The journey of Haifa and Zanisha continues with Part 7, bringing more suspense, romance, and unexpected twists. Urdu novel lovers will be thrilled with this latest offline Urdu novel, now available for free PDF download and offline reading.
If you enjoy dramatic love stories filled with deep emotions and gripping suspense, this novel is perfect for you!

Haifa and Zanisha Novel Part 7
Read Here Haifa and Zanisha Novel Part 6
Urdu novel read online and offline
ز نیشہ نے مندی مندی آنکھیں کھولی تھیں۔۔ اس پر بھی مدہوشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔ وہ پہلے تو کتنے ہی لمحے اجنبی نگاہوں سے اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ جب کافی دیر بعد اس کے دماغ میں جھماکا ہوا تھا تھا کہ اُس کا کڈنیپ ہو چکا ہے۔۔۔۔ زنیشہ کی آنکھوں سے کئی آنسو قطار کی صورت اُس
کے گالوں پر لڑھک آئے تھے ۔۔۔
وہ اس وقت اوندھے منہ سنگل بیڈ پر پڑی تھی۔۔۔اُس کے ہاتھ پیر رسیوں سے باندھے گئے تھے۔۔۔ کمرے میں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
زنیشہ کو جیسے ہی گزرے لمحوں اپنی سر زد کی گئی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔۔ اُس کا دل چاہا اپنی کم عقلی اور بے وقوفی پر اپنا سر کسی دیوار کے ساتھ دے
مارے ۔۔۔۔
بھیا کے بھیجے گئے باڈی گارڈ کے بنا یونی سے نکلنا کا بہت بڑا بھگتان وہ بھگتنے
والی تھی۔۔۔
بیڈ پر اٹھ کر بیٹھتے۔۔۔۔ اس نے چاروں جانب نگا ہیں دوڑائی تھیں۔۔۔ اِس پورے کمرے میں سوائے سنگل بیڈ کے کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ بیڈ کے
سائیڈ ٹیبل پر پانی کا جنگ اور گلاس رکھا گیا تھے ۔۔۔۔
زنیشہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کو شش کر رہی تھی۔۔۔ مگر اندر سے وہ بہت زیادہ خوفنر دہ تھی۔۔۔
اُسے نجانے کس نے اور کس مقصد کے لیے کڈنیپ کیا گیا تھا۔۔۔۔ بھیا پلیز جلدی سے آجائیں۔۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے یہاں پر ۔۔۔۔
زنیشہ آژ میر کو پکارتی رونے لگی تھی۔۔۔۔ وہ جانتی تھی آژ میر جتنا پاور فل تھا اُس کے دشمن بھی اُتنے ہی بے شمار تھے۔۔۔اُس کے مطابق زوہان اتنی گری ہوئی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ وہ آژ میر کے کتنے بھی خلاف کیوں نہ ہو۔۔۔ اُسے وہ اپنی عزت مانتا تھا۔۔۔ اُس کے معاملے میں وہ اتنا نہیں گر
سکتا تھا۔
زنمیشہ جاننا چاہتی تھی
آخر ایسا کیا کس نے تھا۔۔۔ جو اگلی بات اُس کے دماغ میں
آرہی تھی۔۔۔ وہ سوچ کر اُس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔ اُس نے ٹیبل کو پیروں سے ایک زور دار ٹھو کر رسید کی تھی۔۔۔ جس کے نتیجے میں اُس پر رکھے گئے جگ اور گلاس چھنا کے کی آواز سے زمین بوس
ہوئے تھے۔۔۔۔
آواز کافی اونچی تھی۔۔۔۔ کچھ ہی لمحوں بعد زنیشہ کو دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی۔۔۔ جس کے بعد جو شخص اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ اُسے پتھرائی نگاہوں
سے دیکھتے زندیشہ اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرتے اُس کا چہرا پوری طرح بھگو
گئے تھے۔۔۔
@@@@@@@@
آژمیر فون کان سے لگائے مزمل کی دی جانے والی اطلاع سنتا۔۔۔زلزلوں
کی ضد میں تھا۔۔۔۔
اس کا دل چاہا تھا۔۔۔ اس نا اہل باڈی گارڈ کو ابھی اور اسی وقت شوٹ کروا دے۔۔۔۔ مگر ابھی اُس کے پاس اس سب کے لیے ٹائم نہیں تھا۔۔۔ اس کی پھولوں جیسی نازک بہن اس وقت نجانے کس ظالم کے شکنجے میں
تھی۔۔۔
حائفہ کو وہ پہلے ہی ڈراپ کر چکا تھا۔۔۔ اس کا رخ آفس کی جانب تھا۔۔۔ مگر اب یہ دل چیر کی خبر نے اُسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے وہ اندھادھند گاڑی بھگانا شروع کر چکا تھا۔۔۔۔
ساتھ ساتھ وہ ایس پی راحیل سے بھی رابطے میں تھا۔۔۔۔ جسے اُس نے زنیشہ کا موبائل اور اس کی ریسٹ واچ میں خفیہ طور پر لگائے ٹریکٹر کوٹریس
کرنے کو کہا تھا۔۔۔۔
جب کچھ ہی دیر میں ایس پی راحیل نے اسے جس لوکیشن کے بارے میں بتایا تھا آژمیرکا غصے سے خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔۔
اسٹیئرنگ پر اس کی گرفت مزید مضبوط ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ اڑ کر زنیشہ کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا۔۔۔ اپنی بہن پر وہ ایک آنچ بھی نہیں آنے دینا چاہتا
تھا۔۔۔۔۔
اُس کے گارڈز کی چار گاڑیاں بھی اس وقت اُس کے پیچھے آچکی تھیں۔۔۔ جہاں وہ جار ہا تھا وہاں اُسے گارڈز کی ضرورت پڑ سکتی تھی ۔۔۔۔
@@@@@@@@
زنیشہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس
کا چہرا پوری طرح آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔۔۔
“… آپ۔۔۔۔ آپ نے مجھے کڈنیپ کیا ؟”
شدید تکلیف اور اذیت کے زیر اثر ز نیشہ کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے
ہاں۔۔۔۔ میں نے ایسا کیا۔۔۔۔ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔۔۔۔ آژمیر تمہیں کسی قیمت پر میرے حوالے نہیں کرتا۔۔۔۔۔ اس لیے مجھے یہ کرنا مناسب لگا۔۔۔۔۔ اب تم میرے پاس ہی رہو گی۔۔۔۔ اپنی اصل پہچان کے ساتھ ۔۔۔۔ سب کو بتاؤں گا میں۔۔۔ کہ تم زنیشہ ، ۔ میران نہیں۔۔۔۔ زنیشہ اکرام ہو ۔۔۔۔ میری اکرام حنیف کی
” بیٹی۔۔۔۔۔
زنیشہ نے دکھ بھری نگاہوں سے سامنے کھڑے اپنے باپ کو دیکھا تھا۔۔۔ جسے آج اتنے سالوں بعد خیال آگیا تھا کہ اس کی کوئی بیٹی بھی ہے۔۔۔ مگر زنیشہ اچھے سے جانتی تھی۔۔۔۔اُسے یہاں وہ باپ بیٹی کی محبت میں نہیں بلکہ اپنے کسی مقصد کے تحت لائے تھے۔۔۔۔
ور نہ بھلا دنیا کا کونسا باپ اپنی بیٹی کو کڑ نیپ کر کے یوں رسیوں میں باندھ کر
رکھتا ہے۔۔۔
کیا چاہتے ہیں آپ؟۔۔۔۔ اصل مقصد کیا ہے آپ کا مجھے یہاں لانے
“کا۔۔۔۔؟
زنمیشہ مسلسل اپنے پاتھ پیر رسیوں سے چھڑوانے کی ناکام کوشش کرتی ہے پنے پیر سے کی
مخوفی سے بولی تھی۔۔۔
تمہار اپیار ابھائی آخر میں ۔۔۔ بہت اچھے سے جانتا ہے کہ میں کیا چاہتا ” ہوں۔۔۔۔ اُس کی اتنے دنوں کے مسلسل انکار کی وجہ سے ہی مجھے یہ انتہائی قدم اُٹھانا پڑا ۔۔۔۔ بہت ٹائٹ سیکیورٹی رکھی ہوئی تھی اس نے تمہاری۔۔۔۔۔ مگر میری پیاری بیٹی نے ان سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر میرا اتنے دنوں سے ناکام ہو تا مشن کامیاب کروادیا۔۔۔۔۔ اکرام حنیف کے چہرے پر مکروں ہنسی کے آثار دیکھ کر زندیشہ نے نفرت سے
نگاہیں پھیر لی تھیں۔۔۔
میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔ اور نہ ہی زندگی میں کبھی رکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ میں یہ بھی اچھے سے جانتی ہوں کہ آپ میرے نام پر موجود میری ماما کی جائیداد حاصل کر کے اُسے غلط مقصد کے کیسے استعمال کرنا چاہتے ہیں جو کہ میں کبھی ہونے نہیں دوں گی۔۔۔۔ اور مجھے یوں کڈنیپ کر کے آپ نے اپنا مزید نقصان کیا ہے ۔۔۔۔ میرے آژمیر بھائی
آپ کو چھوڑیں کے نہیں۔۔۔۔
زنیشہ کو آژمیر پر خود سے زیادہ بھروسہ تھا۔۔۔وہ اُسے کچھ نہ ہونے
دیتا۔
ہاہاہاہاہاہا۔ تمہار ابھائی تم تک پہنچے اُس سے پہلے ہی میں تمہارا انکاح اپنے بھتیجے سے کروادوں گا۔۔۔۔ پھر تمہارے اُن سو کالڈ ا پنوں میں سے کوئی کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔ تمہارے پاس پندرہ منٹ ہیں۔۔ تمہار اسگا باپ ہونے کے ناتے تمہیں ذہنی طور پر نکاح کے لیے تیار ہونے کے لیے اتنا ٹائم
” تودے ہی سکتا ہوں۔۔۔۔
اکرام حنیف اُس پر ایک مسکراہٹ اُچھالتے وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔ انہیں آژمیر پر زنیشہ کا یہی یقین ختم کرنا تھا۔۔۔
زنیشہ کا دل خوف سے کانپ اُٹھا تھا۔۔۔۔اگر آژمیر وقت پر نہ پہنچ پایا
تو ۔۔۔۔۔ اس سے آگے اُس سے کچھ سوچا ہی نہیں گیا تھا۔۔۔۔ زوہان کا وجیہہ چہرا اُس کی نگاہوں میں آن سمایا تھا۔۔۔ اُسے کزن سے ہی پتا چلا تھا۔۔۔ کہ زوہان دو پہر میں ہی دبئی کے لیے نکل گیا ہے۔۔۔۔ زنیشہ
اچھے سے جانتی وہ کہ اگر وہ یہاں ہو تا تو ایک لمحہ بھی نہ لگاتا یہاں
پہنچنے میں۔۔۔
آژمیر کی گاڑیاں بڑے سے بنگلے کے سیاہ گیٹ کے سامنے آن رکی تھیں۔۔۔۔ وہ جیسے ہی گاڑی سے نکلا تو سامنے کھڑے گارڈنے اُس کا راستے روکنا چاہا تھا۔۔۔ جس کے جواب میں آخر میر اس کی کنپٹی پر سلنسر لگے پسٹل
کا نشانہ باندھتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ اُس کے گارڈز بھی اس کے پیچھے ہی
تھے۔
آژمیر پتھروں کی روش طے کرتا تھوڑا سا ہی آگے بڑھا تھا جب سامنے سے
گارڈز کی فوج نمودار ہوئی تھی۔۔۔
” آپ اندر نہیں جا سکتے ۔۔۔”
گارڈز نے آڑ میر پر بندوقیں تانے اسے اندر آنے سے روکا تھا۔۔۔ اپنی جان پیاری ہے تو آگے سے ہٹ جاؤ۔۔۔۔ اندر تو میں ہر قیمت پر جا کر ہی رہوں گا۔۔۔۔ تم یہاں کھڑے میر اوقت ضائع کر کے اپنی موت کو
مزید عبرت ناک بنارہے ہو۔۔۔۔
آثر میر نے انہیں آخری وارننگ دی تھی۔۔۔۔ مگر وہ گارڈز اپنے مالک کی جانب سے ملے گئے حکم کے مطابق وہیں جھے کھڑے رہے تھے۔۔۔ جب آث میر کے ہاتھ کے اشارے پر اس کے آدمی سامنے کھڑے لوگوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔۔۔ اُن لوگوں کے لیے یہ حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ
انہیں ٹریگر دبانے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔۔۔ شاید انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کوئی انہیں کے ڈیرے پر آکر اُن پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔۔۔ آزمیر کے پوری طرح ٹرینڈ گارڈز نے اُن کی گردنیں مڑور تے انہیں ایک
سائیڈ پر ڈال دیا تھا۔۔۔۔
آژ میر عجلت میں اندر داخل ہوا تھا۔۔ لمبی سی راہداری عبور کرتے اندر ڈرائینگ روم میں بیٹھا اکرام حنیف اور اس کے ساتھ بیٹھے تین افراد
آژ میر کو وہاں دیکھ جھٹکے سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے۔۔
” تم یہاں۔۔۔۔۔”
اکرام حنیف کو قطعا اندازہ نہیں تھا کہ آژ میر اتنی جلدی زنیشہ کو ڈھونڈ لے گا۔۔۔۔اور اُس کے سب سے خفیہ ٹھکانے پر آن پہنچے گا۔۔۔ زنیشہ کا موبائل تو اس کے آدمی وہیں پھینک آئے تھے۔۔۔ پھر آژ میر اتنی جلدی
یہاں کیسے پہنچ گیا تھا۔۔۔۔
میری بہن کہاں ہے ؟؟؟
آژ میر کے لہجے میں چھپی غراہٹ مقابل کا دل دہلانے کے لیے کافی
تھی۔۔۔
وہ تمہاری بہن نہیں ہے۔۔۔ صرف اور صرف میری بیٹی ہے۔۔۔ میں کبھی اُسے تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔۔۔۔ قانونی طور پر اُس کا وارث صرف اور صرف میں ہوں۔۔۔ میں قانونی طور پر بھی اُسے اپنے پاس رکھنے کا حق رکھتا ہوں۔۔۔ اس لیے تمہارے لیے بہتر ہو گا یہاں سے
” چلے جاؤ۔۔۔۔
اکرام حنیف اب زنیشہ کو کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے
تھے۔۔۔
ہر طرف پھیل جاؤ۔۔۔۔ سب کمرے چیک کر و۔۔۔۔ میری بہن ہر
” قیمت پر ملنی چاہیئے۔۔۔۔
آژ میر اپنے آدمیوں پر چلا یا تھا۔۔۔ اُس کے لیے اکرام حنیف کی بات کوئی
اہمیت نہیں رکھتی تھی۔۔۔
آژ میر اپنے آدمیوں کو روک لو ورنہ میں تمہیں شوٹ کر دوں گا۔۔۔۔
اکرام حنیف نے آژ میر کے ماتھے پر نشانہ باند ھتے اُسے باز رکھنا چاہا
تھا۔۔
” اتنی اوقات نہیں ہے تمہاری۔۔۔۔۔
آژ میر صوفے پر براجمان ہوتا اُسے خون آشام نگاہوں سے گھورتے ہوئے
بولا۔۔۔
تم ابھی میری اوقات سے پوری طرح واقف نہیں ہو ۔۔۔۔ میں
کر سکتا ہوں۔۔۔۔
اکرام حنیف نشانہ اُس کی کنپٹی سے ہٹا کر بازو پر رکھتا دھمکی آمیز لہجے میں
بولا۔۔۔
جبکہ آژ میر نے طنز یا نگاہوں سے اُسے نشانہ بدلتے دیکھا تھا۔۔اس شخص کی واقعی اتنی اوقات نہیں تھی کہ اسے ختم کرنے کا سوچ بھی سکے۔۔۔۔۔
آژ میر میر ان چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔
اکرام حنیف اُسے آخری بار وارن کر تاثر دیگر پر انگلی دبا گیا تھا۔۔۔ مگر اس سے بھی پہلے وہاں داخل ہوتے زوہان نے اُس کے بازو پر گولی چلاتے اُس کا نشانہ ضائع کیا تھا۔۔۔ بندوق اکرام حنیف کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور
جاگری تھی۔۔۔
آژ میر نے حیرت بھری نگاہوں سے مڑ کر اپنے اس خیر خواہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ جب اس کی نگاہیں پیچھے کھڑے زوہان سے ٹکرائی تھیں۔۔۔ نظروں کے اس تصادم پر دونوں نے نفرت سے نگاہیں پھیر لی تھیں۔۔۔ تم ۔۔۔ تم اپنے ہی دشمن کو بچارہے ہو ۔۔۔۔ جو تمہاری ہر چیز پر سانپ
بن کر بیٹھا ہے۔۔۔۔
اگرام حنیف درد سے ہلہلا تاز وہان پر دھاڑا تھا۔۔۔ اسے تو سہی معلومات ملی تھی۔۔ کہ زوہان اور آثر میر ایک دوسرے کے بہت بڑے دشمن ہیں۔۔۔ مگر زوہان کا آژمیر کو اس طرح گولی سے محفوظ رکھنا اُس کا دماغ گھما گیا
تھا۔۔۔
آژمیر میران میری زندگی میں میرے لئے سب سے زیادہ نفرت آمیز انسان ہے۔۔۔ مگر اس وقت ہم دونوں کے مشترکہ دشمن تم ہو ۔۔۔۔ تم نے زنیشہ کو کڈنیپ کر کے جو گھناؤنی حرکت کی یے۔۔۔ اُس کے لیے میں کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔۔۔۔۔
زوہان نفرت بھری نظر آژ میر پر ڈالتا غصے سے اکرام کی جانب بڑھا۔وہ میری بیٹی
ہے۔۔۔۔ اُسے اپنے پاس رکھنے کا حق ہے میرا۔۔۔۔
اکرام حنیف آج کسی صورت زنیشہ کو اُن کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھا۔۔۔ چاہے وہ تین چار دشمن اور بھی کیوں نہ لے آتے۔۔۔۔ دیکھ لیں گے زنیشہ کو اپنے پاس رکھنے کا حق کون حاصل کرتا ہے۔۔۔۔ زوہان اکرام کے ساتھ ساتھ آژمیر پر بھی ایک سخت نگاہ ڈالتا بیسمنٹ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ آثر میر کارُخ بھی اُسی جانب تھا۔۔۔ کیونکہ اُس کے آدمی اُوپر سے خالی ہاتھ لوٹے تھے۔
وہ دونوں باری باری مختلف کمرے چیک کر رہے تھے۔۔ جب اچانک ایک کمرے کے پاس آتے دونوں کے قدم آمنے سامنے آن رکے تھے۔۔۔وہ کمر ولاک تھا۔۔۔ اُنہیں پورا یقین تھا۔۔۔ زنیشہ اندر ہی تھی۔۔۔۔ دونوں نے بناز بان سے ایک لفظ بھی ادا کیے دروازے پر ضر میں لگانا شروع کر دی تھیں۔۔۔ جب اُن کی چند منٹوں کی کوششوں کے بعد دروازہ ٹوٹا
تھا۔۔۔۔
دونوں ایک ساتھ اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔
جب زنیشہ کو بیڈ پر بیٹھے رسیوں میں جکڑا د یکھ ان کا
کا خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔۔
آژمیر آگے بڑھتے زنیشہ کو اپنے حصار میں لے گیا تھا۔۔۔ زوہان کے قدم
فاصلے پر ہی رک گئے تھے ۔۔۔
” میری گڑیا آپ ٹھیک ہو ۔۔۔۔”
آژ میر اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتا اُسے رسیوں سے آزاد کرنے لگا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اس وقت گہرے شاک میں تھی۔۔۔ اس کے سگے باپ نے اُسے کڈنیپ کروایا تھا یہ بات اس کے لیے بہت اذیت ناک تھی ۔۔۔۔۔ مگر و ہیں آژ میر اور زوہان کو ایک ساتھ اپنے لیے فکر مند دیکھ اس کی نم آنکھوں میں آسودگی سی بھر گئی تھی۔۔ لیکن وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف
تھی کہ یہ دونوں ایک ساتھ تو تھے مگر دل سے ایک بالکل بھی نہیں ۔زنیشہ کو سہی سلامت
دیکھ زوہان روم سے نکل گیا گیا
کو ان کے پیچھے
ہی آژ میر بھی زنمیشہ کو اپنے حصار میں لیے باہر نکل آیا تھا۔۔۔
رک جاؤ آژ میر ۔۔۔۔۔ تم میری بیٹی کو اس طرح نہیں لے کر “
” جاسکتے۔۔۔۔
اکرام حنیف نے آژ میر کو روکنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر آثر میر اُس کی بات کی پر واہ کیے بغیر آگے بڑھا تھا۔۔۔ وہ اکرام حنیف کو اُس کے اِس گناہ کا سبق بہت
اچھے سے سیکھانے کا ارادہ ر کھتا تھا۔۔۔ مگر زنیشہ کے سامنے بالکل بھی
نہیں۔۔۔۔ وہ پہلے ہی بہت ڈری ہوئی تھی۔۔۔
اس لیے اس وقت وہ اکرام حنیف کو اگنور کرتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔ جب اکرام نے دائیں جانب صوفے کے پیچھے چھپے اپنے آدمی کو اشارہ کیا تھا۔۔۔ جو اگلے ہی لمحے باہر نکلتا آژمیر پر نشانہ باندھ گیا تھا۔۔۔۔ اکرام ہر
قیمت پر زنیشہ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔۔۔ جس کے لیے آژمیر کامرنا
ناگزیر ہو گیا تھا۔۔۔۔
زوہان جسے اکرام فراموش کر چکا تھا۔۔۔ اسی لمحے بیسمنٹ سے بر آمد ہوا تھا۔۔۔ اُس کی زیرک نگاہوں سے اکرام کی حرکت چھپی نہیں رہ پائی تھی۔۔۔ اس اپنی پاکٹ ٹولی تھی۔۔ مگر اُس کی گن دروازہ توڑتے شاید
کہیں گر گئی تھی۔۔۔
اُس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔
وہ خون آشام نگاہوں سے اکرام کے آدمی کو گھورتا آگے بڑھا تھا۔۔۔ نجانے کس احساس کے تحت۔۔آژ میر کے نام کی گولی وہ اُس کے سامنے آتے اپنے
اُوپر کھا گیا تھا۔۔۔
ز وہان سر ۔۔۔۔
حاکم چلایا تھا۔۔۔ زنیشہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے زوبان کی یہ حرکت دیکھی تھی۔۔۔ زوبان خود آژ میر کا جانی دشمن بنا ہوا تھا۔۔۔ اور اب اُسی کے نام کی گولی اپنے سر لے گیا تھا۔۔۔
گولی زوہان کے کندھے میں پیوست ہوئی تھی۔۔ آژ میر ساکت نگاہوں سے زوبان کی یہ حرکت دیکھ رہا تھا۔۔ جب اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں میں
غصے کی لکیر ابھری تھی۔۔۔
زوہان جس کے گرد اُس کے آدمی اکٹھے ہو چکے تھے۔۔۔ اُس نے جتاتی نظروں سے آژمیر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جانے انجانے میں آژمیر میران پر ملک زوبان کا احسان آن پڑا تھا۔۔۔ جسے وہ کسی بھی قیمت پر اتار نے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ وہ دنیا میں کسی سے بھی مدد لے لیتا سوائے ملک زوہان
کے۔۔
ملک زوہان سے وہ اس قدر نفرت کرتا تھا کہ اُس کی انا ایسا کوئی بھی احسان
قبول نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
زوبان کو گولی لگتے دیکھ اکرام اپنے آدمی کے ساتھ وہاں سے بھاگ گیا
تھا۔۔۔
زنیشہ زوہان کے کندھے سے نکلتا خون دیکھ بے ہوش ہونے کے در پر تھی۔۔۔ اُس کی تکلیف اپنے دل میں محسوس کرتے زنیشہ آنکھوں سے آنسو
رواں ہوئے تھے۔۔۔۔
اپنے ساتھ کھڑے آژ میر کا خیال کیے بغیر وہ بے اختیاری میں قدم زوہان کی جانب بڑھا گئی تھی۔۔۔ آژ میر نے بہت گہری نگاہوں سے زنیشہ کی زوبان کے لیے یہ بے قراری اور فکر دیکھی تھی۔۔۔
اُسے تو یہی لگا تھا کہ زنیشہ بھی زوہان سے اتنی ہی نفرت کرتی ہو گی جتنی وہ
کرتا ہے۔ کیونکہ زوبان نے
کے لیے ملک زنیشہ کو استعمال ہی کیا ہے اپنے مقصد کے لئے
اس کی بہن نادانی کیسے کر سکتی تھی۔۔۔۔ لیکن شاید وہ
ابھی محبت کے وار سے محفوظ تھا اس لیے اُس کے لیے اسے سمجھنا ابھی ممکن نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اس وقت اسے شمسہ بیگم کی کہی بات بالکل سچ لگنے لگی تھی۔۔۔ زنیشہ زوہان کی محبت کے جال میں پھنس چکی تھی ۔۔۔۔ آژمیر سے مزید وہاں ایک لمحے کے لیے رکنا محال ہوا تھا۔۔۔ وہ سر نفی میں بلا تاز نیشہ کو زوہان کے پاس جانے سے روک گیا تھا۔۔۔ زنیشہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوئی تھیں۔۔۔
زوہان خاموش نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
آژ میر نے بھی زوہان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ دونوں کی ضبط سے لال ہوتی
آنکھیں پل بھر کو ٹکرائی تھیں۔۔۔
جب اگلے ہی لمحے آژ میر زنیشہ کا ہاتھ تھامتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔ سائیں وہ آپ کے دشمن ہیں۔۔۔۔۔ آپ نے انہیں بچانے کے لیے اپنی
” جان داؤ پر کیوں لگائی۔۔۔۔
حاکم اُسے سہارا دیتے کھڑا کرتے بولا۔۔۔۔ زوہان کے کندھے سے خون تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا ۔۔۔۔ اس پر غنودگی طاری ہورہی تھی۔ شدید تکلیف کے احساس سے اس نے سختی سے ہونٹ بھینچ رکھے تھے ۔۔ اس کا چہرا بالکل زرد ہو چکا تھا۔۔۔
اس وقت اُس کے پاس حاکم کو جواب دینے کے لیے کوئی الفاظ ہی نہیں تھے۔۔۔۔ بلکہ وہ خود بھی ابھی تک سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اُس نے ایسا کیا
کیوں تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
ماورا کیا ہوا ہے تمہیں ؟؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔۔ کل اتنی امپورٹنٹ پریز مینٹیشن ہے اور تم بنا تیاری کئے ایسے ہی پڑی ہو ۔۔۔۔ بیلا ماورا کو شام سے منہ سر لیٹے کمبل میں چھپاد یکھ اب آخر کار اسے ٹو کے بنا
نہیں رہ پائی تھی۔۔۔۔
لیکن ماور اپر پھر بھی اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔ وہ ایسے ہی منہ پر
کمبل ڈالے پڑی رہی تھی۔۔۔
تم بتانا پسند کرو گی۔۔۔ آخر ہوا کیا ہے ؟… کسی نے کچھ کہا
ماورا۔۔۔۔۔
” ہے تم سے۔۔۔۔
بیلا اب کی بار اس کے اوپر سے کمبل کھینچتے اس کے پاس آن بیٹھی تھی۔۔۔۔ جب ماورا کی بھیگی آنکھیں دیکھ اُس کی تشویش مزید بڑھی تھی ۔۔۔۔
بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟
بیلا پیار سے اس کے ہاتھ تھامتی نرمی بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔ جب ماور اسہارا پاتے اُس کے کندھے پر سر رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رودی
تھی۔۔۔
وہ اس بُری طرح ٹوٹ کر بکھری تھی کہ بیلا بھی اپنے آنسوروک نہیں پائی
تھی۔۔۔۔
اُس نے اِس بات پر دھیان دیئے بنا کہ بیلا بھی اُس سے نفرت کرنے لگ جائے گی۔۔۔۔ بیلا کو شروع سے لے کر آخر تک اپنی ساری سچائی بتادی منہاج سے نکاح اور پھر نکاح کے بعد اُس کے رواں رکھے گئے
سلوک کی بھی۔۔۔۔
جسے سن بیلا کو نجانے کتنی دیر لگی تھی شاک سے باہر آنے کی۔۔۔۔ دنیا کا کوئی مرد اعتبار اور محبت کے قابل نہیں ہوتا بیلا ۔۔۔۔ سب ایک جیں ہوتے ہوس کے پجاری۔۔۔ میرے باپ کی طرح۔۔۔۔ منہاج درانی کی طرح اور کوٹھے پر آنے والے ان تمام معزز مردوں کی
طرح۔۔۔۔ نفرت کرتی ہوں میں ان سب سے۔۔۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گی ان سب کو ۔۔۔۔ اور منہاج درانی کو تو کبھی بھی نہیں۔۔۔۔ میری محبت ، میرے جذبات سے کھیلا ہے وہ۔۔۔۔۔ میری اذیت ، تڑپ اور اس رسوائی کا حساب تو دینا ہو گا اُسے ایک دن۔۔۔۔ وہ بھی ایسے ہی تڑپے
گا۔
بیلا کو ماور ا اس وقت اپنے
بیلا کا دل انس نہیں لگی تھی۔۔۔ اُس کی کہانی سن کر
سے بھر گیا تھا۔۔۔
کافی دیر کی مسلسل کوششوں کے بعد بیلا نے کتنی مشکلوں سے سنبھالا تھا اُسے یہ وہی جانتی تھی۔۔۔۔
مادر ابس بہت رولیا تم نے۔۔۔۔ اب مزید نہیں۔۔۔۔ وہ شخص اس قابل” بالکل بھی نہیں ہے کہ تم اس کے لیے اتنے آنسو بہاؤ۔۔۔۔۔ ناؤ سٹاپ اٹ۔۔۔۔
بیلا سے نرمی سے ڈپٹتے پانی کا گلاس اُس کے ہونٹوں سے لگا گئی تھی۔
تمہیں بھی مجھ سے نفرت محسوس ہو رہی ہو گی نا۔۔۔۔ گھن آر ہی ہو گی
مجھ سے۔۔۔۔
نارمل ہوتے جو اس کے ساتھ ماور ابیلا کی جانب دیکھتی تلخ مسکراہٹ کے
ساتھ گویا ہوئی تھی۔۔۔
میری دوست ایک پاکباز لڑکی ہے۔۔۔۔ جس نے اس گندگی بھری جگہ پر
رہنے کے باوجود اپنی عزت محفوظ ر کھی ۔۔۔۔ مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ تم میری دوست ہو
محبت کرنا جرم نہیں ہے۔۔۔ تم نے بھی سچے
دل سے محبت کی منہاج درانی سے۔۔۔۔ مگر تمہاری بد قسمتی سے وہ کم ظرف نکلا۔۔۔ اُس نے جو تمہارے ساتھ کیا اُسے اُس کی سزا ضرور ملے گی۔۔۔ مگر تم وعدہ کرو مجھ سے خود کو اس اذیت میں مبتلا نہیں رکھو گی۔۔۔۔
تمہیں جو موقع ملا ہے۔۔۔ کوٹھے پر رہنے والی ہر لڑ کی اتنی خوش قسمت نہیں ہوتی۔۔۔۔ اسے ضائع مت کرو۔۔۔۔ فل وقت بھول جاؤ اس بات کو کہ کوئی منہاج درانی نامی شخص تمہاری زندگی میں آیا تھا۔۔۔۔
بیلا ایک اچھی دوست ہونے کا فرض نبھاتی خلوص و محبت سے ماورا کو
سمجھانے لگی تھی۔۔۔
@@@@@@@@@
زنیشہ پورے راستے بے آواز آنسو بہاتی آئی تھی۔۔۔ اُسے لگا تھا جیسے زوہان نے اپنی نفرت بھلا کر آژمیرکے نام کی گولی خود پر کھائی تھی۔۔۔۔ ویسے ہی آژمیر کچھ وقت کے لیے اپنی دشمنی بھلا کر زوہان کو کم از کم ہاسپٹل تک تو
لے کر ضرور جائے گا۔۔۔
مگر زنیشہ کو زوہان کی تکلیف کے ساتھ ساتھ آژمیر کی یہ بے حسی بھی مزید رلارہی تھی۔۔۔ نجانے کتنے نقصان سے گزرنے کے بعد ان دونوں کی دشمنی ختم ہوئی تھی۔۔
ز نیشہ سٹاپ کر ائنگ۔۔۔ مرا نہیں ہے وہ ،، زندہ ہے ابھی۔۔۔ آژ میر جو کب سے ہونٹ بھینچے اس کار و نادیکھ رہا تھا۔۔۔ خود کو یہ سخت الفاظ کہنے سے روک نہیں پایا تھا۔۔
آژ میر کے اتنے کھٹور انداز پر زنیشہ نے تڑپ کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ بھلا اتنی آسانی سے زوہان کے مرنے کی بات اپنے منہ سے کیسے نکال سکتا تھا۔۔
مگر آژ میر کی لال آنکھیں اور تنے ہوئے نقوش دیکھ اس اپنے سوال کا اُسے جواب مل گیا۔
آژ میر کے اپنے جانب دیکھنے پر وہ اپنے آنسو صاف کرتی واپس سر جھکا گئی تھی۔۔۔
لالہ وہ تکلیف میں تھے۔
زنیشہ نے موقع دیکھ کر آثر میر کا دل نرم کرنے کی چھوٹی سی کوشش کی تھی۔۔۔
اتنے وقت سے اُس نے ہمارے پورے خاندان کو جس تکلیف میں مبتلا
کر رکھا ہے اُس کا کیا۔۔۔
آژ میر اپنے سامنے زوہان کی وکالت تو بالکل بھی نہیں سن سکتا تھا۔۔۔۔اور وہ بھی زنیشہ کے منہ سے۔۔۔۔ یہ امپا سبل تھا۔۔۔۔
ز نیشہ اس کے غصے سے دھاڑنے پر مزید کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔ ز نیشہ کو آژ میر سے بڑھ کراس دنیامیں کوئی بھی عزیز نہیں تھا۔ شاید
ملک زوہان بھی نہیں۔۔۔۔۔
مگر آج زوہان نے آژ میر کی جان بچا کر جو کیا تھاوہ اُس کا مقام زنیشہ کے دل میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھا گیا تھا۔۔۔۔
اس وقت اُس کا دل ملک زوہان کی سلامتی کے لیے دعا گو تھا ۔۔۔ اس کی
تڑپ اور بے قراری لمحہ بالمحہ بڑھتی جارہی تھی۔۔۔
@@@@@@@@
سر آپ کی پچھلے ہفتے کی تین میٹنگز پینڈ نگ پر ہیں۔۔۔ان کو نیکسٹ و یک کے شیڈول میں شامل کر دوں یا آپ اس ویک ہی کرنا چاہیں گے کیونکہ پروجیکٹ مسلسل ڈیلے ہوتا جارہا ہے۔۔۔
بھٹی صاحب آژ میر سے کچھ فائلز پر سائن لیتے اُسے اس حوالے سے بھی
آگاہ کرنے لگے۔
او کے اسی و یک رکھ دیں۔۔۔۔ اور مس حاعفہ کو میرے آفس
بھیجیں۔
آژ میر اپنے سامنے رکھی فائل بند کر کے اُس کی جانب بڑھاتا مصروف سے
انداز میں گویا ہوا تھا۔۔۔۔
سر وہ تو آج آفس نہیں آئیں۔۔۔۔ اور کچھ انفارم بھی نہیں کیا۔۔۔ بھٹی صاحب جواب دیتے آژ میرکے سر ہلانے پر اس کے آفس سے نکل گئے۔
آژ میر یہ بات تو فراموش ہی کر گیا تھا کہ کل حائفہ کے پیر پر بہت سخت موچ آئی تھی۔۔۔ کل سے وہ اکرام حنیف والے معاملے اور زنیشہ کی ٹینشن میں اتنا اُلجھا ہوا تھا کہ حاعفہ کا خیال اُس کے دماغ سے بالکل ہی نکل گیا
اُس نے فوراً حائفہ کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔ مگر مسلسل کئی بار ٹرائے کرنے کے باوجود دوسری جانب سے کال پک ہی نہیں کی گئی تھی ۔۔۔۔اس بات
نے آژ میر کی فکر مزید بڑھادی تھی۔۔۔۔
اُسے غیر زمہ دار لوگ سخت ناپسند تھے۔۔۔۔ مگر شاید اس بار وہ خود ہی حائفہ کے معاملے میں غیر زمہ داری کا ثبوت دے گیا تھا۔۔۔۔ وہ اس کی ایمپلائے تھی۔۔۔ اُسی کے کام کے دوران اُسے چوٹ لگی تھی۔۔۔ کل ہی حاعفہ کو گھر چھوڑ کر آتے اُسے پتا چلا تھا کہ وہ اکیلی رہتی تھی۔۔۔ اس کے پیر نٹس کی ڈیتھ ہو چکی تھی۔۔۔ ان کے بعد اب اس دنیا میں اس کا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
یہ خیال آتے ہی آژ میر کو اپنی لاپر واہی پر مزید غصہ آیا تھا۔۔۔۔ اپنے سامنے کھلی فائلز بند کرتاوہ موبائل اور کوٹ اُٹھاتے آفس سے نکل گیا
تھا۔۔۔
اُسے اب اُس بے ضرر سی لڑکی کی فکر ہونے لگی تھی۔۔۔ اُسے اچھا خاصہ زخم آیا تھا ۔۔۔ نجانے اس نے دو بار ہ ڈا کٹر کو بلوا کر ٹھیک سے بینڈ پیج کروائی بھی تھی یا نہیں۔۔۔۔ کیونکہ آژمیر کو وہ اپنے معاملے میں لاپر واہ سی ہی لگی تھی۔۔۔۔
اکثر وہ آفس میں کام میں اتنا مصروف رہتی تھی کہ کھانا کھانا بھی بھول جاتی تھی بھی تھی۔۔۔ شاید اُس نے اپنا خیال رکھنا سیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔ یا پھر حائفہ کے لیے اس کا اپنا آپ امپورٹنٹ تھا ہی نہیں۔۔۔۔
آژ میر ہمیشہ اپنے ارد گرد کے ماحول کا زیرک نگاہی سے جائزہ لینے والا شخص تھا۔۔۔۔ حاعفہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آژ میر اُس کے بارے میں یہ باتیں بھی نوٹ کرتا ہے۔۔۔۔
یہ شاید آ ژمیر کی بد قسمتی تھی یا اس کے آگے بنا گیا حاعفہ کی معصومیت کا جال کہ جو چیز اسے دیکھنی تھی۔۔۔ وہ آژ میر دیکھ نہیں پارہا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
زنیشہ میرے بچے آپ اتنی ٹھنڈ میں ٹیرس پر کیوں کھڑی ہو ۔۔۔۔ اندر چلو۔۔۔۔ آپ کو تو ویسے ہی ٹھنڈ بہت جلد ی لگ جاتی ہے۔۔۔۔ بیمار پڑ گئی تو۔۔۔
شمسہ بیگم زنیشہ کو ٹیرس پر سرد ہواؤں میں بنا کوئی گرم شے اوڑھے کھڑا
دیکھ فکر مندی سے اس کے قریب آئی تھیں۔۔۔
میران پیلس میں تمام افراد وہاں پیش آئے واقع سے آگاہ ہو چکے تھے۔۔۔ اکرام حنیف کے واپس لوٹ آنے پر جہاں سب کے دلوں میں زنیشہ کی فکر مزید بڑھ گئی تھی وہیں زوہان کا آژ میر کی جان بچانے کے لیے اُٹھایا گیا یہ قدم سب کے لیے انتہائی خوش کن تھا۔۔۔
درمیانی نفرت ابھی اتنی بھی نہیں بڑھی تھی کہ اُسے ختم کرنا نا ممکن ہو جائے۔۔۔۔۔
اماں سائیں۔۔۔۔۔ وہ کیسے ہیں اب ؟؟؟
زنیشہ بنا رخ موڑے رندھے ہوئے لہجے میں اُن سے مخاطب ہوئی
وہ جب سے آئی تھی۔۔۔ ایسے گم صم ہی تھی۔ نہ کسی سے بات کر رہی تھی نہ کچھ کھا پی رہی تھی ۔۔۔ اس نے خود کو بالکل کمرے میں بند کر رکھا تھا۔۔۔
ز نیشہ آپ کو تو بہت تیز بخار ہے ۔۔۔۔ چلو میرے ساتھ اندر۔۔۔۔ شمسہ بیگم اُس کے بخار سے تپتے ماتھے کو چھوتیں پریشان ہوا ٹھی تھیں۔۔۔ اب کی بار بنا اُس کی کچھ سنے۔۔۔۔ اُس کا ہاتھ پکڑتے وہ اُسے زبر دستی اندر لے آئی تھیں۔۔۔۔
وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ مگر زنیشہ آپ خود کو اذیت میں مبتلا کر کے بہت غلط
کر رہی ہیں۔۔۔۔
شمسہ بیگم اس کی مسلسل رونے کی وجہ سے سوجی آنکھیں دیکھے فکر مندی سے بولی تھیں۔۔۔ اس کا چہرا بخار کی وجہ سے بالکل سُرخ پڑ چکا تھا۔۔۔۔ اماں سائیں یہ سب کچھ میر کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔اگر آژمیر لالہ یا ” زوہان کو کچھ ہو جاتا تو ۔۔۔ آپ لالہ سے کہیں مجھے میرے باپ کے حوالے کر دیں۔۔۔۔
ویسے بھی میں آپ سب کے لیے پریشانی ہی بن کر
ہوں۔۔۔ لالہ اب مزید کب تک میری وجہ سے اتنا کچھ برداشت کرتے رہیں گے۔۔۔۔ آپ پلیز ان سے بات کریں۔۔۔۔
زنیشہ کی کنڈیشن اس وقت بہت عجیب سی ہو رہی تھی۔۔۔۔ اُس نے اپنی وجہ سے آج اپنی لائف کی دو اہم ترین ہستیوں کو خطرے میں دیکھا تھا۔۔۔ اگر اُن دونوں میں سے کسی کو کچھ ہو جاتا تو شاید وہ خود کو بھی ختم کر دیتی۔۔۔۔
شمسہ بیگم کچھ پل خاموش نگاہوں سے اُسے دیکھنے کے بعد آگے بڑھتیں اُسے اپنی آغوش میں بھر گئی تھیں۔۔۔
وہ دونوں ہیں کیونکہ آپ اُن دونوں کے درمیان موجود ہیں۔۔۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کب کا ایک دوسرے کو ختم کر چکے ہوتے۔۔۔ آپ اُن دونوں کو واپس سے ایک ساتھ نہیں دیکھنا چاہتیں کیا۔۔۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔۔۔ جو کچھ آج ہوا اس سے کم از کم ہمیں اتنا انداز ہ تو ہو گیا کہ ان دونوں کے دلوں میں ابھی بھی ایک دوسرے کے لیے تھوڑا سا احساس تو موجود ہے نا۔۔۔۔۔ اور رہی بات زوہان کی تو وہ اب بالکل ٹھیک ہے۔۔۔
میں ابھی یہی بتانے آئی تھی ۔۔۔۔
شمسہ بیگم کی آخری بات اُس کے رگ وپے میں سکون طاری کر گئی تھی۔۔۔۔
میں ابھی کھانا اور دوالے کر آتی ہوں۔۔۔۔ بیڈ سے اٹھنا نہیں۔۔۔۔ شمسہ بیگم اُسے نرمی سے وارن کر تیں روم سے نکل گئی تھیں۔۔۔
اُن کے جاتے ہی زنیشہ کچھ لمحوں کی سوچ و بچار کے بعد سائیڈ ٹیبل پر رکھا
ہوا مو بائل اُٹھاتی زوہان کا نمبر ڈائل کر دیا تھا۔۔۔۔
مقابل کو بھی شاید اسی کی کال کا انتظار تھا۔۔۔ پہلی بیل پر ہی کال ریسیو کر کی گئی تھی۔۔۔ زنیشہ کو دوسری جانب سے کی جانے والی اس پھر تی کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔ اس لیے کال پک ہوتے ہی اس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔ موبائل تھامے ہاتھ میں لرزش سی ہوئی تھی۔۔۔
زوہان خاموشی سے فون کان سے لگائے اُس کے بولنے کا منتظر تھا۔۔۔۔ جبکہ اُس کی بو جھل سانسوں کی آواز زنمیشہ کے کانوں سے ٹکراتی اُس کی سانسوں میں اتھل پتھل پیدا کر گئی تھی۔۔۔
آپ ٹھیک ۔۔۔ ہیں ؟؟؟؟
زنیشہ نے جھکتے بامشکل یہ الفاظ ادا کیے تھے۔۔ ہمیشہ زوہان سے بات کرنے کے لیے وہ بہت کچھ سوچے رکھتی تھی۔۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ
مد مقابل
ہوتا یا فون پر بات کرنی ہوتی زنیشہ کے دماغ سے سب کچھ بھگ سے اُڑ جاتا تھا۔۔۔
بہت گہر از خم ہے۔۔۔ اتنی جلدی کیسے ٹھیک ہو سکتا ہوں۔۔۔۔ زوہان کا جواب کافی معنی خیزی لیے ہوئے تھا۔۔۔ جبکہ اس کے لہجے میں چھپی تکلیف کا اندازہ لگاتے زنیشہ کی آنکھیں ایک بار پھر سے بھیگ گئی انداز تھیں۔وہ اس کے لہجے چھپا طنز با آسانی سمجھ گئی تھی۔۔۔
میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ مجھے ملنا ہے آپ سے۔۔۔۔۔ میں دیکھنا
زنیشہ کے منہ سے بے ساختہ وہ الفاظ نکل گئے تھے۔۔۔۔ جو کہنے کے لیے اُس کا دل کب سے بے قابو ہو رہا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کا یہ کھلا اظہار زوہان کے ہونٹوں پر دلکشی بھری مسکراہٹ کی چھب دکھلا گیا تھا۔۔۔
اِس سے پہلے کہ زوہان اُسے اُس کی بات کا جواب دیتا جب اُسی لمحے ثمن پر یشان سی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔
زوبان کیسے ہوا یہ سب ؟؟؟ تم اپنے آپ کو کسی کی وجہ سے بھی خطرے میں کیسے ڈال سکتے ہو ۔۔۔۔
شمن اس کے بیڈ کے قریب آتی اس کے کندھے پر لگی بینڈ پیج دیکھ تشویش بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔۔۔۔
زنیشہ زوہان کے اتنے قریب سے آتی یہ فکر سے لبریز نسوانی آواز سن کر واپس اپنے خول میں سمٹ گئی تھی۔۔۔۔ کچھ لمحے پہلے وہ کمزور لمحوں کی ذد میں آکر اُس کے سامنے دبے لفظوں میں جو اظہار کر گئی تھی۔۔۔۔ اُس پر اُس نے خود کو جی بھر کو کو سا تھا۔۔۔۔
زنیشہ نے شدید غصہ ہونے کے باوجو د کال نہیں کاٹی تھی۔۔۔۔ اُسے ایسا محسوس ہوا تھا کہ ثمن نے بات کے دوران شاید زوبان کو بوسہ بھی دیا
ہے۔۔۔ زنیشہ کا دل چاہا تھا موبائل سے نکل کر زوبان سمیت اس لڑکی کی
بھی گردن دبادے۔۔۔۔۔ جسے شرم نہیں آتی تھی کسی نامحرم مرد کے اتنے قریب جانے کی۔۔۔ وہ سوشل میڈیا پر ایسی کئی پکچر ز دیکھ چکی تھی اُن دونوں کی ، جہاں ثمن زوہان کا بازو تھامے اُس کے ساتھ بالکل چپک کر کھڑی ہوتی تھی۔۔
صرف ثمن ہی زوبان کے قریب نہیں جاتی تھی۔۔۔ بلکہ زوبان خود بھی اُسے بہت اہمیت دیتا تھا۔۔ اکثر اس کی بزنس میٹنگز میں ثمن اس کے ساتھ پائی جاتی تھی۔ اس کے سرکل کے لوگ تو یہی سمجھنے لگے تھے کہ عنقریب وہ دونوں شادی بھی کر لیں گے۔۔۔
ملک زوہان تو ویسے بھی سوسائٹی کا ہر دلعزیز تھا۔۔ خاص طور پر لڑکیوں کا مگر ثمن خان بھی کسی سے کم نہیں تھی۔۔ اتنی اہم پوسٹ پر ہونے کی وجہ سے ہر بندہ اُس کے ساتھ راہ ور سم بڑھانے اور اچھے تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند تھا۔۔۔ لیکن ثمن خان تو صرف ملک زوہان کی دیوانی تھی۔۔۔۔ اس کے سواوہ کسی کی جانب ایک نگاہ غلط بھی ڈالنا پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ یہ چھوٹی موٹی تکلیف میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔
زوہان کی آواز زنیشہ کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔۔۔ آنکھوں میں پانی
بھرے وہ ایسے ہی فون کان سے لگائے ہوئے تھی۔۔۔۔ اس کی مدھم مدھم سانسیں زوہان کی ساعتوں سے ٹکر اتیں اسے ایک سرور سا بخش رہی تھی۔
وہ زنیشہ کے بنا بولے ہی اس کی خفگی اچھے سے سمجھ رہا تھا۔۔۔ جو نہ تو فون بند کر رہی تھی نہ ہی اُس سے کوئی بات کر رہی تھی۔۔
ملنا چاہو گی مجھ سے۔۔۔۔۔؟؟”
زوہان گھمبیر لہجے میں بولتاز نیشہ کا کچھ دیر پہلے کا کہا سوال واپس اُسی سے کر گیا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ اب اِس سوال کا جواب اچھے سے جانتا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کے بولنے پر پاس کھڑی ثمن کا دھیان اس کے کان سے لگے موبائل کی جانب گیا تھا۔۔ ملک زوہان کسی لڑکی سے بات کر رہا تھا اور وہ لڑکی زنیشہ میر ان کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔ ثمن کو چند سیکنڈز لگے تھے سمجھنے میں۔۔۔ اُس نے حسرت بھری نگاہوں سے زوہان کی جانب دیکھا تھا۔۔ وہ ہر پل اپنے رب سے اس شخص کو مانگتی تھی۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کبھی اس کا نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔
مگر پھر بھی وہ ابھی تک ہمت نہیں ہاری تھی۔
” نہیں۔۔۔۔”
زنمیشہ نے اپنی ناراضگی اور غصے پر قابو پاتے ایک لفظی جواب دیا۔۔۔ زوہان زیر لب مسکرایا۔۔۔ جواب اُس کی سوچ کے عین مطابق تھا۔۔۔ دروازے پر دستک ہوئی تو ز نیشہ نے پلٹ کر اس جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں سے ملازمہ اندر داخل ہو رہی تھی۔۔۔
زنیشہ بی بی آپ کو حسیب سائیں بلا ر ہے نیچے ۔۔۔ مزمل دو دن کی چھٹی پر گیا ہے تو آژ میر سائیں نے کہا ہے تب تک حسیب سائیں کے ساتھ ہی آپ
کو یونیورسٹی جانا آنا ہو گا۔۔۔۔
ملازمہ اُس کے اشارے پر اپنا پیغام سناتی روم سے نکل گئی تھی۔۔۔ جبکہ دوسری جانب آگ بھگولا ہونے کی باری اب زوبان کی تھی ۔۔ وہ
ملازمہ کی بات سن چکا تھا۔۔۔ اور زنیشہ کا ہامی بھر نا بھی۔۔ اُس کے ساتھ نہیں جاؤ گی۔۔۔۔ تمہارا بھائی باتیں تو بڑی بڑی کرتا ہے۔۔۔ دو دن کے لیے اپنے ضروری کام چھوڑ کر تمہاری حفاظت نہیں کر سکتا۔۔۔۔ خبر دار جو تم اس حسیب کے ساتھ گئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں
ہو گا۔۔۔۔
زوبان کا غصے بھر اسرد لہجہ زنیشہ کو سہا گیا تھا۔۔۔
ثمن نے بھی بغور زوہان کی شدت پسندی دیکھی تھی۔۔۔اس وقت اُسے ز نیشہ دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی لگی تھی۔۔۔
آپ ہوتے کون ہیں مجھے کسی بھی کام سے روکنے والے۔۔۔ میرے لیے میرے لالہ کا کہا ہے سب کچھ ہے۔۔۔ اگر انہوں نے مجھے کوئی حکم دیا ہے
تو ہر صورت وہ مانوں گی میں۔۔۔۔
زنیشہ کچھ دیر پہلے کا ثمن والا غصہ زوبان کو اس طرح لوٹاتی کال کاٹ گئی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی زوہان شدید غصے میں آگیا ہو گا۔۔۔ اگر وہ مزید اس کی غصیلی آواز سن لیتی تو اس کے رعب میں آکر حسیب کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتی۔
اس لیے مزید بات نہ سننا ہی زنیشہ کو مناسب لگا تھا۔۔۔۔ اُسے آج یونیورسٹی نہیں جانا تھا۔۔۔ مگر موجودہ سیچویشن کو دیکھتے زوہان کو مزید تپانے کے لیے اُسے یونی جانا تھا اور وہ بھی حسیب کے ساتھ ۔۔۔۔
@@@@@@@
زوہان کو زنیشہ سے اتنی جرات کی اُمید بالکل بھی نہیں تھی کہ وہ یوں کال کاٹ دے گی۔۔۔ اُس نے دوبارہ کال ملائی تھی۔۔۔ مگر ز نیشہ اپنا فون سویچ
آف کر چکی تھی۔۔۔ زوہان کا طیش کے مارے بُرا حال تھا۔۔۔ اُس نے ہاتھ میں پکڑا مو بائل پوری شدت سے موبائل پر دے مارا تھا۔۔۔۔ ثمن جو اُس کے قریب ہی کرسی پر بیٹھی با آسانی ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی۔۔۔۔ زوبان کے اس جارحانہ عمل پر کچھ لمحے خاموش نگاہوں سے اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔ تو آخر کار
ملک زوہان بھی
نیوا مرض میں مبتلا ہونے سے خود کو اس جا
شمن بیڈ پر کہنی رکھ کر اُس پر چہرے ٹکاتی ہلکا ساز وہان کے قریب جھکی
تھی۔۔۔۔
جس کا چہرا اور آنکھیں غصے کی شدت سے لال ہو چکی تھیں
تمہیں معلوم ہے یہ محبت نہیں میری ضد اور جنون ہے۔۔۔ اُس کے بغیر میں رہ سکتا ہوں۔۔۔ مگر اُسے کسی اور کا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ وہ مجھ سےضد باندھ کر مےرے انتقام کو مزید ہوا دے رہی ہے جس میں مقصان صرف اسی کو اٹھانا پڑےگا۔۔
بات مزید غصہ دلا گئی تھی۔۔۔
زوبان کوثمن کی بات مزید غصہ دلا گئی تھی۔۔ کوثمن نے جانچتی نگاہوں سے
زوبان کو دیکھا تھا۔۔ اُسے زوہان کے اس بے
انتہا جنون سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
وہ جانتی تھی یہ جنون جلد یا بدیر شدید عشق میں بدلنے والا تھا۔۔۔ جسے
جھٹلا نا ملک زوہان کے بس میں نہیں ہو نا تھا۔۔۔
وہ تم سے محبت کرتی ہے۔۔ شاید تم سے بھی جوابا یہی چاہتی ہے کہ اس کی خاطر میران خاندان سے دشمنی ختم کر دو۔۔۔۔۔
ثمن نے مخلصانہ انداز کے ساتھ زوہان کے آگے زندیشہ کی سوچ واضح کی تھی۔۔۔۔
وہ صرف اپنے بھائی آژ میر میر ان سے محبت کرتی ہے۔۔۔ میں اُس کی محبت کی نہیں بلکہ نفرت کی فہرست میں آتا ہوں۔۔۔۔ اگر مجھ سے محبت
کرتی ہوتی تو اب تک میرے پاس ہوتی۔۔۔۔۔
زوہان زخمی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ اس کا دل زور و شور سے اس کی بات کی نفی کر رہا تھا۔۔۔ مگر زوبان بہت آرام سے اس آواز کو
دل کے ہی کسی کونے میں دیا گیا تھا۔۔۔
ثمن نے جواب میں خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا تھا۔۔۔ زوبان پہلے ہی غصے سے بپھر اہوا تھا
وہ اسے اس حواالے سے چھیڑ کر خود سے بھی ناراض
نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
@@@@@@@@
آژ میر سیدھا حائفہ کے فلیٹ میں پہنچا تھا۔۔۔ دروازہ کھلا ہونے کے باوجود اُس نے بیل بجانا مناسب سمجھا تھا۔۔۔ مگر مسلسل دو تین بیلز کے بعد بھی
اندر سے کسی قسم کی کوئی ہلچل سنائی نہیں دی تھی۔۔۔ اور نہ ہی کوئی دروازے پر آیا تھا۔۔۔
آژ میر کو حیرت کے ساتھ ساتھ تشویش بھی ہوئی تھی۔۔۔حاعفہ اُسے اتنی لاپر واہ تو بالکل بھی نہیں لگتی تھی کہ اکیلے رہتے یوں گیٹ آن لاک رکھے گی۔
جب حالات بھی اتنے خراب تھے۔۔۔۔
آژ میر نے اندر قدم بڑھانے سے پہلے آفس کال کر کے حائفہ کا ایڈریس کنفرم کیا تھا۔۔۔ جہاں سے اُسے اسی بلڈ نگ کا یہی فلیٹ نمبر بتایا گیا تھا۔۔۔۔ آژمیر کو چند سیکنڈز لگے تھے فیصلہ کرنے میں۔۔۔ وہ دروازہ ہلکے سے دھکیلتا اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
چھوٹا سا کوریڈور کر اس کرتا وہ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوا تھا۔۔۔ جو بالکل ویران پڑا تھا۔۔۔
سامنے کی طرف دور ومز بنے تھے جن کے دروازے بند تھے۔۔۔ آژ میر تیزی سے ایک میں داخل ہوا تھا۔۔ نجانے کیوں اُس کا دل بو جھل سا ہوا تھا۔۔ حائفہ کے کسی مصیبت میں ہونے کا خیال ہی اس کے اعصاب پر بہت بھاری پڑ رہا تھا۔۔۔
یہ کمرہ بھی خالی دیکھ عجیب سی بے چینی اُس کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھی۔۔۔ دائیں ہاتھ سے پیشانی کو مسلتے وہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے دوسرے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
جب روم کا دروازہ کھولتے ہی سامنے کا منظر دیکھ اُس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔۔۔۔ دروازے پر ساکت کھڑ اوہ ہینڈل کو اپنی مٹھی میں سختی سے دبوچ گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@
ماورا نے اپنے آپ کو بہت مشکل سے نارمل کرتے یونی میں قدم رکھا تھا۔۔۔ وہ منہاج درانی کی وجہ سے اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتی تھی ۔۔۔۔ اور نہ حائفہ کو مزید ناراض کر سکتی تھی ۔۔ وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اس نکاح والی حقیقت کو ہمیشہ کے لیے اپنے دل کے تہہ خانے میں چھپا کر رکھ دے گی۔۔۔ مگر کبھی منہاج درانی سے بھیک نہیں مانگے گی۔۔۔۔
ماور اان جان لیوا سوچوں کو جھٹکتی اپنے ساتھ چلتی بیلا کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔
ماور اوہ دیکھو۔۔۔
بیلا نے دائیں جانب اشارہ کیا تھا۔۔۔ جہاں منہاج درانی اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا کسی بات پر مسکراتا اُن کی جانب متوجہ نہیں تھا۔۔۔۔
بیلا کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھتے ماورا کی نظر جیسے ہی منہاج درانی کے و لکش مسکراہٹ سے سجے خوبرو چہرے پر پڑی ، تو اسکی آنکھوں میں مرچیں سی بھر گئی تھیں۔۔۔ اُس نے لمحے کے ہزارویں حصے میں نگاہیں پھیر لی تھیں۔۔۔
ہر ایک کے سامنے دنیا کا سب سے مہذب اور ایماندار انسان بنا پھرتا ہے۔۔۔ منافق اور دوغلا انسان۔۔۔۔
ماورا کی آنکھیں ضبط کے چکر میں سرخ ہوئی تھیں۔۔
تو تم بے نقاب کر دوا سے۔۔۔ ایچ اوڈی بہت اچھے ہیں وہ تمہاری بات پر تحقیق ضرور کروائیں گے۔۔۔ اور اگر ایک بار مولوی اور گواہان سامنے آگئے تو منہاج درانی کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔۔
بیلا سے اُس کی تکلیف دیکھنا بہت مشکل تھا۔۔۔
بے نقاب کرنے سے کیا ہو گا۔۔۔؟؟؟ میں مزید بد نام ہو جاؤں گی۔۔۔۔ میرے کو ٹھے والے آکر مجھے لے جائیں گے۔۔۔ اور منہاج درانی کو زرا برابر بھی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔ زندگی برباد ہو گی تو میری۔۔۔۔
ماورا تلخی سے بولتی بیلا کے ساتھ کیفے ٹیریا کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
اس وقت اُس کی کنڈیشن کلاس اٹینڈ کرنے والی بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔
ماورا تم نے مجھ سے پر امس کیا تھا۔۔۔ منہاج درانی کی وجہ سے اپنے آپ کو ہرٹ نہیں ہونے دو گی۔۔۔ اُس کے ہونے نہ ہونے سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔ فور أصاف کرو یہ آنسو۔۔۔ تم ایک بریولڑ کی ہو۔۔۔۔
بیلا اس کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھ کر اس کا ہاتھ نرمی سے تھامتی مصنوعی خفگی سے بولی۔۔۔ اس کے انداز پر ماورا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی ۔۔۔۔ بھیگی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ وہ اس لمحے بے پناہ حسین لگی تھی۔۔۔ جب عین اسی وقت کیفے ٹیریا میں داخل ہوتے منہاج کی نظر اس کی جانب اُٹھی تھی۔۔۔۔ اور پھر پلٹنا بھول گئی تھی۔۔۔ اس کے بھیگے گلابی گال اور غم آلود ہیزل گرین آنکھیں۔۔۔ سادگی میں بھی وہ قیامت کا لحسن رکھتی تھی۔۔۔
گہری نگاہوں کی تپیش پر ماورا نے ارد گرد نظریں گھمائی تھیں۔۔۔۔ جب اُس کی نظریں منہاج کی لال آنکھوں سے ٹکرائی تھیں
چہرے پر نفرت بھرے تاثرات سجائے وہ فورا سے بیشتر نگاہیں پھیر گئی تھی۔۔۔۔ منہاج نے بہت غور سے اُس کا یہ عمل دیکھا تھا۔۔۔ وہ گہری سانس بھر تاسر جھٹکتا دوسرے ٹیبل کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
ماورا بھی بیلا کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔
ماورا میں تو کہتی ہوں۔۔۔ مل کر منہاج درانی کو مزا چکھاتے ہیں۔۔۔۔ جو اُس نے کیا اتنی بڑی تکلیف تو نہیں پہنچا سکتے اُسے۔۔۔ مگر اپنی چھوٹی موٹی حرکتوں سے اُس کا جینا اجیرن تو بنا سکتے ہیں نا۔۔۔
آنکھوں میں شرارت بھرے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
“کیا مطلب میں سمجھی نہیں ؟
ماورانے نا سمجھی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
“آگے ہو۔۔۔’
بیلا ارد گرد بیٹھے سٹوڈنٹس کا خیال کرتی اس کے کان میں سر گوشی بھرے انداز میں اپنا بھی تازہ تازہ بنا یا پلان بنانے لگی تھی۔۔۔
جسے سن کر ماورا کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔۔۔
نہیں۔۔۔۔
اُس نے نفی میں سر ہلاتے منہاج کے ساتھ ایسا کوئی بھی مذاق کرنے سے صاف انکار کیا تھا۔۔۔اگر وہ پکڑی جاتیں تو۔۔۔۔
ماور ایقین کر و۔۔۔ بہت مزا آئے گا۔۔ دیکھنا تمہیں وہ منظر دیکھ کر کتنا سکون ملے گا۔۔۔۔
ماورا کے انکار کے باوجود بیلا اُسے اس بات پر رضامند کرنے پر بضد تھی۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
زندیشہ زوہان کے منع کرنے کے باوجود جان بوجھ کر یونی آگئی تھی۔۔۔ مگر زوہان سے بغاوت کرنے کے بعد اُس کا دل اندر سے خوفزدہ بھی بہت
تھا۔۔۔ ملک زوہان سے کوئی بعید نہیں تھی کہ وہ اپنی بات نہ مانے جانے پر زخمی ہونے کے باوجود یونیورسٹی آن دھمکتا۔
ایک ہی کلاس لے کر اُس کا واپس جانے کا ارادہ تھا۔۔ وہ سے کلاس لے کر نکلی ہی تھی جب اس کے موبائل پر مزمل کی کال آنے لگی تھی۔۔۔
کال اٹینڈ کرتے اُس نے فون کان سے لگایا تھا۔۔۔ جب دوسری جانب سے اُسے مزمل کی پریشان ہی آواز سنائی دی تھی۔۔۔۔
” کیا ہو امز مل سب ٹھیک ہے ؟؟؟؟”
زنیشہ بھی فور آپریشان ہوا ٹھی تھی۔۔۔
بی بی جی وہ آژ میر سائیں کا بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔۔ اُن کی کنڈیشن بہت سیر یسں ہے۔۔۔ آپ کی یونی کے باہر ڈرائیور بھیج دیا ہے۔۔۔ آپ فور آبا سپٹل پہنچیں۔۔۔۔ زیادہ وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔۔۔۔
مزمل کے الفاظ زنیشہ کا سینہ چھلنی کر گئے تھے۔۔۔ پاس موجود پلڑ کو تھامتے اس نے پانے لڑ کھڑاتے وجود کو سہارا دیا تھا۔۔۔۔
نن نہیں لالہ کو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ زنیشہ نے ہکلاتے بمشکل یہ الفاظ ادا کیے تھے۔
بی بی جی آپ بس جلدی ہاسپٹل پہنچیں۔۔۔۔ مزمل یہ الفاظ ادا کر تا فون بند کر گیا تھا۔۔۔
زنیشہ آز میر کے بارے میں ایسی خبر سن کر اس قدر گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار ہو چکی تھی کہ ا یک بار گھر کے کسی اور فرد کو کال کر کے اس خبر کی تصدیق کرنے کا خیال کر ان میں آیا ہی نہیں تھا۔۔۔ وہ مزمل کی بات پر ایمان لاتی تیز قدموں سے مین گیٹ کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ جہاں سامنے ہی گاڑی اور ڈرائیور دونوں اس کے منتظر تھے ۔۔ زنیشہ کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی مطلوبہ راستے کی جانب
بڑھادی تھی۔۔۔۔
زنیشہ کے آنسور کنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ آژمیر کا سن کر اُس کی جان پر بن آئی تھی۔۔۔ اگر خدانخواستہ آڑ میر کو کچھ ہو جاتا تو وہ بھی زندہ نہ رہ پاتی۔۔۔۔ اپنے بھائی سے اس قدر محبت کرتی تھی وہ۔۔۔۔۔
@@@@@@@@@
آژ میر کی نظریں فرش پر بے سدھ پڑے وجود پر پڑی تھیں۔۔۔وہ تیزی سے حائفہ کی جانب بڑھا تھا۔۔ جو ٹھنڈے فرش پر بنادوپٹے اور کھلے بالوں
کے ساتھ بے ہوش پڑی تھی۔۔۔ اس کے ہر وقت چادر میں چھپے رہنے والے وجود کی رعنائیاں ہر طرح کی قید سے آزاد تھیں اس وقت۔۔۔۔ آژمیر جیسے مضبوط اعصاب کے مالک شخص نے با مشکل نگاہیں چرائی تھیں۔۔۔ اُس کی لانبی حسین گھٹائیں اور اُن سے اُٹھتی مسحور کن خوشبو نظر
انداز کیے جانے کے قابل بالکل بھی نہیں تھی۔۔
آژ میر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہاں آکر اُس نے ٹھیک کیا ہے یا غلط۔۔ “مس حاعفہ آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔
آژ میر نے تشویش کے عالم میں اُس کا گال تھپ تھپایا تھا۔۔۔ مگر وہ ویسے ہی بے سدھ پڑی رہی تھی۔۔۔
حائفہ کی یہ حالت دیکھ آژ میر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔اُس کے پیر میں پہلے ہی چوٹ لگی ہوئی تھی۔۔ اور اب شاید لڑ کھڑا کر گرنے کی وجہ سے اُس کے ماتھے پر بھی چوٹ آئی تھی ۔۔۔ ساتھ پڑے ٹیبل کی نوک پر ماتھا لگنے کی وجہ سے اُس کی پیشانی سے خون بہہ کر وہیں خشک ہو چکا تھا۔۔۔
آژ میر اُسے بانہوں میں اُٹھاتا بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔حاعفہ کا پور اوجود
ٹھنڈ کی وجہ سے بالکل برف ہو رہا تھا۔۔۔۔
حائفہ جو ابھی تک بمشکل اپنی بے ہوشی کا ناٹک جاری رکھے ہوئے تھی۔۔۔ آژ میر کی نرم گرم مضبوط گرفت پر اس نے نامحسوس طریقے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔ آژمیر کا لمحے بھر کا قرب، اس کی نتھنوں میں اترتی جان لیوا خو شبو اور اس کی پکار میں چھپی بے قراری۔۔۔ حائفہ سے اپنا ناٹک جاری رکھنا بہت مشکل ہوا تھا۔۔۔ اُس کا دل چاہا تھا ابھی آنکھیں کھول
کر آژ میر پر اپنی ساری حقیقت آشکار کر دے۔۔۔ مگر نہ ایسا کرنے کی اجازت تھی اُسے۔۔۔۔اور نہ ہی آژمیر کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت
دیکھنے کی ہمت ۔۔۔۔
اُس کے دل میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آژمیر میر ان کے لیے محبت زور پکڑتی جارہی تھی۔۔۔ جو آگے جاکر اس کی تکلیفیں مزید بڑھانے والی
تھی۔۔۔اس لیے حائفہ جلد از جلد یہ سارا معاملہ ختم کر کے آژ میر کی زندگی
سے بہت دور جانا چاہتی تھی۔۔۔۔
اُس نے آج یہ سارا ڈرامہ کیا ہی اسی لیے تھا تا کہ آژ میر کو کسی طرح اپنے حسن کے جال میں پھنسا سکے۔۔۔۔ یہ سب کرتے اس کے پورے وجود میں انگارے لوٹ رہے تھے ۔۔۔۔ اپنے اندر لگی آگ پر قابو پاتے وہ آژ میر کے سامنے اپنے آپ کو نارمل رکھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔ جس کی جان لیوا قربت پر اُس کے دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں۔۔۔ یہ بل حائفہ کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھے۔۔۔ آژ میر نے اس پر کمبل ڈالتے اسے پوری طرح کور کر دیا تھا۔۔۔ آژ میر میر ان کا یہی مضبوط کردار ہی حائفہ کو اُس کا دیوانہ بناتا تھا۔۔۔۔ وہ اُس کی بے خبری اور تنہائی کا فائدہ اُٹھا سکتا تھا۔۔۔۔ مگر اُس نے تو حاعفہ کو اپنی نامحرم نگاہوں سے بھی ڈھک دیا تھا۔۔۔۔
” حائفہ آنکھیں کھولیں۔۔۔۔”
آژ میر نے اُسے ایک بار پھر پکارا تھا۔۔اُس کے بھاری فکر سے چور دلکش لہجے میں اپنے نام کی پکار سن کر حائفہ تو موت سے بھی اُٹھ جاتی یہ تو پھر صرف بے ہوشی کا ایک ناٹک تھا۔۔۔
حائفہ نے بنا سوچے سمجھے پٹ سے آنکھیں کھول دی تھیں۔۔ جب اسی لمحے آثر میر رخ موڑ تاڈاکٹر کو کال ملانے لگا تھا۔۔۔۔ اُس نے حائفہ کو آنکھیں
کھولتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔
بلیک تھری میں سوٹ میں ملبوس، چوڑی پشت اس کی جانب موڑے وہ فکر مندی سے ڈاکٹر کو کال کر رہا تھا۔۔۔ اس لمحے اُسے ذرا بھی اس بات کی پر واہ نہیں تھی کہ اگر کسی نے اُسے یہاں ایک تنہالڑ کی کے فلیٹ میں دیکھ لیا تو اس کا امیج کتنا خراب ہو سکتا ہے۔۔۔ اُسے اس لمحے صرف بیڈ پر ہوش و حواس سے بیگانہ لڑکی کی فکر تھی۔۔۔ جس کی پیشانی پر جماخون آژ میر
میر ان کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا تھا۔۔۔۔
نجانے کتنے ہی لمحے حائفہ اُسے دیوانہ وار نگاہوں سے دیکھتی رہی تھی۔۔۔ کوئی شخص اُسے اپنی لائف میں اتنا پیارا بھی لگ سکتا تھا اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔۔
مگر اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی تھا کہ وہ اسی پیارے شخص کو زندگی کا سب سے بڑاد ھو کادینے والی تھی۔۔۔
حاعنہ نے اپنے اندر کی کیفیت سے گھر کر کمزور آواز میں آژ میر کو پکارا
تھا۔۔۔
آژمیر اُس کی آواز پر فوراً اس کی جانب مڑ تا قریب آیا تھا۔۔۔ حائفہ آپ ٹھیک ہیں ؟ کیا ہوا تھا آپ کو ؟”
آثر میر اُس کی لال پڑتی رنگت کی جانب بغور دیکھتا اُس سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔ جس کی پیشانی پر آیا کٹ معمولی بالکل بھی نہیں تھا۔۔ حائفہ اپنا یہ
ناٹک بھی پورے دل سے کر رہی تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ آژمیر جیساذہین شخص بھی اس کے فریب کو سمجھنے میں ناکام ہو رہا تھا۔۔۔
لیکن وہیں اس کا ایک ریزن یہ بھی تھا کہ حائفہ کی نگاہوں میں آژ میر کے لیے جذبے سچے تھے۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ اُس کا اصلی چہرا نہیں دیکھ پارہا
سر وہ پیر پر چوٹ کی وجہ سے لڑ کھڑا کر گر گئی تھی۔۔۔ ماتھے پر ٹیبل سے چوٹ لگنے کی وجہ سے شاید بے ہوش ہو گئی۔۔۔۔۔
حاعفہ نے نظریں نیچی کیے مجرمانہ انداز میں اپنی فرضی بے ہوشی کا ناٹک بتایا تھا۔۔۔ کیونکہ خود پر جمیں آژمیر کی گہری نگاہیں اُسے خوفزدہ کر رہی تھیں۔۔۔ کہیں وہ اُس کی چوری پکڑ تو نہیں چکا تھا ۔۔۔ اور اگر اس کو پتا چل
جاتا کہ اس بے وقوف دیوانی لڑکی نے خود ٹیبل سے اپنا سر پھوڑا ہے تو نجانے
کیا ہوتا۔۔۔۔۔
“فرسٹ ایڈ باکس کہاں ہے؟”
آژ میر اس کی گھبراہٹ اور خوف سے سُرخ پڑتی من موہنی صورت دیکھ کر
انتہائی سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔
اٹس اوکے سر میں اب ٹھیک ہوں۔۔ میں خود ۔۔۔۔۔ جاعفہ نے جھجھک کر انکار کرنا چاہا تھا۔۔۔ مگر آژ میر کے گھورنے پر اُس کی باقی کی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی۔۔۔
اس نے خاموشی سے سائیڈ ٹیبل کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔ آژ میر دراز سے باکس نکالتا واپس اس کے قریب آیا تھا۔۔۔
حائفہ کہنیوں کے بل تکیے کے سہارے اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ اُس کا دل بُری طرح دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔ آژ میر کے چہرے پر چھائی سنجیدگی اور سرد تاثرات حائفہ کا حلق تک خشک کر گئے تھے۔۔۔ ہاتھوں پیروں کی لرزش تو ویسے بھی آخر میر میر ان کے سامنے اب عام بات ہو چکی تھی۔۔۔
” آپ کے فادر کا کیا نام ہے۔۔۔”
آژ میر بیڈ کے قریب کرسی رکھے اُس کے مقابل براجمان ہوتا اُس سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔ جبکہ متفکر سی نگاہیں اس کی پیشانی پر آئے کٹ کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔۔ آخر میر اُس سے چند قدموں کے فاصلے پر ہی تھا۔۔۔ آج پھر وہ کل کی طرح اُس کے قریب تھا ۔۔۔ حافظہ کی دھڑکنوں کا شور لمحہ بالمحہ
بڑھتا جارہا تھا۔۔۔۔
اُس کے سوال پر حائفہ کی آنکھوں میں نفرت کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔۔ جسے پلکوں کی گھنیری باڑ تلے چھیاتے وہ خشک لبوں پر زبان پھیر گئی تھی۔۔۔ اس شخص کی ایک نگاہ اس کی دنیا تہ و بالا کر جاتی تھی اور اب تو وہ اس کے سامنے بیٹھا اس کی جانب پوری طرح متوجہ تھا۔۔۔ اور یہ موقع پیدا کرنے
والی بھی وہی تھی۔۔۔
” شاکر احمد ۔۔۔۔۔”
حاعفہ نے بہت سوچ کر جواب دیا تھا۔۔۔
آپ کو ہمیشہ سے ایسے ہی چوٹیں کھانے کی عادت ہے یا یہ سب ابھی سے
سٹارٹ ہوا ہے
آژ میر نے انتہائی سکون سے بولتے لمحے بھر کو حاعفہ کے پیروں تلے سے
زمین کھینچ لی تھی۔۔۔
اُس کی بات پر حاعفہ نے جھٹکے سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ مگر وہ پورے انہماک سے روئی پر ڈیٹول لگائے اس کے زخم کے ارد گرد جما خون صاف کر رہا تھا۔۔۔
لگ کیا مطلب سر ۔۔۔۔ میں سمجھی نہیں
حائفہ کو اب محسوس ہو رہا تھا کہ آژ میر کے سامنے یہ چھوٹا سا ناٹک کر کے بھی کس بری طرح پھنس سکتی تھی۔۔۔
اس میں نہ سمجھنے والی کونسی بات ہے مس حائفہ
کل سے آپ کو دو
بار چوٹ لگ چکی ہے اور میں یہ آپ کی دوسری بار بینڈ بج کر رہا ہوں۔۔۔ اتنا مہنگاڈا کٹر ملنے پر آپ چوٹ پر چوٹ ہی لگوائی جارہی ہیں۔۔۔
آثر میر کی بات پر حائفہ کی لرزتی نگاہیں اُس پر ٹک گئی تھیں۔۔۔ بھلا اتنے سیر لیس لہجے میں کون مذاق کرتا تھا۔۔۔حاعفہ کی جان حلق کو آگئی تھی۔۔۔ لیکن آثر میر کے الفاظ کی نسبت اُس کے سنجیدہ چہرے سے اس بات کا اندازہ لگانا اب بھی مشکل تھا کہ وہ سیر لیس ہے یا مذاق کر رہا ہے۔۔۔۔ اس کی بات میں کوئی گہر اطنز چھیا تھا یا وہ یہ بات عام انداز میں ہی بولا تھا۔۔۔ اس کے چوٹ پر ڈیٹول لگانے سے حائفہ کی درد سے سسکاری نکلی تھی۔۔۔
مگر ہونٹ بھینچے وہ اپنادر دد باگئی تھی۔۔۔
آژ میر نے اُس کا یہ عمل بہت غور سے دیکھا تھا۔۔
اسے یہ کوئی عام لڑکی بالکل بھی نہیں لگی تھی۔۔۔ کچھ تو خاص تھا اس میں۔۔۔۔ آژ میر کو ہمیشہ وہ باقی لڑکیوں سے بالکل منفرد لگی تھی ۔۔۔
” آئم سوری سر۔۔۔۔۔”
حائفہ کو اُس کی بات کے جواب میں یہی کہنا ہی مناسب لگا تھا۔۔۔
سوری فارواٹ۔۔۔۔۔
آژمیر بھنویں اُٹھائے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
” وہ آپ کو تکلیف ہوئی۔۔۔۔۔” حائفہ جز بز ہوئی تھی۔۔۔
محترمہ جو لوگ اور کام مجھے تکلیف دیں میں خود کو ان سے کوسوں دور رکھنا پسند کرتا ہوں۔۔۔ اور اس کام سے بھلا مجھے کیا تکلیف ہوئی۔۔۔۔ آژمیر اس کے ماتھے پر بینڈ بیج لگانا پیچھے ہٹا تھا۔۔ اس کی بات پر حائفہ نے اُسے خفگی سے گھورا تھا۔۔۔ نرمی سے کسی بات کا جواب دینا تو شاید سیکھا ہی
نہیں تھا اس اکھٹر شخص نے ۔۔۔۔
تھینکس
حاعفہ نے دھیمے لہجے میں شکریہ ادا کیا تھا۔۔۔ جس کے جواب میں آژ میر
نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔۔۔
سر کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں ؟ ۔۔۔۔۔
حاعفہ نے ہاتھوں کی اُنگلیاں مڑور تے بامشکل جملہ ادا کیا تھا۔۔۔ کیونکہ پہلے تو اسے یہی امید تھی کہ آژمیر اُسے منع کر دے گا۔۔ اور اگر اجازت دے بھی دی تو جو بات وہ پوچھنے والی تھی اُس کا جواب ملنا بعضی مشکل تھا۔۔۔ مگر ڈانٹ ضرور پڑ جانی تھی۔۔۔
” جی فرمائیں۔۔۔۔”
آژ میر اُس کی ملازمہ کے آنے کا ویٹ کرنے لگا تھا۔۔۔ اُس کی امپورٹنٹ میٹنگ تھی۔۔۔ اُسے جلد از جلد نکالنا تھا مگر وہ حاعفہ کو یوں اکیلے چھوڑ کر بھی نہیں جاسکتا تھا۔۔۔۔
آژ میر نے موبائل پر نظریں گاڑھے بہت ہی مصروف انداز میں اُسے جواب
دیا تھا۔۔۔۔
“.. کیا آپ میریڈ ہیں۔۔۔؟”
حاعفہ نے آخر کار وہ بات پوچھ ہی لی تھی۔۔۔ جس نے نجانے جب سے اُس کے ضمیر کو ملامت کر رکھا تھا۔۔۔ اور یہ بات سوچ کر اُس کے دل میں بے چینی سی بھر جاتی تھی۔۔۔۔
آفس میں دو تین لوگوں سے پوچھنے پر بھی اُسے اس بات کا جواب نہیں ملا
تھا۔۔۔
آزمیر نے موبائل سے نظریں ہٹا کر اچھنبے سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جیسے سماعتوں پر یقین نہ کر پارہا ہو۔۔۔۔ کہ سوال حاعفہ نے ہی اُس سے پوچھا ہے۔۔۔
حائفہ اُس کے انداز پر شرمندہ سی ہوتی چہرا جھکا گئی تھی۔۔۔۔ جی میریڈ بھی ہوں۔۔۔ اور پانچ بچے بھی ہیں میرے ۔۔۔۔۔ آژ میر موبائل پاکٹ میں رکھ کر اُس کی جانب پلٹتا بھر پور سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔اُس کی بات پر حاعفہ نے ہو نقوں کی طرح اُس کی جانب دیکھا
تھا۔۔۔ اُس تو لگا تھا وہ میریڈ نہیں ہے۔۔
آژ میر کسی اینگل سے بھی اُسے پانچ بچوں کا باپ تو بالکل بھی نہیں لگتا تھا۔۔۔
حائفہ کی ہو نق شکل دیکھ آژ میر کے ہونٹوں پر محفوظ کن مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔ مگر پھر فور اسنجیدہ ہوتے وہ باہر سے آتی ملازمہ کی جانب متوجہ ہوا
حائفہ اسے اتنی جلدی واپس جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔ وہ بیڈ سے اٹھی تھی۔۔۔۔ اس کے پیر میں ابھی بھی بہت تکلیف تھی۔۔۔ وہ چند قدم ہی بڑھا پائی تھی۔۔۔ جب زور سے لڑکھڑانے کے بل دوبارہ زمین بوس ہونے کو تھی کہ آژمیر تیزی سے اُس کے قریب آتا گرنے سے پہلے ہی اُسے اپنے حصار میں لے گیا تھا۔۔۔ آژمیر کا ایک باز و حائفہ کی کمر میں حمائل تھا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے اُس نے حائفہ کی کلائی تھام رکھی تھی۔۔۔۔
حائفہ جو اس بار سچ میں منہ کے بل گرنے والی تھی آژمیر کے مضبوط لمس پر اس کا دل اچھل کر حلق میں آن پہنچا تھا۔۔۔
اُس کی بے ترتیب ہوتی سانسیں اُس کے قابو سے باہر ہوئی تھیں۔۔ آژ میر کے وجود سے اُٹھتی سحر انگیز خوشبو سے اپنے ساتھ باندھنے لگی
تھی۔۔۔ یہ لمحہ حائفہ کےلیے جاں گزیں تھا۔۔۔
” آریو او کے۔۔۔۔ آپ کو کس نے کہاں تھا وہاں سے اٹھنے کو ۔۔۔۔ آزمیر کڑے تیوروں کے ساتھ گویا ہوا تھا۔۔۔۔
وہ مم میں۔۔۔۔
حائفہ منمنا کر رہ گئی تھی۔۔۔ اُس نے آژمیر سے فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے اُس کا حصار توڑ دیا تھا۔۔۔
آژمیر نے گہری نگاہوں سے اُس کی خفت اور شرم سے لال پڑتے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
حائفہ کو آج آژ میر کے انداز کافی بدلے بدلے سے لگنے لگے تھے۔۔۔ جو وہ چاہتی تھی بالکل ویسے ہی۔۔۔۔
آژمیر اُسے واپس بیڈ پر بیٹھا تا بنا ایک لفظ بھی ادا کیے وہاں سے نکل گیا
حائفہ کی نگاہیں دروازے پر کی ٹک گئی تھیں۔۔
دودن کے اندر مجھے اس لڑکی کا سارا بائیو ڈیٹا چاہیے۔۔۔ میر گاڑی میں بیٹھتا اپنے خاص آدمی کو ہدایت دے گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@
زنیشہ ڈرائیور کے ساتھ مطلوبہ ہاسپٹل پہنچی تھی۔۔ جہاں مزمل کے مطابق آژ میر کو لایا گیا تھا۔ زنیشہ کا پور اوجود کانپ رہا تھا۔۔ اُس سے اِس وقت چلنا محال ہو رہا تھا۔۔۔
جیسے ہی ڈرائیور نے آئی سی یو کے بجائے ایک پرائیویٹ وی آئی پی روم کی جانب اشارہ کیا۔۔۔ زندیشہ کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ تشویش بھی واضح ہوئی تھی۔۔۔ اگر آخر میر کا اتناسیر میں ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو پھر اُسے
یہاں روم میں کیوں رکھا گیا تھا۔۔۔
دل میں خوف اور خدشات لیے زندیشہ باہر کھڑے گارڈ کے دروازہ کھولنے پر لرزتے قدموں سے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ اس کا پورا چہرا آنسوؤں سے
بھیگا ہوا تھا۔۔۔
مگر جیسے ہی اُس کی نظر سامنے بیڈ پر تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے وجود پر پڑی اُس
کی نگاہوں میں ہر چیز گھوم گئی تھی۔۔۔
وہاں آڑ میر تو کہیں نہیں تھا مگر ملک زوبان اپنی رعب دار پر سنیلٹی کے ساتھ پورے ماحول پر چھایا اُ سے کڑے تیوروں سے گھور رہا تھا۔۔۔
جیسے ہی ڈرائیور نے آئی سی یو کے بجائے ایک پرائیویٹ وی آئی پی روم کی جانب اشارہ کیا۔۔۔ زنیشہ کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ تشویش بھی واضح ہوئی تھی۔۔۔ اگر آژ میر کا اتناسیر میں ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو پھر اُسے یہاں روم میں کیوں رکھا گیا تھا۔۔۔
دل میں خوف اور خدشات لیے زنیشہ باہر کھڑے گارڈ کے دروازہ کھولنے پر لرزتے قدموں سے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ اس کا پورا چہرا آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔
مگر جیسے ہی اُس کی نظر سامنے بیڈ پر تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے وجود پر پڑی اُس کی نگاہوں میں ہر چیز گھوم گئی تھی۔۔۔
وہاں آژ میر تو کہیں نہیں تھا مگر ملک زوہان اپنی رعب دار پر سنیلٹی کے ساتھ پورے ماحول پر چھایا اُ سے کڑے تیوروں سے گھور رہا تھا۔۔۔
زنیشہ کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔سامنے بیٹھے زوہان کو دیکھ زنیشہ کو لمحہ لگا تھا یہ جانتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر ملک زوہان کے ہاتھوں بے وقوف بن کر خود بخود اُس کی دسترس میں پہنچ گئی ہے۔۔
زنمیشہ کا بھیگا چہراز وہان کی نگاہوں کے فوکس میں تھا۔۔۔ اُس نے ملک زوبان کی بات نہیں مانی تھی۔۔۔ جس کی اتنی سزا تو بنتی ہی تھی۔۔۔ آپ نے اتنا گھٹیا جھوٹ بول کر دھوکے سے بلایا مجھے یہاں۔۔۔۔۔ آپ لالہ کے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔۔۔۔
زنیشہ کے دل کو ابھی تک کسی صورت سکون نہیں ملا رہا تھا۔۔۔ وہ وہیں سے واپس پلٹ جانا چاہتی تھی مگر زوہان کو اُس کے اتنے گھٹیا مذاق پر بخشنے کو بھی دل نہیں چاہا تھا اُس کا۔۔۔۔ وہ زوہان کے قریب آتی طیش کے عالم میں بولی تھی۔۔۔
غصے اور شدید غم کی وجہ سے اُس کا چہرا بالکل لال ہو چکا تھا۔۔۔ پھولے نتھنوں کے ساتھ وہ زوہان کو ناراضگی سے گھور رہی تھی۔۔۔
جوا باز وہان کے تیور بھی کچھ کم خطر ناک نہیں تھے۔۔۔ زنیشہ نے اس کی بات نہ مان کر حسیب کو اُس پر ترجیح دی تھی۔۔۔ جو زوہان کے نزدیک کسی بھی طرح زنیشہ کی سیکورٹی کااہل نہیں تھا۔۔۔
صرف سوچنا تو بہت عام سی بات ہے۔۔۔۔ وقت آنے پر میں ایسا کر وا بھی سکتا ہوں۔۔
زوہان زنیشہ کا اپنے سامنے یہ نیا روپ انتہائی دلچسپی سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ جو لڑ کی اُس کے مقابل آتے تھر تھر کانپنے لگتی تھی آج وہ اپنے
بھائی کی وجہ سے اس کے آگے شیر نی بنی کھڑی تھی۔۔۔۔ زوہان کے سفاکیت بھرے جواب پر زنیشہ نے نفی میں سر ہلاتے افسوس بھری نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
ہر بار میں آپ کے اس چہرے کے فریب میں آکر دھوکا کھا جاتی ہوں۔۔۔ مگر لالہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ آپ میں انسانیت بالکل ختم
ہو چکی ہے۔۔۔ آپ کو اپنے بدلے اور انتظام سے آگے کچھ دیکھائی ہی نہیں
دیتا۔۔۔ آپ جو کچھ کر رہے ہیں ایک دن ضرور پچھتائیں گے اس پر۔۔۔۔
ز نیشہ اس وقت شدید غصے میں یہ بھول چکی تھی کہ یہی شخص تھا جس کی خاطر کل وہ آژ میر کے سامنے آنسو بہاتی اُسے بے حس قرار دے رہی تھی۔۔۔ اور آج وہ آژ میر کی خاطر زوہان سے لڑرہی تھی۔۔۔ یہی اصل حقیقت تھی زنیشہ میر ان کی ، اس کے لیے وہ دونوں ہی بہت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ مگر ا س نے یہ بات آج تک اپنے آپ سے بھی اُس پوشید ہ ر کھی ہو ئی تھی۔۔
ز نیشہ اُسے غصے سے بولتی وہاں سے پلٹی تھی۔۔۔ جب زوہان تکیے کے سہارے بیڈ پر پوری طرح اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔ اس کے کندھے پر گولی لگی تھی۔۔۔ اس لیے اُس حصے کو ہلانا بھی محال تھا۔۔۔ سیدھا ہونے پر اس کے کندھے پر دباؤ آیا تھا۔۔ درد کی وجہ سے زوبان کے منہ سے ہلکی سی کراہ نکلی تھی۔۔۔۔
جو وہاں سے جاتی زندیشہ کے کانوں میں پڑتی اُس کا دل بے چین کر گئی تھی۔۔۔
ز نیشہ ایک جھٹکے سے پلٹی تھی۔۔ اور زوہان کو تکلیف میں دیکھ بھاگ کر قریب آئی تھی۔۔۔۔ کندھے ہلانے کی وجہ سے زخم پر لگی بینڈ پیج پر خون کے نشانات واضح ہوئے تھے ۔۔۔
آپ ٹھیک ہیں ؟ آپ کو درد ہو رہا ہے میں ڈاکٹر کو بلاؤں ؟ آپ کو گولی لگی ہے تھوڑی دیر کے لیے تو سکون سے بیٹھ جائیں۔۔۔
زنیشہ اُسے ڈپٹتے ہوئے خفگی سے بولی تھی۔۔۔ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ خود کو تکلیف پہنچاناز وہان کا سب سے پسندیدہ عمل تھا۔۔۔۔
زنیشہ ابھی چند سیکنڈز پہلے بولے جانے والے اپنے الفاظ بھلائے فکر مندسی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔
اتنی دیر میں اُسے اب خیال آیا تھا کہ زوبان کو گولی لگی تھی۔۔۔ جو اُس نے کل آژ میر کو بچاتے ہوئے ہی کھائی تھی۔۔۔
پھر بھلاوہ اُس شخص کو کیسے نقصان پہنچا سکتا تھا جس کے لیے اُس نے اپنا خون
بہایا تھا۔۔۔۔
آپ پلیز اس کندھے پر زور مت دیں۔۔۔۔ آپ کا خون نکل رہاہے۔۔۔۔ اس طرح زخم مزید خراب ہو جائے گا۔۔۔ زنیشہ بے دھیانی میں اس کے قریب آن کھڑی ہوتی اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے پر یشانی زدہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔
مگر سامنے بیٹھاد نیا کا ضدی ترین شخص ملک زوہان تھا۔۔۔ زنیشہ کی التجا کو کسی کھاتے میں ڈالا ہی نہیں تھا۔۔۔ کیونکہ اس کے کانوں میں ابھی تک زنیشہ کی کچھ دیر پہلے کی کہی باتیں ہی گھوم رہی تھیں۔۔۔
نیوی بلو شیفون کے ہم رنگ دھاگوں کی کڑھائی سے مزین ڈریس پہنے وہ ہمیشہ کی طرح پاکیزگی کی مورت اپنے معصوم حسن سے ملک زوہان کو
گھائل کرنے کے لیے تیار تھی۔۔۔
زوہان اُسے خود سے دور جھٹکنا چاہتا تھا مگر کوشش کے باوجود ایسا نہیں کر پایا
تھا۔۔۔
زنیشہ کی کسی بھی بات کا جواب دیئے بناوہ غصے اور خفگی سے لال ہوئی اپنی
آنکھیں اُس پر گاڑھے ہوئے تھا۔۔۔
زنیشہ نے اس کی آگ اگلتی نگاہوں کی تپیش پر گھبراکر دور رہنا چاہا تھا۔۔۔ مگر اس سےپہلے اس کا رادہ جانے وہاں اسکی کلائی گرفت میں لیتا
اُسے اپنی جانب کھینچ دیکھا تھا۔۔۔۔
زنیشہ اس حملے کے لیے قطعاً تیار نہیں سینے سے فکر آئی تھی۔۔
تھی ۔۔ سیدھی اس کے چوڑے سینے آ ٹکرائی تھی۔
کیا کہا تم نے ؟ انسانیت نہیں ہے مجھ میں ؟؟۔۔۔۔ آژمیر میر ان کا زندہ ہو نا اور میر ان پیلس کے باسیوں کا سکون سے زندگی گزار نامیرے اندر ابھی بھی باقی انسانیت کا ثبوت ہی ہے۔۔۔اگر انسانیت ختم ہو جاتی تو تمہارا خاندان اور تمہارے لوگ نجانے کب کے ختم ہو چکے ہوتے۔۔۔۔
اور رہی بات آگے جا کر پچھتانے کی تو میرے پاس، میری زندگی میں کچھ ایسا ہے ہی نہیں جسے کھو کر مجھے پچھتانا پڑے۔۔۔
زوہان بڑے ہی سفاکانہ انداز میں اُس کے اندر پنپتی معمولی سی خوش فہمی بھی
مٹی میں ملا گیا تھا۔۔۔
زوبان کی گرفت اس کی کلائی پر اتنی مضبوط تھی کہ زنمیشہ کو اس کی انگلیاں
اپنی جلد میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔
آپ کا زخم مزید خراب ہو جائے گا پلیز ایسے مت کریں۔۔۔۔ زنیشہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔۔۔ وہ اس کی گرفت سے کلائی آزاد کروانے کی ناکام کوشش کرتی زوبان کی جانب دیکھنے سےگریز بر تتی منمنائی تھی۔۔ اُسے اس وقت اپنی تکلیف سے زیادہ زوہان کی فکر ہو رہی تھی۔۔۔۔ اوپر سے زوہان کی نزدیکی الگ اُس کے حواس باختہ کیسے دے رہی تھی۔۔
زوہان کا چہرا اُس کے چہرے سے زیادہ دور نہیں تھا۔۔۔اُس کی گرم سانسیں زنیشہ کا چہرا جھلس رہی تھیں۔۔۔
مگر زوہان کا اس وقت نہ خود پر نہ ہی اس پر رحم کرنے کا کوئی موڈ تھا۔۔۔۔ زنیشہ میران بند کرو یہ فضول کا دکھاوا۔۔۔ میں اچھے سے سمجھتا ہوں میری تکلیف سے تم لوگوں کو کتنا فرق پڑتا ۔۔۔ تم لوگوں کے بس میں ہو تو ایک لمحے کی دیر کیسے بنا میری سانسیں روک دو۔۔۔ زوہان کو ز نیشہ کا یوں اپنی تکلیف پر آنسو بہانا مزید طیش دلا گیا تھا۔۔۔اس لیے وہ مزید بر ہمی سے بولتاز نیشہ کو مزید سہا گیا تھا۔۔
زنیشہ اس کے قریب تقریباً جھکی ہوئی تھی۔۔۔ اُس کا آدھا وزن زوبان کے زخمی کندھے پر تھا۔۔۔ جہاں سے نکلتا خون تکیے پر پھیل رہا تھا۔۔ زوہان کی آنکھیں تکلیف کے احساس سے لال ہو چکی تھیں۔۔۔ مگر اس درد میں بھی ایک عجیب سا سرور مل رہا تھا اُ سے۔۔۔۔
وہ سب آپ کے بھی کچھ لگتے ہیں۔۔۔ اُن میں سے کوئی آپ کا دشمن نہیں ہے۔۔۔۔ آپ خود بر باد کرنا چاہتے ہیں اپنے ہی خاندان کو۔۔۔۔ کیا بگاڑا ہے لالہ نے آپ کا۔۔۔۔ کیوں کرتے ہیں ان سے اتنی نفرت۔۔۔ اور باقی سب کے ساتھ بھی۔۔۔ کیوں ہر ایک کو خود سے دور کر کے اپنادشمن بنا رہے ہیں۔۔۔
اور میرے یہ آنسو آپ کو دکھا وا لگتے ہیں۔۔۔ کیا واقعی آپ جو بول رہے ہیں۔۔۔ آپ ایسا ہی ہیں۔۔۔ آپ کو میرےچہرے کی یہ تکلیف
صرف ایک ڈرامہ لگتی ہے۔آپ تو میری سوچ بے حس نکلے ہیں۔۔۔ آپ جو یہ سب میرے ساتھ کر رہے ہیں۔۔۔ یاد رکھیئے گا زندگی میں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔ زنیشہ بھی مزاحمت ترک کرتی اُس کی جانب دیکھتی خفگی بھرے لہجے میں بولتی آخر میں روہانسی ہوئی تھی۔۔۔اُس کی نرم گرم سانسیں زوہان کے
چہرے سے ٹکراتیں اُس کے ہمیشہ کے لیے دل میں دفن کیسے جذبات کو جگانے لگی تھیں۔۔۔
میری زندگی کی سب سے قیمتی ہستی چھینی ہے انہوں نے مجھ سے ۔۔۔۔کیسے چھوڑ دوں انہیں میں۔۔۔۔ اُنہیں بھی وہ تکلیف برداشت کرنی ہوگی جو انہوں نے مجھے دی ہے۔۔۔۔
اگر میرے لیے تمہاری یہ فکر دیکھا وا نہیں ہے تو پھر مانو گی میری بات۔۔۔ وعدہ کرتا ہوں۔۔۔ کبھی خود کو تکلیف نہیں پہنچاؤ گا۔۔۔ ہمیشہ زنیشہ کے وجود کو جھٹلانے والا اس وقت اُس کی زرا سی قربت اور توجہ پر موم کی طرح پچھلتا اپنے اوپر چڑھایا گیا بے حسی کا خول اتارتے انتہائی نرمی سے بولا تھا۔۔۔
ز نیشہ اُس کی نگاہوں میں بدلتے جذبات کا رنگ دیکھ ٹرانس کی کیفیت میں سر اثبات میں ہلا گئی تھی۔۔۔۔
میری بیوی بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میری دسترس میں آجاؤ۔۔۔۔
زوہان نے ایک بار پھر زندیشہ کے سامنے زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ رکھ
دیا تھا۔۔۔۔
زوہان کی بات پر زنیشہ کا طلسم ٹوٹ گیا تھا۔۔۔ زوہان کے قریب جانے کا مطلب تھا اپنے پورے خاندان اور خاص کر ژ میر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دینا۔۔۔۔ جو کہ وہ مر کر بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
زنیشہ بنا کچھ بولے زوبان کی ڈھیلی پڑتی گرفت سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔ زوہان کی اس بات نے اس کے زخمی دل کو مزید لہو لہان کر دیا تھا۔۔۔۔ بہت مشکل سے سنبھالا دل ایک بار پھر ٹکڑوں میں بکھر گیا تھا۔۔۔۔ میران حویلی کا ہر شخص منافقت کر کے اُس کا الزام میرے سر ڈال دیتا ہے۔۔۔ میں کم از کم اپنے جذبات میں کلیئر تو ہوں نا۔۔۔۔ نفرت بھی سرِ عام کرتا ہوں اور محبت بھی۔۔۔۔ دوغلا پن نہ میں نے سیکھا ہے اور نہ ایسے
“لوگ مجھے پسند ہیں۔۔۔۔
زوبان ہو نٹوں پر تلخ مسکراہٹ سجائے زنیشہ کو مزید شر مندہ کر گیا تھا۔۔۔
آپ کے کندھے سے بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے۔۔۔۔ زنیشہ اس کی تلخ ترین باتوں کو خاموشی سے پیتی۔۔۔ بے حد پریشانی سے اُس
کی خون آلود بینڈ بیج کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
تم جا سکتی ہو یہاں سے۔۔۔۔ باہر ڈرائیور موجود ہے تمہیں تمہاری یونی ڈراپ کر دے گا۔۔۔۔
زوہان نے ہونٹ بھینچتے اُسے کی جانب سے رخ موڑ لیا تھا۔۔۔۔ زنیشہ نے دکھ بھری نظروں سے اس دنیا جہان کے سنگدل شخص کی جانب
دیکھا تھا۔۔۔ جو اسے اپنے قریب لاتا بھی خود تھا اور پھر اتنی ہی بے دردی سے خود سے دور بھی کر دیتا تھا۔۔۔
زنیشہ آنکھوں میں نمی بھری وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ جتنی دیر وہاں رکتی، جانتی تھی زوبان اتنی دیر ہی خود کو اس تکلیف میں رکھتا۔۔۔۔۔
اُن دونوں کا قریب رہنا ہی ایک دوسرے کے لیے ہی تکلیف کا باعث تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@
بیلا انسان بنو۔۔۔ اگر پکڑے گئے تو اس فضول انسان نے چھوڑنا نہیں ہے “
“ہمیں۔۔۔۔
ماورا اُسے مسلسل باز رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ بیلا اور ماور ادونوں ہمیشہ سے کرائم پارٹنر رہی تھیں۔۔۔۔ اکثر ہاسٹل میں بھی لڑکیوں کو لڑکا بن کر ڈرانے اور اسی طرح کی الٹی سیدھی حرکتوں میں ملوث رہتی تھیں۔۔۔
ماورا نے کبھی اُسے نہیں روکا تھا۔۔۔ بلکہ ہمیشہ دونوں برابر کی شریک رہی تھیں۔۔۔۔۔ مگر اس بار معاملہ منہاج درانی کا تھا۔۔۔اسی لیے
ماور ااس سے مزید کوئی بھی پنگا لینے سے گھبرا رہی تھی۔۔۔
ماورا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ تم آؤ تو سہی۔۔۔ابھی اِس منہاج درانی کے دانت اندر اور زبان باہر کرواتے ہیں۔۔۔۔
بیلا کی بات پر ماورا کی نظر اپنے دوستوں کے ساتھ کسی بات پر قہقہ لگاتے منہاج پر پڑی تھی۔۔۔ جس کی بانچھیں آج پہلے سے بھی زیادہ کھلی ہوئی
تھیں۔
اُس کو مصیبت اور اذیت میں مبتلا کر کے وہ خود بھلا اتنے سکون میں کیسے رہ سکتا تھا۔۔ ماورا اس خیال کے آتے ہی بیلا کو روکنے کے بجائے اُس کے ساتھ ہولی تھی۔۔۔
” اے چھوٹو ادھر آؤ۔۔۔۔”
بیلا نے کیفے ٹیریا کے اندرونی حصے میں آکر پلڑ کے پیچھے کھڑے ہوتے کیفے کے ہر دل عزیز ویٹر کو آواز لگائی تھی۔۔۔ وہ عمر اور قد دونوں میں بہت چھوٹا تھلاس لیے سب اُسے اسی نام سے پکارتے تھے۔۔۔ وہ بناٹپ لیے کسی کا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔۔۔ مگر اُس کا کام اتنا پر فیکٹ ہوتا تھا کہ پر ہر کوئی اُسے ہی کام کہتا تھا۔۔۔
وہ کسی کی بھی خاطر کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوتا تھا۔۔۔ بس ٹپ ذرا بھاری
ہونی چاہئے تھی۔۔۔
جی بی بی جی کیسے یاد کیا اس با کمال چھوٹو کو۔۔۔ کیا چائے چاکلیٹ کافی “
” سٹار نگ سی چائے یا پھر ۔۔۔
چھو ٹو عادت کے مطابق اپنی خدمات کے بارے میں آگاہ کرتا نان سٹاپ بولنا
شروع ہو چکا تھا۔۔۔
” جمال گھوٹا۔۔۔ اور کڑک سی لال مرچوں کا پیکٹ
ماور انے اُس کی بات وہی کاٹتے اپنی ڈیمانڈ ز بتائی تھیں۔۔۔ جس پر جہاں بیلا شرارتا مسکرائی تھی۔۔۔ وہی چھوٹو نے بھی مشکوک انداز میں اپنی آنکھیں گھمائی تھیں۔۔۔
یہ تمہاری ٹپ۔۔۔۔ اگلے دس منٹ کے اندر یہ دونوں چیزیں کافی میں مکس کر کے یہ سپیشل کافی اس ٹیبل پر بیٹھے منہاج درانی کو پلا دو۔۔۔۔
ماورا کی خونخوار نگاہیں منہاج کے مسکراتے وجیہہ چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔۔
چھوٹو کی تو ماورا کی جانب سے بڑھائی گئی نوٹوں کی گڈی دیکھ کر ہی نیت بدل گئی تھی۔۔۔۔
بی بی جی آپ فکر ہی مت کریں۔۔۔۔ اور آرام سے اپنی سیٹ پر بیٹھ کر میرے کمالات دیکھیں۔
چھوٹو ان دونوں کو تسلی دلاتا اپنی جیب بھاری کرتا اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@
حائفہ بیڈ پر ہی آنکھیں موندے لیٹی تھی۔۔ جب موبائل کی بیل کی آواز نے اُس کی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی ۔۔۔
آژ میر میر ان کے خیالوں میں ڈوبی حائفہ کا طلسم ٹوٹا تھا۔۔۔۔وہ چونک کر موبائل کی جانب متوجہ ہوتی کال اٹینڈ کر گئی تھی۔۔۔ کیونکہ دوسری جانب
نگینہ بائی تھی۔۔۔ جس کا فون وہ اگنور نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
حائفہ آج پھر تمہارا باپ آیا تھا تمہاری ماں اور تم دونوں کا پوچھنے۔۔۔ میں نے ہمیشہ کی طرح تمہارا کہا جواب دوہرادیا۔۔۔ کہ تم لوگ کو ٹھے سے فرار
ہو چکی ہو ۔۔۔ اور اب تک کوئی پتا نہیں چل پا رہا۔
حال احوال کے بعد نگینہ بائی نے اسے اپنے فون کرنے کا ریزن بتا یا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی بات سنتے ایک آنسو بے مول ہو کر اُس گال پر پھسل گیا تھا۔۔۔
بہت اچھا کیا آپ نے۔۔۔ شکریہ ۔۔۔۔
حائفہ کو اپنے حلق میں کا نٹے سے چھبتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔ آج بھی اپنے باپ کے بارے میں نہیں پوچھو گی۔۔۔۔ کون ہے ؟ کیا نام
ہے اُس کا ؟؟
نگینہ بائی کو ہمیشہ سے حائفہ کی اپنے باپ کے متعلق برتے جانے والی یہ لاپر واہی کھٹکتی آئی تھی۔۔۔ ہر سال وہ درمیانی عمر کا بار عب شخصیت کا مالک شخص آنکھوں میں اُمید جگائے آتا تھا۔۔۔ اور ہر بار حائفہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیتی تھی۔۔۔ بنا اس کی ایک جھلک دیکھے۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ وہ انسان میرے لیے زندگی میں سب سے زیادہ نفرت کا باعث ہے۔۔۔ میری ماں کا گنہگار۔۔۔ میں کبھی معاف نہیں کروں گی اُسے۔۔۔ ایک بزدل شخص کو میں اپنے باپ کے رُوپ میں قبول نہیں کر سکتی۔۔۔ حاعفہ نے بے دردی سے گالوں پر لڑھک آئے آنسو صاف کرتے جواب دیا تھا۔۔۔
اور اگر ماورا نے کبھی اپنے باپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو ۔۔۔۔۔ کیا
اسے بھی رو کو گی۔۔۔۔
نگینہ بائی اپنی جانب سے پوری طرح سے تسلی کرنا چاہتی تھیں۔۔۔ کیونکہ آج حائفہ کے باپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اُس کی شان و شوکت کا اندازہ تو وہ لگا چکی تھیں۔۔۔ اگر اس شخص کو پتا چل جاتا کہ اس کی بیٹیاں کیسی
گزار رہی ہیں تو اس نے کوٹھے میں آگ لگانے میں ایک لمحہ نہیں لگانا تھا۔۔۔
اس کو ٹھے نے اس کی بیٹیوں کو پناہ تو دی تھی۔۔۔۔ مگر اُن کا وجود ہر پل جلتار ہا تھا۔۔۔
اُس کا مداوا کرنا ان کے باپ کے بس میں نہیں تھا۔۔۔۔
وہ ایسا کبھی نہیں کرے گی۔۔۔اگر اُس نے ایسا کیا تو پہلے اسے مجھ سے اپنا ناتا توڑ نا ہو گا۔۔۔۔
نرم مزاج کی حائفہ اپنے باپ کے نام پر ایک دم پتھر ہو جاتی تھی۔۔۔ماورا پر وہ جان چھڑکتی تھی ، اس کی ہر خواہش سر آنکھوں پر رکھتی تھی۔۔۔ مگر اس معاملے میں وہ ماورا کو کسی قسم کی چھوٹ نہیں دینے والی تھی۔۔۔
نگینہ بائی اچھی طرح تسلی ہو جانے کے بعد فون رکھ گئی تھی۔۔۔ وہ ماورا کو بھی اچھے سے جانتی تھی کہ وہ مر سکتی تھی مگر حائفہ کے خلاف کسی قیمت پر نہیں جاسکتی تھی۔۔۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
چھوٹو ان دونوں کی جانب ایک نظر دیکھ کر منہاج کے ٹیبل کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ جہاں ابھی کچھ دیر پہلے انہوں نے کافی ہی آرڈر کی تھی۔۔۔ ایک مخصوص کپ منہاج کے آگے رکھتے وہ باقی سب کے آگے بھی کافی رکھنے لگا تھا۔۔۔
چھوٹو کام اتنی پھرتی سے کر رہا تھا کہ اگر اُن دونوں کو پتا نہ ہوتا تو وہ لوگ بھی چھوٹو کی ایکٹنگ سے کچھ سمجھ نہ پاتیں۔۔۔
منہاج نے باتوں میں مصروف کپ اُٹھاتے ہو نٹوں سے لگایا تھا۔۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ گھونٹ بھرتا کال آجانے کی وجہ سے وہ کافی واپس ٹیبل پر رکھتا
کچھ فاصلے پر ہو تا کال سننے لگا تھا۔۔۔
اُف یہ کال کیوں آگئی بیچ میں۔۔۔ اچھا بھلاوہ پینے لگا تھا۔۔۔ بیلا اور ماور اپور ی توجہ سے منہاج کو گھور میں اُس کے فارغ ہونے کا ویٹ کر رہی تھیں۔۔ اور ساتھ ہی اُن کی ایک آنکھ کافی پر بھی تھی۔۔۔ فون پر بات کرتے منہاج کی نظر ان دونوں پر پڑی تھی۔۔۔ اُس نے سن گلاسز لگائی ہوئی تھیں۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ دونوں سمجھ نہیں پائی تھیں۔۔ کہ منہاج اُن کی جانب دیکھ رہا ہے یا پھر کہیں اور ۔۔۔
ہائے گائز۔۔۔ واٹس اپ ۔۔۔۔
وہ دونوں منہاج کے دیکھنے پر نظریں جھکا گئی تھیں ۔۔۔ جب اپنے ٹیبل کے قریب انہیں جاسم کی آواز سنائی تھی۔۔۔
جو بڑے ہی خوشگوار انداز میں ان دونوں سے ہی مخاطب تھا۔۔۔
جاسم یونی کے اندر منہاج کا سب سے بڑا دشمن تھا۔۔۔ دونوں کے گروپس کے در میان اکثر جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔۔۔
بیلا کا دماغ پھر سے اُلٹا چلنے لگا تھا۔۔۔ منہاج کو ادھر ہی دیکھتا پا کر اس نے انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے جاسم کو بیٹھنے کی آفر کی تھی۔۔۔۔۔۔ ماورا نے اُسے سختی سے گھورا تھا۔۔۔ کیونکہ یونیورسٹی میں جاسم کی رپوٹیشن کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔۔۔ اور ماور انے ہمیشہ اُسے اپنی جانب پسندیدگی بھر کی نگاہوں سے دیکھتے ہی پایا تھا۔۔۔ جو بات اسے کوفت میں مبتلا کر دیتی تھی۔۔۔
جاسم کے لیے تو بیلا کی جانب سے کی آفر کسی غنیمت سے کم نہیں تھی۔۔۔
وہ ہونٹوں پر جاند از مسکراہٹ سجاتا براجمان ہوا تھا۔۔۔
یہ منظر صاف صاف دیکھتا منہاج درانی آگ کی لپیٹ میں آتا جل بھن اُٹھا تھا۔۔۔ جس طرح جاسم ماورا کو گھور رہا تھا۔۔۔ منہاج کا دل چاہا تھا اس کی یہ آنکھیں نوچ کر اس کے گلے میں پہنا دے۔۔۔
منہاج ایک سخت ترین نگاہ ناپسندیدہ منظر پر ڈال کر فون بند کرتا واپس اپنی کرسی پر آن بیٹھا تھا۔۔۔
اُس کی کافی جوں کی توں پڑی تھی۔۔۔
کچھ دیر کافی کو گھورنے کے بعد ۔۔۔ منہاج نے چھوٹو کو آواز لگائی تھی۔۔۔
“جی سرجی۔۔۔۔”
چھوٹو بھاگتا ہوا اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔ اُسے ہمیشہ سب سے زیادہ ٹپ منہاج سے بھی تھی۔ اس لیے وہ اسکا کا م سب سے زیاد ڈور ڈور کر
کرتا تھا۔۔۔
یہ کافی ٹھنڈی ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے دوسری لا کر دو۔۔۔۔’
منہاج کی بات پر وہ جز بز ہوا تھا۔۔۔
” سر جی یہی دوبارہ گرم کر کے لادوں۔۔۔۔”
چھوٹو کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے۔۔۔
کیوں چھوٹو ایسا کیا خاص ڈالا اس میں میرے لیے۔۔۔۔ جو یہی پلانا چاہتے
ہو مجھے۔۔۔
منہاج پاکٹ سے سیگریٹ نکالتے چھوٹو کو گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ جاسم کو ماورا کے بالکل سامنے بیٹھا دیکھ منہاج کے اندر جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔ اُسی کیفیت پر قابو پانے کے لیے اس نے سیگریٹ کا سہارا لیا تھا۔۔۔ چھوٹو مجھے دوبارہ ڈبل کر اس کرنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔ اب یہ کافی اٹھاؤ اور گرم کر کے اس ٹیبل پر بیٹھے اس گھٹیا شخص کو دےآؤ۔۔۔ منہاج سیگریٹ کا دھواں اُڑاتا چھوٹو کو تنبیہی بھری نگاہوں سے دیکھتے آئندہ
ایسی کوئی بھی حرکت کرنے سے وارن کر گیا تھا۔۔۔
اُسے شک تو اُسی وقت ہو گیا تھا جب اُس نے ماورا اور بیلا کو کنگ ایریا سے نکلتے دیکھا تھا، پھر چھوٹو کا سپیشل ایک کپ اٹھا کر اس کے سامنے رکھنا، ان دونوں کو اپنی جانب پوری توجہ سے گھورتے دیکھنا۔۔۔ منہاج کو اچھی طرح
ان کی شرارت سمجھا گیا تھا۔۔۔۔۔
Share with Your Friends on Facebook
1 Comment
Add a Comment