Haifa and Zanisha Novel Part 8 – Bold Urdu Novel | Read Online & Download PDF


Bold Urdu Novel The story of Haifa and Zanisha continues in Part 8, bringing intense emotions, bold romance, and unexpected twists. If you love bold Urdu novels with deep storytelling and suspense, then this novel will keep you hooked till the end!

For those who enjoy offline reading, you can also download the PDF version and read it anytime.

Bold Urdu Novel

Bold Urdu novel read online

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 7

اُن کی شرارت سمجھا گیا تھا۔۔ جس کی تصدیق بھی چھوٹو کر کے جاچکا
تھا۔۔۔
وہی کافی اب جاسم کے آگے رکھ دی گئی تھی۔۔۔ جاسم کی وجہ سے اُن دونوں کا دھیان منہاج کی کافی سے ہٹ گیا تھا۔۔۔وہ کافی کا بی ردو بدل
نہیں دیکھ پائی تھیں۔۔۔
جاسم اِس وقت ہواؤں میں اُڑ رہا تھا کیونکہ کبھی ایک نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھنے والی ماورا کے مقابل بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔۔۔
اپنی اسی خوشی کے زیر اثر وہ سامنے پڑی کافی اٹھا ا ہو نٹوں سے لگا گیا تھا۔۔۔ جب دو گھونٹ بھرنے پر ہی اُس کی حالت ایسی خراب ہوئی تھی۔۔۔ جیسے
زہر پلا دی گئی ہو ۔۔۔
ماورا اور بیلا سے بُری طرح کھانستے اور خطرناک حد تک لال پڑتا چہرا دیکھ
پریشان ہو ئی تھیں۔۔۔
جبکہ منہاج کے دل میں سکون اُتر گیا تھا۔ اُس نے آدھ جلے سیگریٹ کو زمین
پر پھینک کر پیر کے نیچے مسل دیا تھا۔۔۔
ماورا کو جاسم کی حالت سے خوف آنے لگا تھا۔۔۔ اُسے شاید مرچوں سے الرجی تھی اور مرچوں سے بھری کافی اُس کی یہ حالت کر گئی تھی۔۔۔ ماورا نے اُٹھ کر اس کے قریب جاتے پانی کا گلاس تھما یا تھا۔۔۔ باقی سٹوڈنٹس بھی ان کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔۔۔
گلاس تھامتے جاسم کا ہاتھ ماورا کے ہاتھ سے میچ ہوا تھا۔۔۔ جو دیکھتے منہاج تو جیسے غصے سے پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔ اس کی بیوی کو بھلا کوئی اور شخص کیسے
چھو سکتا تھا۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اُٹھتا طیش کے عالم میں ماورا کے سر پر پہنچا تھا۔۔۔اور اُسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر ۔۔۔ کلائی سے پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچتے وہاں
سے نکل گیا تھا۔۔۔ ماورا اہ کا بکا سی منہاج کا یہ جارحانہ عمل دیکھے گئی
تھی۔۔۔
باقی سب نے بھی منہاج کی یہ حرکت کافی غور سے دیکھی تھی۔۔ بیلا سمجھ گئی تھی کہ منہاج اُن کے پلان سے واقف ہو چکا ہے۔۔۔ اور یہ شاید اسی کا
رد عمل تھا۔۔
وہ ماورا کو اُس سے بچانے جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر جاسم کی حالت دیکھ وہ ایسا
نہیں کر پائی تھی۔۔۔
@@@@@@@@
منہاج ماورا کے مزاحمت کرنے، چیخنے چلانے کے باوجود اپنے ساتھ گھسیٹتا
یونی کے قدرے سنسان حصے کی جانب لے آیا تھا۔۔ جہاں لائن میں موجود
،
درختوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔۔۔ وہاں سیمنٹ کے سنگی بینچ بھی بنائے گئے تھے ۔۔۔ مگر سٹوڈنٹس اس ایریا میں کم ہی پائے جاتے تھے۔۔۔ یہاں
زیادہ تر یونی کے کپلز کا ہی آنا جانا لگارہتا تھا۔۔۔
کچھ سٹوڈنٹس نے تو اسے “لو پلیس ” کا نام دے دیا تھا۔۔۔
اس وقت وہاں کوئی اکاد کا کمپلز ہی نظر آرہے تھے۔۔ جو آپس میں مگن اُن کی
جانب بالکل بھی متوجہ نہیں تھے۔۔۔
یہ کیا بد تمیزی آتے ہو۔۔۔
؟ تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو۔۔۔؟ جب دل چاہتا ہے “
لے آتے ہو سب کے بیچ سے ایسے گھسیٹ کر
منہاج نے اُسے درخت کے پاس لا پٹخا تھا۔۔ ماورا کی کمر بہت زور سے درخت کے موٹے تنے سے ٹکرائی تھی۔۔۔ جس کی تکلیف اور منہاج کی اس دھونس بھری حرکت پر وہ آگ بھگولا ہوتی چلائی تھی۔۔۔ بد تمیزی یہ نہیں وہ ہے جو تم کر رہی تھی۔۔۔۔ اتنا شوق کیوں ہے تمہیں ہر وقت غیر مردوں کو اپنے ارد گرد گھیرے رکھنے کا۔۔۔۔ منہاج آگ اگلتی سرخ نگاہوں سے اُسے گھورتا اُس سے چند قدموں کے
فاصلے پر آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔
کیونکہ میں ایک طوائف ہوں۔۔۔۔ اور ایک طوائف یہی تو کرتی “
ہے۔۔۔۔ اُس کے دن اور راتیں نا محرم مردوں کے لیے ہی تو ہوتی
ہیں۔
ماور از ہر خند لہجے میں بولتی منہاج درانی کو اندر باہر سے جھلسا گئی تھی۔۔۔
” بکواس بند کر واپنی۔۔۔۔”
منہاج اُس کا جبڑا سختی سے دبوچتے اُسے خون آلود نظروں سے گھورا
تھا۔۔۔
تکلیف کے احساس سے ماورا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔ تم میری بیوی ہو۔۔۔ منہاج درانی کی بیوی۔۔۔ اگر دوبارہ ایسی بکو اس کی۔۔۔ یا کسی ایرے غیرے کے قریب نظر آئی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔ میرے رد عمل کی زمہ دار تم خود ہو گی۔۔۔۔
منہاج کی آنکھیں بے انتہا لال ہو چکی تھیں۔۔۔ماور اکا پل بھر کے لیے اُس
سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔
اچھا۔۔۔ تو کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کے میں تمہاری بیوی ہوں۔۔۔وہ جلا ہوا نکاح نامہ ۔۔۔۔ تم نے مجھے تکلیف دینے کے لیے اس نکاح کا کھیل رچایا۔۔۔ مگر یہ بھول گئے کہ ایک طوائف کے نزدیک ایسی حد بندیوں کی
” کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔۔۔۔
ماورا اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹاتی جو ابا اسی کو ہی تلخ حقیقت سے آگاہ کر گئی
تھی۔۔
منہاج نے سختی سے ہونٹ بھینچتے بہت مشکل سے خود کوئی انتہائی قدم
اُٹھانے سے روکا تھا۔۔۔
وہ اس زخمی شیرنی کو جتنی تکلیفوں سے دو چار کر چکا تھا۔۔۔ اُس کا ایسار د عمل
عام سی بات تھی۔۔۔
” کیوں کر رہی ہو یہ سب ؟”
منہاج نے خود کو حتی الامکان نارمل رکھتے انتہائی متحمل سے یہ سوال کیا
تھا۔۔۔
کیا کیا ہے میں نے ؟؟ .. تم ہر بار تکلیف دیتے ہو مجھے۔۔۔” ماورا بھی شاید چیخ چلا کر تھک گئی تھی۔۔وہ بھی جو ا با کمزور لہجے میں بولی
تھی۔۔۔
مجھے سے میرا سکون چھینا ہے تم نے۔۔۔ نہ تم سے محبت قائم رکھنا چاہتا
” ہوں۔۔۔ اور نہ ہی نفرت کر پار ہا ہوں ۔
منہاج نے بے تاثر انداز میں بولتے ماورا کے دل کے کئی ٹکڑے کیے
تو کیوں باندھ کر رکھا ہوا ہے مجھے اپنے ساتھ ۔۔۔ چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔اور “
” میری اذیت بھی کم کر دو۔۔۔
مادرانم آلود نگاہوں سے سامنے کھڑے بے حس، احساس سے عاری، سنگدل شخص کی جانب دیکھتے بولی۔۔ جس نے محبت تو کر لی تھی۔۔۔۔ مگر
ظرف کے معاملے میں بہت چھوٹا نکلا تھا۔۔۔
ایسا تو میں کبھی نہیں کروں گا۔۔۔ تم ساری زندگی ایسے ہی میرے ساتھ جڑی رہو گی۔۔۔ اور اگر کسی غیر مرد کے قریب جانے کی کوشش کی تو میرے ہاتھوں بیچ نہیں پاؤ گی ۔۔۔۔
منہاج واپس اپنی اسی ضد پر اڑ چکا تھا۔۔۔ وہ اُسے وارن کرتا واپس پلٹا
تھا۔
جب اور ا اس کی بات کے جواب میں مزید غصے سے بھڑکتی اس کے سامنے آتی اس کا گریبان دونوں مٹھیوں میں دبوچ گئی تھی۔۔۔
تم سمجھتے کیا ہو خود کو ۔۔۔۔؟؟؟ تم چاہے جتنی ۔۔۔۔۔ وہ دونوں جس جگہ کھڑے تھے وہاں مٹی کا ڈھیر تھا۔۔ ماورا کی بات ابھی منہ میں ہی رہ گئی تھی ۔۔۔ جب اس کا پیر گیلی مٹی سے سلپ ہوا تھا۔۔۔ شاید ا بھی کچھ دیر پہلے ہی یہاں پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا تھا۔۔
اُس نے منہاج کا گریبان مزید مضبوطی سے تھاما تھا۔۔ منہاج نے اُسے سلپ ہوتے دیکھ سنبھالنا چاہا تھا۔۔۔ مگر زرا سا آگے قدم بڑھانے پر وہ خود کو بھی سلپ ہونے سے نہیں روک پایا تھا۔۔۔
اگلے ہی لمحے وہ دونوں ایک ساتھ زمین بوس ہوئے تھے۔۔۔ منہاج نے
زمین ہر باز و ٹکاتے اپنا وزن ماور اپر پڑنے سے روکا تھا۔۔۔
مادر اتو اس اچانک رو نما ہونے والے واقع پر ہی بھونچکا گئی تھی۔۔۔۔ منہاج پوری طرح اس پر چھایا ہوا تھا۔۔۔ اس کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے ماورا کی حالت غیر ہوئی تھی۔۔۔
اُس نے دونوں ہاتھ منہاج کے سینے پر ٹکاتے اُسے پیچھے دھکیلا تھا۔۔۔ مگر اُسے ایک انچ بھی خود سے دور نہیں کر پائی تھی۔۔۔
بہت شوق تھانا میرے قریب آنے کا۔۔۔۔اب بولو کیا کہہ رہی تھی ؟
منہاج اتنے ریلیکس موڈ میں اس کے لال ہوتے چہرے کی جانب دیکھتے بولا۔۔۔۔ جیسے اس وقت وہ یونی کے وسیع و عریض گراؤنڈ کی زمین پر نہیں
بلکہ اپنے بیڈ پر لیٹا ہو۔
منہاج دور ہٹو مجھ سے۔۔۔۔ یہ کیا بیہودگی ہے۔۔۔؟؟ یہاں کسی کے آجانے کے خوف اور منہاج کی اس قدر نزدیکی پر ماورا کی جان
پر تھی۔
یہ بیہودگی تم نے کری ایٹ کی ہے میں نے نہیں۔۔۔ منہاج اُس کے خون چھلکا تے لال ٹماٹر رخساروں کو گہری نگاہوں سے دیکھتا
مزید تپا گیا تھا۔۔۔
اُن دونوں کے کپڑے گیلی مٹی سے بھر چکے تھے۔۔
پلیز ہٹو۔۔۔۔ اگر یہاں کسی نے ایسے دیکھ لیا تو۔۔۔ پلیز۔۔۔ ماور اشرم اور خوف کے مارے لرز کر رہ گئی تھی۔۔۔

تو کیا میاں بیوی ہیں۔۔۔ کہیں پر بھی۔۔۔ کیسے بھی رومانس کرنے کا حق
رکھتے ہیں۔۔۔
منہاج کو تو جیسے موقع مل گیا تھا ا سے زچ کرنے اور تپانے کا۔۔۔۔ اس سے پہلے کے ماورا اسے کوئی جواب دیتی۔۔۔ قریب آتے قدموں کی آواز پر ماورا کی جان حلق میں اٹکی تھی ۔۔۔
ماورا کہاں ہو تم ۔۔ ؟؟
ساتھ ہی بیلا کی آواز بھی سنائی دی تھی۔۔۔ ماورا کے زرد پڑتے چہرے پر رحم کھاتے
اس کے اوپر سے ہٹ گیا تھا ۔۔۔
ماورا بھی جلدی سے اُٹھی
تھی۔۔۔ تب تک بیلا بھی درختوں کے پیچھے سے انہیں ڈھونڈتی اُن تک پہنچ
چکی تھی۔۔۔
مگر ان دونوں کے مٹی سے بھرے کپڑے دیکھ بیلا کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ غیرت کے مارے منہ بھی کھل گیا تھا۔۔۔
ماورایہ سب۔۔۔۔
بیلا نے منہاج کی موجودگی کا خیال کرتے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔۔۔ بتائیں اپنی بیسٹ فرینڈ کو ماورا۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تنہائی میں ہم دونوں کیا کر رہے تھے۔۔۔ ہمارے حلیے دیکھ کر کافی حد تک تو یہ سمجھ بھی گئی ہو نگی۔۔۔ اتنی عقل مند تو لگتی ہیں یہ مجھے۔۔۔
منہاج ماورا کی جانب دیکھ کر ایک آنکھ دباتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔ماورا نے بے یقینی سے منہاج کی جانب دیکھا تھا۔۔ جو بیلا کو اس کے حوالے سے
مشکوک کر کے مزے سے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
ماورا یہ سب کیا ہے ؟؟.. تم دونوں کیا کر رہے تھے ؟
بیلا کا حیرت کی زیادتی سے کھلا منہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔
کیا کر رہے تھے مطلب ؟؟… چلو یہاں
ماورا نے اپنا غصہ بیلا پر نکالا تھا۔۔۔ “مگر منہاج کیا کہہ رہا تھا ابھی؟؟؟؟” بیلا کا تجسس کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔
“میر اسر۔۔۔۔۔”
ماورااُسے وہی چھوڑ تی آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔
@@@@@@@@
حاعفہ نے ایک ہفتے کے بعد آج آفس میں قدم رکھا تھا۔۔۔ آژ میر نے اُسے
صحت یاب ہونے کے بعد آنے کا کہا تھا۔۔۔ حاعفہ کے پیر کاز خم اب کافی حد تک ٹھیک ہو چکا
ماتھے کی بینڈ یج بھی
اتر چکی تھی مگر اس کی بے داغ پیشانی پر کٹ کا نشان باقی رہ گیا تھا۔۔۔ حائفہ فیروزی سوٹ کے اوپر سیاہ مشال اوڑھے اپنے نازک وجود کو پوری طرح چھپائے ہوئے تھی۔۔۔ سیاہ شمال میں اُس کی گلابیاں چھلکاتی سرخ و سفید رنگت مزید نکھر جاتی تھی۔۔۔ اس وقت وہ اپنے کیبن میں بیٹھی پورے انہماک سے کام میں مصروف تھی۔۔۔ جب اسے باہر سے آژمیر کے کسی پر چلانے کی آواز آئی تھی۔۔۔
حائفہ کے کان کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔ شاید آژ میرا بھی ابھی آفس میں آیا
تھا۔۔۔ اور آتے ہی شاید کسی کی کلاس لگادی تھی۔۔۔
حائفہ اپنی کرسی سے اُٹھ کر آہستہ روئی سے چلتی دروازے تک گئی تھی۔۔۔ جہاں سے سامنے منظر بالکل کلئیر تھا۔۔۔۔
میرے آفس میں یہ سب نہیں چلے گا۔۔۔ یہ عشق و معشوقی آپ لوگ کہیں اور جاکر چلائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔۔۔۔ میں آپ دونوں کو آفس سے نکال رہا ہوں۔۔۔ آپ لوگوں کو رکھ کر یہاں کا ماحول خراب نہیں
کر سکتا۔
آثر میر اپنے سٹاف کے دو ممبر زپر اس وقت شدید غصہ ہورہا تھا۔۔۔جو دونوں ہر وقت لو برڈ ز بنے پورے آفس میں گھومتے رہتے تھے ۔۔۔ کبھی ہاتھ پکڑ رکھا ہے تو کبھی چپک کر بیٹھے ہیں۔۔۔۔ یہ سب تو پھر بھی کسی حد تک مقابلے قبول تھا۔۔۔ مگر آج تو پین نے انہیں کچھ زیادہ ہی نازیبا حالت
میں پکڑا تھا۔۔۔ جس کے بعد آفس والوں سمیت آژ میر کا بھی ضبط ختم
ہو گیا تھا۔۔۔
کیا سر صرف اسی بات پر اتنے غصے میں ہیں یا کوئی اور ریزن بھی
” ہے۔۔۔؟
حائفہ نے پاس کھڑی کو لیگ سمیرا کو مخاطب کرتے پوچھا تھا۔۔۔ جس سے
اس کی تھوڑی بہت بات چیت ہو جاتی تھی۔۔۔
آژ میر کو وہ پہلی بار اس قدر شدید غصے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔اُسے کے تنے ہوئے نقوش اور ماتھے کی ابھری نہیں دیکھ حائفہ سمیت سارا سٹاف ہی
پریشان ہو چکا تھا۔۔۔
آژمیر میران نے اکثر بڑی بڑی غلطیوں پر بھی کسی کو اس بُری طرح نہیں
ڈانٹا تھا۔۔۔
جہاں تک میں نے آبزرو کیا ہے۔۔ اُس سے میری یہی رائے ہے کہ آژمیر سر محبت کی تو ہین برداشت نہیں کر سکتے۔
سمیرا کی بات پر حاعفہ نے ساکت نگاہوں سے سامنے کا منظر دیکھا تھا۔۔۔
کیا واقعی ایسا تھا۔۔۔
تو جو وہ آژمیر کے ساتھ کرنے جارہی تھی۔۔۔ اُس کا آژمیر کے ہاتھوں نجانے کیا انجام ہونے والا تھا۔۔۔۔ یہ سوچ کر ہی حاعفہ نے خوف سے
جھر جھری لی تھی۔۔۔
وہ گم صم ہی واپس اپنی کرسی پر آن بیٹھی تھی۔۔۔ اس پر مسلسل پریشر تھا کہ وہ اپنے کام میں اتنی سلو کیوں جارہی ہے۔۔۔۔ مگر اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔ کہ آخر وہ کرے تو کیا۔۔۔۔ آژمیر کے سامنے آ تے ہی اس کی بولتی
بند ہو جاتی تھی۔۔۔ اسے محبت کے جال میں الجھاناتو بہت بڑی بات
تھی۔۔۔۔
حائفہ ہاتھوں پر چہرا گرائے بیٹھی تھی، جب دروازے پر کھٹکا ہوا تھا۔۔۔۔
مس حاعفہ آریو او کے۔۔۔۔۔
آفس میں گونجتی آژمیر کی بھاری گھمبیر آواز پر حائفہ ہڑ بڑا کر اپنی جگہ سے
اٹھی تھی۔۔۔
سامنے ہی دروازے میں استہزادہ سینے پر باز و باند ھے کھڑے اُسے سوالیہ
نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
حائفہ ابھی کچھ دیر پہلے آخر میر کو جتنے غصے میں دیکھ چکی تھی۔۔۔ اس لمحے اُسے آژمیر سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔۔
يس سر ۔۔۔ آئم اوکے۔۔۔۔۔
حائفہ آژمیر کے اتنے سنجیدہ تاثرات دیکھ بمشکل بول پائی تھی۔۔۔۔ آپ کو جو فائل بھجوائی گئی تھی وہ ریڈی ہو گئی۔۔۔۔؟ آژمیر اُس کے سامنے کرسی پر براجمان ہو تا کام کے متعلق پوچھنے لگا تھا۔۔
نوسرا بھی رہتی ہے۔۔۔۔
حائفہ اُس کی خود پر اُٹھتی نگاہوں سے گھبراتی نم ہوتی ہتھیلیوں کو بھینچ گئی
تھی۔۔۔
او کے۔۔۔اس میں کچھ چینجنگز کرنی ہیں۔۔۔ دیکھائیں فائل میں آپ کو “
” بتادیتاہوں۔۔۔۔
آژ میر عام سے لہجے میں بولتا اس سے فائل کے متعلق استفسار کرنے لگا
تھا۔
جی سر
حائفہ نے اپنے ہی رکھی فائل اُس کے آگے کی تھی۔۔۔ اور ساتھ
ہی پین بھی اسے تھمانے کے لیے بڑھایا تھا۔۔۔ حائفہ کے ہاتھ بُری طرح
لرز رہے تھے ۔۔ جیسے ہی آژ میر نے پین تھامنے کے لیے ہاتھ بڑھایا حائفہ کا
ہاتھ بے دھیانی اور بوکھلاہٹ میں اُسے ٹچ کر گیا تھا۔۔۔۔
حائفہ کے پورے وجود میں برقی روسی دوڑ گئی تھی۔۔۔اُس نے تیزی سے
ہاتھ واپس کھینچا تھا۔۔
آژ میر نے خاموشی نگاہوں سے اُس کی یہ ساری حرکتیں نوٹ کی
اپنی پر اہلم مس حائفہ ۔۔۔۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے اب ؟؟؟” آژ میر اُس کالر زنا کا نپنا اور سُرخ پڑتا چہرا نوٹ کر چکا تھا۔۔۔ اس لیے اپنے سامنے کھلی فائل بند کرتا بغور اس کی جانب دیکھتا حائفہ کو پہلے سے بھی زیادہ
کنفیوژ کر گیا تھا۔۔۔
وہ اچھی بھلی دوسروں کو اپنے اشاروں پر نچانے والی کانفیڈنٹ لڑکی اس ایک شخص کے سامنے آتے خود ہی پاگل ہو جاتی تھی۔۔۔ آژ میر میران کی شخصیت کے سحر میں وہ پور پور ڈوبتی باقی ہر کام کے لیے ناکارہ ہو رہی تھی۔۔۔۔ اُسے یہاں آژمیر کو اپنی محبت اور حسن کے جال میں الجھانے
بھیجا گیا تھا۔۔۔
مگر وہ تو الٹ ہی کر بیٹھی تھی۔۔۔۔
” یس سر میں ٹھیک ہوں۔۔۔”
حائفہ اُس کی نگاہوں کے ارتکاز سے گھبراتے بولی۔۔۔ جبکہ آژ میر کی نگاہیں تو اُس کی صبیح پیشانی پر آئے کٹ کے نشان پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔ یہ فائل لے کر میرے آفس میں آئیں۔۔۔۔ وہیں ڈسکس کرتے ہیں “
آژمیر اُس کی کیفیت گہری نظروں سے دیکھتا وہاں سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔ اٹھ اس کے جاتے ہی حائفہ نے کب سے رو کی سانس ہوا میں خارج کی
تھی۔۔۔۔
آف میرے خدا۔۔۔۔ یہ کوئی انسان ہے یا جادو گر ۔۔۔۔ اس کی ایک نظر ہی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔۔ میں کیسے اسے اپنی اداؤں کا دیوانہ بناؤں۔۔۔ یہ
” شخص تو لمحہ بہ لمحہ مجھے اپنا اسیر کیے جارہا ہے۔۔۔۔
حائفہ ایک عجیب سے کشمکش میں پھنس چکی تھی۔۔
اُسی لمحے اس کا موبائل بجا تھا۔۔۔ سکرین پر اسی شخص کا نمبر جگمگا رہا تھا۔۔۔۔ جو اُسے آژمیر کے حوالے سے اُس کے کام سے آگاہ کرتا تھا۔۔۔
آژمیر میر ان کو آپ پر شک ہو چکا ہے۔۔۔ اُس نے اپنے دو آدمیوں کو آپ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے لگایا ہے۔۔۔۔ جس کو فلحال تو ہم نے ہینڈل کر لیا ہے۔۔۔ مگر آژمیر میران چپ بیٹھنے والا نہیں ہے۔۔۔ اُسے اگر ذراسی بھی بھنک پڑ چکی ہے تو وہ معاملے کی تحقیق ہر حال میں کروا سر رہے گا۔۔۔۔ آپ کا کام بہت سلوچل رہا ہے۔۔۔۔ جلد از جلد اپنا مقصد پورا کریں آپ کی اصلیت پتا چل گئی تو وہ کسی
قیمت پر نہیں چھوڑے گا۔۔۔ وہ آدمی اپنی بات کہہ کر فون رکھ چکا تھا۔۔۔ جبکہ حائفہ اُسی پوزیشن میں
فون کان سے لگائے بیٹھی رہی تھی۔۔۔
اُس کے بنا کچھ کیے ہی آژ میر کو اُس پر شک ہو چکا تھا۔۔۔حاعفہ کی ایک ایک حرکت پر جس طرح نظر ر کھی جارہی تھی۔۔۔ حائفہ چاہ کر بھی
آژ میر کو کچھ نہیں بتا سکتی تھی۔۔۔ اگر بتاتی تو اس کے ساتھ ساتھ ماورا کی جان کو بھی خطرہ تھا۔۔۔اور ماورا پر تو ز راسی خراش آتی برداشت نہیں تھی اُسے۔۔۔۔
@@@@@@@
ہم سب اچھے سے جانتے ہیں اکرام حنیف کوئی عام آدمی بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ اُس کے کتنے خطر ناک لوگوں کے ساتھ تقلقات ہیں اس بات سے کوئی ناواقف نہیں ہے۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کے پہلے وار سے بنا کسی بڑے نقصان سے دو چار ہوئے زنیشہ کو آژ میر اور زوہان نے بچا لیا۔۔۔۔ مگر ضروری نہیں قسمت ہر بار قسمت ہماراساتھ دے گی۔۔۔ وہ شخص دوبارہ کچھ کرے۔۔۔ ہمیں زنیشہ کی حفاظت کے اقدامات کرنے ہونگے ۔۔۔۔
قاسم میران کے چہرے پر فکر کی لکیریں نمایاں تھیں۔۔ اس وقت ہال کمرے میں گھر کے تمام بڑے موجود سب سے کھم پریشان کن معاملے پر غور و فکر کر رہے تھے۔۔
اکرام حنیف واپس آچکا تھا۔۔۔ اور اُس کے ارادے نیک بالکل بھی نہیں تھے۔۔۔ کہنے کو تو وہ زنیشہ کا سگا باپ تھا مگر در حقیقت اُسی سے ہی زنیشہ کو
سب سے زیادہ خطرہ لاحق تھا۔۔۔۔
وہ زنیشہ سے اپنے بھتیجے کا نکاح کروانا چاہتا ہے۔۔۔ زنیشہ کے لیے سب سے بڑی سیکورٹی ہی یہی ہے کہ اس کا نکاح کر دیا جائے۔۔۔۔ شاکر میران نے پر سوچ انداز میں اپنی تجویز پیش کی تھی۔۔۔ مگرا کرام نے تو صاف لفظوں میں دھمکی دی ہے کہ اگر ز نیشہ کا کسی سے نکاح کیا گیا تو وہ اسے مروا دے گا
ہم حسیب کو موت کے منہ میں
“دھکیل سکتے ہیں۔۔۔۔
آمنہ بیگم نے فوراً اپنے شوہر کی بات ٹوکتے انہیں ایسی ویسی حامی بھرنے سے روکا تھا۔۔ جب سے زنیشہ سے اُن کے بیٹے کارشتہ طے ہوا تھا۔۔۔ حسیب پر مسلسل خطرے کی تلوار لٹکتی ہی رہتی تھی۔۔۔ پہلے ملک زوہان کی
تواب اکرام حنیف کی۔۔۔
وہ اب ایسا ہر گز نہیں چاہتی تھیں۔۔۔ زنیشہ انہیں پسند تھی مگر اپنے بیٹے کی
زندگی سے بڑھ کر نہیں۔۔۔
شاکر صاحب سمیت وہاں بیٹھے باقی سب افراد نے بھی اُن کی اس رشتے کے حوالے سے ناپسندیدگی نوٹ کر لی تھی۔۔۔
” آمنہ یہ ۔
شاکر صاحب نے انہیں سرزنش کرنی چاہی تھی۔۔ جب شمسہ بیگم نے
ٹوک دیا تھا۔۔۔
شاکر بھائی آمنہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔ حسیب کو ان دشمنیوں کے الجھا کر ہم اس کے ساتھ زیادتی کریں گے۔۔۔۔ ہم نے جو حسیب اور ز نیشہ کارشتہ جوڑا تھا۔۔۔ اُسے یہیں پر ختم کر دینا ہے مناسب ہے۔۔ شمسہ بیگم کی بات پر باقی سب بھی متفق ہوئے تھے۔۔۔ حسیب کسی طور بھی زوہان اور اکرام حنیف کا مقابلہ کر کے زنیشہ کی اور اپنی حفاظت نہیں
کر سکتا تھا۔۔۔
تو پھر ان حالات میں ایسا شخص کہاں سے ملے گا۔۔۔ جو ہماری زندیشہ کے لیے پر فیکٹ ہو ۔۔ جو اسے اس کے باپ کے شر سے بھی محفو ظ ر کھے۔۔۔
” اور اُس کے قابل بھی ہو۔۔۔۔
قاسم صاحب بھی اب زنشہ کی حسیب سے شادی کروانے کے حق میں
نہیں تھے
ہے ایک شخص۔۔۔۔ جو میری بیٹی کو خوش بھی رکھے گا اور اُس پر زراسی “
” آنچ بھی نہیں آنے دے گا۔۔۔
شمسہ بیگم نے وہاں بیٹھے تمام افراد پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے پر یقین لہجے
میں کہا تھا۔۔۔
“کون۔۔۔؟”
حمیرا بیگم کو لگا تھا جیسے وہ جانتی ہوں شمسہ بیگم کے دماغ میں کس کا نام چل
رہا ہے۔۔۔
” ملک زوہان میران۔۔۔۔”
شمسہ بیگم نے اتنے دنوں سے دل میں چلتی بات کہہ دی تھی۔۔۔ جس کے بعد ان کی توقع کے عین مطابق سب کو شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔ شمسہ بھا بھی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ ؟؟؟ ہم ایک دشمن سے زنمیشہ کو بچانے کے لیے دوسرے کے حوالے کر دیں۔۔۔ آپ ایسا بول بھی کیسے
سکتی ہیں۔۔۔۔
سب سے پہلے شاکر صاحب نے ہی اپنا اعتراض اٹھایا تھا۔۔۔وہ ابھی تک حسیب کی وہ حالت بھولے نہیں تھے ۔۔۔ جو زوہان نے زنمیشہ سے شادی روکنے کے لیے کیا تھا اُس کے ساتھ ۔۔۔۔
شمسہ بھا بھی زوہان کے رشتہ لانے پر آپ سمجھ بیٹھیں۔۔۔ وہ بیچ میں ہماری زنیشہ کو چاہتا ہے۔۔۔۔ زوہان نے وہ سب صرف آژمیر کی ضد میں کیا۔۔۔ ورنہ اُس کے دل میں میران پیلس کے کسی بھی فرد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔۔ وہ ہمیں برباد کرنا چاہتا ہے۔۔۔اور زنیشہ کی شادی اُس سے کر کے ہم اپنی بربادی کا سامان خود کریں گے۔۔۔
حمیرا بیگم کو بھی زوہان والی چوائس بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی۔۔۔۔ آپ سب کو جو لگتا ہے وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے۔۔۔۔ مگر میں جانتی ہوں میں نے زوبان کی آنکھوں میں زنیشہ کی فکر دیکھی ہے۔۔۔اگر وہ زنیشہ کا دشمن ہوتا تو کبھی اُسے بچانے اکرام کے گھر نہ پہنچ جاتا۔۔۔ اور
آژمیر کے نام کی گولی اپنے وجود پر نہ کھاتا۔۔۔۔ زوہان انتنا بُرا نہیں ہے جتنا ہم نے اُسے مان لیا ہے۔۔۔ میرے خیال کے مطابق وہ زنیشہ کے لیے کوئی انسان پر فیکٹ میچ نہیں ہو سکتا۔۔
شمسہ بیگم نے اپنی سوچ سب کے سامنے کھل کر بیان کر دی تھی۔۔۔ اُن کی بات میں کچھ ایسا تھا۔۔۔ کہ کوئی اُنہیں جھٹلا نہیں پایا تھا۔۔۔۔
آژمیر کبھی نہیں مانے گا۔۔۔ قاسم صاحب کو بھی شمسہ بیگم کی دلیل کچھ حد تک زوہان کے حوالے سے رضامند کر گئی تھی۔۔۔۔ لیکن وہ راضی ہو بھی جاتے تب بھی آژمیر کا ماننا ناممکن سی بات تھی۔۔۔ جو بھی تھا مگر آخری فیصلہ آژمیر کا ہی ہونا تھا۔۔۔
آژمیر کے لیے اُس کی نفرت ، ضد اور انا اپنی بہن سے زیادہ اُوپر نہیں ہے۔۔۔ وہ زنیشہ کی حفاظت کر سکتا ہے۔۔۔ مگر جہاں تک نکاح کی بات ہے ، اُس کے لیے اُسے بھی زوہان کے لیے مانا پڑے گا۔۔۔۔ جب تک زنیشہ کا نکاح نہیں ہو جاتا۔۔۔۔ اکرام اُسے اپنے پاس لانے کے لیے کسی بھی حد
” تک جائے گا۔۔۔۔
شمسہ بیگم پہلے ہی خود کو آژ میر سے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار
کر چکی تھیں۔۔۔۔
@@@@@@@
کافی دیر کے بعد حائفہ کو ہوش آیا تھا کہ آژ میر نے اُسے بلایا ہے۔۔۔وہ جلدی سے فائل اُٹھاتی باہر کی جانب دوڑی تھی۔۔۔
ہڑ بڑاہٹ میں بناناک کیے وہ عجلت میں اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے آژ میر فون کان سے لگائے چہرے پر کافی بر ہمی بھرے تاثرات سجائے
باہر نکلتا سامنے سے وارد ہوتی حائفہ کو نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔اچانک حائفہ کے
سامنے آجانے پر دونوں کا زور دار تصادم ہوا تھا۔۔۔
حائفہ کا سر اُس کے مضبوط پتھر جیسے کندھے سے ٹکراتا بُری طرح دکھنے لگا تھا۔۔۔ اُس کے ہاتھ سے فائل چھوٹ کر زمین بوس ہوئی تھی۔۔۔ اس کے
گرد اوڑھی سیاہ چادر کا ایک پلونیچے ڈھلک گیا تھا۔۔۔
آژمیر نے بر وقت اُس کے گرد حصار کھینچتے اسے گرنے محفوظ رکھا تھا ۔۔۔۔ حاعفہ نے بے دھیانی اور گھبراہٹ میں آژمیر کے کوٹ کے کالر دونوں مٹھیوں میں دبوچ رکھے تھے۔
آژمیر کے بازو کا مضبوط لمس اپنی کمر پر محسوس کرتے حائفہ کے تن بدن میں کرنٹ دوڑ گیا تھا۔۔ اس کی سحر انگیز خوشبو حائفہ کے نتھنوں سے ٹکراتی اُس پر حاوی ہونے لگی تھی۔۔۔
آژ میر ا بھی بھی فون پر مصروف کسی پر بھڑک رہا تھا۔۔۔ نجانے آج اُسے
اتنا غصہ کیوں اور کس پر آرہا تھا۔۔۔۔
حائفہ اپنی پوزیشن کا خیال کرتی فور پیچھے ہٹی تھی۔۔۔ مگر چند انچ ہلنے پر ہی اس کی گردن میں بہت سخت کھینچاؤ آیا تھا۔۔۔ اُس کی گردن میں پہنی چین آژمیر کی شرٹ کے بٹن سے اُلجھ گئی تھی۔۔۔
حائفہ کی جان لمحہ بھر کے لیے حلق میں آن اٹکی تھی۔۔۔ اگر آژ میر کو اُس پر شک تھا تو وہ اسے اس کی کوئی چال بھی سمجھ سکتا تھا ۔۔۔ حائفہ اسی گھبراہٹ میں لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اپنی چین آزاد کروانے لگی تھی۔۔۔ جو نجانے کیسے پھنسی ہوئی تھی کہ اُس کی اتنی کوشش کے بعد وہ نکلنے کے بجائے مزید
اُلجھتی جارہی تھی۔۔۔
آژمیر جو بہت امپورٹنٹ کال پر مصروف تھا اس نے نظریں جو کا کر اپنے سینے سے لگی کھڑی حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اُس سے دور ہونے کی کوشش میں چین کھینچتی اپنی نازک گردن کو
بھی اچھا خاصہ ہرٹ کر چکی تھی۔۔۔
اُس کی دودھیا گردن پر رگڑ کے نشان واضح تھے۔۔۔ آژ میر نے ایک نظر
ڈالنے کے بعد واپس نگاہ پھیر لی تھی۔۔۔
آنی آپ چاہتی ہیں۔۔۔ میں اپنی بہن کو ایک درندے سے بچانے کے لیے دوسرے درندے کے حوالے کر دوں۔۔۔۔
آژمیر نے حائفہ کو ہاتھ کے اشارے سے مزید خود کو ہرٹ کرنے سے روکا تھا۔۔۔ حائفہ اس کا اشارہ سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔ اُسے لگا شاید اس کا قریب کھڑا ہونا آژمیر کو بُر الگ رہا ہے۔۔۔ جلدی سے نکالنے کے چکر میں اُس نے چین کو زور سے جھٹکادیا تھا۔۔ جس کی وجہ سے اُن کی گردن پر زور دار کھنچاؤ آتا اس کو چھلنی کر گیا تھا۔۔۔
حاعفہ کے منہ سے ہلکی سی سر کار می برآمد ہوئی تھی۔۔۔ جس پر آژمیر کا پارہ مزید چڑھ گیا تھا۔۔۔ اُس نے حائفہ کے دونوں ہاتھ اپنی سخت گرفت میں
لیتے چین سے ہٹائے تھے ۔۔۔
وہ اس وقت نفیسہ بیگم سے بات کر رہا تھا چاہ کر بھی فون نہیں رکھ سکتا
تھا۔۔۔
میر از وہان اپنا آپ قربان کر دے گا مگر زنیشہ پر آنچ بھی نہیں آنے دے گا۔۔۔ تم اس بات سے اچھی طرح واقف ہو۔۔۔ تمہارے بعد زوہان ہی وہ واحد انسان ہے جو اپنی جان دے بڑھ کر زنیشہ کی حفاظت اور اُس سے محبت
سکتا؟
نفیسہ بیگم نے زوبان کی وکالت کی تھی۔۔۔
جبکہ دوسری جانب حاعفہ بے یقینی سے آژمیر کا یہ عمل دیکھے گئی تھی۔۔۔ کس محبت کی بات کر رہی ہیں آپ۔۔۔۔۔ آپ کا بیٹا صرف اور صرف مجھے بر باد کرنے کے لیے میری بہن کو مہر ابنارہا ہے۔۔۔وہ خود یہ بات میرے سامنے کر چکا ہے۔۔۔ آپ مزید اُس پر پردے ڈال کر میری اُس کے حوالے سے سوچ نہیں بدل سکتیں۔۔۔۔
آژ میر نے اُن کو اُن کے بیٹے کی اصلیت سے آگاہ کیا تھا۔۔۔
آژ میر کی نگاہیں حائفہ کی گردن سے نکلتی خون کی چھوٹی سے لکیر پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ یقیناً اسے اپنے ہی ہاتھوں اپنی گردن پر دیئے زخموں پر اب تکلیف ہو نا شروع ہو چکی تھی۔۔۔
آژ میر اس بے وقوف لڑکی کو دیکھ تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا تھا۔۔۔ ” میں بعد میں بات کرتا ہوں آپ سے۔۔۔۔”
آژ میر حائفہ کے زخم پر نظریں گاڑھے مختصر ابو لتا کال کاٹ گیا تھا۔۔
واٹس رانگ و دیو۔۔۔۔ کوئی اپنے آپ کو یوں ہرٹ کرتا ہے کیا ؟؟
آزمیر کی غصیلی نظریں اُس کی خراش زدہ خون آلود گردن پر جمی ہوئی
تھی۔۔۔
حاعفہ نے بنا کچھ بولے آژمیر کی گرفت میں موجود اپنے ہاتھ واپس کھینچے
تھے۔۔۔ آژ میر نے بھی خیال آتے اُسے آزاد کیا ہے
جب اس کی نظر حاصفہ کے گلابی ہاتھوں پر بنے اپنی انگلیوں کے نشان پر پڑی تھی۔۔۔
یہ۔۔۔
آثر میر کا دماغ گھوم گیا تھا۔۔۔۔
یہ لڑکی اتنی نازک تھی کہ اُس کے زرا سے سختی دیکھانے پر واضح نشانات
اُس کے ہاتھوں پر چھپ گئے تھے۔۔
“آئم سوری سر ۔۔۔”
حائفہ بلا وجہ ہی شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔۔
جتنی نازک آپ ہیں۔۔۔ اُس سے کہیں زیادہ کیئر لیس بھی ہیں۔۔۔ اپنا خیال رکھا کریں۔۔۔ انسان کی اپنی حفاظت ہر چیز پہلے آتی ہے۔۔۔ اس وقت وہ دونوں ایک دوسرے کے کافی قریب کھڑے تھے ۔
حائفہ کا دل اُس کی تپیش زدہ نگاہیں محسوس کرتا ۔۔۔ پسلیاں توڑ کر باہر آنے
کو تیار تھا۔۔۔ وہیں آژ میرا بھی سے اس عجیب و غریب لڑکی کو دیکھ
رہا تھا۔۔۔
آژ میر نے اُس کا بازو پکڑ کر اُسے ہلکا سا اپنے مزید قریب کر کے اُس کی چین کو ڈھیلا کرتے بٹن کے ساتھ الجھے دونوں بلوں کو نکال دیا تھا۔۔۔
آژمیر کے مزید قریب آنے پر اس کی گرم سانسیں اور محسور کن قربت حائفہ کی حالت غیر کر گئی تھی۔۔۔ اس کی شور مچاتی دھڑکنیں اُسے پاگل کر
رہی تھیں۔۔۔
” میں سر ۔۔۔۔۔ میں رکھتی ہوں اپنا خیال۔۔۔۔”
حائفہ اُس سے فاصلے پر ہوتی
سوکھے لبوں پر زبان پھیرتی اپنی صفائی پیش کرتے بولی ۔۔۔۔
آپ کی گردن پر کافی خراشیں آئی ہیں۔۔۔ اور خون بھی نکل رہا”
” ہے۔۔۔۔
آژ میر اسے مضبوطی سے شال لپیٹتے دیکھ بولنے سے خود کار وک نہیں پایا تھا۔۔۔ جو بھی تھا اس کے تصادم کی وجہ سے ہی حائفہ کو یہ زخم آئے تھے۔۔۔ جو معمولی نوعیت کے ہونے کے باوجود آژ میر کی توجہ اپنی جانب
کھینچ رہے تھے۔۔۔۔
حاعفہ نے اُس کی فکر پر حیرانی سے نگاہیں اُٹھا کر آژ میر کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
کیا وہ واقعی اس کی جانب متوجہ ہورہا تھا۔۔
یا یہ اس کی کوئی خوبصورت غلطی فہمی تھی۔۔۔
سر میں ٹھیک ہوں۔۔۔ یہ معمولی ساز خم ہے خود ہی ٹھیک ہو جائے “
حائفہ زمین پر پڑی فائل اٹھاتے لاپر واہی سے بولی تھی۔۔۔
آژمیر نے خاموش نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
“سر یہ فائل۔۔۔۔”
حائفہ اُس کی جانچتی نگاہوں سے گھبراتی قائل اس کی جانب بڑھا گئی
تھی۔۔۔
کل شام ہمیں کراچی جانا ہے۔ دو دن کا سٹے ہو سکتا وہاں۔۔۔ تیار رہیئے گا۔۔۔۔ یہ فائل میرے ٹیبل پر رکھ دیں۔۔۔ ابھی مجھے ضروری کام سے
” جانا ہے بعد میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔
آژ میر اُس کی جانب سے نگاہوں کا زاویہ بدلتا سنجیدگی سے اپنی بات کہتا وہاں
سے نکل گیا تھا۔۔۔
جبکہ حائفہ اُس کے ساتھ دو دن رہنے کے خیال سے ہی چکرا کر رہ گئی تھی۔۔۔ جس شخص کے ساتھ وہ چند گھنٹے نہیں گزار سکتی تھی۔۔۔ اُس کے
ساتھ اب حائفہ کو اتنا ٹائم رہنا پڑ نا تھا۔۔۔۔
حائفہ کا دل چاہا تھا اس سب سے کہیں دور بھاگ جائے ۔۔۔۔۔ جہاں صرف وہ ہو اور آخر میر میر ان کا خیال۔۔۔
نہ سر پے لٹکتی دھوکے اور فریب
کی تلوار اور نہ اپنے ایک طوائف زادی ہونے کا غم ۔۔۔
@@@@@@@@
اُس دن زوہان سے ملنے کے بعد اُس کا موڈ بہت سخت آف رہا تھا۔۔۔ زوہان نے جس طرح خودک تکلیف دی تھی وہ سب یاد آتے زنیشہ کی تڑپ میں
مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔۔۔
وہ چاہے جتنا بھی جھٹلاتی مگر ملک زوبان اس کے دل میں بہت اونچے مقام پر
تھا۔۔۔۔ اب سے نہیں نجانے کب سے۔۔۔۔
زنیشہ اُس کی خیریت جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اس کے آس پاس ایسا کوئی نہیں تھا، جس سے وہ زوہان کے متعلق پوچھ سکتی۔۔۔۔
زنیشہ نے دل کو بہت سمجھایا تھا مگر وہ چاہ کر بھی اس کے حوالے سے بے گانگی نہیں برت پائی تھی۔۔۔ زوہان سب خاندان والوں کو خود سے دور کر کے۔۔۔ اُن سے دشمنیاں قائم کر کے خود کو جس طرح اذیت میں رکھے ہوئے تھا۔۔۔ یہ بات سب سے زیادہ زنیشہ کے لیے ہی تکلیف کا باعث
تھی۔۔۔۔
اُس نے اُس کھٹور اور سنگدل شخص کی مغروریت کے آگے ایک بار پھر گٹھنے
ٹیکتے اُسے کال ملائی تھی۔۔۔۔
ایک بار۔۔۔ دو۔۔۔۔ تین ۔۔۔ بیل مسلسل جارہی تھی۔۔۔ مگر دوسری جانب سے کال پک کرنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی۔۔۔
اُف میرے خدا۔۔۔۔ کسی انسان میں اتنی اکٹر بھی نہیں ہونی چاہئے۔۔۔” ایک تو ہر معاملے میں غلطی بھی اپنی ہوتی اوپر سے اٹیچوڈ بھی مجھے ہی دیکھانا
” ہے۔۔۔۔ بیٹھے رہیں اسی زعم میں اب نہیں کروں گی کال۔۔۔۔۔ زنیشہ غصے سے بھڑکتی موبائل بیڈ پر اچھالتی روم سے نکل گئی تھی۔۔۔۔ اسے کچھ دیر پہلے آمنہ پھوپھو نے بلایا تھا۔۔۔ اس لیے وہ سلیقے سے سر پر دو پٹہ اوڑھتی اُن کے پورشن کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔
جب حسیب کے روم کے باہر سے گزرتے اُس کے کانوں میں زوہان کا نام
پڑا تھا۔۔۔۔
حسیب سے شاید دروازہ بے دھیانی میں کھلا رہ گیا تھا۔۔۔ زنیشہ دروازے کے قریب ہوتی کان لگائے اُس کی بات سننے لگی تھی ۔۔۔۔
زوہان نے جو میرے ساتھ کیا ، اب اُس کا حساب چکانے کا وقت آچکا ہے۔۔۔ وہ جیسے ہی اپنی اس گرل فرینڈ کے ساتھ آج رات کی پارٹی کے لیے نکلے گا۔۔۔ اُس پر حملہ کر وا دینا ۔۔۔۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔۔۔ آج اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔۔ بیچارہ ملک زوہان بے خبری میں ہی مارا جانے والا ہے۔۔۔۔
حسیب کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اُس کے رونگٹے کھڑے کر گیا تھا۔۔۔ ۔
اُس کا دل چاہا تھا۔۔۔ابھی شور مچا کر سب گھر والوں کو اکٹھا کر لے۔۔ مگر زوہان کے حوالے سے کوئی اس کی حسیب کے خلاف بات نہیں سنے گا۔۔۔ اور حسیب کے مکر جانے کے چانسز بھی زیادہ تھے۔۔۔
زنیشہ کم از کم زوہان کی سلامتی پر تو کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتی
تھی۔۔۔۔۔
وہ بھاگتے قدموں سے واپس اپنے روم میں بھاگی تھی۔۔۔
زوبان اُس کی کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا ۔۔۔ زندیشہ نے اس کے منیجر حاکم کا نمبر
پر لیس کیا تھا۔۔۔
تمہارے وہ اُلٹی کھونپڑی والے باس کہاں ہیں۔۔۔ ؟؟ جلدی سے بات کرواؤں میری اُن سے۔۔۔
زنیشہ حاکم کے ہیلو کے جواب میں فور ابولی تھی۔۔۔ اُس کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کس نام سے نوازے اُس دنیا جہان کے مغرور اور سنکی شخص کو ۔۔۔۔
” میم وہ سر بزی ہیں۔۔۔۔”
حاکم بنا نام پو چھے ہی سمجھ گیا تھا۔۔۔ کہ یہ محترمہ کون ہو سکتی تھیں۔۔۔ جو زوہان کو اتنے استحقاق کے ساتھ ایسے القابات سے پکار رہی تھیں۔۔۔۔
میں نے کہا ابھی اور اسی وقت بات کر واؤ میری اُن سے۔۔۔ وہ چھپکلی تو ہر وقت اُن کے ساتھ چپکی رہتی ہے
زنمشہ کے جل کر بولنے پر حاکم نے موبائل کان سے بناتے حیرت
سکرین جو گھورا تھا۔۔
بھلا اُسے کیسے معلوم تھا کہ زوہان اس وقت ثمن کے ساتھ ہے۔۔۔۔
“او کے میم۔۔۔۔”
وہ حامی بھر تا ڈرائینگ روم میں براجمان زوہان اور شمن کی جانب بڑھ گیا
تھا۔
سر زنیشہ میڈم آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔۔۔۔
حاکم اجازت مانگتا اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ زوہان شمن سے بہت اہم معاملات ڈسکس کر رہا تھا۔۔ اس وقت حاکم کی مداخلت اُسے سخت ناگوار گزری
تھی۔۔۔
اُس کے ماتھے پر آئی تیوری کے بل دیکھ حاکم جلدی سے اپنے آنے کاریزن
بتاتا ہولے سے منمنا یا تھا۔۔۔۔
جسے سنتے زوہان کی شکنیں کچھ کم ہوئی تھیں۔۔۔۔
فرمائیں اب کیا مسئلہ ہے آپ کو ؟؟؟”
زوہان بنا سلام دعا کے فون کان سے لگاتا بے لچک سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔۔۔
مسئلہ میرے ساتھ نہیں آپ کے ساتھ ہے۔۔۔ کال کیوں نہیں پک کر رہے میری۔۔۔۔ لڑکیوں سے زیادہ نخرے ہیں آپ کے۔۔۔۔
زنیشہ غصے سے بھڑکتی نان سٹاپ بولے گئی تھی۔۔۔۔
ایکسکیوز می۔۔۔۔ محترمہ آپ ہوش میں تو ہیں۔۔۔ یہ کیا طریقہ ہے بات
کرنے کا۔۔۔
زوہان اُسے وہیں ٹو کتا سر دلہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔
جس پر زنیشہ اچانک ہوش میں آتی اپنی زبان دانتوں تلے دباگئی تھی۔۔۔
وہ اس وقت اس قدر ٹینشن کا شکار تھی کہ لمحہ بھر کو بھول گئی تھی کہ اس وقت وہ کس سے ہٹلر سے بات کر رہی ہے۔۔۔
آپ کو ابھی تھوڑی دیر بعد جس پارٹی کے لیے نکلنا ہے آپ نہیں جائیں
گے وہاں۔۔۔۔۔
ز نیشہ کی اگلی بات پر زوہان نے فون کان سے ہٹاتے ایک نظر سکرین کو گھورا تھا۔۔۔ کیا واقعی یہ زنیشہ میر ان ہی تھی۔۔۔
مس ز نمیشه میر ان کیا اِس وقت آپ کی مینٹلی کنڈیشن نارمل ہی ہے۔۔۔۔ آپ کس حق سے مجھے کہیں جانے سے روک رہی ہو ۔۔۔ اور آپ کو کیا لگتا ہے میں رک جاؤں گا۔۔۔۔۔ زوہان کی بات پر اس کے سامنے بیٹھی شمن بھی پھیکاسا مسکرادی تھی۔۔۔۔
اپنے دل و دماغ پر راج کرنے والی ہستی سے وہ اسی کا مقام پوچھ رہا تھا۔۔۔ میں جانتی ہوں میرا آپ پر کوئی حق نہیں ہے۔۔۔۔ اور نہ ہی آپ کا مجھ
زنیشہ نے جان بوجھ کر یہ جملہ شامل کیا تھا۔۔۔ جسے سن کر زوہان کے ماتھے
کی رگیں تن گئی تھیں۔۔۔۔
“کال کیوں کی ہے ؟؟؟”
زوہان نے سرد لہجے میں غصہ ضبط کرتے پوچھا تھا۔۔۔
” آپ پر حملہ ہونے والا ہے۔۔۔ آپ آج کہیں نہیں جائیں گے۔۔۔”
زنیشہ نے بھی مختصر جواب دیا تھا۔۔۔
” تو تمہیں لگتا ہے میں تمہاری بات مان لوں گا۔۔۔۔”
زوہان سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے بے تاثر لہجے میں بولا۔۔۔
“آپ کی سیفٹی اسی میں ہے۔۔۔۔”
زنیشہ کو اس اُکھڑ انسان پر شدید تپ چڑھ رہی تھی ۔۔۔ جس سے انسان اس کی بھلائی کی بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
آج ایسا کیا ہے۔۔۔۔ آئندہ ایسی فکر مجھے دیکھانے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔ مجھے اچھے سے اپنی سیفٹی کا خیال رکھنا آتا ہے۔۔۔۔ مجھے کب، کہاں جانا ہے یہ میں ڈیسائیڈ کروں گا۔۔۔۔۔
زوہان اُس کی انگلی بات سنے بغیر کال کاٹ کیا تھا۔۔
جبکہ اُس کے اِس قدر روڈ انداز پر زنیشہ کی آنکھوں میں نمی بھر گئی تھی۔۔۔
ملک زوہان۔۔۔۔۔ بہت غلط کر رہے ہو تم یہ ۔۔۔۔ کبھی معاف نہیں
کروں گی میں تمہیں۔۔۔۔۔
زنیشہ آنکھوں میں آئے آنسو بے دردی سے رگڑتی ایک بار پھر اس سنگدل
کا نمبر ڈائل کر گئی تھی۔۔۔
وائس رانگ و دیوز نمیشہ ۔۔۔۔
اب کی بار زوہان پہلے سے بھی زیادہ غصے میں دھاڑا تھا۔۔۔ وہ جتنا اس لڑکی کو اپنے تصور سے نکالنے کی کوشش کرتا تھا یہ اتنا اس کے سر پر سوار ہوتی
تھی۔۔۔
“آئی ہیٹ یو ملک زوہان۔۔۔۔”
زنمیشہ نے بھی روتے ہوئے اُس کے انداز میں جواب دیا تھا۔۔
اس کی روقی آواز سن کر زوہان ایک دم خاموش ہوا تھا
“نفرت کرتی ہو تو مرنے دو پھر ۔۔۔۔ اتنی تڑپ کس بات کی ہے۔۔۔۔”
زوہان بہت مشکل سے اپنے بگڑے اعصاب پر قابو پاتا اُسے سے گویا ہوا
مجھے کوئی تڑپ نہیں ہے آپ کے لیے۔۔۔

Share with your friends on Facebook


Updated: April 1, 2025 — 3:37 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *