A gripping tale of love, sacrifice, and fate, “Main Hoon Badnaseeb” is a Short Urdu Novel that will keep readers hooked from start to finish.

Main Hoon Badnaseeb 2 Short Urdu Novel
عباس نے غصے سے وہاں موجود سب گارڈز کو دیکھتے ہوئے کہا اور بارعب انداز میں آگے بڑھ گیا جبکہ پیچھے کھڑا شہزاد جی سردار کرتا ہوا جانے لگا جب سردار شیر دل نے اسے اپنی بھاری رعب دار آواز میں پکارا اور ناہید کو خواتین کو اندر لے جانے کا حکم دیا اب حویلی کے صحن میں فقط سردار شیر دل اور شہزاد موجود تھے۔
ایک ایک پل ساتھ رہے ہونا تم میرے بیٹے کے ۔ ۔ ؟؟ سردار شیر دل نے سامنے کھڑے وفادار آدمی سے پوچھا جس کو انہوں نے بچپن سے عباس کے ساتھ رکھا تھا۔
جی بڑے سردار ۔ ۔ آپ کے کہنے کے مطابق میں پل پل چھوٹے سردار کے ساتھ رہا ہوں ۔ ۔ ایک لمحہ بھی انہیں ا کیلیے نہیں چھوڑا ۔
شہزاد نے سر جھکائے ادب سے کہا وہ جانتا تھا اب سردار شیر دل ساری روداد پوچھیں گے۔
اتنے دن کہاں گزارے ۔ ۔ انہوں نے سوال کرتے ہوئے ماتھے پر بل ڈالے۔
شہر میں ۔
جو چھوٹے سردار کے دوست ایس پی ہیں ان سے ملاقاتیں کافی رہتی تھیں چھوٹے سردار کی ۔ ۔ چھوٹی بی بی کے کیس کے تحت ۔ ۔
شہزاد نے ان کے سوال کا جواب دینے کے بعد تفصیلاً بتایا
تو کچھ معلوم ہوا ۔ ۔ خاور کے علاوہ دو اور کون لوگ قاتل ہیں ۔ ۔
انہوں نے بے چینی سے اگلا سوال کیا
جی چھوٹے سردار نے دن رات ایک کر دی انہیں ڈھونڈنے میں ۔ ۔ ایک مل گیا ہے اور جیل میں نیم مردہ حالت میں ہے چھوٹے سردار نے بے رحمی سے اسے مارا ہے ۔ ۔ باقی دو تک بھی جلد ہی مل جاہیں گے شہزاد نے تفصیل سے بتایا۔
تو سر دارشیر دل کے دل کے گوشے میں سکون اترا۔ انہیں عباس پر فخر محسوس ہوا وہ جانتے تھے عباس ضرور ڈھونڈ نکالے گا مگر پریشانی انہیں پھر بھی بے حد ہو رہی تھی کیونکہ عباس کا اس قدر طیش انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا وہ جانتے تھے ان کا غیرت مند بیٹا بہت تکلیف دہ مرحلے سے گزر رہا ہے اور کوئی حکم سر دار جی ۔ ۔ شہزاد نے سردار شیر دل کو ہنوز خاموش دیکھ کر ذرا سا سر اٹھا کر پوچھا۔
نہیں ۔ ۔ بس تم ہر وقت عباس کے ساتھ رہا کرو جب بھی وہ حویلی سے باہر ہو ۔ ۔
سر دار شیر دل نے حکمیہ انداز میں کہا اور خود حویلی کے اندورنی حصے کی جانب قدم بڑھانے لگے جبکہ
شہزاد سر بلاتا حویلی سے نکل گیا
چھوٹے سر دار ۔ ۔
عباس بڑے بڑے قدم اٹھاتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا جب نورے تیز تیز چلتی ہانپتی ہوئی اس
تک پہنچی اور جلدی سے پکارا
نورے کی آواز پر عباس کے قدم پہلے دھیمے ہوئے پھر رک گئے اور پھر مڑ کر اپنا رخ نورے کی جانب کیا سامنے
سر پر دوپٹہ اوڑھے نورے اسی کو دیکھ رہی تھی
السلام علیکم چھوٹے سر کار ۔ ۔
عباس کو مڑتا دیکھ کر نورے نے فورا سنبھلتے ہوئے اسے سلام کیا جس کا جواب عباس نے سر کو ہلا کردیا۔
کیسی ہیں آپ ۔ ۔ ؟
نگاہیں جھکا کر اس بار عباس نے تھکی ہوئی آواز میں پوچھا اس کی بو جھل آواز اس کی بے آرامی کا پتہ دے رہی تھی عباس کے پوچھنے پر نورے کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی
آپ کو اس طرح دیکھ کر کیسی ہو سکتی ہوں میں ۔ ۔ ؟
بے خودی کے عالم میں وہ بولی تھی
عباس کے نگاہیں جھکا لینے پر نورے کے دل میں شور برپا ہوا یہ عادت اسے ہمیشہ سے عباس کی پسند تھی کہ کبھی بھی اس نے اس کی جانب نہیں دیکھا تھا بلکہ نگاہیں جھکی ہوتی رہتیں اور انداز احترام سے بھر پور رہتا۔
ہمیں یقین ہے آپ عابی کے قاتل کو اس کے انجام تک ضرور پہنچائیں گے ۔ ۔
عباس کو خاموشی سے نگاہیں جھکا کر سر ہلاتے دیکھ کر نورے پھر سے بولی تو عباس نے ایک سر سری نگاہ نورے پر ڈال کر نگاہوں کا رخ دوسری جانب کرتے ہوئے سر کو اثبات میں جنبش دی۔
آپ کیسے ہیں ۔ ۔ ؟
نورے کا ہمیشہ کی طرح جی چاہ رہا تھا کہ وہ اسی طرح عباس سے باتیں کر کے اس کو دیکھتی رہے یہ پل
طویل ہوتے جائیں اسی لیے ایک بار پھر اس نے عباس کو مخاطب کیا
ٹھیک ۔ ۔
عباس نے یک لفظی جواب دیا اور قمیض کی جیب میں مسلسل وائبریٹ ہوتے موبائل کو نکالا اور کال
کاٹ کر ایس پی حمد کا بھیجا گیا میسج پڑھا اور میسج پڑھ کر عباس کی گردن کی رگیں تن گئیں ایک پل کو
آنکھیں بند کرتے ہوئے دوبارہ کھولیں اور پھر موبائل بند کر کے جیب میں رکھ دیا نورے ، عباس
کی حالت سے مکمل بے خبر تھی
آپ جانتے ہیں ہمارے دل کی پرانی خواہش ہے کہ آپ ہمیں ایک بار آنکھ بھر کر دیکھیں۔ ۔
عباس کی جھکی نگاہوں پر اپنی نگاہیں جمائے نورے کے لبوں سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے تھے جبکہ
عباس نے نورے کی بے باکی پر چونک کر اسے دیکھا مگر اپنی عادت کے مطابق فورا نگاہوں کا رخ دوسری جانب کر لیا۔
مگر میں جانتی ہوں ۔ ۔ میری یہ خواہش تب پوری ہو گی جب ہم دونوں میں محرم رشتہ قائم ہو جائے گا
۔۔ اور یقیناً وہ وقت بہت قریب ہے ۔ ۔
نورے پھر سے بے خودی میں بولی تھی اور عباس کی آنکھوں میں جواب تلاش کرنے لگی تھی مگر عباس نے نگاہیں چرا لیں۔
میں بہت تھکا ہوا ہوں ۔ ۔ پھر ملاقات ہو گی آپ سے ۔ ۔
دھیمی آواز میں کہتے ہوئے عباس نے رخ موڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھ گیا۔
جبکہ نورے کو اس کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ آج اس نے بے خودی میں عباس کے سامنے بہت بول دیا اور اب اسے شرمندگی نے آن گھیر لیا مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو پچپن سے عباس کے نام پر دھڑکتا تھا اور عباس کو سامنے دیکھ کر تو بے خود سا ہوا جاتا تھا۔
اے خداہمیں جدامت کرنا ورنہ میں مر جاؤں گی۔
بے ساختہ دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
اے لڑکی یہاں چھپ کے بیٹھی کیا کر رہی ہے ۔ ۔ چل اٹھ سارا کام ایسے ہی پڑا ہے ۔ ۔ برتن دھو جا کے ۔۔
سب کے اپنے اپنے کمروں میں جانے کے بعد ناہید ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی تو دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سکڑی سمٹی بیٹھی حُرہ کو کانپتے ہوئے روتے دیکھ کر پھنکاری تو حُرہ اچھل کر اٹھی اور فوراً باورچی خانے کی جانب بھاگی۔ باورچی خانے میں آکر وہ سینک کے سامنے کھڑی ہوئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ آنسو ہنوز اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے، جسم میں کپکپی بھی ہنوز طاری تھی۔ جب تنفس بہتر ہوا تو ایک نظر آس پاس دیکھا جہاں ایک ملازمہ ڈائننگ ہال سے برتن اکٹھے کر کے لا رہی تھی۔
حُرہ کو حیرانی سے دیکھنے لگی۔ حُرہ نے فوراً چادر درست کی اور اس سے نگاہیں چرائے سینک میں پڑے برتن دھونے لگی۔ مگر دل کی دھڑکن ابھی بھی تیز تھی۔ آہستہ ،
آہستہ کاموں۔
میں مصروف ہو کر وہ کافی بہتر ہو گئی اور اپنے ڈر پر کافی حد تک قابو پا چکی تھی۔ حُرہ کچن کے کام کرنے کے بعد دبے پاؤں اپنے کمرے میں جانے لگی تھی کیونکہ وہ بے حد تھک چکی تھی۔ اس وقت اسے تھوڑا آرام چاہیے تھا مگر اس سے پہلے ناہید کا پیغام آن پہنچا۔
ارے جا کہاں رہی ہو ۔ ۔ اتنے کپڑے دھونے والے پڑے ہیں اور استری بھی کرنے ہیں ۔۔
جلدی کرو حویلی کی پچھلے حصے کی طرف جاؤ رضیہ تمہارا انتظار کر رہی ہے ۔ ۔
ایک ملازمہ نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے کہا تو حُرہ سرد آہ بھر کر رہ گئی مردہ قدموں سے چلتے ہوئے وہ
حویلی کے پچھلے حصے کی جانب بڑھی
جب وہ ڈھیروں کپڑے دھو کر تھک کر دوبارہ باورچی خانے کی جانب بڑھ رہی تھی کہ اندر سے آتی کچھ
سر گوشی نما آوازوں نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا ایک دل کیا کہ اندر نا جائے اور واپس پلٹ جائے
مگر پھر نا چاہتے ہوئے بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہیں رک گئی
پہلے وعدہ کرو کہ تم کسی کو نہیں بتاؤ گی ۔۔ اگر بات پھیل گئی حویلی میں تو سر دار بی بی تو بعد میں پہلے وہ موٹی ناہید ہی مجھے سولی پے لٹکا دے گی۔
ایک ملازمہ دوسری سے کہہ رہی تھی
ہاں ہاں کسی کو نہیں بتاتی ۔
دوسری ملازمہ نے پہلی سے کہا۔
رات کو خبر آئی تھی اس لڑکی کی ماں کے مرنے کی ۔ ۔ مگر سر دار بی بی نے ناہید کو اس لڑکی کو بتانے سے منع کر دیا ۔ ۔ بھئی خون بہا میں آئی لڑکی ہے پچھلوں سے کیا تعلق ۔ ۔
وہ ملازمہ جانے اور کیا کیا کہ رہی تھی مگر حُرہ تو سنتے ہی سکتے میں آگئی صدمے کی وجہ سے وہ کچھ بول ہی نہ سکی تھی غم ہی اتنا بڑا تھا کہ دنیا میں ایک واحد ماں ہی تو تھی اس کی اب وہ بھی نہ رہی تھی
وہ و ہیں باورچی خانے کے دروازے کے پاس بیٹھتی چلی گئی جب اندرکھڑی ملازمہ کی نگاہ حُرہ پر پڑی وہ فورا لپک کر اس کے قریب آئی
تت تم ۔ ۔ ؟ دھو لیے کپڑے ۔ ۔ ؟ یہاں کیوں بیٹھی ہو ۔ ۔ ؟
حُرہ کا بے حس و حرکت وجود اور خشک آ نکھیں دیکھ کر ملازمہ کے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے گھبراہٹ کے باعث ہکلا کر بول رہی تھی مگر حُرہ کے کچھ جواب نہ دینے پر اس نے حُرہ کو بازوؤں سے تھام کر جھنجھوڑا تو چند پل حُرہ نے اسے ساکن آنکھوں سے دیکھا پھر آہستہ آہستہ جب حواس میں آئی تو آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے اور رونے میں شدت آگئی حُرہ بلند آواز میں چلانے لگی آخر غم ہی ایسا تھا۔
ماں ۔ ۔ م میری ماں ۔ ۔ نہیں ہو سکتا ایسا ۔ مجھے جانے دو ۔ ۔ مم ماں ۔ ۔
حُرہ بلند آواز میں روتے ہوئے اٹھنے لگی۔ سنبھالو خود کو۔۔۔ ہوش کرو۔۔۔ جانتی ہو نا حویلی سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالنے دیں گے تمہیں اور زیادہ ظلم کریں گے تم پر خاموش ہو جاؤ۔۔۔ ملازمہ نے حُرہ کو شدت سے روتے دیکھتے ہوئے معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا۔ ظالم۔۔۔ بے رحم لوگ۔۔۔ خدا کے قہر سے نہیں ڈرتے یہ لوگ۔۔۔
میرے خدا بنے بیٹھے ہیں۔۔۔ مر گئی ناماں میری۔۔۔ ایک بار جانے دیتے تو کیا تھا۔۔۔ مگر رحم نہیں آیاانہیں۔۔۔ ظالم۔۔۔ گھٹیا۔۔۔ ” حُرہ صدمے سی کیفیت میں چیختی چلاتی جانے کیا کیا بول رہی تھی اسے خود بھی خبر نہیں تھی جب اسے مزید بولنے سے روکنے کے لیے ملازمہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر نفی میں سر ہلایا۔ ہوش میں آؤ۔۔
۔ مر گئی ماں تو فاتحہ پڑھ لو تم اور سوگ منالو صبح تک لا۔ مگر چیخومت – – رحم کرو خود پر اور ہمارے اوپر۔۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں سردار شیر دل جان سے ماردیں گے۔۔۔ اور تمہاری یہ آہ و بکا سن کر مزید ظلم ہو گا تم پر۔۔۔ رحم کرو اپنے آپ پر۔۔۔ جاؤ اپنے کمرے میں۔ ملازمہ اس کے بازو تھامے اسے سنجیدگی سے مگر سختی سے سمجھا رہی تھی اور پھر ایک پلیٹ میں روٹی سالن اور پانی کا گلاس رکھ کر حُرہ کو ساتھ لیے سب کی نظروں سے بچ کر کمرے کی جانب بڑھی۔
حُرہ کو کمرے میں چٹائی پر بیٹھا کر ایک طرف رکھ کر ایک نظر ہمدردی سے حُرہ کو دیکھ کر دروازہ بند کرتی چلی گئی جبکہ آج ہوئے نقصان پر حُرہ رونے لگی۔ وہ اس طرح تڑپ کر رو رہی تھی کہ اگر کوئی پتھر دل بھی اسے اس طرح سسکتے دیکھ لیتا تو یقینا کچھ رحم تو آجاتا۔ آج اس نے دنیا میں اپنا سب سے زیادہ پیارا رشتہ کھو دیا تھا۔ آج اس کمرے میں وہ روتی چیختی سسکتی رہی تھی۔ ماں کے آخری وقت پر ان کے پاس نہ ہونا، جانے تایا تتائی نے کیا سلوک کیا ہو گا۔ ماں کا آخری دیدار نہ کرنے دینا بھی تو ایک ظلم تھا جو اس کے ساتھ ہوا تھا۔
Main Hoon Badnaseeb Short Urdu Novel Part 1
عباس اپنے کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ بالکل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لائٹ آن کر کے اس نے دروازہ لاک کیا اور سیاہ جیکٹ اتار کر بیڈ پر پھینکی اور طیش کے عالم میں ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر مارنے لگا۔ بار بار ایس پی احمد کے میسج کی تحریر اس کی آنکھوں کے سامنے آکر اسے بے قابو کر رہی تھی اور مزید طیش میں لے آئی تھی۔ ایک مرتبہ، دو مرتبہ، تین مرتبہ اور جب چوتھی مرتبہ مارنے لگا تو جیب میں موجود موبائل پھر سے وائبریٹ ہوا۔ اس نے اس بار فوراً موبائل نکالا اور بغیر سکرین پر نام دیکھے کان سے لگا لیا۔
یہ سب کیسے ہوا ایس پی؟ وہ کیسے مر گیا؟ دوسری طرف سے کچھ بولنے سے پہلے عباس نے بے چینی سے اپنی بھاری آواز میں پوچھا۔
وعلیکم السلام ۔ ۔
دوسری جانب سے سلام کیا گیا تھا عباس نے اپنے بالوں میں انگلیاں پھنستے ہوئے آنکھیں بلند کر کے سلام کا جواب دیا اور پھر آنکھیں کھول کر قدم قدم چلتا صوفے پر آبیٹھا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پھر سے آنکھیں موند لیں
ہاں حویلی میں ہی ہوں ۔ عباس نے آنکھیں موندے ہی جواب دیا اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ایس پی احمد کو کچھ معلوم نہیں پڑا
میں ٹھیک ہوں ۔ ۔ تم بتاؤ جو میں پوچھ رہا ہوں ۔ ۔ ؟
دوسری جانب سے شاید اس کا احوال پوچھا یا اس کا جواب دے کر اس نے ذرا سا جھک کر ایک ہاتھ سے اپنے جوتے اتارے اور پھر شرٹ کے بٹن کھولنے لگا
احمد میں نے اسے اتنا نہیں مارا تھا کہ وہ مر جاتا ۔ ۔ تم اس بات کو سیریس لو یار ۔ ۔ کوئی ایسا ہے جس نے تمہاری ناک کے نیچے اس کا قتل کیا ہے ۔ ۔
اب وہ مکمل فون کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور سنجیدگی سے کہنے لگا پھر بغیر کوئی بات سنے کال کاٹ کر موبائل سامنے پڑے میز پر پٹخ دیا۔
تین قاتلوں میں سے جو ایک پکڑا گیا تھا اب جیل میں وہ مردہ حالت میں پایا گیا تھا ابھی تو وہ جیل سے ہی آ رہا تھا تب تو وہ قاتل محض بے ہوش ہوا تھا پھر اس کے حویلی پہنچنے سے پہلے وہ کیسے مر سکتا ہے جب نورے اس سے بات کر رہی تھی اس وقت اس نے ایس پی کی کال کاٹ دی تھی۔
اور صرف میسج پڑھا تھا جسے پڑھ کر جانے کیسے اس نے خود پر ضبط کیا تھا اب کمرے میں آکر اس کا دل کر رہا تھا ہر چیز تمس نہس کر دے کچھ دیر سر کو دونوں ہاتھوں میں تمام کر بیٹھا رہا اور پھر صوفے سے اٹھ کر اس نے اپنی شرٹ اتاری اور الماری کی جانب بڑھا الماری کا پٹ کھول کر ٹراؤزر اور شرٹ نکالی اور واشروم میں چلا گیا تھوڑی دیر بعد جب وہ نہا کر واپس آیا تو ڈریسنگ ٹیبل کے دراز سے رومال نکالا اور اپنے سر پر باندھا اور پھر الماری سے مصلہ لے کر بچھایا نماز ادا کرنے کے بعد جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
عباس جیسا اٹھائیس سال کا مرد اس وقت اپنے خالق کے سامنے بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا آنکھیں اشک بار تھیں جبکہ لب ساکن تھے میرے مالک یہ کیسی آزمائش ہے ۔ ۔ اتنا بڑا امتحان – ۔ میں اس قابل تو نہیں تھا ۔ ۔ کیوں عزت لوٹی گئی میری بہن کی ۔۔ نہیں برداشت ہو رہی یہ بات مجھ سے ۔ ۔ کیسے صبر کروں ۔ ۔ میرے مالک ۔ ۔ کیسے صبر کروں ۔۔ دیمک کی طرح کاٹ رہی ہے یہ بات مجھے ۔۔۔۔ گاؤں کا سر دارا اپنے مالک سے ہمکلام تھا ۔
عباس وکیل ہونے کے باعث زیادہ تر شہر میں ہی اپنے بنگلے میں رہائش پذیر رہتا تھا حویلی بیس پچیس دن بعد ہی چکر لگاتا تھا اس دوران جب عابی والا سانحہ ہوا تو وہ کورٹ میں کسی کیس کے سلسلے میں موجود تھا یہ الم ناک خبر سن کر ہر چیز چھوڑ کر گاؤں کے لیے روانہ ہوا تھا بہن کو سپر د خاک کرنے کے بعد عباس ایک پل چین سے نہیں بیٹھا تھا۔
اور جیسے جیسے وہ اپنے ایس پی دوست کی مدد سے تحقیق کر رہا تھا اسے کافی کچھ پتا چلا اس دوران اس کا نکاح بھی ہوا مگر اسے اس وقت کسی بات یا کسی چیز سے فرق نہیں پڑ رہا تھا ابھی فقط اسے اپنی بہن کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانا تھا میرے مالک ۔ مجھے سکون دے ۔ ۔ میرا دل پھٹ رہا ہے ۔ ۔ میں نے تو آج تک کسی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا پھر میری بہن کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ۔ ۔
ابھی عباس نم آنکھوں سے خالق کے ساتھ ہمکلام تھا کہ موبائل کے بجنے پر مصلہ سمیٹ کر موبائل کان سے لگایا ہاں ۔ ۔ احمد بولو ۔ ۔ ؟ فون کان سے لگائے وہ پوچھنے لگا ہہم اچھا ۔ ۔ میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کوئی قریبی ہے ۔ ۔ خیر تم اپنی کوشش جاری رکھو ۔ ۔ میں کل پھر آؤں گا ۔ ۔ ۔
دیکھنا میں نہیں چھوڑوں گا کسی کو بھی ۔ ۔ آگ لگا دو گا سب کو ۔ ۔ ختم کر دو گا ۔ ۔
دوسری جانب کی گئی بات کے جواب میں عباس نے گرجدار آواز میں کہا اور موبائل بیڈ پر پھینک کر
خود بھی بیڈ پر ڈھے گیا اور نم آنکھیں موند لیں۔۔۔۔
جانے رات اس نے کیسے گزاری تھی کب تک روتی رہی تھی، سسکتی رہی تھی، کبھی ماں کو پکارتی ، کبھی اپنے بابا کو یاد کر کے دھاڑیں مار کر روتی رہی، کبھی تایا تائی کی کی گئیں زیادتی یاد آتی رہیں،کبھی ہر بار دل مارنا یاد آتا رہا، کبھی خواہشات کا دل میں دبانا یاد آرہا تھا تو کبھی خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی کا اعزاز یاد آرہا تھا، کبھی سردار بی بی کی حقارت اور نفرت انگیز رویہ یاد آ رہا تھا تو کبھی ناہید کا تشدد، کبھی
نورے کی بے چین اور اضطرابی کیفیت یاد آرہی تھی، تو کبھی نام کے شوہر کی بے خبری، کبھی ماں کا بچھڑنا یاد آرہا تھا تو کبھی ماں کو آخری بار نہ دیکھنے کا افسوس ہو رہا تھا۔
انسانی فطرت ہے جب ایک دکھ ملتا ہے تو پچھلے سارے دکھ بھی تازے ہو جاتے ہیں کچھ یہی معاملہ حُرہ کے ساتھ بھی ہوا تھا آج تو ہر تکلیف، ہر اذیت یاد آرہی تھی۔
وجود پر توز خم تھے ہی اس کے اب روح ہی چھلنی تھی دکھ اتنے تھے کہ کبھی کبھی روتے ہوئے اس کی سانس ہی رک جاتی تھی اس وقت وہ سمجھتی کہ شاید اب مشکل ٹلنے والی ہے مگر پھر سے جب سانسیں بحال ہوتیں تو حُرہ کو سمجھ نہ آتی کہ زندگی بخشنے پر شکر ادا کرے یا موت نہ واقع ہونے پر افسوس کرے۔
جب کوئی مرتا ہے تو لوگ اس کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہیں اور کوئی گلے لگا کر دلاسہ دیتا ہے تو کوئی صبر کی دعا۔ مگر ہائے افسوس کہ حُرہ اپنی زندگی میں اس قدر تکلیفیں، رنجشیں، اذیتیں اور محرومیوں سے گزر چکی تھی کہ اب جینے کی آرزو مٹ چکی تھی۔ جہاں اس کی عمر کی لڑکیاں رنگوں سے بھرپور زندگی گزار رہی ہوتی ہیں، اس عمر میں وہ فقط زمانے کی ستم ظریفی سہہ رہی تھی۔
جانے رات کے کس پہر وہ روتی، سسکتی زمین پر سر رکھے لیٹی تھی اور پھر نیند اس کے حواس پر طاری ہوئی تھی۔ پھر اسے کوئی ہوش نہ رہا، صدمے کے باعث سر میں اور سارا دن مشقت بھرے کام کرنے کی وجہ سے جسم میں شدید درد کی لہریں آ رہی تھیں۔ پھر اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اسے ہلا رہا ہے اور کچھ بول بھی رہا ہے، مگر اس نے بہت کوشش کی، مگر آنکھیں کھولنے کی سکت رہی نہ حلق سے آواز نکلی۔
معمول کے برعکس صبح حُرہ کو باورچی خانے میں نہ پا کر ناہید نے ملازمہ کو پتہ کرنے کا کہا: یہ مہارانی ابھی تک آئی کیوں نہیں؟ لگتا ہے آج پھر اکڑ آ گئی ہے اس میں۔ جا ذرا بولا کر لا اسے۔ آج تو ساری کی ساری اکڑ نکالتی ہوں میں اس کی۔
ماتھے پر بل ڈالے ملازمہ کو کہا تو وہ بھاگتی ہوئی حُرہ کے کمرے میں آئی۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو حُرہ زمین پر سکڑی سمٹی گھڑی بنی پڑی تھی۔ ملازمہ نے اسے ہلایا، اسے پکارا مگر اس کا بخار میں تپتا وجود بے حس و حرکت تھا۔ ملازمہ فوراً الٹے قدم ہولی۔
وہ ناہید بی بی۔ ۔ وہ لڑکی تو بخار میں تپ رہی ہے ۔ ۔ بے ہوش پڑی ہے ۔ ۔ رنگ پیلا زرد ہو گیا ہے جی اس کا ۔ ۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے مرنے کے قریب ہے ۔ ۔
ناہید حویلی کے صحن کی جانب بڑھ رہی تھی جب پیچھے سے ہانپتی ہوئی ملازمہ آئی اور حُرہ کی حالت کی بابت بتانے لگی۔
اے کیا بکواس کر رہی ہے کل تک تو بلکل ٹھیک ٹھاک تھی ۔۔ ایک رات میں کیا ہو گیا ۔ ۔ تورک میں خود جاتی ہوں ۔ ۔ بہانے کر رہی ہوگی ۔ ۔
ناہید ملازمہ کی بات سنتے ہی اپنی کہتی ہوئی سٹور کی جانب بڑھی جب سردار بی بی کی آواز دینے پر اس کے قدم رک گئے۔
رہنے دے ناہید ۔ ۔ ایک دو دن چھوڑ دے اسے ۔ ۔ جب ٹھیک ہو جائے تو دوگنا کام کروانا اس سے ۔ ۔
سردار بی بی زینے اترتے ہوئے کرخت آواز میں کہ رہی تھیں۔
جو حکم بی بی ۔ ۔
ان کی بات پر ناہید نے سر بلایا جب وہ دوبارہ بولیں
اور یہ بات یاد رکھیں ناہید وہ مرنی نہیں چاہیے ۔ ۔ کیونکہ میں اسے اپنی نظروں کے سامنے سسکتا ہوا ہر پل دیکھنا چاہتی ہوں ۔ ۔
ان کے لہجے میں حقارت اور نفرت جھلک رہی تھی ناہیدان کی بات سمجھتی جی کہتی آگے بڑھ گئی۔
حُرہ کے کمرے میں حویلی کی حکمیہ کو لے کر گئی اس نے حُرہ کی حالت دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا مگر ناہید کے گھورنے پر سر جھکا گئی اور حُرہ کے ماتھے پر حرارت کم کرنے کی غرض سے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنے لگی۔
مگر دو دن وہ اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ رہی تھی اس دوران وہی حکمیہ اس کا علاج کرتی رہی جب کچھ کھانے پینے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوئی تو حویلی سے بلاوا آگیا
حُرہ آنسودل پر گراتی پھر سے اپنے معمول پر آگئی یہ بات تو طے تھی اسے اپنے حصے کے غم مکمل کر کے ہی دنیا سے جانا تھا اور وہ بے حس بنی ایک نظر آسمان کی جانب سر اٹھا کر حسرت بھری نگاہ ڈال کر کام میں لگ گئی۔
آج پھر وہ ساری رات بے چین رہا تھا۔ نیند تو اسے اس سانحے کے بعد ویسے بھی نہیں آتی تھی اور پچھلے کچھ دن سے کیس میں الجھنے کے باعث وہ ٹھیک سے سو ہی نہیں پاتا تھا۔ مگر آج حویلی میں تو اس کا دل عجیب طرح بے چین ہو رہا تھا۔ کتنی ہی دیر بیڈ سے اٹھ کر کمرے میں چکر کاٹتا رہا مگر بے چینی اور بے سکونی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ جب اضطرابی کیفیت برداشت سے باہر ہوئی تو عباس وضو کی غرض سے واشروم کی سمت بڑھا، نماز شب پڑھ کر کچھ اضطرابی کیفیت کم ہوئی۔ پھر کپڑے بدل کر اپنا لیپ ٹاپ اور کچھ کیسز کی فائلز اٹھائیں اور پہلے کمرے سے نکلا، پھر تیز تیز قدم اٹھاتا حویلی سے ہی نکل گیا۔ اسے لگا تھا کہ اتنے دن سے جو بے چینی ہے وہ شاید حویلی جا کر کچھ بہتر ہو جائے، مگر پتہ نہیں کیوں حویلی میں تو وہ زیادہ بے چین ہو رہا تھا۔
اپنی گاڑی نکال کر اس نے کسی بھی گارڈ یا شہزاد کو ساتھ لینے کے بجائے خود گاڑی ڈرائیو کی اور شہر پہنچنے تک سورج نکل آیا تھا۔ اپنے بنگلے میں پہنچ کر اس نے تھوڑا آرام کیا، پھر فریش ہو کر ایس پی احمد کے پاس جا پہنچا جہاں ایس پی احمد کے علاوہ ان دونوں کا مشترکہ دوست عالیان بھی موجود تھا۔
عباس میرے بھائی… حوصلہ رکھ یار… تیرے جیسے صابر بندے کو اس طرح دیکھ کر دکھ ہوتا ہے یار مجھے… پلیز خود کو سنبھال گم سم بیٹھے عباس کو عالیان نے مخاطب کیا تو محض عباس سر ہلا کر پھر سے لیپ ٹاپ پر جھک گیا۔
احمد اور عالیان نے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
قاتل جلد مل جائیں گے ہمیں ۔ ۔
احمد نے دھیمی آواز میں اسے تسلی دی۔
کاٹ رہی ہے مجھے یہ بات میں اپنی بہن کی حفاظت نہ کر سکا ۔ ۔
عباس نے لیپ ٹاپ کی سکرین پر نگاہیں جمائے ہوئے کرب کی کیفیت میں کہا جبکہ احمد اور عالیان اس کی آنکھوں کی نمی باخوبی دیکھ چکے تھے۔
تکلف ہورہی ہے۔ خود کو قصور وار مت سمجھے یار، مجھے ایسے ہی ہیں۔ تو ہم تینوں میں سب سے زیادہ حوصلے، ہمت والا، صبر والا بندہ ہے اور اب تجھے ایسے دیکھنا آسان نہیں ہے ہمارے لئے ۔ ۔
عالیان نے عباس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو عباس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
یہ دکھ ایسا ناسور ہے میری زندگی کا جو قبر تک میرے ساتھ جائے گا ۔ ۔
کرب سے کہتے ہوئے عباس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی۔
2 Comments
Add a Comment