Main Hoon Badnaseeb Part 5 – An Emotional Famous Short Urdu Novel

Famous Short Urdu Novel Main Hoon Badnaseeb Part 5 “ takes the story to new heights with intense emotions, unexpected twists, and a powerful narrative. This famous short Urdu novel beautifully captures the struggles of fate, love, and betrayal, keeping readers engaged till the end.

famous urdu short novel

famous short Urdu novel

Main Hoon Badnaseeb Part 4

مغرب سے ۔ ۔
احمد نے ٹی وی آن کرتے ہوئے عالیان کے مذاق کا حشر کرتے ہوئے کہا تو عباس مسکرانے لگا

مجھے تو لگ رہا ہے جنوب سے نکلا ہے ۔ عالیان نے جانچتی نظروں سے عباس کو دیکھتے ہوئے کہا تو اس بار عباس نے اسے گھورا
اوئے ٹی وی سے نظریں ہٹا کر دیکھ آج واقعی کچھ گڑبڑ ہے ۔ ۔
عالیان نے عباس کی گھوری کو نظر انداز کرتے ہوئے احمد سے ریموٹ لیتے ہوئے کہا تو اس نے نا سمجھی سے عالیان کو دیکھا عالیان نے فوراً ادھر ادھر دیکھا پھر صوفے کے نیچے دیکھا
کیا ڈھونڈ رہا ہے ۔ ۔ ؟
اس بار عباس نے بھی نا سمجھی سے پویھا
نا شراب کی بوتل نظر آرہی ہے ناشباب نظر آرہی ہے ۔ پھر یہ مسکراہٹیں ۔ ؟ کچھ سمجھ نہیں۔
رہی ۔ ۔ آ
عالیان نے چہرے پر مصنوعی معصومیت سجائے عباس کو کہا تو اس کی بات سمجھتے ہوئے بے اختیار عباس نے قہقہہ لگایا اتنے دن بعد عباس کو کھل کر مسکراتے دیکھ کر عالیان اور احمد دونوں ششدر رہ گئے۔

احمد تومان نہ مان – – ہمارا شریف بچہ غلط کاموں میں پڑ گیا ہے ۔

عالیان نے عباس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے احمد سے کہا تو عباس نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی
عباس تو ٹھیک ہے نا ۔ ۔ ؟
اس بار احمد نے پوچھا اس کے لہجے میں پریشانی واضح تھی
تم لوگوں کو لگ رہا ہے میں صدمے کی وجہ پاگل ہو گیا ہوں ۔ ۔ ؟ ” عباس نے اس بار سنجیدگی سے پوچھا
خدا تجھے ہمیشہ مسکراتا ہی رکھے یار ۔ ۔ لیکن سب ٹھیک ہے نا ۔ ۔ ؟” احمد ، عباس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس بار سنجیدگی سے پوچھنے لگا
ہاں سب ٹھیک ہے عباس نے مختصر جواب دیا جبکہ عالیان ابھی بھی اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا
ہاں احمد سب کچھ زیادہ ہی ٹھیک لگ رہا ہے ۔ عالیان ابھی بھی باز نہ آیا تھا عباس نے اٹھ کر ایک مکہ اس کی کمر میں مارا

پہلے ہی میرا سر درد ہو رہا ہے ۔ ۔ مزید دماغ نہ خراب کر میرا ۔ ۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے عباس نے ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لیا اور نیوز چینل لگا کر عالیان کے ساتھ بیٹھ
گیا جبکہ عالیان کراہ کر رہ گیا
چل میں تیرے لیے چائے بناتا ہوں ۔ احمد مسکرا کر کہتا ہوا کچن کی جانب چل پڑا
اصل شریف تو یہ بندہ ہے یار ۔ ۔ جو چائے بنا کر دے رہا ہے ۔ ۔ تیرے تو آج کل پچھن ٹھیک نہیں لگ رہے مجھے ۔۔ نظر رکھنی پڑے گی ۔ ۔
عالیان بلند آواز میں بڑبڑا رہا تھا جبکہ عباس نے نظریں ٹی وی سکرین پر رکھتے ہوئے بمشکل مسکراہٹ
دبائی ۔

نورے اور ناعمہ کہاں ہیں ۔ ۔ ؟؟ کھانے کے لیے کیوں نہیں آئیں ابھی تک ۔ ۔ ؟؟ سب خیر ہے نا ۔ ۔ ؟
سر دار شیر دل نے سر براہی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے نورے اور ناعمہ کی کرسیاں خالی دیکھ کر سر دار بی بی سے استفسار کیا

ناعمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ ۔ سر دار بی بی نے شوہر کی پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے کہا
کیوں کیا ہوا ہے ۔ ۔ ؟
سر دار شیر دل نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا
بیٹی کی پریشانی کھائے جارہی ہے اسے ۔ ۔ یہ سوچ کر پریشان ہے کہ عباس کے نکاح میں پہلے سے
ہی کوئی لڑکی موجود ہے ۔ ۔
سر دار بی بی اب اپنی پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے گویا ہوئیں
تو تم ے اسے بتانا تھا کہ وہ لڑکی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہمارے اور ہمارے بیٹے کے آگے۔
وقت کے کنا وہ ایک کوئی ہمارے اور ۔ ۔ ہو نورے ہی بنے گی ۔ ۔ سردار شیر دل نے کھانا کھاتے ہوئے حتمی انداز میں کہا
کہا ہے میں نے مگر ۔ ۔ پریشانی کم نہیں ہوئی اس کی ۔۔ بس آپ اب جلدی کریں عباس اور نورے کی شادی میں ۔ ۔
سردار بی بی اس بار سنجیدگی اور پریشانی سے بولیں۔

ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں ۔ ۔ جلد ہی عباس سے شادی کی بات کرتا ہوں ۔ ۔ انہوں نے سردار بی بی کی بات سے متفق ہوتے ہوئے کہا تو سر دار بی بی نے اثبات میں سر بلایا
اور نورے کہاں پر ہے ۔ ۔
سر دار شیر دل نے انہیں دیکھتے ہوئے پھر سے پوچھا
وہ اپنے کمرے میں ہے ۔ ۔
سر دار بی بی نے دھیمی آواز میں کہا
او نورے بیٹی کو بولا ۔ ہم نے بلایا ہے انہیں ۔
سر دار شیر دل نے ناہید کی جانب دیکھتے ہوئے اسے حکم دیا تو وہ جی کہتے ہوئے نورے کے کمرے
کی جانب بڑھ گئی
کافی دن ہو گئے عباس نہیں آیا ۔ ۔
اس مرتبہ سر دار بی بی نے بے چینی سے کہا۔

اں بات ہوئی تھی میری اس سے ۔ ۔ مصروف ہے بہت ۔ ۔ مگر جلد آنے کے لیے کہا ہے میں نے اسے ۔ ۔
سردار شیر دل نے سر سر می سے بتایا تو سردار بی بی سر و آہ بھر کر رہ گئیں
السلام علیکم تا یا سردار ۔ ۔ نورے نے ڈائننگ ہال میں داخل ہو کر سردار شیر دل کو سلام کیا
وعلیکم السلام میری بیٹی آؤ بیٹھو ۔ ۔ کھانا کھاؤ ۔ ۔
انہوں نے نورے کو دیکھتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور کرسی کی سمت اشارہ کر کے بیٹھنے کا حکم دیا
دوپٹہ درست کرتی کرسی پر بیٹھ گئی جبکہ سردار بی بی نورے کو بغور دیکھنے لگیں خوش باش مسکرانے والی نورے کس قدر مرجھا گئی تھی کہ چہرے کی رونق مانند پڑ گئی تھی آنکھیں
شاید رونے کے باعث سرخ تھیں نورے کو اس طرح دیکھتے ہوئے انہوں نے دل میں عہد کیا کہ جلد سے جلد نورے کے اداس چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سامان ضرور کریں گی
نورے میری جان ۔ ۔ صحیح طرح کھانا کھاؤ ۔ ۔ دیکھو اتنی کمزور ہو گئی ہو ۔ ۔
سردار بی بی نورے کو ایسے ہی سر جھکائے بیٹھا دیکھ کر محبت سے بولیں تو نورے بمشکل مسکرا کر کھانا کھانے لگی اسی وقت حُرہ کچن سے سویٹ ڈش لاکر میز پر رکھ رہی تھی جب سردار شیر دل کے خوف۔

کے باعث اس کے ہاتھ کپکپائےاور اسی وقت کھیر کا ڈونگا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر گیا۔
اس کے کچھ چھینٹے سردار شیر دل کی سفید شلوار پر بھی گر گئے۔
لڑکی کیا اندھی ہو تم؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے اب
وہ حُرہ کو دیکھتے دھاڑے تھے جبکہ حُرہ ان کی دھاڑ پر مزید سہم گئی اور چند قدم پیچھے ہوئی، پھر دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھتے روتے ہوئے کچن کی جانب بھاگی۔
یہ تو کسی کام کی نہیں ہے بس۔ مفت کی روٹیاں توڑتی ہے۔ حرام خور
سردار شیر دل کو اٹھتا دیکھ کر سردار بی بی حُرہ کو لعن طعن کرتی ان کے پیچھے ڈائٹنگ ہال سے نکل گئیں، جبکہ نورے کو ہمیشہ کی طرح آج بھی حُرہ کے ساتھ ہوتے سلوک پر دکھ ہوا۔
ناہید یہ صاف کرو
ناہید کو حکم دے کر وہ کچن کی جانب بڑھی جہاں حُرہ چادر سے چہرہ چھپائے شدت سے رو رہی تھی۔ اس کے رونے میں اتنا درد تھا کہ نورے کو اس پر بے تحاشہ ترس آیا۔
سنو۔۔
بے اختیار ہی نورے نے اسے پکارا جبکہ حُرہ نے چونک کر سامنے کھڑی نورے کو دیکھا۔

حج جی ۔ ۔ ؟
اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے حُرہ نے نگاہیں چرا کر پوچھا مگر نورے ہنوز خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے دیے ہوئے گلابی سادہ سے جوڑے میں بڑی سی کالی چادر اوڑھے وہ دبلی پتلی سی لڑکی جس کا رونے کے باعث چہرہ اور آنکھیں سرخ تھیں، اسے دیکھ کر نورے کو جانے کیوں افسوس ہوا۔ اسے ہمیشہ اس لڑکی کے لیے برا لکھا تھا مگر اس لڑکی کے عباس سے رشتے کے باعث ہمیشہ وہ اسے نظر انداز کرتی تھی۔
آپ کو تک کچھ چاہیے ۔ ۔
نورے کو اپنی جانب تکتا پا کر حُرہ گھبرائی ہوئی بولی۔
میں جانتی ہوں تم بے قصور ہو۔ پھر بھی سزا تمہیں مل رہی ہے ۔ ۔
نورے نے آہستگی سے کہا تو حُرہ نے دکھ سے سر جھکا لیا مگر خاموش رہی۔
تم کیسے سہ لیتی ہو اتنا کچھ ۔ ۔ ؟ مجھ سے تو یہ برداشت نہیں ہو رہا کہ تم عباس کے نکاح میں ہو ۔
یہ کہتے ہوئے نورے کی آنکھیں بھیگنے لگیں جبکہ حُرہ کا جھکا سر اس بار شرمندگی سے مزید جھک گیا۔

کہتے ہیں اگر آپ پہلے دوسروں کے لیے دعا کرو تو آپ کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے ۔ ۔ میں دعا کرتی ہوں کہ خدا تمہاری مشکلات آسان کریں ۔ ۔
بھیگی آواز میں کہتے ہوئے نور سے سسک کر واپس مڑ گئی جبکہ حُرہ بے یقین سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
فرش صاف کرو باہر جا کر ۔ ۔ خود کو مالکن سمجھ کر یہاں آگئی ہے ۔
نورے کو باورچی خانے سے نکلتا دیکھ کر ناہید غصے سے حُرہ کو دیکھتی پھنکاری۔
جبکہ حُرہ آنسو پیتی ہوئی ڈائٹنگ ہال میں چلی گئی۔ سارے کام ختم کر کے جب وہ اپنے سٹور نما کمرے میں داخل ہوئی تو کافی رات ہو چکی تھی۔ دروازہ بند کر کے چٹائی پر آ لیٹی اور چادر اتار کر سر کے نیچے رکھ لی۔

تھکان اتنی تھی کہ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سو جاتا مگر اسے ابھی اپنی قسمت پر آنسو بہانے تھے۔ ہمیشہ کی طرح سارے دن میں ہوئے واقعات یاد کرنے لگی۔ سردار شیر دل اور سردار بی بی کے ہاتھوں اپنی توہین یاد آئی تو آنسو خود بخود آنکھوں کے راستے بہنے لگے۔ پھر نورے کے الفاظ یاد آئے تو نئے سرے سے ملال ہونے لگا۔ مالکان سے لے کر ملازمین تک کا برا اور ہتک آمیز رویہ اس نے دیکھا تھا مگر نورے نے کبھی توہین نہیں کی تھی، نہ باقیوں کی طرح کبھی تشدد کیا تھا مگر آج اس کا رونا اور اس کے الفاظ حُرہ کے دل پر بوجھ ڈال رہے تھے۔

نورے میں بھی آپ کے لیے دعا کے سوا کچھ نہیں کر سکتی ۔ کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔ خدا کی قسم اگر مجھے اس حویلی کے علاوہ کوئی دوسری چھت میسر ہوتی تو آپ کی اور سردار کی زندگی سے بہت دور چلی جاتی ۔ کم از کم اپنی وجہ سے آپ کو کوئی دکھ نہ دیتی ۔ مگر ۔ مگر میں کیا کروں ۔ میرا کوئی نہیں ہے۔ مرد کے بغیر زندگی گزارنے میں جتنی مشکلات پیش آتیں ہیں، عورت کو وہ بہت اچھے طریقے سے جانتی ہوں میں ۔ باہر درندے ہیں بہت جو ہمہ وقت نوچنے کو تیار کھڑے رہتے ہیں ۔ کیا کروں آپ کے لیے ۔ کچھ نہیں کر سکتی ۔ بے شک حویلی میں غلامی کی زندگی گزارنا ناقابل برداشت ہے مگر بے بس ہوں میں ۔ کم از کم حویلی میں مجھے اپنی آبرو ریزہ ریزہ ہونے کا ڈر نہیں ہے ۔ پھر یہ غلامی کا سودا برا نہیں ہے میرے لیے ۔ میں یہ چھت نہیں چھوڑ سکتی ۔ مگر آپ ڈر کیوں رہی ہیں نورے ۔ سردار تو آپ کے ہی ہیں، میں تو کچھ بھی نہیں آپ کے آگے ۔ کوئی اوقات نہیں میری۔

کمرے کی چھت کو خالی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے وہ دکھ سے بیزار تھی۔ زندگی میں تکلیفیں بڑھتی ہی جا رہی تھیں، یا یوں کہنا بہتر تھا کہ اس نے شاید ہی کوئی خوشی دیکھی ہو۔ حُرہ جیسی خود دار لڑکی کے لیے حویلی میں اس طرح زندگی گزارنے سے بہتر موت تھی مگر افسوس کہ اپنے حصے کی سانسیں اسے ہر حال میں پوری کرنی تھیں۔ اس رات کے بعد عباس حویلی نہیں آیا تھا، وہ جلد آنے کا کہہ کر گیا تھا مگر بہت سارے دن گزر گئے تھے۔ نامحسوس انداز میں وہ اس کا انتظار کرتی تھی مگر پھر اپنی بے وقوفی پر خود کو پیٹتی۔

سب اپنے پرائیوں نے تو غلط کیا تمہارے ساتھ، مگر اب خود اپنے دل کو مزید تکلیف سے دوچار مت کرو۔ وہ گاؤں کا سردار ہے۔ اور تم کیا ہو؟ صحیح کہا تھا سردار بی بی نے، خون بہا میں آئی ہوئی کے حصے میں فقط ایک آدھ رات آتی ہے۔ انہیں کوئی بیوی کی حیثیت تھوڑی دیتا ہے۔ وہ تو دل بہلانے کے لیے۔”

اور اب پھر وہ شدت سے رو دی تھی کہ فقط آنسوؤں پر اختیار تھا۔ جیسے جیسے رات بڑھ رہی تھی، کمرے میں خنکی بھی بڑھ رہی تھی۔ روتے ہوئے جب وہ سو گئی تو نیند میں ہی سر کے نیچے رکھی چادر اٹھا کر اپنے وجود پر ڈال دی۔

کچھ عابی کے کیس کی وجہ سے اور کچھ دوسرے کیسز کی وجہ سے وہ اس قدر مصروف رہا تھا کہ کوشش کے باوجود بیس بائیس دنوں سے حویلی جا نہیں سکا تھا۔ سارے دن مصروفیت کے باعث جب وہ سونے کے لیے لیٹتا تو حُرہ کا خیال اسے مسکرانے پر مجبور کر دیتا۔ وہ ڈری سہمی سمٹی ہوئی لڑکی اسے اپنی جانب جیسے کھینچ رہی تھی، مسلے کالے کپڑوں میں چھپی ہوئی، بار بار چادر سے خود کو چھپانا، یکدم سہم جانا، اس سے نگاہیں نہ ملانا، بے آواز رونا، اس کی شرارت پر خفت کے مارے رخ موڑنا، ایک ملاقات۔

میں ہی وہ اس کی قربت سے اس قدر سرشار ہوا تھا کہ اس کا خیال اسے مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ آج اس نے خود سے عہد کیا تھا کہ بے شک کام چھوڑ کر ہی جانا پڑے مگر وہ آج حویلی ضرور جائے گا۔ مزید حُرہ سے دوری اسے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اس دوران اسے بابا سرکار کی بھی کال آئی تھی، کچھ ان کا سوچتا وہ جلدی سے کام نبٹا کر حویلی کی جانب روانہ ہوا مگر موسم کی وجہ سے گاڑی آہستہ چلانی پڑی۔ جب وہ حویلی پہنچا تو اس وقت گھڑی کی سوئیاں رات کے دس بجا رہیں تھیں۔ حویلی کے تمام مکین خنکی کے باعث اپنے اپنے کمروں میں لحاف اوڑھے آرام کر رہے تھے۔

عباس آس پاس جائزہ لیتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے کی لائٹ آن کرنے کے بعد چونک کر ایک نظر کمرے پر ڈالی مگر کمر ویسا ہی تھا جیسا ہمیشہ ہوتا تھا، مگر اس مرتبہ وہ حُرہ کا وجود اس کمرے میں چاہتا تھا۔ اس کے خیال کے برعکس کمرہ خالی تھا۔

حُرہ کا کمرا کون سا ہے؟ دل میں سوچتے ہوئے اس نے اپنے لیپ ٹاپ والا بیگ میز پر رکھا۔ بہت خوب عباس ہمدانی،
لا پرواہی کی انتہا ہے۔ تمہیں یہ ہی نہیں معلوم کہ تمہاری بیوی کس کمرے میں رہتی ہے۔ تف ہے مجھ پہ۔

اپنی لا پرواہی پر دل میں شرمندہ ہوتا، وہ بڑبڑاتے ہوئے اب حُرہ کی تلاش میں کمرے سے نکلا۔

Main hun badnaseeb part 6

جاری ہے

subscribe us on youtube

Updated: February 21, 2025 — 1:36 pm

4 Comments

Add a Comment
  1. Sir plz next part plz plz plz

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *