Haifa and Zanisha Novel Part 3 – Urdu Font Stories | Read Online Free


Urdu Font Stories Urdu novels have a magical way of capturing emotions, and Haifa and Zanisha is one such story that has gained immense popularity among Urdu digest readers. After the thrilling events of Part 2, the story continues with new challenges, emotional depth, and unexpected twists in Haifa and Zanisha Novel Part 3.

If you love romantic Urdu font stories with intense drama and suspense, this part will keep you hooked till the end.

urdu font stories

Haifa and Zanisha Novel Part 3 – Urdu Font Stories

Read Here Haifa and Zanisha Novel Part 2 – Urdu Digest Novel

ڈرگز کی ہیوی ڈوز ہیں۔۔۔۔ اگر یہ تم اس شخص کو ڈرنک میں ملا کر دو گی تو وہ اگلے بارہ گھنٹوں کے لیے خود سے بھی غافل رہے گا۔۔۔۔اُس کے اُٹھنے سے پہلے تمہیں وہاں سے واپس لے آیا جائے گا۔۔۔۔اس کی اتنی پاور ہے کہ اس شخص کو ہوش میں آنے کے بعد بھی یاد نہیں رہے گا کہ اُس کے ساتھ پچھلے چند گھنٹوں میں کیا ہوا۔۔۔
آج تک وہ یہی عمل کر کے خود کو تھی۔۔۔۔
حائفہ کی زہین آنکھوں کی چمک اسی لمحے بڑھ گئی تھی ۔آج وہ خود بھی یہی عمل کر کے بچتی آرہی تھی۔بینش نے
مٹھی بند تو کر دی تھی۔۔۔ مگر اس کا خوف ابھی بھی ہنوز تھا۔۔۔ حائفہ اُسے تسلی دیتی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔ اُس نے اپنی طرف سے بینش کی بہت بڑی مدد کر دی تھی۔ اب اپنے لیے باقی کی جنگ بینش نے خود
ہی لڑنی تھی۔۔۔۔
لالہ سائیں بہت بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔۔۔ آپ جلدی سے یہاں پہنچیں
ثاقب پریشانی زدہ لہجے میں آژمیر کو واپس آنے کا بولنے لگا تھا۔
میں کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ رہا ہوں۔۔۔۔۔
آثر میر بنا اسے مزید کچھ بولنے کا موقع
موقع دیئے سرد لہجے میں مختصر ا گہتا فون بند چکا تھا۔
اُسے پہلے ہی ساری خبر مل چکی تھی۔۔۔۔ جس کی وجہ سے
وہ اپنا کام وہیں ادھورا چھوڑ تا واپس آ گیا تھا۔۔۔
میران پیلس میں قدم رکھتے اُس کے جبڑے مزید بھینچ گئے تھے۔۔۔۔ ہال میں اِس وقت گھر کے تمام افراد موجود تھے۔۔۔۔ بہت سارے مہمان بھی آچکے تھے۔ جو خود یہاں پیش آنے والی افتاد پر ہکا بکا کھڑے تھے۔ اُسے اندر داخل ہوتا دیکھ کشمالہ بیگم روتی ہوئی اس کی جانب بڑھی تھیں۔۔۔ آثر میر میرے بیٹے کا کچھ پتا
نہیں چل رہا۔۔۔ وہ ملک زوہان کہیں اُسے نقصان نہ پہنچادے۔۔۔۔ میرے بیٹے کو کچھ ہوا میں جیتے جی مر جاؤں
گی۔۔۔ تم نے کہا تھا اُس جنونی شخص سے میرے بیٹے کی حفاظت کرو
گے۔۔۔۔
کشمالہ بیگم اُس کے سینے سے لگیں رونے کے درمیان بولی تھیں۔۔۔ جبکہ باقی سب کی بھی خوف اور پریشانی سے یہی حالت تھی۔۔۔۔ ملک زوہان اپنا وار کر چکا تھا۔۔۔۔ وہ سب جس بات کے لیے ڈرے ہوئے تھے ۔۔۔ اس نے ان کے ڈر کو سچ کرتے اتنی سیکیورٹی کے باوجود ذیشان کو
غائب کروادیا تھا۔۔۔
میرا اب بھی وعدہ ہے آپ سے ۔۔۔ ذیشان کو میں آپ کے پاس واپس
لاؤں گا۔۔۔۔۔ آپ سب حوصلہ رکھیں ۔۔۔۔
آژ میر کو اپنی جگہ ذیشان پر بے حد غصہ آرہا تھا۔ جب وہ سب کو بول کر گیا تھا کہ آج کے دن کسی بھی بد مزگی سے بچنے کے لیے۔۔۔ وہ سب گھر سے باہر
نہ نکلیں تو ذیشان اُس کے ہتھے کیسے چڑھ گیا تھا۔۔۔۔
آژ میر بظاہر سب کو تسلی دیتا وہاں سے نکل آیا تھا۔ اُس کا غصہ لمحے کے ساتھ بڑھتا جارہا تھا۔ ملک زوہان ذیشان کو غائب کر کے اور اُس کے سب گھر والوں کو اس حوالے سے خوفزدہ کر کے آخر کار زنیشہ کی شادی رکوانے میں
کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔
آژ میر دنوں ہاتھوں کی مٹھیاں سختی سے بھینچے، دانت پر دانت چڑھائے اپنے غصے سے اچھے ہوئے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔ ورنہ اُس کا دل چاہ رہا تھا۔۔۔۔ابھی جا کر اُس ملک زوہان کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر دے جو اس کے خاندان کی خوشیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر
پڑ گیا تھا۔۔۔۔۔
آژ میر ا بھی اسی کشمکش میں اُلجھا ہوا تھا۔۔۔ جب اس کے موبائل کی بجتی
رنگ ٹون نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔۔۔۔
سائیں آپ کا فون۔۔۔۔۔۔
ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے فیصل نے فون اس کی جانب بڑھاتے
اُسے متوجہ کیا تھا۔۔۔۔
آژ میر نے بھی بنا نمبر پر غور کیے کال پک کرتے فون کان سے لگا یا تھا۔۔۔ کیسے ہو میرے پیارے بھائی ؟۔۔۔ آپ تو کافی خوش ہو گے تم ۔۔۔۔ آخر کو تمہاری لاڈلی بہن کی شادی جو ہے ۔۔۔۔ یقین مانو۔۔۔۔ مجھے بھی اس بات کی دلی خوشی تھی۔۔۔۔ اس لیے خود کو تمہیں فون کرنے سے نہیں روک پایا۔۔۔۔۔ کیونکہ دشمنی کے علاوہ بھی تو ایک بدصورت ترین رشتہ
ہے ہمارا۔۔۔۔ اُسی ناطے سے ہی سوچا مبارک باد دینی تو بنتی ہے
ہے۔۔۔۔۔۔
ملک زوبان کا ٹھنڈا ٹھار زہر میں ڈوبا لہجہ آژ میر میران کو سلگا کر رکھ گیا
تھا۔۔۔۔۔
میں تم جیسے بزدلوں سے نہ تو بات کرنا پسند کرتا ہوں اور نہ ہی مبارک باد وصول کرنا۔۔۔۔ جسے دشمنی کے آداب ہی نہ پتاہوں۔۔۔۔اُسے میں اپنا
دشمن مانتا ہی نہیں ہوں۔۔۔۔۔اگر اتنی ہی ہمت رکھتے ہو۔۔۔۔۔ تو میرے منہ پر آکر مقابلہ کرو میرا۔۔۔۔۔ پھر جیت کے دیکھاؤ مجھے تب مانوں میں تمہیں۔۔۔۔ یوں بزدلوں کی طرح پیٹھ پیچھے میرے خاندان والوں کو ٹارگٹ کر کے تم خود کو اگر فاتح سمجھ رہے ہو ۔۔۔۔ تو تم سے زیادہ بے وقوف اس پوری دنیا میں کوئی نہیں دیکھا میں نے۔۔۔۔۔ آژ میر نے اپنے اندر کی آگ باہر نکالتے اسے اس کی اوقات واضح کرنی چاہی
تھی۔۔۔۔
جبکہ اس کے برعکس اس کی بات سن کر دوسری جانب سے زوبان کا زور دار
قہقہ سپیکر پھاڑتا اس کے کانوں میں سنائی دیا تھا۔۔۔۔۔
ملک آ ژ میر میر ان۔۔۔ لفظوں سے کھیل کر دوسروں کو خود سے نیچےثابت کر نا تو بہت اچھے سے آتا ہے تمہیں۔۔۔۔ میں نے پیٹھ پیچھے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔ جس عظیم شخص کو تم نے اپنی لاڈلی بہن اور میری بچپن کی منگ کے لیے چنا تھا اسے کل سے آگاہ کر رکھا تھا میں نے۔۔۔۔۔ کہ میں کل آکر
اُس کی شادی رکوا کر رہوں گا۔۔۔۔ آگے سے اُس نے مجھے وہاں آنے کا چیلنج کر کے میری ضد مزید بڑھادی۔۔۔ تم جانتے ہو نا مجھے اچھے سے کوئی مجھے چیلنج کرے تو اُس کا جواب تو میں دے کر ہی رہتا ہوں۔۔۔۔۔ تو وہی کیا میں نے۔۔۔۔۔۔ تمہارے گھر میں آکر ۔۔۔۔۔ تمہارے اُس ذیشان کے کمرے میں ہی جا کر اُسے عقل سیکھائی کے آئندہ مجھے چیلنج کرنے کی غلطی نہ
ملک زوہان بات کے دوران کچھ سیکنڈ کے لیے رُکا تھا۔۔۔۔اُس کی بات کی
گہرائی تک پہنچتے آ ژ میر
ٹھٹھکتا ڈرائیور کو گاڑی واپس میران پیلیس کی جانب
موڑنے کا اشارہ کر گیا تھا۔۔۔۔
عجیب ہیں تمہارے خاندان والے۔۔۔۔۔ جو شخص اپنے ہی کمرے کی الماری میں بند ہے۔۔۔۔ اُسے ڈھونڈنے کے لیے پورے گاؤں کا چپا چپا چھان مارا ہے۔۔۔۔۔ تمہاری حویلی میں تمہارے لاڈلے ذیشان کے کمرے میں کھس کر اسے پیٹا ہے ۔۔۔۔ اور تم ابھی بھی مجھے بزدل کہہ رہے۔
ہو۔۔۔۔ تم سب ہی عجیب لوگ ہو۔۔۔۔اگر اسے تم میری بزدلی کہتے ہو۔۔۔۔ تو ہاں مجھے بزدل ہو نا منظور ہے۔۔۔۔
ملک زوہان کے الفاظ زہر خند طنز میں دو رکھے ہیں
ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔۔۔۔۔ کافی آستین کے سانپ پال رکھے ہیں
تم نے اپنے آس پاس۔۔۔۔ پہلے اُن سے نبٹ لو ۔۔۔۔۔۔ پھر مجھ سے دشمنی نبھانا۔۔۔۔۔۔ کہیں ایسے نہ ہو ۔۔۔۔۔ میرے کچھ کرنے سے پہلے ہو۔۔۔۔۔ ہی وہ پیٹھ میں خنجر گھونپ کر تمہیں مجھ سے پہلے ہی ختم کر دیں۔۔۔۔۔۔
ملک زوہان نے دشمنی کا حق نبھاتے ، اُسے اُس کے دشمن سے آگاہ کیا تھا
تم اپنی ہمدردیاں اپنے پاس رکھو تو زیادہ بہتر ہو گا۔۔۔۔ میں اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔۔ اپنے گھر میں چھپے غداروں کو ۔۔۔۔ جنہیں ہر بار تم میرےخلاف استعمال کر کے مجھے مات دینے کی کوشش کرتے ہو ۔۔۔۔۔ جیسے شیر ہمیشہ اکیلا شکار کرتا ہے۔۔۔۔ میں بھی ویسے ہی اکیلے لڑنے کا عادی ہوں۔۔۔ کبھی بنا کسی کا سہارا لیے اکیلے مقابلہ کرنے کی ٹرائے ضرور
کرنا۔۔۔۔۔ تمہارے مقدر میں مات لکھ کر اپنے قدموں میں نہ پٹخ دیا تو میرا
نام بھی۔۔۔۔۔ ملک آژمیر میران نہیں۔۔۔۔۔
آژمیاپنے چنگار تے لہجے میں بولتا اب کی بار ملک زوہان کے اندر آگ دہکا
گیا تھا۔۔۔۔۔
فون بند کرتے اس نے حویلی میں رابطہ کرتے ذیشان کے کمرے کی تلاشی
کے کا کہا
۔ کیونکہ پہلے اُس کے پوچھنے پر یہی کہا گیا تھا کہ ذیشان گھر پر موجود نہیں ہے
تمام جگہیں چیک کی جاچکی ہیں۔۔

حائفہ نگینہ بائی اور کرامت خان سے اس شخص کی دہشت کے قصے سنتے اپنے لرزتے دل کے ساتھ کو ٹھے کو عارضی طور پر خیر آباد کہتی وہاں سے نکل آئی
تھی۔۔۔۔۔
اُس کے لیے پوش علاقے میں ایک بہت ہی خوبصورت فلیٹ خریدا گیا تھا۔۔۔۔۔ جہاں اُسے رہنا تھا، اِس ، ناٹک کے دوران۔۔۔۔۔ اُس کے
ساتھ ایک کل وقتی ملازمہ اور ایک ڈرائیور کو بھی بھیجا گیا تھا۔ جو دونوں ہی اصل میں نگینہ بائی کے جاسوس تھے۔۔۔۔اور اُنہیں حائفہ کی پل پل کی خبر دینے کو کہا تھا۔۔۔۔۔ وہ لوگ حائفہ کی زہانت اور عقلمندی سے اچھی طرح واقف تھے۔۔۔۔۔ آج تک حاعفہ نے کبھی کو ٹھے سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔۔ کیونکہ وہ ماور اکو کسی مقام پر پہنچا کر ہی یہاں سے فرار چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ وہ ماورا کے حوالے سے کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔ مگر حائفہ خود اور نگینہ ہائی بھی جانتی تھی کہ اگر حائفہ چاہتی تو
شاید اب تک کو ٹھے سے فرار اختیار کر چکی ہوتی۔۔۔۔
انہیں ابھی بھی حائفہ سے کسی قسم کی بے اعتباری نہیں تھی۔۔۔۔ کیونکہ جب تک ماور ان کی نظروں کے سامنے تھی۔۔۔۔ حائفہ ایسا کچھ کرنے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔۔۔۔ مگر پھر بھی احتیاطا انہوں نے دو جاسوس
حائفہ کے آس پاس چھوڑ رکھے تھے ۔
حاعفہ نے گھوم پھر کر سارا فلیٹ دیکھا تھا۔۔۔۔جو اتنالگژری اور خوبصورت تھا کہ حائفہ کے پژمردہ چہرے پر بھی ہلکی سی مسکان کے ساتھ ، آنکھوں میں اُداسی مزید بڑھ گئی تھی۔ اُسے بھی تو ہمیشہ ایسی ہی عزت بھری
چار دیواری کی خواہش رہی تھی۔۔۔۔ جو انجان شخص کی وجہ سے پوری ہو گئی تھی۔۔۔۔
“رانی صاحبہ آپ کے لیے چائے بنا کر لاؤں۔۔۔۔”
ملازمہ اُسے صوفے کی بیک سے سر ٹکا کر آنکھیں موندے دیکھ اُس کے
قریب آتی۔۔۔۔ کندھے دبانے لگی تھی۔۔۔۔
وہ خود بھی کہیں نہ کہیں حائفہ کی کیفیت سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
نہیں عابدہ تم بھی تھک گئی ہو گی ۔۔۔۔ آتے ساتھ ہی ڈسٹنگ میں لگ گئی”
” تھی۔۔۔۔ جاؤ آرام کرلو۔۔۔۔

حائفہ جس نے کوٹھے پر خود کو بہت مغرور اور نک چڑھی مشہور کر وار کھا تھا۔۔۔۔ اُس کے قریبی لوگ ہی صرف جانتے تھے کہ وہ دل کی کتنی نرم اور دوسروں کا احساس کرنے والی حساس لڑکی تھی۔۔۔۔۔ ملازمہ اس کی بات پر نرم تشکرانہ مسکراہٹ سے اُسے دیکھتی وہاں سے نکل
گئی تھی۔
آنے والے وقت کا سوچتے حافظہ کی بے چینی لمحہ بالحہ بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔ اس کا دل اندر سے بہت زیادہ خوفز دہ تھا۔۔۔۔۔ یہی سوچ اُسے ناگ بن کر ڈسی جارہی تھی کہ کیا وہ اب بھی اپنی عزت محفوظ رکھ پائے گی۔۔۔۔۔ کیا اُس کا پاکدامن اُس شخص کے ہاتھوں داغدار ہونے والا تھا۔۔۔۔ یا پھر وہ اُس کے حق میں آگے آنے والے وقت کے لیے بہتر
ثابت ہونے والا تھا۔۔۔۔
یہ سب سوچتے حافظہ کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔ ان جان لیوا سوچوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کی خاطر وہ وہاں سے اٹھتی چائے بنانے کے لیے کچن کی
جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔

ماورا نے دو دن کی چھٹی کے بعد یونیورسٹی میں قدم رکھا تھا۔۔۔۔ اُس کی ساری ہاسٹل فرینڈ ز نے اس کے اچانک گھر چلے جانے پر حیرت کا اظہار کیا
تھا۔ ماورا نے اپنے رب کا صد شکر ادا کیا تھا کہ یہاں کسی کو بھی اس کے کارنامے کی خبر نہیں ہوئی تھی۔۔۔ ہاسٹل اور یونیورسٹی انتظامیہ اکثر اپنی رپوٹیمیشن خراب ہونے کے ڈر سے ایسی باتیں چھپا جاتے تھے ۔۔۔۔۔ ماورا
کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔۔۔
اُسے ایکسپیل تو کیا گیا تھا مگر حائفہ کی ضد پر کرامت خان
نے اپنے ریسورسز استعمال کرتے ہوئے اسے دوبارہ یونیورسٹی
میں انٹری دلوادی تھی۔
ماورا ایک میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی۔۔۔۔ یونیورسٹی کے اندر ہی باقی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ہی میڈیکل کالج بنایا گیا تھا۔۔۔ اس یونیورسٹی کا شمار ملک کی ٹاپ یو نیور سٹیز میں ہوتا تھا۔۔۔
اس لیے یہاں کا میرٹ بہت ہائی تھا۔۔۔ یہاں یا تو بھاری جیب والے امیر کبیر لوگوں کے بچے پڑھ سکتے تھے یا پھر ماور اجیسے زہین طالبات۔۔۔۔ جو اس یونیورسٹی کے میرٹ پر آنے کے لیے دن رات ایک کر دیتے آخر کار اپنی محنت کا لوہا منوا کر ہی رہتے تھے۔۔
تھے۔۔۔ ماورا بھی یونیورسٹی میں میرٹ پر اپنا ایڈمیشن ہو جانے پر بہت خوش
تھی۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ یہاں آکر وہ سادہ سی بے لوث لڑکی کسی
کی سازش کا شکار ہو کر ۔۔۔۔ اپنی ساری محنت اپنے ہاتھوں گنوانے کے در پر
ہو جائے گی۔۔۔۔
ماورا ایک ایسی بہت بڑی بھول کر چکی تھی۔۔۔۔ جس کے لیے وہ خود کو زندگی میں کبھی معاف نہ کرنے کا ارادور کھتی تھی۔۔۔
ماورا کن سوچوں میں گم ہو یار۔۔۔۔ جلدی چلو۔۔۔کلاس شروع ہونے میں ایک دو منٹ رہ گئے ہیں صرف سرا اگر ہم سے پہلے پہنچ گئے تو انٹر رہ
نہیں ہونے دیں گے کلاس میں ۔۔۔۔۔
اُس کی دوست صوفیہ اُسے تھکے تھکے قدم اُٹھاتے دیکھ بولتی تیزی سے آگے بڑھی تھی۔۔۔۔ صوفیہ کی آواز اُسے اپنی سوچوں سے باہر کھینچ لائی
نازک دودھیا کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر نظر دوڑاتے وہ بھی جلدی سے آگے بڑھی تھی۔۔۔ صوفیہ تو تیز تیز قدموں سے بھاگتے ہوئے آگے نکل گئی تھی۔۔۔۔ وہ بھی آگے بڑھی ہی تھی جب کوریڈور کا موڑ مڑتے وہ سامنے سے آتے شخص کو نہیں دیکھ پائی تھی۔۔ سنبھلنے کی کوشش کے باوجود ماورا کا سر اُس شخص کے فولادی سینے سے ٹکرا گیا تھا۔۔۔۔ماورا کو اپنے سر
میں ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔
اُس کے قدم ایک دم سے لڑ کھڑا سے گئے تھے۔۔۔۔اس سے پہلے کے وہ زمین بوس ہوتی اپنی بکس کے اوپر جا گرتی۔۔۔۔۔ مقابل کھڑے اُسے حیرت بھری نظروں سے دیکھتے شخص کا سکتا ٹوٹا تھا۔ اُس نے ماورا کے گرد
باز و حمائل کرتے اُسے گرنے سے محفوظ رکھا تھا۔۔۔۔
ماورا کے نتھنوں سے مقابل کی دلفریب خوشبو ٹکرائی تو اسے شدید جھٹکالگا تھا۔۔۔۔ اس نے نگاہیں اُٹھا کر اوپر دیکھا تھا۔۔۔۔ جہاں وہ شخص بھی بے یقینی کی تصویر بنے کھڑا اُسے دیکھی جارہا تھا۔۔۔۔
ماورا کے تن بدن میں ناگواری اور شدید نفرت کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔ اس شخص کے اپنے گرد لپٹے بازو کا حصار توڑنے میں اُس نے لمحہ نہیں لگایا
وہ آگ اگلتی نظروں سے سامنے کھڑے دنیا کے سب سے بڑے دھو کے باز اور دوغلے شخص کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
دوبارہ میرے قریب آنے یا مجھے چھونے کی کوشش بھی کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔۔۔ مسٹر منہاج درانی۔۔۔۔۔۔ نفرت سے بھی بڑھ کر اگر کوئی جذبہ ہوتا تو دو رکھتی ہوں میں تمہارے لیے۔۔۔۔۔۔ بہت بُرا کیا ہے تم نے میرے ساتھ ۔۔۔۔ میرا اللہ تمہیں اس کی سزا ضرور دے گا۔۔۔۔۔ میرے قدموں میں گر کر گڑ گڑاؤ گے تب بھی معاف نہیں
کروں گی تمہیں۔۔۔۔۔۔
منهاج درانی کو دیکھ اُس کے دل زخم پھر سے اُدھڑ گیا تھا۔۔۔۔ وہ جتنا سوچ کر آئی تھی۔۔۔۔اس شخص سے بلانا تو دور اس کی شکل بھی نہیں دیکھے
گی۔۔۔۔ ابھی اُسے سامنے دیکھ وہ خود پر سے اختیار کھو بیٹھی تھی۔۔۔ ناگواریت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے اپنی بکس اُٹھائے وہ وہاں سے نکلنے لگی تھی ۔۔۔۔ جب اس کی بات خاموشی سے سنتے منہاج درانی نے اس کی کلائی اپنی گرفت میں دبوچتے اسے دیوار کے ساتھ لگاتے خود اس کی جانب مڑا تھا۔۔۔۔ماورا کی کمر بہت زور سے دیوار کے ساتھ ٹکرائی تھی۔۔۔۔
پہلے سر اور اب کمر سے درد اُٹھتا اُس کی آنکھوں میں نمی بھر گیا تھا۔۔۔۔ماورا کی بکس ہاتھ سے چھوٹ کر پھر زمین بوس ہوئی تھیں۔۔۔۔اس حصے میں رش کم ہوتا تھا۔۔۔ اور اس وقت تو ماورا کی بد قسمتی سے اکاد کا سٹوڈنٹس بھی
دیکھائی نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔
تم گھٹیا شخص ۔۔۔۔۔ کیا بد تمیزی ہے یہ ؟؟؟ چھوڑو مجھے۔۔۔۔” مادر انے اس کی حرکت پر طیش میں آتے۔۔۔۔ اُس پر ہاتھ اٹھانا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر اُس کا اُٹھا ہاتھ اپنے چہرے تک پہنچنے سے پہلے ہی منہاج درانی
بیچ میں ہی روکتا اپنی گرفت میں لے گیا تھا۔۔۔۔۔
ی غلطی دوبارہ کبھی بھول کر بھی مت کرنا۔۔۔۔ ورنہ اس کا انجام تمہاری سوچ سے بھی کہیں زیادہ ہو گا ۔۔۔۔۔
اپنی گرفت میں پھڑ پھڑاتی ماورا کو دیکھ وہ شوخی بھری مسکراہٹ سے گویا گویا ہو ا تھا۔۔۔ اور مارواکا دل چاہا تھااس شخص کے خوبرو چہرے سے یہ دل جلاتی
مسکراہٹ نوچ لے۔۔۔۔۔

وہ اُسے خود کو آزاد کر وانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔ مگر اُس لمبے چوڑے مضبوط قد و قامت والے شخص کے سامنے اُس کی مزاحمت ایک چیونٹی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔۔۔۔
اور کیا کہا تم نے ؟؟؟… میں تمہارے قدموں میں گر کر تم سے معافی” مانگوں گا۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ تم تو پہلے سے بھی زیادہ نان سینس بولنے لگی ہو یار۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔ وہی کیا
جو ایک طوائف زادی ڈیزرو کرتی ہے۔۔۔۔ ہم شریفوں اور عزت دار لوگوں کے معاشرے میں تم جیسیوں کی کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔۔۔ تمہارا کام گھنگرو پہن کرنا چنا ہے۔۔۔۔۔ یہ بکس پڑھنا نہیں۔۔۔۔۔ میر اتو شکر یہ ادا کرنا چاہیئے تمہیں۔۔۔۔سو سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔ تمہیں تمہاری اصل جگہ ۔۔ تمہاری جگہ
پہنچادیا تھا۔۔۔۔۔
منہاج درانی بات کے اختتام میں زہر خند لہجے میں پھنکارتا، آنکھوں میں اس کے لیے حقارت لیے دیکھتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ ماور اکتنے ہی لمحے ساکت کی وہاں کھڑی رہی تھی۔۔۔ منہاج کے کہے جانے والے الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے ، اس کے دل پر نشتر کی طرح چلتے اُسے لہولہان کر گئے تھے ۔ ۔ ۔
وہ جانتی تھی خود کو جتنا بھی غیر مردوں کی نظروں سے چھپا کر اور اپنا دامن
پاک صاف رکھ لیتی۔۔۔۔ مگر اس کی حقیقت ہمیشہ یہی رہنی تھی کہ وہ ایک
طوائف زادی ہے
جسے وہ کبھی اپنی ذات سے جدا کر کے ایک باعزت
زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔۔۔۔
اُس کی آنکھوں کے کٹورے لبالب پانیوں سے بھر گئی تھیں۔۔ جن سے کئی
آنسو ٹوٹ کر ماورا کے گالوں کی
پھسلتے بے مول ہوئے۔
@@@@@@@@@
ز نیشہ میری جان تمہیں تو بہت سخت بخار ہے
شمسہ بیگم اور باقی سب ذیشان کی گمشدگی اور باقی سب معاملے کی وجہ سے اتنے اُلجھے ہوئے تھے۔۔۔ کہ اُنہیں زنیشہ کا خیال ہی نہیں رہا تھا۔۔۔۔
آژ میر کی اطلاع پر جیسے ہی ذیشان کے کمرے کی تلاشی لی گئی تو ۔۔۔۔ اُسے الماری میں رسیوں سے بندھا پایا گیا تھا۔۔۔۔ منہ پر بھی پٹی بندھی تھی ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ مدد کے لیے کسی کو بلا نہیں پایا تھا۔۔۔۔۔ اُس کے چہرے اور جسم پر زخموں کے نشان بھی تھے ۔۔۔ جو اُسے ملک زوہان نے اُسی کے کمرے میں آکر پیٹتے ، شادی کے گفٹ کے طور پر دیئے
تھے۔
سب لوگ ذیشان کی حالت دیکھ سہم گئے تھے۔۔ ملک زوہان نے جو کہا تھا وہ کر دیکھا یا تھا۔۔۔۔ اس نے شادی تور کوادی تھی۔۔۔۔ مگر وہ آخر آژ میر میران کے قہر کو آواز دے گیا تھا۔۔۔۔ آخر آژ میر
میر ان کے غضب ناک تاثرات بتا رہے تھے کہ اس بار وہ ملک زوہان کو بخشنے کا ارادہ بالکل بھی نہیں رکھتا
تھا۔۔۔
وہ بنا کسی سے کوئی بات کیے۔۔۔۔ پتھریلے تاثرات کے ساتھ میران پیلیس سے نکل گیا تھا۔
اُس کو اس قدر غیض و غضب سے جاتا دیکھ سب گھر والے مزید پریشان ہو اُٹھے تھے۔۔۔ اب پتا نہیں آژ میر ان زوہان کو اس عمل کی سزادینے
کے لیے کیا کرنے والا تھا۔۔۔۔۔
ذیشان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ شادی کی تقریب کی جاسکتی۔۔۔۔اس لیے فلحال اس معاملے میں خاموشی اختیار کر لی گئی تھی۔۔۔۔ شمسہ بیگم کو جیسے ہی زنیشہ کا خیال آیا تو وہ اس کے کمرے میں آگئی تھیں۔۔۔ جو کل سے ملازمین کے رحم و کرم پر ہی تھی۔۔۔۔ مگر اس کے بخار میں پھنکتے نقاہت زدہ وجود کو دیکھ اُن کا دل منہ کو آگیا تھا۔۔۔۔ اپنی لاڈلی کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی تھیں۔۔۔۔ انہیں زنیشہ ڈری ڈری خوفزدہ سی لگی تھی۔۔۔۔ ان کی آواز سنتے ہی وہ اُن کے قریب ہوتی اُن کی آغوش میں چھپ گئی تھی۔۔۔
میں نے آپ سب سے کہا تھا۔۔۔۔ وہ بہت خطر ناک ہے۔۔۔ جو کہا ہے وہ ضرور کرے گا۔۔۔۔ آپ لوگوں نے میری بات نہیں مانی۔۔۔۔اگر وہ
لالہ کو کوئی نقصان پہنچا دیتا تو میں مر جاتی۔۔۔۔وہ کیوں کرتا ہے آخر لالہ اور
ہم سب سے اتنی نفرت۔۔۔۔۔۔۔
زنیشہ اُن کی گود میں منہ چھپائے وہ سوال کر رہی تھی۔۔۔ جن کے جواب اُس سمیت میران پیلس کے باقی لوگ بھی جاننا چاہتے تھے۔۔۔۔ مگران سوالوں کے جواب دینے سے قاصر تھیں وہ۔۔۔۔۔
ز نیشہ کچھ نہیں ہو اسب ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ زوہان آژ میر کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔۔اور نہ آژ میر اتنا کمزور ہے کہ اُس کے کیے جانے وار کا مقابلہ ہی نی کر پائے۔۔۔ تم یہ فضول باتیں سوچ کر خود کو ہلکان مت کرو۔۔۔۔ دیکھو کیا حالت بنار کھی ہے تم نے اپنی ۔۔۔ ۔
شمسہ بیگم اُسے کندھوں سے تھام کر واپس بیڈ پر لٹا ٹیں، اُس کا زرد چہرا دیکھ فکر مندی سے بولی تھیں۔۔۔۔ وہ یہی سمجھی تھیں۔ کہ زوہان نے جو ذیشان
کے ساتھ کیا وہ اس کی وجہ سے اتنی ڈری ہوئی ہے۔۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں
جانتی تھیں کہ یہ ڈر و خوف زوہان کے اس کمرے میں آکر ادا کیے جانے والے الفاظ کی وجہ سے ہے۔۔۔۔۔ زوہان کی دی جانے والی دھمکی ابھی بھی اُس کے کانوں میں گونجتی اُسے نئے سرے سے خوف میں مبتلا کر جاتی
وہ چاہ کر بھی یہ بات شمسہ بیگم یا گھر کے کسی بھی فرد کو نہیں بتا سکتی تھی۔۔۔ کیونکہ اگر یہ بات آژ میر تک پہنچ جاتی تو آژ میر نے اس حرکت پر زوہان کو کسی قیمت پر معاف نہیں کرنا تھا، اور جواب میں زوہان بھی کسی سے کم نہیں
تھا۔
اس لیے اُس نے یہ بات اپنے دل کے اندر ہی دفن کرنا مناسب سمجھا
تھا۔۔۔

آژ میر میران شدید غصے میں شہر کی جانب روانہ تھا۔ کیونکہ اُسے یہی اطلاع ملی تھی کہ زوہان اپنے شہر والے گھر میں ہے۔۔۔اس لیے وہ جلد از جلد وہاں پہنچ کر آج ملک زوہان کی عقل ٹھکانے لگانے کا پورا اراد در رکھتا تھا۔۔ ملک زوہان کی حرکتیں دن بدن بڑھتی جارہی تھیں۔۔۔ جن پر بند باندھنا اب ضروری ہو گیا تھا۔۔۔
وہ لوگ ابھی آدھے راستے میں ہی پہنچے تھے ۔ آس پاس سنسان جنگل موجود تھا۔۔۔ گاڑی اپنی فل رفتار سے چل رہی تھی۔۔۔ جب اچانک سامنے روڈ پر انہیں سیاہ شال میں ملبوس کوئی تن تنہالڑ کی تیز تیز قدموں سے چلتی نظر آئی تھی۔۔۔ ڈرائیور نے فل سپیڈ میں ہونے کی وجہ سے گاڑی کا بمشکل کنڑول کرتے بریک لگائی تھی۔۔۔ مگر پھر بھی وہ اس لڑکی کو ٹکراؤ سے
بچانے میں ناکام ہوا تھا۔۔۔۔
گاڑی کی زراسی ٹھوکر سے سامنے چلتی لڑکی اچھل کر روڈ پر جاگری
جمال یہ کیا کیا تم نے؟؟… آنکھیں بند کر کے گاڑی چلارہے تھے ” کیا۔۔۔ جو تمہیں روڈ پر چلتی لڑکی نظر نہیں آئی۔۔۔۔
آژ میر پہلے ہی شدید غصے میں تھا۔۔۔ اوپر سے ڈرائیور کی حرکت پر اُسے مزید تپ چڑھی تھی۔۔۔ جو نجانے کونسی مصیبت اُس کے گلے ڈال چکا
تھا۔
پیچھے آتی گارڈز کی گاڑیاں بھی رک چکی تھیں۔۔۔
” معذرت سائیں۔۔۔۔۔” ڈرائیور بس منمنا کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
سائیں میں دیکھتا ہوں۔۔۔
فیصل جلدی سے نیچے اترا تھا۔۔۔۔
ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ آژمیر ہونٹ بھینچے وہیں بیٹھارہا تھا۔۔۔
سائیں وہ لڑکی بے ہوش ہو چکی ہے ۔۔۔ اور اس کے ماتھے سے بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے۔۔۔ یہ اس لڑکی کے لیے مخطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔
فیصل نے کھڑکی سے آکر آژ میر کو بتایا تھا۔۔۔سامنے ہوش و خرد سے بیگانہ لڑکی کے بے پنا حسن کو دیکھ اُس کی آنکھیں چندھی گئی تھیں۔۔ لڑکی بہت زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔ آس پاس جنگل بھی ہے۔۔۔۔” کہیں کوئی چڑیل ویل تو نہیں ہے۔۔۔ ورنہ اس جگہ تن تنہالڑ کی کا کیا کام۔۔۔۔۔ ویسے اتنی حسین لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی ۔۔۔۔۔ اتنی سفید ہے وہ۔۔۔ اندھیرے میں بھی اس کی دودھیار نگت دھنک رہی ” تھی۔۔۔ کاش آج وہ اکیلی ہی مل جاتی۔۔
فیصل کے پیچھے کھڑے گارڈز آثر میر کے اپنی جانب متوجہ ہونے سے انجان
اپنی ہانکی جارہے تھے۔
اُن کی باتیں سن کر آژ میر کے چہرے کے تاثرات بگڑے تھے۔۔۔وہ گارڈز کو ہی کہنے والا تھا کہ اس لڑکی کو ہاسپٹل لے جاؤ ۔۔۔۔ مگر انہیں اس لڑکی کے حسن میں قصیدے پڑھتے دیکھ آژمیر کو اس طرح ہوش سے بیگانہ لڑکی کو ان سب کے ساتھ بھیجنا ٹھیک نہیں لگا تھا۔۔۔۔
آژمیر اُن پر ایک سخت نظر ڈالتا گاڑی سے باہر نکلا تھا۔۔۔۔ جبکہ آژمیر کو باہر نکلتا دیکھ وہ دونوں مؤدب بنے سر جھکا گئے تھے۔۔
جب اُن کے سامنے آتے آژمیر نے دونوں کے منہ پر پر ایک ایک تھپڑر سیدکیا تھا۔۔۔۔ اُسے اُن کا ادا کیے جانے والا آخری جملہ آگ بگولا کر گیا
تھا۔
جیسی عزت اپنے گھر کی عورتوں کے لئے رکھتے ہو باہر بھی عورتوں کو بھی اُسی نظر سے دیکھنا شروع کر دو۔۔۔۔۔ معاشرے میں عورتیں تم جیسی کھٹیا سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے محفوظ نہیں ہیں۔۔۔۔ جہاں تن تنہالڑ کی دیکھی، اپنی لال ٹپکانے پہنچ جاتے ہو۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہی کوئی تمہاری گھر کی عورتوں کے بارے میں سوچے تو
کیسا لگے گا تمہیں۔۔۔۔۔۔۔
آژمیر اُن پر تفصیلی سرد نگاہ ڈالتا اس لڑکی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ جو واقعی حُسن کا مومی مجسمہ تھی۔۔ باقی وہ پوری طرح سے سیاہ شال میں کور
تھی۔۔۔ بس اُس کا دودھیاد لکش نقوش سے سجا چہرا سامنے تھا۔۔۔۔ماتھے سے نکلتا خون اس کے آدھے چہرے کو تر کر چکا تھا۔۔۔۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس میں اُس کے ستواں ٹھنڈ سے گلابی پڑتی ناک میں پہنی نتھ جگمگار ہی تھی۔۔۔۔
آژمیر نے فورا اس کے دلفریب چہرے سے نظریں پھیر لی تھیں۔۔ مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔۔۔ جتنا بھی حُسن اُس کے سامنے ہوتا وہ خود کو
بہکنے سے بچانا اچھی طرح جانتا تھا۔۔۔
آگے بڑھ کر اُس لڑکی کو بانہوں میں اُٹھاتے وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔ اُسے گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹاتے وہ خود ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آن بیٹھا تھا۔۔۔ فیصل اب گارڈز کی گاڑی میں تھا۔۔۔۔ اُن کی گاڑیاں تیزی سے ہاسپٹل کی جانب روانہ ہوئی تھیں۔۔۔
آژ میر زوہان کے پاس جلد از جلد پہنچ کر اُس کی عقل ٹھکانے لگانا چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر اس لڑکی کو یوں بے یار و مددگار چھوڑنے پر بھی اُس کا دل نہیں
مان رہا تھا۔۔۔
اس لیے پہلے وہ اس لڑکی کو ہاسپٹل پہنچا کر اس کا ٹریٹمنٹ کروانا چاہتا تھا۔
@@@@@@@@
منهاج درانی سے ٹکراؤ کے بعد ماور اکا دماغ ڈسٹرب ہو چکا تھا۔۔۔ بنا کوئی کلاس اٹینڈ کیے وہ ہاسٹل واپس آگئی تھی۔۔۔۔ منہاج اُس کی سچائی جانتا تھا۔۔ اگر وہ یہ بات یونی میں سب کے سامنے مشہور کر دیتا تو اُسے کوئی بھی یونی میں ٹکنے نہ دیتا۔۔۔۔ ماورا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ منہاج درانی جیسے
ناسور سے بچنے کے لیے وہ کیا کرے۔۔۔۔
@@@@@@@@
آژ میر اُس لڑکی کو لیے سیدھا ہاسپٹل پہنچا تھا۔۔ ڈاکٹرز کے مطابق روڈ پر گرنے کی وجہ سے اس کے ماتھے پر چوٹ آئی تھی ۔۔۔ بے ہوش ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔۔۔ اُس کی بینڈ بج کر کے ڈرپ لگادی گئی تھی۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اُسے ہوش آ جانا تھا۔۔۔۔ آثر میر اُس لڑکی کے ہوش میں آنے تک
و ہیں رکا تھا۔۔۔۔ اور ساتھ میں ملک زوہان کے رٹرن گفٹ کی بھی تیاری
کرنے لگا تھا۔۔۔۔
سائیں اُس لڑکی کو ہوش آگیا ہے۔
آژ میر کال کاٹتا واپس پلٹا تھا
جب فیصل بے اس لڑکی کے ہوش میں
آجانے کی اطلاع دی تھی۔۔۔
آژ میر اثبات میں سر ہلا تا اُس روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔اس لڑکی کا یوں سنسان روڈ پر اچانک آجانا اُسے میں اچنبھے میں ڈال گیا تھا۔۔۔
اُس کے دشمنوں کی کمی نہیں تھی۔۔۔ یہ دشمنوں کی جانب سے کی گئی کوئی سازش بھی ہو سکتی تھی۔۔۔ اس لیے وہ اس لڑکی سے بات اور جانچ پڑتال
کیے بنا جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
اُسے آتا دیکھ گارڈ نے جلدی سے دروازہ کھولا تھا۔۔۔ آژ میر تیزی سے اندر
داخل ہوا تھا۔۔۔ جب اُس کی نظر سامنے بیڈپر ٹیک
لگائی بیٹھی لڑکی پر پڑی تھی ۔۔۔
لرزتے دل کے ساتھ وہاں بیٹھی حائفہ نے بھی اپنی گھنیری پلکوں کی باڑ اٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُسے نرس سے ہی پتا چلا تھا کہ کوئی آژ میر نامی شخص اُسے یہاں لا یا تھا۔۔۔ اور اب اس کے ہوش میں آنے کے بعد اسے
ملنا چاہتا تھا۔۔۔۔
حائفہ کو جو کرنے کو کہا گیا تھا ابھی تک سب ٹھیک چل رہا تھا۔۔۔۔ مگر اب آگے آژ میر کا سامنا کرنے سے اُس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔
اُس کا دل بہت گھبرارہا تھا۔۔۔ نجانے وہ شخص کتنا خطر ناک ہو۔۔۔۔۔اور
کہیں وہ پکڑی نہ جائے۔۔۔۔۔
اُسے صبح ہی کال آئی تھی ، اسی شخص کی جس نے اب آژ میر میر ان کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے اُسے ساری آگا ہی دینی تھی۔۔۔۔ آج بھی اُسی کے کہنے پر ہی وہ ڈرائیور کے ساتھ اس سنسان روڈ پر پہنچی تھی ۔۔۔۔اُس کا ڈرائیور گاڑی کو چند کلو میٹر دور جھاڑیوں میں چھپائے کھڑا تھا۔۔۔۔ تاکہ
آژ میر اور اُس کے آدمیوں کی نظروں میں نہ آسکے۔۔۔۔ آژ میر کی گاڑی کو قریب آتا دیکھ حائفہ جان بوجھ کر سامنے آئی تھی۔۔۔۔ کیونکہ اُسے بتایا گیا تھا کہ آژ میر میر ان سے سامنا ہو نا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔ اس لیے حائفہ کو یہ موقع سب سے اچھا لگا تھا۔۔۔۔ جس کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے وہ اب آژ میر میر ان کے سامنے تھی۔۔۔ نرس نے اُس کے اندر آنے کا بتایا تھا۔۔۔حاعفہ کا دل خوف کے مارے بیٹھا
جار ہا تھا۔۔۔۔ جب دروازہ کھولتے ایک رعب دار پرسنیلٹی کا مالک خوبرو
شخص اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ سیاہ لباس میں کریم کلر کی گرم شال اپنے چوڑے کندھوں کے گرد لپیٹے وہ مقناطیسی نگاہیں اُس کی جانب اُٹھائے قریب آیا تھا ۔۔۔۔ اس کی خود پڑگڑھی سنجید گی بھری سیاہ آنکھیں حائفہ کا دل زور سے دھڑ کا گئی تھی۔۔۔ وہ جس طرح حائفہ پر نگاہیں گاڑھے کھڑا تھا۔۔۔اس کے خوف سے اپنے ہاتھوں کی لرزش چھپانے کے لیے حائفہ نے بیڈ کی چادر کو مٹھی میں دبوچ لیا تھا۔۔۔
آژ میر میران نے ہونٹ سختی سے بھینچ رکھے تھے۔۔۔ ہونٹوں پر سبجی گھنیری مونچھیں اس کی رعب دار پر سنیلیٹی میں مزید اضافہ کر رہی
تھیں۔۔۔۔
کون ہو تم ؟؟؟ اور رات کے پہر اس سنسان روڈ پر کیا کر رہی “
تھی۔۔۔؟؟
حائفہ کو کڑے تیوروں سے گھورتے اُس نے سختی بھرے لہجے میں استفسار
کیا تھا۔۔۔
اُس کی زیرک نگاہیں حائفہ کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ جو خود کو کمپوز کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔وہ نہیں چاہتی تھی، آژ میر کو اُس
پر زرا سا بھی شک ہو ۔۔۔۔۔
” حائفہ نور نام ہے میرا۔۔۔۔۔”
حاعفہ نے اپنے چہرے کے گرد لپٹی شال کو مزید درست کرتے اُسے جواب
دیا تھا۔۔۔
کچھ غنڈے میرے پیچھے لگے ہوئے تھے۔۔۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا اور میں وہاں آن نکلی۔۔۔۔ اور اچانک آپ کی گاڑی سے ٹکراگئی۔۔۔۔ حاعفہ نے اپنا خشک حلق تر کرتے سر جھکائے جواب دیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ آژ میر میر ان کی جانچتی نگا ہیں اُس پر نکی ہوئی تھیں۔۔۔۔ ہمیشہ لوگوں کو اپنی قاتل نگاہوں سے مات دینے والی حائفہ اس وقت اس
کے سامنے نگاہیں اُٹھانے سے قاصر تھی۔۔۔۔
اپنے گھر والوں کا نمبر بتاؤ۔۔۔۔ تا کہ وہ یہاں سے آکر لے جائیں
تمہیں۔۔۔
آزمیر نے موبائل پاکٹ سے نکالتے اُس سے نمبر مانگا تھا۔۔۔ حائفہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا تھا۔۔۔۔
میر ااس دنیا میں کوئی نہیں ہے، میرے پیر نٹس کی ڈیتھ ہو چکی ہے
” میں اکیلی رہتی ہوں۔۔۔۔
حائفہ نے فورا سنبھلتے جواب دیا تھا۔۔۔۔
اپنے گھر کا ایڈریس
بتاؤ۔۔۔۔

آژ میر نے نیا سوال داغا تھا۔۔۔۔ اُس کی سرد نگاہیں ہنوز حائفہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ اس لڑکی کی گھبراہٹ اُسے شک میں مبتلا کر رہی تھی۔۔۔۔ میں خود گھر چلی جاؤں گی ۔۔۔۔ آپ نے اب تک میری جتنی مدد کی ، اس
کے لیے بہت مشکور ہوں میں۔۔۔۔

حائفہ جذ بز ہوئی تھی۔۔۔۔اس شخص کی موجود گی اُس پر بہت بھاری پڑرہی تھی۔۔۔ اس کی ساحرانہ شخصیت کے سامنے اُس سے بولنا محال ہو رہا تھا۔۔۔ وہ بھلا اسے اپنی محبت کے جال میں کیسے پھنساتی ۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی بات کے جواب میں آخر میر اس پر ایک نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ وہ پہلے ہی اخلاقیات کے چکر میں اس لڑکی کے پیچھے اپنا کافی ٹائم
ضائع کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔
اس لڑکی کا تن تنہا وہاں پایا جانا اسے مشکوک تو لگا تھا۔۔۔ مگر اُس کا آژ میر سے یوں گریز بر تنا اُس کا شک دور کر گیا تھا۔
آژ میر کے جاتے ہی حائفہ نے سکھ کا سانس ہوا میں خارج کرتے تکیے سے سر
ٹکادیا تھا۔۔۔
جس شخص سے وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔اس سے
آگے رکھے جانے والے ریلیشن کا سوچ حائفہ کی کیفیت غیر ہوئی
تھی۔۔۔۔
اُس کا بہت سے مردوں سے سامنا ہوا تھا۔۔۔ مگر اس شخص میں ایک الگ ہی کشش تھی۔۔۔۔ جو حائفہ کو خود میں جکڑ رہی تھی۔۔۔
جہاں ایک طرف آژ میر میران کو ایک شریف النفس انسان کے روپ میں دیکھ کر اُسے سکون ملا تھا، وہیں اُس کی شخصیت کے آگے حائفہ کو اپنا سارا کانفیڈنس اور زہانت صفر ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ حائفہ کو یہاں آنے سے پہلے یہی بتایا گیا تھا۔ کہ اگر آژ میر میر ان کے سامنے اس کی اصلیت کھل گئی کہ وہ اُسے دھوکا دینے آئی ہے یہاں۔۔۔۔ تو اس کا آژ میر میران
کے قہر سے بیج پانا نا ممکن تھا۔۔
@@@@@@@@@
ملک زوہان میری سوچ سے زیادہ مغرور ہو تم ۔۔۔۔۔ میرے حلقے کے تمام مرد میرے حُسن کے دیوانے ہیں۔۔۔۔اور میں صرف اور صرف
تمہارے پیچھے پاگل ہوں، مگر تم ہو کہ مجھے گھاس بھی نہیں ڈالتے۔۔
بہت غلط بات ہے ۔ شمن ایک ادا سے اپنی شولڈر کٹ زلفوں کو ہاتھ سے جھٹکتی اُس کے بے انتہا قریب صوفے پر آن بیٹھی تھی۔۔۔۔
سیگریٹ کا دھواں فضا کے سپرد کرتے ملک زوہان نے نظریں گھما کر اپنے کندھے سے سر ٹکائے بیٹھی شمن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔ وہ کسی کو اجازت نہیں دیتا تھا اپنے قریب آنے کی۔۔۔۔ مگر شمن خان سے اس کی کافی دوستی تھی۔ شمن نے اُس کی خاطر اپنا نام اپنی ریپوٹیشن داؤ پر لگارکھی تھی۔۔۔۔ زوہان اس کی بے تکلفی برداشت کرتا تھا مگر ایک حد تک ۔۔۔۔ اس حد سے آگے اس نے شمن کو کبھی بڑھنے نہیں دیا تھا۔۔۔۔ اُس کا یہ گریز شمن کو مزید اس کا دیوانہ بنادیتا تھا۔۔۔۔ وہ جی جان سے ملک زوہان کو حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ جس کے لیے وہ آخری دم تک اُس کا دل جیتنے کی کو شش کر سکتی تھی۔۔۔۔
تھی۔۔۔اسی ریزان سےوہ اسے اتنا حق
ابھی بھی وہ بے خود سی اُس کے خوبرو چہرے کو دیکھے گئی تھی۔۔۔
تو عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے۔۔۔۔ اُن مردوں میں سے کسی ایک کا ہاتھ تھام لو۔۔۔۔ کیونکہ یہاں سے تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق کچھ
” نہیں ملنے والا۔۔۔۔
زوہان نے دوسرا سیگریٹ سلگاتے اُسے ہمیشہ کی طرح ٹکا سا جواب دیا تھا۔۔۔۔ شمن اس کے جواب پر جی بھر کر بد مزا ہوئی تھی۔۔۔۔ مگر اپنا سر
ابھی بھی اس کے کندھے سے نہیں ہٹایا تھا۔۔۔۔
تم بہت سنگدل اور ظالم بھی ہو ۔۔۔۔ تمہاری زندگی میں آنے والی لڑکی خوش قسمت ہونے کے ساتھ ساتھ بچاری بھی ہو گی۔۔۔۔ کیونکہ تمہارا
ستم برداشت کرنا آسان کام بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔
شمن نے خفگی بھرے انداز میں کہا تھا۔۔۔۔ کیونکہ جتنی انا اور اکٹر اس شخص میں تھی، اُس نے آج تک کسی میں بھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔۔
شمن کی بات پر زوہان کی آنکھوں کے پردے پر کسی کاد لکشی بھرا، ڈرا سہما نازک سراپا آن ٹھہر ا تھا۔۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے زوہان سر جھٹکتے اُس کے تصور سے باہر آیا تھا۔۔۔۔ جسے وہ اپنے دل میں کوئی بھی جگہ دینے کی غلطی
نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
اسی لمحہ سامنے ٹیبل پر پڑا اس کا موبائل بج اُٹھا تھا۔۔۔۔ حاکم کا نمبر دیکھ زوہان نے فوراکال ریسیو کی تھی۔۔۔۔ مگر دوسری جانب سے جو خبر اسے سنائی گئی تھی۔۔۔۔ اس کا چہرا غصے کی شدت سے لال ہو گیا تھا۔۔۔۔ سامنے پڑا ٹیبل اس کے پیر کی ماری جانے والی ٹھوکر سے دور جا گرا تھا۔۔۔ شمن دہل کر اُس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔ اُس کا یہ جنونی روپ ہمیشہ خطرناک ثابت ہو تا تھا۔۔۔ اُس کے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے
بھی۔

منہاج درانی سے ٹکراؤ کے بعد ماور اکا دماغ ڈسٹرب ہو چکا تھا۔۔۔ بنا کوئی کلاس اٹینڈ کیے وہ ہاسٹل واپس آگئی تھی۔۔۔۔ منہاج اس کی سچائی جانتا تھا۔۔ اگر وہ یہ بات یونی میں سب کے سامنے مشہور کر دیتا تو اسے کوئی بھی یونی میں لکھنے نہ دیتا۔۔۔۔ اور ا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ منہاج درانی جیسے
ناسور سے بچنے کے لیے وہ کیا کرے۔۔۔۔
وہ بستر میں گھسی تکیے میں سر دیئے لیٹی روتی رہی تھی۔۔۔ ان دونوں بہنوں کے لیے لائف کبھی آسان نہیں رہی تھی۔ اگر م ماور ااس کو ٹھے سے دوراس جگہ عزت سے رہ رہی
تھی تو اس کی بھاری قیمت وہاں حائفہ ادا کر رہی تھی۔ حائفہ پر اگر
زمہ داری نہ ہوتی تو وہ کب کی وہاں سے نکل گئی
تھی۔
یہی بات مادر اکور لاتی تھی۔۔۔ کہ حائفہ اُس کی وجہ سے مشکل میں تھی۔۔ حائفہ کی صرف ایک ہی خواہش تھی۔۔۔ وہ ماورا کو
ڈاکٹر بنے دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔۔
ماورا کو یہی ڈر تھا کہ اگر منہاج درانی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو پاتا تو حائفہ کا دل دکھتا۔۔۔ جو کہ اب ماورا کبھی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔۔۔۔ ماور اخود کو نارمل کرتی منہاج درانی کو اس کی جگہ پر ہی رکھنے کا سوچنے لگی تھی۔ وہ شخص اُس کا گنہ گار تھا پھر وہ بھلا ہی کیوں ڈرتی ا اس سے۔۔۔۔۔ ماور اتکیے پر سر رکھے آنکھیں موندے ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہوئی
وہ دونوں بہنیں دنیا کی اُن بد نصیب لڑکیوں میں سے تھیں۔۔۔ جنہوں نے آنکھ ہی کو ٹھے پر کھولی تھی۔ پیدا ہوتے ہی اُن کے کانوں میں گھنگروں کی تھاپ سنائی دی تھی۔۔۔۔ اُن کی ماں سلمہ ایک طوائف زادی تھی۔۔۔ مگر شاید ان کی قسمت اچھی تھی کہ اُن کے پہلے رقص میں ہی کسی امیر زادے کا
دل آگیا تھا اُن پر۔۔۔۔
جو اپنی فیملی کی وجہ سے انہیں گھر تو ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا مگر اس نے سلمہ پر ایک طرح سے احسان کرتے اُس پر اپنے نکاح کا ٹھپہ لگا کر اُسے ہمیشہ کے
لیے اپنے نام لکھوالیا تھا۔۔۔۔ اُس کا کہنا تھا وہ سلمہ سے بہت محبت کرتا ہے، ایک دن اُسے اس جگہ سے نکال کر لے جائے گا۔۔۔۔ سلمہ اُس کی باتوں پر دل سے ایمان لاتی تھی۔۔۔ نکاح کی وجہ سے اُس نے سلمہ کی ماں کو بھاری قیمت ادا کی تھی۔۔۔۔ وہ بے پناہ خوش تھیں۔۔۔اس بات کا انہیں اندازہ تھا کہ اُن کی بیٹی کا بے پناہ حسن ایسی بجلیاں تو ضرور گرائے گا۔۔۔۔ سلمہ کی بڑی بہن نگینہ ہمیشہ اپنی چھوٹی بہن کے حسن سے خار کھاتی تھی۔ بڑی وہ تھی مگر ان کی ماں ہمیشہ سلمہ کو ہی اہمیت دیتی تھی۔۔۔ اوپر سے اتنے مینڈ سم اور امیر کبیر بندے سے اُس کا نکاح نگینہ کی جیلسی مزید بڑھا گیا تھا۔۔۔ مگر وہ یکچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ نہ جلنے ، کڑھنے اور ٹھنڈی آہیں بھرنے کے سوا کچھ کیونکہ چاہے جو بھی ہو آخر سلمہ اس کی بہن تھی ، وہ اُس کے خلاف کچھ نہیں
کر سکتی تھی۔
دوسری جانب سلمہ یہی چاہتی تھی کہ وہ جب تک یہاں ہے ، وہ اولاد پیدا نہیں کرے گی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی مزید کوئی ننھی جانیں ویسی ہی اذیت اور
تکلیف برداشت کریں جو وہ اب تک کرتی آئی تھیں۔۔ مگر اُس کے شوہر نے اُسے ہر طرح سے اعتبار دلاتے ، اُس کی یہ ضد ختم کر دی تھی۔۔۔۔ سلمہ
نے اُس کی محبت کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔۔۔
کافی عرصے تک یہ معاملہ ایسے ہی چلتارہا۔۔۔۔ سلمہ اس شخص کی بیوی بن کر کوٹھے پر رہتی۔۔۔ جب بھی کسی گاہک وغیر ہ کے آنے کا ٹائم ہوتا وہ کمرے میں قید ہو جاتی۔۔۔۔۔۔ اسے اپنے شوہر کی جانب سے کسی کے
سامنے آنے کی اجازت نہیں
جب اُنہیں دنوں اُس کی گود میں ایک چاند سی بیٹی نے جنم لیا تھا۔۔۔۔سلمہ اپنی بیٹی کی چاند سی روشن من موہنی صورت دیکھ کر اسے چومتی اُس کے اچھے نصیب کی دعا کرنے لگی تھی۔۔۔ مگر بیٹی کو جنم دیتے ہی اس کے دل
میں ایک عجیب ساخوف پیدا ہو گیا تھا۔۔۔
سلمہ نے اپنی بیٹی کا نام حائفہ رکھا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو اس کوڑے کے ڈھیر میں نہیں پالنا چاہتی تھی۔ اُس نے پھر اپنے شوہر سے یہاں سے جانے کی خواہش ظاہر کی تھی، جسے اس نے ہمیشہ کی طرح پہلا پھسلا کر ٹال دیا تھا۔۔۔ جب ٹھیک تین سال بعد سلمہ نے ایک اور بیٹی کو جنم دیا تھا۔۔۔ وہ بھی حائفہ کی طرح نازک گڑیاسی تھی۔۔۔۔ اپنی بیٹیوں کی بے پناہ خوبصورتی سلمہ کو خوفزدہ کر گئی تھی۔۔۔ اس نے اپنے شوہر سے ایک بار پھر وہی مطالبہ کیا
تھا۔ مگر اس بار اسے اپنے شوہر کی جانب سے جو جواب ملا تھا اس نے سلمہ کے
نازک دل توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اس کے شوہر کا کہنا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے شریف گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ وہ بھلا ایک طوائف زادی اور اُس کی بیٹیوں کو اپنے گھر کیسے لے جاسکتا ہے۔۔۔ اور اُسے خفیہ طور پر کسی اور ٹھکانے پر رکھ کے بھی وہ اپنا کردار مشکوک نہیں بنا سکتا تھا۔ اس لیے سلمہ کو اپنی بیٹیوں سمیت ساری زندگی یہیں رہنا تھا۔۔۔ سلمہ جو ایک عزت کی زندگی جینے کی خواہش مند
تھی، اپنی قسمت کی ستم ظریفی پر پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔۔۔ کیونکہ اب اُس پر صرف اپنی عزت کی نہیں بلکہ دو بیٹیوں کی زمہ داری بھی
تھی۔۔۔۔
جن کا باپ خود کو ایک شریف النفس انسان اور عزت دار شہری مانتا تھا۔۔۔۔ مگر اس کی غیرت اس کو ٹھے کے دروازے کے آگے آکر مر جاتی
تھی۔۔۔ جہاں اس کی بیوی، اس کی سگی بیٹیاں پڑی تھیں۔۔۔ اس دن کے اپنے شوہر سے ہونے والے جھگڑوں کے بعد سے سلمہ اُس سے سیدھے منہ بات نہیں کر رہی تھی کیونکہ اس کی شوہر نے اس سے دھوکا دیا تھا۔۔۔۔ وہ آنا سلمہ اُس کی احسان مند ہونے کی وجہ سے اُس کے حکم پر سر تسلیم خم کر دیتی۔۔۔۔ اُس کی ہر بات خاموشی سے مان جاتی۔۔۔۔ جب اچانک نجانے کیا ہوا کہ اُس کے شوہر نے کوٹھے پر آنا ہی بند کر دیا۔۔۔۔ اُس نے سلمہ کو کبھی اپنے خاندان اور اپنی پہچان کے بارے میں
کچھ نہیں بتایا تھا۔ جس کی وجہ سے سلمہ اُسے ڈھونڈنے سے قاصر
تھی۔۔۔
سلمہ کی بیٹیاں بڑی ہو رہی تھیں۔۔۔ جس سا تھ ہی اُن کے معصوم
حسن میں مزید نکھار آ رہاتھا
اس سب کے ساتھ ہی سلمہ کا اُن کو لے کر
خوف بھی بڑھتا جار ہا تھا۔۔۔۔
اس نے بہت کوشش کی تھی مگر اپنے شوہر سے رابطہ کرنے کا کوئی سراغ نہیں مل پار ہاتھا ہے۔ ۔ جب اُنہی دنوں سلمہ پر ایک اور ستم آن پڑا تھا۔۔۔ سلمہ کی ماں جو ہمیشہ اس کے لیے ڈھال بن کر رہی تھیں ، اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں ۔۔۔ سلمہ بُری طرح ٹوٹ کر رہ گئی تھی۔۔۔ کوٹھے کا سارا اختیار نگنیہ بائی اور اس کے خالہ زاد کر امت خان کے پاس آگیا تھا، کرامت بھی اسی کو ٹھے کی پیداوار تھا۔۔۔۔۔ اور اب اپنے اس بزنس کو بڑے پیمانے پر لے جانے کے لیے وہ بہت سارے غیر قانونی کاموں میں بھی انوالو ہونے لگا تھا۔۔۔
نگینہ کا شروع سے ہی رویہ ٹھیک نہیں تھا سلمہ کے ساتھ۔۔۔ کہنے کو تو وہ بہنیں تھیں۔۔۔ مگر نگینہ سلمہ سے خار کھاتی ، دل میں اُسکے خلاف بہت بغض رکھے ہوئے تھی۔ سلمہ اندر سے بالکل ٹوٹ چکی تھی۔۔۔ اُسے اپنی بیٹیوں کا مستقبل روشن نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔ اُس نے جیسے بھی لڑ جھگڑ کر ، نگینہ سے مخالفت مول لے کر اپنی بیٹیوں کی پڑھائی جاری رکھی تھی۔۔۔
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کو ٹھے میں رہ کر کوئی بچیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔۔۔۔ حاعفہ نے ابھی یونیورسٹی میں قدم رکھا ہی تھا جب اُس کی ماں جو اُن کے سر کا سائبان تھی۔۔۔۔ اُنہیں اپنی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم کرتی، ایک رات خاموشی سے آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔۔ اُن دونوں بہنوں کے سر پر قیامت آن ٹوٹی تھی۔۔۔۔ نگینہ بائی نے ان دونوں کی پڑھائی چھٹروا
دی تھی۔۔۔
حاعفہ نگینہ بائی کے سامنے اپنی قربانی تو دے گئی تھی، مگر ماورا کے لیے وہ کسی طور راضی نہیں تھی۔۔۔۔ حائفہ کا پہلار قص ہی اتنا شاندار گیا تھا کہ نگینہ
بائی اور کرامت خان کو اس کی ضد مانتے ہی بنی تھی۔۔۔ اور ماورا کی تعلیم دوبارہ شروع کروادی گئی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں بہنیں اپنے ماں باپ کے
ریلیشن کے بارے میں ہر بات سے آگاہ تھیں۔۔۔۔
کہ اُن کا باپ اتنا بزدل انسان تھا۔ کہ انہیں ساتھ کے جانا تو دور کی بات، ان کے برتھ سرٹیفکیٹ پر اپنا نام بھی لکھوانے سے انکاری تھا۔۔۔۔ وہ دونوں بہنیں نہ تو اپنے باپ کا نام جانتی تھیں۔۔۔ اور نہ اس بات اے واقف تھیں، کہ وہ شخص اب زندہ بھی تھا یا نہیں۔۔۔۔۔
حاعفہ نے مردوں کے دو طرح کے روپ ہی دیکھے اور سنے تھے۔۔۔ایک اپنے باپ جیساد ھوکے باز، بے وفا اور نفس کا مارا بزدل شخص اور دوسرا
کرامت خان جیسا جو پیسوں کی خاطر اپنی عورتوں کی سودا بازی کرتا تھا ۔۔۔۔ حائفہ کو مرد ذات سے شدید نفرت تھی۔۔۔۔ وہ کبھی اس صنف پر بھروسہ نہ کرنے کی قسم کھا چکی تھی۔۔۔ جبکہ دوسری جانب
ماور اصدا کی
نرم دل کچھ مردوں کی وجہ سے دنیا کے سارے مردوں کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے تیار نہیں تھی ۔ مگر وہ بھی اپنی ماں کی طرح بدنصیب ہی نکلی ۔مہناج درانی نے اس کی ذات پر جو داغ لگایا تھا ۔وہ تو شاہد مٹ جاتا مگر اس کے دئیے ہوئے درد کبھی نہ بھولنے والا تھا۔

Share with your Friends on Facebook


1 thought on “Haifa and Zanisha Novel Part 3 – Urdu Font Stories | Read Online Free”

  1. Pingback: Haifa and Zanisha Novel Part 4 – Urdu Novel 2025 | Read Online

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top