“Main Hoon Badnaseeb” Part 6 continues the thrilling journey of this famous short Urdu novel, filled with suspense, romance, and unexpected twists.

Main Hoon Badnaseeb Part 6 – Famous Short Urdu Novel Full Story
Main Hoon Badnaseeb Part 5
جب اسے گرم چادر میں لپٹی ہوئی نورے کچن سے نکلتی ہوئی نظر آئی شاید وہ پانی لینے آئی تھی اس کے ہاتھ میں موجود جگ دیکھ کر عباس کو اندازہ ہو گیا نورے بھی عباس کو دیکھ چکی تھی یقینا وہ ابھی ہی حویلی پہنچا تھا کیونکہ اس نے اپنا وکیلوں والا کالا کوٹ ابھی تک پہنا ہوا تھا
السلام عليكم
جب وہ نورے کے قریب پہنچا تو سنبھلتے ہوئے نورے نے سلام کیا
وعلیکم السلام ۔ ۔
عباس نے نگاہیں ادھر ادھر کرتے ہوئے جواب دیا
کیسی ہیں ۔ ۔
عباس نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھا تو نورے نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا جتنی سامنے کھڑے شخص کی وجہ سے وہ اذیت میں رہتی تھی اب اس کو سامنے دیکھ کر جیسے ہر
تکلیف پل میں ختم ہوئی تھی
ٹھیک ۔ ۔ آپ کیسے ہیں ۔ ۔ ؟
عباس کے ہاتھ میں تھامے موبائل کو تکتے ہوئے اس مرتبہ نورے نے پوچھا جبکہ نورے کے نگاہیں چرانے پر عباس نے اپنی جھکی نظریں بھی اپنے موبائل کی جانب کیں
ہم ٹھیک ۔ ۔
چچی کیسی ہیں ۔ ۔ ؟
عباس نے سر سری نظر میسیجز پر ڈالتے ہوئے پوچھا تو اس بار پھر نورے نے اس کے وجاہت سے
بھر پور چہرے کو دیکھا
ٹھیک ہیں ۔ ۔
وہ دھیمی آواز میں بولی
بولی
چلیں کافی رات ہو گئی ہے ۔ ۔ آپ آرام کریں ۔ ۔ پھر بات ہوگی ۔ ۔
عباس دھیمی آواز میں کہتا آگے بڑھ گیا جبکہ نورے اس کی پشت کو دیکھتی رہ گئی پھر شکستہ قدموں سے چلتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی جانے یہ شخص اس کا کبھی ہو سکتا تھا بھی یا نہیں
وہ بارش آنے پر دھلے ہوئے کپڑے حویلی کے پیچھلے حصے سے لا رہی تھی جب دور سے عباس اور نورے اُسے بات کرتے نظر آئے عباس کو دیکھ کر تو جیسے اس کی سانسیں ہی رک گئیں تیز تیز قدم
اٹھاتی وہ چل رہی تھی کہ ناہید سے بری طرح ٹکرا گئی
ہائے ہائے بیڑا غرق ہو تیرا ۔۔ مار دیا ۔۔
ناہید سر پہ ہاتھ رکھتی غرائی جبکہ حُرہ بھی سر پہ ہاتھ رکھتی ڈر کے پیچھے ہوئی اس کا سر بر ی طرح چکرایا تھا
جبکه ناہید خونخوار نگاہوں سے اسے گھور رہی تھی
اندھی ہے کیا ۔۔کوئی کام جو تمھارا سیدھا ہو۔ ۔ سر پھاڑ دیا میرا ۔
ایسی کیا آفت آگئی تھی جو بھائی چلی جارہی تھی ۔۔۔۔؟
حُرہ کا بازو زور سے دباتے ہوئے وہ پھر سے غرائی
کیا ہو رہا ہے یہ ۔ ۔ ؟ ؟
عباس آواز سن کے اس سمت آیا تھا مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے سختی سے مٹھیاں بھینچی جبکہ عباس کی دھاڑتی آواز سن کر ناہید کانپ گئی اور حُرہ کا بازو چھوڑ دیا کرہ اب اپنا بازو دوسرے ہاتھ سے سہلاتے ہوئے عباس کو طیش میں اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر سہم کر چند قدم پیچھے ہوئی
کس انداز میں بات کر رہی تھی میری بیوی سے ۔ ۔ ؟ ہوش میں ہو ۔ ۔ ؟؟
حُرہ کے برابر میں کھڑے ہو کر وہ اس قدر بری طرح جھڑکتا ہوا پوچھ رہا تھا کہ ناہید جی جان سے کانپ گئی زبان تالو سے لگ گئی اسے سمجھ ہی نہ آئی کہ کیا کہے تبھی سر جھکا لیا جبکہ حُرہ آنکھیں پھیلائے عباس کو دیکھ رہی تھی۔
جس کا غصے کے باعث چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں
سر اٹھاؤ اور اچھی طرح دیکھو ۔ ۔ یہ لڑکی بیوی ہے میری ۔ ۔ خبر دار آئندہ اس انداز میں بات کرنا تو دور ذراسی بلند آواز میں بات کی حُرہ سے تو تم مجھے اچھی طرح جانتی ہو ۔ ۔ وہ پھر سے دھاڑا تھا جبکہ اس کی آواز کی کرختی ناہید اور حُرہ دونوں کو کانپنے پر مجبور کر گئی ناہیدا اپنے تحمل مزاج سردار کو اس قدر طیش میں دیکھتی باقاعدہ کا نپنے لگی حو اس بحال ہونے پر عباس کے قدموں میں
بیٹھ گئی
م مجھے معاف کر دیں سر کار ۔ ۔ آئندہ ایسی گستاخی نہیں ہوگی ۔ ۔ بس ایک مرتبہ معاف کر دیں مجھے
عباس کے قدموں میں بیٹھی وہ بلند آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ عباس دو قدم پیچھے ہوا
حُرہ سے معافی مانگیں ۔ ۔ اگر وہ معاف کر تیں ہیں تو ٹھیک ۔ ۔
حکمانہ انداز میں کہتے ہوئے اس نے اپنے پیچھے کھڑی گم سم سی حُرہ کی کلائی تھام کر اپنے برابر کیا جبکہ
ناہید ایک پل کو عباس کا حکم سن کر ٹھٹک گئی
مم مجھے معاف کر دیں ۔ ۔
حُرہ کے سامنے جھکی وہ ہاتھ جوڑے معافی مانگ رہی تھی جبکہ حُرہ بے یقینی کی کیفیت میں عباس کے ساتھ لگ گئی عباس نے بھی اس کی کلائی چھوڑ کر اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کر لیے
معاف کر دیں جانم ۔ ۔ معاف کرنا اچھی بات ہوتی ہے۔ ۔
حُرہ کی سہمی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے عباس نے اس بار لہجے میں نرمی لیے کہا تو حُرہ کبھی عباس کا چہرہ دیکھتی تو کبھی ناہید کا مسکینوں والا چہرہ اور بندھے ہاتھ دیکھنے لگی پھر محض سر ہلایا
دور ہو جاواب میری نظروں سے ۔ ۔ جب میں حویلی میں موجود ہوں تو بھول کے بھی میرے سامنے
مت آنا ۔ ۔ گٹ لاسٹ ۔ ۔
درشتی سے کہتے ہوئے اب عباس نے اسے جانے کا اشارہ کیا ناہید جان بخشی جانے پر سر جھکا کر الٹے قدموں بھاگی
جبکہ ناہید کے جاتے ہی عباس نے حُرہ کو خود سے جدا کیا اور سخت نگاہوں سے دیکھنے لگا عباس کے دور کرنے پر حُرہ گرتے گرتے بمشکل بچی اور عباس کی سر دنگا ہیں خود پر محسوس کرتی ڈر کے پیچھے ہوئی
فورا کمرے میں آئیں ۔ ۔
سر دانداز میں حکم دیتا وہ تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا جبکہ حُرہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی کا نپتی ٹانگوں سے عباس کے پیچھے چلنے لگی جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو عباس کمرے میں تیز تیز چکر کاٹ رہا تھا حُرہ کو آتا دیکھ کر اس کی جانب بڑھا اور ہاتھ سے پکڑ کر اسے دروازے کے پاس سے ہٹایا اور دروازہ لاک کرتا کمرے میں چکر لگانے لگا جبکہ وہ دیوار سے چک گئی عباس کے خطر ناک تیور دیکھ کر اس کے وجود سے جیسے جان نکل رہی تھی۔
آئی کانٹ بیلیواٹ ۔ ۔ وہ کیسے آپ سے اس انداز میں بات کر سکتی ہے ۔ ۔ چکر لگاتے ہوئے وہ حُرہ کے قریب آکر بے یقینی سے بولا تھا اسے واقعی حیرت ہو رہی تھی۔
آپ کس طرح خاموشی سے کھڑی اس کی بد تمیزی برداشت کر سکتی ہیں ۔ ۔ چلیں میں مانتا ہوں آپ بہت انوسینٹ ہیں مگر یہ کیا کوئی طریقہ ہے حُرہ کہ آپ خاموشی سے سنتی رہیں ۔ ۔ میں نے ویٹ کیا کہ مے بی آپ کچھ بولیں ۔ ۔ لیکن نہیں ۔ ۔ اگر کوئی آپ سے اتنی بد تمیزی کر رہا ہے وہ بھی ملازم ۔ ۔ تو
کیسے آپ خاموش رہ سکتی ہیں ۔ ۔
عباس دیوار سے چپکی حُرہ کو دیکھتا سر دانداز میں خاصا بلند آواز میں پوچھ رہا تھا جبکہ دونوں کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ تھا حُرہ سانسیں رو کے کھڑی رونے کو تیار تھی مگر عباس کے ڈر کی وجہ سے رو بھی
نہیں پا رہی تھی
آپ نے مجھے بہت مایوس کیا ہے خرہ ۔ ۔ عباس کے لیجے میں واقعی ما یو سی تھی جسے حُرہ نے محسوس کی
وہ ملازمہ ہے اور آپ مالکن ہیں ۔ ۔ پھر اس کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کی وہ اس طرح آپ سے بات کرے ۔ ۔ جانم میں خود کو اجازت نہیں دیتا کہ میں خود اپنی بیوی سے اس قدر بد تمیزی سے بات کروں۔
اس قدر بد تمیزی سے پھر وہ تو میری ملازمہ ہے ۔ ۔ کیسے کر سکتی ہے وہ ۔ ۔
عباس کو دلی دکھ پہنچا تھا یہ سب دیکھ کر مگر ما یو سی حُرہ کی خاموشی سے ہوئی تھی وہ سر کو نفی میں ہلاتا اپنی ہی دھن میں بول رہا تھا جب حُرہ دل برداشتہ ہوئی اس کے سینے لگ کر رونے لگی صحیح معنوں میں تو اب عباس گھبرایا تھا حُرہ کو اس قدر شدت اور دکھ سے روتا دیکھ کر
اب آپ اس طرح مجھے ایموشنل کر کے میری ڈانٹ سے نہیں بچ سکتیں ۔ ۔ خود بھی حُرہ کی کمر کے گرد دونوں بازو حمائل کرتے ہوئے وہ نرمی سے بولا تو حُرہ کے رونے میں مزید شدت آگئی وہ جب تک اچھی طرح آنسو نہ بہا چکی تب تک عباس خاموشی سے اس کا رونا سنتا رہا جب کافی دیر بعد حُرہ کچھ سنبھلی تو خود ہی عباس سے فاصلہ قائم کرتی اپنی چادر سے چہرہ صاف کرنے لگی
رولیا جنتا رونا تھا ۔ ۔ اب وہیں سے اسٹارٹ کرتے ہیں ۔ ۔
حُرہ کو پیچھے ہٹتا دیکھ کر عباس بھویں اچکا کر سنجیدگی سے کہنے لگا تو حُرہ نے سرخ آنکھوں سے نا سمجھی
سے اسے دیکھا
خود کو اتنا مضبوط کریں کہ کسی کی ہمت ہی نہ ہو آپ سے اس طرح بات کرنے کی ۔ ۔
حُرہ کو دیکھتے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تو حُرہ نے اثبات میں سر بلاتے ہوئے سرد آہ بھری اب وہ اسے کیسے بتائی کہ وہ کس کس حال سے گزری تھی بغاوت کرنے پر کس طرح تشد د کیا جاتا تھا تبھی اس نے خدا
پر ڈور چھوڑتے ہوئے صبر کر لیا تھا
سمجھ رہیں ہیں نا میں کیا کہہ رہا ہوں ۔ ۔ ؟”
حُرہ کو خاموش دیکھ کر عباس نے اسے اپنے بے حد قریب کرتے ہوئے پوچھا۔
حج جی ۔ ۔
عباس کی قربت کو محسوس کرتی وہ نگاہیں شرم و حیا کے باعث جھکاتے ہوئے بولی اس کی چادر سر سے سرک کر کاندھے پر آگئی تھی مگر عباس کے مکمل حصار میں وہ ہل بھی نہیں پا رہی تھی کجا کہ چادر کو درست کرتی۔
میں نے بہت مس کیا آپ کو ۔ ۔ جانتا ہوں آپ نے بھی مجھے مس کیا ہو گا ۔ ۔ حُرہ کے چہرے پر جھکتا اپنے لبوں کو اس کے نقوش سے مس کرتا وہ سرگوشی میں بولا جبکہ حُرہ آنکھیں سختی سے میچے اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں بھینچے لرز رہی تھی
آپ کے بال بہت خوبصورت ہیں ۔ ۔
حُرہ کے گھنے لمبے بالوں میں انگلیوں سے حرکت دیتے ہوئے وہ اس کے بالوں کو لبوں سے چھونے
لگا
م مجھے نن نیند آرر رہی ہے ۔ ۔
عباس کی بڑھتی جسارتیں محسوس کرتی وہ آنکھیں بند کیے بولی تو عباس کی نگاہ اس کے لرزتے لبوں پر ٹهر گئی۔
مضبوط بہانہ بنا ئیں ۔ ۔ تو شاید میں پیچھے ہو جاؤ ۔ ۔
دلکش مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ سخاوت سے بولا تو حُرہ نے بے بسی آنکھیں واکیں بلاشبہ عباس کی قربت اس کے حواسوں پر سوار ہو رہی تھی عباس نے اس کے دیکھنے پر کاندھے اچکائے تو حُرہ نے
سر اس کے سینے سے ٹکالیا یوں عباس نے اسے مزید خود میں بھینچ لیا۔
سر دار بی بی غضب ہو گیا ۔ ۔ ہائے اب کیا ہو گا ۔ ۔ بی بی ۔ ۔ کیا ہو گا اب ۔ ۔ ؟ صبح سردار بی بی کے لاؤنج میں آتے ہی ناہید انہیں دیکھتی بین کرنے لگی سردار بی بی کے ماتھے پر شکن
ابھرے
کیا ہو گیا جواس طرح پیٹ رہی ہے۔
ناہید کے عجیب و غریب چہرے کے زاویے بنا کر رونے پر سر دار بی بی اسے ڈپٹ کر بولیں
ہائے بی بی میں کیسے بتاؤ آپ کو ۔ ۔ یہ گزری رات کیسی انہونی لے کر آئی تھی حویلی میں ۔ ۔ ناہید نے آنسو بہاتے ہوئے سر اور ہاتھ لہراتے ہوئے بین کیا
ناہید اب بک بھی دے ۔ ۔
سردار بی بی جھنجھلا کر بولیں
جانے اب اور کیا کیا ہو گا ۔۔ اس لڑکی نے اور کیا کیا چھوٹے سردار کو کہا ہے ۔ ۔ ناہید کی بات پر سر دار بی بی اب پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہو چکیں تھیں
کس لڑکی نے ۔ ۔
انہوں نے ماتھے پر شکن ڈالے پوچھا
بی بی ۔ ۔ اسی ونی نے ۔ ۔
ناہید اب آس پاس نگا ہیں گھمائے بولی
کیا کہا ہے اس نے عباس سے ۔ ۔ ؟ سردار بی بی لہجے میں حیرت لیے پوچھ رہیں تھیں
پتہ نہیں آپ کے بارے میں کیا کہا ہو گا بی بی جی ۔ ۔ چھوٹے سر دار تو بہت غصے میں تھے رات کو۔
ناہید جھوٹ بولنے میں خاصی ماہر تھی تبھی خود سے باتیں بنا کر بتانے لگی آخر کو وہ رات ہوئی چھوٹے سردار کے ہاتھوں اپنی بے عزتی وہ بھی حُرہ کے سامنے کیسے فراموش کر سکتی تھی
” عباس حویلی آیا ہوا ہے ۔ ۔ ؟”
ناہید کی بات سن کر پہلے تو وہ ٹھٹھک گئیں تھی
” ہی سردار بی بی ۔۔ سر کار تو رات کو ہی آگئے تھے ۔۔ مگر ۔ “
ناہید اپنا پہلا تیر چلا چکی تھی
” مگر کیا ۔ ۔ ؟؟”
انہیں نے فوراً پوچھا
پہلے وہ اگر دیر رات کو بھی آتے تھے تو آپ کے متعلق ضرور پوچھتے تھے مگر کل تو ۔ ۔ ” وہ پھر سے بولتے ہوئے رکی تھی کہ سر دار بی بی نے سر ہلاتے ہوئے اسے دوبارہ ڈپٹا
مگر کیا ۔ ۔ ؟؟ اب بول بھی دے ۔ ۔
” مگر کل تو انہوں نے آپ کا پوچھا ہی نہیں ۔ ۔ اور ۔ ۔ ” وہ بولنے کے بعد رک کر سردار بی بی کا اترا چہرہ دیکھنے لگی
” اور کیا ۔ ۔ ؟ “
اور بی بی سر دار صاحب نے کہا کہ ان کی بیوی سے اگر کسی نے اونچی آواز میں بات بھی کی تو وہ اپنی بیوی کو لے کر حویلی سے چلے جائیں گے بتا دینا سب کو ۔ ۔ “
ناہید بولتی جا رہی تھی اور سر دار بی بی کا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچ گیا
“بی بی اس نے کالا علم کر دیا ہے چھوٹے سے
بتاتے ہوئے شرم آنی – میں کیا بتاؤں آپ کو
ناہید بھر پور اداکاری کر رہی تھی اور سردار بی بی کے بڑھتے ہوئے غصے کو دیکھ کر دل میں خوش بھی ہو
رہی تھی
“کیا بکواس کر رہی ہے تو ۔ ” سر دار بی بی چلا کر بولیں
مگر کل تو انہوں نے آپ کا پوچھا ہی نہیں ۔ ۔ اور ۔ ۔ وہ بولنے کے بعد رک کر سردار بی بی کا اترا چہرہ دیکھنے لگی
اور کیا ۔ ۔ ؟
اور بی بی سر دار صاحب نے کہا کہ ان کی بیوی سے اگر کسی نے اونچی آواز میں بات بھی کی تو وہ اپنی بیوی کو لے کر حویلی سے چلے جائیں گے بتا دینا سب کو ۔ ۔
ناہید بولتی جا رہی تھی اور سر دار بی بی کا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچ گیا
بی بی اس نے کالا علم کر دیا ہے چھوٹے سرکار پر۔ میں کیا بتاؤں آپ کو
بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے – رات کو کیا کیا ہوا ہے
ناہید بھر پور اداکاری کر رہی تھی اور سردار بی بی کے بڑھتے ہوئے غصے کو دیکھ کر دل میں خوش بھی ہو
رہی تھی
کیا بکواس کر رہی ہے تو ۔ سر دار بی بی چلا کر بولیں۔
سر کار اسے باہوں میں اٹھا کر اپنے کمرے میں لے کر گئے تھے سب ملازمین کے سامنے ۔ ناہید نے اپنی بات مکمل کر کے سردار بی بی کو دیکھا جن کا چہرہ غصے کے باعث سرخ ہو رہا تھا
“بی بی ۔ ۔”
” دفع ہو جا !”
ناہید کے پکارنے پر وہ دھاڑیں تو ناہید دل میں فتح کی خوشی مناتی ہاتھ جوڑے لاؤنج سے نکل گئی یقیناً
اس نے اچھا کھیل کھیلا تھا
مسلسل بجتے موبائل کی وجہ سے ان دونوں کی آنکھ کھلی تھی کمرے میں مدھم سی روشنی تھی حُرہ نے بو جھل آنکھیں کھولیں تو عباس سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھا رہا تھا عباس کو اٹھتا دیکھ کر حُرہ بھی ایک ہاتھ سے آنکھیں ملتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوئی مگر پھر عباس کے کسرتی جسم کو شرٹ کے بغیر
دیکھ کر نگاہیں جھکالیں
ہاں احمد بولو ۔ ۔ ؟۔
عباس کی نیند میں ڈوبی بھاری آواز نے کمرے کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا
میں گھر یہ نہیں ہوں ۔ ۔ ارے نہیں میں حویلی آیا ہوا ہوں رات سے ۔ ۔
عباس نے سرسری سا جواب دیتے ہوئے اپنے بائیں جانب دیکھا جہاں حُرہ بلنکٹ اوڑھے لیٹی
ہوئی تھی
” ہاں بول سن رہا ہوں ۔ “
حُرہ کے وجود سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے عباس اس مرتبہ نہایت توجہ سے پوچھ رہا تھا
ہمم احمد وہ نکلنا نہیں چاہیے ہمارے ہاتھ سے ۔۔ اپنی پوری کوشش کرو اسے حراست میں لینے کی
بولتے ہوئے عباس کے لہجے میں نفرت اور سختی آگئی تھی جو کہ اس کی باتیں توجہ سے سنتی حُرہ نے
بھی محسوس کی
نہیں ۔ ۔ میں آج حویلی میں ہی رہوں گا ۔ عباس نے کہتے ہوئے دوبارہ مدھم روشنی میں حُرہ کو دیکھا جس نے اس باراپنی نگا میں بند کر لیں
دو تین دن تک روکوں گا ابھی یہاں ۔ ۔
عباس نے اس بار بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
او کے خدا حافظ ۔ ۔
الوداعی کلمات ادا کرنے کے بعد عباس نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا جبکہ حُرہ نے آنکھیں واکیں تو عباس کو سر جھکائے بیٹھے دیکھ کر پریشان ہو گئی اور اٹھ کر بیٹھنے کے بعد جھجکتے ہوئے اپنا کپکپاتا ہاتھ عباس کے کاندھے پر رکھا مگر نگاہیں عباس کے سر اٹھانے پر جھک گئیں۔
آپ ٹھیک ہیں میں ٹن نا ۔ ۔ ؟
عباس کے متوجہ ہونے پر فوراً اپنا ہاتھ اس کے کاندھے سے اٹھاتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں پوچھ رہی تھی جبکہ اس کے لہجے میں پریشانی واضح تھی۔
دعا کریں میری بہن کے قاتل مل جائیں ۔ ۔ جب تک انہیں انجام تک نہیں پہنچاؤں گا مجھے سکون نہیں ملے گا ۔ ۔
حُرہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ لہجے میں دکھ لیے بول رہا تھا۔ مدھم روشنی ہونے کے باوجود حُرہ اس کی آنکھوں میں نمی با آسانی دیکھ سکتی تھی۔
آپ دعا کریں گی نا ۔ ۔ ؟
حُرہ کو خاموشی سے خود کو تکتا پا کر وہ دوبارہ بولا
آپ کی بہن کے ۔۔ ساتھ سب بہت بڑا ظلم ہوا ہے ۔ ۔ ایسا ظلم کہ نہ جس کی معافی ہے ۔ ۔ اور نہ تلافی ۔ ۔ محض سزا ہے ۔ ۔ اور میری دعا ہے کہ خدا جلد ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچائے ۔ ۔
حُرہ بے حد دھیمی آواز میں بول رہی تھی جبکہ اس کی بات پر عباس نے محض سر ہلایا
آپ پریشان نہ ہوں ۔ ۔
عباس کے چہرے پر درد کی تحریر پڑھتے ہوئے حُرہ نے اسے تسلی دینی چاہی
آپ جانتی ہیں حُرہ ۔ ۔ یہ وہ دکھ ہے جو میں ۔ ۔ کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ۔ یہ دکھ میرے سارے حواس سلب کر دیتا ہے ۔ ۔ کئی کئی دن تک سکون نہیں ملتا مجھے ۔ ۔ یہ سوچ کے کہ مظلوم مٹی تلے دفن ہے اور ظالم، وحشی کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ ۔
وہ شدید کرب کی حالت میں بول رہا تھا اور حُرہ اپنے محسن کو اس طرح تکلیف میں دیکھ کر تڑپ گئی
آپ پریشان نہ ہوں ۔ ۔ ظالم اپنے انجام تک ضرور پہنچیں گے ۔ ۔
اس بار بے اختیار حُرہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی تو عباس نے سرد آہ بھر کر سر ہلایا۔
مجھے اب نیند نہیں آئے گی۔ اگر آپ سونا چاہتی ہیں تو سو جائیں۔ آئی تھنک آپ کی نیند پوری نہیں ہوئی۔ میں فریش ہو کر ماں اور بابا کے پاس جاؤں گا ملنے کے لیے۔
عباس نے حُرہ کی سرخ اور بوجھل آنکھیں دیکھتے ہوئے کہا کیونکہ کچھ دیر پہلے ہی وہ دونوں سوئے تھے۔
نہیں، میں بھی جا رہی ہوں۔ سات بج گئے ہیں۔
حُرہ نے سامنے دیوار پر نصب گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا اور اپنے کپڑے درست کرتی چادر اٹھانے لگی۔
آپ کہاں جا رہی ہیں؟
خرہ کا بازو تھام کر اسے دوبارہ بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے عباس نے پوچھا۔
اپنے کمرے میں۔
عباس کے حد درجہ نرم طبیعت کے باعث اب حُرہ اس سے کچھ بات کرنے لگی تھی۔
ہمم مگر اپنا سامان اس کمرے میں شفٹ کر لیں ۔ ۔ اب یہی آپ کا کمرہ ہے ۔ ۔
عباس نے حُرہ کے حیران چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے والٹ سے چند پانچ ہزار کے نوٹ نکال کر حُرہ کی جانب مڑا اور نوٹ اس کی جانب بڑھا کر ہاتھ میں تھمائے۔
یہ کیا ۔ ۔ ؟
حُرہ نے نا سمجھی سے عباس کو دیکھا۔
آپ کی پاکٹ منی ہے ۔ ۔ کوئی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ملازمہ سے کہ کر منگوا لیجئے گا ۔ ۔ سوری تھوڑی لاپرواہی کی ہے میں نے ۔۔ بس کچھ مصروف رہا اور کچھ ذہنی پریشانی رہی ۔۔ مگر آپ ذمہ داری ہیں میری ۔ ۔ یہ بات بہت اچھے سے سمجھتا ہوں میں ۔ ۔ بہت سی ضروریات ہوں گی آپ کی ایک دو دن تک ۔ ۔
جن کا خیال رکھنا میرا فرض ہے ۔ ۔ ۔باقی شاپنگ پھر کرواوں گا آپ کو۔
عباس سرسری سے انداز میں کہنا الماری کی جانب بڑھ گیا جبکہ خرہ اثبات میں سر ہلاتی اٹھ گئی۔
ناشتہ سب کے ساتھ کریں گے ۔
۔ آپ تیار ہو کر ڈائننگ ہال میں آجائیں ۔ ۔ حُرہ کو دروازے کی جانب بڑھتے دیکھ کر عباس نے ہلکا سا مسکرا کر کہا اور کپڑے ہاتھوں میں تھامے واشروم کی جانب بڑھ گیا جبکہ حُرہ ایک پل کو چونکی اور پھر سوچوں میں کمرے سے نکل گئی۔
عباس جب ڈائٹنگ ہال میں پہنچا تو وہاں پہلے سے ہی سردار شیر دل، سردار بی بی، ناعمہ ہمدانی اور نورے اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ عباس نے سب کو سلام کر کے اپنی کرسی سنبھالی۔ ناہید عباس کو ہال میں دیکھ کر فوراً باورچی خانے میں چلی گئی جبکہ نورے، عباس کو دیکھنے لگی جو کریم کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ صاف رنگت، کسرتی جسامت، نم بال، چہرے پر مخصوص مسکراہٹ، جو کسی کا بھی دل موہ لے۔ جبکہ نورے کی نگاہوں کو خود پر محسوس کر کے عباس نے ایک پل کو نگاہ اٹھائی۔ اسی پل ڈائننگ ہال میں حُرہ داخل ہوئی۔ عباس کی نگاہ حُرہ کے نکھرے وجود پر ٹھہر گئی۔ نیلے رنگ کے سادہ سے جوڑے میں اپنی بڑی سی چادر اوڑھے نکھرا نکھر اچہرہ، عباس مبہوت سا اسے تکنے لگا جبکہ سردار بی بی کی نگاہیں بھی عباس کی نگاہوں کے تعاقب میں تھیں۔ عباس کی گہری نگاہوں میں حُرہ کے لیے جذبات دیکھ کر ناہید کی باتیں ان کے کانوں میں گونجنے لگیں
عباس مجھے کچھ ہو رہا ہے ۔ ۔
سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سردار بی بی اس قدر بلند آواز میں بولیں کہ عباس سمیت سب نے چونک کر انہیں دیکھا۔
کیا ہوا ماں ۔ ۔ ؟
3 Comments
Add a Comment