Main Hoon Badnaseeb Part 4 – An Emotional Thrilling Short Urdu Novel

A gripping tale of love, sacrifice, and fate, “Main Hoon Badnaseeb” is a Short Urdu Novel that will keep readers hooked from start to finish.

Read here part 2 Main Hoon Badnaseeb 3

Short Urdu Novel

Main Hoon Badnaseeb 4 Short Urdu Novel

عباس جھنجھلا کر اٹھا اور حُرہ پر کمفرٹ اوڑھا اور خود پاس پڑی شرٹ پہنتا ہوا بٹن بند کر تا وروازے کی جانب بڑھا جبکہ حُرہ چہرہ بھی کمفرٹر میں چھپا گئی جانے کون ہو گا دروازے پر اور اس طرح دیکھ کر کیا
سوچے گا یہ سوچتے ہی حُرہ کا دل گھبرا گیا
یہ کیا طریقہ ہے ۔ ۔ ؟؟ جب دروازہ نہیں کھل رہا تو خاموشی سے واپس مڑ جاؤ ۔ ۔ ڈھٹائی سے کھڑے
رہنے کا کیا مقصد ہے ۔
دروازہ کھول کر ناہید کو سامنے دیکھ کر تو عباس کو شدید غصہ آیا خاصی بلند آواز میں وہ چلایا تھا جبکہ ناہید،
عباس کے چنگھاڑنے پر کانپ کر دو قدم پیچھے ہوئی
و وہ سر کار معاف کر دیں وہ جی ۔ ۔ سر دار بی بی آپ کو ناشتے کے لیے بلا رہے ہیں ۔ ۔ ناہید نے دونوں ہاتھ جوڑکر معافی مانتے ہوئے کہا
ہمم ۔ ۔ ٹھیک ہے جاؤ ۔ ۔
درشتی سے کہتے ہوئے عباس نے دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا جب مڑا تو حُرہ کو کمفرٹر میں چھپا دیکھ
کر اس کے سپاٹ چہرے پر تبسم بکھرا۔

میں شاور لینے جا رہا ہوں ۔۔ ناشتہ یہاں نہیں کر پاؤں گا ۔ ۔ کیونکہ لیٹ ہو گیا ہوں میں آج میرے کیس کی ہئیر نگ ہے ۔ ۔ آپ فریش ہو کر ناشتہ کر لیجئے گا ۔ ۔ جلد حویلی آنے کی کوشش کروں گا ۔ ۔ الماری سے اپنے کپڑے نکالتے ہوئے اس نے خاصی بلند آواز میں کہا اور پھر ایک مسکراتی نگاہ حُرہ کے چھپے ہوئے وجود پر ڈال کر واشروم کی سمت بڑھ گیا جبکہ حُرہ کو جب یقین ہو گیا ہے اب عباس روم میں نہیں ہے تو چہرے سے کمفرٹر ہٹایا اور کپڑے درست کرتی بیڈ سے اتری قریب پڑی ہوئی چادر کو اٹھا کر اپنے اوپر اچھی طرح اوڑھا اور ایک نظر واشروم کے بند دروازے کو دیکھ کر کمرے سے نکل گئی۔

رات اس نے آنکھوں میں گزاری تھی یہی سوچ بے چینی میں اضافہ کر رہی تھی کہ وہ لڑکی عباس کے پاس ، اس کے کمرے میں موجود ہے کتنی دیر تو و ہ کمرے میں بے چینی سے ٹہلتی رہی کئی مرتبہ کمرے سے نکلی مگر دروازے سے ہی واپس مڑگئی۔

نہیں عباس اسے بیوی کا درجہ نہیں دیں گے ۔ ۔ وہ تو نگاہ اٹھا کر کسی لڑکی کو بھی نہیں دیکھتے کتنی بار میں نے نوٹ کیا ہے ۔ ۔ وہ تو میرے سے بھی نظر جھکا کر بات کرتے ہیں ۔ ۔ میرے حُسن کے آگے بھی بہکتے نہیں ہیں ۔ ۔ پھر وہ عام سی لڑکی ۔۔ مگر ۔ ۔ ہم مگر وہ لڑکی ان کے نکاح میں ہے ۔۔

اگر ۔ ۔ اگر عع عباس نے اسے ۔۔ ن نہیں ۔۔ میں نہیں برداشت کر پاؤں گی ۔ ۔ میرے خدا میں کیا
کروں ۔ ۔ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے جانے وہ کیا کیا سوچ رہی تھی ساری رات اضطراب میں گزارنے کے بعد کچھ دیر سوپائی تھی آٹھ بجے معمول کے مطابق کمرے سے باہر نکلی تو ملازمہ سے حُرہ کے بارے میں پوچھا۔

وووہ ۔ ۔ وہ لڑکی کہاں ہے ۔ ۔
اسے حُرہ کا نام تو معلوم نہیں تھا سب کی طرح اس نے بھی لڑکی کہا
جی وہ توا بھی چھوٹے سرکار کے کمرے میں ہی ۔ ملازمہ اس کی بات سمجھتے ہوئے بولی
ابھی وہ بتا ہی رہی تھی جب اسے سردار بی بی کی پریشان آواز آئی
ارے جا کر ناشتے کے لیے بلا کر لا سر دار کو ۔ سردار بی بی کو جب معلوم ہوا کہ حُرہ ابھی تک عباس کے ساتھ ہے تو ان سے رہا نہیں گیا اور ناہید کو فوراً بھیجا جبکہ نورے کے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا وہ شکستہ قدموں سے چلتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی۔

بچپن سے بچوں کے دل میں یہ نازک بات نہیں ڈالتے خاص کر لڑکیوں کے دلوں میں کیونکہ لڑکیوں کے دل بہت نازک ہوتے ہیں وہ ٹوٹ جاتی ہیں بکھر جاتی ہیں پھر ساری عمر دل میں یہ روگ رکھتی ہیں۔
ہر لڑکی خوش قسمت نہیں ہوئی کہ جسے ایسا ہمسفر ملے جو اس کے دل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو
جوڑنے کی صلاحیت اور ظرف رکھتا ہو نورے ایسی غلطی کی منہ بولتی مثال ہے بچپن سے عباس کے ساتھ اس کا نام جوڑا گیا مگر یہ تو قسمت کے کھیل ہیں کی کس کے نصیب میں کون ہوتا ہے آپ کون ہوتے ہیں خدا کے کاموں میں دخل دینے والے۔

جانے نورے کی زندگی آگے جا کر کیا موڑ لیتی ہے وہ نہیں جانتی تھی خاندانی اصولوں کے تحت وہ عباس کی دوسری بیوی کا مرتبہ حاصل کرتی ہے یا سخت اصولوں کے تحت ساری عمر اسی کے نام
سے بندھ کر بے رنگ زندگی گزارتی ہے۔
وہ دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی مگر مسلسل عباس کا خیال اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا وہ گزری رات کے حصار سے ابھی نہیں نکل پائی تھی اپنے وجود پر عباس کا لمس اسے ابھی بھی محسوس ہو رہا تھا۔

او بی بی ۔ ۔ حویلی کی سردار بی بی بننے کے خواب دیکھنا بند کرو ۔ ۔ اور کھانے کی تیاری کرو ۔ ۔ ختم کرو
جلدی سے کام ۔ ۔
حُرہ کو شیلف کے پاس کسی گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر ناہید پھنکاری تو حُرہ یکدم خیالوں سے نکلی اور ناہید کا غصہ دیکھ کر سر جھٹکتی کھانا بنانے لگی
نہیں حُرہ مت سوچو کچھ بھی ۔۔ یہ سب ایک جیسے ہیں ۔ ۔ بے رحم ۔ ۔ ظالم ۔ ۔ سب کو اپنا اپنا مطلب پورا کرنا ہوتا ہے ۔ ۔ چھوٹے سردار نے بھی محض ضرورت پوری کرنی تھی سو کر لی ۔ ۔ اس سے زیادہ
تمہارا وجود ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ دل میں خود سے مخاطب ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے اپنی سفید چادر کے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے اک گہرا سانس لیا اور اپنا دھیان عباس سے ہٹ کر کام میں لگا لیا اس نے اب امید یں رکھنی ہی چھوڑ دی تھیں۔
دل میں کوئی خوش فہمی پال کر وہ خود اذیتی سےنہیں گزارناچاہتی تھی
پہلے ہی بڑی مشکل زندگی تھی اور پھر یہ بات بھی جانتی تھی کہ عباس کی زندگی میں نورے پہلے سے موجود ہے اور یہاں سے آگے وہ خود نہیں سوچنا چاہتی تھی۔

ناعمہ تم پریشان کیوں ہوتی ہو ۔ ۔ کیا تمہیں ہم پر یا سر دار صاحب پر یقین نہیں ہے ۔ ۔ کیا نورے
صرف تمہاری بیٹی ہے ۔ ۔ ؟؟ تم سے زیادہ فکر ہے سردار جی کو اس کی ۔ ۔ سر داربی بی اور ناعمہ اس وقت حویلی کے صحن میں بیٹھی دھیمی آواز میں باتیں کر رہیں تھیں ناعمہ ہمدانی رات سے نورے کی بکھری حالت دیکھ کر کڑھ رہیں تھیں
ایسی بات نہیں ہے ۔ ۔ میں جانتی ہوں آپ دونوں نورے کو بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں مگر ۔ ۔ ایک بات آپ بتائیں سر دار بی بی کے ایک عورت یہ کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ ۔ ۔ جس شخص کے ساتھ ہمیشہ سے اس کا نام جوڑا تھا اب کوئی دوسری اسکی زندگی میں آگئی ہے ۔ ۔ اور پھر آپ نورے کو جانتی ہیں وہ کتنی حساس ہے ۔ ۔ رورو کے برا حال کیا ہوا ہے اس نے اپنا جب سے چھوٹے سر دار کا
نکاح ہوا ہے ۔ ناعمہ نے چہرے پر پریشانی لئے کہا۔

میرا بس چلے تو اس لڑکی کا گلا دبا کر مار دوں ۔ ۔ مگر سردار جی نے سختی سے کہا ہے کہ اس لڑکی کو زندہ
رکھا جائے ۔ ۔ سر دار بی بی لہجے میں حُرہ کے لیے نفرت لیے بولیں تھیں جبکہ ان کی بات پر ناعمہ نے نفی میں سر ہلایا
میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ اس لڑکی کو عباس چھوڑ دے ۔ ۔

ناعمہ نے کہا تو سر دار بی بی نے ان کی بات کی نفی کی
تم جانتی تو ہو خون بہا میں آئی لڑکیوں کو طلاق نہیں دے سکتے ۔ ۔ انہوں نے ماتھے پر بل ڈالے کہا وہ ناعمہ کو کیا بتاتی ان کو خود حُرہ کا وجود برداشت نہیں ہو رہا تھا
زیادتی ہو رہی ہے میری بیٹی کے ساتھ ۔ ۔
انہوں نے بھیگی آواز میں کہا وہ جانتی تھیں کہ عباس اور نورے کا رشتہ بھی نہیں ختم ہو سکتا
ہر گز زیادتی نہیں ہوگی نورے کے ساتھ ۔ ۔ ہم بہت جلد اس کی شادی عباس سے کر دیں گے ۔ ۔ اور یہ بات تو تم جانتی ہو عباس اپنے باپ کی کوئی بات نہیں ٹالتا ۔ ۔ تمہیں کیا لگتا ہے اس لڑکی کے
ساتھ نکاح اپنی خوشی سے کیا تھا عباس نے۔سردار جی زور دیا تھا ورنہ وہ کہاں کرتا۔۔

سر دار بی بی ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے بولیں تو ناعمہ ہمدانی نے خاموشی اختیار کر لی ۔وہ مرد ہے وہ چار شادیاں بھی کر سکتا ہے ۔ ۔ مگر جو حیثیت نورے کی ہے وہ اور کسی کی نہیں ہو سکتی ۔۔ اور عباس جانتا ہے یہ بات۔۔ تم نہیں جانتی ہم تو خود چاہتے ہیں کہ بس جلد سے جلد نورے اور عباس کے بچے دیکھیں ۔ ۔
سر دار بی بی پھر سے بولیں تھیں جبکہ ناعمہ محض سر بلا کر رہ گئیں۔

اسے کام نمٹاتے ہوئے رات ہو گئی تھی اپنے بنگلے میں آکر وہ فریش ہو کر لیٹ گیا تھا آج سارا دن وقفے وقفے سے اسے حُرہ کا خیال آتا رہا تھا ایک تو پہلے ہی وہ عابی والے حادثے کے بعد اتنے دنوں سے ذہنی اذیت سے گزر رہا تھا پھر جب اس لڑکی کا خیال آتا جس سے اس نے چند دن پہلے بابا کے کہنے پر نکاح کیا تھا تو مزید بے چینی ہونے لگتی اور پھر تو جیسے اس کی بے سکونی بڑھتی رہتی وہ اس دن حویلی گیا کوشش کے باوجود وہ اس لڑکی سے نہیں مل سکا شاید ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی مگر کبھی کبھی عالیان کے مذاق میں کی ہوئی باتیں اسے بے چین کرتی تھیں۔

جب وہ کبھی کبھی شراب کا گلاس تھما کر لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کا مشورہ دیتا تھا اس وقت تو وہ بھاگ جا تا تھا مگر سوچ حُرہ کی جانب چلی جاتی تھی۔
شاید اس لیے کہ وہ اس کی محرم تھی
کل جب وہ ہوٹل میں احمد اور عالیان کے ساتھ لنچ کر رہا تھا تب بھی یکدم اسے اس لڑکی کا خیال آیا جس کے ساتھ اس کا بہت مضبوط رشتہ قائم ہو چکا تھا مگر وہ تو اس کا نام بھی فراموش کر چکا تھا اسی وقت۔

اس نے حویلی جانے کا فیصلہ کیا گاڑی دھیمی رفتار سے چلائی کہ وہ مزید ہر پہلو سے سوچنا چاہتا تھا پہلی نظر جب اس نے حُرہ پر ڈالی تھی اسی وقت اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اس سے ڈر رہی ہے حُرہ نے خود کو چادر میں لپیٹا ہوا تھا آدھا چہرہ بھی وہ اس سے چھپا رہی تھی مگر چونکہ نکاح کی کشش تھی کہ کسی لڑکی

کو ایک آنکھ نہ دیکھنے والا سامنے کھڑی لڑکی کو گہری نگاہوں سے پورے حق سے دیکھ رہا تھا دونوں نے ہی پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھا تھا وہ ایک عام سے خاندان سے تعلق رکھتی تھی ، پھر خون بہا میں آئی ہوئی تھی یہ ساری باتیں سمجھتے ہوئے وہ جان گیا تھا کہ حُرہ کس قدر سہمی ہوئی تھی مگر وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا بے شک نکاح اس نے باپ کے کہنے پر کیا تھا مگر نکاح کرتے وقت اس نے دل میں خود سے عہد لیا تھا کہ اس لڑکی کے حقوق پورے کرے گا حُرہ کے جسم پر نیل کے نشان دیکھ کر اسے شدید غصہ آیا اس نے حُرہ سے پوچھا بھی تھا مگر اس نے بتایا نہیں وہ واپس جا کر حُرہ سے اس بارے میں مزید بات کرنا چاہتا تھا کیونکہ بہت سی باتیں اسے پریشان
کر رہیں تھیں
آج چاند کہاں سے نکلا ہے احمد ۔ ۔ ؟؟
وہ رات کا کھانا کھانے کے بعد بیٹے تھے کی عالیان کی شرارت بھری آواز سے ہوش میں آیا اور اب آرام سے صوفے پر بیٹھتے احمد اور عالیان کو دیکھنے لگا یہ وہ دوست تھے جو اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔

Read Here Next Part Main Hoon Badnaseeb Part 5

Updated: February 20, 2025 — 2:08 pm

2 Comments

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *