Haifa and Zanisha Novel Part 4 – Urdu Novel 2025 | Read Online Free


Urdu novel 2025 have a unique way of capturing deep emotions, and Haifa and Zanisha is one of the most engaging love stories in recent times. After the success of the first three parts, Haifa and Zanisha Novel Part 4 (2025) continues the journey with new twists, emotional conflicts, and intense drama.

If you love Urdu romantic novels with suspense and thrill, this part will keep you engaged till the very last word.

Urdu Novel 2025

Read Here Haifa and Zanisha Novel Part 3

بہت غلط کیا ہے آث میر میران تم نے۔۔ بہت غلط ۔۔۔ اِس کا بہت بڑا
“حساب چکانا ہو گا تم نے۔۔۔۔۔۔۔ زوبان کال کا فنا مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔۔اس سے اپنا غصہ کنٹرول کرنا مشکل ہور ہا تھا۔۔۔ اس کی دو انتہائی قیمتی فیکٹریز میں آگ لگادی گئی تھی۔۔۔ جس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کوئی بچاؤ کرنے سے پہلے ہی سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا تھا۔۔۔ زوہان کو کروڑوں کا نقصان ہوا تھا۔۔۔۔ وہ اچھے سے جانتا تھا۔۔۔ آژمیر کے علاوہ کوئی انسان اتنی جرات نہیں کر سکتا تھا یہ کار نامہ اُس کا تھا۔۔۔۔ زوبان اگر اُس کے خاندان والوں کو نقصان پہنچاہتا تھا
تو آژمیر اُس کا بدلہ ایسے ہی لیتا تھا۔۔۔۔۔
” کیا ہواز وہان ؟؟؟؟”
ثمن بھی پریشان ہوتی زوہان کے قریب آئی تھی۔۔۔
اس سے پہلے سے کہ ثمن کی اس بات کا وہ کوئی جواب دیتا۔۔۔ جب دروازہ ناک کرتے اُس کی اجازت سے ملازم گھبرایا بو کھلا یا اندر داخل
ہوا تھا۔۔۔
سائیں وہ باہر ۔۔۔۔ آژمیر میران۔۔۔ زبر دستی اندر آگئے ہیں ۔۔۔ہماری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں
ملازم کی باقی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی۔ پیچھے سے آژمیر نے آکر اُسے ایک طرف دھکیل دیا تھا۔۔۔
زوہان کے اندر پہلے ہی آژمیر میر ان کے لیے نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔۔۔اتنے بڑے کارنامے کے بعد اُس کا یہاں آنا، اُس آگ میں
چنگاری بھڑ کا گیا تھا۔۔۔۔
اندر داخل ہوتے آژمیر نے انتہائی نخوت اور ناگواری بھری نظروں سے زوہان کے انتہائی قریب بیٹھی ثمن کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ جنہیں محسوس کرتی ثمن زوہان کا بازو تھامتی اس کے مزید قریب ہوئی تھی۔۔۔۔ کیسالگامیر ارٹرن گفٹ میرے پیارے بھائی۔۔۔۔؟ آژمیر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کے غصے سے لال پڑتے چہرے پر نظریں لگائے بولا تھا۔۔۔
زوہان کا یہ غصے سے بھڑ کا اند از آژمیر میر ان کے جلتے سینے پر ٹھنڈی پھوار طرح ثابت ہوا یہی دیکھنے تو اتنی دور سے یہاں آیا تھا کہ اپنی
آنکھوں سے اس شخص کی مات دیکھ سکے۔۔۔۔
زوہان آنکھوں میں شعلوں کی سی لیک لیے آژمیر کے مقابل آن کھڑا ہوا
تھا۔۔۔۔
میرا یہ نقصان تمہیں بہت مہنگا پڑے گا۔۔۔۔ یہ سب کر کے تم نے اپنی بر بادی کو آواز دی ہے ملک آثر میر میران۔۔۔۔
زوہان کا دل چاہا تھا۔۔۔ ابھی اسی وقت اپنی بندوق اس شخص کے سینے پر خالی کر دے۔۔۔۔ مگر نہیں وہ میران پیلس کے کسی بھی شخص کو اتنی آسان
موت نہیں مار سکتا تھا۔۔۔ وہ اُن سب کو تڑ پانا چاہتا تھا۔۔۔۔ بر باد کس نے ہونا ہے یہ تو وقت کی بتائے گا۔۔۔ لیکن اگر خود کو میرے ہاتھوں بچانا چاہتے ہو تو میرے گھر والوں سے۔۔۔۔ میری بہن سے دور رہو۔۔۔۔اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔۔۔۔ ورنہ تمہیں برباد کرنے سے
مجھے کوئی روک نہیں پائے گا۔
آژمیر بھی چہرے پر سر د وسپاٹ تاثرات لیے اُسے وارن کرتے بولا۔۔۔۔ جبکہ اس کی بات پر زوبان قہقہ لگاتے ہنس دیا تھا۔۔۔
تمہاری بہن میری ہونے والی بیوی ہے۔۔۔ اُس سے بھلا کیسے دور رہوں
میں سالے صاحب۔۔۔۔۔
زوہان بھی اُس کے اندر ویسی ہی آگ بھڑ کا نہ چاہتا تھا۔۔۔ جیسی اس وقت اس کے اپنے اندر لگی تھی ۔۔۔۔ اور ہوا بھی ایسے ہی تھا۔۔۔ آژمیر میران بھڑ کا ضرور تھا۔۔۔ مگر پھر جلد ہی خود پر قابو پا گیا تھا۔۔۔۔ بزدلوں کی طرح عورتوں کو مہرا بنا کر وار کرنا چھوڑ دو۔۔۔۔ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہو ۔۔۔ کم از کم اس کے نام کا کی خیال کر لو۔۔۔ آژمیر نے ایک جتاتی نظر زوہان کے پیچھے کھڑی شمن پر ڈالی تھی۔۔۔ زوہان اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ آژمیر ان دونوں کے درمیان کس ٹائپ کا ریلیشن
سمجھ رہا ہے۔۔۔
میری بہن انتہائی معصوم اور ایک باکردار لڑکی ہے۔۔۔ جسے تم جیسا شخص تو بالکل بھی ڈیزرو نہیں کرتا۔۔۔۔ اُسے اِس دشمنی میں استعمال کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔۔ کیونکہ اُس کے بعد میں جو تمہارا حال کروں گا۔۔۔۔ وہ بھی سوچ بھی نہیں سکتے تم ۔۔۔۔۔
آث میر اُسے سخت لہجے میں وارن کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اُس کے جاتے ہی زوہان نے کمرے کی کوئی شے سلامت نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔ شمن اس کے اتنے شدید غصے پر ایک کونے میں کھڑی خاموشی سے اسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ زوبان کو اتنا جنونی غصہ آثر میر کی آخری بات پر آیا تھا۔۔۔۔ یا پھر اس کے کیسے جانے والے
میرا تم دیکھے ۔۔ تمہاری
دھمکی کو میں تم پر کیسے لوٹاتا’
ہوں۔۔
پورے کمرے کی ہر شے زمین بوس کرنے کے بعد زوبان دوبارہ سیگریٹ
سلگھا تازہر خند لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
میران پیلس کی سیکیورٹی مزید بڑھادی گئی تھی۔۔۔ آژمیر اپنے خاندان والوں کی سیفٹی پر کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ بیٹا آپ یونیورسٹی کیوں نہیں جارہی ہیں ؟؟؟ شادی تو فلحال پوسٹ پونڈ ہو گئی ہے نا۔۔۔۔ تو اس طرح آپ کو چھٹیاں کر کے اپنی پڑھائی کا مزید
” خرج نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔۔
شمسہ بیگم زنیشہ کے گھنے لمبے بالوں کی چٹیا بناتے نرمی سے گویا ہوئی
وہ انہیں کیا
بتاتی وہ ملک زوہان سے کس قدر خوفزدہ جو
تھیں۔۔۔۔ اُن کی بات پر زنیشہ پہلو بدل کرره گئی تھی جو شخص میران پیلیس
میں اُس کے کمرے کے اندر تک رسائی حاصل کر سکتا تھا۔۔۔وہ باہر پتا نہیں
اُس کے ساتھ کیا کرتا۔۔۔
یہی سوچ کر اُس نے خود کو گھر میں ہی قید کر رکھا تھا۔۔۔۔ مگر گھر میں سب کے بڑھتے اسرار پر اس کی مانتی ہی بنی تھی۔۔۔۔ میں کس کے ساتھ جاؤں کالج۔۔۔۔ میرے ڈرائیور جمشید کو تو آژمیر
لالہ ۔۔۔۔۔
زندیشہ نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔۔۔۔
اچھا میں بات کرتی ہوں آژمیر سے۔۔۔۔۔ اُس دن آژمیر تمہارے لیے کسی خاص سیکیورٹی کی بات بھی کر رہا تھا۔۔۔۔ زوہان سے کسی بھی بات کی امید کی جاسکتی ہے اب۔۔۔۔ اس لیے آژمیر کہہ رہا تھا۔۔۔۔ کہ کسی ٹرینڈ باڈی گارڈ کا انتظام کرتا ہے تمہارے لیے۔۔۔۔ جو یونیورسٹی میں بھی فل
ٹائم تمہارے ساتھ ہو۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے اُس کا خوف سمجھتے اُسے تفصیل سے بتایا تھا۔۔۔ زنیشہ کے لیے یہ چیز کافی آکورڈ تھی۔ مگر وہ پھر بھی اس کے راضی تھی۔۔۔۔ ملک زوہان کی پہنچ سے دور رہنے کے لیے اُسے جو بھی برداشت
کرنا پڑتا وہ کرنے کو تیار تھی ۔۔۔۔
@@@@@@@@@
حائفہ اپنے سامنے لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔۔۔۔ جس پر اُسےآژمیر میر ان کے حوالے سے سارا بائیو ڈیٹا سینڈ کیا گیا تھا۔۔۔ وہ کس مزاج کا شخص تھا، اس کا رہن سہن کیسا تھا۔۔۔۔ غصے کس قدر شدید آتا تھا۔۔۔۔
اُس کی سخت مزاجی۔۔۔۔اور دھو کے باز اور جھوٹے لوگوں کو کڑی سے
کڑی سزاد ینے کی عادت۔۔۔۔
اُس حُسن و وجاہت کے شاہکار کو دیکھ حائفہ کتنے ہی لمحے پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی۔۔۔ اس کی ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت تصویر اسے سینڈ کی گئی اُسے اُس کا کام پوری طرح سمجھا دیا گیا تھا جس
کے لیے حائفہ بالکل بھی تیار نہیں
تھی۔۔۔۔۔اس کا دل آژمیر میران کی
ایک جھلک سے ہی خوفنر دہ ہو گیا تھا۔۔۔۔
اس نے مردوں کے جو روپ دیکھے تھے۔۔۔ یہ اُن سب سے بالکل الگ
رُوپ تھا۔۔۔۔
وہ یک ٹک کتنے ہی لمحے سامنے لیپ ٹاپ پر جگمگاتی اس کی تصویر دیکھے گئی تھی۔۔۔۔ وہ ساحر تھا جو ایک نظر میں ہی اُسے اپنے سحر میں جکڑ گیا
تھا۔
اچانک خیال آتے حائفہ اپنا سر جھٹکتی لیپ ٹاپ بند کرتی پیچھے ہوئی
تھی۔۔۔۔
نہیں مردذات دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ پہلی ملاقات میں کوئی اپنی اصلیت نہیں دیکھاتا ۔۔یہ شخص بھی باقیوںکی طرح جھوٹ اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔مجھے یہاں جس کام کے لیے بھیجا
گیا ہے میں اُسی کام پر توجہ دوں تو زیادہ بہتر ہے۔
حائفہ اپنے دل کی نادانیوں پر اسے ڈیٹتے بولی تھی۔۔۔ اسے خود بھی سمجھے نہیں آرہا تھا۔۔۔ کہ آخر اسے ہو کیا رہا تھا۔۔۔
حائفہ جو کو ٹھے سے نکلتے وقت بس یہی دعا کرتی آئی تھی کہ وہ شخص کوئی اچھا، شریف انسان ہو۔۔ جس کے قریب جانے سے اسے کوئی خطرہ نہ ہو۔۔۔۔اس وقت اُس کی یہی دعا قبول تو ہو چکی تھی۔۔۔۔ مگر حائفہ کو
سکون ابھی بھی نہیں تھا۔۔۔ کسی شخص کے جذبات کے ساتھ کھیلناوہ بھی صرف اپنے مقصد کے لیے۔۔۔۔اور بعد میں اُسی شخص کو موت کے
کنارے لے کر جانا۔۔۔۔ یہ سب اُسے کرنا تھا۔۔۔۔
لیکن خود کو اتنا ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود ایسا کرنے کے لیے اُس کا دل نہیں
مان رہا تھا۔۔۔
اگر وہ پیچھے ہٹ جاتی تو ۔۔۔۔۔ ماورا کو نہ بچا پاتی۔۔۔۔ اپنی ماں سے کیا وعدہ ٹوٹ جاتا۔۔۔۔ وہ دھو کے باز اور جھوٹی نہیں تھی۔۔۔۔ مگر اب بننا تھا
اپنی زندگی میں موجود واحد رشتے
کی خاطر ۔۔
ٹھنڈ اسانس بھرتی وہ صوفے کی بیک سے سر ٹکاتی آژ میر میر ان سے ہونے والے اپنے اگلے ٹکراؤ کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔۔۔
@@@@@@@@
ماورا اپنا موڈ ٹھیک کرو۔۔۔۔ حیرت ہو رہی ہے مجھے ۔۔۔۔ کی ماور انور لڑنے کے بجائے۔۔۔ چھپ کر روتی ہے۔۔۔۔امیز نگ۔۔۔۔۔
فاطمہ اُس کے ساتھ ساتھ چلتی کلاس روم کی جانب بڑھتے بولی۔۔۔۔ کیونکہ ماورا اُس دن منہاج درانی سے ہونے والے ٹاکرے کے بعد دودن تک یونی آئی ہی نہیں تھی۔۔۔۔اُسے خوف تھا کہ کہیں وہ سب کو اُس کی
اصلیت نہ دیکھادے۔
اس وقت بھی کلاس کی جانب بڑھتے اسے ایک طرف وہ اپنے گروپ کے ساتھ بیٹھا نظر آیا تھا۔۔۔ اور وہ اس کی طرف متوجہ بالکل بھی نہیں
تھا۔۔۔۔
ماورااسکھ کا سانس لیتی آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔اُس نے فاطمہ کو بھی اپنے طوائف زادی ہونے کا نہیں بتایا تھا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی اس کی
اصلیت جان کر فاطمہ بھی اُسے چھوڑ دے گی۔۔
وہ یہاں بنی اپنی اکلوتی دوست نہیں کھونا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ ماوراایونیورسٹی کے پہلے دن سے اب تک ہمیشہ دوپٹہ سر پر اوڑھتی تھی۔۔۔ اُس کے دوپٹے کی لینتھ اتنی تو ضروری ہوتی تھی۔۔۔ کہ اُس کے نازک سراپے کو پوری طرح ڈھانپ لے۔۔۔۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی
تھے۔۔۔۔ جنہیں خود تو پر دے کی توفیق نہیں ملتی تھی۔۔۔۔ مگر وہ دوسروں کو بھی ایسا کرتے برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔۔۔۔۔
خاص طور پر منہاج درانی اور اس کے فرینڈز اُسے
حقارت بھری نظروں
سے ہی دیکھا کرتے تھے۔۔۔
جب سے وہ اس یونی میں آئی تھی۔۔۔ اس نے ایک ہی شخص کو ہر جگہ چھائے دیکھا تھا۔۔۔ منہاج درانی اپنی پرسنیلٹی ، اپنے رکھ رکھاؤ اور اپنے منفر د لا پر واہ انداز کی وجہ سے ہر جگہ مقبول تھا۔۔۔ پہلے پہل تو ماورا کو وہ بلا وجہ کی اکڑا اور اونچی ناک رکھنے والا شخص ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔۔۔ جو اپنے سوا باقی سب کو کمتر ہی سمجھتا تھا، جسے اپنے خاندان اور اپنی بے شمار دولت پر بہت گھمنڈ تھا۔۔۔ باقی بھی بہت سارے سٹوڈنٹس اُس کے آگے
ہاتھ باندھے اس کی ہر بات ماننے کو تیار رہتے تھے۔۔۔۔ ماورا کو نہ ہی اُس شخص کابی ہیوئیر پسند آیا تھا اور نہ ہی وہ خود ۔۔۔۔ جو اپنے علاوہ باقی سب کو حقیر سمجھتا تھا۔۔۔ ماورا کو اُس سے عجیب سی چڑ ہو گئی
تھی۔۔۔اس کا بہتر حل اُس نے یہی جانا تھا کہ وہ اُس کا سامنا کم سے کم
کرے۔۔۔۔
وہ اگر کہیں سے گزر رہا ہوتا۔۔۔ تو ماورا اپناراستہ ہی بدل لیتی۔۔۔۔ یونی کی جس پارٹی یا فنکشن میں وہ ہوتا۔۔۔ وہاں جانا ہی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ وہ سمجھ رہی تھی یہ سب کر کے وہ منہاج درانی کی نظروں سے بچی ہوئی ہے۔۔۔ مگر ایسا نہیں تھا۔۔۔ بہت سے لوگ یہ بات نوٹ کر چکے تھے۔۔۔ اور منہاج کا دھیان بھی اس جانب دلا چکے تھے۔۔۔۔ منہاج کو اپنا اگنور کیا جانا وہ بھی کسی لڑکی سے نہایت ہی عجیب لگا تھا۔۔۔
جب اچانک ایک دن وہ ماورا کے پاس خود آن ٹپکا تھا۔۔۔۔ ماور انے اُسے اگنور کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔۔۔ مگر وہ تو جیسے اس کے پیچھے ہی پڑ چکا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ اُس کے سامنے جتنے اچھے سے بی ہیو کرتا تھا۔۔۔ماورا اُس کے لیے اپنا نظریہ بدلنے پر مجبور ہو گئی تھی۔۔۔اُسے حائفہ کی کی گئی نصیحت
بھولنے لگی تھی۔۔۔ وہ منہاج درانی پر ٹرسٹ کرنے لگی تھی۔۔۔ اپنے دل کو اُس کی جانب مائل ہونے سے نہیں روک پار ہی تھی۔۔۔۔ جب منہاج نے اس کے لیے اپنی محبت کا اظہار کر دیا تو وہ بھی اپنی فیلنگز کو مزید جھٹلا نہیں پائی تھی۔۔۔۔ اور منہاج درانی کے سامنے اپنادل کھول کر
رکھ دیا تھا۔۔۔۔ جسے منہاج نے دل و جان سے قبول کیا تھا۔۔۔ منہاج کے دوست اور یونی کے تمام لوگ حیران تھے ، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ منہاج درانی کو یہ بڑے سے تھان میں لپٹی لڑکی بھی پسند آسکتی ہے۔
منہاج کو اُس نے اپنا سچ نہیں بتایا تھا۔۔۔وہ بتانا چاہتی تھی۔۔۔۔ مگر اُسے ڈر تھا کہ کہیں منہاج اُسے چھوڑ نہ دے۔۔۔۔۔ وہ اُس سے بہت زیادہ محبت کرنے لگی تھی۔۔۔ منہاج کی عورت کی ریسپیکٹ کرنے والی، انہیں خود سے اعلی مقام دینے والی جو سائیڈ اُس نے دیکھی تھی۔ اس نے ماورا کو اپنا
اسیر کر لیا تھا۔۔۔۔
منہاج نے اچانک ایک دن اُس کے گھر رشتہ بھیجنے ، اس سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کرتے اس کے سامنے ثابت کر دیا تھا کہ وہ یہ محبت ٹائم پاس کے
لیے نہیں کر رہا تھا۔۔۔ بلکہ واقعی اس سے محبت کرتا تھا۔۔۔ لیکن وہیں اس کا دل یہ سوچ کر بھی بے چین ہوا تھا کہ اگر اُس کی اصلیت جان کر منہاج نے اسے چھوڑ دیا تو۔۔۔۔ ایساوہ کسی صورت نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔ اس لیے اس نے خود غرض بنتے منہاج کو یہ کہہ دیا تھا کہ اس کے پیر نٹس اس رشتے کے لیے کسی صورت نہیں مانیں گے ۔۔۔۔ جس پر منہاج بھی اُسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔ اس نے خفیہ طور پر نکاح کرنے کا
حل پیش کیا تھا۔۔۔۔
مگر یہ ماورا کی بد قسمتی تھی یا خوش قسمتی کہ جس وقت انہوں نے نکاح کے لیے فرار ہو نا تھا اُسی وقت کرامت اپنے آدمیوں کے ساتھ آکر اُسے رنگے ہاتھوں پکڑ چکا تھا۔۔۔۔ماورا کے لیے حیرت کی بات یہی تھی کہ کرامت نے منہاج کو کچھ بھی نہیں کہا تھا۔۔۔ بلکہ اس کا شکر یہ ادا کیا تھا۔۔۔ کہ اُس
نے بر وقت اُنہیں اطلاع کرتے اُن کا اتنا بڑا نقصان ہونے سے بچالیا
تھا۔۔۔۔
ماورا نے پھٹی پھٹی بے یقین نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ تو اُس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ اتنا بڑاد ھو کا کیسے
کر سکتا تھا۔۔
جب منہاج آنکھوں میں طنز اور حقارت لیے اس کے قریب آیا تھا۔۔۔ کیا ہوامس مارو انور ؟؟؟ دغا بازی کرنا اور جھوٹ بولنا صرف تمہارا کام ہے” کیا؟۔۔۔۔ تم نے محبت کے نام پر مجھے دھوکا دیا اور میں نے وہ اُس سے ڈبل کر کے تمہیں واپس لوٹادیا۔۔۔۔ حساب برابر۔۔۔۔اب آئندہ میں بھی محبت لفظ پر اعتبار کرنے سے پہلے ہزار بار سوچوں گا اور تم بھی۔۔۔۔ منہاج اُسے انتقامی نظروں سے دیکھتا وہاں سے پلٹ گیا تھا۔۔۔۔ ماور ا سکتے کی کیفیت میں پھٹی پھٹی نظروں سے اُسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ شخص اس کی اصلیت جان چکا تھا۔۔۔۔ اور اب اُسی کی سزا
دے گیا تھا۔۔۔۔ماور انہیں جانتی تھی کہ اس شخص نے کبھی اُس سے محبت کی بھی تھی یا نہیں۔۔۔۔ کیونکہ محبت میں اتنی کم ظرفی نہیں ہوتی۔۔۔ کہ اپنے محبوب کو اُس کی ایک غلطی پر اُٹھا کر موت اور ذلت کے منہ میں پھینک دیا جائے۔۔۔ جو بھی تھا۔۔۔ مگر ماورا کا اعتبار اب مردوں اور محبت پر سے بالکل اُٹھ گیا تھا۔۔۔ اُس کے نزدیک دنیا کا ہر مرد دھو کے باز اور فراڈ
تھا۔۔۔
منہاج کے دھو کے کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔۔۔ صرف اپنی بہن کی خاطر وہ اپنادل کچلتی واپس اُسی جگہ آگئی تھی۔۔۔ جہاں اُسے اُس شخص کا سامنا کرنا تھا۔۔۔۔ جس کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی وہ۔۔۔۔ جو
اُس کا خطاوار تھا۔۔۔ اُس کا دل لہولہان کر دیا تھا۔۔
ماورا نے آج پہلی بار کی طرح منہاج درانی اور اُس کے گروپ کو بیٹھا دیکھ اپنا راستہ نہیں بدلا تھا۔۔۔ بلکہ سر اُٹھائے بے تاثر چہرے کے ساتھ وہاں سے
گزر گئی تھی۔۔۔۔ یہ ظاہر کرتے کہ اس شخص کے ہونے نہ ہونے سے اب
اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔
وہاں بیٹھے منہاج درانی نے پلٹ کر گہری نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔ اس کے نظروں سے اوجھل ہونے پر سر جھٹکتا اپنے دوستوں سے
باتوں میں مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
لالہ۔۔۔۔ السلام و علیکم
حسیب نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے آژ میر کو سلام کیا تھا۔۔۔ جو ابھی کچھ دیر پہلے شہر سے لوٹا تھا۔۔۔ باقی سب افراد بھی رات کا وقت ہونے کی وجہ سے وہاں جمع تھے۔۔۔ اُن سب کی عادت تھی۔۔ رات کے وقت سب لوگ ایک ساتھ ضرور بیٹھتے تھے ۔۔۔ یہ عادت سب کی آژ میر نے ہی بنائی تھی۔۔۔ اسے پسند نہیں تھا کہ شام ہوتے ہی سب لوگ اپنے اپنے کمروں
میں گھس جائیں۔۔۔
وہ اپنے خاندان کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھنا چاہتا تھا۔۔۔ جس میں وہ کافی حد
تک کامیاب بھی تھا۔
“حسیب میں نے تمہیں ایک ضروری کام سونپا تھا، ہو گیا کیا؟؟” آژمیر سنجیدگی بھرے تاثرات کے ساتھ حسیب کی جانب متوجہ ہوا
تھا۔
باقی سب بھی ان کی جانب متوجہ تھے۔۔۔۔
جی لالہ آج میں اُسی کام میں مصروف رہا ہوں۔۔۔۔ آپ کے کہے کے عین مطابق بہت قابل باڈی گارڈڈھونڈا ہے میں نے زنیشہ کے لیے۔۔۔۔ جو یونیورسٹی میں بھی فل ٹائم اس کے ساتھ رہے گا۔۔۔
حسیب نے تفصیل سے جواب دیا تھا۔مگر باڈی گارڈ کس لیے آخر میر ؟ ہم میں سے
ہی کوئی زنیشہ کو پک اینڈ
ڈراپ کر لے گا۔۔۔۔ میں ملا ہوں اس سے جسے حسیب
جاب کے لیے رکھا ہے۔۔۔۔ کافی شریف اور قابل انسان لگ رہا ہے۔۔۔
پچھلا ریکارڈ بھی بہت اچھا ہے اس کا۔۔۔۔ مگر پھر بھی ہمارے ہوتے زنیشہ
کو کسی باڈی گارڈ کی کیا ضرورت۔۔۔۔۔
قاسم میران کو یہ بات کافی عجیب لگی تھی۔ جس کا انہوں نے بر ملا اظہار
بھی کیا تھا۔۔۔
آپ نے بالکل ٹھیک کہا چچا جان ۔۔۔۔۔ مگر میں فل ٹائم زنیشہ کی حفاظت چاہتا ہوں۔
میں زنیشہ کے حوالے سے کسی قسم کا رسک نہیں لے
سکتا۔۔۔۔۔ ملک زوہان کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔۔۔۔آژمیر اٹل لہجے
میں بولا تھا۔۔۔ اُسے اس بات کا شک ہو چکا تھا کہ زوہان
زنیشہ کے روم تک گیا تھا۔۔۔ مگر ابھی اس بات کا پوری طرح سراغ نہیں مل پایا تھا۔۔۔ اپنی بہن کی عزت کی خاطر وہ نہ کسی کے سامنے اس بات کا ذکر کر سکتا تھا۔۔ اور نہ بنا کسی ٹھوس ثبوت کے زوہان سے اس بارے میں
کوئی بات کر سکتا تھا۔۔۔
اللہ اُسے ہدایت عطا فرمائے۔۔۔ اور جلد اُسے احساس ہو جائے کے وہ کتنا
غلط کر رہا ہے۔۔۔۔
شمسہ بیگم افسوس سے سر ہلاتے بولی تھیں۔۔۔۔
بات تو تمہاری بالکل ٹھیک ہے۔۔۔
قاسم صاحب نے اثبات میں سر ہلا یا تھا۔۔۔۔
لالہ سائیں مزمل نام ہے اس کا ۔۔۔۔ میں اور چچا جان مل چکے ہیں اُس ہے۔۔۔۔ اور اس کے حوالے سے پوری تسلی بھی کرلی ہے۔۔۔۔ آپ بھی ایک بار مل لیں۔۔۔ پھر فائنل کر لیتے ہیں اُسے۔۔۔۔ حسیب کو بھی آژمیر کا آئیڈیا اچھالگا تھا۔۔۔ زوہان کی سوچ تک پہنچنا بہت
مشکل کام تھا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ مجھے آپ دونوں پر خود سے زیادہ بھر وسہ ہے۔۔۔۔اگر آپ نے اُسے فائنل کیا ہے تو ٹھیک ہی ہو گا۔۔۔۔ اماں سائیں آپ زنیشہ کو کل یونیورسٹی کے لیے تیار کر دیجیے گا۔۔۔۔اور مزمل کے حوالے سے بھی
سمجھادیجئے گا۔۔۔۔ اپنی سیفٹی کے لیے ہی سہی اُسے اپنے گارڈ کو فل ٹائم
” اپنے ساتھ رکھنا ہو گا۔۔۔۔
آژمیر کی بات پر شمسہ بیگم بھی کافی حد تک مطمئین ہو تیں اثبات میں سر ہلا
گئی تھیں۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
میران پیلس روشنی اور خوشیوں سے جگمگاتی پورے گاؤں کی سب سے خوبصورت عمارت مشہور تھی۔۔۔۔ آزاد کشمیر کے اس خوبصورت علاقے میں آئے سیاحت کے شوقین لوگوں کے اندر بھی اکثر اس وسیع پیمانے پر پھیلی سیاہ عمارت کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہو جاتا تھا۔۔۔۔
جو باہر سے تو دلفریب مناظر پیش کرتی ہی تھی۔۔۔ مگر اندر جاکر ایسا معلوم
ہو تا تھا۔۔۔ کہ جیسے انسان جنت میں قدم رکھ چکا ہو۔۔۔۔ ہر طرح کی آسائش اور دلکشی سے مبرا یہ خوبصورت عمارت اکثر لوگوں کوللچاتی پوری شان سے کھڑی تھی۔۔۔اس حویلی میں میران خاندان کے تمام افراد بستے
تھے۔۔۔ مگر اُن سب پر ایک بے تاج بادشاہ بھی راج کرتا تھا۔۔۔ ملک آژ میر میران۔۔۔۔ جس کی کہی ہر بات پر ایمان لاناسب لوگ اپنا فرض سمجھتے تھے۔۔۔۔ وہ اگر اپنوں کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتا تھا۔۔۔ تو باقی سب بھی اُس کے ایک اشارے پر کچھ بھی کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔۔۔ اُن سب کی یہی محبت اور دل میں موجود ایک دوسرے کے لیے بے پناہ خلوص تھا۔۔۔ کہ اتنے طوفان آکر گزر جانے کے باوجود کوئی اُس خاندان کی بنیاد کو ہلا نہیں پایا تھا۔۔۔ وہ آج بھی ہر طرح کی مشکل کا سامنا کرنے کے لیے۔۔۔ ایک ساتھ کھڑے ملک احمد علی میران نے اِس حویلی کی بنیاد جس محبت اور اپنائیت سے رکھی تھی۔۔۔ اُن کی آل و اولاد اُسے اُسی وفاداری سے لے کر چل رہی تھی۔۔۔
ملک احمد علی میر ان کی چار اولادیں تھیں ۔
سب سے بڑے ملک فیاض تھے۔۔۔ جن کی شادی اپنی چازاد شمسہ بیگم سے ہوئی تھی۔۔۔اُن کا ایک بیٹا۔۔۔ آژ میر اور بیٹی زنیشہ تھے۔۔۔ایک
حادثے میں ملک فیاض بہت بُری طرح زخمی ہوئے تھے۔۔۔۔ ڈاکٹر ز کی بہت کوششوں کے باوجود بھی وہ انہیں کوما میں جانے سے نہیں روک پائے تھے ۔۔۔ پچھلے کتنے سالوں سے وہ کوما میں تھے۔۔۔۔ آژ میر نے دنیا کا کوئی قابل ڈاکٹر نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ وہ اپنے بابا کو سہی سلامت واپس اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر وہ اپنے رب کے کیے گئے فیصلے سے جیت نہیں پایا
تھا۔۔۔
اور بے بسی سے اپنے بابا کو اتنے سالوں سے بیڈ پر ہی پڑا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ دوسرا نمبر ملک قاسم میر ان کا تھا۔۔۔ جن کی شادی ان کی خالہ زاد حمیرا بیگم سے ہوئی تھی۔۔۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔۔۔ اُنہوں نے نجانے کتنی منتیں مرادیں مانگی تھیں۔۔۔ کوئی درگاہ کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔ مگر ابھی تک ان کی مراد بر نہیں آئی تھی۔۔۔۔ جسے انہوں نے اللہ کی رضا سمجھتے اسی حقیقت سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔۔۔۔
تیسرا نمبر ملک شاکر کا تھا۔۔۔ جن کی شادی آمنہ بیگم سے ہوئی تھی۔۔۔ اُن کے دو بیٹے حسیب ، حاشر اور دوبٹیاں رامین اور فریحہ تھیں۔۔۔ سب سے چھوٹی کشمالہ بیگم تھیں۔۔۔۔ ان کی شادی اپنے چچازاد ملک عثمان سے ہوئی تھی۔۔۔۔۔ جن کا ایک بیٹاذیشان اور بیٹی فجر تھی۔۔۔۔ اُن کا گھر میران پیلس سے کچھ فاصلے پر ہی تھی۔۔۔۔ مگر وہ زیادہ طرح میران پیلس ہی پائے جاتے تھے۔۔۔ نجمہ بیگم کو اُن کے بھائیوں نے اُن کے حصے کے طور پر میران پیلس کا ایک پورشن دے رکھا تھا۔۔۔ تاکہ وہ بھی اُن کے
ساتھ ایک ہی گھر میں رہ سکیں۔۔۔ بھائیوں کی نظروں کے سامنے
وہ سب ایک ہی چھت کے نیچے ہنسی خوشی رہتے تھے ۔۔۔۔ انہوں نے ایک دوسرے کا غم بانٹنا اور خوشیوں پر خوش ہو نا ہی سیکھا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
واٹ ؟؟؟؟ اماں سائیں یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔ میں یونی میں بھی، اور اپنی کلاس میں بھی اپنے ساتھ باڈی گارڈ لیے پھروں گی۔۔۔۔

زنیشہ شمسہ بیگم کی بات سنتے ہتھے سے ہی اُکھڑ گئی تھی۔۔۔۔اُسے یہ بات
سوچ کر ہی اتنی فنی لگ رہا ۔۔۔۔
کہ ہر وقت اُس کے پیچھے ہاتھ باندھے ایک ملازم کھڑا رہے گا
اُس کی فرینڈز، ٹیچر ز اور کلاس فیلوز بھلا کیا سوچیں گے اُس کے بارے
میں۔۔
اگر ایسا ہی ہے۔۔۔۔ تو مجھے پڑھناہی نہیں ہے۔۔۔۔ میں سب کو خود پر ہنستا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔ اور یونی میں تو ویسے بھی اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔۔ تو بھلا وہ باڈی گارڈ بنا اسلحے کی حفاظت کیسے کر پائے گا۔۔۔۔۔ آپ لالہ کو کہیں نا۔۔۔ کہ وہ اُسے یونی کے باہر ہی
رکھیں۔۔۔۔
زنیشہ کو یہ سوچ سوچ کر ہی کوفت ہو رہی تھی
زنیشہ بچے آپ کی بھلائی کے لیے ہی آژ میر نے یہ فیصلہ لیا ہے۔۔۔۔۔ آپ اچھے سے جانتی ہیں ملک زوہان آژ میر کو نیچا دیکھانے کے لیے کچھ بھی

کر سکتا ہے۔۔۔ اور کچھ عرصہ پہلے بھی آپ پر دو بار جو جان لیوا حملے ہو چکے ہیں۔۔۔۔ وہ بھی نظر انداز کیے جانے والے نہیں ہیں۔۔۔۔۔اس لیے
بہتری اسی میں ہے جو آژ میر نے فیصلہ لیا ہے۔۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے اُسے دوٹوک الفاظ میں اپنی بات کہہ دی تھی۔۔۔۔ جس پر زنیشہ کے پاس ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔
پر اماں سائیں وہ حملے تو بہت پہلے ہوئے تھے۔۔۔ اُن لوگوں کو تو لالہ سائیں نے پکڑ لیا تھا۔۔۔۔ وہ معاملہ اب دب چکا ہے۔۔۔۔اب مجھے بھلا کیا
خطرہ۔۔۔
زنیشہ نے ایک آخری کوشش کرنی چاہی تھی۔۔۔۔
زنیشہ آپ کب سے اتنی ضد کرنے لگی ہیں۔۔۔۔ وہ معاملہ اگر دب گیا ہے۔۔۔۔ ہم تب بھی آپ کی حفاظت پر کسی قسم کا رسک نہیں لے
سکتے ۔۔۔۔ آپ تیاری کر لیں۔۔۔۔ کل سے آپ نے یونی جانا ہے۔۔۔۔ یہ آپ کے لالہ کا فیصلہ ہے ۔۔۔۔ شاید آپ ایک بات پھر یہ بات بھول
” رہی ہیں۔۔۔۔
شمسہ بیگم اُسے اچھے سے باور کروایا تھا۔۔۔ کہ وہ دوسری بار آژمیر کے
فیصلے کے خلاف جارہی تھی۔۔۔
او کے اماں سائیں مجھے منظور ہے۔۔۔۔۔
آژمیر اُس کی پچھلی حرکت پر پہلے ہی اُس سے ناراض تھا۔۔۔۔ وہ اب اُسے مزید خفا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ اس لیے بے دلی سے ہی سہی مگر رضامندی دے گئی تھی۔۔۔۔۔
شاباش۔۔۔۔ میر ابچہ۔۔۔۔
شمسہ بیگم اُس کا گلابی ملائم گال محبت سے چومتی کمرے سے نکل گئی
تھیں۔۔
اُن کے جاتے ہی زنیشہ دروازہ اندر سے لاک کرتی اپنی الماری کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ اور وہاں بنے خفیہ لا کر کو کیز سے کھولنے لگی تھی ۔۔۔۔ جہاں لوگ اپنی قیمتی چیزیں پیسے اور زیورات رکھتے تھے ۔۔۔۔ وہاں اُس نے
ایک تصویر بہت سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
ابھی بھی ٹوٹے فریم والی وہ تصویر پوری احتیاط سے اُٹھاتے وہ بیڈ پر آن بیٹھی تھی۔۔۔۔ یہ فریم اُس نے اپنی شادی والی رات غصے سے توڑا تھا۔۔۔۔ اپنی دشمنی اور بدلے میں میری لائف سپوکل کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔ جس کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گی میں آپ کو ۔۔۔۔ آئی ہیٹ
یو۔۔۔ آئی ہیٹیو سومچ ۔۔۔۔۔۔
زنیشہ سائیڈ دراز سے سیاہ مار کر نکالتی اُس کی تصویر پر ایک اور کراس لگا گئی تھی۔۔۔۔
آپ سے بچنے کے لیے مجھے باڈی گارڈ۔۔۔ کو اپنے ساتھ لیے پھر نا پڑے گا۔۔۔۔ آپ کو اس بات کی زرا پر واہ نہیں ہے۔۔۔۔ لوگ مجھ پر کتنا ہنسیں گے۔

کہ میں خود اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتی۔۔۔۔ مگر اصل بات یہ ہے۔۔۔ کہ مجھے آپ سے خطرہ ہے۔۔۔۔۔ آپ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔۔۔۔ کیوں کر رہے ہیں آپ ایسا۔۔۔ کیوں ہیں آپ اتنے
“بُرے۔۔۔ کیوں۔۔۔
زنیشہ گالوں پر بہہ آئے آنسو بے دردی سے صاف کرتی اذیت بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
اور پھر ہمیشہ کی طرح اُس تصویر سے شکوہ کرتی اُسے مضبوطی سے اپنی گرفت میں جکڑے نیند کی آغوش میں جاچکی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@
ماورا تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں اترتی یونی کی بیک سائیڈ کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔ اس کا چھٹیوں کی وجہ سے اچھا خاصا حرج ہو گیا تھا۔۔۔۔ اُسے صوفیہ نے سارے لیلچر سمجھانے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ ابھی اُن دونوں کا پلان
یونیورسٹی کے بیک سائیڈ والے حصے میں بیٹھ کر سٹڈی کرنے کا تھا۔۔۔
کیونکہ باقی تو ہر جگہ سٹوڈنٹس کا اتنارش لگارہتا تھا کہ پڑھنے کے بارے میں
سوچنا بھی محال تھا۔۔۔۔
اس لیے انہوں نے وہ حصہ سلیکٹ کیا تھا۔۔۔۔
صوفیہ پہلے ہی وہاں جاچکی تھی۔۔۔۔ جبکہ ماورا ابھی کلاس فیلو سے نوٹس لے کر وہاں ہی جارہی تھی۔۔۔ بیک سائیڈ پر آکر اس کی متلاشی نظریں دصوفیہ کو ڈھونڈنے لگی تھیں۔۔۔
صوفیہ تو شاید وہاں نہیں تھی۔۔۔ مگر وہاں ایک طرف کا نظر آتا منظر دیکھ ماورا کے کانوں سے دھویں نکلے تھے۔۔۔ شرمندگی کے مارے اُس سے
وہاں سے جانے کے لیے بھی قدم اُٹھانا محال ہوئے تھے۔۔۔۔
کیونکہ وہاں ایک لڑکا اور لڑکی انتہائی نازیبا حرکتیں کرتے قابلے اعتراض حد تک ایک دوسرے کے قریب اپنا نامہ اعمال سیاہ کرنے میں مصروف تھے۔
تمہارے لیے تو یہ نارمل ہو گا نا۔۔۔۔۔عادت ہو گی تمہیں یہ سب کرنے “
” کی۔۔۔
اپنے عقب سے اُٹھتی طنز سے ڈوبی آواز سنتے ماورا کا حلق اندر تک کڑوا ہوا تھا۔۔۔۔ شر مند گی کے مارے اُس کا چہرا مزید جھک گیا تھا۔۔۔۔
وہ بنا کوئی جواب دیئے وہاں سے پلٹی تھی۔۔۔ جب منہاج نے اُس کی کلائی اپنی گرفت میں لیتے اُسے واپس اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔ خود کا اور اپنی
بات کا اگنور کیا جانا سے قطعاً پسند نہیں تھا۔۔۔۔ جو ماورا اچھے سے جاننے
کے باوجود کر گئی تھی۔۔۔
@@@@@@@@
اپنے مقرر و وقت پر وہ یونی کے لیے تیار تھی۔۔۔ بے دلی سے ناشتہ کیے وہ حسیب کے ساتھ باہر گاڑی تک آئی تھی
جہاں اُس کا باڈی گارڈ اس کے
ڈرائیور کے ساتھ مستعدی سے سر جھکائے کھڑا اُس کا ویٹ کر رہا تھا۔ مہرون لانگ شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس سیاہ شال سے خود کو ڈھکے وہ بُرے بُرے منہ بناتے حسیب کی جانب دیکھ رہی تھی۔ کہ شاید کہیں سے کچھ
مہلت مل جائے۔۔۔۔
میری بہنا۔۔۔اب اس سے چھٹکارا پانا مشکل ہے تمہارے لیے۔۔۔۔ کیونکہ اس میں تمہاری سیفٹی بھی ہے۔۔۔۔ اور آژمیر لالہ کا آرڈر
بھی۔۔۔۔

حسیب نے بھی کندھے اچکا کر اُس کی کسی قسم کی بھی مدد سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ جس کے جواب میں زنیشہ بُرا سامنہ بناتے گاڑی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔اُس نے ایک نظر ہی اپنے باڈی گارڈ کی جانب ڈالی تھی۔۔۔۔
اُس کی شکل دیکھ کر ہی زنیشہ کو کوفت ہوئی تھی۔۔۔۔ لمبے بال، گھنی داڑھی اور مونچھیں۔۔۔۔ اور دراز قد و قامت۔۔۔۔اس باڈی بلڈر کو دیکھ زنیشہ کو دشمنوں کا تو نہیں پتا مگر اُس کی دوستوں نے بھی اس کے قریب
نہیں آنا تھا۔۔۔۔
وہ اسی طرح الٹے سیدھے منہ بناتی آنے والے وقت کا سوچتی کوفت زدہ سی بیٹھی تھی۔۔۔۔ جب گاڑی یونی کے پارکنگ ایریا میں جار کی تھی۔۔۔۔ زنیشہ کے اتر تے ساتھ ہی اُس کا باڈی گارڈمز مل بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے
لگا تھا۔۔۔۔ آژ میر اُس کی یونیورسٹی انتظامیہ سے پہلے ہی بات کر چکا تھا۔۔۔۔اس لیے یونی کے مین گیٹ پر اُس کا یونی کارڈ چیک کرواتے ہی مزمل کو اُس کے ساتھ اندر بھیج دیا گیا تھا۔۔۔۔
جس پر زنیشہ کی آخری امید بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔ ارے زنیشہ اتنے دنوں سے یونی کیوں نہیں آئی تم ۔۔۔۔ کہاں تھی ؟؟۔۔۔۔ ہمیں پتا چلا کہ تمہاری شادی ہو گئی ہے۔۔۔۔ فضا اور سحرش اُسے دیکھتے ہی خوشگوار حیرت سے گویا ہوئی تھیں۔۔۔ دونوں کی نظریں فاصلے پر رکتے مزمل کی جانب نہیں اٹھی تھیں۔۔۔۔ ہاں ہوئی تھی شادی۔۔۔۔ مگر کسی کھڑوس، اکڑو اور گھمنڈی شخص کی من مانیوں کی وجہ سے رک گئی ۔
زنیشہ نے زوہان کو سنہری القابات سے نوازتے اپنے دل کی بھڑاس نکالی
تھی۔۔۔
پہلی بار کسی کو اپنی شادی خراب ہونے کے بارے میں اتنی خوشی سے
” بتاتے دیکھ رہی ہوں میں۔۔۔۔۔
فضا کو اُس کے انداز سے وہ کہیں سے بھی افسردہ نہیں لگی تھی۔۔۔۔
کلاس کا ٹائم ہونے والا تھا۔۔۔۔ وہ لوگ یونی کی جانب بڑھ گئی تھیں۔۔۔ جب فضا اور سحرش کو محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ جیسے پیچھے چلتا شخص کافی ٹائم سے
اُن کا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔۔
وہ اُسے سبق سیکھانے پیچھے مڑنے ہی والی تھیں۔ سب زنیشہ نے اُن کا بازو
تھام کر روم لیا تھا۔۔
کوئی ڈرامہ کریٹ کر کے میری مزید بے عزتی مت کروانا۔۔۔۔۔ یہ میرا باڈی گارڈ ہے۔۔۔۔اور اب فل ٹائم سائے کی طرح میرے ساتھ ہی رہے
” واٹ۔۔۔۔؟؟؟”
زنیشہ کی بات پر دونوں نے حیرت بھری نظروں سے اُس کی جانب دیکھا
تھا۔
جس پر زنیشہ انہیں معاملہ پوری تفصیل سے سمجھا گئی تھی۔۔۔۔ جس پر وہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ کیساری ایکٹ کریں۔۔۔۔۔
جو چیزیں فلموں اور ڈراموں میں دیکھی تھیں۔۔۔۔ وہ اب حقیقت میں اُن کو دیکھنے کو مل رہی تھی۔۔۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ زنیشہ کا تعلق کسی بڑے خاندان سے ہے۔۔۔ مگر اس سب کا اندازہ بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔ زنیشہ کی بات کے جواب میں وو دونوں خاموشی سے سر اثبات میں ہلا گئی
اپنی دوستوں کے بدلتے انداز پر زنیشہ نے خفگی بھری نظر پیچھے آتے گارڈ پر ڈالی تھی۔۔۔۔ وہ بھی اپنی ڈارک براؤن آنکھوں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ نظروں کے تصادم پر زنیشہ کو اس کی آنکھوں میں عجیب سے مقناطیسی کشش محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ جس پر وہ گھبراتی چہرا موڑ گئی
تھی۔۔۔۔
اُسے یہ شخص حلیے اور حرکتوں دونوں سے ہی مشکوک لگا تھا۔۔۔۔اس کے گھر والے بھی کیا تھے۔۔۔۔ایک غنڈے نما شخص کو اس کی حفاظت سونپ دی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہاڑوں میں گھرے خوبصورت سے پرل کانٹینٹل ہوٹل میں ہل چل عروج پر تھی۔۔ گیسٹ کا آنا جانالگا ہوا تھا۔۔۔۔ یہاں سیاحوں کا اتنارش ہوتا تھا۔۔۔۔ کہ پہلے سے ہی ٹیبلز کی بکنگ کروائی جاتی تھی۔۔۔ ورنہ عین جاتی
ٹائم پر ٹیبلز مانا تقر بی نا ممکن امر ہی تھا۔۔۔۔
ہوٹل کی انتظامیہ اتنے رش کے باوجو د سب کچھ بہت اچھے سے مینیج کرتی تھی۔۔۔ مگر آج وہاں کا عملہ پہلے سے بھی زیادہ چاکو چو بند نظر آرہا تھا۔۔۔۔ کیونکہ آج وہاں ملک آژمیرمیران نے آنا تھا۔۔۔۔ اس کا اسسٹنٹ پہلے سے ہی بکنگ کروا چکا تھا۔۔۔۔ ہوٹل کی طرف سے سارے انتظامات کیے جاچکے تھے۔۔۔۔ مگر پھر بھی مظفر آباد کی اتنی بڑی شخصیت کی آمد نے اُن کے ہاتھ پیر پھلار کھے تھے۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی منیجر کو باہر آژمیرمیران کے پہنچنے کی اطلاع ملی تھی۔۔۔ وہ اُس کے استقبال کے لئے دروازے کے قریب پہنچا تھا۔۔۔۔ جہاں سے آژمیرمیران
اپنے آدمیوں سے آگے چلتا تیز قدموں سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ منیجر کی خوش آمدید کا سر کی ہلکی سی جنبش سے جواب دیتا وہ اپنے مطلوبہ ٹیبل کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ جہاں پہلے ہی اُس کے کلائنٹس بیٹھے اُس کے منتظرتھے۔
یہ قدرے الگ تھلگ وی آئی پی ٹیبل تھا۔۔۔ جو باقی ٹیبلز سے زرا ہٹ کر پر سکون گوشے میں لگایا گیا تھا۔۔۔۔ آژ میر پوری دلجمعی سے اپنی بزنس میٹنگ میں مصروف تھا، جب اچانک اُس کی نظر پاس سے گزرتی ویٹرس پر پڑی تھی۔۔۔۔ کلائنٹ کی بات کا جواب دیتا لمحے بھر کو آژمیرمیران کو بریک لگی
تھی۔۔۔۔
اُس نے ایک کے بعد دوسری نظر ڈالتے اُس لڑکی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ یہ وہی تھی جس کا اُس دن اُس کی گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔۔۔۔
مگر آج وہ اس دن سے قدرے مختلف حلیے میں تھی۔۔۔اس دن جو لڑ کی سیاہ شال میں پوری طرح لپٹی ہوئی تھی۔۔۔۔ صرف اس کے حسین چہرے کے علاوہ کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔ آج وہ ویٹرس کے وائٹ اور بلیک کلر کے چست سے ڈریس میں دوپٹے کو آگے سیٹ کیے۔۔۔۔۔ بالوں کو جوڑے کی شکل میں قید کیسے وہ اپنے بے پناہ حسن کی نمائش کرتی آژمیرمیران کو
ایک دم زہر لگی تھی ۔۔۔۔۔
اُس دن جس لڑکی کو دیکھ پاکیزگی کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔ آج اُس کو یوں لوگوں کا مرکز نگاہ بنے دیکھ آژمیرمیران کو اُس پر بہت غصہ آیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ ہونٹ بھینچے واپس اپنے کلائنٹس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔ جو اس کے بدلتے سخت تاثرات دیکھ حیرت سے اُسے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ آژمیرمیران کو جب بھی غصہ آتا تو اس کی سفید رنگت بالکل سرخ ہو جاتی تھی۔۔۔۔ جس سے مقابل با آسانی اُس کے غصے کا انداز لگا پاتا تھا۔۔۔۔ “مسٹر آژمیرمیران ۔۔۔۔۔ ایوری تھنگ از آل رائٹ۔۔۔
سامنے بیٹھے حمید صاحب نے اُس کے متغیر ہوتے تاثرات دیکھ تشویش سے
پوچھا تھا۔۔۔۔۔
” یا۔۔۔۔ آئم اوکے۔۔۔۔۔”
آژمیرمیران نے جواب دیتے پلٹ کر واپس حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔ جو اب ایک ٹیبل پر کولڈ ڈر تک سر و گر رہی تھی ۔۔۔۔۔ جس پر چار آدمی بیٹھے نازیبا انداز سے اُس کے نازک سراپے کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔ آژمیر کو اس لڑکی میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔۔۔ وہاں باقی بھی بہت سی ویٹرس اسی لباس میں ملبوس تھیں۔۔۔۔ مگر آژمیر حائفہ کو پہلے چادر میں دیکھ چکا تھا۔۔۔ اُسے بس یہی بات ڈسٹرب کر رہی تھی۔۔۔ کہ آخر ایسی کیا مجبوری تھی۔۔۔ اس لڑکی کو یہ جاب کرنے کی کہ وہ اپنے سر سے چادر اتارنے پر
مجبور ہو گئی تھی۔۔۔۔
آژمیر آگ اگلتی نظروں سے ان مردوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جب حائفہ کو واپس پلٹتاد یکھ اُن او باش مردوں میں سے ایک نے حائفہ کا ہاتھ تھام
لیا تھا۔۔۔۔
اور بس۔۔۔۔ یہیں پر آژمیر کا صبر ختم ہوا تھا۔۔۔۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے کسی لڑکی کے ساتھ یہ سب ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتا پتھریلے تاثرات کے ساتھ اُس جانب بڑھا تھا۔۔۔۔وہ ٹیبل قدرے سنسان امیر یا میں تھا۔۔۔۔ اس وجہ سے ان لوگوں کو یہ گھٹیا حرکت کرنے کی شے مل گئی تھی۔۔۔۔۔ حائفہ اپنی کلائی چھڑوانے کی سر
توڑ کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔ مگر وہ آدمی اس سے فری ہونے کی کوشش
کرتا۔۔۔ نمبر کا مطالبہ کر رہا تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے آژمیر میر اُن کے سر پر پہنچتا اس کے شخص کے منہ پر زور دار گھونسہ مارتے اُسے کرسی سمیت پیچھے پھینک گیا تھا۔۔۔

گھٹیا شخص۔۔۔۔ تمہیں کس نے حق دیا اس لڑکی کی بنا اجازت اُسے چھونے کا۔۔۔۔۔ تم جیسے نفس پرستوں کو تو اس دنیا سے ہی خارج کر دینا
” چاہیئے۔۔۔۔
آژمیر اونچی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔۔
حائفہ سمیت باقی سب نے بھی دہل کر اس غصے سے بھرے شیر کی جانب
دیکھا تھا۔۔۔۔
آژمیر نے سب سے پہلے اپنا کوٹ اتار کر حائفہ کے گرد لپیٹ دیا تھا۔۔۔ جبکہ حائفہ اس کے اس عمل پر آنکھیں پھاڑے بے یقینی سے اسے دیکھے گئی تھی۔۔ وہ اپنے گرد لپٹے کوٹ کی گرمائش محسوس کرتی سن سی کی اپنی جگہ سے
ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔
جبکہ آژمیر اُس شخص کو گریبان سے دبوچتاز مین سے اُٹھاتے بُری طرح اُس کے منہ پر مکے برساتا اُس کا چہر الہولہان کر گیا تھا۔۔۔۔۔

اس کے آدمی خاموشی سے ہاتھ باندھے اس کے پیچھے کھڑے رہے تھے۔۔۔۔ انہیں آژمیر کو روکنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے وہاں پہنچتے با مشکل اس شخص کو آژمیر کے شکنجے سے آزاد کروایا
تھا۔۔۔۔
مگر آژمیر نے پہلے اسے پکڑ کر حائفہ کے قدموں کی جانب دھکیل دیا تھا۔۔۔۔ جو اُس کے بولنے سے پہلے ہی حائفہ کے سامنے ہاتھ جوڑتا اپنی
گھٹیا حرکت کی معافی مانگ گیا تھا۔۔۔
“آئم۔ سوری سر ۔۔۔۔۔
منیجر آژمیر کی جتاتی نظروں کے جواب میں منمنا کر رہ گیا تھا۔۔۔۔ جیسے اپنی گھر کی عورتوں کی عزت کا خیال ہوتا ہے۔۔۔۔ویسے ہی اپنے عملے کی خواتین کی عزت کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔۔۔۔ آئندہ خیال
رکھیئے گا۔۔۔۔

آژمیر اسے سخت لہجے میں وارن کرتا اب کی بار بت بنی حائفہ کی جانب پلٹا
تھا۔۔۔
آپ میرے ساتھ آنا پسند کریں گی۔۔۔ بات کرنی ہے آپ”
آژمیر آگ اگلتی نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے ایک طرف بنے ٹیرس
کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ نے در زیدہ نظروں سے منیجر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو اُسے آژ میر کی بات سننے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔۔۔ جس پر
ناچار حائفہ اپنی انگلیاں مروڑتی مرے مرے قدموں سے اُس کی جانب
بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@
سائیں جیسا آپ نے کہا تھا سب کچھ ویسا ہی ہوں۔۔۔۔۔ مجھے بہت حیرانی ہو رہی ہے۔۔۔۔ کہ آپ آژمیر میر ان کو اتنے اچھے طریقے سے کیسے جانتے ہیں۔۔۔۔ آپ دونوں تو دشمن ہیں ایک دوسرے کے۔۔۔۔۔ کافی
دوری ہے آپ دونوں کے درمیان۔۔۔۔ پھر آپ کو کیسے معلوم ہوتا کہ کس بات پر آژ میر میر ان کیساری ایکٹ کرے گا۔۔۔۔۔ ملک زوہان کے آدمی نے فوری طور پر اُسے اطلاع دیتے ساتھ بھر پور حیرت
کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔
جبکہ اُس کی بات پر زوہان کی آنکھوں میں تلخی بھری مسکراہٹ بکھر گئی
دشمن کی رگ رگ سے واقف ہونا ہے ،اس کی کمزوریوں سے آگاہی ہی تو آپ کو جیت کے اصل
راستے پر لے جاتی ہے۔۔۔۔ ملک زوہان نے زندگی
میں جیتنا ہی سیکھا ہے۔۔۔۔ اپنے گنہ گاروں کو معاف کرنا نہیں، اُن کو اُن کے جرم کی دوہری سزا دینا آتا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ جو کہ میں ہر حال میں دے کر رہوں گا۔۔۔۔ آژ میر میر ان کو تڑپتے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ویسے ہی ٹوٹ کر بکھرے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں جیسا انہوں نے میرے ساتھ
کیا۔۔۔۔۔۔ میر ان خاندان کو برباد کیے بنا میرے دل کو سکون نہیں مل
پائے گا۔۔۔۔ میرے دلی سکون کے لیے آژ میر میر ان اور اُس کے خاندان
کو برباد ہو نا پڑے گا۔۔۔۔
زوہان زہر خند لہجے میں بولتا فون کاٹ گیا تھا۔۔۔۔ میر ان خاندان کا نام آتے ہی اُس کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔۔۔۔۔اُس کا دل چاہتا تھا ایک ایک کر کے سب کو گولیوں سے اُڑا دے۔۔۔۔ مگر پھر اُس کا دل اُن سب کو اتنی آسان موت دینے کو بھی نہیں مانتا تھا۔۔۔۔اور آژ میر سے تو اس کی دوہری دشمنی چل رہی تھی ۔۔۔۔ آژ میر اس سے اس کا سب کچھ چھوڑنے کے باوجود بھی ابھی تک سکون سے نہیں بیٹھا تھا۔۔۔۔ وہ اب بھی اُس کے ہر عمل کے بدلے اُس کا نیا نقصان کر دیتا تھا۔۔۔۔۔ آژ میر میر ان کے لیے تو کسی قسم کی معافی کا سوال پیدا ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔ سب سے کڑی سزا
وہ اُسی کو دینے کا ارادہ ہی رکھتا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماور امنہاج درانی کی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں تھی۔۔۔ اس کی بات کا جواب دینا تو دور کی بات۔۔۔۔۔۔ شاید منہاج درانی کو احساس ہی نہیں تھا اس کے جھوٹ کے اسے
کہیں بڑی سزا دے کر اپنا بدلہ پورا کر
چکا تھا۔۔۔۔
مگر اس کا اب بھی بات بے بات ٹارچر کر ناماورا کو مزید ہرٹ کر رہا تھا۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔ یہ شخص اب بھی اس کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار کیوں نہیں تھا۔۔۔۔ جب وہ اُسے ایک حقیر نفرت آمیز لڑکی سے
زیادہ کچھ نہیں سمجھتا تھا۔۔۔
منہاج کے کھینچے پر ماور اسید ھی اُس کے چوڑے سینے سے جاٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔ مگر لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ درمیان میں فاصلہ برقرار رکھتی پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔ مگر اس کی کلائی ابھی بھی منہاج کی گرفت میں
تھی۔۔۔۔

تم پوری یونیورسٹی کے سامنے یہ پار سا ہونے کا ناٹک کر سکتی ہو ۔۔۔۔ مگر میرے سامنے بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ ویسے تم طوائفوں کی تو قیمت لگتی ہے
نا۔۔۔۔ تمہاری کیا قیمت ہے ایک رات کی۔۔۔۔۔ منہاج اُس کی کلائی کو سختی سے اپنی گرفت میں دبوچے اپنے الفاظ سے اس
کی روح چھلنی کر گیا تھا۔۔۔۔
ماورا نے تڑپ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ مگر اُس کی سر دوسپاٹ نگاہوں میں کسی قسم کی کوئی رعایت موجود نہیں تھی۔۔۔ وہ سنگدل اُس کو
لہولہان کرنے ہی آیا تھا۔۔۔
” میر ا ہاتھ چھوڑو۔۔۔۔۔”
ماور اغصے بھری نظروں سے اسے دیکھتی چلائی تھی۔۔۔ ساتھ ساتھ اس سے اپنی کلائی بھی آزاد کروانے کی مزاحمت جاری رکھی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے جو پوچھا ہے پہلے اُس کا جواب دو۔۔۔۔ کتنی قیمت ہے تمہاری۔۔۔۔۔ اور آج تک کتنوں کا بستر آباد کر چکی ہو۔۔۔
یہ الفاظ ادا کرتے منہاج کی آنکھوں میں شعلوں کی سی ایک تھی۔۔۔۔ جیسے
اُس کے لیے بھی یہ الفاظ اذیت کا باعث ہوں۔۔
اُس کی بات پر ماورا کی نم آلود سرخی مائل آنکھیں اُس سنگدل اور بے حس شخص پر جم سی گئی تھیں ۔۔۔۔ جو اسے تکلیف اور اذیت سے دو چار کرنے
کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتا تھا۔۔۔۔
بہت ساروں کے۔۔۔۔ ایک طوائف کے بارے میں اتنا جانتے ہو ۔۔۔۔۔ تو یہ بھی جانتے ہو گے کہ وہ اپنے پاس آئے لا تعداد مردوں کا حساب نہیں رکھتی۔۔۔۔۔ لوگ آتے ہیں اپنا دل بہلاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔۔۔۔اور رہی بات قیمت کی۔۔۔۔ تو میری قیمت میرے کو ٹھے پر لگتی ہے بولیوں کے حساب سے۔۔۔۔۔ جس کی بولی زیادہ بڑی ہوتی
ہے۔۔۔۔ مجھے اُس کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ماور ابنا کوئی لحاظ کیے۔۔۔۔ منہاج درانی کو اپنے بارے بارے میں وہ وہ باتیں بول گئی تھی۔۔۔ جو اُس کی اپنی ذات کے حوالے سے تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔

Share With your friends on Facebook


1 thought on “Haifa and Zanisha Novel Part 4 – Urdu Novel 2025 | Read Online Free”

  1. Pingback: Haifa and Zanisha Novel Part 5 – Latest Urdu Romantic Novel 2025

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top