Haifa and Zanisha Novel Part 9 – Hot an Bold Urdu Novel | Read Online & Download


hot and bold Urdu novel The Haifa and Zanisha series continues with Part 9, bringing an even more passionate, bold, and thrilling storyline. If you love hot and bold Urdu novel that mix romance, suspense, and deep emotions, this latest part is for you!

Hot & Bold Urdu Novel pdf

Hot and bold Urdu novel read online

Read here Haifa and Zanisha Novel Part 8

زنیشہ نے روتے ہوئے اُس کی بات کو جھٹلایا تھا۔۔۔ جس پر نا چاہتے ہوئے بھی زوہان کے ہو نٹوں پر ایک پیاری سی مسکان بکھر گئی تھی۔۔۔
ثمن بہت غور سے زوہان کا ایک ایک انداز نوٹ کر رہی تھی۔۔۔ جو ز نیشہ میر ان سے بات کرتا ایک بالکل الگ انسان ہوتا تھا۔۔
میران پیلس والے میرے خون کے پیاسے ہیں۔۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔ اور اپنے دشمنوں کی ایک ایک حرکت پر نظر ہے میری۔۔۔ وہ میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ۔۔۔ حسیب میر ان کی تو اتنی اوقات نہیں ہے جتنی وہ پلاننگ کر رہا ہے۔۔۔ بلکہ میران خاندان کے ایک فرد کے علاوہ کسی کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ مجھ سے مقابلہ کرنے کا سوچیں بھی۔۔۔۔اور وہ ایک انسان ہے آژ میر میران ۔۔۔۔ جو کبھی مجھ پر وار نہیں کرے گا۔۔۔۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا یقین ہے۔۔۔۔
زوہان کے ایک ایک لفظ پر زنیشہ ساکت سی اُسے سن رہی تھی۔۔۔
وہ پہلے سے جانتا تھا حسیب کے پلان کے بارے میں۔۔۔اور آژ میر اُس سے اتنی نفرت کے باوجود اس کو کیوں نہیں مروا سکتا تھا۔۔۔ یہ کیسا یقین
تھا۔۔۔
زنیشہ کے پاس ان سوالوں پر الجھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
کیونکہ ملک زوہان سے تو وہ ان کے جواب کی اُمید کسی صورت نہیں کر سکتی
تھی۔۔۔۔
آپ حسیب کے ساتھ کیا کریں گے ۔۔۔۔؟؟؟
زنیشہ کو اب حسیب کی متوقع درگت کا سوچ کر افسوس ہوا تھا۔۔۔
” تمہیں اس کی فکر ہو رہی ہے۔۔۔۔؟”
زنیشہ اس کے سوال میں چھپی ناگواریت محسوس کر سکتی تھی۔۔۔ اگر وہ ہاں
بول دیتی تو مطلب سچی
حسیب کی شامت لانے والی بات تھی۔۔۔۔
” نہیں۔۔۔۔ اسے اس کے کیے کی سزا ملنی چاہئے ۔۔۔۔”
زنیشہ نے اپنے ننھے سے دماغ کا استعمال کرتے حسیب کی جان بخشی کروانی
چاہی تھی۔۔۔۔
او کے اگر تمہیں بھی ایسا لگتا ہے تو میں اُسے اُس کی سزاضر ور دو گا۔۔۔۔
زوہان طنز یا لیجے میں بولا
اور ہاں۔۔۔۔ آئندہ کبھی میرے سامنے یوں بنے کی کوشش مت کرنا “
زندیشہ میر ان۔۔۔۔میں تمارے بارے میں وہ سب بھی جانتا ہوں جن سے تم
خود بھی انجان ہو۔۔
زوہان کو حسیب کے حوالے سے اُس کا جھوٹ بولنا پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔
اُس کی بات سن کر زنیشہ کا دل چاہا تھا اپنا سر پیٹ لے۔۔۔
اُس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا۔۔۔ مگر اُس سے پہلے ہی فون ایک
بار پھر بند ہو چکا تھا۔۔۔
یہ شخص اُس کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ شاطر نکلا تھا۔۔۔
@@@@@@@@
سر کا بھی لگتا ہے موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔۔۔وہ لیچڑ انسان ہی ملا تھا اُ نہیں میرے لیے۔۔۔ کسی اور کے گروپ میں نہیں
ڈال سکتے تھے کیا؟؟؟ اب دیکھنا کیسے کیمپنگ کے پورے ٹائم وہ مجھے تنگ
” کرے گا۔۔۔
ماور ازور سے اپنی ساری چیزیں گھاس پر پھینکتی خود بھی تک گئی تھی۔۔۔ جبکہ بیلا اس کا غبارے کی طرح پھولا لال ہوتا چہرا دیکھ اپنی ہنسی نہیں روک
پائی تھی۔۔۔
یونی کی جانب سے اُنہیں سوات کے ایک گاؤں میں کیمپنگ کے لیے جانا تھا۔۔۔ جس کے لیے ڈپارٹمنٹ کے کچھ مخصوص سٹوڈنٹس چنے گئے تھے۔۔۔ اُن میں ماورا اور بیلا بھی شامل تھیں۔
اُن سٹوڈنٹس کو پانچ گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔۔۔ منہاج اور چار سینئر ز سٹوڈنٹس کو گروپ لیڈر بنا یا گیا تھا۔۔۔ اور ماورا کو اپنی اوڈی نے اتفاقاً منہاج کے گروپ میں شامل کر دیا تھا۔۔۔ جس وجہ سے پورے سات دن
اُسے منہاج کے انڈر کام کرنا تھا۔۔۔ جب سے یہ خبر اُسے ملی تھی وہ غصے سے بھڑکتی اپنا بہت سارا خون جلا چکی تھی۔۔۔
مگر اُسے اس سب سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا
تھا۔
لڑکیاں مر رہی ہیں اُس کے گروپ میں جانے کے لیے۔۔۔۔ اور ایک تم “
” ہو۔۔۔۔
بیلا چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے اسے چھیٹر تے ہوئے بولی۔۔۔ جس کے جواب میں ماورا نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور اتھا۔۔۔
ایسی لڑکیاں مر ہی جائیں پھر ۔۔۔۔
وہ چڑھ کر بولی تھی۔۔۔ اُس کے انداز پر بیلا اپنا قہقہ نہیں روک پائی تھی۔۔
یار پلیز کوئی حل بتاؤ۔۔۔۔ میں اب مزید اُس انسان کے ساتھ بات چیت
نہیں رکھنا چاہتی۔۔۔۔
ماور ا اس وقت واقعی بہت پریشان
تھی۔
” تم سر سے بات کر لو۔۔۔۔”
بیلا بھی اب کی بار سنجیدگی سے بولی تھی۔۔۔۔
” وہ مان ہی نہ لیں میری بات۔۔۔۔”
ما ور ااس وقت ہر شے سے اکتائی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔ وہ خاموش نگاہوں سے ارد گرد آتے جاتے سٹوڈنٹس کو دیکھ رہی تھی، جب اچانک اُس کی نظر سڑھیوں کی جانب بڑھتے منہاج کی جانب اٹھی تھی۔۔۔۔
اس کے ساتھ اس کی کلاس فیلور رمشہ بھی تھی۔۔۔ جو اپنی خوبصورت کی وجہ سے مشہور تھی۔۔۔ماورا کو وہ نک چڑی سی لڑکی ایک آنکھ نہیں
بھاتی تھی۔
جو نا محرموں سے اپنے حسن کو سراہ کر فخر محسوس کرتی تھی۔۔۔
لیکن اُس پورے منظر میں ایک بات جو نوٹ کیے جانے والی تھی۔۔۔۔ وہ تھی منہاج کی ہاتھ میں قید رمشہ کا ہاتھ ۔۔۔۔ جس پر نظر پڑتے ہی ماورا کی آنکھوں میں مرچیں سی بھر گئی تھیں۔۔۔
وہ اپنی چیزیں وہیں چھوڑتی تیز قدموں سے اُن کے پیچھے بڑھی تھی۔۔۔۔
ماورا کہاں جارہی ہو ؟؟؟”
بیلا کی پکار کو نظر انداز کرتی وہ منہاج کی چوڑی پشت پر اپنی خونخوار نظریں گاڑھے اُن کے پیچھے چلتی جارہی تھی۔۔۔
سیڑھیوں سے اوپر آتے اُسے وہ دائیں جانب جاتے کوریڈور میں دیکھائی دیئے تھے۔۔۔ نہ صرف رمشہ کا ایک ہاتھ اُس کی گرفت میں تھا۔۔۔ بلکہ رمشہ نے دوسرا ہاتھ بہت ہی نزاکت سے منہاج کے کندھے پر بھی پھیلا
رکھا تھا۔۔۔۔
ماور ا کے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔۔۔۔
کوریڈور کا موڑ مڑتے وہ دونوں اسے پہلے روم میں داخل ہوتے دیکھائی
دیئے تھے۔
اس وقت سٹوڈنٹس زیادہ لیب ورک میں ہی مصروف ہوتے تھے۔۔۔اس لیے کلاس روم خالی ہی ملتے تھے۔۔۔ اوپر کے پورشن میں تو ویسے ہی کم ہی
کلاسز ہوتی تھیں۔۔۔
ماورانے آدھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا تھا۔۔۔ مگر سامنے کا منظر دیکھ وہ چکر آگئی تھی۔۔۔ منہاج درانی اس قدر گرا ہوا انسان ہو سکتا تھا اُسے بالکل
بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔
رمشہ منہاج کے سینے سے لگی کھڑی تھی۔۔ جبکہ
ماورا کا خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔
اس کا دل چاہا تھا ابھی اندر جا کر منہاج درانی کی شکل بگاڑ دے۔۔۔۔ جواب ایسی نازیبا حرکتوں میں انوالو ہو چکا تھا۔۔۔
وہ ایسا کرنے بھی والی تھی جب اس کی نظر کوریڈور کے سرے پر کھڑے ایچ اوڈی پر پڑی تھی۔۔۔اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا تھا اُسے منہاج درانی کو بے نقاب کرنے کا۔۔۔۔
سر پلیز آپ میرے ساتھ آئیں مجھے آپ کو کچھ دیکھانا ہے۔۔۔۔۔
وہ اگلے چند سیکنڈز میں اُن کے سر پر پہنچتی عجلت میں مخاطب ہوئی تھی۔۔۔
” ماورا کیا پر اہلم ہے ؟؟؟”
انہوں نے اپنے موٹے چشموں کے پیچھے سے
گھور کر دیکھا تھا۔۔۔
سر آپ کو کچھ دیکھانا ہے۔۔۔ پلیز ایک بار چلیں میرے ساتھ ۔۔۔ میں
” آپ کو بتاتی ہوں۔۔۔
ماور ا جس طرح ملتجی لہجے میں بولی تھی۔۔۔ وہ اُسے انکار نہیں کر پائے
روم کی جانب بڑھتے ماور انے مناسب الفاظ میں اُنہیں منہاج درانی کی حرکتوں کے بارے میں بتایا تھا۔۔۔ جسے سن کر سر کے تاثرات کافی حد تک تشویش ناک ہوئے تھے۔۔۔
ماورا نے دروازہ دھکیلتے اندر اشارہ کیا تھا۔۔۔ مگر خالی کمرہ دیکھ اس کا منہ کھلے
کا کھلا رہ گیا تھا۔۔۔
ماورا کیا بے ہودہ مذاق ہے یہ ؟؟؟ یہاں کوئی نہیں ہے۔۔۔ آپ کو شرم
آنی چاہیئے ایسا پر بینک کرتے ہوئے۔۔۔
ایچ او ڈی کا اس وقت بس نہیں چلا تھا کہ ماورا کواس بچکاناحرکت پر ایک تھپڑ
ہی رسید کر دیں۔۔۔
ماور ایچ اوڈی سے ہونے والے جھاڑ کے بعد روہانسی صورت لیے آنسو بہاتی ہکا بکا سی کھڑی تھی۔۔۔
ابھی تو وہ دونوں وہاں تھے پھر اچانک کہاں غائب ہو گئے تھے۔۔۔
ماورا نے پورے کمرے میں نگاہیں دوڑائی تھیں۔۔۔ مگر وہ دونوں کہیں کے
نہیں تھے۔۔۔
وہ اپنے آنسو صاف کرتی واپسی کے لیے مڑی تھی۔۔۔ وہ ساتھ والے روم کے سامنے سے گزری کی تھی۔۔۔ جب کسی نے اس کی کلائی دبوچ کر اپنی
جانب کھینچتے اس کے منہ پر مضبوط ہتھیلی جمادی تھی۔۔۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پیر نہیں چلا پائی تھی۔۔۔ اور اُس گرفت کے ساتھ کھینچی چلی گئی تھی۔۔۔
@@@@@@@
آژمیر بیٹا ساری حقیقت آپ کے سامنے ہے۔۔۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔ زنیشہ پر یہ خطرے کی تلوار ہمیشہ کے لیے لٹکتے دینا چاہتے ہیں۔۔ یا اُس کا نکاح زوہان سے کر کے اُسے اکرام حنیف جیسے شخص کی سازش کا شکار
ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔۔۔
میں اچھے سے جانتی ہوں۔ آپ سے بڑھ کر زنیشہ کی حفاظت کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔ مگر فلحال اہم بات ہے زنیشہ کا نکاح۔۔۔ نکاح کے بعد اکرام
حنیف کے ناپاک ارادے ناکام ہو جائیں گے ۔۔۔ اور زوہان جیسے پاور فل شخص کا وہ کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔۔۔اُس کا نشانہ زنیشہ سے ہٹ جائے
گا۔۔شمسہ بیگم
سے آژ میر کو ہر پہلو سے آگاہ کیا تھا۔۔۔
آپ چاہتی ہیں میں اپنے ایک دشمن سے اپنی بہن کو بچانے کے لیےدوسرے دشمن کی مد دلوں۔۔۔
آژ میر صوفے پر آگے کو جھک کر بیٹھا کارپٹ کو گھورتے سپاٹ لہجے میں بولا
تھا۔۔۔
ڈرائینگ روم میں بیٹھے تمام افراد کی نگاہیں اُسی پر ہی ٹکی ہو ئی تھیں۔۔۔
زوہان کا دشمنی کے علاوہ اس خاندان سے ایک اور بہت اہم رشتہ بھی ہے۔۔
شمسہ بیگم آج جیسے آژمیر کو راضی کرنے کی پوری طرح تیاری کر کے بیٹھی
تھیں۔
میں نہیں مانتا کسی رشتے کو ۔۔۔۔ زوبان زنیشہ کو استعمال کرنا چاہتا ہے مجھے کمزور کرنے کے لیے۔۔۔۔ اور آپ چاہتی ہیں میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بہن کو اُس کے حوالے کر دوں۔۔۔۔ جس کی نہ نیت ٹھیک ہے نہ کریکٹر ۔۔۔۔ ثمن ملک کو بنا کسی رشتے کے دن رات اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے
اُس نے۔۔۔۔ایسے بد کردار۔۔۔۔
آژ میر نے لہور نگ آنکھوں سے یہ الفاظ ادا کرتے بات ادھوری چھوڑ دی
شمسہ بیگم بھی لمحہ بھر کو لا جواب ہوئی تھیں۔۔۔
زنیشہ سے محبت نہ کرتا ہو تا تو اس رشتے کے لیے کبھی نہ راضی ہوتا۔۔۔ وہ اچھے سے جانتا ہے زنیشہ سے نکاح کر کے ۔۔۔۔ وہ اپنے آپ کو کتنے بڑے خطرے میں دھکیل دے گا۔۔۔۔ مگر پھر بھی وہ اپنی بات پر ڈٹا کھڑا ہے۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتاوہ زنیشہ کے ساتھ زندگی کے کسی موڑ پر بھی کچھ غلاط کرے گا یا ہونے دے گا۔۔۔
شمسہ بیگم آج ہر صورت آژمیر کو منا کر بٹنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔۔۔۔
باقی سب گھر والے خاموشی سے ان دونوں کی باتیں سن رہے تھے۔۔۔ مگر اُن میں سے کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ زنیشہ کے لیے کونسا فیصلہ اچھا
ثابت ہو سکتا تھا۔۔۔۔
آژمیر بھا بھی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔ زوہان چاہے جتنا بھی بُرا سہی مگر زنیشہ کے معاملے میں وہ کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتا۔۔ اتنا تو ہم سب
” اب تک انداز ہ لگا ہی چکے ہیں۔۔
قاسم صاحب نے شمسہ بیگم کی حمایت کرتے آژمیر کے سامنے اپنا نظریہ
بھی رکھا تھا۔۔۔
تو مطلب آپ سب پہلے سے ہی اس بات پر رضامند بیٹھے ہیں۔۔۔ انتہائی حیرت ہو رہی مجھے۔۔۔ آپ سب کو ملک زوہان سے اب کوئی ایشو نہیں
ہے۔۔۔۔ اُس نے کیا کچھ نہیں کیا ہمارے خاندان کو نقصان پہنچانے کے
لیے۔۔
آثر میر سب پر ایک گہری طنز یا نگاہ ڈالتے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔۔۔
مجھے ابھی کراچی کے لیے نکلنا ہے۔۔۔ میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔۔اور جہاں تک رہی زنیشہ کے نکاح کی بات تو میں اُس کے لیے زوہان سے بھی کہیں زیادہ اچھا اور پاور فل شخص ڈھونڈ چکا ہوں۔۔۔ میرے کراچی سے واپس آتے زنیشہ کی رضامندی کے بعد میں اُس کا نکاح ایک بہت ہی اچھے انسان کے ساتھ کر دوں گا۔۔۔۔ تب تک آپ سب لوگ اپنے دماغ سے
اس ز وہان کو نکال دیں۔۔۔۔
آژ میر ان سب کے سروں پر بم پھوڑتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
شمسہ بیگم ساکت نگاہوں سے خالی دروازے کو گھورنے لگی تھیں۔۔ آژ میر اپنی انا اور ضد میں آکر اپنی لاڈلی بہن کے دل کا خون کرنے والا تھا۔۔۔ جس کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش اُس نے ہمیشہ پوری کی تھی ۔۔۔ اور اب اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی پر یوں انجان بن بیٹھا تھا۔۔۔۔
@@@@@@@@
حاعفہ نے جہاز میں بیٹھتے خوفزدہ نظروں سے ارد گرد دیکھا تھا۔۔۔ وہ پہلی بار جہاز کا سفر کرنے والی تھی۔۔۔۔ وہ بھی آژمیر کے ساتھ ۔۔۔ جس کے ساتھ ہوتے ویسے ہی اُس کی دھڑکنیں کنڑول میں نہیں رہتی تھیں۔۔۔
اب نجانے کیا ہونے والا تھا اُس کے ساتھ ۔۔۔۔
آژمیر ابھی سیٹ پر آکر نہیں بیٹھا تھا۔۔۔ حائفہ یہی دعا مانگ رہی تھی کہ وہ
اُس کے ساتھ نہ بیٹھے ۔۔۔۔ اُس کی کوئی اور سیٹ ہو۔۔۔
مگر اگلے ہی سیکنڈ اس کی یہ دعا ادھوری رہ گئی تھی۔۔۔ جب وہ اُس کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہوتا اُسے اپنی سحر انگیز خوشبو کے حصار میں لپیٹ گیا
تھا۔۔۔
تھوڑی دیر میں جہاز نے ٹیک آف کرنا تھا۔۔۔ یہ سوچ کر ہی حائفہ کی سانسیں رک رہی تھیں۔۔۔ اوپر سے ساتھ بیٹھے آژمیر کی موجودگی اس کے اعصاب پر بھاری پڑ رہی تھی۔۔۔
اُسی لمحے سیٹ بیلٹ باندھنے کی اناؤنسمنٹ ہوئی تھی۔۔۔ آژ میر نے اپنا بیلٹ باندھتے پلٹ کر حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جس کی حالت دیکھ اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔۔۔۔
حائفہ آنکھیں زور سے بھینچے دونوں ہاتھ آپس میں جکڑے بیٹھی اُسے بہت کیوٹ لگی تھی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح اس نے خود کو سیاہ شال میں لپیٹ رکھا تھا۔۔۔ جس کے ہالے میں اُس کی دودھیار نگت مزید دھنک رہی تھی۔۔۔ آرزوؤں پر لرزتی پلکیں ، کپکپاتے گلابی ہونٹ آژمیر چاہ کر بھی اِس دلفریب
منظر سے نظریں نہیں ہٹا پایا تھا۔۔۔۔
آژ میر کتنے ہی لمحے اُسے ایسے ہی مبہوت ساتکے گیا تھا۔۔۔ وہ اُس لمحے واقعی ہوش میں نہیں تھا۔۔۔ ورنہ ایسی بے اختیار حرکت وہ کبھی سر زدنہ کرتا۔۔۔ جب دوبارہ ہوتی اناؤنسمنٹ پر اُس کا سحر ٹوٹا تھا۔۔۔ وہ ہولے سے اُس کے کان کے قریب جھکا تھا۔۔۔۔
اٹس او کے۔۔ آئم دیئر۔ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔”
نجانے کس احساس کے زیر اثر وہ اسے اپنے ہونے کا یقین بخش گیا تھا۔۔۔۔ بے انتہا قریب سے آتی آژ میر کی گھمبیر بھاری آواز اور چہرے ہر محسوس ہوتی اس کی سانسوں کی تپیش حائفہ کی دھڑکنیں منتشر کر گئی تھیں۔۔۔ حائفہ نے گھنی پلکوں کی باڑا اٹھاتے مڑ کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اس لمحے اُسے آژ میر کی آنکھوں میں اپنے لیے ایک انوکھی کشش دیکھائی دی تھی۔۔۔ جس کے بارے میں شاید فلحال وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
حائفہ کا دل زور سے دھڑ کا تھا۔۔۔وہ یہی تو چاہتی تھی پھر اُس کا دل اتنا
خوفزدہ کیوں ہو رہا تھا۔۔۔۔
وہ اپنی سوچوں میں اُلجھی اُسے بے خودی میں تکے گئی تھی۔۔۔ جو آج اُس کے بہت قریب بیٹھا تھا۔۔۔ جس کے پاس ہوتے اُسے واقعی کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔ مگر وہ خوفزدہ تھی، آژمیر میر ان کے اندر اپنے لیے سر اُٹھاتے محبت بھرے جذبوں سے خوفزدہ تھی۔۔۔ وہ اس صاف دل، پیارے انسان کو اپنی وجہ سے ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔اس شخص کی محبت میں دیوانی ہوتی وہ کب کا اپنا مقصد بھول چکی ہوتی اگر بات
ماورا کی سیفٹی کی نہ ہوتی۔۔۔۔
آژ میر میر ان اُس کی زندگی کی وہ لا حاصل خواہش بنتا جار ہا تھا جس کی تکمیل
حائفہ نور کی زندگی میں ناممکن سی بات تھی ۔
آژ میر میر ان جیسا غیرت مند مرد اس جیسی طوائف زادی پر نگاہ ڈالنا بھی پسند نہ کرتا۔۔۔۔
اور جو دھو کا وہ اُس کے ساتھ کر رہی تھی اُس کے بعد تو آژ میر میر ان اصلیت جاننے کے بعد اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیتا۔۔۔ اتناتو وہ اُسے جان چکی تھی۔۔۔ دھو کے باز شخص کو وہ کبھی معاف نہیں کرتا تھا۔۔۔
سیٹ بیلٹ ۔۔۔۔۔
آژمیر کی پکار نے حائفہ کا سکتہ توڑا تھا۔۔۔ وہ اپنی حرکت پر پزل ہوتی فوراً نگاہیں جھکا گئی تھی۔۔۔ کیونکہ اُس کا یوں دیوانہ وار بے خود ہو کر دیکھنا آژمیر بہت اچھی طرح سے نوٹ کر چکا تھا۔۔۔۔
حائفہ اس کی نگاہوں کی تپیش اور اپنی حرکت پر شرمندہ ہوتی اس قدر کنفیوز ہو چکی تھی۔۔ کہ اس سے سیٹ بیلٹ باندھنا تو دور تھا ما بھی نہیں جارہا تھا۔۔۔
آژمیر زیرک نگا ر کھنے والا شخص تھا۔۔ اپنے قریب آنے پر وہ ہمیشہ سے حائفہ کا نارمل سے ہٹ کر رو یہ نوٹ کرتا آیا تھا۔۔۔ جسے اُس نے اپنی غلط فہمی سمجھ کر اگنور ہی کیا تھا۔۔ مگر آج کی حائفہ کی کیفیت اگنور کرنے والی
بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔
” ویٹ۔۔۔۔”
آژ میر نے اُس کی جانب جھکتا اُس کے ہاتھ سے سیٹ بیلٹ تھام گیا تھا۔۔۔
حائفہ ایک بار پھر آژمیر کے قریب ہونے پر اپنی سانسیں نارمل رکھنے کی ناکام کوشش کرتی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کا شمار لگانے لگی تھی۔۔۔ حائفہ کو اپنے آپ پر ہی ترس آنے لگا تھا کہ اس شخص کی زراسی قربت پر اُس کا کیا حال ہو رہا ہے جو کام کرنے کے لیے اُسے یہاں بھیجا گیا ہے وہ کرتے تو
اس نے فوت ہی ہو جاتا ہے۔۔۔۔
آزمیر اس کا سیٹ بیلٹ باندھنا ایسے ہٹا تھا۔۔۔ اس کی مسحور کن خوشبو حائفہ کو اپنے حصار میں پوری طرح جکڑ گئی تھی۔۔۔
جہاز ٹیک آف کرنے والا تھا اور حائفہ کی رنگت لمحہ با لمحہ زرد پڑتی جارہی تھی۔۔۔ اُسے یہ بھی خوف تھا کہ کہیں ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نہ
نکل جائے۔۔۔
آثر میر ناک کی سیدھ میں دیکھ رہا تھا۔۔۔ مگر اُس کا پورا دھیان حائفہ کی غیر ہوتی حالت پر تھا۔۔۔ جہاز میں اتنا خوفزدہ اُس نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔
حائفہ کو اس نے ہمیشہ اپنی ایک آفس ور کر ہی سمجھا تھا۔۔۔ مگر آج دل کی
اچانک بدلتی کیفیت اُس کی سمجھ سے بالا تر تھی۔۔
اُس نے پلٹ کر حائفہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو تقر یبار ودینے کو تھی۔۔ اُسے بے اختیار اس لڑکی پر رحم آیا تھا۔۔۔
” ڈر لگ رہا ہے۔۔۔؟”
اُس کی جانب ہلکا سا رخ موڑتے آژ میر نے شاید پہلی بار اتنی نرمی سے اُس
سے بات کی تھی۔۔۔
حائفہ نے لب کاٹتے آنسو پینے کی کوشش کرتے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا تھا ۔۔۔ اُسے لگ رہا تھا، خوف کے مارے اُس کا ہارٹ فیل ہو جائے
گا۔۔۔
“لک اِن ٹو مائی آئیز ۔۔۔۔”
آژمیر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے گھمبیر لہجے میں کہا تھا۔۔۔ حائفہ تو پہلے سے ہی پور پور اُس کی محبت میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔اس کے زرا سا توجہ دینے پر اس کی جانب کھینچی چلی گئی تھی۔۔۔۔
جہاز ٹیک آف ہوا تھا۔۔۔ جب حائفہ نے گھبرا کر بے اختیار آثر میر کا بازو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔ اور پھر وہ دیوانی بھول گئی تھی کہ وہ کس دنیا میں ہے۔۔۔ اُس کے لیے دنیا کا یہ سب سے بڑا فریب ہی حقیقت لگنے لگا
وہ ہمیشہ کے لیے ان خوش قسمت ترین لمحوں میں قید ہو کر رہنا
چاہتی تھی۔۔۔
ایوری تھنگ از آل رائٹ ۔۔۔ “
آژمیر کی آواز نے اُس کا سحر توڑا تھا۔۔۔ اُس نے فورا آژمیر کی جانب سے نظریں پھیری تھیں۔۔۔ اُس کا دل زور زور سے دھڑکتا پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار ہو چکا تھا۔۔۔ ماتھے پر پسینے کی نھی ننھی بوندیں جگمگانے لگی
وہ اس وقت اتنی بو کھلا چکی تھی۔۔۔ کہ آژ میر کا بازو چھوڑنا بھول چکی تھی۔۔۔ اُس کی گرفت آژ میر کے بازو پر پہلے سے زیادہ سخت ہو چکی
تھی۔۔
آژ میر خاموش نگاہوں سے حاصفہ کی ایک ایک حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔
“سر واٹر ۔۔”
جو چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ سجائے اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ائیر ہوسٹس کی پکار پر آژ میر اس جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔
ائیر ہوسٹس کی بات پر حائفہ نے آژ میر کا بازو چھوڑتے فور ا ہا تھ کھینچ لیا تھا۔۔۔ اُس کا اِس وقت اپنی بے وقوفیوں پر شرم سے ڈوب مرنے پر دل چاہ
رہا تھا۔۔۔
آژمیر نے پانی کی بوتل اُس کی جانب بڑھائی تھی۔۔حاعفہ نے لرزتے ہاتھوں سے تھام لی تھی۔۔ اس کی اُسے اس وقت سخت ضرورت تھی۔۔۔
سر آپ اور آپ کی مسز چائے لیں گے یا کافی ۔۔۔۔
ائیر ہوسٹس کو یہ کپل بہت پسند آیا تھا اور ایک دم پر فیکٹ لگا تھا۔۔۔
نازک سی چھوئی موئی بیوی اور اٹیچوز بھر امغرور مگر بہت ہی کیئرنگ
ہز بینڈ۔
اس کی بات پر جہاں پانی پیتی حاعفہ کو زور کا اچھوںلگا تھا وہیں آخر میر نے سخت
قسم کی گھوری سے نوازا تھا ا سے۔۔۔
” شی از ناٹ مائی والف۔۔۔”
آژمیر کا انداز اتنا سرد تھا کہ ائیر ہوسٹس بھی گھبر آگئی تھی ۔۔۔ حائفہ کو ائیر ہوسٹس کی بات نے جو پل بھر کی تسکین دی تھی۔۔ آثر میر اُسے بہت بے
دردی سے جھٹلاتا حقیقت کی دنیا میں پیچ گیا تھا۔۔ اُس نے بالکل ٹھیک کیا تھا۔۔۔ مگر حاعفہ کی آنکھوں میں نمکین پانی بھر گیا تھا۔۔۔ اُس کا دل ایک دم بو جھل ہوا تھا۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے کے حسین لمحوں کا فسوں زائل ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
ٹیکسٹ ٹائم بی کیئر فل ان یور ورڈز۔۔۔۔ آپ جاسکتی ہیں یہاں سے ، کچھ “
” چاہئے ہو گا تو بول دیں گے آپ کو ۔۔۔
آژ میر نے سخت لہجے میں ائیر ہوسٹس کو وارن کرتے وہاں سے بھیج دیا
تھا۔
حائفہ نے اس کے بعد مڑ کر آژمیر کی جانب نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اُسے آژمیر کا موڈاس وقت بہت خراب لگ رہا تھا۔۔۔۔ کیونکہ آژ میر نے بھی اُس کے بعد اُس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔۔اور جتنی بے وقوفیاں ابھی تھوڑی دیر میں وہ کر چکی تھی۔۔۔ یہ ہونا تو بنتا تھا۔۔
@@@@@@@@
ماورا ایک ہی جھٹکے میں اس مضبوط گرفت کے ساتھ کھینچی چلی گئی تھی۔۔ ہونٹوں پر جمی ہتھیلی کی وجہ سے وہ اپنی مدد کے لیے کوریڈور کے دوسرے
سرے پر کھڑے سٹوڈنٹس کو پکار نہیں پائی تھی۔۔ کسی انہونی کے خوف
سے اُس کا دل لرزنے لگا تھا۔۔۔
اُس نے اِس آپنی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پیر چلائے تھے۔۔۔ مگر تب تک دوسری جانب موجود شخص اُسے پوری طرح اپنے قبضے میں لیتا
دروازے کے ساتھ لگا کر لاک کر چکا تھا۔۔۔
ماورا اپنے آپ کو چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔ جب مقابل شخص نے اپنی گرفت مزید سخت کرتے اس کی رہی سہی مزاحمت بھی ختم اس کی رہی ۔
کر دی تھی۔۔۔
ماورا نے گرفت کی تختی پر بلبلاتے چہرا اُٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ جہاں اُس کا خوف کم ہوا تھا۔۔۔ وہیں کچھ دیر
پہلے کا منظر یاد کرتے آنکھوں میں چنگاریاں بھڑک اٹھی تھیں۔۔۔
کیا ہوا مسز؟ میر اکسی اور لڑکی کے قریب جانا برداشت نہیں کر پائی”
” تم۔۔۔۔
منہاج اُس کے ماتھے پر پھسل آئے بال کو پھونک مار کر پیچھے ہٹاتا شوخی سے بولا تھا۔۔ مگر نہ ماورا کو اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا اور نہ اُس کے منہ سے
ہاتھ ہٹایا تھا۔۔۔
ماورا اُسے خونخوار آگ اگلتی نگاہوں سے گھورنے کے سوا کچھ نہیں کر پارہی
قسم سے یوں پر کٹی چڑیا کی طرح میری گرفت میں پھڑ پھڑاتی تم میرے ” جذبات اور احساسات میں کیسا طوفان برپا کر رہی ہو کاش میں اپنے عمل سے
” بتا پاتا۔۔۔۔
منہاج ناک سے اُس کے گلابی گال کو ٹچ کر تا ماورا کو پور الال کر گیا تھا۔۔۔ اُس کی یہ بڑھتی گستاخیاں ماورا کا پارہ مزید چڑھارہی تھیں۔۔۔ میں ہاتھ بٹانے لگا ہوں۔۔۔ اگر تم چلائی تو میں جس انداز میں تمہیں چپ کرواؤں گاوہ شاید تمہیں پسند نہ آئے۔۔۔
منہاج معنی خیزی سے کہتا اُس کے ہونٹ آزاد کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے بے باک الفاظ اور اند از ماورا کے کانوں سے دھواں نکال گئے
تم سے زیادہ گھٹیا شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔ تمہیں شرم آنی چاہئے غیر لڑکیوں کے ساتھ سب کرتے ہوئے۔۔۔ ماورا کا بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔ ابھی اور اسی وقت شوٹ کر دے اس شخص کو۔۔۔ جو اس کی محبت کی سزا بن چکا تھا۔۔۔
گہرے گہرے سانس لیتی وہ منہاج کو اچھا خاصہ سنا گئی تھی۔۔۔ گھٹیا کون ہے یہ بتانے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے۔ کیا کیا میں نے غیر لڑکیوں کے ساتھ ؟؟ رات کی تاریکی میں اُن کا سودا تو نہیں کیا نا۔۔۔۔
اور نہ ہی اُن کی عزت۔۔۔۔۔ منہاج اس کے گھٹیا کہنے پر طیش میں آیا تھا۔۔۔ وہ اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا اُس کی ذات پر ایک بار پھر گہر اوار کر گیا تھا۔۔۔۔ دانت بھینچتے اس نے خود کو سنگین الفاظ ادا کرنے سے روکا تھا۔۔۔

جبکہ ماورا آنکھوں میں آنسو بھرے افسوس بھری نظروں سے اُس کی جانب دیکھے گئی تھی۔۔۔ جس حوالے سے وہ ہمیشہ دور بھاگتی رہی تھی۔۔ یہ شخص
ہر بار وہ کڑوی سچائی طمانچے کی طرح اس کے منہ پر دے مارتا تھا۔۔۔ تم جانتے ہو منہاج درانی۔۔۔ مجھے ہمیشہ ایک ہی نصحیت ملی، کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے مرد ذات پر کبھی بھروسہ مت کرنا اور محبت۔۔۔۔وہ تو گناہ ہے تمہارے لیے۔۔۔۔ آج تک میں نے مردوں کے بُرے رُوپ ہی
دیکھے۔۔۔
مگر تمہیں دیکھ کر ، تم سے مل کر مجھے لگا نہیں سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔ تم ان مردوں جیسے بالکل بھی نہیں ہو۔۔۔ تم عورت کی عزت
کرنا، اُسے محبت دینا، اُسے اُس کا مقام دینے والے ایک اعلی ظرف مرد ہو۔۔۔۔ لیکن تم نے مرد کا جتنا بھیانک روپ دیکھا یا مجھے ۔۔۔۔ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ تم نے میری محبت کو میرا جرم بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔ مجھے لگا تھا منہاج درانی میری محبت کو معتبر کر کے مجھے دنیاوالوں
کے سامنے وہ مقام دے گا۔۔۔۔ جس کی خواہش ہوش سنبھالتے ہی میں کرتی آئی ہوں۔۔۔۔ مگر تم نے تو میری محبت کو رسوا کر کے مجھے زندگی کی
سب سے بڑی سیکھ دے دی ہے۔۔۔۔
تم مجھ سے اس لیے نفرت کرتے ہو نا کہ میں ایک طوائف زادی ہوں۔۔۔ میں نے اپنی اصلی پہچان چھپا کر تمہیں دھوکا دیا۔۔۔ تو آج سن لو منہاج
درانی میری اصلیت کیا ہے۔۔۔۔ میری اب تک کی زندگی بے شک کو ٹھے پر گزری ہے۔۔۔۔ مگر میرے اللہ نے ہمیشہ میری عزت کی حفاظت کیسے رکھی۔۔۔ آج تک کو ٹھے پر آئے کسی غیر مرد کا مجھے چھونا تو دور ، کسی کی غلط نگاہ بھی نہیں پڑنے دی مجھ پر ۔۔۔۔ میں ایک طوائف کی بیٹی اور کو ٹھے پر پلنے والی لڑکی ضرور ہوں۔۔۔ مگر عزت دار شریف گھرانوں میں تربیت پانے والی لڑکیوں سے کہیں زیادہ میں سے
پاکباز ہوں۔۔۔۔
میں اب ایسے مرد کو اپنی لائف میں بالکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی جسے مجھے
اپنے پاک دامن ہونے کا یقین دلانا پڑے۔۔۔۔
میں اپنے اللہ کی قسم کھا کر کہتی ہوں۔۔۔ میر ادامن ہر غلاظت سے پاک ہے۔۔۔ میرے دل اور تصور میں اگر کسی انسان کی شبیہ آئی ہے تو وہ واحد
مرد تم ہو ۔۔۔۔ ۔
مگر آج جس طرح مجھے تمہارے سامنے اپنے دل کے ہزاروں ٹکڑے کر کے ، اپنے پاک دامن ہونے کا یقین دلانا پڑا ہے۔۔۔۔اس کے بعد تم نے مجھے ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔۔۔۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی میں اپنی محبت کو اپنے دل میں ہمیشہ کے لیے دفن کر چکی ہوں۔۔۔۔
تم نے نکاح نامہ پھاڑ کر بہت اچھا کیا۔۔۔۔
منہاج درانی تم نے آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرا اعتبار ، میری محبت کو کھو دیاہے۔۔۔۔
ماورا ایک ہی سانس میں بولتی منہاج درانی کو بہت گہری کھائی میں دھکیل گئی تھی۔۔۔ وہ ساکت و جامد ایک ہی جگہ پر کھڑا خاموش نگاہوں سے ماورا کی
آنکھوں سے بہتا سیلاب دیکھ رہا تھا۔۔۔
مجھے نیچادکھانے کے لیے۔۔۔۔ باقی لڑکیوں کے جذبات سے مت کھیلو میں نہیں چاہتی کسی کے ٹوٹے دل سے تمہیں برباد
کر دے۔
ماورا بے دردی سے آنسو پونچھتی واپس پلٹی تھی۔۔۔۔
اور ہاں۔۔۔۔۔ منہاج درانی میرے ساتھ دوبارہ کسی قسم کی زبر دستی کرنے یا میرے قریب آنے کی کوشش کی تو میر امر ہوا منہ دیکھو
” گے۔۔۔۔
ماورا اُسے زخمی نظروں سے دیکھتی وہاں سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔ منہاج درانی کو لگا تھا کسی نے اُس کا دل تیز دھار آلے سے چیڑ کر رکھ دیا
ہو۔۔
ہمیشہ وہ ماور اپر بنا کسی تصدیق کے اُس کی ذاتی زندگی پر کیچڑاچھالتا آیا تھا۔۔۔ اُسے دھو کے باز کہتا آیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اب تک جو سزا وہ اُسے دے چکا تھا، ماور ا کا کیا اس کے آگے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔
@@@@@@@@
” ماشاء اللہ تم کتنی پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔۔۔۔ فریحہ زنیشہ کے کمرے میں داخل ہو تیں اس کا سہانا روپ دیکھ بلائیں لیتے
بولی۔۔۔
“آپ سے کم۔۔۔۔”
زنیشہ ہولے سے مسکرادی تھی۔۔۔۔ کیونکہ فریحہ فل میک اور بیلو کلر کے لہنگے میں ماتھے پر بندیالگائے بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔ اُن کے بہت قریبی رشتہ داروں میں شادی کی تقریب تھی۔۔ جس میں گھر کے تقریباً
سبھی لوگ ہی جارہے تھے۔ فائز ہ وزنیشہ کی سیکنڈ کزن ہونے کے ساتھ ساتھ فرینڈ بھی تھی۔۔۔ اسی کے بار بار فورس کرنے پر زنیشہ جانے کے لیے تیار
ہوئی تھی۔۔۔
وہ ہمیشہ سادہ سے حلیے میں ہی رہی تھی۔۔۔۔ اس لیے جب زرا سا بھی تیار
ہوتی تو اس کا حسین سرا پا مزید نکھر جاتا تھا۔۔۔۔ اس وقت پنک
اور پیروں تک آتے فراک میں بے پناہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔ گرین کلر کا بھاری کا مدار نیٹ کا دوپٹہ ایک سائیڈ پر پر پھیلا
رکھا تھا۔۔۔
سیاہ زلفیں اُس کی نازک کمر کو ڈھانپے ہوئے تھیں۔۔۔ جنہیں سلجھا کر اب وہ باندھنے لگی تھی۔۔۔۔ میک کے نام فیس کریم اور ہا کا سالپ گل از لگایا تھا۔۔۔ اُس کے مطابق جتنا فینسی ڈریس اُس نے پہنا تھا، مزید اُس کا کچھ نہ لگانا ہی بہتر تھا۔۔۔ اُسے اپنا آپ دلہن جیسا فیل ہو رہا تھا۔۔۔۔
” چلیں میں تیار ہوں۔۔۔”
زنیشہ بالوں کو کس کر بل دے کر جوڑے کی شکل میں پیٹتی فریحہ سے
مخاطب ہوئی تھی۔
” یہ تم تیار ہو ؟”
فریحہ نے خطگی سے اسے گھورا تھا۔۔۔ ” کیوں کیا ہوا؟؟”
زنیشہ اس کے گھورنے پر حیرت سے بولی۔۔۔
” تمہاری بیسٹ فرینڈ کی شادی ہے۔۔۔۔ ایسے جاؤ گی بھلا۔۔۔” آپ جانتی ہیں نا کہ وہ شہر میں رہنے والے لوگ کتنے ماڈرن ہیں۔۔۔ اُن کا ” اگر مردوں اور عورتوں کا انتظام اکٹھا ہوا تو ۔۔۔۔ آج تو لالہ بھی نہیں ہیں۔۔۔۔ کہ کہ ہمارے لیے میلز کو ہٹوا دیں۔۔۔ اس لیے سمپل جانازیادہ
“بہتر ہے۔۔۔۔ زنیشہ کو پہلے گزرا ایک شادی کا فنکشن بہت اچھے سے یاد تھا۔۔۔ جس میں میلز اور فی میلز کا ایک ساتھ انتظام کیا گیا تھا۔۔۔ آثر میر اپنی فیملی کی خواتین
کا ان کمفرٹیبل فیل ہو نا محسوس کر گیا تھا۔۔۔اور اُسے خود بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ اپنے گھر کی عورتوں کو یوں غیر مردوں کے درمیان دیکھنا۔۔۔۔ اُس نے اُن لوگوں سے بات کر کے۔۔۔ دس منٹ کے اندر اندر وہاں کا نقشہ ہی بد لواد یا تھا۔۔۔ ہال کے اندر ہی پارٹیشن کر کے اُسے دو پارٹس میں ڈیوائڈ
کر
کر دیا گیا تھا۔۔۔ آثر میر ہمیشہ اُن کے سر پر مہربان سان ۔۔۔ اس
لیے اس کی زرا سی بھی کمی بہت محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔ ڈونٹ وری باقی سب تو ساتھ ہی مرنا سب ٹھیک کر دیں گے۔۔۔۔ مگر تمہارا یہ بنا میک اپ کے پھیکا چہر اسب کو ضرور کھٹکے گا۔۔۔۔ زوہان کا تمہارے لیے رشتہ آنے کی وجہ سے آج کل ویسے بھی تم چر چاعام ہو ۔۔۔۔ سب کی نظریں تم پر ہی ہو گی تو اس لیے مخالفین کو جلانے کے لیے تھوڑی
” سے محنت تو تم کر ہی سکتی ہو ۔۔۔۔
فریحہ اس کی ایک نہ سنتی، نجانے کیسے کیسے لاجکس دیتی۔۔۔ ہلکا ہلکا ہی سہی مگر میک کے تمام لوازمات اُس کے چہرے پر استعمال کرتی اُسے مزید نکھار
گئی تھی۔۔۔۔ مر ر پر نظر پڑتے پل بھر کے لیے زنیشہ کی مسکارے سے سجھیں گھنیری پلکیں بھی ساکت ہوئی تھیں۔۔ وہ زرا سے نقش نکھارنے کی وجہ سے بے پناہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔ آپی لپسٹک تو زر الائٹ کی
زنیشہ کے ترشیدہ لبوں پر بھی مہروں لپسٹک پر سے نگاہیں ہٹانا مشکل ہو رہا
تھا۔۔۔
تھوڑی دیر میں خود ہی لائٹ ہو جائے گی۔۔۔۔ابھی کچھ مت کر نلاس کے
ساتھ۔۔
فریحہ یہ کہتی زنیشہ کے بالوں کی جانب مڑی تھی۔۔۔ اور یہاں ہر بھی اُس کی ایک نہ سنتے، لمبے بالوں کو ہلکاہلکا کرل دیتے ماتھے سے اُس خوبصورت سا ڈیزائن بناتی وہ زنیشہ کے چہرے کا نقشہ ہی بدل گئی تھی۔۔۔ ماشاء اللہ اب لگ رہی ہو۔۔۔ وہ زنیشہ میران جس ک ملک زوہان جیسا اکٹر و بندہ دیوانہ ہے۔۔۔۔
فریحہ مسکراتی نظروں سے اُسے دیکھتے شوخی سے بولی۔۔۔آپی۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔
زنیشہ اُسے گھورتی چلائی تھی۔۔۔ اُس کا چہراز وہان کی کچھ حرکتیں اور باتیں یاد کر تا شرم سے لال ہوا تھا۔۔۔۔
او کے۔۔۔ اوکے مان لیتی ہوں۔۔۔۔ مگر یہ بات میں نہیں کہتی فیملی گو سپس میں یہی کہا جاتا ہے۔۔۔ کہ ملک زوہان اگر صرف آژمیر کو نیچا دکھانے کے لیے زنیشہ سے شادی کرنا چاہتا ہو تا تو اب تک کر چکا ہوتا۔۔۔ مگر وہ آثر میر لالہ سے پوری رضامندی لے کر تمہیں اپنانا چاہتا ہے۔۔۔ یہ
” بات اُسی جانب اشارہ کرتی ہے۔۔۔۔
فریحہ کی بات پر زنیشہ کے ہاتھ لھہ بھر کو ساکت ہوئے تھے۔۔۔۔ مگر پھر وہ لمحہ
سر جھٹک گئی تھی۔۔۔
آپی آپ نہیں جانتیں۔۔۔۔۔ ملک زوہان کی سوچ کہاں تک جاتی ہے۔۔۔۔ چھوڑیں اُس شخص کو میں اُس کی بات کر کے اپنا موڈ خراب نہیں
کرنا چاہتی۔۔۔۔
زنیشہ کا غصہ ابھی زوہان پر سے ختم نہیں ہوا تھا۔۔۔۔ فریحہ اُس کے دوٹوک انداز پر خاموش ہوتی اسے ساتھ لیے وہاں سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔۔
@ @ @ @ @ @ @ @
آژ میر ، حائفہ اپنے منیجر اور باقی ٹیم کے ساتھ سیدھا اسی ہوٹل میں آیا تھا آژمیر سیدھااُسی جہاں اُن کی میٹنگ ار پینج کی گئی تھی۔۔۔ روم وہ پہلے ہی بک کروا چکا تھل اس
لیے انہیں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی تھی۔۔۔
حائفہ کا کمرہ آژمیر کے
ساتھ والا ہی تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ
تھوڑی ریلیکس بھی تھی۔۔۔ ورنہ ہوٹل کا ماحول دیکھ کر تو اس کی کیفیت عجیب سی ہوئی تھی۔۔۔ وہاں فی میلز مردوں کی نسبت کم ہی تھیں۔۔۔ اور
جو تھیں اُن کے لباس دیکھ کر حاعفہ نے اپنی سیاہ شال کو اپنے گرد مزید لپیٹ
لیا تھا۔۔۔
مردوں جیسے لباس پہنے عورتیں بلاوجہ اُن کے ساتھ چپکتیں، حائفہ کا دل خراب کر گئی تھیں۔۔۔ اسے ان عورتوں پر افسوس ہوا تھا۔۔۔ جو اُس کے جیسی مجبور نہیں تھیں۔۔۔ ان کی زندگی کی چوائس ان کے پاس تھی۔۔۔ پھر بھی وہ اپنے ہاتھوں اپنی نسوانیت ضائع کر رہی تھیں۔۔۔ کاش وہ اس کی قیمت سمجھ پاتیں۔۔۔۔ کہ کیسے حائفہ جیسی لڑکیاں اسی عزت کے لیے ترپتی تھیں۔۔۔ جسے ماڈرنزم کے نام پر لڑکیاں اپنے ہاتھوں سے پامال کر دیتی
تھیں۔۔۔۔
حائفہ جیسی لڑکی وہاں کوئی نہیں تھی۔۔۔ اول تو دوپٹہ کسی کے پاس نام کو بھی نہیں تھا۔۔۔۔ جن کے پاس اگر غلطی سے تھا بھی تو اس کو گلے میں یا
باز ویر فیشن کی طرح لٹکایا گیا تھا۔۔۔۔
کچھ لوگ حائفہ کے حلیے کی وجہ سے اُس کو عجیب عجیب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ حائفہ کو حیرت ہوئی تھی آژ میر پر ۔۔۔۔ اُسے حائفہ کے اس حلیے پر غصہ کیوں نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ کیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی سیکرٹری بھی ماڈرن بن کر اس کے ساتھ چلے ؟
حائفہ یہی سوچتی۔۔۔ آژ میر کا باقی لوگوں سے موازنہ کرتی اپنے دھیان میں ہی آژمیر کے پیچھے چل رہی تھی۔۔۔ اچانک آژ میر رک کر پیچھے پلٹ تھا۔۔۔ جب اُس کے عین پیچھے چلتی حائفہ اپنے ہی خیالوں میں الجھی سیدھی آژمیر کے چوڑے سینے سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔
اس اچانک رو نما ہوئی افتاد پر حائفہ بوکھلا کر فور پیچھے ہٹی تھی۔۔۔ اس کی پیشانی آرمیر کے کندھے سے بہت زور سے ٹکرائی تھی۔۔۔ اور اس جگہ
سے لال ہوتی درد کرنے لگی تھی۔۔۔۔
“آریو او کے۔۔۔۔”
آژ میر نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔۔۔ اس کی لال گلابی ہوتی پیشانی ایک نظر
دیکھ وہ نگاہیں پھیر گیا تھا۔۔۔
“یس سر۔۔۔۔”
حائفہ اپنی لاپر واہی پر خود کو کوستی ہولے سے جواب دے گئی تھی۔۔۔ جہاز میں بیٹھے جو حرکتیں وہ کر چکی تھی۔۔۔ ابھی انہیں کی شرمندگی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اب یہ نئے بلنڈر سر زد ہونے لگے تھے اس سے۔۔۔۔ وہ نوٹ کر رہی تھی۔۔۔ کہ جہاز والے مومنٹ کے بعد سے آژ میر کافی سنجیدہ سا تھا۔۔۔ اور اُسے مسلسل اگنور کر رہا تھا۔۔۔۔ جو حائفہ کے لیے شرمندگی کے ساتھ ساتھ خوف کا بھی باعث تھا۔۔۔۔
“آئم سوری سر۔۔۔۔”
حائفہ نجانے کس احساس کے زیر اثر آثر میر کے مقابل آن کھڑی ہوئی
تھی۔۔۔۔
” سوری فارواٹ۔۔۔۔”
آژ میر نے بھنویں اُٹھاتے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔ میری وجہ سے آپ کو یہاں شرمندگی محسوس ہو رہی ہو گی۔۔۔ سر آپ اگر کہیں تو میں اپنا حلیہ چینج ۔۔۔۔۔ حائفہ کی بات ابھی منہ میں ہی رہ گئی تھی۔۔۔۔ جب آژ میر اسے لال آنکھوں سے گھور تا قریب ہوا تھا۔۔۔
واٹ ربش۔۔۔۔۔ مسں حائفہ آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔۔۔ آپ کا ” یہ شال اوڑھنا، خود کو ڈھانپ کر رکھنا میرے لیے شرمندگی کا باعث ہو گا۔۔۔۔ کیا آپ ہیں ہی اتنی بے وقوف یا میرے سامنے بن جاتی
” ہیں۔۔۔
آژ میر اس پر سہی کر کے تپا تھا۔۔۔۔ ابھی وہ مزید بھی کچھ کہتا جب مینیجر اسے
میٹنگ شروع ہونے کا انفارم کرنے لگا تھا۔۔۔
آژمیر خوف سے زرد پڑتی حائفہ پر سخت نظر ڈالتا وہاں سے پلٹ گیا
ہے۔۔۔۔

share with your friends on Facebook


Updated: April 2, 2025 — 6:20 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *