Haifa and Zanisha Novel Part 5 – Latest Urdu Romantic Novel 2025 | Read Online & Download PDF


Urdu literature lovers eagerly await the continuation of Haifa and Zanisha, one of the most popular Urdu romantic novels 2025. The latest Part 5 takes the story to a whole new level with intense emotions, suspenseful twists, and deep romance. If you love dramatic Urdu novels with strong female leads, passionate love stories, and gripping storytelling.

Urdu Romantic Novel 2025

Haifa and Zanisha Novel Part 5 – Latest Urdu Romantic Novel 2025

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 4 – Urdu Novel 2025

نہ ہی آج تک کو ٹھے پر آئے کسی مرد کی اُس پر نگاہ پڑی تھی۔۔۔۔ نہ ہی حاعفہ نے آج تک اُس کے قریب کھنگروں کو بھٹکنے دیا تھا۔۔۔۔ وہ صرف نام کی طوائف زادی تھی۔۔۔۔ جبکہ حقیقت اِس کے بالکل بر خلاف تھی۔۔۔۔وہ جانتی تھی اس کی حقیقت پر منہاج سمیت کبھی کوئی یقین نہیں کرے گا۔۔۔۔ تو پھر وہ کیوں صفائیاں دیتی پھر
اپنی پاک بازی کی۔۔۔
بکواس نہیں سننی مجھے۔۔۔۔۔ سچ سچ بتاؤ۔۔۔۔۔ ماورا کے منہ سے نکلے الفاظ منہاج درانی کو جلتی بھٹی میں پھینک گئے
تھے۔۔۔۔
کیوں ایک طوائف کا سچ ۔۔۔۔اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا۔
طوائف زادی ہوں۔۔۔۔ بستروں کی زینت نہیں بنوں گی تو اور کیا کروں
گی۔
ماور خود اذیتی سے بولتی اپنی کلائی اُس کی گرفت سے آزاد کرتی واپس جانے
کے لیے مڑی تھی۔۔۔۔
جب اُس کے وہاں سے پلٹنے سے پہلے ہی منہاج اس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے اپنے بے حد قریب کر چکا تھا۔۔۔۔ اتنا کہ اُس کی بھسم کرتیں گرم سانسیں ماورا کا چہرا جھلس گئی تھیں۔۔۔۔
ماورا نے شاک ہوتی نظروں سے منہاج کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ آج تک وہ
کے قریب نہیں آیا تھا —- ا اُس کی یہ حرکت ماورا کچھ لمحے
سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔ کمر پر محسوس ہوتی منہاج کی مضبوط گرفت غصے ، خفگی اور خجالت کے مارے اُس کا پورا چہرا لال کر گئی تھی۔۔۔۔ اُسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جسم کا سارا
خون چہرے پر سمٹ آیا ہو۔۔۔۔
یہ ۔۔۔۔۔ یہ تک کیا بے ہودگی ہے؟ چھچھ چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔
ماور ازندگی میں پہلی بار کسی مرد کے اتنے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کا پورا وجود خوف کے مارے ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔ یہ جگہ کافی سنسان تھی۔۔۔ اوپر سے منہاج کے چہرے کے خطر ناک تاثرات۔۔۔۔ وہ رو
دینے کو تھی۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟۔۔۔۔ طوائف زادی ہو کر ۔۔۔۔ ایک مرد کے قریب آنے اتنی بری حالت کیوں ہو رہی ہے تمہاری؟؟؟ تم تو اس سے بھی کہیں
سے زیادہ کی عادی ہونا ۔
منہاج ہاتھ بڑھاتے ٹھوڑی سے تھام کر اپنے مزید نزدیک کر گیا
تھا۔۔۔۔
اپنے چہرے پر محسوس ہوتے اس کے لمس پر ماورا کو جیسے کرنٹ چھو کر گزر
گیا تھا۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ پلیز۔۔
مادرا کا پورا وجود ہولے ہولے لرزنے لگا تھا۔۔۔۔ اس نے منہاج درانی کا ایسا جارحانہ روپ آج تک نہیں دیکھا تھا۔۔۔ وہ اس کے ساتھ ایسا کیوں کر رہا تھا۔۔۔ماورا سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔۔
منہاج نے بہت گہری نظروں سے ماورا کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر گرتے دیکھے تھے ۔۔۔ اپنی گرفت میں موجود اس کے وجود کی لرزش وہ با
آسانی محسوس کر پار ہا تھا۔۔۔۔
ماورا کی یہ کیفیت دیکھ اسے عجیب سا سکون ملا تھا۔۔۔۔اس لڑکی کی حقیقت کچھ اور تھی۔۔۔۔ وہ نہیں جو وہ اس کے سامنے ظاہر کر ہی تھی۔ بہت جلد تمہاری قیمت لگانے تمہارے کو ٹھے پر جاؤں گا۔۔۔۔ خود کو تیار رکھنا میرے لیے۔۔۔۔۔ جس بکاؤ مال کو حلال طریقے سے اپنے نام لگوانا چاہتا تھا۔۔۔۔ اب اُسے اُس کی اوقات کے مطابق حاصل کروں گا۔۔۔۔ کیونکہ تم جس روپ میں بھی سہی۔۔۔ چاہے ایک طوائف زادی ہو یا پاکیزہ۔۔۔ تمہیں آنا صرف منہاج درانی کی دسترس میں ہی ہو گا۔۔۔۔ یہ
بات اپنے دماغ میں اچھی طرح سے بیٹھالو۔۔۔۔ تمہیں چاہنا میری زندگی کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔۔۔۔ مگر اپنے غلط فیصلوں کا درست سمت لے جانا
مجھے بہت اچھے سے آتا ہے۔۔۔۔
منہاج نے ہاتھ بڑھا کر بے دردی سے اُس کی گال پر پھسلے آنسو صاف کیے تھے۔۔۔۔ اور اُسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا وہاں سے پلٹ گیا تھا۔۔۔
اُس کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اُس کا عمل بھی کافی سختی لیے جارحانہ تھا۔۔۔۔۔ ماور اتو سمجھ رہی تھی کہ منہاج درانی اُسے اُس کی غلطی کی سزا دے کر اب کبھی پلٹ کر اس کی جانب نہیں دیکھے گا۔۔۔۔ مگر یہاں تو ایک نیا امتحان اُس کا منتظر تھا۔۔۔۔ ماور اسر پکڑتی وہیں پاس رکھے سنگی بینچ پر جا
بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
حائفہ اپنے گرد لپٹے اس کے کوٹ کو مضبوطی سے تھامے آہستہ روئی سے
چلتی اُس کے پیچھے ٹیرس پر آئی تھی۔۔۔
جور یکنگ پر دونوں ہتھیلیاں جمائے کھڑا دور پہاڑوں سے اُڑتے سفید دھویں کو دیکھ رہا تھا۔۔اس ٹیرس سے ارد گرد کو منظر بہت دلکش نظر آتا تھا۔۔۔ نیلا آسمان جو زیادہ تر بادلوں سے ڈھکا ہتا تھا۔۔۔ اور اُس کے نیچے ہریالی سے
بلند و بالا خوبصورت پہاڑ۔۔۔۔۔ جو اس
مزید اضافہ کرتے تھے
ٹیرس پر کافی زیادہ ٹھنڈ تھی۔۔۔۔ حائفہ اپنے یونیفارم کے ساتھ ساتھ آژ میر کا گرم کوٹ بھی اپنے گرد لیٹے ٹھنڈ سے کانپ گئی تھی۔۔۔۔ جبکہ آژ میر بنا کسی گرم شے کے وہاں اتنے سکون سے کھڑا تھا۔۔۔ جیسے فولاد کا بنا
ہو ۔۔۔۔۔ اس پر یہ موسم کی زیادتی اثر نہ کرتی ہو۔۔۔ حائفہ اُس کی چوڑی پشت پر ایک نگاہ ڈال کر واپس جھکا گئی تھی۔ یہ کام کرنے کے پیچھے کیا مجبوری ہے آپ کی۔۔۔۔ کوئی مجبور کر رہا ہے ایسا کرنے پر یا پرسنل چوائس ہے۔۔۔۔
آژ میر بنا اس کی جانب پلٹے گھمبیر لہجے میں بولتا حائفہ کے چودہ طبق روشن کر گیا تھا۔۔۔۔ اُس نے کرنٹ کھا کر اوپر دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ کس کام کی بات کر رہا تھا۔۔۔ تو اس کا مطلب وہ اسے پکڑ چکا تھا۔۔۔۔ حائفہ اندر تک کانپ
گئی تھی۔۔۔
وہ ملک آژمیر میر ان کی پرسنیلٹی کے رعب میں آکر اپنی سوچنیں سمجھنے کی صلاحتیں کھو دیتی تھی۔۔۔۔ جیسا وہ اس وقت کر رہی تھی۔۔۔۔
ک ۔۔ کون سا کام ۔۔۔؟؟
جاعفہ نے بمشکل ہکلاتے
کے پوچھا تھا۔۔۔۔ جس پر آژمیر نے پلٹ کر
بے اختیار اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو خوفزدہ سی سر جھکائے ایسے کھڑی تھی۔۔۔۔ جیسے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہو۔۔۔۔۔
ویٹرس والا کام۔۔۔۔۔ کیوں آپ اس کے علاوہ بھی کوئی کام کرتی
ہیں۔۔۔۔۔؟؟
آژمیر سینے پر باز و لپیٹے سامنے کھڑی ٹھنڈ اور شاید خوف سے کانپتی لڑکی کو دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔ اُس کے نارمل انداز میں بات کرنے پر اس کی یہ حالت تھی۔۔۔۔ اگر جو وہ اپنے اصلی روپ میں ہوتا تو اس لڑکی نے تو بے ہوش
ہو کر یہیں گر جانا تھا۔۔۔۔
نن۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ مم میرا۔۔۔ مطلب ہے۔۔۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔۔ صرف۔۔۔ یہی۔۔۔ یہی۔۔۔ کام کرتی ہوں۔۔۔۔ م ۔۔۔۔ میری۔۔۔ مجبوری ہے۔۔۔ میں اکیلی رہتی ہوں۔۔۔۔ میرے ماں باپ کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔۔۔۔ اپنے لیے مجھے خود ہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔اس لیے۔۔۔۔ مجبوری کے تحت ہی سہی۔۔۔۔ گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔۔۔۔ حائفہ نے ہکلاتے بمشکل الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔ کیونکہ آژمیر کی جانچتی نگاہیں اُس پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔ اگر اس وقت وہ ناٹک کر رہی ہوتی تو ایک لمحہ بھی نہ لگتا آژمیر کو اُسے پکڑنے میں۔۔۔۔ مگر اُس کا یہ خوف، آژمیر
سے بات کرتے لر زنا۔۔۔۔ لڑ کھڑانا یہ سب نیچرل تھا۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اُس کے منہ سے نکلنے والا جھوٹ بھی سچ ہی معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔ وہ خود بھی حیران تھی کہ بھلا وہ ایک شخص سے اتنی خوفنر دہ کیسے ہو سکتی تھی ۔۔۔۔۔ اُس کا سارا کا نفیڈ نس، خود اعتمادی کہاں چلی جاتی تھی۔۔۔۔ جب وہ آژمیر میر ان کے سامنے آتی تھی۔۔۔۔ حالانکہ اس نے ہمیشہ حائفہ سے نرمی سے بات ہی کی تھی۔۔۔۔ مگر اس کانر می لیے انداز بھی اتناد ہشت
بھرا ہو تا تھا کہ حائفہ کے ہاتھوں کے اڑ نانار مل بات تھی۔۔۔۔۔

تو اس کے علاوہ آپ کو کوئی جاب نظر نہیں آئی۔۔۔۔ جس جاب میں ڈریسنگ ہی ایسی ہو ۔۔۔۔ آپ کو کیا لگتا وہاں آپ کو عزت مل پائے
” گی۔۔۔۔
آژمیر اُس کا خوف کم کرنے کے لیے زرانر می بھرے لہجے میں بات کر رہا
تھا۔۔۔۔ مگر حائفہ کا خوف ہنوز تھا۔۔۔۔
اُس کی بات کے جواب میں حائفہ نے صرف نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
کوالیفیکمیشن کیا ہے آپ کی ؟؟؟”
آژمیر کو نجانے کیوں اس لڑکی سے ہمدردی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔
اس بات سے انجان کہ آگے یہی ہمدردی اُس سے اُس کا سب کچھ لوٹنے والی تھی۔
بی۔اے
اب کی بار بھی سر جھکائے مختصر أجواب ملا تھا۔۔۔ حائفہ میں ہمت نہیں تھی۔۔۔ اُس ساحر کی
مقناطیسی نگاہوں میں دیکھنے کی۔۔۔۔ جو مقابل کو خود
میں جکڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھیں
” میرے پاس جاب کریں گی۔۔۔۔”
آژمیر نے اُس کی معصوم صورت دیکھ آفر کی تھی۔
کیونکہ اُس کی سوچ کے مطابق اس لڑکی کا یہ غیر معمولی حسن اسے کسی بہت بڑی مشکل سے دو چار کر سکتا تھا۔ اور ایسی جاب جہاں اُسے روز نجانے کتنے
نامحرم مردوں سے واسطہ پڑنا تھا۔ اُس کے لیے سیف بالکل بھی نہیں
تھی۔۔۔۔۔
کیسی جاب ؟؟
حائفہ نے گھنیری پلکوں کی جھالر اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جواب پاکٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے کھڑا اُسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ حائفہ نے
جزبز ہوتے فور انگاہیں جھکالی تھیں۔۔۔۔
آژ میر چند قدم اپنی جگہ سے آگے بڑھا تھا۔۔۔ حائفہ کی نگاہیں اُس کے پیروں پر تھیں۔۔۔۔ اُس کی پیش قدمی پر حائفہ کا دل لرز گیا تھا۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اپنی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔۔۔
یہ میرا کارڈ ہے۔۔۔۔ کل اس پر لکھے ایڈریس پر پہنچ جائے گا۔۔۔۔۔ آژمیر کے قریب آنے کا مقصد صرف اُس کی جانب کارڈ بڑھانا تھا۔۔۔۔ حائفہ نے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے اُس کے
ہاتھ سے کارڈ پکڑ لیا تھا۔۔۔۔
اُس کے کارڈ لینے پر آژمیر واپس پلٹا تھا۔۔۔۔ سر آپ کا کوٹ۔۔۔۔۔
حائفہ کو ایک دم خیال آیا تھا کہ اتنی دیر سے وہ اتنی ٹھنڈ میں ایسے ہی کھڑا تھا۔۔۔۔ اور جس کوٹ کو اپنے گرد سختی سے وہد بوچ کر لیٹے ہوئے ہے وہ
اس شخص کو لوٹانا بھی ہے۔۔۔۔
اس کی پکار پر آژمیر رکے قدم تھمے تھے ۔۔۔۔ اس نے نگاہیں گھما کر حائفہ کی
جانب دیکھا تھا۔۔۔
مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت آپ کو ہے۔۔۔
سر دوسپاٹ لہجے میں اُس پر گہر اطنز کرتے وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ حائفہ نجانے کتنی دیر وہاں ساکت سی کھڑی اُس کی مسحور کن خوشبو کی
مہک فضا میں محسوس کرتی رہی تھی۔۔
کتنی خوش قسمت ہو گی ناوہ لڑکی۔۔۔۔ جس کی قسمت میں یہ شاندار مرد
لکھا گیا ہو گا۔۔۔
حائفہ حسرت بھری نظروں سے سیاہ بادلوں سے ڈھکے آسمان کی جانب دیکھتے بولتی تھکے تھکے قدموں سے چلتی وہاں سے ہٹ آئی تھی۔۔۔ کیونکہ اب ایک اس شخص کے چلے جانے سے یہ حسین منظر بھی ادھورا لگنے لگا
@@@@@@@@@
زنیشہ تمہیں ایچ اوڈی سر اپنے آفس میں بلا ر ہے ہیں۔۔۔ وہ کلاس لے کر نکلی ہی تھی ۔۔۔۔ جب یہ پیغام ملنے پر اس نے اپنے قدموں کو آفس کی سمت بڑھا دیا تھا۔۔۔ اس کا باڈی گارڈ بھی سائے کی طرح اُس کے ساتھ ساتھ ہی تھا۔۔۔۔ زنیشہ اب لوگوں کی عجیب و غریب نظروں کی عادی ہوتی جارہی تھی۔۔۔ اکثر لڑکیاں تو اس سے اُس کے باڈی گارڈ کا نمبر بھی مانگ چکی تھیں۔۔۔۔ زنیشہ کا دل چاہتا تھا یا تو اپنے باڈی گارڈ کا یہ داڑھی اور مونچھوں سے سجا منہ توڑ دے یا پھر ۔۔۔۔ان اندھی لڑکیوں کا، جنہیں وہ اُس کی باڈی بلڈر جسامت سے ہینڈ سم لگتا تھا۔۔۔۔۔
زنیشہ آفس میں داخل ہونے سے پہلے واپس پلٹی تھی۔۔۔ جہاں اُس کا باڈی گارڈ بھی ہاتھ باندھے اُس کے ساتھ اندر آنے کو تیار تھا۔۔۔۔ اب ایچ اوڈی کے آفس میں بھلا مجھے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔ خاموشیسے یہیں کھڑے رہو۔۔۔۔
زنیشہ نے پلٹ کر مزمل کو سخت نگاہوں سے وارن کیا تھا۔۔۔ جس پر حیرت انگیز طور پر وہ اثبات میں سر ہلاتا پیچھے ہوتا دیوار کے ساتھ سر ٹکاتا خاموشی سے کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ زنیشہ اُس کی اتنی فرمانبرداری پر منہ کھولے اُسے
دیکھے گئی تھی۔۔۔۔
اس کا مطلب یہ ڈانٹ کر کہی جانے والی بات سمجھتا ہے۔۔۔۔اب اس”
” سے ایسے ہی پیش آنا پڑے گا۔۔۔۔
زنیشہ اُسے گھورتی نگاہوں سے دیکھتی دل میں سوچ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ پہلی دفعہ اس کی ڈانٹ کو کسی نے سیر میں لیا تھا۔۔۔ وہ بھی ایک باڈی بلڈر
نے اُس کے لیے حیران ہو نا تو بنتا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اس کی جانب سے مطمئن ہوتی اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئی
تھی۔۔۔۔۔
” السلام و علیکم سر ۔۔۔ آپ نے بلایا مجھے ۔۔۔۔۔۔”
زنیشہ بنا ارد گرد دیکھے ایچ اوڈی کے ٹیبل سے فاصلے پر رکتی اُن سے مخاطب
ہوئی تھی۔۔
جی مس زنیشہ ۔۔۔۔ مسٹر ملک زوہان آپ سے ملنا چاہتے تھے۔۔
” اسی لیے یہاں بلا یا آپ کو ۔۔۔۔۔
سر نے ہاتھ کے اشارے سے اُس کا دھیان دائیں جانب بڑے شاہانہ انداز میں صوفے پر براجمان ملک زوہان کی جانب کیا تھا۔۔۔۔ صوفے پر براجمان ملک زوہان کی طرف کیا تھا۔
جبکہ ان کی بات پر زنیشہ سے گردن موڑ نا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔۔ اُسے لگا جیسے وہ اپنی جگہ پر پتھر کی ہو چکی ہے۔۔۔۔ اب کبھی یہاں سے مل نہیں
پائے گی۔۔۔۔
آپ بات کر لیں۔۔۔۔ میری ایک بہت امپورٹنٹ کلاس ہے میں زراوہ
اٹنیڈ کرلوں۔۔۔۔۔
ایچ او ڈی زوہان سے ایسے مخاطب تھے جیسے ان کی بہت اچھی جان پہچان
ہو۔
زنیشہ نے سر کو بلانا چاہا تھا۔۔۔ مگر اُس کی زبان کوئی الفاظ ادا کرنے سے قاصر تھی۔
اُس نے پلٹ کر وہاں سے جانا چاہا تھا۔۔۔ جب زوہان کی کمرے میں گونجتی گھمبیر آواز اس کے قدم وہیں جکڑ گئی تھی۔۔۔۔
کیسی ہو ؟… اپنی شادی ٹوٹنے کا سوگ ختم ہوا یا نہیں۔۔۔۔ زوہان اپنی جگہ پر ہی براجمان اُس سے مخاطب تھا۔۔۔۔ زنیشہ نے نظریں اُٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو پہلے ہی دلچپسی بھری نگاہیں اس کے سیاہ شال میں مقید دودھیا چہرے پر گاڑھے ہوئے تھا۔۔۔۔ زنیشہ اس کے دیکھنے کے انداز پر جی جان سے لرز گئی تھی۔۔۔۔
اُس نے دل ہی دل میں اپنے باڈی گارڈ کو صلواتوں سے نوازا تھا۔۔۔ جس نے ابھی ہی اُس کی بات ماننی تھی۔۔۔۔ جب اندر یہ جلاد موجود تھا۔۔۔ آپ کیوں آئے ہیں یہاں؟ مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔۔ نہ
ہی میں آپ کو اس قابل سمجھتی ہوں۔
ز نیشہ دیدہ دلیری کا مظاہر کرتی اپنے باڈی گارڈ کی شے پر اُسے ٹکا ساجواب
دیتی وہاں سے نکلی تھی۔۔
تمہارا باڈی گارڈ میرے آدمیوں
کے نشانے پر ہے۔۔۔ اگر تم یہاں سے
نکلی تو وہ اسے شوٹ کر دیں گے ۔۔۔۔ کیوں بچارے کسی مظلوم کی زندگی کی دشمن ہو رہی ہو ۔۔۔۔
زوہان اُسی طرح ریلیکس انداز میں بیٹھاز نیشہ کے بڑھتے قدم وہیں روک گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ نے بے یقینی سے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ بھلا
اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔
سب بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ آپ میں انسانیت بالکل ختم ہو چکی ہے۔۔۔ آپ کے غصے اور انتقام کی آگ نے آپ کو بالکل بے حس بنادیا
ہے۔۔۔
زنیشہ کو پہلے اس پر ذیشان کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کی وجہ سے غصہ تھا۔۔۔ اور اب اُس کا مزمل کے لیے ایسا بولنا اُ سے مزید بھڑ کا گیانی زوہان بنا اس کی کسی بات پر غصہ کیے۔۔۔۔ دلچسپی سے اس کا یہ نیا روپ
اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جیسے وہ بھول چکی ہو کہ اُس کے سامنے ملک زوہان تھا۔۔۔۔ جو خود سے ایسے بات کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیتا
تھا۔۔۔
دوسروں کی رائے کی مجھے قطعا پر واہ نہیں ہے۔۔۔ تم اپنا بتاؤ۔۔۔۔ تم کیا رائے رکھتی ہو میرے بارے میں۔۔۔
زوہان اپنی جگہ سے اُٹھتا اب کی بار زنیشہ کی جانب پیش قدمی کر چکا تھا۔۔۔
اسے قریب آتا دیکھ زنیشہ کی ساری بہادری جھاگ بن کر بیٹھنے لگی تھی۔۔۔۔اس شخص سے کسی قسم کی توقع بھی کی جاسکتی تھی۔۔۔اس لیے اُس نے اب کی بار اپنی زبان بند رکھنا ہی مناسب سمجھا تھا۔۔۔۔
جواب دو ڈارلنگ میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں
ملک زوہان اس کے قریب آتا گہری نظریں اُس کے صبیحہ چہرے پر ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔ جب اُس کے درز تخاطب پر زنیشہ اسے گھور کر رہ گئی
تھی۔۔۔
میں اس ظالم شخص کے لیے کوئی رائے رکھنا ہی نہیں چاہتی۔۔۔۔ جس کے لیے اپنی ضد اور نفرت سے بڑھ کر کچھ نہ ہو۔۔۔۔ جو صرف اپنی دلی تسکین کی خاطر لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔۔۔۔ ذیشان نے۔۔۔۔۔ زنیشہ کے باقی الفاظ بھی منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔۔ جب زوہان نے اُس کے ہونٹوں پر مضبوط ہتھیلی جماتے اُس کے الفاظ وہیں دبادیئے تھے۔۔۔۔
ذیشان کا نام میں اب تمہارے منہ سے کبھی نہ سنوں۔۔۔۔ شادی ٹوٹ گئی نا، اب کوئی تعلق نہیں بچتا تمہارا اس سے۔۔۔۔ سو نیکسٹ ٹائم بی کیئر
فل۔۔
زوبان اُسے لال آنکھوں سے گھور کر اچھے سے باور کروانا ہتھیلی ہٹا گیا تھا۔۔۔ جبکہ اس کے اس استحقاق بھرے عمل پر زنیشہ کا پارہ چڑھا تھا۔۔۔
وہ ہوتا کون تھا۔۔۔ بنا اجازت اُسے چھونے والا۔۔۔۔
آپ اپنی لمٹس میں رہیں ۔۔۔۔ میری مرضی میں جس کا نام لوں۔۔۔ جس کے بارے میں مرضی بولوں۔۔۔ آپ ہوتے کون ہیں مجھ پر حکم چلانے والے۔۔۔ اور ذیشان میرا ہونے والا شوہر ہے۔۔۔۔ اُس کا نام لینا کو تو حق حاصل ہے مجھے۔۔۔۔۔۔
زنیشہ کو اُس کا یوں اپنے ہونٹوں کو ٹچ کرنا بہت غصہ دلا گیا تھا۔۔۔ جس کا جواب دیتے وہ بناز وہان کا لحاظ کیے جو دل میں آیا بول گئی تھی۔۔۔ جبکہ اُس کا ذیشان کو اپنا ہونے والا شوہر بولناز وہان کو پتنگے لگا گیا تھا۔۔۔
تم چاہتی ہو ۔۔۔۔ ذیشان کو جان سے ہی مروادوں میں۔۔۔۔ ہے
نا۔۔۔۔
زوہان اپنے غصے پر بہت مشکل سے قابو پاتا۔۔۔ اس کی کلائی دبوچتا اپنے قریب کرتے زہر خند لہجے میں بولا تھا۔۔۔
جہاں اُس کی حرکت زنیشہ کا دل بُری طرح دھڑ کا گئی تھی۔۔۔ وہیں اُس کے الفاظ پر زنمیشہ نے پھٹی پھٹی نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُسے کبھی کبھی
آژ میر اور زوبان بالکل ایک جیسے لگتے تھے۔۔۔ جن کی بات مار سے شروع ہو کر مار پر ہی ختم ہوتی تھی۔۔۔ اور وہ کسی کو مارنے کی بات اتنی نار ملی کرتے تھے ۔۔۔ جیسے کسی سے کھانے کا پوچھا جارہا ہو۔۔۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔۔
زنیشہ اس کے سینے پر دوسری ہتھیلی سے دباؤ ڈالتی پیچھے ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ مگر ایک انچ بھی نہیں مل پارہی تھی۔۔۔۔
ایسا تو ناممکن ہے۔۔۔ مائی لیڈ ی۔۔۔۔۔ تمہیں ہی تو نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔۔ تمہاراوہ ظالم بھائی سمجھتا ہی نہیں۔۔۔۔ مگر لگتا ہے بہت جلد سمجھانا پڑے گا اُسے۔۔۔اور تمہیں بھی۔۔۔۔ تم پر اپنے نام کی مہر لگا کر ۔۔۔۔ تاکہ تم کسی گھامڑ کا نام لے کر میرے غصے کو مزید ہوانہ دو۔۔۔۔۔ میران پیلس میں ایک تم ہی تو واحد ہستی ہو ۔۔۔ جس سے چاہنے
کے باوجود نفرت نہیں کر پایا میں۔۔۔۔۔
زوبان اس کی شال سے نکلی گھنے بالوں کی لٹ کو ہاتھ بڑھا کر اس کے کان
کے پیچھے اڑستے بولا۔۔۔۔
زنیشہ نے اس کے ہاتھ کو دور جھٹکا تھا۔۔۔۔
جس پر اس کی کلائی پر زوبان کی گرفت مزید تیز ہوئی تھی۔ آپ مجھے ہر ٹ کر رہے ہیں۔۔۔۔
زندیشہ کو اُس کی سخت گرفت پر اپنی کلائی جلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
زوہان جو غصے میں بھول گیا تھا کہ اُس کے مقابل اُس کی زنیشہ میران ہے۔۔۔ جسے تکلیف پہنچانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔ اس نے فوراً گرفت ڈھیلی کر دی تھی۔۔۔ مگر آزادی ابھی بھی نہیں بخشی تھی۔۔۔۔ تمہیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ میں تمہیں یہاں کچھ بتانے بھی آیاتھا
زنیشہ کی آنکھوں میں آنسوؤں دیکھ زوبان ڈھیلا پڑ گیا تھا۔۔۔۔ شاید یہ لڑکی اور اس کے یہ آنسو ہی اُس کی زندگی کی واحد کمزوری تھے ۔۔۔ جو بات جاننے کے باوجود بھی زوہان خود کو اُس سے انجان رکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ باوجود تم اور شاید میران پیلس کا ہر فرد یہ بات بھول چکے ہیں کہ تم میری منگ ہو۔۔۔ مگر میں بالکل بھی نہیں بھولا۔۔۔۔ تم بچپن سے میرے نام لگائی گئی ہو۔۔۔ صرف میری ہو۔۔۔ تم پر صرف میر احق ہے۔۔۔ یہ بات خود کو اچھے سے از بر کر والو۔۔۔۔ اور رہی بات میران پیلیس والوں کی تو انہیں یہ بات بہت جلد میں خود ہی اچھے سے سمجھانے والا ہوں۔۔۔۔ وہ سمجھ رہے
یہ ایک گارڈر کھ کر وہ مجھے تم سے دور رکھ پائیں گے۔۔۔۔ آژمیر میر ان کو کہہ دینا کہ ایسے ہزاروں اور لاکھوں بھی لے آئے تب بھی مجھے تم سے دور
نہیں رکھ پائے گا۔۔۔۔
زوہان اُس کا ملائم گال ہولے سے تھپتھپاتا اس کی کلائی آزاد کر گیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ جلدی سے پیچھے بنتی درمیان میں فاصلہ بنا گئی تھی۔۔۔ اس کی اس
پھرتی پر زوہان زیر لب مسکرایا تھا۔۔۔
ابھی جتنی احتیاطی تدابیر کرنی ہیں کر لو۔۔۔۔۔ کیونکہ بعد میں یہ سب
نہیں کر پاؤ گی ۔۔۔۔
زوہان اسے جتاتی نظروں سے دیکھتے پلٹا تھا۔۔۔
جب آپ مجھ سے اور میرے خاندان سے اتنی نفرت کرتے ہیں تو اب بھی میرے ساتھ وہ رشتہ قائم کیوں کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ ایسے رشتے تو محبت کی بنیاد پر رکھے جاتے ہیں۔۔۔ نفرت کی بنیاد پر نہیں۔۔۔۔
زنیشہ اُس سے کچھ اُگلوانا چاہتی تھی جو شاید اُس کے بے چین دل کو قرار بخش
جاتا۔۔۔۔
مگر ملک زوہان کو اپنی زندگی کا ہر رشتہ نفرت کی بنیاد پر رکھنا ہی آتاہے۔۔۔۔ میران پیلس کے ہر فرد سے نفرت کرتاہوں میں شدید نفرت سمجھنا کہ ملک زوہان محبت کرتا ہے تم سے۔۔۔۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ میران پیلس کی چہیتی
سوائے تمہارے۔۔۔۔ مگر اس کا یہ مطلب
ز نیشہ میران ملک زوبان کی محبت کے قابل نہیں ہو سکتی۔۔۔۔اس خوش
فہمی کو اپنے دل میں جگہ مت دینا۔۔۔۔ تمہیں حاصل کرنا صرف
میری ضد ہے۔۔۔۔۔ میری غیرت گنوارہ نہیں کرتی میری منگ کسی اور کی
جھولی میں ڈال دی جائے۔۔۔ میں اپنی شے خراب کر کے پھینکنے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔۔۔۔۔ مگر کسی اور کا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔ تم تو پھر ایک جیتی جاگتی انسان ہو ۔۔۔۔ تمہیں کیسے اپنے دشمنوں کے پاس دیکھ سکتا
ہوں۔۔۔۔۔
زوہان پل بھر میں اپنی نگاہوں میں اُس کی حیثیت ظاہر کرتا اُسے آسمان سے زمین پر پٹخ گیا تھا
اُس کی گالوں پر بہتی آنسوؤں کی لڑیاں دیکھے بناوہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔
جبکہ زنیشہ کتنے ہی لمحے اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو چکا تھا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی ملک زوہان سنگدل، ظالم ، بے حس اور گھمنڈی انسان ہے۔۔۔۔ جو اُس سے محبت ہونے کے باوجود نہیں بولے گا کہ اُس سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ مگر آج جو لفظ اُس نے ادا کیے تھے۔۔۔ زنیشہ اپنا دل چھلنی ہونے سے نہیں روک پائی تھی۔۔۔
وہ بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتی خود کو کافی حد تک کمپوز کرتی آفس سے نکل آئی تھی۔۔۔۔ جہاں مزمل کھڑا اس کے انتظار میں تھا۔۔۔۔ ایڈیٹ۔۔۔ کیسے باڈی گارڈ ہو تم ؟؟… تمہیں لالہ نے اسی لیے رکھا ہے ناکہ فل ٹائم میرے ساتھ رہو ۔۔۔۔ میں اتنی دیر سے اندر تھی سر بھی
آفس سے نکل گئے۔۔۔۔ تمہیں زرا خیال نہیں آیا کہ اندر جا کر دیکھ لو ۔۔۔۔ میں کس جلاد کے پاس پھنسی کھڑی ہوں۔۔۔۔ لگتا ہے صرف باڈی ہی بنائی ہے۔۔۔ عقل نام کی چیز ہی نہیں ہے تم میں۔۔۔۔۔ ز نیشہ زوہان کی ساری فرسٹیشن مزمل پر نکالتی غصے سے بولتی آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ جبکہ مزمل اس کی لال آنکھوں پر ایک نگاہ ڈالتا بنا کچھ بولے خاموشی سے اُس کے پیچھے چل دیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@
گڈ مارننگ ڈیڈ۔
منہاج درانی جم سے نکلتا سیدھا ڈرائنگ روم میں آیا تھا۔۔۔۔ جہاں شہاب درانی اسی کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔ وہ اُس کے بغیر ناشتہ شروع نہیں
کرتے تھے۔۔۔۔
گڈ مارننگ مائی سن۔۔۔۔۔ آج زیادہ دیر نہیں لگادی۔۔۔۔
شہاب درانی محبت بھری نظروں سے اپنے فٹ اور ہینڈ سم کو دیکھتے ہوئے
بولے۔۔۔۔
سوری آپ کو ویٹ کر نا پڑا۔۔۔۔ آئیں ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔۔ منہاج انہیں اتنی دیر سے انتظار میں بیٹھا دیکھ شر مندہ سا ہوا تھا۔۔۔ وہ دونوں باتیں کرتے ایک ساتھ ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھ گئے تھے۔ جو ابھی ملازمین سجا کر گئے تھے۔۔۔۔
… بواجی کہاں ہیں ؟ انہوں نے ناشتہ نہیں کرنا کیا ؟؟” منہاج کو کلثوم بیگم کا خیال آیا تھا۔۔۔۔ جو اس بڑے سے عالیشان بنگلے کا
تیسر ا فرد تھیں۔۔۔۔
منہاج کی مدر کی کچھ عرصے پہلے ڈیتھ ہو چکی تھی۔۔۔۔ جس کہ بعد اس کی بیوہ پھوپھو کلثوم بیگم نے ہی درانی مینشن کا اچھے سے خیال رکھا تھا۔۔۔۔اور اب تک رکھتی آرہی تھیں۔۔۔ شہاب درانی کے دو بیٹے تھے۔۔۔ بڑا منہاج درانی اور چھوٹا شہر یار درانی۔۔۔۔ شہاب درانی کا شمار ملک کے نامور سر جنز
میں ہوتا تھا۔۔۔۔ وہ ہارٹ سپیشلسٹ تھے۔۔۔۔ منہاج کی پیدائش کے بعد اُنہوں نے اُس کے نام پر اپنا ایک ہاسپٹل تعمیر کروایا تھا۔۔۔ جو کہ اُن کی محنت اور سچی لگن کی وجہ سے اب ملک کے ٹاپ کے ہاسپٹلز میں جانا جاتا تھا ۔۔۔۔ میڈیکل کے ہر سٹوڈنٹ کا خواب اُسی ہاسپٹل میں پریکٹس کرنے
کا ہو تا تھا۔۔۔ شہاب درانی اب وہاں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے لیے جدید مشینر یز لانے والے تھے جو پہلی بار یہاں کہ کسی ہاسپٹل میں لائی جارہی تھیں۔۔۔۔۔اس لیے وہ اب پہلے سے زیادہ اس کام میں مصروف تھے۔۔۔ منہاج بھی اہم بی بی ایس کا سٹوڈنٹ تھا۔۔۔۔ شہاب درانی کی خواہش تھی کہ منہاج اُن کے نقش قدم پر چل کر اُن سے بھی بڑا ہارٹ سپیشلسٹ بنے۔۔۔۔ منہاج ہمیشہ اپنی سٹڈیز اور باقی ایکٹیوٹیز میں جبکہ شہر یار ہاسٹل میں ہی رہتا تھا۔۔۔ درانی مینشن کی ساری دیکھ بھال کی زمہ داری کلثوم بیگم
کی ہی تھی۔۔۔
اُن کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔۔ تو پہلے ہی ناشتے کے بعد دوالے کر سو گئی ہیں۔۔۔۔ تم سناؤ آج کل کہاں گم رہتے ہو ۔۔۔۔۔ شہاب درانی نے گہری جانچتی نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ پچھلے ایک ہفتے سے نوٹ کر رہے تھے منہاج کافی ڈسٹرب سا ہے۔۔۔۔ کچھ دنوں سے نہ صبح ناشتے کے ٹیبل پر ملتا تھا اور نہ ہی رات کو ڈنر کے ٹائم
دو دن سے میٹنگ کے سلسلے میں دوبئی گئے ہوئے تھے۔۔۔ کلثوم بیگم سے ہی اُنہیں پتا چلا تھا کہ منہاج ٹائم پر گھر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ جو بات اُن کے لیے کافی فکر مندی کا باعث تھی۔۔۔ اُنہوں نے ہمیشہ منہاج کے ساتھ دوستانہ رویہ ہی رکھا تھا۔۔۔ اُن دونوں کے درمیان باپ بیٹے کے رشتے سے زیادہ بے تکلفی تھی۔۔۔۔ شہاب درانی اس کی پریشانی کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔۔۔۔ وہ چاہتے تھے منہاج ہمیشہ کی طرح اب بھی کھل کر ان سے اپنا
مسئلہ شیئر کرے۔۔۔۔
سٹڈی میں ہی بزی رہتا ہوں۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں میڈیکل کی پڑھائی کتنی ٹف ہے ۔۔۔۔۔
منہاج لا پرواہی بھرے انداز میں گویا ہوا تھا۔۔۔
یہ پڑھائی تو پچھلے پانچ سالوں سے چل رہی ہے۔۔۔۔ اچانک اتنی ٹف ہو گئی کہ میرا بیٹا رات رات بھر گھر سے باہر رہنے لگ گیا۔۔۔۔۔ شہاب درانی جوس کا گلاس ہو نٹوں سے لگاتے اس پر گہر طنز کر گئے
منہاج نے جوا با مسکرا کر ان کی جانب دیکھا تھا۔
تو مطلب آپ سخت گیر باپ بنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔ منہاج جانتا تھاوہ اُس سے کتنا پیار کرتے تھے۔۔۔اُس کے چہرے پر دکھ کا شائبہ تک نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔۔ اس لیے وہ اپنے اندر کی اذیت اُن سے
چھپاتا اُن کی بات مذاق میں اُڑا گیا تھا۔۔۔۔
مگر یہ بھی سچ تھا کہ منہاج درانی بہت ڈسٹرب تھا۔۔۔۔ وہ محبت کا روگ لگا بیٹھا تھا۔۔۔ جس کی تکلیف کسی پل اُسے چین نہیں لینے دے رہی تھی۔۔۔۔ وہ چاہنے کے باوجود اس دھو کے باز لڑکی کو اپنے دل سے نہیں
نکال پار ہا تھا۔۔۔۔
اُس کی اصلیت جان لینے کے بعد بھی وہ اُس سے نفرت نہیں کر پارہا تھا۔۔ کاش سخت گیر باپ بن کر ہی اپنے لاڈلے کے اس اُداس چہرے کی رونقیں واپس لے آتا۔۔۔۔ جو پچھلے دو مہینوں میں بہت بڑھ گئی تھیں۔۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے میری ہی نظر لگ گئی تمہیں۔۔۔۔ شہاب درانی باپ تھے بیٹے کی مصنوعی جنسی کے پیچھے چھپی تکلیف با آسانی
دیکھ پارہے تھے۔۔۔۔
با با پلیز آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں ؟… میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ صرف سٹڈی کاسٹر لیس ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔ فائنل ائیر چل رہلاس
لیے۔۔۔۔
منہاج اب قدرے سنجیدگی سے بولا۔
اُس لڑکی سے کب ملوار ہے ہو ۔۔۔۔۔
شہاب درانی نے بات کا رخ اسی سائیڈ موڑا تھا۔۔۔ جہاں وہ لے جانا چاہتے
جب نوالہ منہ کی جانب لے جاتا منہاج کا ہاتھ ساکت ہوا تھا۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔ بہت غلط راستے پر چل نکلا تھا میں ۔۔۔۔ مگر اللہ کا شکر ہے وقت رہتےسنبھل گیا میں بابا مجھے یونی کے لیے لیٹ ہو رہا شام میں ملاقات ہوتی ہے۔
منہاج سرد تاثرات کے ساتھ جواب دیتا وہاں سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@
حاعفہ نے اپنی اندرونی گھبراہٹ پر قابو پاتے سامنے کھڑی بڑی سی عمارت کے اندر قدم رکھا تھا ۔۔۔۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔ سب
اپنے اپنے کاموں میں مصروف آجارہے تھے۔۔۔کسی کو دوسرے کا ہوش
نہیں تھا۔۔۔
حائفہ کا بچپن سے لے کر اب تک کا وقت کو ٹھے پر ہی گزرا تھا۔۔۔۔ اگر وہ وہاں سے نکلی تھی تو صرف پڑھائی کے لیے۔۔۔ اس کے علاوہ نہ کہیں گئی تھی۔۔۔ نہ ایسی جگہوں پر لوگوں سے ڈیل کر نا اُسے آتا تھا۔۔۔۔ یہ سب
اُس کے لیے نیا تھا۔۔۔۔
مگر اس کی گھبراہٹ یہ بھیڑنہیں بلکہ آژمیر
میران سے سامنا تھا۔۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائی دوریسیپشن کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ اس نے خود کو سیاہ شال میں لپیٹ رکھا تھا۔۔۔ جس سے صرف اُس کا سُندر مکھڑاہی جھانک رہا تھا۔۔۔۔سیاہ رنگ میں اُس کی دودھیار نگت مزید دھمک رہی تھی۔۔۔۔ بنا میک اپ کے اُس کا حُسن مزید نکھر کر سامنے آتا تھا۔۔۔۔۔
ریسیپشن پر کھڑی لڑکی جو پہلے تو اس کے حلیے کی وجہ سے اُسے عجیب نظروں سے گھورتی رہی تھی۔۔۔۔اُس کے نام بتانے پر اُسے آژ میر کے آفس کی
سمت جانے کا اشارہ کر دیا تھا۔۔۔۔
شاید آژ میر اسے پہلے ہی آگاہ کر چکا تھا۔۔۔۔
اس لڑکی نے آژ میر کا آفس اوپر والے پورشن پر بتایا تھا۔۔۔۔ جہاں جانے کے لیے سب لوگ الیکٹرک سٹئیر ز کا استعمال کر رہے تھے۔۔۔۔ حائفہ نے آج تک سٹیئر ز کا یوز نہیں کیا تھا۔۔۔۔ اس نے باقی سب کو دیکھتے جھجھکتے ہوئے پیر اُس پر رکھ دیا تھا۔۔۔ وہ ہولے سے لڑکھڑائی تھی مگر سائیڈ پر بنی سپورٹ کا سہارا لیتے اس نے خود کو گرنے سے محفوظ ر کھا تھا۔۔۔۔ کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں میں۔۔۔۔
حاعفہ کو خجالت سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اگر اسے یہاں آژ میر میران کے ساتھ کام کر نا پڑا تو وہ یہاں سروائیو کیسے کرے گی۔۔۔۔
اپنے خیالوں میں کھوئے وہ بھول گئی تھی کہ اُسے ان سٹیئر ز سے اُترنا بھی ہے۔۔۔ جب اچانک او پر پہنچ جانے کا احساس ہوتے وہ ہ بوکھلا گئی تھی۔۔۔ خوف کے عالم میں پیر پھنس جانے کے ڈر سے اس نے فرش پر پیر جمانے چاہے تھے ، مگر وہ بری طرح لڑکھڑا گئی تھی۔۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ کھڑے قد سے پیچھے جا گرتی کسی نے اسے گرنے سے بچانے کے لیے اس کی کلائی تھام کر اپنے جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے حاعفہ کسی کی مضبوط بانہوں کے حصار میں تھی۔۔۔۔ وہ اس وقت اس قدر خوف کے زیر اثر تھی۔۔۔۔ کہ کچھ لمحے اس کا دماغ کچھ سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی اپنے گرد کسی کی بانہوں کا حصار محسوس ہوا وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں اُس سے سے جدا ہوئی تھی۔۔۔۔ بنا شکل دیکھے وہ اپنی
سانسوں میں اترتی مہک سے ہی پہچان گئی تھی کہ مقابل شخص کون
ہے۔۔۔۔
آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔
آژمیر اس کا زرد پڑ تا چہرا دیکھ فکر مندی سے بولا تھا۔۔۔ وہ اس کے خوف کی
وجہ سمجھ گیا تھا۔
حائفہ سر اثبات میں بلاتی واپس جھکا گئی تھی۔۔۔
آئیں میرے ساتھ ۔۔۔۔۔
آژ میر اسے نرمی سے اپنے ساتھ آنے کا کہتا اپنے آفس کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ وہ اس وقت آفس کا وزٹ کرنے نکلا ہوا تھا۔۔۔ جب اُس کی نظر حائفہ پر پڑی تھی۔۔۔ وہ اُسی کی جانب آرہا تھا جب اُسے نیچے گرتا دیکھ وہ خود کو اُسے تھامنے سے نہیں روک پایا تھا ۔۔۔۔
حائفہ اس کی چوڑی پشت کو گھورتی اس کے پیچھے چل دی تھی۔ جب آژ میر نے جدید آرائش سے بجے ایک شاندار آفس میں قدم رکھا تھا۔۔۔۔ حاعفہ تو اس کی بناوٹ دیکھ کر ہی پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی۔۔۔۔ آژ میر بڑے سے شیشے کے ٹیبل کے پرے رکھی چیئر پر براجمان ہوتے اُسے اپنے سامنے بیٹھنے
کا اشارہ کر گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ خاموشی سے کرسی پر ٹک گئی تھی۔ اور اپنے ہاتھ میں تھامی فائل اُس کی جانب بڑھادی تھی۔۔۔۔ جہاں کسی بھی چیز میں اس کا ایکسپیرینس نل
تھا۔۔۔۔ حائفہ کو یہی لگا تھا کہ وہ اُسے ابھی ہی وہاں سے واپس لٹا دے گا۔۔۔اتنے بڑے آفس میں ، اتنے پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان بھلا اُس کی جگہ کہا ہو سکتی تھی۔۔۔۔ آژمیر میر ان اُس پر ترس کھا کر اسے اپنے آفس میں باورچی کی جاب ہی دینے والا تھا شاید۔۔۔۔
کیا آپ میرے آفس میں کام کرنا چاہیں گی ؟ آپ کو یہاں مکمل عزت اور تحفظ ملے گا۔ آپ کو میری سیکریٹری کے طور پر جاب کرنی ہو گی۔اگر آپ اس میں کمفر ٹیبل ہیں تو ۔۔۔۔۔
آژمیر انگلیوں میں پین گھماتا اُس سے مخاطب ہو ا تھا۔۔۔۔ حاعفہ نے حیرت بھری نگاہیں اُٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ مگر اُس کی نگاہیں خود پر مرکوز
دیکھ۔۔۔واپس سر جھکا گئی تھی۔۔۔۔
اُس کے ہاتھوں پر ہمیشہ کی طرح آژمیر کی موجودگی میں لرزہ طاری ہو چکا تھا۔۔۔۔ اُس نے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیسے اُن کی کپکپاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔
سر میرے لیے یہ جاب بھی بہت بڑی ہے۔۔۔۔ پچھلی سے تو کہیں گنا بہتر ۔۔۔۔ آپ میری اتنی مدد کر رہے ہیں۔۔۔ میں اس کے لیے آپ کی ہمیشہ مشکور رہوں گی۔۔۔
حائفہ چہرے پر بشاشت طاری کیے ہولے سے مسکرا کر اُس سے مخاطب
ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کے مسکرانے پر اُس کی دونوں گالوں پر ابھرنے والے گڑھے اتنا دلفریب منظر پیش کر رہے تھے کہ آژ میر کو بے اختیار اس کے چہرے سے نظریں چرانی پڑی تھیں۔۔۔
او کے آپ کل سے جوائن کر سکتی ہیں۔۔۔ ظفر باہر موجود ہے وہ آپ کو جاب کے حوالے سے باقی ساری ڈیٹیلز سمجھا دیں گے۔۔۔۔
آژ میر نے لیپ ٹاپ اپنے سامنے رکھتے اُسے جانے کا بول دیا تھا۔ حائفہ کے فائل اُٹھاتے ہاتھوں کی لرزش آژ میر کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکی تھی۔۔۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر اپنی جھلک دیکھاتی معدوم ہوئی تھی۔۔۔
وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر یہ لڑکی اُس سے اتنا ڈرتی کیوں تھی۔۔۔۔ حلانکہ وہ تو اپنے مزاج کے برخلاف ہر ملاقات میں اُس سے انتہائی نرمی سے پیش آتا تھا۔۔۔ جو کہ اُس کے مزاج کا خاصہ بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔ مگر حائفہ کا دھیما مزاج اُس کی نرم پر سوز آواز ۔۔۔۔ ہمیشہ نگاہیں جھکا کر بات کرنا۔۔۔۔آژ میر میر ان کی دلچسپی اپنی جانب بڑھار ہا تھا۔۔۔۔اور سب سے زیادہ جس چیز نے آژ میر کو زیادہ افیکٹ کیا تھا۔۔۔۔ وہ تھا اس کا خود کو ڈھکے رکھنا ۔۔۔۔ اسی لیے اُس دن اُسے بے پر دو دیکھ وہ خود پر ضبط نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔اور پھر اسے بنا سوچے سمجھے اپنے آفس میں جاب دے گیا تھا۔۔۔
” تھینکیو سوچ سر۔۔۔۔”
حاعفہ اُس کا شکریہ ادا کرتی اُٹھی تھی۔۔۔ اور بے دھیانی میں کرسی کی بیک سے اُلجھا اپنی شال کا پلو نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔۔ وہ ایک قدم ہی آگے بڑھی
تھی۔۔۔ جب اُس کی شال میں کھنچاؤ پیدا ہوا تھا۔۔۔اور اُس کے سر سے شال پھسل کر شانوں پر ڈھلک گئی تھی۔۔۔۔
اُس کے منہ سے نکلی ہلکی سے “ا و ” پر آژ میر نے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ مگر اس کی سیاہ گھنی حسین زلفوں پر نظر پڑتے ہی آژ میرکی نگاہیں بے خودی میں ان گہری دلفریب گھٹاؤں پر ساکت ہوئی تھیں۔۔۔
یہ لڑ کی سرا پا قیامت تھی۔۔۔ آژ میرگہری سانس بھرتا نظریں فور آپھیر گیا
مگر وہ بھی آژ میر کے لیے کسی آزمائش سے کم ثابت نہیں ہورہی تھی۔۔۔ ابھی تک اُسی پوزیشن میں کھڑی وہ پلو نکالنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔ جو
نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔
آژ میر زیادہ دیر خود کو اس سب سے اجنبی نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔ وہ اپنی جگہ
سے اُٹھا تھا۔۔۔
اُسے اُٹھتا دیکھ حائفہ کا دل زور سے دھڑ کا تھا۔۔۔ وہ اتنی دیر سے کوشش کے باوجود اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کی وجہ سے پلو نکال ہی نہیں پارہی
تھی۔۔
مگر اب آژ میر کو اپنے قریب آتا دیکھ اُس نے ہاتھوں کو مٹھیوں کی صورت بھینچ لیا تھا۔۔۔۔ آژ میر نے تو اب تک اُس کے سامنے شرافت کا مظاہرہ ہی
کیا تھا۔۔۔ پھر اب وہ کیوں قریب آرہا تھا۔۔۔۔
لیکن آژ میر کے اگلے عمل نے حائفہ کے شکوک و شبہات کا جواب دے دیا تھا۔۔۔ وہ اُس کے قریب اُس کی مدد کرنے آیا تھا۔۔۔ چیئر کے کیل میں
پھنسی اُس کی شال آزاد کرواتے ہوئے بھی وہ اُس سے کافی فاصلے پر تھا۔۔ حاعفہ نے پلکوں کی بھاری باڑ اٹھاتے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
اپنے پورے ہوش و حواس میں پہلی بار وہ اسے اپنے قریب دیکھ رہی تھی۔۔ آژ میر کے وجود سے اٹھتی مسحور کن خوشبو سے جکڑنے لگی تھی۔۔۔۔
سنبھل کر ۔۔۔۔
آثر میر اُس کا پلو آزاد کر وا ناسیدھا ہوا تھا۔۔۔ اُس کے مختصر ادا کیے الفاظ کا
اصل مطلب حاعفہ با آسانی سمجھ پائی تھی۔۔۔۔
” سوری سر۔۔۔۔”
اُس کے سر دو سپاٹ انداز پر حائفہ اُس سے جلدی سے معافی مانگتے وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔اس ساحر کے پاس زیادہ دیر کھڑے ہو ناحاعفہ کو خطرے
سے خالی نہیں لگا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہاج واٹس ہیپینگ و دیو ۔۔۔۔ تم پچھلے دو دن سے نہ ہی یونی آرہے ہو
” اور نہ ہی میری کالز پک کر رہے ہو۔۔۔۔
فجر منہاج کو آج فائنلی آتاد یکھ خفگی سے گویا ہوئی تھی۔۔۔
تو اس کا یہی مطلب بنتانا کہ میں بزی ہوں۔۔۔۔ تم کالز کر کے اپنی انرجی کیوں ویسٹ کرتی رہی ہو۔۔۔۔
منہاج فجر کا جواب دیتا اپنے دوستوں کے بیچ آن بیٹھا تھا۔۔۔۔ فجر ، طلحہ ، حارث اور ثنا اس کے بچپن کے دوست تھے۔۔۔۔ ہمیشہ ہر جگہ اکٹھے رہے تھے۔۔۔ میڈیکل کی فیلڈ بھی تینوں نے ایک ساتھ جوائن کی تھی۔۔۔۔ وہ سب منہاج کی ماورا کے لیے پسندیدگی سے واقف تھے ۔۔۔۔ مگر منہاج کے اچانک اُس سے دور ہو جانا۔۔۔ پھر ماور اکالونی سے غائب رہنا اور اُس
کے اُس کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی نہیں یونی کے باقی سٹوڈنٹس سمیت اُن سب کے لیے بھی حیران کن تھا۔۔۔
مگر منہاج کا ان دنوں موڈ اتنا خراب رہتا تھا کہ اُن میں سے کوئی کچھ پوچھ ہی
نہیں پایا تھا۔۔۔
” منہاج تم جانتے ہو یونی میں آج کل کیا چل رہا ہے ؟ اب کی بار ثنا کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی۔۔۔۔
… کیا چل رہا ہے ؟”
منہاج لاپر واہ انداز میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بولا۔
سر وقاص اور آصف ہاتھ دھو کر ماور انور کے پیچھے پڑے ہیں۔
آئی تھنک وہ ان کا شکار بھی رہی ہے۔۔۔۔اگر اپنی
آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھ لو۔۔۔۔ سامنے کھڑے ہیں۔۔۔۔
ثنا کے بجائے طلحہ نے تفصیل سے جواب دیتے اس کی توجہ ماورا کی جانب
دلوائی تھی۔۔۔۔
منہاج نے فورا گھوم کر اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں واقعی ماور اسر و قاص اور آصف کے ساتھ ہی کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
اُن دونوں کی رپوٹیش پوری یونی میں بہت خراب تھی۔۔۔۔ جو لڑکیاں ان کے قریب نظر آتی تھیں۔۔۔۔ اگلے چند ہفتوں میں وہ لڑکیاں یونی سے لاپتہ ہو جاتی تھیں۔۔۔۔ ان دونوں کے خلاف بہت سے کیسز چلے تھے۔۔۔ انہیں یونی سے نکالا بھی گیا تھا۔۔۔ مگر ہر طرح کی انویسٹی گیشن کے بعد بھی ان کے خلاف ہوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل پایا تھا۔۔۔۔ کچھ وقت کیس چلنے کے بعد انہیں باعزت طریقے سے اس معاملے سے بری
کر دیا گیا تھا۔لڑکیاں غائب ہونے کا سلسلہ وقفے وقفے سے ابھی بھی جاری تھا
اُن کی نظر کافی ٹائم سے ماور اپر تھی۔۔۔ مگر اُس کے منہاج کے ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کچھ نہیں کر پائے تھے۔۔۔ماورا جیسی حسین چڑیا کو قابو کرنا ان کی پہلی ترجیح تھی۔۔ یہ سنہری موقع وہ جانے دینا نہیں
چاہتے تھے۔۔۔۔
ماورا کو اُن کے ساتھ کھڑا دیکھ منہاج اندر تک جل اُٹھا تھا۔۔ چاہے وہ ماورا سے جتنی بھی نفرت کا اظہار کرتا مگر اُسے یوں کسی اور کا شکار بنتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ بنا کسی کا لحاظ کیے وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُن کی سمت بڑھ گیا تھا۔۔ طلحہ وغیرہ نے روکنے کی پوری کوشش کی تھی مگر وہ ان سنی کرتا آگے بڑھ
گیا تھا۔۔۔
جی سر میں یہ ورک شاپس ضرور اٹینڈ کروں گی۔۔۔ ماورا اُن کے ہاتھوں سے کوئی لیٹر تھامتی خوشدلی سے بولی تھی۔۔۔ جب منہاج نے ان کے سر پر پہنچتے اور اسے وہ لیٹر چھین کر کئی ٹکڑوں میں بانٹ کر واپس اس کی جانب اچھال دیا تھا۔۔۔۔ اس کا یہ عمل اتنا غیر متوقع اور پھرتی لیے ہوئے تھا کہ ماور اسمیت وہ دونوں بھی اُسے ایسا کرنے سے روک
نہیں پائے تھے ۔۔۔۔
” یہ کیا بد تمیزی ہے منہاج؟؟”
سر وقاص اُسے وہاں دیکھ آگ بھگو لا ہوئے تھے۔۔۔ اُنہیں اپنی دودن کی محنت رائیگاں ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سونے کی چڑیا اپنے ہاتھوں سے نکلتی معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔ماور ابھی منہاج کی آنکھوں سے نکلتے غصے کے شعلے
دیکھ اپنی جگہ سہم سی گئی تھی۔۔۔۔
ابھی تو بہت تمیز سے آیا ہوں۔۔۔ اِس لڑکی سے دور رہو تم دونوں۔۔۔۔ ورنہ تمیز اور لحاظ تو بھولوں گا ہی سہی۔۔۔ بلکہ تم دونوں کبھی
اس جگہ بھٹک بھی نہیں پاؤ گے ۔۔۔۔۔ اپنی سلامتی چاہتے ہو تو اس سے دور
“ر ہو۔۔۔۔۔
منہاج اُنہیں برفیلے لہجے میں اچھے سے وارن کرتا ماورا کا ہاتھ تھامے وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔۔ ماور اس سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی ساتھ
کھینچی چلی جارہی تھی۔۔۔۔
منہاج درانی چھوڑ و میر اہاتھ ۔۔۔ سب لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔ میں تمہاری کوئی زر خرید غلام نہیں ہوں جو تم میرے ساتھ یہ سب کر رہے
ہو۔
ماور ا کا صبر جواب دے گیا تھا ۔۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ پر اپنے ناخن گاڑھتی غصے سے چلائی تھی۔۔۔ مگر منہاج کے سر پر جوں تک نہ رینگی تھی۔۔۔ وہ اسی طرح اسے اپنے پارکنگ تک آیا تھا۔۔۔
گاڑی میں
بیٹھو
منہاج نے گاڑی کا دروازہ ان لاک کرتے اُسے اندر بیٹھنے کا کہا تھا۔۔۔۔ اُس کا یہ دھونس بھرا اند از مادرا کو مزید پتنگے لگا گیا تھا۔۔۔۔
کیوں میں کیوں بیٹھوں تمہاری گاڑی میں ؟
ماورا اُس کا ہاتھ اپنے ناخنوں سے اچھی طرح زخمی کر چکی تھی۔۔۔ اور اب اُس کے مقابل کھڑی اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی۔۔۔۔
کیونکہ میں تمہیں تمہاری اوقات سے بڑھ کر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔۔۔۔ بہت شوق ہے نا تمہیں مردوں کے بیچ رہنے کا تو وہ مرد میں ہی کیوں نہ سہی ۔۔۔۔۔ میں تمہارے اُس کرامت خان کو تمہاری منہ مانگی قیمت ادا کر چکاہوں۔۔۔۔اب تمہیں میرے ساتھ چلنا ہی ہو گا۔۔۔۔ تم انکار نہیں کر سکتی۔۔۔
منہاج کو ماور اپر بہت غصہ آرہا تھا کہ وہ اُن کے بارے میں سب جانتے ہوئے بھی، ان گھٹیالوگوں کے پاس کھڑی ہی کیوں تھی۔۔۔ وہ جانتے بوجھتے خود کو خطرے میں جھونک رہی تھی۔۔۔ جس کی سزا تو بنتی ہی
تھی۔۔۔۔
منہاج چہرا اس کے قریب کرتا اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں جھانکتا اُسے لمحہ بھر کو لڑ کھڑانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔ اُس نے نفی میں سر ہلاتے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
تم جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔۔ کرامت ایسا کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔
کرامت پیسوں کی خاطر کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔ مگر ماورا یہ جانتی تھی کہ حائفہ نے اس کے ہاتھ باندھ رکھے تھے اس معاملے میں۔۔۔۔ وہ چاہ کر بھی
اُس کی قیمت نہیں لگا سکتا تھا۔۔۔۔
اس میں اتنی حیرانی کی کیا بات ہے۔۔۔۔ تم نے خود ہی تو کہا تھا۔۔۔۔ کہ
جو تمہاری سب
سے زیادہ قیمت لگاتا ہے تم اس کی ہو جاتی ہو۔۔۔۔ تو پھر آج
پیسوں نے تمہیں میری جھولی میں پھینکا ہے۔۔۔۔
دوبارہ گاڑی میں بیٹھنے کا
منہاج نے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ مگر ماور اوہاں سے
ہٹنے کی کوشش کرتی صاف انکاری تھی۔۔۔۔
” تم آرام سے نہیں مانو گی ۔۔۔ “
منہاج ہونٹ بھینچے کچھ ہل کا ویٹ کر تار ہا تھا۔۔۔ مگر اُسے
کچھ پل
ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ آگے بڑھ کر اُسے بانہوں میں اُٹھا کر گاڑی کے اندر بیٹھا گیا تھا۔۔۔۔ماروااسکتے کی کیفیت میں اس کی یہ حرکت دیکھے گئی
تھی۔۔۔۔ جواب خود فرنٹ سیٹ پر آن بیٹھا تھا۔۔۔۔ماورا نے دروازہ کھولنا چاہا تھا مگر وہ پہلے ہی لاک کر چکا تھا۔۔۔
ماورا کو ایکدم منہاج سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔۔ جو ہونٹوں پر سیٹی کی کوئی شوخ سی دھن بجاتا نگاہیں سامنے روڈ پر مرکوز کیے ڈرائیونگ میں
تھا۔۔
مصروف تھا۔۔۔۔ ماورااتو اسی چیز میں الجھی ہوئی تھی کہ آخر کر امت اس کا سودا کیسے کر سکتا
تھا ۔۔۔۔ لیکن وہیں اس کا لالچی شخص سے کسی بھی بات کی امید کی جاسکتی
تھی۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی ماوراکا پور اوجو د لر ز اٹھا تھا۔۔۔۔اُس کا نازک وجود منہاج درانی کا مقابلہ کر پانے سے قاصر تھا۔۔۔۔

share this story with your friends on Facebook


Updated: March 23, 2025 — 6:09 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *