Haifa and Zanisha Novel Part 6 – New Urdu Romantic Novel 2025 | Read Online & PDF Download


Romantic Novel 2025 The Haifa and Zanisha series continues to captivate Urdu novel lovers with its intense emotions, gripping suspense, and unforgettable love story. The 6th part brings more drama, new twists, and heart-touching moments that will keep readers hooked till the very end.

If you enjoy romantic Urdu novels filled with suspense and emotional storytelling, then this latest Part 6 is a must-read!

Romantic Novel 2025

New Urdu romantic novel 2025

Read Here Haifa and Zanisha Novel Part 5 – Latest Urdu Romantic Novel 2025

زنیشہ نے ابھی ابھی آثر میر کی گاڑی تیزی سے پورچ میں آتے دیکھی تھی۔۔۔ گھر کی بڑی خواتین اور مرد حضرات بھی وہاں جمع تھے۔۔۔۔ وہ ابھی سو کر اٹھی تھی۔۔۔ اس لیے اسے اندر چلتے معاملے کی کچھ خبر نہیں
تھی۔۔۔۔
باہر بھی سب لڑکیوں کے پریشانی زدہ چہرے دیکھ وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی
جب ملک زوہان میر ان پیلس میں آئے تو بھلا خیریت کیسے ہو سکتی
ہے۔۔۔
ثمرہ بھا بھی تشویش زدہ لہجے میں بولی تھیں۔۔۔ جبکہ اُن کی بات سن کر ز نیشہ اپنی جگہ سے ہل گئی تھی۔۔۔۔
” کیا ؟؟؟ وہ کیوں آئے ہیں یہاں۔۔۔”
زنیشہ کے منہ سے چیخ کی صورت یہ الفاظ ادا ہوئے تھے۔۔
“تمہارا رشتہ لے کر۔۔۔۔۔”
فریحہ نے اُس کے قریب آتے اگلا دھما کا کیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ کو اپنا دماغ گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔اس شخص کو فساد پھیلانے کے علاوہ زندگی میں اور کوئی کام نہیں تھا کیا۔۔۔۔ اُس نے تو اُس دن اُس کی کہی بات کو سیر یس ہی
نہیں لیا تھا۔۔۔
لالہ اور باقی سب تو بہت غصے میں ہونگے ۔
زنیشہ کو فکر لاحق ہوئی تھی۔۔۔ اُسے روہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا کیونکہ زوہان اُسی کی وجہ سے اُس کے سب گھر والوں کو بلیک میل کرتا تھا۔۔۔ نفیسہ خالہ بھی ساتھ آئی ہوئی ہیں زوہان کے۔۔۔۔اس لیے ابھی معاملہ تھوڑا کنٹرول میں ہے۔۔۔۔ تم جانتی ہو وہ ہی واحد ہستی ہیں جن کا لحاظ آژ میر
لالہ بھی کرتے ہیں اور ملک زوہان بھی۔۔۔۔
ثمرہ نے اُسے اب تک اندر کی فضا پر امن ہونے کی اصل وجہ بتائی تھی۔ جسے سن کر اتنی پریشانی میں بھی زنیشہ کے ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ بکھر گئی
تھی۔۔۔
نفیسہ آنی آئی ہیں اور آپ مجھے اب بتارہی ہیں۔۔۔ مجھے ملنا ہے اُن
سے۔۔
ز نیشہ ہر بات بھلاتی ایک دم بچوں کی طرح ایکسائیٹڈ ہوتے ڈرائنگ روم کی
جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
ز نیشہ پاگل ہو گئی ہو۔۔۔۔ اندر ملک زوہان بھی بیٹھا ہے۔۔۔ تم اس کے سامنے کیسے جا سکتی ہو۔۔۔۔ آژمیر لالہ بہت غصہ کریں گے۔۔۔۔
فریحہ نے اس کی کلائی تھام کر اسے روکنا چاہا تھا۔۔
پر مجھے نفیسہ آنی سے ملنا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی موقع نہیں ملے گا اُن سے ملنے کا۔۔۔۔اتنے سالوں بعد آئے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی
میں ۔۔۔۔
ز نیشہ ان کی کوئی بھی بات سنے کو تیار ہی نہیں تھی۔۔۔۔ بنا اپنے حلیے پر دھیان دیئے وہ ڈرائنگ روم میں قدم رکھ چکی تھی ۔۔۔
@@@@@@@@
ٹی پنک گھٹنوں سے نیچے آتے کلیوں والے سمپل سے فراک میں جس کے کناروں پر پنک کلر کی ہی نفیس سی موتیوں کی لیس لگائی گئی تھی، چوڑی دار مازو، گھنے بالوں کی ڈھیلی سی چٹیا کی گئی تھی، سونے کی وجہ سے جس میں سے
بالوں کی بہت سی لٹیں نکل کر اُس کے چہرے کے گرد پھیل گئی تھیں۔۔۔
ریشیمی دوپٹہ سلکی بالوں سے پھسل کر کندھوں پر لڑھکا ہوا تھا ۔۔۔۔ گلابی سوٹ میں اُس کا پورا چہر اگلا بیاں چھال کا تادیکھنے والوں کو اپنا اسیر کرنے کے
لیے کافی تھا آنا
وہ اندر داخل ہوتی بنا ارد گرد غور کرتی سیدھی نفیسہ بیگم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ اس کے چہرے پر چھلکتی انو کھی خوشی وہاں بیٹھے تمام افراد کی
نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکی تھی۔۔۔
نفیسہ بیگم بھی زنیشہ کو وہاں دیکھ بہت خوش ہوئی تھیں۔۔۔۔ اور اپنی جگہ سے اُٹھتے اُسے اپنی بانہوں کے حصار میں لیتے سینے میں بھینچ لیا تھا۔۔۔
نفیسہ بیگم کے ساتھ ہی صوفے پر براجمان زوہان اور سامنے والے صوفے پر بیٹھے آژ میر دونوں نے ہی بے اختیار غصے سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔ زنیشہ کاس حلے میں سب کر سامنے آنا انہیں بہت ناگوار گزرا تھا۔۔۔۔ بہت غور سے اُن دونوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتیں شمسہ بیگم سے اُن کا یہ عمل پوشیدہ نہیں رہ پایا تھا۔۔۔۔ وہ اپنے ہونٹوں پر امڈ آتی بے ساختہ مسکراہٹ روک نہیں پائی تھیں۔۔۔۔ یہ دونوں جو ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے بیٹھے تھے ۔۔۔۔ ان کی بہت سی باتیں اور عادتیں ایک جیسی تھیں۔۔۔ جس بات کو جانتے ہوئے بھی وہ
بہت آسانی سے نظر انداز کیے ہوئے تھے۔اُن دونوں کے لیے زنمیشہ بہت اہم
دونوں ہی اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔۔
مگر ہمیشہ اُن کی دشمنی میں سب سے زیادہ تکلیف ۔ زنیشہ نے ہی برداشت کی تھی۔۔۔ وہی سب سے زیادہ پستی آئی تھی۔۔۔۔
شمسہ بیگم جانتی تھیں کہ اس دشمنی کو ختم بھی زنیشہ ہی کر سکتی تھی۔۔۔ مگر وہ اپنے خاندان والوں کی مخالفت مول لے کر ز نیشہ کا رشتہ زوہان سے نہیں
کرواسکتی تھیں۔۔۔۔
کیسا ہے میرا بچہ ؟
اُسے خود سے علیحدہ کرتے اُس کی پیشانی پر کب رکھتے نفیسہ بیگم محبت سے
چور لہجے میں بولی تھیں۔۔۔۔
” میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔ آپ کیسی ہیں؟”
زنیشہ اُن کے ہاتھ تھامے جو ا با اسی محبت سے گویا ہوئی تھی۔۔۔۔ جب اچانک اُس کی نظر نفیسہ بیگم کے دائیں جانب بیٹھے زوہان پر پڑی تھی۔۔۔ جو
اُس کا سب کزنز کے سامنے سر سے دوپٹہ اتر ہونے کی وجہ سے اُسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہاتھا۔۔۔ زنیشہ نے فورانگا ہیں اُس کی جانب سے پھیر لی تھیں۔۔۔ اُس کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا تھا۔۔۔ وہ سمجھ
نہیں پائی تھی کہ آخر زوہان اُسے اتنے غصے سے کیوں گھور رہا ہے۔۔۔۔
آخر اُس نے غلط کیا کیا تھا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ اُن دونوں میں سے کوئی زنیشہ کے کندھوں سے لڑھکتے دوپٹے کو دیکھ کر بھڑک اُٹھتا شمسہ بیگم خود ہی اٹھ کر آگے بڑھی تھیں۔۔۔ اور نامحسوس طریقے سے زنمیشہ کا دوپٹہ اُس کے سر پر ڈالتے وہ اسے پیچھے سے
اپنے حصار میں لیا تھا۔۔۔
ز نیشہ بیٹا آنی سے مل لیا اب آپ جاؤ۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے نہایت دھیمی آواز میں بولتے اسے وہاں سے جانے کا کہہ دیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ ابھی نفیسہ بیگم سے بات کرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ماں کی آنکھوں کا اشارہ سمجھتی بُرے بُرے منہ بناتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔ زنیشہ کے ہی رشتے کی بات چلنے کی وجہ سے وہاں جو پہلے ماحول بہت گرم تھا اُس کے اچانک آجانے کی وجہ سے اب کچھ حد تک بہتری آگئی تھی۔۔۔۔
زنیشہ آج بھی جس محبت سے نفیسہ بیگم سے ملی تھی وہ بات کسی کے لیے بھی
نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں تھی۔۔۔
یہ دیکھ جہاں ملک زوبان کی آنکھوں کی روشنی مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ وہیں آژ میر میر ان کے غصے کے مارے ہونٹ بھینچ گئے تھے۔۔۔
ز نیشہ تم کبھی تو دماغ استعمال کر لیا کرو۔۔۔ کچھ کرنے سے پہلے ۔۔۔۔” نفیسہ خالہ تم سے ملنے نہیں بلکہ ملک زوہان کے لیے تمہارا رشتہ مانگنے آئی ہیں۔۔۔ اور تم اُن سے ایسے گرمجوشی سے مل رہی ہو۔۔۔۔ جیسے دل و جان
” سے راضی ہو اس رشتے کے لیے۔۔۔۔
اس کے باہر آتے ہی فریحہ نے اسے آڑھے ہاتھوں لیا تھا۔۔۔۔ اندر میرے لالہ بھی بیٹھے ہیں۔۔۔ اور میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں وہ مجھے کبھی ملک زوبان کے حوالے نہیں کریں گے ۔۔۔۔ چاہے وہ جو بھی کر لے۔۔۔۔ نفیسہ آنی سے ملنے کا موقع اتنے ٹائم بعد ملا میں کیسے نہ جاتی اُن
سے ملنے۔
زنیشہ کو لمحے بھر کے لیے فریحہ کی بات نے تشویش میں مبتلا کیا تھا مگر اگلے ہی لمحے وہ پورے اعتماد سے بولتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔
@@@@@@@@
حائفہ دروازہ ہولے سے ناک کرتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آژ میر نے اس سے کوئی فائل مانگی تھی۔ وہی پروف ریڈ کر کے وہ ا سے
دینے آئی تھی۔۔۔
وہ ٹیبل کے قریب آن پہنچی تھی۔ مگر آژ میر کہنیاں ٹیبل پر جمائے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں بند کیے اُن پر ٹھوڑی رکھے بیٹھا بظاہر اس کی جانب دیکھتا
نجانے کس سوچ میں مبتلا تھا۔ حاعفہ سمجھ سکتی تھی کہ آثر میر کی نگاہیں اُسی پر جمی ہوئی ہیں۔۔۔ مگر وہ سوچ کچھ اور رہا ہے۔
اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے کسی خاص بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔۔۔ نجانے کیوں حائفہ کو وہ بے چین سالگا تھا۔۔۔ مگر اُس میں
ہمت نہیں تھی یہ پوچھنے کی اور نہ ہی حیثیت۔۔۔۔اس لیے وہ اُس کے بولنے کا انتظار کرتی چپ چاپ کرسی پر ٹک گئی تھی۔۔۔ اُس نے ہولے سے نگاہیں اُٹھا کر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا تھا۔۔۔ چوڑی کشادہ پیشانی پر لا تعداد شکنوں کا جال بچھا ہوا تھا۔۔ چہرے کے تاثرات میں مزید کھردرا پن اتر آیا
تھا۔ حائفہ یک ٹک اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ یہ شخص اس کے دل کو پہلی نظر
میں بھا گیا تھا۔ مگر اسے تفصیل سے دیکھنے کا موقع آج مل رہا تھا۔۔۔ حائفہ بھی بنا اُس کی محویت توڑے یک ٹک اسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ اگلے دس منٹ بعد بھی آژمیر ویسے ہی بیٹھارہا تھا۔۔۔۔ حائفہ کو اب عجیب سا محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔
سر آپ نے فائل منگوائی تھی۔۔ ۔
حاعفہ نے دھیمے لہجے میں اُسے مخاطب کیا تھا۔۔۔
اُس کے ایک دو بار مزید پکارنے پر کہیں جا کر آژمیر اپنی گہری سوچ سے باہر
آیا تھا۔۔۔
آئم سوری۔۔۔۔ آپ کب آئیں ؟؟؟” حائفہ کو آژمیر کا موڈ کافی خراب لگا تھا۔۔۔
سر پندرہ منٹ پہلے ۔۔۔۔
حائفہ چہرہ جھکائے شر مند و لہجے میں ایسے بولی تھی۔۔۔ جیسے اس میں اُسی کی
غلطی ہو ۔۔۔
تو پندرہ منٹ سے آپ ایسے ہی بیٹھی ہیں یہاں۔۔۔”
آژ میر نے اس کی بات پر دلچسپی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔ جو جب بھی اس کے سامنے ہوتی اس سے بات کر رہی ہوتی تواس کا سرا سے جھکا
ہوتا۔
“جی۔۔۔”
حائفہ شرمندگی سے چور لہجے میں بولی تھی۔۔ اُسے کیا بتاتی پچھلے پندرہ منٹ سے وہ اُسے ہی گھور رہی تھی۔۔۔ اور اُس کے نقوش اچھی طرح
از بر کر چکی
تھی۔۔۔
اُس نے جس طرح مجرمانہ انداز میں اس بات کا اقرار کیا تھا۔۔۔ آژ میر چاہنے کے باوجود اپنے ہونٹوں پر امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روک نہیں پایا تھا۔۔۔ حائفہ اُس کی گہری نگاہیں خود پر مرکوز کرتی پزل ہوئی تھی۔۔۔ آپ پلیز فائل دیکھا دیں مجھے جہاں مسٹیکس ہائی لائٹ کی ہیں آپ نے۔
آژ میر اس کے ماتھے پر جگمگاتے پسینے کے ننھے ننھے قطرے دیکھ فور اسنجیدہ ہوا تھا۔۔۔ اُس کے خلاف مزاج اتنے نرم انداز کے باوجود حائفہ کا اُس سے اتنا گھبرانا وہ اب تک سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔
جی سر ۔۔۔۔ میں نے تمام غلطیوں کی نشاندہی کر دی ہے۔۔۔۔حائفہ نے فائل اُس کی جانب بڑھائی تھی۔۔۔۔ ابھی آژ میر نے فائل تھامی ہی تھی جب اُس کے پرائیویٹ فون پر شمسہ بیگم کی کال آنے لگی تھی۔۔۔ آژ میر نے فائل اپنے سامنے رکھتے فوراکال اٹینڈ کی تھی۔۔۔
کچھ دیر وہ خاموشی سے دوسری جانب سے کہی جانے والی باتیں سنتار با تھا۔۔۔ حاعفہ نے کن اکھیوں سے اس کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔ جس کے چہرے کے تاثرات دوسری جانب سے بات سنتے مزید سخت ہوتے جارہے
اماں سائیں۔۔۔ معاف کیجیئے گا مگر آپ خاندان والے جتنے بھی لاجکس دیں۔۔۔۔ جو مرضی کریں۔۔۔ میں اپنی بہن کو کبھی زوہان کے حوالے نہیں کروں گا۔۔۔ زنیشہ کی شادی ہو گی تو ذیشان سے۔۔۔۔ آپ سب لوگ اچھی طرح از بر کر لیں۔۔۔۔
آژ میر کا لہجہ دو ٹوک تھا۔۔۔۔ جس میں ہر طرح کی نرمی مفقود تھی۔۔۔ کیونکہ یہاں بات اُس کی لاڈلی بہن کی تھی۔۔۔
مگر آژ میر یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ زوبان زندیشہ سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ بچپن کی منگ ہے وہ اُس کی۔۔۔۔ اور اُس کی جنونی طبیعت سے بھی ہم سب اچھے سے واقف ہیں۔۔۔ وہ خود کو اور زنیشہ کو ختم کر دے مگر
کسی اور کا ہونے نہیں دے گا۔۔۔ اُسی کی بلیک میلنگ میں آکر زنیشہ خود کشی کی کوشش بھی کر چکی ہے۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو کسی صورت کھو نہیں سکتی۔۔۔ زوہان کبھی بھی زمیشہ سے ہماری اس دشمنی کا بدلہ نہیں لے گا۔۔۔۔ اور وہاں نفیسہ بھی ہے۔۔۔۔ کیا پتا ہمارے اس قدم سے زوہان کے دل میں موجود نفرت کچھ حد تک کم ہو جائے۔۔۔۔
شمسہ بیگم آج پوری طرح زوہان کی وکیل بنی ہوئی تھیں۔۔۔ وہ ایک پاگل، گھٹیاد ماغ کا ایک کریکٹر لیس انسان ہے میں اسے کبھی بھی اپنی
اپنی بہن نہیں دے سکتا۔۔اور ہمارے خلاف اپنے دل میں نفرت اُس نے
خود بھری
نکالے گا بھی وہ خود ۔۔۔۔ میں اس کی شکل دیکھنے کا
روادار بھی نہیں ہوں۔۔۔اور آپ لوگ اُسے میرے سر پر بیٹھانا چاہتے
ہیں۔۔۔۔ زنیشہ سے شادی بھی وہ صرف مجھے بلیک میل کرنے کے لیے کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔ اگر محبت کرتا تو میری بہن کو حرام موت مرنے کی نوبت پر نہ پہنچاتا۔۔۔۔ آپ سب لوگ جس طرف جارہے ہیں۔۔۔۔ مجھے
ہمیشہ اس کے مخالف سمت ہی پائیں گے۔۔۔۔ زنیشہ اور زوہان کی منگنی میں توڑ چکا ہوں۔۔۔۔اب زوہان کا ز نیشہ سے کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں
ہے۔۔ آژمیر شدید غصے میں بول رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ حائفہ کو اس
وقت وہ ریسٹورنٹ
والے دن سے بھی زیادہ غصے میں لگا تھا۔۔۔۔ شدید غصے میں اُس کا چہر الال
اور کنپٹی کی رگیں باہر ابھر آتی تھیں۔۔۔۔
اس کے مضبوط ہاتھ کی گرفت موبائل فون پر مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔ اور اگر ز میشہ بھی زوبان سے شادی کرنا چاہتی ہوئی تب بھی تم ایسے کی
” مخالفت کرو گے۔۔۔
شمسہ بیگم نے بہت سوچ سمجھ کر یہ پتا پھینکا تھا۔ آژمیر کے لیے ہر چیز لمحہ بھر کے لیے ساکت ہوئی تھی۔۔
اس نے ایسا کہا آپ سے ۔۔۔۔
آژمیر نے تنے نقوش کے ساتھ بامشکل خود پر ضبط کرتے پوچھا تھا۔
اُس نے تو نہیں کہا مگر روز صبح اُس کے تکیے کے نیچے پڑی زوہان کی تصویر
اس کے دل کا حال بیان کرتی ہے مجھ سے۔۔۔۔
شمسہ بیگم نے بنا کچھ چھپائے اپنی بیٹی کی خوشی کی خاطر اس کا سچ بتادیا تھا۔۔۔
” کیا اب بھی اعتراض ہے تمہیں اس رشتے سے۔۔۔۔ ؟؟”
شمسہ بیگم کو آژمیر کا خاموش ہونا اس کی کمزوری محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ آپ بات کر لیں زنیشہ سے اگر وہ اس رشتے کے لیے رضامند ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ آپ سب لوگ جو مرضی کرنا چاہیں کریں۔۔۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھ لیں کہ جو شخص ملک زوہان سے رشتہ جوڑے گا اُسے پہلے مجھے سے تعلق توڑنا پڑے گا۔۔۔ چاہے وہ آپ ہوں، زنیشہ ہو یا خاندان کا کوئی بھی فرد۔۔۔۔ مجھے دھو کے باز لوگوں سے سخت نفرت ہے۔۔۔۔او رزوہان تو اپنے نام اس سے بھی بڑے گناہ لکھوا چکا ہے۔۔۔ اُسے کسی صورت تو نام بھی گناہ
” معافی نہیں مل سکتی۔۔۔۔
آژمیر شمسہ بیگم کا جواب سنے بغیر فون کاٹ گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اُس کی ایک ایک بات سنتی حائفہ تو اس کے آخری ادا کیسے الفاظ میں ہی اٹک گئی تھی۔ وہ بھی تو آژمیر میر ان کو دھوکا ہی دے رہی تھی۔ اُس کا پتا نہیں آگے چل کر
کیا انجام ہونے والا تھا۔
چلیں ہمیں سائٹ پر جانا ہے۔۔
کنسٹرکشن کا کچھ کام چیک کرنے۔۔۔
آژمیر حائفہ کی دی گئی فائل ٹیبل پر پٹختے خراب موڈ کے ساتھ بولتا اٹھ گیا تھا ۔ حائفہ اس کا اتنا خراب موڈ دیکھ کر اپنی جگہ سہم گئی تھی۔ کیونکہ اب آژمیر کے چہرے پر اس کے لیے مخصوص رہتی نرمی
اب مفقود تھی۔۔۔
وہ اتنی تیزی سے باہر نکلا تھا کہ حائفہ کو بھاگ کر ہی اُس کے قریب پہنچنا پڑا
تھا۔۔
@@@@@@@@@
منہاج کی گاڑی ایک ہوٹل کے سامنے رکی تھی۔۔۔ راستے میں وہ فون پر نجانے کس کس سے کیا کیا بات کرتا آیا تھا۔۔۔ماور اتواس کے تاثرات دیکھ کر ہی پریشان ہوتی رہی تھی۔۔۔ بظاہر خود کو نارمل دیکھانے کی کوشش کرتے اندر سے اُس کا دل ہول رہا تھا۔۔۔ نجانے یہ شخص اُسے کہاں لے آیا تھا۔ وہ منہاج کے غصے سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔۔۔ جو غصے میں کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔ دوسروں کی غلطی معاف کرنے میں وہ ہمیشہ کم ظرف
ہی رہا تھا۔۔۔
نکلو باہر ۔۔۔۔۔
اسے اسی طرح گاڑی میں جماد یکھ وہ اُس کی جانب کا دروازہ کھولتا اسے
نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔
نہیں آؤں گی میں باہر ۔۔۔۔ مجھے واپس یونی چھوڑ کر آؤ۔۔۔ ماور اڈھیٹ بنی بیٹھی رہی تھی۔۔۔ یہاں ارد گرد کافی آؤٹ کلاس لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔۔۔۔سامنے انٹرنس پر بھی اسلحہ اُٹھائے باور دی گارڈز
موجود تھے۔ ماورا کو پورا یقین تھا منہاج یہاں اس سے کوئی زبر دستی نہیں کر
سکتا تھا۔۔۔
مگر وہ منہاج درانی ہی کیا جو کسی کا لحاظ کر جائے۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہیں میری قربت اتنی پسند ہے۔۔۔۔ منہاج بنالوگوں کا خیال کیے اُسے بازو سے تھام کر اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔ماورا کی اپنی مزاحمت کی وجہ سے اُس کا سر زور دار طریقے سے گاڑی
سے کرایا
تھا۔۔۔۔
اوہ آئم سوری ۔
مادر اسے بھی پہلے منہاج نے اس کے سر پر ہاتھ رکھے ہولے سے سہلایا
تھا۔۔۔ماورا کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ منہاج بے اختیاری میں اُس کا سر سہلانے لگا تھا۔۔۔ مگر جیسے ہی ماورا نے اچھنبے سے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔ منہاج فور ہاتھ واپس کھینچ گیا تھا۔۔۔ماورا عجیب سی کیفیت کا شکار یک تک اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ جو شخص اس کی زرا سی تکلیف پر ایسے
ری ایکٹ کر رہا تھا۔۔۔ وہ بھلا اُسے کسی بڑی اذیت سے دو چار کیسے کر سکتا تھا۔۔۔ ماور اکا دل ایک دم مطمئن ہوا تھا۔۔۔۔
منہاج نگاہیں پھیر تے ایسے اجنبی بنا تھا جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے بہت بڑا جرم سرزد ہوا ہو اُس سے۔۔۔۔
اب کی بار اور بنا کوئی مزاحمت کیے خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگی تھی۔۔۔۔ ریسپشن پر آکر منہاج نے اپنے مطلوبہ روم کی کیز لی تھیں۔۔۔ ماورا کا دل لمحہ بھر کو خوفزدہ ہوا تھا مگر وہ منہاج درانی کو آج آزمانا چاہتی تھی۔۔۔۔ کہ کیا جس شخص سے اس نے محبت کی وہ اس قابل تھا بھی یا
نہیں۔۔۔۔
منہاج اُسے لیے ایک شاندار سے روم میں انٹر ہوا تھا۔۔۔ ماورا کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔۔ مگر وہ پھر بھی بہت مشکل سے خود کو کمپوز کیے ہوئے
تھی۔۔۔۔ک کیوں لائے ہو مجھے یہاں؟
ماورا نے آخر کار چپ توڑتے رخ موڑے فون پر مصروف منہاج سے پوچھ
ہی لیا تھا۔۔۔
بتا یا تو تھا۔۔۔۔۔ کس لیے لے کر جارہا ہوں تمہیں۔۔ ویسے بھی بند کمرے میں کسی غیر مرد کے ساتھ ایک طوائف زادی کی حقیقت کیا ہوتی ہے۔۔۔۔ مجھ سے زیادہ اچھی طرح تو تم بتا سکتی ہو۔۔۔ آخر کو تجربہ رکھتی ہو
اس کا۔۔۔۔
منہاج نے اپنا موبائل فون بیڈ پر اچھالتے اُس کی جانب پیش قدمی کی تھی۔۔۔ جبکہ اپنے بارے میں اُس کے اتنے گھٹیا الفاظ پر ماورا کی آنکھوں
سے آنسو رواں ہوئے تھے۔۔۔
” تم ایسا نہیں کر سکتے میرے ساتھ ۔۔۔۔ “
ماور اسر نفی میں ہلاتی اپنی جگہ پر جمی کھڑی رہی تھی ۔۔۔۔
کیوں نہیں کر سکتا ۔۔۔ آخر میں بھی تو ایک مرد ہوں ۔۔۔ جسے تم نے اپنی جھوٹی محبت کے جال
میں پھانسنے کی کوشش کی تھی۔۔۔
منہاج اُس کے مد مقابل آتا اُس کی بھیگی آنکھوں میں اپنی لال آنکھیں
گاڑھتے سفاکیت بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
کیونکہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔ محبت کرنے والے عزت کے
ا محافظ ہوتے ہیں لٹیرے نہیں۔۔
ماورا کا یقین ابھی بھی اس پر قائم تھا۔۔۔
” وہی محبت جس کی دھجیاں اُڑادیں تم نے۔۔۔۔”
منہاج کو اپنے لیے اس کی آنکھوں میں تیر تا یقین مزید آگ لگارہا تھا۔۔۔ ” میں نے جو غلطی کی تھی تم مجھے اس کی سزا دے چکے ہو۔
ماور انے اُسے اُس کی بے رحمی کا احساس دلانا چاہا تھا۔۔۔۔
میرے نزدیک وہ سزا کم تھی۔۔۔ تمہارے دھو کے کے بعد سے میرے” دل کا سکون چھن چکا ہے مجھ سے۔۔۔ کسی صورت قرار نہیں مل رہا مجھے۔۔۔ آج وہی دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تمہیں یہاں لایا
ہوں۔۔
منہاج نے بات کے اختتام پر اُس کی کمر میں باز و حمائل کرتے اُسے اپنے
نزد یک کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
ماورا پھٹی پھٹی نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھتی اس سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔۔
یہ شخص ایک بار پھر اس کے بھروسے کو چکنا چور کرنے والا تھا۔۔ جس لڑکی نے کوٹھے پر رہ کر اپنی عزت محفوظ ر کھی تھی۔۔۔ وہ آج اپنی محبت کے ہاتھوں لٹنے کے در پر تھی۔۔۔۔
” پلیز مت کر وایسا۔۔۔۔ میں مر جاؤں گی ۔۔۔۔
ماورا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہو چکی تھیں۔
تو ٹھیک ہے۔۔۔ پھر میری دوسری شرط ماننے کے لیے راضی ہو جاؤ۔۔۔۔اس چیز سے بچ جاؤ گی۔۔۔۔
منہاج نے اُسے جتنا خوفزدہ کرنا تھا کر لیا تھا۔۔۔۔اب وہ اُسے اپنے اصل
مقصد کی جانب لا یا تھا۔۔۔۔
اُس کی بات پر ماوراہمہ تن گوشہ ہوئی تھی۔۔۔
ساتھ والے روم میں نکاح خواں اور گواہان تیار بیٹھے ہیں۔۔۔۔ ابھی اور اسی وقت اپنے تمام جملہ حقوق میرے نام کر کے مجھ سے حلال رشتہ قائم کر لو۔۔۔۔ چوائس تمہارے پاس ہے حلال رشتہ یا حرام رشتہ جو بھی رکھنا
” چاہو مجھے منظور ہے۔۔۔۔
منہاج کی گرفت ڈھیلی پڑنے پر ماورا اس سے دور ہوئی تھی۔۔۔ اُس کے
الفاظ ماور اپر آتش فشاں بن کر پھٹے تھے۔۔۔ وہ اسے ایک دلدل سے نکلال
کر دوسری میں پھینکنا چاہتا تھا۔
اُسے حاعفہ کی نصیحتیں، کرامت کی دھمکیاں سب یاد تھیں۔۔۔ وہ حائفہ کے لیے زندگی مزید مشکل میں نہیں ڈال سکتی تھی۔۔۔ اور یہ بھی جانتی تھی کہ منہاج اُس سے یہ نکاح کس دلی خواہش کے تحت کر رہا تھا محبت میں آکر نہیں کر رہا تھا۔۔۔ بلکہ اپنے اندر لگی انتقام کی آگ بجھانے کے لیے کر رہا تھا۔۔۔۔ایک طوائف کو اپنے نکاح میں لینے کے لیے بہت حوصلہ چاہیئے تھا۔۔۔۔اور اگر
وقتی طور پر جذبات میں آکر منہاج یہ قدم اُٹھارہا تھا تو اسی طرح کس دن اُس
نے کہ نکاح ختم بھی کر دینا تھا۔۔۔۔
ماورا کے لیے زندگی کبھی بھی آسان نہیں رہی تھی۔۔۔ مگر اس وقت وہ اپنی زندگی کے عجیب دوہرائے پر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یعنی کہ منہاج درانی سے نکاح وہ آج پوری ہورہی تھی۔ مگر جس طرح ہو رہی تھی۔۔۔ماورا اُس سے بہتر مرنا
پسند کرتی تھی۔۔۔۔
اُس نے بے بسی سے منہاج کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ کہ شاید اس سنگدل کو اس پر رحم آجائے۔۔ مگر وہاں کسی قسم کی نرمی کا احساس موجود نہیں تھا۔۔۔ منہاج نے اُسے پانچ منٹ دیئے تھے سوچنے کے لیے۔۔۔ جس کے بعد ماورا بھیگے چہرے کے ساتھ اثبات میں سر ہلا گئی تھی۔۔
ماورا کا چہرا جھکا ہوا تھا جبکہ اُس کی رضامندی منہاج درانی کی آنکھوں میں واضح چمک بھر گئی تھی ۔۔۔۔ وہ اسے بلیک میل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔
@@@@@@@
زوہان میں آپ سے یہ بات پہلے بھی پوچھنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ٹائم نہیں
مل پایا۔ کیا آپ رشتہ محبت کی وجہ سے جوڑنا چاہتے ہیں
” یا کسی انتقام کی تکمیل کی خاطر ۔۔
نفیسہ بیگم زوہان کے قریب صوفے پر براجمان ہو تیں جانچتی نظروں سے
اُس کی جانب دیکھے گئی تھیں۔۔۔
” آپ کو کیا لگتا ہے ؟”
اپنے سامنے کھلے لیپ ٹاپ پر مصروف انداز میں کام کرتے وہ اُسی سنجیدگی کے ساتھ جوابا نہیں سے سوال کر گیا تھا۔۔۔۔
میرا دل کہتا ہے میر از وہان اپنی نفرت میں مر کر بھی زنیشہ کو استعمال نہیں کرے گا۔ مگر دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ ملک زوہان آژ میر میر ان کو تکلیف پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔۔ اور زنیشہ آژمیر کے جگر کا ٹکڑا ہے۔۔۔۔ آژمیر ر کو ہرانے یا توڑنے کی سب سے آسان کڑی
“ز نیشہ ہی ہے۔۔۔۔
نفیسہ بیگم نے صاف گوئی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔۔۔ اُن کی بات سنتے زوہان کے چہرے پر تلخی بھری مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔ میں بس اتنا ہی جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کا دل بالکل ٹھیک کہتا ہے۔۔۔اور رہی بات محبت کی تو ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ مجھے کوئی محبت وحبت نہیں ہے زنیشہ سے۔۔۔۔ وہ میری بچپن کی منگ ہے تو دلہن بھی اسے میری ہی
” بننا چاہیئے۔۔۔۔۔۔
زوہان نے نپے تلے الفاظ میں اُنہیں اُن کے سوالوں کے جواب دے دیئے
تھے۔
جبکہ اُس کے آخری جملے پر نفیسہ بیگم اپنی مسکراہٹ ضبط نہیں کر پائی
تھیں۔۔۔۔
” مجھے ایک اور بات بھی کنفیوز کر رہی۔۔۔۔”
نفیسہ بیگم نے اپنے لاڈلے کے وجیہہ چہرے کو نگاہوں کے فوکس میں لیے
کہا۔۔۔
“کونسی بات۔۔۔۔
زوبان اُسی طرح مصروف انداز میں بولا۔۔۔۔۔
ملک زوبان جو کسی سے نہیں ڈرتا ۔۔۔ اپنے دشمنوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے، جس کے آگے اس کے مخالفین زیادہ دیر تک نہیں پاتے۔۔۔ وہ بھلا محبت سے اتناڈر تاکیوں ہے ؟؟ محبت کے نام پر اُس کے چہرے کی
” ہوائیاں کیوں اڑ جاتی ہیں۔۔۔۔
نفیسہ بیگم کی بات پر زوہان کے متحرک ہاتھ پل بھل کے لیے رکے تھے۔۔۔ اُس نے نگاہیں گھما کر نفیسہ بیگم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جن کی مسکراہٹ اُس سے پوشیدہ نہیں رہ پائی تھی۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی مجھے کسی سے محبت ہے اور نہ ہی میں محبت نامی بلا سے ڈرتا ہوں۔۔۔۔ لگتا ہے مجھے اپنا باقی کا کام سٹڈی میں ہی جا کر کرنا
” ہو گا۔۔
زوبان اُن کی شرارت سمجھتا وہاں سے اٹھ گیا تھا۔۔۔ جبکہ نفیسہ بیگم اس کے یوں محبت کے نام پر کھسک جانے پر مسکرادی تھیں۔۔۔۔ انہیں شمسہ بیگم کے وہاں سے آتے وقت کہے الفاظ بالکل ٹھیک لگے تھے۔۔۔ زنیشہ ہی ان دونوں کے درمیانی فاصلے کم کر کے ان کی نفرت واپس محبت میں بدل سکتی تھی ۔۔۔۔

فری کیا ہر ٹائم یہ انڈین فضول ڈرامے دیکھتی رہتی ہو ۔۔۔ جب دیکھو یہ ناگن ہی چلتی رہتی ٹی وی پر ۔۔۔ بھلا نا گن بھی ہیروئن ہو سکتی ہے۔۔۔
پاگل لوگ۔۔۔۔
زنیشہ کا مزاج کافی چڑ چڑا سا ہو رہا تھا ۔۔
اِس لیے لاؤنج میں آکر فائقہ اور فریحہ کو پوری محویت سے پھر ناگن ڈرامے میں گم دیکھتی لتاڑنے کے ساتھ ساتھ اُن کے ہاتھ سے ریموٹ چھین گئی
زنیشہ چینل چینج مت کرنا۔۔۔ بہت مزے کا سین چل رہا ہے۔۔۔۔
فریحہ اسے باز رہنے کا کہتی پوری طرح ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی۔
مگر زنیشہ کی تو ویسے ہی سانپوں سے جان جاتی تھی۔۔۔ وہ اتنے خوفناک سین نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔اس لیے اس نے فوراہی چینل چینج کر دیا
تھا۔۔۔
زنیشہ ریموٹ واپس کرو۔۔۔۔ سین گزر جائے گا۔۔۔
وہ دونوں اُس پر جھپٹیں ریمورٹ چھیننے کی تگ و دو میں تھیں۔۔۔ جب اچانک کانوں پر پڑتی آواز نے انہیں سکرین پر چلتے مناظر کی جانب متوجہ کیا تھا۔۔۔ ایک دوسرے سے ہٹتے انہوں نے نظریں سکرین پر گھمائی۔۔
تھیں۔۔۔۔ جہاں دیکھائی جانے والی خبر زنیشہ کے چہرے سے ساراخون
نچوڑ گئی تھی۔۔۔
ملک کی نامور ہستی شمن خان ملک زوہان کی بانہوں میں جھولتی اُس کے انتہائی قریب ہونے کی کوشش کرتی پورے استحقاق سے دیکھنے والوں کو
زوہان سے اپنی نزدیکیوں کی ساری داستان سنارہی تھی۔
زنیشہ جو تھوڑی دیر پہلے فل مستی کے موڈ میں تھی۔۔۔اس وقت اس کا چہرا
لٹھے کی مانند سفید پڑ چکا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@
زوہان میٹنگ میں بزی تھا۔اور اس ک اپرسنل موبائل اسسٹنٹ کے پاس تھا۔۔۔ جس پر زنیشہ کی پانچ مس بیلز آچکی تھیں۔۔۔ مگر کامران
زوہان کو کال کے بارے میں آگاہ کر کے اس کی میٹنگ خراب نہیں کرنا
چاہتا تھا۔
کیونکہ زوہان کی جانب سے کی جانے والی ڈانٹ برداشت کرنا آسان نہیں
تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
ماور ااپنی سسکیوں کا گلا گھونٹتی جھکے ہوئے چہرے کے ساتھ بیٹھی سامنے پڑے نکاح نامے کو گھور رہی تھی۔۔۔۔ منہاج کی شاید کوئی ملازمہ تھی جو روم میں اُس کے ساتھ موجود تھی۔۔۔۔ابھی کچھ دیر مولوی صاحب اُس کے پاس نکاح نامہ لے کر آئے تھے۔
ماور ا اس وقت ایسا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ مگر اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔۔۔۔ اُس نے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے پین اُٹھاتے نکاح نامے پر سائن کر دیئے تھے۔۔۔ اُس نے اپنا آپ اُس شخص کے نام کر دیا تھا۔۔۔ جسے اُس نے دل و جان سے چاہا تھا۔۔۔۔ سچی محبت کی تھی اس سے۔۔۔۔ مگر منہاج درانی نے اس پر اعتبار نہیں کیا تھا۔۔۔ اور اس کے دل کو مزید تکلیف سے دوچار کر دیا۔۔

تھا۔۔۔ اب نجانے وہ اُسے آگے کیا سزا دینے والا تھا۔۔۔ آنے والے لمحوں
کاسوچتے ماورا کا خوف کے مارے بُرا حال تھا۔۔۔
نکاح ہوئے آدھا گھنٹا گزر چکا تھا۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ملازمہ بھی جاچکی تھی۔۔۔ مسلسل رونے اور ذہنی ٹینشن کی وجہ سے ماورا کے سر میں بہت درد ما ہو رہا تھا۔۔۔۔ اِس لیے وہ صوفے کے ہینڈ پر سر ٹکاتی آنکھیں موندے زرا ساریلکس انداز میں بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
رات کو بھی امپورٹنٹ اسائنمنٹ تیار کرتے وہ بہت دیر سے سوئی تھی۔۔۔ زراسا کمفرٹیبل ہونے کی وجہ سے وہ کب غنودگی میں چلی گئی اُسے پتا بھی
نہیں چلا تھا۔۔۔۔
سب لوگوں کو رخصت کرتے منہاج روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ جہاں وہ اُسے صوفے پر سکڑی سمٹی بیٹھی نظر آئی تھی۔۔۔
وہ دبے قدموں سے چلتا اُس کے قریب صوفے پر آن بیٹھا تھا۔۔ماورا کا آدھا چہرا اُس کے سامنے تھا۔۔۔ جہاں سے وہ اتنا تواند از ہ لگا چکا تھا کہ اُس کی نئی نویلی زوجہ محترمہ گہری نیند میں جاچکی ہیں اس وقت ۔۔۔۔۔۔ منہاج کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ ماورا کو اُس کی یہ بات سزا لگی بھی تھی یا کہیں یہ اُس کے لیے سکون کا باعث تھی۔۔۔ جس بے فکری سے وہ سورہی تھی۔۔۔ لگ تو یہی رہا تھا ۔۔۔۔
یہ خیال آتے ہی منہاج نے بنا ایک سیکنڈ کی دیر کیسے اُسے کلائی سے تھام کر اپنی جانب کھینچ کر اُسے پوری طرح اپنے حصار میں لیا تھا۔۔۔۔ ماورا جو کہ گہری نیند میں جاچکی تھی۔۔۔۔اس شدید جھٹکے پر چہرے پر خوفزد ہ تاثرات سجائے آنکھوں میں نا سمجھی بھرے انداز میں اُس کی جانب دیکھتی وہ لمحہ بھر کو منہاج درانی کو مسمرائز ساکر گئی تھی۔۔ پوری طرح سے واں ہرنی جیسی آنکھیں اُسے اپنا آپ بھولنے پر مجبور کرگئی تھیں۔ وہ بالکل منہاج کے سینے سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔ اپنی ٹھوڑی اُس کے سینے پر ٹکائے وہ آنکھوں
میں نیند کے خمار سے سُرخ ڈورے لیے اُسے یک ٹک دیکھے گئی تھی۔۔۔ اس کا زہن پوری طرح سے بیدار ہو چکا تھا۔۔۔ مگر وہ بنا مزاحمت کیے ایسے
ہی کھڑی رہی تھی۔۔۔
منہاج جو اُس پر اپنا غصہ اپنی نفرت ظاہر کرنا چاہتا تھا اچانک اُس کو نجانے کیا ہوا تھا کہ وہ جھک کر اس کی رونے کی وجہ سے سُرخ ہوئی دونوں آنکھوں پر
باری باری نرمی سے لب رکھ گیا تھا۔۔۔۔ جیسے اس کے تڑپتے، بھڑکتے دل کو لمحہ بھر کے لیے سکون مل گیا ہو۔۔۔ جبکہ اُس کی اس استحقاق بھر کی جسارت پر ماورا کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔۔۔ جسم کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا۔۔۔ وہ لرزتی گرتی پلکوں کی باڑ سنبھالتی اس سے دور ہوئی تھی۔۔۔
اُسے ابھی تھوڑی دیر پہلے کی اس شخص کی بے رحمی یاد آئی تھی۔۔۔۔ اگر منہاج درانی کو اُس سے محبت ہوتی تو وہ ایسا بالکل بھی نہ کرتا۔۔۔۔ اُسے یوں بلیک میل کر کے نکاح کبھی نہ کرتا۔۔۔۔ مگر وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے
اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچا چکا تھا۔۔۔۔ اب وہ حائفہ کے سامنے کس منہ سے جاتی۔۔۔۔ جس نے اس کی خوشی اور حفاظت کی خاطر خود کو ذلت کی دلدل میں جھونک رکھا تھا۔۔۔۔ اس بات کی خبر اگر کرامت کو ہو گئی تو وہ اب کی بار اسے حائفہ کے کہنے پر بھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ سوچتے اور ا جھرجھری لے کر رہ گئی تھی۔۔۔
تمہاری ضد اور انتقام اگر پورا ہو چکے ہو تو مجھے واپس میرے ہاسٹل چھوڑ
آؤ۔۔۔
وہ اپنی وحشت ناک سوچوں سے نکلتی اس کے قریب سے اٹھتی سردو سپاٹ تاثرات کے ساتھ بولی تھی۔۔۔ جبکہ اس کی زرا سی قربت پر دل اس بُری طرح سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پہلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔۔۔۔ ابھی صرف ضد پوری ہوئی ہے۔۔انتقام پورا کر ناتو رہتا ہے ابھی۔۔۔۔” اتنی جلدی بھی کیا ہے مجھ سے دور جانے کی۔۔۔۔اب تو پوری زندگی ان بانہوں کا حصار ہی تمہار اٹھکانا ہے۔۔۔۔ اگر ان کے علاوہ کہیں بھی جانے
کی کوشش کی تو تمہاری جان اپنے ان ہاتھوں سے لوں گا۔۔۔۔اچھے سے یاد
“رکھنا میری یہ بات۔۔۔۔
منہاج اس کے دور جانے سے پہلے ہی اس کی کلائی دبوچ کر واپس اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔ اور اس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔ وہ کسی بے جان گڑیا کی طرح منہاج کی گود میں آن سمائی تھی۔۔۔
اس کا دوپٹہ اس کے کندھوں سے نیچے پھسل گیا تھا۔۔۔۔ منہاج درانی تم مجھ سے مزید زبردستی نہیں کر سکتے۔۔۔ میں تمہیں اس بات کی اجازت بالکل بھی نہیں دوں گی۔۔۔۔۔
ماور ا اُس کے تیور دیکھ اُس کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں ٹکائے اُس سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔
ہاہاہاہاہا مزید کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔ ابھی میں نے کچھ کیا ہی کہاں ہے۔۔۔۔ اور تمہیں کیا لگتا ہے منہاج درانی کو تمہاری کسی قسم کی اجازت
کی ضرورت پیش آئے گی ۔۔۔۔

منہاج اُس کے لال سرخیاں چھلکا تا چہرا دیکھ ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔ جب کے اُس کی گہری تپیش زدہ نگاہیں ماورا کے ایک ایک نقش سے ٹکراتیں اُسے بہکنے پر مجبور کر رہی تھیں۔۔۔
ماورا کے سُرخ حیا اور غصے سے تمتماتے گال، اُس کی لرزقی پلکوں کار قص، گداز گلابی رس بھرے لبوں کی کپکپاہٹ اور اُس کی گردن کی دائیں جانب چپکتا وہ سیاہ قاتل تل۔۔۔ جو آج پہلی بار منہاج کی نگاہوں کے سامنے آیا
تھا۔۔۔
بنادوپٹے کے ماورا کا یہ قیامت خیز حسن منہاج درانی پر کافی بھاری ثابت ہو رہا تھا۔۔۔وہ ماورا سے نکاح کر کے اُسے صرف سزا دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر اس کی یہ حواس سلب کرتی دلفریب مہکتی قربت اُسے کسی اور جانب ہی لے
کر جارہی تھی۔۔۔
منہاج چاہے جتنا بھی انکاری ہوتا۔۔۔۔ مگر یہ بھی سچ تھا کہ یہ لڑکی اس کے دل کی اولین ترجیح تھی ۔۔۔۔ اُس نے سچے دل سے ٹوٹ کر چاہا تھا۔۔۔
منہاج درانی تمہیں تو نفرت ہے نا مجھ سے۔۔۔۔ شاید تم بھول رہے ہو ۔۔۔۔ میں ایک طوائف ہوں۔۔۔۔ جس کے ناپاک وجود سے گھن
محسوس کی تھی تم نے۔۔۔۔۔
ماور اُسے خود سے دور کرنے کی غرض سے اپنی ذات کے حوالے سے سخت ترین الفاظ بول گئی تھی۔۔۔
اس کی قربت کے خمار میں ڈوبے منہاج درانی پر یہ بات بہت گہری چوٹ کی طرح ثابت ہوئی تھی۔۔۔اس کی گرفت ماور اپر ڈھیلی ہوئی تھی۔۔۔ جس
کا فائدہ اُٹھاتے وہ جلدی سے اٹھ گئی تھی۔۔۔
منہاج کو اُس کی بات کافی گراں گزری تھی وہ خون آشام نگاہوں سے اس
کی جانب دیکھتا اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔
تم میرے نکاح میں ہواب۔۔جب چاہے تمہیں اپنے قریب کر سکتا ہوں ۔۔۔۔ تم پر ہر طرح کا حق استعمال کر سکتا ہوں ۔۔۔۔ تم سمیت کسی
کے پاس بھی مجھے روکنے کا حق نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے آئندہ اپنی یہ فضول
گوئی اپنے پاس رکھنا۔۔۔۔۔
منہاج کا موڈ سخت خراب ہو چکا تھا۔۔۔
ماورا کو اپنے نام لگا کر کچھ دیر پہلے جو سکون اس کے دل و دماغ میں اترا تھا۔۔۔ ماورا کے یہ سخت الفاظ اس میں انتشار بر پا کر گئے تھے۔۔۔۔
میں اس نکاح کو نہیں مانتی جو میری عزت کے بدلے مجھے بلیک میل
کر کے کیا گیا ہے۔۔ماروا بھی
مقابل آتی دو بدو بولی تھی۔۔۔ وہ اس وقت دوہری
زہنی ٹینشن کا شکار تھی ۔
تو تم نہیں مانتی اس نکاح ہو ۔۔۔۔۔
منہاج نے کوٹ کی پاکٹ سے نکاح نامہ نکالتے اُس کی جانب سوالیہ
نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔۔

جس کے جواب میں ماور اویسے ہی برہمی بھرے تاثرات کے ساتھ چہرا نفی
میں ہلا گئی تھی۔۔۔۔
تو پھر اس کو ہی ضائع کر دینا چاہیئے جب اسے تم مانتی ہی نہیں ہو ۔۔۔ کیا فائدہ اس کا سنبھال کر رکھنے کا۔۔۔ تم میری بیوی ہو ۔۔۔۔ یہ بات صرف اس کمرے تک محدود ہو کر رہ جائے تو کتنی ہی اچھی بات ہے۔۔۔۔ طوائف سے نکاح کرنے پر نہ مجھے دنیا والوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے اور
نہ تمہیں جواب دہ۔۔۔۔۔ منہاج پر اسرار لہجے میں بولتا پاکٹ سے لائٹر نکالتے نکاح نامے کو آگ لگا چکا
تھا۔۔
اُس کی حرکت پر ماورا پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنی جگہ ساکت کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ آگ کے شعلے ٹیبل پر پھینکے نکاح نامے کو پوری طرح جلا کر
راکھ کر گئے تھے۔۔۔
ماورا نے بے یقنی سے راکھ بنے نکاح نامے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ غصے میں نکاح ماننے سے انکار کر رہی تھی۔۔۔۔۔ مگر حقیقت یہی تھی کہ وہ منہاج درانی کے نکاح میں آچکی تھی۔۔۔ وہ بیوی تھی اُس کی مگر منہاج کے
یہ سب کرنے کے بعد بھلا کون یقین کرنے والا تھا اس کا۔۔۔۔۔ تمہاری سزا یہی ہے کہ تم اب ساری زندگی شرعی طور پر میری بیوی رہو ” گی۔۔۔ مگر ساری زندگی کسی کو اس بات پر یقین نہیں دلوا پاؤ گی۔۔۔۔۔اور نہ میری امانت میں خیانت کرنے کا گناہ کبیرہ کرو گی۔۔۔۔ تم میری بیوی ہو سیہ بات ہم دونوں اچھے سے جانتے ہیں مگر دنیا والے نہیں اور نہ ہی ہمارے
نکاح کے گواہان اور مولوی صاحب میں سے کوئی منہ کھولے گا۔۔۔۔ تو
“سوچ لو پھر اب کیا کرو گی تم آگے ۔۔۔۔۔
منہاج زہر خند لہجے میں بولتا اُس کی ٹھوڑی چھو کر اُس کا چہرا اپنی جانب موڑ گیا تھا۔۔۔۔ماورا کی آنکھوں سے آنسو قطار در قطار ٹوٹ کر گر رہے۔۔۔
تھے۔۔۔ منہاج نے بہت کاری وار کیا تھا اُس پر۔۔۔۔۔ جس سے سنبھلنا
آسان بالکل بھی نہیں تھا اس کے لیے۔۔۔۔۔
منہاج درانی کبھی معاف نہیں کروں گی میں تمہیں۔۔۔۔۔۔ بہت غلط کر رہے ہو تم میرے ساتھ ۔۔۔۔۔
ماورا اس کو نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتی وہاں سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔ جبکہ منہاج اپنے اندر لگی آگ کافی حد تک کم ہو جانے پر پر سکون سا ہوتا ۔۔۔۔ ہونٹوں پر سیٹی پر اپنے پسندیدہ گانے کی دھن بجاتا اس کے پیچھے
نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ جو وہ کر رہا ہے وہ ٹھیک ہے یا غلط۔۔۔۔ ماورا کے آنسو دیکھ دل نے اُسے ملامت بھی کیا تھا۔۔۔۔ مگر وہیں اُسے اپنا بنا لینے کا سکون ان سب باتوں پر حاوی آکر اسے صحیح ہونے کی شے دے رہا۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

زوہان میٹنگ میں بزی تھا۔۔۔ اُس کا موبائل اُسکے پرسنل اسسٹنٹ کامران کے پاس تھا۔۔۔ جس پر زنیشہ کی پانچ مس بیلز آچکی تھیں۔۔۔ مگر کامران زوبان کو کال کے بارے میں آگاہ کر کے اس کی میٹنگ خراب نہیں کرنا
چاہتا تھا۔
کیونکہ زوہان کی جانب سے کی جانے والی ڈانٹ برداشت کرنا آسان نہیں
تھا۔۔۔
سر آپ کے موبائل پر کالز آرہی تھیں۔۔۔ مگر میں نے آپ کو ڈسٹرب کرنے کے خیال سے بتا یا نہیں۔۔۔۔
کامران ہولی آواز میں منمناتافون زوہان کی جانب بڑھا گیا تھا۔۔۔ جو ابھی
ابھی میٹنگ سے فارغ ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔
کس کی کالز آرہیں۔۔۔۔؟؟
زوبان اپنے سامنے کھلی فائلز بند کرتالا پر واہ سے انداز میں بولا تھا۔۔۔ کیونکہ نفیسہ بیگم اُسے اُس کے پرائیویٹ نمبر سے ہی کال کرتی تھیں۔۔۔ جوہر
وقت اُس کے پاس رہتا تھا۔۔۔
سر ز نیشہ میر ان کے نام سے۔۔۔۔۔۔ کامران کی بات ابھی
مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب زوہا ن نے اسے خونخوار
نظروں سے دیکھتے موبائل فون اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا تھا۔۔۔ واٹ۔۔۔۔۔ پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے ۔۔۔۔ اتنی دیر سے ٹائم ویسٹ
کر رہے ہو
زوہا ن کو آج زندگی میں پہلی بار زنیشہ نے خود کال کی تھی۔۔۔۔ اس کے لیے بے پناہ حیرت کی بات تو بھی ہی۔
زوبان نے کامران کو باہر جانے کا اشارہ کرتے فورا کال ملائی تھی۔۔۔ جسے پہلی کال پر ہی اٹینڈ کر لیا گیا تھا۔۔۔ جیسے دوسری جانے وہ بھی اسی کی منتظر
ہو۔۔۔
زنیشہ تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔ کہاں ہو اس وقت ؟ مجھے کال کیوں کی ؟؟؟”
“خیریت ہے ناسب۔۔۔
زوہان نے بنا سلام دعا کے ہی
سوالوں کی برسات کر دی تھی۔۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ اور اگر کسی مشکل میں ہو نگی بھی سہی تو اپنے
لالہ کو کال کروں گی آپ کو نہیں۔۔۔ میرے لالہ موجود ہیں میرے پاس
کی ضرورت نہیں
میری حفاظت کے لیے۔۔۔ سو آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں
” ہے۔۔۔۔
زندیشہ کافی بدلحاظی سے بولی تھی۔۔۔ جس کے مد مقابل آنے پر اُس کی زبان تالو سے چپک جاتی تھی۔۔۔ آواز نکلنا بند ہو جاتی تھی۔۔۔ وہ فون پر ہی اُس سے ایسی دیدہ دلیری سے کا مظاہرہ کر سکتی تھی۔۔۔
زنیشہ بی ہیو یور سیلف یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا۔۔۔۔ میں ایسے لہجوںکا عادی نہیں ہوں۔۔۔۔ اپنا لہجہ درست کرو پہلے۔۔۔۔
اس کے خیریت میں ہونے کا سن کر زوہان واپس اپنے ازلی اکڑ وانداز میں واپس لوٹا تھا۔۔۔۔ اُس کے ٹھنڈے ٹھار لہجے اور سختی بھرے الفاظ پر زندیشہ کے ہاتھ پل بھر کو لرز گئے تھے۔۔۔
مگر وہ سامنے نہیں تھا۔۔۔ زنیشہ کو اس بات کی تسلی تھی۔۔۔ اور نہ ہی وہ اب اسے کوئی موقع دینا چاہتی تھی اپنے سامنے آنے کا۔۔۔۔ اچھا میں تمیز سیکھو۔۔۔ اور آپ جو کرتے پھر رہے ہیں اس کا کیا۔۔۔۔” آپ کی وجہ سے میران خاندان کی عزت اُچھالی جارہی ہے۔۔۔۔ آپ کو اس کا زرا سا احساس بھی ہے۔۔۔ آپ ایک بہت ہی معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ آپ کو یہ حرکتیں زیب نہیں دیتیں جو آپ کرتے پھر
رہے ہیں۔۔۔
زنیشہ کی نگاہوں میں ٹی وی پر چلتا وہ منظر پھر سے لہرایا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ اُس کا غصہ مزید دگنا ہوا تھا۔۔۔۔اُس کی جلن کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔۔ تن بدن میں جیسے آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔
ملک کے نامور بزنس مین ملک زوہان کے ثمن خان کے ساتھ کئی سالوں
سے چلتے تعلقات منظر عام پر آگئے تھے۔۔۔
جبکہ دوسری جانب اُس کے الفاظ اور انداز پر زوہان ہونٹ بھینچ کر رہ گیا
تھا۔
مگر وہیں ایک بات نے اسے چونکا یا بھی تھا۔۔۔ زنمیشہ کا یوں کھل کر اس بات پر ناراضگی کا اظہار کرنا کافی اچھنبے کی بات تھی اس کے لیے۔۔۔۔ آج
تک وہ آژمیر کے ساتھ لڑ کر نجانے کیا کیا حرکتیں کرتا آیا تھا مگر کبھی
زنیشہ نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن آج ثمن خان کے ساتھ اس کی کلوز نسں پر زنیشہ کا یوں بھڑک اُٹھناز وہان کے لیے عام بات نہیں تھی۔۔۔ تم کافی غصے میں لگ رہی ہو ۔۔۔۔ میرے خیال میں آمنے سامنے بات کرنی چاہیئے۔۔۔۔ میں کچھ دیر میں پہنچتا ہوں تمہارے پاس۔۔۔۔۔ زوہان کی اس غیر متوقع بات پر زنیشہ کے چودہ طبق روشن ہوئے۔۔
ک کیا مطلب۔۔۔۔۔”
زنیشہ کی زبان لڑکھڑائی تھی۔۔۔۔ اُسے احساس ہو ا تھا۔ اس شخص کو کال کر کے اور یہ سب بول کر وہ غلط کر چکی ہے۔۔۔
میری جان جس طرح تم میری بیوی بن کر پوچھ کچھ کر رہی ہو ۔۔۔ اس کا یہی مطلب ہے تم میرا بھیجا گیا رشتہ قبول کر چکی ہو۔۔۔۔ اور اسی حق سے مجھ سے ثمن خان کا جواب مانگ رہی ہو۔۔۔۔
زوہان نے بات کو اسی پر تھمادیا تھا۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔
زنیشہ ہولے سے منمنائی تھی۔۔۔ اس کے یہاں آنے کا سن کر ہی اُس کی ساری دید دلیری اڑن چھو ہو گئی تھی۔۔۔
تو پھر کیسا ہے۔۔۔۔
زوہان اپنی کرسی پر بیٹھتا سیگریٹ سلگھا چکا تھا۔۔۔۔دوسری جانب جواباً
خاموشی ہی رہی تھی۔
ثمن ملک سے میرے کوئی غلط تعلقات نہیں ہیں۔۔۔ وہ میری بہت اچھی دوست ہے۔۔۔۔ مجھ سے محبت کرتی اور شادی بھی کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔ میں ہمیشہ اُسے انکار کرتا آیا ہوں۔۔۔ مگر اب اس بارے میں سوچنے کا دل چاہ ر ہا ہے۔۔۔۔ بہت اچھی لڑکی ہے۔۔۔۔ میری خاطر اپنی جان بھی دینے کو تیار رہتی ہے۔۔۔ آئی تھنک ایسی محبت کرنے والی لڑکی مجھے کہیں نہیں ملے گی۔۔۔۔ مگر ڈونٹ وری تم سے میں شادی کروں گا
ضرور چایے دوسری ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔
زوہان سیگریٹ کا گہر اکش لیتا نپے تلے الفاظ میں بولتاز نمیشہ کی آنکھیں نم کر گیا تھا۔۔۔ زوہان کے منہ سے کسی لڑکی کا ذکر اس طرح سننا اُس کے دل پر تیر بن کر پیوست ہوا تھا۔۔۔۔ وہ بے آواز رورہی تھی۔۔۔ مگر پھر بھی چھوٹی سی سسکی نکل کر زوہان کی سماعتوں سے ٹکراتی اُسے دوسری جانب
کے حالات سے آگاہ کر گئی تھی۔۔۔
آئی ہیٹ یو۔۔۔۔ شدید نفرت کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔ جس میں دن”
بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔۔۔۔
زنیشہ آنسوؤں کے درمیان بولتی زوہان کے ہونٹوں پر لمحے بھر کے لیے
مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔۔۔
میں جانتا ہوں۔۔۔ اُس کا جواب مختصر تھا۔۔۔
آپ سے زیاد و برا انسان اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔ زنیشہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا اپنے دل کی بھڑاس کیسے نکالے۔۔۔
میں یہ بات بھی بہت اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔۔ اب کی بار زوہان کی آواز مسکراتی ہوئی تھی۔۔۔ جو اسے پتنگے لگا گئی
آئی تھنک میں آپ کا آپ کی ثمن خان کو دیا جانے والا ٹائم ضائع کر رہی ہوں۔۔۔۔ آپ اس کے ساتھ کیری آن کریں۔۔۔ کہیں آپ کی چہیتی گرل فرینڈ ناراض نہ ہو جائے۔۔۔۔
ز نیشہ دانت چبھا چبھا کر بولتی کال کاٹ گئی تھی۔۔۔ اس کا غصے سے بُرا حال
تھا۔۔۔اندر عجیب سی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
اُسے کہیں نہ کہیں محسوس ہوا تھا کہ زوہان اُس کے یوں کال کاٹنے پر اُسے
کال بیک ضرور کرے گا۔۔۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔
یہ بات زنیشہ کے لیے مزید تکلیف کا باعث
تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاعفہ نے ترچھی نگاہوں سے فرنٹ سیٹ پر براجمان آژ میر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جس کے اعصاب ابھی تک سختی سے تنے ہوئے تھے۔۔۔ اُس کے
مغرور تیکھے نقوش غصے کی آمیزش لیے مزید دلکش لگنے لگے تھے۔۔۔۔ حائفہ مبہوت سی اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔
اس بندے پر تو غصہ بھی بہت سوٹ کرتا ہے۔۔۔۔ حائفہ زیر لب
مسکرائی تھی۔۔۔
آژ میر فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے برابر میں براجمان تھا۔۔۔ وہ بیک سیٹ پر بیٹھی کن اکھیوں سے مسلسل اسے تکے جارہی تھی۔۔۔
اُس کی نظروں سے انجان آژ میر نے اپنے اضطراب پر قابو نہ رکھ پاتے سیگریٹ سنگھایا تھا۔۔۔ حائفہ اس کی جانب دیکھتی اس کی ایک حرکت پر
نظر ر کھے ہوئے تھی۔۔۔
مگر اُسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آژ میر کا سگریٹ پینا اس پر کس قدر بھاری پڑے گا۔۔۔ اُسے دھویں سے بہت سخت الرجی تھی۔۔۔ آژ میر نے جیسے ہی سیگریٹ کا گہر اکش لیتے دھواں گاڑی کی فضا میں چھوڑا۔۔۔۔ حائفہ
نے ناک اور منہ پر ہاتھ رکھتے دھویں کا اثر خود تک پہنچنے سے روکا تھا۔۔۔ مگر
ایسا وہ زیادہ دیر نہیں کر پائی تھی۔۔۔
اُس کے ہاتھ ہٹاتے ہی گاڑی میں بھرتے دھویں نے اُسے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔۔ اس کے سائیڈ کا شیشہ کھلا ہونے کے باوجود بچت نہیں ہو پائی تھی۔۔۔ اور حائفہ کو بُری طرح کھانسی کا دورہ پڑا
تھا۔۔۔
آژ میر نے پیچھے مڑتے اُسے تشویش بھری نظروں سے کھانستے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ منہ پر دونوں ہاتھ رکھے کھانس کھانس کر دوہری ہو رہی
تھی۔۔۔۔
“کیا ہوا۔۔۔۔”
آژ میر اُس کا لال چہرا اور آنسو چھلکاتی آنکھیں دیکھ فکر مند ہوا تھا۔۔۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔اچانک بیٹھے بیٹھائے اس لڑکی کو ہوا کیا
ہے۔۔۔
حائفہ اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دے پائی تھی۔۔ بولنا تو دور کی بات
اُس سے اس وقت سانس لینا محال ہو رہا تھا۔۔۔۔ گاڑی سائیڈ پر روکو۔۔۔۔۔
ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہتے ۔۔۔۔ آژ میر نیچے اترتا اس کی سائیڈ پر آیا تھا۔۔۔ سیگریٹ وہ حیرت انگیز طور پر بے دھیانی میں باہر اچھال چکا تھا۔۔۔ سیگریٹ آژ میر میر ان کی زندگی کی سب سے عزیز شے تھی۔۔۔۔ نجانے وہ کیسے لاپر واہی برت گیا تھا سیگریٹ کے ساتھ۔۔۔۔
یہ پانی پئیں ۔ آژ میر نے اس کی جانب پانی کی بوتل بڑھائی تھی۔۔۔ مگر حائفہ بنا ا سے تھامے ابھی تک اُسی کیفیت میں مبتلا تھی۔۔۔۔
اُس کی خطرناک حد تک خراب ہوتی حالت دیکھ آژ میر خود کو مزید نہیں روک پایا تھا۔۔۔ اُس نے حائفہ کی دونوں کلائیاں تھامتے اُسے پکڑ کر گاڑی
سے باہر نکالا تھا۔۔۔۔حاعفہ نے بے حال ہوتے نم آنکھوں سے اُس کی
جانب ایک نظر ڈالی تھی۔۔۔۔
جواب اُس کا چہرا تھا مے بوتل اُس کے ہونٹوں سے لگاتے اُسے پانی پلا رہا تھا۔۔۔حاعفہ کے منہ میں چند گھونٹ جاتے ہی اُس کی کھانسی کو کافی حد تک
افاقہ ہوا تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد ہوش سنبھالتے آژ میر کی مضبوط گرفت پر وہ سرخ پڑتی چند قدم
پیچھے ہٹتی گاڑی سی جالگی تھی۔
” یہ سب کیا تھا ؟ اچانک کیا ہوا آپ کو.
آژ میر اُس کی جانب پانی کی بوتل بڑھاتے گہری نظروں سے اُس کے لال گلابی ہوتے چہرے کی جانب دیکھتے بولا ۔۔۔۔ حائفہ کا چہرانیچے جھک گیا
تھا۔۔۔
وہ۔۔۔۔ آپ سیگریٹ پی رہے تھے۔۔۔۔ اور مجھے دھویں سے الرجی ہے”
“تو اس لیے۔۔۔۔۔
حائفہ شر مندہ سی ہولے سے منمنائی تھی۔۔۔۔ جیسے سارا قصور اُسی کا
ہو۔
لیکن میں تو سیگریٹ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ پھر آپ ایسے ہی کھانستی”
رہیں گی کیا؟؟
سیگریٹ تو آژمیر میر ان کسی کی خاطر بھی چھوڑنے کے بارے میں سوچ
بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔
اٹس اوکے سر میں مینج کرلوں گی۔۔۔۔
آژمیرکی نگاہیں مسلسل
خود پر ٹکی دیکھ حافہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ میں
اضافہ ہوا تھا۔۔۔
” جیسے ابھی کیا۔۔۔۔۔”
آژ میر اُس کے ابھی تک لال ہوئے چہرے پر چوٹ کرتے بولا۔۔۔۔اُس کے چہرے کی سُرخی اور آنکھوں کی نمی ابھی بھی برقرار تھی۔۔۔
حائفہ سے کوئی جواب نہیں بن پایا تھا اس نے خاموش نگاہیں اٹھا کر آخر میر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو پہلے ہی کافی گہری دلچسپی بھری نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ حائفہ گھبرا کر ایک دم سر زمین میں گاڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔اُسے آثر میر کی نگاہوں میں کچھ مختلف تھا۔۔۔۔
آژ میر کچھ دیر اس کی پلکوں کا رقص دیکھنے کے بعد کار میں بیٹھنے کا
اشارہ کرتا خو د بھی فرنٹ سیٹ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
کچھ فاصلے پر اُن کے تعاقب میں چلتی گاڑی بھی اُن کے ساتھ آگے بڑھ گئی
@@@@@@@@@
یہ باڈی کو بھی ہر وقت میرے سر پر سوار کر رکھا ہے۔۔۔ ابھی وہاں لیڈیز واش روم کے باہر کھڑا میرا انتظار کرتار ہے گا۔۔۔۔اور میں آرام سکون سے
کچھ ٹائم گزار پاؤں گی۔۔۔۔۔
ز نیشہ مزمل کو لیڈیز واش کے باہر کھڑا کر کے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔اور پھر کسی کلاس فیلو کے ساتھ شال چینج کر کے اپنا حلیہ کافی حد تک بدلتی اُسے
چکما دیتی چہر اچھپائے وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔
شاید اُس کے باڈی گارڈ کو ز نیشہ سے اس بات کی قطعا تو قع نہیں تھی۔۔۔ اس لیے وہ باقی لڑکیوں کے خیال سے دروازے سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہوا
تھا۔۔
اب گھر جاکر میں اِس باڈی گارڈ کا خود ہی جاب سے نکلواؤں
گی۔۔۔۔
زنمیشہ دل ہی دل میں پالینز بناتی گیٹ کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ ابھی گیٹ سے نکتے اپنی گاڑی کی تلاش میں نظریں دوڑاتی وہ چند قدم آگے بڑھی ہی
تھی۔۔۔۔۔
جب اچانک اس کے قدموں کے قریب کسی گاڑی کے ٹائر ز زور سے چڑ چڑائے تھے۔۔۔ زنیشہ سنبھل کر دور ہٹنےہی والی تھی۔۔۔ جب گاڑی
سے نکلنے والے شخص نے اُس کے ناک پر کلور وفارم بھر ارومال رکھتے اُس کے پھڑ پھڑاتے وجود کو گاڑی میں گھسیٹ لیا تھا۔۔۔ زنیشہ نے مزاحمت کرنی چاہی تھی۔۔۔ مگر چند لمحوں میں ہی ہوش و حواس سے بیگانا ہوتے اُس
کی آنکھیں بند ہوئی تھیں۔۔۔۔
@@@@@@@@@
حائفہ آژ میر کے پیچھے گاڑی سے نکلی تھی۔۔ سامنے بڑی سی بلڈ نگ پر کنسٹرکشن کا کام زور و شور سے جاری تھا۔۔ بڑی تعداد میں مزدور کام میں مصروف تھے۔۔ یہ کنسٹرکشن کا کام آژمیر کی کمپنی کی جانب سے ہی کیا جارہا
تھا۔۔۔اسی لیے وہ آج یہاں وزٹ کرنے آیا تھا۔۔۔
وہاں موجود آژمیر کا منیجر اُسے وہاں یوز ہو رہے مٹیریل اور باقی چیزوں کے بارے میں بریفنگ دیتا اُس کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ جبکہ حائفہ با مشکل وہاں پڑے پتھروں اور اونچے نیچے راستوں سے سنبھلتی اُن کے پیچھے
چل رہی تھی۔۔۔ آژمیر کا دماغ پہلے ہی اچھا خاصہ ڈسٹرب تھا۔۔۔اوپر سے ابھی منیجر کی باتیں پورے دھیان سے سننے کی کوشش کرتے وہ حائفہ کی وہاں موجودگی کو بالکل فراموش کر گیا تھا۔۔۔
حائفہ نے تیز قدموں سے آگے بڑھتے آمیر کی چوڑی پشت کو گھور کر دیکھا تھا۔۔۔ جب اسی لیے وہ راستے میں پڑے پتھر کو نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔ اس کا پیر بہت زور سے پتھر کے ساتھ ٹکرا گیا تھا۔۔۔ زور دار ٹھوکر کی وجہ سے وہ بُری طرح لڑکھڑاتی زمین بوس ہوئی تھی۔۔۔۔ درد کے مارے نا چاہتے ہوئے بھی اس کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔ اس کے انگوٹھے کا ناخن ٹوٹ گیا تھا۔۔۔ جہاں سے اب خون نکلنا شروع ہو چکا تھا۔۔۔
حائفہ کی چیخ پر آژمیر اور اس کے منیجر نے مڑ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔۔ آژمیر جو حائفہ کو بالکل فراموش کر چکا تھا۔۔۔ اور کسی نسوانی چین پر حیران بھی ہوا تھا۔۔۔ حائفہ کو وہاں گراد یکھ وہ اپنی لاپر واہی پر افسوس سے سر ہلاتا جلدی
سے اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
کیا ہوا آپ کو ؟؟؟ آپ ٹھیک ہیں۔… کہیں چوٹ تو نہیں لگی ؟؟؟” آژمیر اس سے پوچھ رہا تھا جب اُس کی نظر حائفہ کے پیر پر پڑی تھی ۔۔۔۔ اُس کا ٹوٹا ناخن اور تیزی سے نکلتا خون دیکھ آژمیر نے فکر مندی سے اُس کا بھیگا چہر دیکھا تھا۔۔۔ جو ہونٹ بھیجے لال پڑتی رنگت کے ساتھ اپنی تکلیف پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ آژمیر کچھ پل کے لیے اُسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس کا در داور نجانے کس بات کے زیر اثر لرزتا کا نچاوجود، در زیدہ نگاہیں جو آژمیر کی توجہ بالکل اپنی جانب ہونے کی وجہ سے گھبرارہی تھی۔۔۔ اُس کی گہری نگاہوں کی تپش کے زیر اثر وہ درد بھلائے اندر ہی
اندر الرزاٹھی تھی۔۔۔۔
اب تک کے اس کے ساتھ گزرے وقت میں یہ پہلی بار آژمیرنے اُسے اتنے غور سے دیکھا تھا۔۔۔ وہ بھی اتنے قریب بیٹھ کر حاعفہ کا کنفیوثر ہوناتوبنتا تھا۔۔
” دیکھائیں مجھے۔۔۔۔۔”
آژمیرنے اُس کے پیر کی جانب ہاتھ بڑھاتے اُس کاز خم دیکھنا چاہا تھا۔۔۔۔
“نوسر میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔”
حاعفہ نے فوراً پیر پیچھے کھینچا تھا۔۔۔ اسے آژمیکا یوں اپنے پیر کو ہاتھ لگایا
جانا پسند نہیں تھا۔۔۔
اس کی اس گریز بھری حرکت پر آژمینے بہت غور سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں اٹھاتے وہ گاڑی بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ حائفہ ہکا بکا سی اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔
اُسے لگا تھا اس کے انکار کرنے پر آژمیر پیچھے ہٹ جائے گا۔۔۔۔ کیونکہ اس کے قریب رہتے وہ اس کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہو چکی تھی ۔۔۔ وہ کافی موڈی بند ہ تھا۔۔۔ اپنا اگنور کیا جانا یا پھر یوں کسی بات سے گریز بر تنا
اُسے بالکل بھی پسند نہیں تھا۔۔۔۔
مگر اب اُس کا یہ ایک دم الگ کیئر نگ ساانداز دیکھ حائفہ اچھی خاصی حیران
ہوئی تھی۔۔۔۔
آژمیر نے اُسے گاڑی کے اندر آن بیٹھایا تھا۔۔۔۔ اُس کا منیجر بھی اتنی دیر میں فرسٹ ایڈ باکس لے آیا تھا۔۔۔ حائفہ مبہوت سی اُسے دیکھے گئی تھی ۔۔۔۔ گرے تھری پیس میں ملبوس وہ اپنے مغرور انداز کے ساتھ ہمیشہ کی طرح ڈیشنگ اور ہینڈ سم لگ رہا تھا ۔۔۔ حائفہ کی ماں کے بعد آج پہلی بار کسی نے اُس کے لیے اتنی کیئر دیکھائی تھی۔۔۔
آژمیر گاڑی میں اُس کے قریب بیٹھتے اس کا پیر تھام کر روئی سے اُس پر لگا خون صاف کرنے لگا تھا۔۔ زخم اچھا خاصہ تھا۔۔۔ آژمیرکو حیرت بھی ہوئی تھی۔۔۔ کہ لڑکیاں تو چھوٹی سی تکلیف پر روناد ھونا مچادیتی تھیں۔۔۔ مگر حائفہ اتنی نارمل کیوں تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں کے راستے ہی آنسو ٹپک رہے تھے۔۔۔اس کے علاوہ اُس نے زرا سی آواز تک نہیں نکالی تھی۔۔۔۔ آژمیر یہ نہیں جانتا تھا حاعفہ اپنے دل اور روح پر اتنی چوٹیں کھا چکی تھی۔۔۔ کہ یہ معمولی سی چوٹ اُس کے لیے کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔۔
حاعفہ نے اس بار آژمیرکی گرفت سے اپنا پیر نہیں کھینچا تھا۔۔۔ آژمیر کی مضبوط گرفت اپنے پیر پر محسوس کرتے حاعفہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا
تھا۔۔۔
اُسے لگ رہا تھا کہ شاید وہ اپنا مقصد بھول رہی ہے۔۔۔ اُسے یہاں پر پر آژمیرمیر ان کی محبت میں مبتلا ہونے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا۔۔۔۔ بلکہ اپنی ادائیوں سے اُسے اپنا گرویدہ کرنے کو کہا گیا تھا۔۔۔ مگر جس شخص کے
سامنے اس کی آواز تک
نہیں نکلتی تھی۔۔۔ اُس کے سامنے بھلا وہ اپنی کیا ادائیں دیکھاتی،،
آژمیر کے ایک بار نگاہ اُٹھا کر دیکھنے پر ہی اُس کی
سانسیں رک جاتی تھیں ۔
ابھی بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ بہت ہی انہماک سے آژمیرکا سر جھکا ہونے کی وجہ سے اُس کی چوڑی پیشانی پر آئے گھنے بالوں کو گھور رہی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے آژمیرنے بھی نظریں اُٹھائے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ نظروں کے اس تصادم پر حائفہ فورا گڑ بڑاتی نگاہیں جھکا گئی تھی۔۔۔
اُس کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا تھا۔۔۔ رنگت ایک دم لال پڑی تھی۔۔۔۔ اس کے گلابیاں چھلکاتے رخسار اور ناک میں پہنی لونگ اُس کی دلکشی مزید بڑھا دیتی تھی۔۔۔۔ آژمیربھی کچھ دیر کے لیے اس قیامت خیز منظر سے نگاہیں ہٹا ہی نہیں پایا تھا۔۔۔۔
مس حائفہ سنبھل کر رہا کریں۔۔۔ لگتا ہے آپ کو خود کو ہی چوٹیں لگوانے
کا بہت شوق ہے۔۔۔۔۔
آژمیراپنی بے اختیار حرکت سے سنبھلتا سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔۔ اُس نے نظریں حائفہ کے سندر مکھڑے سے ابھی بھی نہیں ہٹائی تھیں۔۔۔ جب کہ اُس کا دائیاں ہاتھ ابھی بھی حائفہ کے پیر پر تھا۔۔۔ حائفہ کو اس بات کا احساس تو اب ہو ا تھا۔۔۔ کہ وہ اُس کے کتنے قریب بیٹھا ہے۔۔۔ اور اب قدرے اُس کی طرف جھک کر بات کرتا حاعفہ کی حالت غیر کر گیا تھا۔۔۔ اُس کے لیے اب مزید اپنے دل پر پہرے بیٹھانا مشکل
ہو گیا تھا۔۔۔۔
یہ سامنے بیٹھا شخص ایک ساحر تھا۔۔۔اور آہستہ آہستہ اُسے اپنے سحر میں جکڑ رہا تھا۔۔۔ آژمیرکی خوشبو اس کے گرد پھیلی اُسے اپنا مزید دیوانہ بنا
رہی تھی۔۔۔
تھینیکیو سر ۔۔۔۔ اور آئم سوری بھی۔۔۔۔ میں نے آپ کا اتنا ٹائم ویسٹ
کر دیا۔۔
حائفہ اس کی گہری نگاہوں سے گھبر اگر اس کا دھیان خود سے ہٹانے کی کوشش کرتے بولی۔۔۔ جو بات اُس کے کام کے بالکل خلاف تھی۔۔۔ اُسے حائفہ کو اپنے قریب لانا تھا۔۔۔ خود سے دور نہیں کرنا تھا۔۔۔ مگر نجانے حائفہ میر ان کے قریب آتے اُسے کیا ہو جاتا تھا کہ وہ سب کچھ فراموش کر جاتی تھی۔۔۔
اٹس اوکے۔۔۔۔ آپ یہاں گاڑی میں ہی بیٹھیں۔۔۔ میں جلدی سے وزٹ کر کے آتاہوں۔۔۔ پھر آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کروادوں گا۔
آژمیر واپس سنجیدگی کی چادر اوڑھتے اُس کے پاس سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔حاعفہ خالی نگاہوں سے اُسے دور جاتے دیکھنے لگی تھی۔۔۔۔ کاش یہ شخص صرف اور صرف اُس کا ہوتا۔۔۔۔ وہ اس کی مضبوط بانہوں کے حصار میں چوڑے سینے پر سر رکھ کر اپنا ہر غم کہہ دیتی۔۔۔۔ اور اپنی باقی کی ساری زندگی انہیں
مضبوط پناہوں میں ہی سکون سے گزار دیتی۔۔۔۔ مگر ایسا صرف سوچاہی جا سکتا تھا۔۔۔۔ وہ اس کاش سے آگے کبھی نہ بڑھ پائے گی۔۔۔۔۔۔ آژمیر میران جیسا مکمل مضبوط مرد ۔۔۔ جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے ہی پاک صاف اور شریف نفس تھا۔۔۔ وہ بھلا اس کی قسمت میں کیسے لکھا
جا سکتا تھا۔۔۔۔
حاعفہ خود اذیتی سے سوچتی۔۔۔۔ آژمیر کے جانے کے بعد سیٹ کی بیک سے پشت لگا گئی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے اس کے موبائل کی میسج ٹون بجی تھی۔۔۔ دوسری جانب سے اُسے ویلڈن کا میسج کیا گیا تھا۔۔۔ حاعفہ نے اپنی جگہ پر ہی بیٹھے ۔۔۔۔ نگاہیں گھما کر ادھر اُدھر دیکھا تھا۔۔۔۔
جب کافی دور اُسے ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی کھڑی نظر آئی تھی۔۔۔ حاعفہ بو جھل سانس ہوا میں خارج کرتی واپس آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔ وہ اس گیم سے نکلنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اپنی زندگی کی طرح اس معاملے میں بھی بے
بس تھی۔۔۔۔

Share this story with your friends on Facebook


Updated: March 25, 2025 — 5:40 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *