Haifa and Zanisha Novel Part 29 – Urdu Font Novel | Read Online & Free PDF


In Part 29, the captivating journey of Haifa and Zanisha continues with even more emotional drama, heartfelt moments, and bold storytelling. This part is presented in a clean and easy-to-read Urdu font, making it a perfect experience for readers who enjoy traditional Urdu novels with modern storytelling.

Whether you’re reading for romance, drama, or depth of character, this episode delivers everything in a beautifully written Urdu font novel format.

urdu font novel

Haifa and Zanisha Novel Part 29 – Urdu Font Novel

Read Here Haifa and Zanisha Novel Part 28 – Urdu Sad Story

ملک فیاض کی حالت بہت نازک تھی۔۔۔۔ وہ ایک بار سب کو بلا کر معافی مانگنا چاہتے تھے۔۔۔ اس لیے آژمیر نے باقی
سب کو بھی اشارہ کرتے اپنے پیچھے آنے کو کہا تھا۔۔۔
ملک فیاض پر نظر پڑتے ہی اُن سب کے دل خوفِ خدا سے کانپ اُٹھے تھے۔۔۔۔
جو اپنے بندوں کے حقوق غصب کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا تھا۔۔۔۔ جس کی زندہ مثال اس وقت ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ملک فیاض تھا۔۔۔۔
جس کی آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں۔۔۔ کہ اُس سے دیکھ پانامشکل ہورہاتھا۔۔۔ جبکہ اُس کے چہرے کی ہڈیاں بالکل واضح ہو رہی تھیں۔۔۔
شمسہ ۔۔۔ آژمیر ۔۔۔ زوہان۔۔۔ مج مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔ میں ب بہ ۔۔۔ بہت ۔۔۔ تک تکلیف میں
ہوں۔۔۔۔
اُن سے بول پانا دشوار ہوا تھا۔۔۔ نرس نے انہیں بتایا تھا کہ جن لوگوں کو وہ صبح سے پکار رہیں ہیں وہ اُن کے پاس آچکے
ہیں۔۔۔۔
ملک فیاض کو دیکھ زوہان کی آنکھوں میں وہ منظر پوری شدت سے روشن ہوا تھا جب وہ اس کی ماں کو زندہ
جلا تا ایسے ہی ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل گیا تھا۔۔۔۔

میری ماں بھی تمہارے آگے ایسے ہی تڑپی تھی۔۔۔ کیا قصور تھا اُن کا۔۔۔ بولو۔۔۔کیوں چھینا انہیں مجھ سے۔۔۔۔ زوہان اب بھی اس شخص کی خود غرضی پر ضبط نہ رکھ پاتے اُس کا گلا دبانے کی نیت سے اُس پر جھکا ہی تھا۔۔۔۔ جب آژ میر
اور منہاج نے بروقت آگے آتے اُسے پوری طرح جکڑتے وہیں روک لیا تھا۔۔۔
“زوہان نہیں۔۔۔۔”
آژ میر نے نفی میں سر ہلاتے اُسے دیکھا تھا۔۔۔ وہ دونوں ہی اُسے پکڑ کر وہاں سے لے گئے تھے۔۔۔ کیونکہ وہ جن انتقام بھری نظروں سے ملک فیاض کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اُس سے کوئی بعید نہیں تھی۔۔۔ گارڈز سے گن لے کر ملک فیاض کے وجود کو گولیوں سے چھلنی کر دے۔۔۔۔
ماور اجو اُسی لمحے روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ زوہان کے ساتھ وہاں سے نکلتے منہاج کو دیکھ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔
منہاج کے اس سچویشن میں یوں اچانک سامنے آجانے پر ماورا کو سمجھ ہی نہیں آیا تھا کہ کیسے ری ایکٹ کرے۔۔۔۔۔۔اُس کے دل میں اتنے دنوں سے بھری بے چینی کہیں دور بھاگ گئی تھی۔۔۔۔ منہاج کو وائٹ کوٹ پہناد یکھ وہ یہی سمجھی تھی کہ منہاج یہاں جاب کرتا ہے۔۔۔۔ اس بات سے بے خبر کے وہ اُسی کے سسر کا ہاسپٹل تھا۔۔۔ماورا تیز قدموں سے منہاج کے پیچھے بڑھی تھی۔۔۔ جو زوہان اور آژ میر کو شہاب درانی کے آفس تک چھوڑ تا خود اپنے آفس کی جانب بڑھ گیا
تھا۔۔۔

وہ اُن دونوں بھائیوں کی پرائیویسی ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ماورا تیز تیز قدموں سے منہاج کے پیچھے بڑھ رہی تھی۔۔۔ جب ایک طرف کھڑی نرسز کی۔۔۔ کی جانے والی گفتگو اُس کے قدم زمین میں ہی جکڑ گئی تھی۔۔۔
@@@@@@@@@@
یہ ڈاکٹر منہاج درانی کی تو دو دن بعد شادی ہے نا۔۔۔ مجھے تو لگا تھا کہ اب یہ شادی کے بعد ہی ہاسپٹل آئیں گے۔۔۔ لیکن اپنے کام کو لے کر بہت سینسر ہیں۔۔۔ زرا سی بھی کوتاہی نہیں کرتے۔۔۔۔
وہ لوگ اور بھی بہت کچھ بول رہی تھیں۔۔۔ مگر ماورا کے دل و دماغ میں تو منہاج کی شادی والی بات اٹک کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ گزرے دنوں وہ جس ذہنی ٹینشن کا شکار تھی ۔۔۔۔۔ اس وقت اُس کا دماغ اس بات پر توجہ دے ہی نہیں پایا تھا
کہ اُس کی بھی تو دو دنوں بعد شادی تھی۔۔۔۔
ماورا اپنی غلطی کو فراموش کرتی منہاج کی اس بے وفائی پر پوری جان سے سلگ اٹھی تھی ۔۔
اُس کا رخ سامنے ڈاکٹر منہاج درانی کی جگمگاتی نیم پلیٹ کے ساتھ موجود آفس کی جانب تھا۔۔۔۔ دھاڑ سے دروازہ دھکیلتی وہ اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔ جہاں منہاج کے سامنے تین انتہائی خوبصورت سی ڈاکٹر ز کو بیٹھے کسی پیشنٹ کے حوالے سے ڈسکشن کرتا دیکھ ماورا کا پارہ مزید چڑھا تھا۔۔۔
منہاج بھی ماورا کو وہاں دیکھ پل بھر کو چونکا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اجنبی بنتا اُسے کڑے تیوروں سے گھور گیا تھا۔۔۔

واٹس رانگ و دیو ۔۔۔ محترمہ ؟؟؟؟ یہ کیا طریقہ ہے کسی کے آفس میں داخل ہونے کا۔۔۔۔۔ واپس باہر جائیں اور
دروازہ ناک کر کے پر اپر پر میشن لیں۔۔۔۔”
منہاج اس کے ساتھ ایسے پیش آیا تھا جیسے اُسے بالکل بھی نہ جانتا ہو۔۔۔۔۔
وہاں بیٹھی ڈاکٹر ز نے بھی ماورا کی مداخلت پر اُسے ناپسندیدگی بھری نظروں سے گھورا تھا۔۔۔۔
جبکہ ماورا تو اُس کے اس اجنبیت بھرے برتاؤ پر سکتے کے عالم میں اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ جس کے ساتھ ہی اُس کی سنہری دلکش آنکھوں سے قطار در قطار موٹے موٹے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
اور بس منہاج درانی اس سے زیادہ سختی نہیں برت پایا تھا اس سے۔۔۔ منہاج کے اشارے پر وہ تینوں خاموشی سے اُٹھ گئی
“کیوں آئی ہو یہاں۔۔۔۔؟؟؟”
منہاج نے کرسی کارخ اُس کی جانب گھماتے اس کی لال سوجی آنکھوں کو گھورتے پوچھاتھا۔۔۔
آپ شادی کر رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے سب سے پہلے وہی بات پوچھی تھی۔۔۔ جو چند لمحوں میں ہی اس کی دھڑکنیں مدھم کر گئی تھی۔۔۔

جبکہ منہاج تو اُس کے منہ سے اپنے لیے لفظ آپ سن کر ہی ششدر ہوا تھا۔۔۔ اُس کی جدائی کس قدر بدلاؤ لے آئی تھی
اس لڑکی میں۔۔۔۔
” اس میں اتنے حیران ہونے والی بات کیا ہے۔۔۔؟؟؟ ہر کوئی کرتا ہے شادی۔۔۔
منہاج ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے اُن کے درمیان سب نارمل ہو۔۔۔۔
“لیکن آپ کی شادی مجھ سے ہو چکی ہے۔۔۔ آپ بھلا یہ کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔۔ ؟؟؟”
ماورا کو اُس کا یہ لا پرواہ اند از خفگی سے لال کر گیا تھا۔۔۔۔
ماورا بھیگی آنکھیں صاف کرتی اس کی سنگدلی پر مزید اذیت کا شکار ہوتی وہاں سے جانے کے لیے پلٹی تھی۔۔۔۔
اُس نے ابھی پہلا قدم بڑھایا ہی تھا جب منہاج نے اُس کی ٹانگ کے آگے پیر کرتے اُس کا بیلنس بگاڑ دیا تھا۔۔۔
ماورا کوشش کے باوجو د نہ سنبھل پاتی سید ھی منہاج کے اوپر آن گری تھی۔۔۔۔
منہاج نے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنے قریب تر کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
کیوں اگر تم مجھے تڑپتا چھوڑ کر جاسکتی ہو۔۔۔ تو میں دوسری شادی کیوں نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔؟؟؟”
اُس کے آنسوؤں سے نم ہوئے گالوں کو ہونٹوں سے چھو تا منہاج اپنے گزرے لمحوں کی تشنگی ختم کرنے لگا تھا۔۔۔

ماورا اُس کی گرم سانسوں اور دہکتے لمس پر کسمساتی لرز اٹھی تھی۔۔۔۔
منہاج کے اس انوکھے غصے کا اظہار اُس کو سر تا پائرخ کر گیا تھا۔۔۔۔
” پلیز چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔”
ماورا اُس کی بے باکیوں سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔ اس لیے کانپتی آواز کے ساتھ بولتی اس کا حصار توڑ گئی تھی۔۔۔۔ ماورالال چہرے کے ساتھ اُس سے فاصلے پر جا کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
جب منہاج اُسے کوئی مہلت دیئے بغیر اُس کی دونوں کلائیاں جکڑ کر پیچھے دیوار کے ساتھ نکا تا پوری طرح اُس کے نازک
وجود پر حاوی ہو ا تھا۔۔۔۔۔
میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔۔۔۔ میں اس وقت بہت مجبور ہو چکی تھے تھی۔۔۔ ماورا نے اُس کے جارحانہ تیوروں سے گھبرا کر بولتے اُسے اصل بات بتانا چاہی تھی۔۔۔۔ جس کے بارے میں حائفہ پہلے ہی منہاج کو سب بتا کر کافی حد تک ماورا کی پوزیشن اُس کے سامنے کلیئر کر چکی تھی۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ منہاج پہلے کی نسبت
اُس سے بہت حد تک نرمی سے پیش آرہا تھا۔۔۔۔۔
لیکن منہاج کا اس بات پر ماور اپے غصے کم نہیں ہو رہا تھا کہ اس نے منہاج پر اعتبار کر کے اُسے اپنی پریشانی کیوں نہیں بتائی تھی۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اُس کی مدد کرنے کی پوری طاقت رکھتا تھا۔۔۔۔

اُس کی اس غلطی پر منہاج دل کی دہائیوں کے باوجود اُسے اتنی آسانی سے معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔ ایسی کی تیسی تمہاری مجبوری کی۔۔۔۔ میں مر گیا تھا کیا۔۔۔۔ جو میرے پاس آنے کے بجائے فرار ہو کر کہیں اور نکل گئی۔۔۔ اور سچ بتانے کے بجائے وہ فضولیات بھر اخط چھوڑ گئیں میرے لیے۔۔۔۔ تمہیں یہ لگا بھی کیسے کہ میں تم سے اتنی آسانی سے دستبر دار ہو جاؤں گا۔۔۔۔ اور یہ جان کر کے تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔۔۔۔ میں تمہیں بنا کچھ کہیں چھوڑ دوں
ماور ا کے وجود کی حرارت منہاج با آسانی محسوس کر پار ہا تھا۔۔ اُسے بخار تھا یہ بات تو پہلے سے اُس کے علم میں تھی۔۔۔ مگر بخار کی شدت اس قدر تھی منہاج کو بالکل اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔
اسی لیے ہی تو وہ سب بول کر گئی تھی۔۔۔ کہ آپ غصے میں ہی سہی۔۔۔ مگر مجھ ڈھونڈنے کی کوشش تو کریں گے
ماور انہایت ہی معصومیت سے بولتی منہاج درانی کو گھائل کر گئی تھی۔۔۔۔
لیکن آپ نے تو مجھے ڈھونڈ نا تو دور کی بات نجانے کس لڑکی سے شادی بھی طے کر لی۔۔۔۔ اتنی سی ہی تھی آپ کی محبت۔۔
ماور ا بڑے آرام سے سارا الزام اس کے کندھوں پر ڈال گئی تھی۔۔۔۔

” جس لڑکی سے میری شادی طے ہوئی ہے۔۔۔۔ بہت محبت کرتا ہوں اُس سے۔۔۔۔ اُس کے بغیر رہنا گوارہ نہیں ہے مجھے۔۔۔۔ ہاں اگر تم اُس کے ساتھ کمپرومائز کر سکتی ہو تو میں تم سے بھی شادی کرلوں گا۔۔۔۔ مجھے کوئی ایشو نہیں
منہاج نے اُس کا دل جلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔
“چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔”
ماورا غصے سے لال چہرے کے ساتھ منہاج سے اپنی کلائیاں آزاد کرواتی دروازے کی جانب بڑھی تھا۔
” کہاں جارہی ہو ۔۔۔۔ ؟؟؟”
منہاج نے اس کے ایسے ری ایکشن پر حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
اُس لڑکی کو ڈھونڈ کر اپنے ہاتھوں سے اُس کا گلا دبانے۔۔۔۔”
مادر خونخوار لہجے میں بولتی منہاج کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔۔۔ جسے اس نے ہونٹ بھینچتے ماورا
سے پوشیدہ رکھا تھا۔۔۔۔۔
” تم اسے کوئی تکلیف نہیں دو گی۔۔۔ ابھی تک جتنی تکلیف دے چکی ہو وہ کافی ہے۔۔
منہاج اس کی جانب بڑھتا اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر بانہوں میں بھر تا اپنی کرسی میں بیٹھا گیا تھا۔۔

ماورا ابھی تک سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہ کس کی بات کر رہا ہے۔۔۔۔ اس لیے اُسے کسی اور لڑکی کے بارے میں ایسے پوزیسو ہوتا دیکھ اُس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئی تھیں۔۔۔۔۔
آپ کو اچانک سے کسی سے اتنی محبت بھی ہو گئی اور اس کی تکلیف کا اتنا احساس ہے۔۔۔۔ مگر میری اذیت نظر نہیں آرہی
آپ کو۔۔۔۔ پچھلی پانچ راتوں سے سوئی نہیں ہوں میں۔۔۔۔۔ میرے گھر والوں نے مجھ سے پوچھے بغیر میری شادی فکس کر دی ہے۔۔۔۔ نہ آپ کو میری پرواہ ہے نہ اُن میں سے کوئی میری بات سنے کا تیار ہے۔۔۔۔ جب کسی کو میری پر واہ
ہی نہیں ہے تو اس سے بہتر تو یہی ہے کہ میں مر ہی جاؤں۔۔۔ آپ بھی آزاد ہو جائیں گا اور باقی سب کو بھی سکون مل جائے گا۔۔۔۔ کسی کو میری ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ وہ بھی سب بھی جلد از جلد مجھ سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔۔۔ اور
آپ بھی مجھے اپنانا نہیں چاہتے۔۔۔
ماورا دلبر داشتہ ہوتی بُری طرح رو دی تھی۔۔۔
اور بس یہاں پر بریک لگا تھا منہاج کے سارے مذاق کو۔۔۔
وہ اُسے تنگ کر رہا تھا لیکن ماورا کو اس طرح روتا دیکھ اُس کی جان پر بن چکی تھی۔۔
خود کو لاکھوں لعنت ملامت کر تا وہ ماورا کو اپنی جانب کھینچتا اپنے سینے میں بھینچ گیا تھا۔۔۔۔
مذاق کر رہا تھا میری جان۔۔۔۔ میری زندگی میں تمہارے علاوہ کوئی لڑکی کبھی نہیں آسکتی اس بات سے تم بھی اچھی طرح آگاہ ہو۔۔۔۔ اور ساری ٹینشنیں نکال کر یہ بات اپنے دماغ میں اچھی طرح بیٹھا دو کہ میرے ہوتے ہوئے کوئی تم

سے شادی کرنے کی خواہش کر ناتو دور تمہاری جانب آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکے۔۔۔۔ وہ اُلو، جاہل اور گدھا میں ہی ہوں۔۔۔ جو بہت جلد اپنی اس گدھی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے پوری تیاری کر چکا ہے۔۔۔۔
منہاج خود کو اُسی کے کہے جانے والے القابات سے نواز تاہو نٹوں پر دلفریب مسکراہٹ سجائے ، اُسے اپنے سینے سے لگا کر جیسے ایک نئی زندگی دے گیا تھا۔۔۔۔ اُس کی بات سنتے مزید شدت سے رو دی تھی۔۔۔۔
مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔
ماورا اُس کے سینے میں منہ چھپاتی اب کبھی اُس سے جدا ہونے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔ اُس کی بھیگی آواز پر منہاج اُسے
مزید خود میں سمیٹتا اُس کے سر پر لب رکھ گیا تھا۔۔۔۔
جب کافی دیر بعد اپنے دل کا سارا غبار آنسوؤں کے راستہ نکال لینے اور منہاج کی شرٹ اچھی طرح بھگو دینے کے بعد اُس
کے دماغ نے کام کرناشروع کیا تھا۔۔۔
اور وہ ایک جھٹکے سے منہاج سے علیحدہ ہوئی تھی۔۔۔۔
مگر اُس کی کمر کے گرد باز و حمائل کیسے منہاج نے اُسے خود سے دور نہیں جانے دیا تھا۔۔۔۔
مگر میر ارشتہ تو شہاب انکل کے بیٹے سے طے ہوا۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔۔
ماورا بولتے بولتے رکی تھی۔۔۔۔

اُس کا دماغ تیزی سے چلنے لگا تھا۔۔۔ شہاب درانی اور شہر یار سے پہلی بار ملنے کے باوجود اُن کا دیکھا لگنا۔۔۔۔ اور سب کا اِس
شادی کو لے کر حد درجہ ایکسائیٹڈ ہونا۔۔۔۔ماورا کو اُن سب کا کھیل سمجھا گیا تھا۔۔۔۔
جو اُسے اتنے آرام سے بے وقوف بنا گئے تھے۔۔۔۔
سب سے بڑی بات منہاج دو بار اس کے بے جد قریب آکر اسے اپنی موجودگی کا شدت بھرا احساس بھی دلا چکا تھا۔۔۔۔
اور وہ پاگل بالکل بھی نہیں سمجھ پائی تھی۔۔
ماورا کو سب سے زیادہ تو خود پر غصہ آیا تھا۔۔۔۔
منہاج بہت غور سے اُس کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ نوٹ کر تا مسکرادیا تھا۔۔۔
کیسا لگا میر اسرپرائز۔۔۔۔؟؟”
ماورا کے چہرے پر پھلی لٹوں کو انگلی پر لپیٹ کر اُس کا چہرا اپنے قریب لاتے منہاج اُس کے گلابی ہونٹوں کو فوکس کیے مخمور
لہجے میں بولا تھا۔۔۔
آپ نے اُس رات میری جان نکال کر رکھ دی تھی۔۔۔۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے میں کس قدر ڈر گئی تھی ۔۔۔۔ باقی بہت سی باتوں کے ساتھ ماورا کی آنکھوں کے سامنے بارات کی رات والا منظر لہرایا تھا۔۔۔۔ جس میں منہاج نے جنونی انداز میں اُس پر اپنی شد تیں لٹاتے اُس کی جان نکال کر رکھ دی تھی۔۔۔۔

کونسی رات۔۔۔۔۔ اور کیا کیا تھا میں نے۔۔۔۔؟؟؟” منہاج اُس کی بات پر سنجیدہ ہو تالا عملی کا اظہار کرتے بولا تھا۔۔۔
“آپ نے۔۔۔۔”
اب بھی اُس کی باتوں میں آئے بغیر روانی میں ماورا کچھ بولنے ہی والی تھی۔۔۔۔ جب منہاج کی آنکھوں میں چھائی شوخی
دیکھ اُس کی زبان کو بریک لگی تھی۔۔۔۔
اُس کا چہر اسرخ مائل ہو تاتپ اُٹھا تھا۔۔۔۔
بہت بُرے ہیں آپ آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔”
ماور اس کے سینے پر باز گائے اسے دور دھکیلتی شرم سے لال ہوئی تھی۔۔۔۔
اس رات تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔۔ جتنا تم نے مجھے تڑپایا ہے اس سب کا حساب لینا تو ابھی باقی ہے مائی لو۔۔۔۔۔اگر اتنے
سے ہی جان نکل گئی تو ۔۔۔۔۔
منہاج اُس کو بے باکی بھری نظروں سے دیکھتا اس سے پہلے کو مزید کچھ بولتا۔۔۔ماورا سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اُس
کے ہونٹوں پر اپنی نازک ہتھیلی جماگئی تھی۔۔۔۔۔
مجھے جانا ہے اب یہاں سے ۔۔۔ باہر سب میر اویٹ کر رہے ہونگے۔۔۔۔

ماور اسے منہاج کی بڑھتی گستاخیاں برداشت کرنا دشوار ہوا تھا۔۔۔ گھنیری پلکوں کی باڑ حیا کے بھاری بوجھ تلے جھک گئی
ایک دن مزید اور پھر تم میری دسترس میں ہو گی۔۔۔”
منہاج اُس کی ٹھوڑی پر لب رکھتا اُسے اپنی گرفت سے آزاد کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے آزاد کرتے ہی ماورا ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔ جس بو جھل دل کے ساتھ وہ منہاج کے آفس میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔ نکلتے وقت اُس سے کہیں زیادہ سکون اور سچی خوشی سے اُس کا چہرا چمک رہا تھا۔۔۔۔
اُس کا اِس وقت خوشی سے اچھلنے کو دل چاہ رہا تھا۔۔۔۔ منہاج درانی صرف اور صرف اُس کا تھا۔۔۔۔کوئی اُسے اُس کی زندگی کے محبوب ترین انسان سے دور نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔۔۔
زوہان مزید ایک منٹ بھی ہاسپٹل نہیں رک پایا تھا۔۔۔۔ وہ اس جگہ نہیں رکنا چاہتا تھا جہاں اس کی ماں کا قاتل سانسیں
لے رہا تھا۔۔۔
زوہان اس وقت کسی سے بات کرنے کے قابل نہیں سمجھ پار یا تھا خود کو مگر آج آژ میر اُس کو اکیلا چھوڑنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔ زوہان کے پیچھے وہ بھی اس کے ساتھ ہی ہاسپٹل کی پر شکوہ منزل سے نکل آیا تھا۔۔۔۔ زوبان اُسے

صاف نظر انداز کرتا۔۔۔سامنے ہی گاڑی کے قریب کھڑے حاکم سے چابی چھین کر فرنٹ سیٹ پر براجمان ہو تاوہ گاڑی
سٹارٹ کر گیا تھا۔۔۔۔
لیکن اُس کے وہاں سے نکلنے سے پہلے ہی آژمیر نے کھڑکی سے ہاتھ بڑھاتے کیز نکال لی تھیں۔۔۔ زوہان نے تپ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
” آژمیر میر ان تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟ جو تم کرناچاہ رہے ہو۔۔۔ ویسا اب کبھی نہیں ہو سکتا۔۔۔”
زوہان گاڑی کا دروازہ دھاڑ سے بند کرتا آژمیر کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
تمیز سے بات کرو۔۔۔ میں تم سے پورے چھے مہینے بڑا ہوں۔۔۔ اور اسی حساب سے تم پر میری ہر بات ماننا فرض
آژ میر ملک فیاض والا قصہ ختم ہوتے ہی پوری طرح سے اپنارو یہ زوہان کے ساتھ بدل چکا تھا۔۔
جبکہ زوبان کا غصہ ابھی پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوپایا تھا۔۔ یا پھر وہ اتنی جلدی دکھانا نہیں چاہتا تھا۔
ہم بہت پہلے ایک دوسرے سے تمام تعلق توڑ چکے ہیں۔۔۔۔”
زوہان نے پیشانی مسلتے اُسے یاد دلایا تھا۔۔۔۔
خون اور دل کے رشتے۔۔۔ زبانی کلامی ختم نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔

آژ میر اپنے جیسے اس اُکھڑ مزاج بھائی کو منالینا چاہتا تھا۔۔۔
“تم کیا چاہتے ہو۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان اُس کے لفظوں کے جال میں الجھانے پر آخر کار زچ ہو چکا تھا۔۔۔
” مجھے میر ابھائی واپس لوٹا دو۔۔۔۔۔”
آژ میر کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو زوہان کے دل کو پگھلا گیا تھا۔۔۔
” میں تمہارے ساتھ اتنا غلط کر چکا ہوں۔۔۔ اُس کے بعد بھی تم ایسا چاہتے ہو۔۔۔۔؟؟؟”
زوہان چاہتا تھا آژ میر اس سے لڑے۔۔۔ اُس سے شکوہ کرے۔۔ وہ بھلا اپنے جان از عزیز بھائی سے اتنا عرصہ اس حد تک بد گمان کیسے رہ سکتا تھا۔۔۔ جو اُس کی خاطر قتل کا الزام بھی اپنے سر لینے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔
” تم نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔ غلط میں نے کیا جو تمہاری بد گمانی دور کرنے کے بجائے۔۔ خود کو مزید تم سے دور کر لیا۔۔۔ اور زندگی کے اتنے سال اپنے بچپن کے کرائم پارٹنر کے بغیر گزار دیئے۔۔۔۔”
گزرے سالوں کی اذیت کا ذکر کرتے زوہان کے ساتھ ساتھ آژ میر کی آنکھوں میں بھی نمی اتر آئی تھی۔۔۔۔ “مجھے تمہاری بات سننی چاہئے تھی۔۔۔ میں بھلا یہ کیسے سوچتا رہا کہ تم میرے ساتھ دھوکا کر سکتے ہو۔۔۔۔ تم نے میر اہی بھلا چاہا اور میں نے تم پر الٹا الزام داغ کر تمہیں اذیت میں مبتلار کھا۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔۔

زوہان اپنی جگہ سے دو قدم آگے بڑھا تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کے راستے اتنے سالوں کی اکٹھی کی گئی اذیت بہنے لگی
سمجھا تو میں نے نہیں تمہیں۔۔۔۔ تم اپنا سب کچھ گنوا چکے تھے۔۔۔۔ تمہیں میری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔۔ اور تمہیں ہی تنہا چھوڑ دیا۔۔۔ میں اپنی ہر خطا کے لیے معافی مانگتا ہوں تم سے۔۔۔۔
آژ میر بھی آگے بڑھا تھا اور آج اتنے سالوں بعد دونوں پوری محبت اور گرمجوشی سے ایک دوسرے کے سینے سے لگتے۔۔۔۔ پوری دنیا کے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کرنے والے۔۔۔ ایک دوسرے کی گزری اذیتوں پر آنکھوں سے بہتا ل گرم سیال مادہ روک نہیں پائے تھے۔۔۔۔
دونوں ایک بار ایسے ہی گلے لگ کر اُس رات روئے تھے۔۔۔ جب اُنہوں نے تحریمہ بیگم کو کھویا تھا۔۔۔ آج پھر وہ گلے لگ کر رورہے تھے۔۔۔۔ اپنے اندر جمع کی اتنے سالوں کی اذیت آنسو کے راستے بہانے کے لیے۔۔۔ کیونکہ آج کے بعد وہ اُس دردناک باب کو اپنی زندگی کے صفحات سے مٹا دینا چاہتے تھے۔۔۔
ہاسپٹل سے نکلتے اُن دونوں کو متلاشی نگاہوں سے ہر طرف ڈھونڈتے زنیشہ کی نظر جیسے ہی اپنی زندگی کے اس سب سے خوبصورت ترین منظر پر پڑی وہ خوشی سے چہک اٹھی تھی ۔۔۔۔
فائنلی اُن دونوں میں صلح ہو گئی۔۔۔ اللہ جی آپ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔۔
زنیشہ کی بات پر باقی سب نے بھی مسکراتی نظروں سے اُن دونوں کو ایک دوسرے کے گلے لگتے دیکھا تھا۔۔۔

شمسہ بیگم کا دل سکون سے بھر گیا تھا۔۔۔۔ بنا مزید کسی نقصان کے ان کا خاندان ایک ہو چکا تھا۔۔۔۔ اُن سب نے بہت غم دیکھے تھے۔۔۔ لیکن اتنی کٹھنائیاں برداشت کرنے کے بعد اب سب کچھ بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔ نفرتوں کی جگہ محبتوں نے اپنا بسیر اجمالیا تھا۔۔۔۔۔ اُن کی زندگی کی تاریکیاں اُجالوں میں بدل چکی تھیں۔۔۔
@@@@@@@@@
وہ سب ہاسپٹل سے واپس لوٹ آئے تھے۔۔۔۔ ملک فیاض کی حالت ایسی نہیں تھی کہ کوئی اُن کے پاس رکتا۔۔۔ ڈاکٹر ز نے بھی دوبارہ کسی کو ملک فیاض کے روم میں نہیں جانے دیا تھا۔۔۔
شمسہ بیگم اپنے شوہر کی یہ قابلے رحم حالت دیکھ اُن کو معاف کر گئی تھیں۔۔۔۔۔۔ ملک فیاض نے جو بویا تھا اب وہی کاٹ
رہے تھے۔۔۔
آژ میر اور زوہان کل سے غائب تھے۔۔۔۔ اتنے عرصے بعد ملنے پر وہ دونوں بھائی کچھ وقت صرف ایک دوسرے کے
ساتھ ہی گزارنا چاہتے تھے۔۔۔ جس چکر میں وہ اپنی بیگمات کو بھی کچھ وقت کے لیے بھول چکے تھے۔۔۔ لیکن زنیشہ اور حائفہ کے ساتھ ساتھ میر ان پیلس کا ہر فرد بے پناہ خوش تھا۔۔۔۔ اُن دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ دیکھنے کے لیے اُن سب کی آنکھیں ترس گئی تھیں۔۔۔۔
جہاں زنیشہ کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی تھی۔۔۔ وہیں حائفہ بھی آژ میر کی خوشی میں بے پناہ خوش تھی۔۔۔۔

میران پیلس میں ایک بار پھر سے شہنائیاں بج اٹھی تھیں۔۔۔۔ سب لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ ارجنٹ بیسز پر
طے والی شادی کی تیاریوں میں بزی تھے۔۔۔۔
کل ماورا کی بارات تھی۔۔۔۔ اور آج ساری خواتین نے گھر میں ڈھولکی رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔ منہاج مایوں مہندی جیسے فنکشن سے صاف منع کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ سیدھی سیدھی بارات لا کر اپنی بیوی کو جلد از جلد اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔۔۔ اُس کے اُتاولے پن پر سب نے اُسے بہت چھیڑ ا تھا۔۔۔ جسے منہاج نے بھر پور طریقے سے انجوائے بھی کیا
تھا۔۔۔۔
ماورا کے منع کرنے پر منہاج نے کسی کو بھی ہاسپٹل میں ہوئی اُن کی ملاقات کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔۔۔ منہاج سے تو وہ بعد میں نمٹنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔ مگر ابھی وہ اپنے سارے گھر والوں کے ساتھ انہیں کا گیم کھیل کر بدلہ لینا چاہتی تھی۔۔۔ جنہوں نے منہاج کے ساتھ مل کر اُس کی جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔ یہ ماورا اتنی خوش کیسے ہے۔۔۔ ؟؟؟ کہیں بہت زیادہ ٹینشن لینے کی وجہ سے اس کا دماغ تو نہیں چل گیا۔۔۔۔ وہ سب لوگ اس وقت لاؤنج میں جمع مہندی لگوانے کے ساتھ ساتھ ڈھولک کی تھاپ پر لڈی اور ڈانس کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔ خاندان کی قریبی خواتین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔۔۔۔
شہر سے آئی بیو ٹیشن ماورا کو مہندی لگانے میں مصروف تھی۔۔۔۔ اور ماورا جس خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ خوش ہو ہو کر اپنی شادی کا فنکشن انجوائے کر رہی تھی۔۔۔۔ اُسے دیکھ وہ سب ہی حیران تھیں۔۔۔۔

فجر نے ماورا کی جانب فکر مندی سے دیکھتے زنمیشہ کے کان میں سر گوشی کی تھی۔۔۔۔
ماورا نے پیلے رنگ کے لہنگے کے اوپر شارٹ کا مدار چولی پہن رکھی تھی۔۔۔ جس میں اُس کے نازک سراپے کی دلکشی مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ پھولوں کی خوبصورت بالیاں کانوں میں پہنے ، بالوں میں موتیے کے پھول ڈال کر چٹیا گوندھے بنامیک آپ کے وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگتی پوری محفل کی مرکز نگاہ بنی ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کے ہونٹوں کی دھمی دلفریب مسکان اُس کی اندرونی خوشی کی داستان سنارہی تھی۔۔۔۔۔
مہندی اور ابٹن سے سجے اس کے حسین رُوپ میں چاند نیاں سی گھل محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔ ” میں نے تو کہا تھا تم لوگوں سے۔۔۔۔ بتا دو سب سچ اُسے۔۔۔۔ اگر اُسے کچھ بھی ہوا تو اس کے ڈاکٹر صاحب نے ہم سب
کو زہر کے انجکشن ٹھوک دینے ہیں۔۔۔
یا گیا اور اوگورتی ان کے قریب ہوئی ۔
تم سب لوگ یہاں کیوں ایک دوسرے میں گھس کر بیٹھی ہو۔ یہاں آنا۔
رامین زنیہ اور فجر کاہاتھ پکڑتی اپنے ساتھ کھینچ گئی تھی۔۔۔۔ وہ سب لڑکیاں آج یلو تھیم کے مطابق پہلے رنگ کے کپڑوں
میں ملبوس بہت حسین لگ رہی تھیں۔۔۔۔

فجر نے ماورا کی جانب فکر مندی سے دیکھتے زنیشہ کے کان میں سر گوشی کی تھی۔۔۔۔
ماورا نے پیلے رنگ کے لہنگے کے اوپر شارٹ کا مدار چولی پہن رکھی تھی۔۔۔ جس میں اُس کے نازک سراپے کی دلکشی مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ پھولوں کی خوبصورت بالیاں کانوں میں پہنے ، بالوں میں موتیے کے پھول ڈال کر چٹیا گوندھے بنامیک آپ کے وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگتی پوری محفل کی مرکز نگاہ بنی ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کے ہونٹوں کی دھمی دلفریب مسکان اُس کی اندرونی خوشی کی داستان سنارہی تھی۔۔۔۔۔
مہندی اور ابٹن سے سجے اس کے حسین رُوپ میں چاند نیاں سی گھل محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔ میں نے تو کہا تھا تم لوگوں سے۔۔۔۔ بتا دو سب سچ اُسے۔۔۔۔ اگر اُسے کچھ بھی ہوا تو اس کے ڈاکٹر صاحب نے ہم سب
کو زہر کے انجکشن ٹھوک دینے ہیں۔۔۔
فیحہ بھی ماور اکوگھورتی ان کے قریب ہوئی ۔
تم سب لوگ یہاں کیوں ایک دوسرے میں گھس کر بیٹھی ہو۔ یہاں آنا۔
رامین زنیہ اور فجر کاہاتھ پکڑتی اپنے ساتھ کھینچ گئی تھی۔۔۔۔ وہ سب لڑکیاں آج یلو تھیم کے مطابق پہلے رنگ کے کپڑوں
میں ملبوس بہت حسین لگ رہی تھیں۔۔۔۔

حائفہ بھاری کا مدار شرارے کے اوپر شارٹ شرٹ زیب تن کیے ، سیاہ زلفوں کو موتیوں کے پھولوں کی مدد سے جوڑے کی شکل میں قید کیے ، بھاری جھمکے اور ماتھے پر جھمکے کے ڈیزائن کی ہی بندیاں لگائے اپنے ہوش ربا حسن کے ساتھ بے پناہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔ وہاں بیٹھی خواتین کی نظریں بھی حائفہ کے کھلکھلاتے خوبصورت مکھڑے سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔۔۔۔ اُس کی بہن جسے اُس نے اپنی اولاد کی طرح رکھا تھا۔۔۔ آج اُس کی بھی شادی ہو رہی تھی۔۔۔ وہ خوش کیسے نہ
ہوتی۔۔۔۔
تم دونوں کے شوہر نامدار تو تم لوگوں کو فراموش کر چکے ہیں۔۔۔۔ اب تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہی ڈانس
کرلو۔۔۔۔
فریحہ نے اُن دونوں کو درمیان میں کھینچتے ڈانس کرنے کا اصرار کرنے کے ساتھ ساتھ چھیڑ ا تھا۔۔۔ جس پر زنیشہ تو ہولے سے مسکرادی تھی۔۔۔۔ لیکن حائفہ کے انداز سے سب نے نوٹ کیا تھا کہ وہ آژمیر سے خفاخفاسی ہے۔
“حائفہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔”
سویر ابھی حائفہ کی آخر میر کے حوالے سے خفگی نوٹ کر چکی تھی۔۔۔ جس کا فائدہ اُٹھانے کی خاطر وہ حائفہ کے قریب آئی
تھی۔۔۔۔ اُن دونوں کے بیچ اب کافی حد تک بات چیت شروع ہو چکی تھی۔۔۔۔
جی بولیں۔۔۔۔

حاعفہ نے سوالیہ نگاہوں سے سویرا کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
میں تمہیں یہ سب نہیں بتانا چاہتی تھی۔۔۔۔ لیکن میرے اندر بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔۔۔ آژمیر تمہارا شوہر
ہے۔۔۔ اُس کے بارے میں تمہیں ہر بات کا علم ہو نا چاہئے۔۔۔۔
سویرانے بات کرنے کے لیے تمہید باندھی تھی۔۔۔ جب اس لیے آژ میر نے وہاں قدم رکھا تھا۔۔۔وہ دونوں اس وقت ڈرائینگ روم میں کھڑی تھیں۔۔۔ اُن کارُخ دروازے کی مخالف سمت تھا۔۔۔۔اس لیے وہ آژ میر کو نہیں دیکھ پائی
آژمیر کے ساتھ زوہان بھی تھا۔۔۔ جو ایک ضروری کال آجانے کی وجہ سے باہر ہی رک گیا تھا۔۔۔۔۔
کس بارے میں بات کر رہی ہو تم۔۔۔ میں سمجھی نہیں۔۔۔۔ ؟؟؟”
حائفہ کی پیشانی پر بل واضح ہوئے تھے۔۔۔۔ اُسے زنیشہ کی بات بالکل ٹھیک لگی تھی۔۔۔ سویر اکا اُس کے ساتھ ایک دم
اتنی محبت سے پیش آنے کے پیچھے کوئی مقصد پوشیدہ تھا۔۔۔۔۔
آژ میر اور میں بچپن سے انگیج تھے۔۔۔۔ ہم شروع سے ہی ایک دوسرے کے بہت کلوز رہے ہیں۔۔۔۔۔ آژ میر اور میرے بیچ کا تعلق۔۔۔۔۔ ۔ مطلب آژمیر زوبان کی وجہ سے بہت ڈسٹرب رہتا تھا۔۔۔ تورات ہم۔۔۔۔۔

ایک لڑکی ہو کر اپنے بارے میں اس قدر گھٹیا بول کر سویر اکو لگا تھا وہ اپنے ماضی کی سچی جھوٹی کہانیاں سنا کر حائفہ کو آژمیر
میر ان کے خلاف کرلے گی۔۔ لیکن وہ شاید ابھی تک حائفہ کی دیوانگی سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔ جو لڑ کی آژمیر کے خلاف اپنی آنکھوں دیکھے پر بھی یقین نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ وہ بھلا اُس کے منہ سے آژمیر کے خلاف کچھ سنتی بھی کیونکر ۔۔۔۔
سویرا کو لگا تھا بیوی ہونے کے ناطے وہ آژمیر اور اُس کے تعلق کے بارے میں متجسس ضرور ہو گی۔۔۔۔ اور اُس کی بات
ضر ور سنا چاہے گی۔۔۔ مگر حاعفہ نے اُس کی بات شروع ہونے سے پہلے ہی روک دی تھی۔۔۔ تھینکیو سوچ سویر اتمہاے کنسرن کے لیے۔۔۔ مگر آژ میر مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا چکے ہیں۔۔۔۔ اب ان کی زندگی کا کوئی حصہ مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے۔۔۔ تمہارے ساتھ اُن کا ماضی میں جو بھی رشتہ رہا ہو۔۔ وہ ماضی کے ساتھ ہی بیت چکا ہے۔۔۔۔ لیکن آژ میر کا حال اور مستقبل اب میں ہوں۔۔۔۔ اور ٹرسٹ می۔۔۔ مجھے انہیں دونوں کو آژ میر کی محبت بھری سنگت میں حسین بنانا ہے۔۔۔۔۔
حائفہ کے ایک ایک لفظ میں آژمیر کے لیے بے پناہ محبت اور یقین بول رہا تھا۔۔۔۔ جو آژ میر کا ہی بخشا گیا تھا۔۔۔ اُسے سویرا کی نادانی پر افسوس ہوا تھا۔۔۔ جو حائفہ کے آژ میر کے لیے عشق سے انجان۔۔۔ ایک بار پھر اپنی انسلٹ کروانے وہاں پہنچ چکی تھی۔۔۔۔

بھاری قدموں کی چاپ کر دونوں نے پلٹ کر دیکھا تھا۔۔۔۔ جب آژمیر پر نظر پڑتے سویرا کی رنگت متغیر ہوئی
تھی۔۔
ایک پورے دن کے بعد آژ میر کو سامنے دیکھ حائفہ کی آنکھوں میں ٹھنڈک اُتر گئی تھی۔۔۔۔ وہ اُس سے بہت ناراض تھی۔۔۔ لیکن صبح سے اُس کا دل ہر آہٹ پر آژ میر کا منتظر رہا تھا۔۔۔
” آژمیر ۔۔۔۔۔ وہ میں۔۔۔۔”
آژ میر کی آنکھوں میں شدید غصے کی لہر دیکھ وہ دونوں ہی سمجھ گئی تھیں۔۔۔ کہ آژ میر اُن کی باتیں سن چکا ہے۔۔۔
سویر اکو لگا تھا اب اس کی خیر نہیں تھی۔۔۔ آژ میر اب اُسے کسی صورت نہیں چھوڑنے والا تھا۔۔۔ ” مجھے لگا تھا کہ شاید تم سدھر گئی ہو۔۔۔ مگر تمہاری فطرت ابھی تک نہیں بدلی۔۔۔۔ تمہاری سوچ ابھی بھی اُتنی ہی پیچ اور
گھٹیا ہے۔۔۔
جب آژ میر کے قریب آنے اور اُس کی دھاڑ پر سویرا کا چہر خوف کے مارے زر د ہوا تھا۔
میں اُسے اُس کی بات کا جواب اچھے سے دے چکی ہوں۔۔۔ آپ اُسے کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔۔
حائفہ آژ میر کے مقابل آتی اُس کے سینے پر اپنے مہندی سے بھرے نازک ہاتھ رکھتے اُسے ریلکسیں کرتے اس وقت غصہ کرنے سے روکا تھا۔۔۔ ورنہ آژمیر کی سزاؤں سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔۔۔۔ چھوڑ تا تو وہ کسی کو نہیں تھا۔۔۔

آژ میر سویرا کی نیت اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔۔ اور اُس کی کی جانے والی بکو اس آژ میر کا دماغ بری طرح کھولا گئی تھی۔۔۔ لیکن پہلے حائفہ کا سویرا کو دیا جانے والا منہ توڑ جواب اور اب اُس کا اتنی محبت سے قریب آکر اسے ریلیکس کرنا آژمیر میر ان کا غصہ ٹھنڈا کر گیا تھا۔۔۔۔
محبت پاش نظروں سے حائفہ کے گرد بازو پھیلا کر اسے قریب کرتے آژ میر نے نفرت آمیز نگاہوں سے پیچھے کھڑی سویرا کو دیکھا تھا۔۔۔ جو اُس سے محبت کی دعوے دار تھی۔۔۔ مگر دوبار اُس کے کردار پر انتہائی گھٹیا الزام لگا چکی تھی ۔۔۔۔
کل صبح ہوتے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے گھر سے دفع ہو جانا۔۔۔۔ اگر تم مجھے کل کے بعد کہیں نظر آئی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔۔
آژ میر سویر کو اُس کی اوقات بتا تا بانہوں میں موجود اپنی زندگی کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔ جو بے پناہ حسین لگتی اُس کا چین و قرار لوٹ کر لے گئی تھی۔۔۔
سویر اتو آژمیر کی آنکھوں میں اپنے لیے توہین آمیز نفرت دیکھ سیکنڈ ز کے اندر وہاں سے غائب ہوئی تھی۔۔۔۔ بہت دیر سے ہی مگر کہیں نہ کہیں اُسے سمجھ آچکی تھی۔۔۔ کہ آژ میر میر ان کی زندگی میں اُس کی کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔۔ اور وہ چاہے پوری دنیا کا زور بھی لگا لیتی تو ان دونوں کو الگ نہ کر پاتی۔۔۔۔

بلکہ اس بار تو حائفہ کے کہنے پر آژ میر نے اُسے چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ اس کے بعد آژ میر نے اُسے کوئی مہلت نہیں دینی تھی۔۔۔ اس لیے سویرا نے اُسی لمحے میر ان پیس سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ مجھے بہت کام ہے۔۔۔۔۔
حائفہ آژ میر کا بازو اپنی کمر سے ہٹانے کی کوشش کرتی اُسے دیکھنے سے صاف اجتناب برتے ہوئے تھی۔۔۔۔
محتر مہ اپنے سارے کام مجھ تک ہی محدود رکھیں تو آپ کے حق میں زیادہ بہتر ہو گا۔۔۔۔” آژمیر کی نگاہیں بار بار اُس کی صراحی دار شفاف گردن پر پھسل رہی تھیں۔۔۔۔ جو آج گھنے بالوں کی چادر سے پاک اُس کا
ایمان متزلزل کر رہی تھی۔۔۔۔
” میں اچھے سے جانتی ہوں آپ کو کتنی پر واہ ہے میری۔۔۔۔ میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔”
حائفہ شدید ناراضگی کا مظاہرہ کرتی آژ میر کو اچھا خاصہ حیران کر گئی تھی۔۔۔۔
” تم ناراض ہو مجھ سے۔۔۔۔۔ ؟؟؟”
اُس کا چہراٹھوڑی سے تھام کر آژ میر نے اپنے قریب کیا تھا۔۔۔۔
” آپ کو کونسا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟”
حاعفہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتی اس سے دور ہوئی تھی۔۔۔۔۔

حائفہ ۔۔۔۔۔ یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔۔؟؟؟
اُس کے یوں دور جانے پر آژ میر نے غصے سے اُسے گھورا تھا۔۔۔۔۔
آپ کو غصہ کرنا ہے یا جو بھی کرنا ہے مرضی کریں۔۔۔۔ میں آپ سے بالکل بات نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ حائفہ جو ابا بھیگی آنکھوں کے ساتھ ساتھ غصے سے بولتی آژ میر کو مبہوت سا کر گئی تھی۔۔۔۔ کسی کے اس طرح بات کرنے پر اُس سے بھی زیادہ غصے سے بھڑک اُٹھنے والا آژ میر میران اپنی چہیتی بیوی کے سامنے تو ایک الگ ہی آژ میر بن جاتا تھا
پر میری جان ہوا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ تم رو نابند کرو۔۔۔ یہاں آؤ اور بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟” ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے زوہان اور حاشر حائفہ کا ادا کیا جانے والے جملہ بھی سن چکے تھے اور جو ابا آثر میر کا اتنانرم اند از دونوں کو ہی سکتے میں مبتلا کر گیا تھا۔۔۔۔
اُن کی پرائیوسی کے خیال سے زوبان کا ارادہ تو دروازے سے ہی پلٹنے کا تھا۔۔۔ مگر حاشر کو تو آج ہی موقع ملا تھا۔۔۔۔۔ اپنے سخت گیر لالہ کو اس طرح شیرنی کی طرح دھاڑتی اپنی بیوی کے سامنے اس طرح دیکھنے کا۔۔۔۔
وہ آژمیر کے متوقع غصے سے بچنے کے لیے حفاظت از وہان کا ہاتھ بھی پکڑ کر ساتھ کھینچتا اندر داخل ہوا تھا

آژمیر کی نظر ان پر پڑ چکی تھی ۔۔۔ دونوں کے ہی ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ پر آژمیر انہیں خوشمگیں نگاہوں سے گھور
کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
” میں آپ سے تب تک کوئی بات نہیں کرنے والی۔۔۔ جب تک آپ کو اپنی سنگین غلطی کا احساس نہ ہو۔۔۔۔ اور ہاں مجھ پر اپنے غصے سے رعب جمانے کی کوشش بالکل مت کیجئے گا۔۔۔ ورنہ میں آپ سے مزید خفا ہو جاؤں گی۔۔۔۔”
حاعفہ انتہائی معصومیت بھری خفگی اور غصے کے ساتھ اُسے وارن کرتی پلٹی تھی۔۔۔۔
جہاں یہ سب دیکھ حاشر کو بُری طرح کھانسی کا دورہ پڑ چکا تھا۔۔۔۔۔ جبکہ زوہان نے سامنے رکھا پانی کا گلاس اُٹھا کر ہونٹوں سے لگاتے اپنا بے ساختہ اُمڈ آنے والا قہقہ روکا تھا۔۔۔۔
اکٹر و اور سخت گیر آژمیر میران جس کے سامنے بات کرنے سے پہلے اُس کی فیملی ممبر سمیت باہر والے بھی ہزار بار سوچتے تھے۔۔۔۔ اُس کا ایسار وپ کوئی خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔۔
حاعفہ کو زرا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ دونوں پیچھے کھڑے ہیں۔۔۔ وہ شر مندہ سی ہوتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
” آژ میر لاله سیر یسلی یہ آپ ہی ہیں نا۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟”
حاشر زبر دستی کھانس کھانس کر لال ہوتا اب آژ میر سے مخاطب ہو ا تھا۔۔۔۔۔
خبیث انسان یہ اوور ایکٹنگ کر کے میری بیوی کو شر مندہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔۔

آژ میر ان دونوں کے ایکسپریشنز دیکھ خود بھی زیر لب مسکراتے حاشر کی گردن دبوچتے مصنوعی خفگی سے بولا تھا۔۔۔
“مجھے نہیں لگا تھا کہ اس معاملے میں بھی ہم ایک جیسے ہیں۔۔۔۔”
زوبان نے آژمیر کی جانب دیکھتے اُس کے ساتھ ساتھ اپنا بھی مذاق بنایا تھا۔۔۔۔
کیا مطلب زوبان لالہ آپ بھی زنیشہ سے ایسے ہی ڈرتے ہیں۔۔۔۔ ؟؟؟
حاشر کی زبان پھسلی تھی۔۔۔۔ جس پر اُس نے در زیدہ نگاہوں سے ساتھ کھڑے آژمیر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
” کیا مطلب ایسے ہی۔۔۔۔ ؟؟؟”
آژمیر کا بھاری ہاتھ پڑنے سے پہلے ہی حاشر دور کھسک گیا تھا۔۔۔۔
یار مجھے سمجھ نہیں آرہا۔۔۔۔ آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ہے۔۔۔۔ جو وہ مجھ سے اتنی ناراض ہے۔۔۔۔۔ آژمیر کو حاعفہ کی ناراضگی اچھا خاصہ ڈسٹرب کر گئی تھی۔۔۔۔ اُوپر سے وہ لگ بھی اتنی پیاری رہی تھی کہ آژ میر کادل ہمک
ہمک کر اُس کے پاس جانے کا خواہاں تھا۔۔۔۔
ویسے مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ تمہیں بھی کبھی محبت ہو گی۔۔۔۔ وہ بھی اتنی شدید محبت۔۔۔۔ جس نے آژمیر میر ان کو
کافی حد تک بدل دیا ہے۔۔۔۔۔

زوہان بچپن سے ہی اُس کی لڑکیوں سے دور رہنے والی عادت سے واقف تھا۔۔۔۔ زوہان کی اکثر لڑکیوں سے دوستی رہی تھی۔۔۔ جن میں ثمن سر فہرست تھی۔۔۔۔ لیکن آژ میر نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی تھی۔۔۔ کہ اُس سے لڑکیوں کے یوں نخرے نہیں اُٹھائے جاتے۔۔۔۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سے نخرے اُٹھوانے کا عادی تھا۔۔۔
اس لیے آژ میر کا حائفہ کے سامنے یہ بدلہ اند از زوہان کو بہت اچھا لگا تھا۔۔۔۔۔
” مجھے خود کبھی نہیں لگا تھا۔۔۔ لیکن اب اس محبت کے بغیر رہنانا ممکن لگتا ہے۔۔۔۔”
آژ میر حائفہ کے بارے میں بولتے دلکشی سے مسکر آیا تھا۔۔۔۔۔ جس پر زوہان کی دماغ کے پردے پر زنیشہ کی شبیہ لہرائی تھی۔۔۔۔ اُسے آژ میر کی یہ بات سو فیصد سچ لگی تھی۔۔۔۔ کل صبح کے بعد سے اُس کی زنیشہ سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے اُس کا دل اب اچھا خاصہ بے چین ہو چکا تھا۔۔۔۔
زوہان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میران پیلس لو شادیکھ سب بہت خوش ہوئے تھے۔۔۔۔ کیونکہ وہ سب ایسا نجانے کب سے
چاہتے تھے۔۔۔۔۔

لیکن اُن میں سب سے زیادہ خوش زنیشہ تھی۔۔۔۔ زوہان کو وہ اِسی طرح خاندان والوں کے ساتھ ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔۔ میران پیلس سے نفرتوں کا بسیرا اب ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ ہر طرف روشنیاں اور مسکراہٹیں بکھری وہاں کے ہر
فرد کو سر شار کر گئی تھیں۔۔۔ وہ سب ماضی میں ہوئے ہر خوشگوار واقع کو بھلائے ان لمحوں سے خوشیاں سینچنے لگے
میران پیلس کے درو دیوار نے بہت غم دیکھے تھے۔۔۔۔ لیکن اب وہاں خوشیوں کی شہنائیاں بجنتیں گزرے مناظر کو دھندلا کر گئی تھیں۔۔۔۔۔
زنیشہ زوہان لالہ کا آرڈر ہے۔۔۔ اُن کے لیے چائے لے کر اگلے پانچ منٹ کے اندر اُن کے روم میں پہنچو۔۔۔۔۔”
فریحه زنیشہ کو زوہان کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ شوخ نگاہوں سے چھیڑ گئی تھی۔۔۔
جس پر زنیشہ اُسے گھورتی دھڑکتے دل کے ساتھ وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔
پہلے رنگ کے پیروں تک آتے فراک کے ساتھ چوڑی دار پجامہ پہنے۔۔۔۔ بالوں میں پھول ڈال کر انہیں کمر پر کھلا چھوڑے۔۔۔۔ دوپٹے کو نازک کمر پر باندھے وہ ہاتھ میں چائے تھا مے زوبان کے روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کے ہاتھ میں موجود کانچ کی چوڑیوں کی جلترنگ کمرے کی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر گئی تھی۔۔۔۔۔

زوہان کمرے میں کہیں موجود نہیں تھا۔۔۔۔ زنیشہ ٹیبل پر اس کی چائے رکھ کر پلٹی ہی تھی۔۔۔ جب بیڈ کے عین سامنے والی دیوار پر لگی دونوں کی دیوار گیر فوٹو کو دیکھ زنیشہ مبہوت ہوئی تھی۔۔۔۔
یہ بارات والے دن زوہان کی مرضی سے بنوائی گئی۔۔۔۔ اُس کی پسندیدہ ترین تصویر تھی۔۔۔۔ جس میں دلہن بنی نازک اندام کی زنیشہ کے گرد پیچھے سے بازو پھیلا کر اُسے پوری طرح اپنے حصار میں لیے کھڑے زوہان کے ہونٹوں پر زندگی سے بھر پور دلفریب مسکراہٹ تھی۔۔۔۔ جبکہ اُس کے ساتھ لگی کھڑی زندیشہ بھی اس لمحے اس کی کی جانے والی سرگوشی پر کھکھلاتی کیمرے کی آنکھ میں اس منظر کو ہمیشہ کے لیے قید کر وا گئی تھی۔۔۔
زنیشہ اُس تصویر کو دیکھنے میں اس قدر مگن تھی۔۔۔ کہ اپنے پیچھے بے حد قریب آن کھڑے زوہان کو دیکھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔
وہ اسی طرح یک تک مسکراتی نگاہوں سے اُس تصویر کو نجانے کب تک نہار تی رہتی۔۔۔ جب زوہان نے اُس کے پیٹ پر ہاتھ پھیلاتے اُسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا تھا۔۔۔۔
زوہان کے لمس پر زنیشہ کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔۔ اُس کی گرم سانسیں اپنے چہرے کے بے حد قریب محسوس
کرتے زندیشہ ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔
“میں نے تمہیں بہت یاد کیا۔۔۔۔۔۔
زوہان اُس کے گال پر لب رکھتے بولتا ز نیشہ کے ہونٹوں پر دلکشی بھری مسکان بکھیر گیا تھا۔۔۔۔

share with your frinds on Facebook


Updated: May 19, 2025 — 2:25 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *