جانتے تھے۔۔۔ اور اس معاملے
میں تو اُس کی غضبناکی کی کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔۔۔۔
شمسہ بیگم تو خو د سکتے میں تھیں۔۔۔۔ اُن کے شوہر نے جو ظلم ڈھایا تھا۔۔۔ اتنے سالوں کے بعد بھی وہ اپنے دل کو انہیں معاف کرنے کے لیے منا نہیں پائی تھیں۔۔۔۔
تحریمہ بیگم کی اُجاڑ ویران زندگی تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔۔۔۔
اُس بد قسمت عورت کا دکھ آج بھی اُن کے دل کو رلا جاتا تھا۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ زوہان انہیں بہت پیارا تھا۔۔۔۔ وہ اُس کا درد سمجھتی تھیں۔۔۔ لیکن یہ بھی چاہتی تھیں۔۔۔ کہ وہ اپنی نفرت ختم کر کے اُن کے ساتھ آکر رہے۔۔۔
شمسہ بیگم ان کا سامنا بالکل بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔۔ لیکن اس وقت وہ اپنے بچوں کو بھی اکیلا نہیں چھوڑسکتی
زوہان اور آثرژ میر آج پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے والے تھے۔۔۔۔ جس ٹکراؤ سے میر ان پیلس کا ہر فرد ڈرتا
تھا۔۔۔۔۔
حاعفہ اور ماور اسمیت باقی سب بھی حقیقت سے انجان تھے۔۔۔ جب حائفہ کے پوچھنے پر حمیر ابیگم انہیں سب بتاتی چلی گئی تھیں۔۔۔۔ اب آگے جو ہونے والا تھا اس کے بارے میں گھر کے پر فرد کو معلوم ہونا اُن سب کے حق میں ہی بہتر تھا۔۔۔
اس تلخ حقیقت کے بارے میں جان کر حائفہ سمیت باقی سب کا دل بھی درد سے بھر گیا تھا۔۔۔ کوئی انسان اتنا ظالم بھلا کیسے
ہو سکتا تھا۔۔۔۔
حائفہ کے دل میں آژ میر کے لیے محبت اور عزت مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔ جو اپنے سے جڑے ہر رشتے کا حق ادا کرنا جانتا
تھا۔۔۔۔اتنی مخالفت کے باوجود اس نے آج تک اپنے بھائی کی فکر کرنا نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔
اور زوہان بھی اتنی بد گمانی اور ناراضگی کے باوجود چاہ کر بھی آج تک آژمیر کے ساتھ کچھ غلط نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔ یہاں
تک کہ اُس کی خاطر گولی تک اپنے وجود پر جھیل گیا تھا۔۔۔۔
اُن دونوں کا رشتہ بہت مضبوط اور پیارا تھا۔۔۔ اُن سب کے دل اب بس اسی بات کے لیے دعا گو تھے۔۔۔ کہ وہ دونوں پھر
سے پہلے جیسے ہو جائیں۔۔۔۔
لیکن ملک فیاض کے ہوش میں آنے اور زوہان کے عین اُسی ٹائم پر پہنچنے نے سارا معاملہ ہی خراب کر دیا تھا۔۔ اُن میں سے کوئی بھی میران پیلس میں چین سے نہیں بیٹھ پایا تھا۔۔۔ آگے پیچھے اب کی گاڑیاں مظفر آباد میں موجود شہاب
درانی کے ہاسپٹل کی جانب روانہ ہو چکی تھیں۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@
ز وہان بیٹا جب تک آژ میر نہیں آجاتا میں آپ کو فیاض صاحب سے نہیں ملنے دے سکتا۔۔۔۔ پلیز میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔”
شہاب درانی زوہان کو بہت مشکل سے روکے کھڑے تھے۔۔۔ جس کا بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔ فوراً سے بھی پہلے اندر جاکر
ملک فیاض کو ویسے ہی جلا کر راکھ کر دے۔۔۔۔ جیسے اُس شخص نے اُس کی ماں کو جلایا تھا۔۔۔۔
دیکھیں آپ سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے۔۔۔ آپ پلیز بیچ میں آکر اپنا نقصان مت کریں۔۔۔۔۔ زوہان اس وقت کسی کا لحاظ رکھنے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔ منہاج اس وقت ایک بہت اہم آپریشن میں بزی تھا۔۔۔اس لیے وہ ابھی تک اِس سارے معاملے سے ناواقف ہی تھا۔۔۔
لیکن شہاب درانی اُسے ملک فیاض کی سیکیورٹی کی وجہ سے ہی اس ساری حقیقت سے آگاہ کر چکے تھے ۔۔۔ جسے سن کر ایک بار تو منہاج کا بھی خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔ مگر وہ ڈاکٹر تھا اُس کا کام لوگوں کی زندگی لینا نہیں۔۔۔ نئی زندگی سونپنا تھا۔۔۔۔ اس لیے وہ ملک فیاض جیسے شخص کی کیئر کرنے پر مجبور تھا۔۔۔۔
سر پیشنٹ اپنی فیملی ممبر سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔
اندر سے نکلتی نرس نے جو الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔ اُس نے زوبان کے تن بدن میں چنگاریاں جلا کر رکھ دی تھیں۔۔۔۔
تو آژ میر میر ان نے یہاں بھی مجھ سے جھوٹ بولا۔۔۔۔
زوہان نے مٹھیاں سختی سے بھینچ رکھی تھیں۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ سامنے کھڑے شہاب درانی اور اُن سے پیچھے کھڑے گارڈز کو وہاں سے اُڑا تا اندر داخل ہو تا۔۔۔۔ جب آژمیر کی پکار پر اُس کی آنکھوں میں وحشت ناچ گئی تھی۔۔۔
وہ پلٹا نہیں تھا۔۔۔ جب آژمیر تشکر آمیز نگاہوں سے شہاب درانی کو دیکھتا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ تم اندر نہیں جاسکتے۔۔۔۔۔
آثر میر نے اُس کی لال آنکھوں میں دیکھتے بے لچک انداز میں کہا تھا۔۔۔۔
میران پیلس سے لے کر یہاں تک کا سفر اُس نے کیسے کاٹا تھا۔۔۔ یہ وہی جانتا تھا۔۔۔۔ اُسے ملک فیاض کی فکر نہیں تھی۔۔۔ باپ کی محبت تو اُس کے دل سے اُسی وقت نکل گئی تھی۔۔۔ جب اُس نے اپنے باپ کو درندہ نماوحشی بنا دیکھا
آژ میر کو فکر تھی تو زوہان کی۔۔۔۔ جو اپنے ہاتھ ملک فیاض کے خون سے رنگنے کے لیے پاگل ہو رہا تھا۔۔۔ وہ ملک فیاض کو اس حال میں پہنچانے کے باوجود خود کو اپنی ماں کا مجرم سمجھتا تھا۔۔۔ کہ یہ شخص اُن پر اتنے ظلم ڈھانے کے باوجود ابھی تک سانسیں لے رہا تھا۔۔۔۔
تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ گھٹیا نکلے آژمیر میر ان۔۔۔۔۔۔ منافق ہونے کے ساتھ ساتھ اتنے بڑے جھوٹے اور
دھو کے باز نکلو گے مجھے یہ اُمید تو نہیں تھی تم سے۔۔۔۔۔ اُس شخص کی درندگی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجو د اُسے یہاں آسائش بھری زندگی مہیا کر رہے ہو ۔۔۔ تف ہے تم پر۔۔
زوہان کا اشارہ ملک فیاض کے ہوش میں ہونے کی جانب تھا۔۔۔ اُسے آژ میر کی زبانی ہی یہی پتا تھا کہ ملک فیاض ابھی تک زندہ لاش کی طرح بیڈ پر پڑا ہے۔۔۔۔
مگر ابھی نرس کے الفاظ اُسے مزید تکلیف سے دوچار کر گئے تھے۔۔۔۔ اور وہ انہیں کا غصہ آژمیر پر نکالتے انتہائی تلخ ہوا
تھا۔۔۔۔
قاسم صاحب اور باقی سب بھی آژمیر کے پیچھے وہاں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔ لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی۔۔۔ آگے بڑھ کر بھرے شیر کی طرح دھاڑتے زوہان کو سنبھالنے کی۔۔۔۔ جو اُن کی سوچ سے بھی زیادہ غضبنا کی کی انتہاؤں کو چھو رہا
تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے آگے آنا چاہا تھا مگر قاسم صاحب اُسے روک گئے تھے۔۔۔۔ اس وقت یہ سچویشن آژمیر ہی ہینڈل کر سکتا
تھا۔۔۔۔۔
“ملک فیاض کو آج ہی ہوش آیا ہے۔۔۔۔۔”
آژمیر اُس کی اتنی تلخی کے باوجود مختصر ابولا تھا۔۔۔۔
تمہیں لگتا ہے میں اب بھی تم پر یقین کروں گا۔۔۔۔ میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔۔۔۔ ورنہ آج میں تمہارالحاظ بھی نہیں کروں گا۔۔۔۔ شدید نفرت محسوس کر رہاہوں میں اس وقت تم سے۔۔۔۔۔ میری اس بات کو خالی دھمکی سمجھنے کی غلطی
مت کرنا۔۔۔۔۔
زوہان نے کوٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکالتے آزمیر کے سینے پر رکھتے پیچھے کھڑے ہر شخص کی سانسیں روک دی تھیں۔۔۔۔ شمسہ بیگم اور حائفہ نے تڑپ کر آگے آنا چاہا تھا۔۔ لیکن آژ میر نے ہاتھ کے اشارے سے اُن سب کو وہیں روک دیا
زنیشہ تو نڈھال سی قاسم صاحب کے ساتھ لگی کھڑی اُن دونوں کو دھندلائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ “تمہیں لگتا ہے۔۔۔ میں یقین کر لوں گا اس بات پر۔۔۔۔۔”
آژمیر ایک قدم مزید آگے بڑھا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے زوہان کے پسٹل کی نوک اُس کے سینے میں کھب سی گئی تھی۔۔۔ حاعفہ نے بُری طرح سسکتے ہو نٹوں پر ہاتھ رکھتے خوف کے عالم میں اپنی منہ سے نکلتی چیچ کا گلا گھونٹا تھا۔۔۔۔ نشانہ آژ میر کے سینے پر تھا۔۔۔ مگر خنجر اُسے اپنے سینے میں پیوست ہو تا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ زوہان جس قدر غصے میں
تھا۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔۔
میں میں مر دوں گا تمہیں
زوہان اُس کے اتنے یقین پر جیسے مزید پاگل ہوا تھا۔۔۔۔
مار دو۔۔۔۔ میر اسینہ چھلنی کر کے اندر جاسکتے ہو تو جاؤ۔۔۔۔۔
آژمیر کے مضبوط لہجے پر پیچھے کھڑے تمام افراد کے دل خوف سے کانپ اُٹھے تھے۔۔۔۔۔ زوہان کا ہاتھ ٹریگر پر تھا۔۔۔ غلطی سے بھی گولی چل سکتی تھی۔۔۔ اُن سب کو یہی خوف کھائے جار ہا تھا۔۔۔۔
لیکن آژ میر کو سامنے کھڑے اپنے بھائی پر پورا بھروسہ تھا۔۔۔۔ جو انجانے میں بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔۔۔
تم اس گھٹیا شخص کو بچانے کے لیے۔۔۔۔ یہ سب کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہان کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔۔۔
نہیں میں اپنے بھائی کو بچانے کے لیے یہ کر رہا ہوں۔۔۔ جس سے میں بے پناہ محبت کر تاہوں۔۔۔۔ اور نہیں چاہتا وہ اپنے ہاتھ کسی ایسے شخص کے خون سے گندے کرے۔۔۔ جو انسانیت کے مرتبے سے بھی خود کو گر اچکا ہے۔
آژمیر کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر زوہان نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔۔۔۔۔
اُسے یقین نہیں آیا تھا کہ یہ الفاظ آژمیر نے ادا کیے تھے۔۔۔۔
اور بس زوہان میں اس سے زیادہ آژمیر کے سینے پر پسٹل تانے کی ہمت نہیں رہی تھی۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔۔ تم اس طرح بناوٹی باتیں کر کے مجھے اپنے قریب میں الجھا کر اپنے باپ کو یہاں سے فرار کر والو
گئے۔۔۔۔
زوہان پسٹل پوری قوت سے زمین پر پٹختا آثر میر کا گریبان تھام گیا تھا۔۔۔۔لیکن اس بار بھی آژ میر اُسے بنارو کے ہاتھ گرائے کھڑا رہا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ زوہان کو اُس پر بے پناہ غصہ ہے۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا آج زوہان اپنے دل کی بھر اس اُس پر نکال دے۔ میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔ مجھے اُس شخص سے نہ پہلے ہمدردی تھی نہ ہی اب ہے۔۔۔۔ میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا
ہوں کہ تم اپنی ماں کے مجرم کو سزا دینے میں ناکام نہیں رہے۔۔۔ بلکہ تم اُن کا انتقام اُسی وقت ، اُسی جگہ پر لے چکے تھے۔۔۔۔۔ اور ملک فیاض کا بچنا میرے رب نے لکھا تھا۔۔۔۔ کیونکہ دوسروں کو اتنی تکلیف دے کر بھلاوہ شخص اتنی آسان موت کیسے مر سکتا تھا۔۔۔۔
اُس کا زندہ بچ جانا ہی اُس پر سب سے بڑا عذاب تھا ۔۔۔۔ پچھلے اتنے سالوں سے وہ زندہ لاش کی طرح بستر پر پڑا ہے۔۔۔ اور آج جب اُسے ہوش آیا ہے۔۔۔۔ تو جانتے ہو ڈاکٹر کو دو مہینے پہلے کیاری پورٹس ملی تھیں اُن کی۔۔۔۔۔۔ انہیں بلڈ کینسر ہے۔۔۔وہ بھی لاسٹ سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔۔۔ وہ چند دنوں سے زیادہ سروائیو نہیں کر سکتے۔
ایسے شخص کو مار کر کیا کرو گے تم۔۔۔۔۔
آژ میر کی بولی جانے والی سچائی پر زوہان نے خاموش نگاہوں سے آژمیر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
سب کے دل اپنے پروردگار کے اس اانصاف پر جھک گئے تھے۔۔۔۔ جو کسی مظلوم کی آہ خالی نہیں جانے دیتا تھا۔۔۔ ملک فیاض نے ساری عمر تحریمہ بیگم کو تڑپایا تھا۔۔۔ اُن سے اُن کا سب کچھ چھین کر ۔۔۔۔ ظلم کے پہاڑ توڑ کر رکھ دیئے تھے۔۔۔۔۔ تحریمہ بیگم کی آہیں اور سسکیاں رائیگان نہیں گئی تھیں۔۔۔۔۔
خدا کی لاٹھی بے آواز تھی۔۔۔ جب پڑتی تھی تو ملک فیاض جیسے انسانوں کے گھمنڈ اور تکبر سمیت اُن کو ایسے ہی زمین پر
شیخ دیتی تھی۔۔۔۔
” میں اُس شخص کا یہ عبرت ناک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔”
زوہان کے لہجے میں اب پہلے جیسی سختی مفقود تھی ۔۔۔۔۔۔
اُس کی بات پر آژ میر نے سر ہلاتے اُسی لمحے وہاں آئے منہاج کی جانب پلٹ کر دیکھا تھا۔۔۔۔۔ جو ابھی کچھ ۔
وہاں آیا تھا۔۔۔
ماور امیر ان پیلس سے آمنہ بیگم کی کال آجانے کی وجہ سے کچھ سیکنڈ پہلے ہی وہاں سے ہٹی تھی۔۔۔۔
“آئیں آپ لوگ۔۔۔۔”
منہاج انہیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا۔۔۔۔ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہو ا تھا۔۔۔۔
share with your frinds on Facebook
1 Comment
Add a Comment