Main Hoon Badnaseeb Part 3 – An Emotional & Thrilling Short Urdu Novel

A gripping tale of love, sacrifice, and fate, “Main Hoon Badnaseeb” is a Short Urdu Novel that will keep readers hooked from start to finish.

Main Hoon Badnaseeb 2

Short Urdu Novel

Main Hoon Badnaseeb 3 Short Urdu Novel

پھر کمرے کی فضاء میں خاموشی چھا گئی وہ دونوں جانتے تھے عباس جیسے غیرت مند مرد کے لیے اپنی بہن کے ساتھ ہوئے ظلم کے بعد کیا گزر رہی ہوگی یا شاید ہر محبت و پیار کرنے والے بھائی کا عباس جیسا ہی حال ہوتا ہوگا
وہ تینوں الگ الگ پیشے سے تعلق رکھتے تھے عباس وکالت ، عالیان بزنس اور احمد ایس پی تھا وہ تینوں کالج کے زمانوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے تینوں میں ایک بات مشترک تھی کہ تینوں محنتی بہت تھے امیر کبیر جاگیر دار ہونے کے باوجود عباس تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت کے پیشے میں آیا جبکہ عالیان بھی رئیس باپ کا بیٹا تھا اور رئیسوں والے کچھ شوق اس میں بھی پائے جاتے جو کہ عباس اور احمد سے دوستی کے باوجود ہنوز قائم تھے احمد، عباس اور عالیان کی طرح امیر نہیں تھا مگر اپنی محنت کے باعث اچھے عہدے پر تھا
چار پانچ دن گزر گئے تھے اسے شہر آئے ہوئے وہ اپنے آفس میں اپنی کرسی پر براجمان ، کیس کی فائل پر جھکا ملاحظہ فرما رہا تھا جب عالیان اور احمد اسے لنچ پر ساتھ لے جانے کے لیے آپہنچے
فائیواسٹار ہوٹل میں کھانے کے بعد جب تینوں بیٹھے باتوں میں مشغول تھے کہ اچانک عباس نے تھکاوٹ کے باعث کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں مگر اسے معلوم ہی نہیں پڑا اس کی آنکھ
لگ گئی عالیان اور احمد ، عباس کو آنکھیں موند کر لیٹا دیکھ کر دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگے۔

بمشکل تین سے چار منٹ بعد عباس یکدم آنکھیں کھول کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
عباس تو ٹھیک ہے۔ ۔ ؟
احمد نے بے چینی سے پوچھا
ہاں ۔ ۔
سرسری سا جواب دے کر اب عباس اپنے کالے کوٹ کے بٹن کو بند کرتا اپنا موبائل اور چابیاں میز سے اٹھا کر خود بھی اٹھا اور ان دونوں کو خدا حافظ کرتا ہوٹل سے نکل گیا
گاڑی میں بیٹھ کر اس نے کچھ سوچ کر گاڑی اسٹارٹ کی اور حویلی کی سمت گاڑی بڑھانے لگا بہت آہستہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے جب وہ حویلی پہنچا تو ہر سورات کی تاریکی چھا گئی تھی چوکیدار نے عباس کی گاڑی کو آتے دیکھ کر حویلی کو گیٹ کھول دیا عباس کو گاڑی سے نکلتا دیکھ کر سب گارڈز الرٹ ہو گئے عباس ایک سخت نگاہ گارڈز اور نوکروں پر ڈال کر آگے بڑھنے لگا جب شہزاد سرعت سے اس تک
پہنچا۔
چھوٹے سر کار میرے لیے کوئی حکم ۔ ۔ ؟؟

عباس کے پیچھے چلتے ہوئے شہزاد نے ہاتھ باندھے مؤدبانہ کہا تو عباس نے ہاتھ کے اشارے سے انکار کیا اور حویلی کے اندر چلا گیا
لاؤنج میں داخل ہوا تو اس وقت تقریباً حویلی کے تمام مکین وہاں موجود تھے چند ایک ملازم بھی سر جھکائے کھڑے تھے عباس کو آتا دیکھ کر سر دار بی بی نے اٹھ کر اپنے بازو پھیلا لیے عباس ماں سے مل کر باپ سے ملا اور بلند آواز میں سلام کیا ناعمہ ہمدانی اور نورے نے ہلکا سا مسکرا کر اس کے سلام کا جواب دیا۔

میٹی کی جدائی برداشت کر لی میں نے ۔۔ تمہارا کئی کئی دن حویلی سے دور رہنا نہیں سہا جاتا میرے شیر
جب وہ سر داربی بی کےساتھ برا جان ہوا تو اس کے سینے سے لگی شکوہ کرنے لگیں
آپ جانتی ہیں میرے سارے کام ہوتے ہی شہر میں ہیں ۔ ۔ اس لیے وقت نہیں ملتا ۔ ۔ عباس نے ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا تو وہ سر جھٹک کر رہ گئی
سچ کہو نا کہ ماں سے زیادہ ۔ ۔ شہر کی فضاء پسند ہے تمہیں ۔ ۔ سر دار بی بی ایک مرتبہ پھر شکوہ کناں تھیں۔

ماں مجھے آفس جانا ہوتا ہے ۔ ۔ اب روز زور تو میں اتنے لمبے سفر طے کرنے سے قاصر ہوں ۔ ۔ عباس نے صفائی دیتے ہوئے کہا جبکہ نورے کی دلکش نگاہیں عباس کی سمت ہی تھیں وہ نظروں کے ذریعے جیسے اسے دل میں اتار رہی تھی
چھوڑ کیوں نہیں دیتے یہ سب ۔ ۔ ارے ہمیں کسی چیز کی کمی ہے کیا ۔ ۔ ؟ ہماری نسلیں بیٹھ کر کھا
سکتیں ہیں اتنے سرمائے تو ہیں ہمارے ۔ ۔
اس مرتبہ سردار شیر دل نے بیٹے کو کہا جبکہ ان کی بات پر عباس سرد آہ بھر کر رہ گیا بیشک یہ لمبی بحث تھیں
اور عباس کو بحث سے چڑ تھی اسی لیے خاموش ہونے میں ہی بہتری جانی
اے ناہید ۔ دسترخوان گا۔ پتہ نہیں کچھ کھایا بھی ہے میرے بیٹے نے۔ کچھ دیر بعد سر دار بی بی نے کچھ فاصلے پر کھڑی ناہید کو مخاطب کیا۔
میں کھانا نہیں کھاؤں گا کیونکہ لنچ کافی لیٹ کیا تھا میں نے ۔ ۔ بس چائے بھجوا دیجئے میرے کمرے میں
ماں کو دیکھتے ہوئے عباس نے آہستگی سے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

ٹھیک ہے میرے شیر تم آرام کرو چائے بھجواتی ہوں میں ۔۔
سر دار بی بی نے اپنے بیٹے کو دل میں ہزاروں دعائیں دیتے ہوئے کہا جبکہ عباس سر ہلا تا لاؤنج سے نکل کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
اے ناہید اس لڑکی کو بولا ۔ ۔
عباس کے جانے کے بعد سر دار بی بی نے پھر سے ناہید کو حکم دیا اور پھر اگلے دو منٹوں میں حُرہ
جھکائے ان کے سامنے کھڑی تھی
اے لڑکی چائے بنا کر لے کر جا سردار کے لیے ۔ ۔

دماغ میں سازش کے تحت انہوں نے حُرہ پر حکم صادر کیا جسےسنتے ہی حُرہ کی آنکھیں خوف کے
باعث پھیل گئیں۔جبکہ نورے بے یقینی سے انہیں دیکھنے لگی۔
اسے مت بھیجو ۔۔ وہ پہلے ہی آج کل غصے میں رہتا ہے ۔ ۔ اسے دیکھ کر پتہ نہیں کیا کر بیٹھے ۔ ۔
سردار شیر دل نے حقارت سے چادر میں اچھی طرح لپٹی ہوئی حُرہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
سر دار بی بی یہی تو چاہتیں تھیں کہ عباس اپنا غصہ اس لڑکی پر نکالے تاکہ ان کے دل کو سکون پہنچے اور شاید عباس بھی اپنی بھڑاس نکالے وہ جانتی تھی عباس کو غصہ بہت کم آتا ہے مگر جب آتا ہے تو وہ

کسی کو نہیں بخشتا تھا اور آج کل تو وہ جس ذہنی پریشانی سے گزر رہا تھا اس دوران گارڈز اور ملازمین بھی
اس کے عتاب کا شکار ہو رہے تھے پھر یہ لڑکی کیسے بچ سکتی تھی
ہم ۔
سر دار شیر دل کی بات سے انکار بھی وہ نہیں کر سکتی تھیں اس لیے خاموش ہو گئیں جبکہ سر دار شیر دل اٹھ کھڑے ہوئے اور لاؤنج سے نکل گئے
ناہید تم دے آؤ عباس کو چائے ۔ ۔ اور تم لڑکی پاؤں دباؤ میرے
ان کے جاتے ہی سردار بی بی نے پہلے ناہید کو کہا اور پھر خرہ کو حکم دیا حُرہ دل میں شکر ادا کرتی سردار بی بی کے پاس آئی اور فرش پر بیٹھ کر ان کے پاؤں دبانے لگی۔
وہ کمرے میں آنے کے بعد اپنا سیاہ کوٹ اتارنے کے بعد صوفے پر ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر بیٹھا تھا
جب دروازے پر دستک ہوئی۔
کون ۔ ۔ ؟

آنکھیں بند کیے ہی اس نے سر دانداز میں پوچھا
میں ۔ ۔ نن ناہید ۔ ۔ چائے لے کر آئیں ہوں سر کار ۔ ۔ عباس کی کرخت آواز سن کرناہید بمشکل بول سکی
آجاؤ ۔ ۔
ہنوز آنکھیں موندے اس نے اجازت دی جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی ناہید نے عباس کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا وہ جلدی جلدی میز پر چائے کا کپ رکھ کر جانے لگی۔
اس لڑکی کو بھیجو میرے کمرے میں ۔ ہنوز آ نکھیں بند کیے اس نے ناہید کو اپنی مخصوص بھاری آواز میں حکم دیا
تو ناہید نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
کک کون سی لڑکی سر کار ۔ ۔ ؟؟” عباس کی بند آنکھوں کو دیکھتی ناہید نے نا سمجھی سے پوچھا اس کی بات پر عباس نے آنکھیں کھولیں
اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

اوہ و وہ خون بہا میں آئی لڑکی ۔ ۔ ؟
عباس کو آنکھیں کھولتا دیکھ کر ناہید کی زبان سے پھسلا جواباً عباس نے اسے سخت نگاہوں سے دیکھا
تو ناہید کا نپ گئی
حج جی جو حکم سر کار ۔ ۔ م میں ابھی لے کر آتی ہوں اسے ۔ ۔
سر جھکا کر ناہید بولی اور الٹے قدموں کمرے سے باہر نکلی تقریباً بھاگتی ہوئی وہ لاؤنج میں پہنچی جہاں
سر دار بی بی نورے سے بہت پیار سے بات کر رہیں تھیں
اے تیرے بیچھے کون لگ گیا جو تو ہا نپی پڑی ہے ۔ ۔ ناہید کو لاؤنج میں آتا دیکھ کر سردار بی بی نے قدموں میں بیٹھی حُرہ کو ٹھوکر مارتے ہوئے پیچھے کیا اور ماتھے پر بل ڈالے ناہید سے پوچھنے لگیں جو کہ زمین پر بیٹھی حُرہ کو دیکھ رہی تھی۔
وہ سردار بی بی ۔۔ وہ جی اس لڑکی کو ۔ ۔ چھوٹے سردار نے بلایا ہے ۔ ۔
وہ حُرہ کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولی تو لاؤنج میں سکوت چھا گیا سر وار بی بی کے ماتھے پر شکن بڑھے جبکہ حُرہ نے اپنی چادر کے پلو کو مٹھی میں جکڑ لیا اور نورے کی تو جیسے سانسیں رکنے لگیں۔

کیا بکواس کر رہی ہو یہ تم ۔ ۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ چھوٹے سردار اس لڑکی کی شکل بھی دیکھنا گوارہ
کریں ۔ ۔
نورے دل کو قا بو کرتی غصے میں ناہید کو دیکھتی غرائی اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔
ہماری مجال کہ ہم کچھ اپنے پاس سے کہیں چھوٹی بی بی ۔ ۔ سر کار کے حکم کے غلام ہیں ہم ۔ ناہید نے ہاتھ باندھے ہوئے کہا تو ناعمہ ہمدانی نے بیٹی کے ہاتھ کو تھام کر خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔
نورے سنبھالو خود کو ۔ ۔ نورے میری جان ۔ ۔ خود کو پریشان مت کرو ۔۔ یقینا عباس اس لڑکی کو اوقات میں ہی رکھے گا ۔ ۔
خون بہا میں آئی کی حیثیت وہ اچھی طرح جانتا ہے۔
۔ ۔ کبھی بیوی کی حیثیت نہیں دے گا اسے ۔ ۔ یہ مرتے دم تک خون بہا میں آئی لڑکی ہی کہلائے گی ونی ہی رہے گی ۔ ۔ اور بہت جلد تم بنو گی ہمارے بنوگی بیٹے کی دلہن تمہارے سے نسل بڑھے گی اس کی وہ یہ بات با خوبی جانتا ہے ۔
آخر کو سر دار ہے وہ
سر دار بی بی ، نورے کا سرخ چہرہ اور آنکھیں دیکھتی ہو ئیں باقاعدہ حُرہ کو جتاتے ہوئے بولیں توحُرہ کا جھکا سر مزید جھک گیا جبکہ نورے کو ان کی بات سن کر بھی تسلی نہیں ہوئی وہ تو کسی اور لڑکی کا سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی عباس کے ساتھ۔

مگر سر دار بی بی ۔۔
نور ے یقین رکھو بیٹا ہم پہ ۔ نورے کی بات کاٹ کر پھر سے سردار بی بی گویا ہوئیں تو نورے محض بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گئی
اسے لڑکی سن ۔ ۔ اپنی حیثیت کبھی نہ بھولیں ۔۔ اور اس بات پر زیادہ خوش مت ہو کہ سردار نے تجھے بلوایا ہے ۔ ۔ کیونکہ ونی مرتے دم تک ونی ہی رہتی ہے بیوی کی حیثیت تجھے کبھی نہیں ملے گی ۔ ۔ تجھ جیسی خون بہا میں آئی ہوئی کے نصیب میں ایک آدھ رات ہی آتی ہے جو سائیوں کا دل بہلانے یا انتقام کی غرض سے بخشی جاتی ہیں ۔ ۔ اور فکر نہیں کرو نورے اول تو عباس اس جیسیوں کو منہ ہی نہیں لگا تا اور اگر لگا بھی لے تو اس کی حیثیت رکھیل سے زیادہ نہیں ہوگی اس کی زندگی میں ۔ ۔ حُرہ کو نفرت سے دیکھ کر کہتے ہوئے آخری بات انہوں نے نورے کو مخاطب کر کے کہی اور پھر ناہید کو اشارہ کیا ناہید نے حُرہ کا بازو جکڑا اور اسے لے کر عباس کے کمرے کی سمت ہولی جبکہ حُرہ کپکپاتے
ہوئے ناہید کے پیچھے چلنے لگی۔

چادر صحیح سے لے اور خبر دار اگر اپنی ادائیں دکھائیں تو نے سر کار کو ۔ ۔ تیز تیز چلتے ناہید نے حُرہ کا بازو سختی سے دبا کر دھمکی دی تو حُرہ کی خوف کے باعث آنکھیں بھیگنے لگیں۔

ان آنسوؤں سے سر دار نہیں پگھلنے والے ۔ ۔ جان سے پیاری بہن مری ہے ان کی ۔ ۔ قاتل کے خاندان سے نفرت کرتے ہیں وہ ۔ ۔ ان کے سامنے آنسو بہانے کی غلطی مت کرنا ۔ ۔ اس بار رک کر حُرہ کے بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے اس نے دھمکی دی تو حُرہ آنسو صاف کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی عباس کے کمرے کے دروازے کے سامنے رک کر دستک دینے کے بعد وہ اجازت ملنے کا انتظار کرنے لگی
عباس چائے کے دو گھونٹ بھرنے کے بعد کپ میز پر رکھ کر ایک مرتبہ پھر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر اپنا سر ہاتھ کہ انگلیوں سے ہلکا ہلکا دبانے لگا جب کچھ دیر بعد دستک ہوئی
آجاؤ ۔ ۔
کرخت آواز میں آنےوالے کو اجازت دی تو ناہید کا بازو تھام کراسے اپنے ساتھ لے کمرے میں داخل ہوئی عباس ہنوز سر ودباتے ہوئے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا
سر کاریہ آگئی ہے ۔ ۔ کوئی اور حکم ۔۔؟
ناہید نے حُرہ کا بازو چھوڑتے ہوئے نہایت ادب سے پوچھا جبکہ حُرہ خوف کے مارے سر ہی نہیں اٹھا رہی تھی۔

نہیں ۔ ۔ جاؤ ۔ ۔ ! عباس کے سر دانداز میں کہنے پر ناہید دروازے کی جانب مڑی اور کمرے سے نکل کر دروازہ بند کر دیا جبکہ حُرہ کو اپنے جسم سے جان نکلتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی۔ چند پل کمرے میں خاموشی چھائی رہی تو حُرہ نے لرزتی پلکوں کے جھالر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں سردار عباس ہمدانی آنکھیں بند کیے بیٹھا اپنا سر دبا رہا تھا کالی پینٹ ، سفید شرٹ پہنے آستین کہنیوں تک موڑے ، کسرتی جسامت اور سفید رنگت ، سیاہ بال داڑھی بڑھی ہوئی وہ ایک خوبصورت اور وجہہ مرد تھا ایک پل کو حُرہ کی نگاہ اس پر ٹھہر سی گئی دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز ہوئی تھی حُرہ نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے فور نگاہیں جھکالیں۔
چند پل سر کے تھے جب عباس نے بو جھل آنکھیں واکیں اور نگاہوں کا رخ دروازے کے ساتھ چپکی
حُرہ کی جانب کیا میلے سے کالے لباس اور کالی سی بڑی چادر میں اپنے آپکو چھپائے سر جھکائے کھڑی وہ شاید
کانپ رہی تھی چادر نے اس کا آدھا چہرہ بھی احاطے میں لیا ہوا تھا عباس اس کا سرسری سا جائزہ لے رہا تھا جبکہ حُرہ عباس کی گہری نگاہوں سے مزید گھبراگئی اور مزید چادر میں سمٹنے لگی۔
۔ نام کیا ہے ۔ ۔ ؟ حُرہ کی لرزتی پلکوں پر اپنی تھکان سے بوجھل آنکھیں جمائے اس نے سر دانداز میں پوچھا

ک کس کا ۔ ۔ ؟
ہنوز آ نکھیں جھکائے حُرہ نے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا اس کے لہجے میں نا سمجھی تھی دراصل عباس کی
نگاہیں اسے گھبرانے پر مجبور کر رہیں تھی۔
آپ کا ۔ ۔
ہنوز سر د انداز میں پوچھا گیا حُرہ کی غائب دماغی پر عباس کے ماتھے پر ایک لکیر ابھری تھی
ح حُرہ ۔ ۔
کپکپاتی آواز میں بولتے ہوئے حُرہ نے اپنی چادر کو سر سے مزید ماتھے پر کیا عباس اس کی حرکت کو بغور دیکھ رہا تھا۔
حُرہ ۔ ۔ ! یہ کیسا نام ہے ۔ ۔ ؟ کیا مطلب ہے حُرہ کا ۔ ۔ ؟
نام واقعی عباس نے پہلی مرتبہ سنا تھا اس لیے اسے دلچسپی ہوئی جبکہ چند پل حُرہ خاموش
رہی عباس کو لگا اسے اپنے نام کا مطلب نہیں آتا اس لیے خاموش ہو گئی
آزاد عورت ۔ ۔

الفاظ ادا کرتے ہوئے حُرہ کی آواز بھیگ گئی ناہید کی دھمکی یاد کرتے ہوئے اس نے بمشکل آنکھیں
جھپکا کر اپنے آنسو نکلنے سے روکے
حُرہ مطلب ۔ ۔ آزاد عورت ۔ ۔
عباس نے دہراتے ہوئے تمسخرانہ ہنسی لبوں پر سجائی جبکہ اسی پل حُرہ نے نگاہیں اٹھا کر عباس کو دیکھا عباس کا یوں ہنسنا وہ سمجھ گئی تھی کیونکہ وہ تو اس کی قید میں تھی اپنے نام کے بلکل الٹ۔
عمر کیا ہے ۔ ۔ ؟
حُرہ کے وجود سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے عباس نے اگلا سوال کیا۔
انیس سال۔۔
جواب دیتے ہوئے حُرہ نے پھر سے نگاہیں جھکا لیں جبکہ عباس نے پھر سے نگاہوں کا رخ خرہ کی جانب کیا اور اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا اسے وہ کم عمر لگ رہی تھی
پڑھتی تھی ۔ ۔ ؟
عباس کے ‘تھی ‘کہنے پر حُرہ نے چونک کر اسے دیکھا۔

” حج جی ۔ ۔ “
وہ صحیح ہی توکہہ رہا تھا اب کہاں وہ پڑھ سکے گی
کیا۔۔۔۔۔؟
بی اے ۔ ۔
عباس کے اگلے سوال پر حُرہ نے جواب دیا تو عباس چند پل خاموش رہا جبکہ حُرہ بھی سر اور نگاہیں جھکائے کھڑی رہی اسے عباس کا یوں سوال پر سوال کرنا عجیب لگ رہا تھا اور پھر اس کا انداز اتنا سر د تھا اور نگاہیں اتنی گہری تھیں کہ حُرہ دل میں اللہ سے رحم کی دعائیں مانگنے لگی۔

یہاں آئیں۔۔
عباس نے حکمیہ انداز میں کہتے ہوئے آنکھیں موند لیں جبکہ عباس کے حکم پر حُرہ لرز گئی مگر ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اس کے پاس تبھی مردہ چال چلتی عباس کے قریب پہنچی
بیٹھیں ۔ ۔ ہنوز آنکھیں موندے عباس نے اگلا حکم دیا تو حُرہ لرزتے ہوئے عباس کے قدموں میں بیٹھ گئی اسی پل عباس نے آنکھیں واکیں حُرہ کو اپنے قدموں میں بیٹھے دیکھ کر ماتھے پر بلوں میں اضافہ ہوا اور سرعت سے ہاتھ بڑھا کر حُرہ کی کلائی اپنے سخت شکنجے میں لی اور اپنی جانب کھینچا اچانک۔

افتاد پر حُرہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی عباس کے سینے سے مس ہونے کے بعد وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر صوفے پر بیٹھتے ہوئے اپنے اور عباس کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ قائم کر گئی جبکہ لرزتا ہاتھ ابھی بھی عباس کے شکنجے میں تھا عباس ہنوز نگاہیں اس پر جمائے ہوئے تھا جب موبائل کی ٹون بجی۔
میں حویلی میں ہوں ۔ کال اٹینڈ کرتے ہی دوسری جانب سے کچھ پوچھا گیا تھا جس کا جواب عباس نے دیتے ہوئے حُرہ کو
دیکھا جو کہ رخ موڑے شاید رورہی تھی
ٹھیک ہوں ۔ ۔
دوسری جانب موجود عالیان نے اس کا حال پوچھا تھا یقینا اسے عباس کی فکر تھی جبکہ عباس ایک ہاتھ سے
موبائل کان سے لگائے دوسرے سے حُرہ کی کلائی جکڑے ہوئے تھا
دیکھ غم بھلانے کے دو طریقے ہیں ایک شراب اور دوسر اشباب ، اور تو ان دونوں چیزوں سے فاصلہ رکھتا ہے ۔ تبھی تیری یہ حالت ہے ۔ ۔ میں نے تو تجھے کہا تھا ایک سپ لے گا تو سب بھول
جائے گا ۔ ۔ یا پھر ششب ۔۔

ابھی وہ آگے کچھ بولتا اس سے پہلے عباس نے کال کاٹ دی اور موبائل میز پر پٹخا اس کی اس حرکت پر حُرہ کا نپ گئی اور اپنی کلائی اس کی آہنی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی جبکہ عباس کے
دماغ میں عالیان کی باتیں گردش کر رہیں تھیں
چچ چھوڑ دیں مجھے ۔ ۔
حُرہ کی لرزتی آواز پر عباس نے چونک کر اسے دیکھا پھر اپنے ہاتھ میں موجود اس کا ہاتھ دیکھا اگلے پل عباس نے اس کی کلائی چھوڑ دی اور اٹھ کھڑا ہوا دروازے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے وہ اپنی شرٹ کر بٹن کھول رہا تھا جبکہ حُرہ اپنی کلائی کو سہلاتی ہوئی پھٹی آنکھوں سے عباس کو اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے دیکھ رہی تھی ۔

عباس نے دروازہ لاکڈ کیا اور پھر سے حُرہ کی جانب بڑھا اس دوران وہ اپنی شرٹ اتار چکا تھا صوفے سے چپکی حُرہ کو اپنی باہوں میں لے کر جب وہ بیڈ پر لایا تو حُرہ نفی میں سر بلانے لگی۔
ئن نہیں ۔ ۔ پلیز رحم کریں۔ ۔ رحم کریں سر کار ۔ ۔ عباس کو اپنی چادر کھینچتے دیکھ کر حُرہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ التجا کرنے لگی
ششش سکون چاہیے فی الحال مجھے ۔ ۔

حُرہ کے اپنے سینے سے ہاتھ ہٹا کر اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نے اس کا چہرہ اپنی سرخ آنکھوں
سے دیکھا
ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بھی بند کر دی کمرے میں تاریکی چھا گئی جبکہ حُرہ نے مزاحمت کرنا بھی چھوڑ دی تو عباس نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے حُرہ نے ایک ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے عباس کے سینے کے بالوں کو سختی سے پکڑ لیا اتنے دن میں پہلی بار عباس کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا پھر کمرے میں خاموشی چھا گئی ۔

وہ عباس کی جانب سے رخ موڑے کروٹ لیے لیٹی ہوئی تھی مگر مسلسل اپنے گھنے لمبے سیاہ بالوں میں عباس کی انگلیوں کا لمس محسوس کر رہی تھی چند لمحوں پہلے اسی احساس کے تحت وہ بیدار ہوئی تھی مگر خفت کے باعث عباس کی جانب نہیں مڑ رہی تھی رات کو عباس نے اس سے پورے استحقاق سے اپنا تعلق بنالیا تھا وہ مزاحمت بھی نہ کر سکی تھی اسے محسوس ہو گیا تھا اس کی مزاحمت کسی کام کی نہیں ہوگی عباس کی آنکھوں میں وہ اس کا پختہ ارادہ ویکھ چکی تھی اور پھر وہ کون ہوتی تھی انکار کرنے والی ، اس کا انکار کوئی حیثیت کہاں رکھتا تھا۔

ہاں دکھ ہوا تھا، بلکہ وہ گھبرا گئی تھی اس طرح اچانک سے عباس کا اس کی جانب قدم بڑھانا بلکہ اس کی تو روح کانپ گئی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ عباس اس کے وجود سے اپنا جی بہلا رہا ہے پھر اس کے انداز میں اس قدر شدت تھی کہ حُرہ نے مزاحمت کرنا ہی چھوڑ دی تھی اسے عباس سے ڈر لگ رہا تھا وہ عباس کو طیش نہیں دلانا چاہتی تھی۔
اپنی طلب پوری کر کے جب وہ پرسکون ہو کر سو گیا تو پہلی مرتبہ حُرہ تکیے میں منہ چھپا کر رودی شاید یہ رونا ہی تو اس کی زندگی میں رہ گیا تھا سر دار بی بی کی باتیں سوچ کر اس کا دل کر رہا تھا کہ عباس کو روک دے کیوں وہ اس کی رکھیل بنے کیونکہ جانتی تھی عباس محض دل بہلا رہا ہے بیوی تو اس کی نورے بنے گی۔

نورے کا سوچ کر اسے جانے کیوں ملال ہوا تھا جانے انجانے میں اس کے باعث نورے کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور مگر ہر سوچ سے زیادہ تکلیف دہ یہ سوچ تھی کہ وہ چاہ کر بھی عباس کو نہ روک سکی کہ وہ استحقاق سے اس کے وجود کو حاصل کر چکا تھا
عباس کی نیند میں ڈوبی آواز سے حُرہ کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اور اس نے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں سختی سے جکڑ لیا اسے لگ رہا تھا وہ اب کبھی بھی عباس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ پائے گی رات کے بارے میں سوچ کر اب اس کا رنگ سرخ ہونے لگا سانسیں تیز ہو گئیں جب عباس نے پھر بوجھل آواز میں اسے پکارا۔
حُرہ۔

وہ حُرہ کی پشت پر بکھرے بالوں کو ہٹا تا اب اپنی انگشت شہادت اس کی کمر پر پھیر نے لگا حُرہکا وجود
اس کے نرم لمس پر کانپ گیا مگر ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی رخ عباس کی سمت موڑنے کی عباس جانتا تھا حُرہ بیدار ہو چکی ہے مگر حُرہکا اس کی پکار پر جواب نہ دینا بھی اسے شدت سے محسوس ہوا تھا وہ اس کی دلی کیفیت سمجھ رہا تھا کہ یوں اچانک سب ہوا تو حُرہ کے دل میں اس کے لیے ڈر بیٹھ گیا تھا ۔

گہر اسانس خارج کرتے ہوئے ایک ہاتھ حُرہکی کمر کے نیچے سے نکال کر وہ حُرہکو سیدھا کرتا ہوا اس پر جھکا جبکہ حُرہ، عباس کے اس طرح اسے سختی سے جکڑنے اور پھر پورا جھکنے پر سہم گئی اور سختی سے آنکھیں میچ گئی۔
غصہ ہیں مجھ پر ۔ ۔ ؟
اپنا چہرہ حُرہ کے چہرے کے بے حد قریب کرتے ہوئے و ہ لیمپ کی مدھم روشنی میں اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا بات کرتے ہوئے اس کے دہکتے لب حُرہ کے سرخ رخسار سے مس ہوئے۔
ن نہیں ۔ ۔

عباس کی ہوش اڑا دینے والی قربت وہ رات سے کس طرح سہہ رہی تھی یہ وہ جانتی تھی ابھی بھی اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا عباس پوری طرح اس کے وجود پر قابض تھا کہ بمشکل اس کے حلق سے دھیمی سی آواز نکلی مگر آنکھیں ہنوز سختی سے میچی ہو ئیں تھیں
پھر ناراض ہیں ۔ ۔ ؟ ؟
اس کی بند آنکھوں سے نکلتے موتیوں کو اپنے لبوں سے چنتے ہوئے وہ پھر سے پوچھ رہا تھا جبکہ حُرہ اس کانرم لمس اپنی آنکھوں پر محسوس کر کے سک اٹھی۔
نن نہیں ۔ ۔
کپکپاتے لبوں سے بمشکل وہ بول پائی –
پھر یہ آنسو کیسے ۔ ۔
عباس اب اس کے برابر لیٹتے ہوئے پوچھ رہا تھا کہ حُرہ نے عباس کے پیچھے بٹتے ہی رخ موڑنا چاہا جب عباس نے اس کا ارادہ سمجھتے ہوئے اس کی کمر کے گرد باز و حمائل کرتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا دیا چند لمحوں بعد حُرہ اس کے سینے کے بالوں کی چبھن اپنے چہرے پر محسوس کرتی پیچھے ہونے کی کوشش کی عباس نے مسکرا کے اسے جدا کیا مگر حُرہ تکیے میں منہ چھپا کر خفت مٹانے لگی۔

میں کچھ پوچھ رہا ہوں ۔ ۔
اس بار عباس نے آواز میں تھوڑی سختی لاتے ہوئے پوچھا تو حُرہ اس کی بلند آواز سن کر لرز گئی
حج جی ۔ ۔ ؟ ؟
حُرہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بولے آنکھیں جھکائے مدھم سا بولی
کل رات جو ہوا اس پر دکھ کے آنسو بہار ہیں ہیں ۔ ۔ ؟ نہایت سرد مہری سے پوچھا گیا کہ حُرہ نے بے ساختہ نگاہ عباس کی جانب کی
ن نہیں ایساتت تو نہیں ہے ۔ ۔
لفظ بمشکل اس کے حلق سے نکلے تھے۔
کیا چاہتی ہیں آپ کہ رات کے لیے میں شر مندہ ہو کر معافی مانگو ۔ ۔ ؟؟
حُرہ کے کان میں موجود چھوٹی سی بالی کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے حرکت دیتے ہوئے وہ نگاہیں حُرہ کی سہمی ہوئی آنکھوں پر جمائے پوچھ رہا تھا۔
نن نہیں ۔ ۔ حُرہ بمشکل سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے بول سکی۔

فی الحال آپ کے لیے اتنا جاننا ضروری ہے کہ میں بہک کر آپ کے قریب نہیں آیا تھا ۔ ۔ بلکہ بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا میں نے ۔ ۔
وہ حُرہ کی دلی کیفیت جانتا تھا اس لیے اسے سمجھاتا ہوا بولا جبکہ حُرہ کو اس کی بات کچھ خاص سمجھ نہیں آئی تھی مگر خاموش رہی
آپ کے وجود پر یہ زخم کیسے ۔
حُرہ کے بازوؤں اور چہرے پر انگلیوں کے سرخ نشان اور کہیں نیلے پڑتے نشان دیکھ کر تورات کو ہی عباس کو شدید غصہ آیا تھا وہ کچھ کچھ تو معاملے کو سمجھ رہا تھا مگر جو سمجھ آرہا تھا وہ کافی تکلیف دہ تھا
جبکہ عباس کے سوال پر حُرہ کا رنگ زرد پڑا تھا
کس نے کیا ہے یہ سب ۔ ۔ ؟ حُرہ کے چہرے پر نرمی سے انگلی پھرتے ہوئے وہ پوچھ رہا تھا جبکہ حُرہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے اس سے پہلے عباس ایک مرتبہ پھر پوچھتا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور مسلسل دستک ہونے پر۔

Main Hoon Badnaseeb Part 4 آگے پڑیں

جاری ہے

Urdu Short Novel On Youtube

Updated: February 19, 2025 — 3:52 pm

1 Comment

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *