Main Hun Bad Naseeb – Urdu Novel Online | Part 13 Read Now

Urdu Novel Online Main Hun Bad Naseeb” is an engaging and thrilling Urdu novel that keeps readers hooked from start to finish. If you love romantic, emotional, and suspenseful stories, this novel is a perfect choice for you.

In Part 13, the story takes a new twist, bringing unexpected changes in the lives of the characters. Will fate turn in their favor, or will destiny lead them to an uncertain path? Read now to uncover the next chapter of this captivating journey!

Urdu Novel Online

Main Hun Bad Naseeb Part 13

Read Here part 12 Main Hun Badnaseeb

” کیوں آپ لوگ اس قصے کو ختم نہیں کر دیتے ۔۔ مجھے شادی نہیں کرنی ۔۔ “
نورے کی آواز میں جھنجھلاہٹ کے ساتھ اذیت بھی تھی جو اس سے مخاطب اس کی ماں نے خوب محسوس کی
” مت مارو اندر سے خود کو بیٹا ۔۔ دیکھنا تم کتنی خوشیاں ملتیں ہیں تمہیں ۔۔ بس ایک بار عباس کے ساتھ نکاح ہو جائے تمہارا پھر تو راج کرو گی تم ۔۔ “
وہ نورے کا مرجھایا چہرہ دیکھتی بول رہیں تھیں نورے نے اذیت سے آنکھیں میچیں اور پھر وا کیں
” چھوٹے سردار شادی شدہ ہیں ایک بچی کے باپ ہیں ماں اور وہ کبھی بھی آپ لوگوں کی خواہش پر مجھ سے شادی نہیں کریں گے کیونکہ وہ اپنی بیوی سے محبت کرتے ہیں ۔۔پھر کیوں آپ لوگ اسی بات پر اڑے ہوئے ہیں ۔۔ “
ضبط کے باوجود اس کی آواز بھیگی تھی
” تم کوشش تو کرو بیٹا ۔۔ اس لڑکی نے جانے کون سی ادائیں دیکھائی ہیں تمہیں تو بس اتنا کہہ رہی ہوں کہ چھوٹے سردار سے محبت کا اظہار کرو ۔۔ وہ بہت نرم دل ہیں ۔۔ جب وہ حویلی آتا ہے تو ملا کرو بات کیا کرو ان سے ۔۔ “
وہ نورے کا ہاتھ تھامتی سمجھاتے ہوئے بولیں تھیں
” آپ چاہتی ہیں میں محبت کی بھیک مانگو ان سے ۔۔ ؟؟ کہ میرے کشکول میں محبت ڈال دیں ۔۔ ؟”
نورے کو جیسے ان کی بات پر صدمہ لگا تھا
” میں نے ایسا کب کہا بیٹا ۔۔ لیکن کچھ تو کرنا ہے نا ۔۔ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھ سکتے ۔۔ جانتی ہو نا چھوٹے سردار کے علاوہ تمہارے تایا سردار کسی اور سے تمہاری شادی نہیں ہونے دیں گے ۔۔ “
وہ پریشان سی بولیں تھیں مگر ان کی بات پر نورے نے افسوس سے گردن ہلائی
” میں جانتی ہوں اور میں ساری عمر چھوٹے سردار کے نام پہ تو گزار سکتی ہوں مگر اپنا کردار نہیں گرا سکتی ۔۔ “
وہ دوٹوک انداز میں بولی اور آنسو چھپانے کی غرض سے چہرہ موڑ گئی
” کیا کیا نہیں کرتی آج کل کی لڑکیاں اچھا مستقبل پانے کے لیے مگر تم ۔۔!!!۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا میں خاموش نہیں بیٹھوں گی ۔۔ “
وہ کہتے ہی ایک افسوس بھری نگاہ نورے پر ڈال کر کمرے سے نکل گئیں پیچھے وہ شدت سے رونے لگی آخر اتنی تکلیفیں تھیں جو اسے ابھی سہنی تھیں
//////////////////////////
” احمد میں خود جاؤں گا انہیں ڈھونڈنے ۔۔ !”
بہت سوچنے کے بعد عباس نے احمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو احمد نے سر ہلایا
” کچھ دن لگ جائیں گے اس کام میں ۔۔”
احمد نے اسے آگاہ کیا
” ہممم سوچ رہا ہوں ۔۔ دعا اور حُرّہ کو بھی ساتھ لے جاؤں ۔۔ لیکن حُرّہ جاتی ہی نہیں کہیں باہر ۔۔ “
عباس کشمکش میں بولا تھا کہ واقعی حُرّہ عباس کے لاکھ بار سمجھانے پر گھر سے نکلتی تھی ورنہ وہ کہیں باہر جانے کو کبھی خوشی سے تیار نہ ہوتی تھی وہ حُرّہ کی اس کیفیت کو سمجھتا تھا کہ وہ محض اپنے گھر کی چار دیواری ، اپنے شوہر ، اور بچی کے حصار میں ہی رہنا چاہتی ہے باہر کی دنیا سے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتی تھی
” میرا مشورہ یہ ہے کہ بھابھی اور دعا کو ساتھ مت لے کر جاؤ ۔۔ کیونکہ کہیں ان دونوں کی جان کو خطرہ نہ ہو جائے ۔۔ “
احمد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا عابی کا کیس اتنا الجھ چکا تھا کہ ایک الجھن سلجھاتے تھے تو دوسری پہلے تیار کھڑی ہوتی تھی مگر عباس نے ہار نہیں مانی تھی
” ہمم یہ بھی بات تمہاری ٹھیک ہے ۔۔ “
عباس کو احمد کی بات کافی حد تک مناسب لگی تو وہ متفق ہوتے ہوئے بولا
” میں اور تم تو پاکستان سے باہر ہوں گے ۔۔ پھر بھابھی کو حویلی چھوڑو گے کیا ۔۔؟؟”
احمد کے پوچھنے پر کچھ دیر عباس سوچ میں گم رہا تھا
” نہیں یار حویلی نہیں چھوڑ سکتا حُرّہ کو ۔۔ یہیں گھر پہ رہنا بہتر ہے ان کا ۔۔ “
وہ اب احمد کو کیا بتاتا کہ اس کی ماں کے دل میں سال ڈیرھ سال بعد بھی اس کی بیوی اور بیٹی کے لیے گنجائش نہیں ہے
” لیکن یار تجھے ایک ہفتے سے زیادہ بھی لگ سکتا ہے ۔۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ تو حُرّہ بھابھی اور دعا کو حویلی چھوڑ دے ۔۔ “
احمد کے مشورے پر عباس نے مضطرب ہو کر پہلو بدلہ
” ہمم دیکھتا ہوں ۔۔ کرتا ہوں کچھ ۔۔ “
احمد کو مطمئن کر کے عباس کب سے خاموش بیٹھے عالیان کی جانب متوجہ ہوا
” کیا ہوا ہے تمہیں ۔۔ اتنے خاموش کیوں ہو ۔۔ ؟”
عباس کے مخالف کرنے پر عالیان پہلے چونکا پھر پہلے عباس کو تکنے لگا پھر احمد کی جانب دیکھا
” کیا ہوا کچھ چھپا رہے ہو ۔۔ ؟؟”
عباس پوری طرح عالیان کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے پوچھنے لگا
” نہیں ۔۔ !”
عالیان نے نفی میں سر ہلایا
” تو پھر ۔۔ ؟ خاموش کیوں ہو ۔۔ ؟؟”
عباس نے پھر سوال کیا تو احمد اور عالیان نے ایک دوسرے کو دیکھا
” تجھ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔ !”
عالیان نے سنجیدگی سے کہا تو عباس کو اسے سنجیدہ دیکھ کر حیرت ہوئی
” یہ تم اتنے سیریس کیسے ۔۔ ؟ سب خیریت ہے نا عالیان صاحب”
عباس نے سنجیدہ بات کو مذاق کا رنگ دیا مگر عالیان اور احمد کے چہرے ہنوز سنجیدہ تھے
” مدد چاہیے تیری ۔۔ ؟؟”
وہ دوبارہ بولا تو عباس نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائے
” کیسی مدد ۔۔ ؟ سب خیریت ہے نا ۔۔ ؟ “
عباس کو حقیقتاً پریشانی ہوئی تھی کیونکہ عالیان اتنا سنجیدہ کم ہی ہوتا تھا
اس ایک سال میں عالیان نے ایک ایک دن ، ایک ایک لمحہ اپنا امتحان لیا تھا کہ واقعی وہ نورے سے محبت کرتا ہے یا یہ چند لمحوں کے لیے طاری ہوئی کیفیت ہے مگر اپنے اندر بدلتی مثبت تبدیلی کو وہ اب خوب سمجھ رہا تھا کہ نورے کے علاوہ وہ کسی دوسری لڑکی کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی اپنی محبت کی توہین سمجھتا ہے
” کیا ہوا عالیان میرے بھائی ۔۔ ؟ سب ٹھیک ہے نا ۔۔ ؟؟”
عالیان کو کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر عباس نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مخاطب کیا
اس سے پہلے عالیان کچھ کہتا عباس کا موبائل بجا اور حُرّہ کا نام دیکھ کر عباس نے کال پک کر کے سیل فون کان سے لگایا اسے یاد آیا کہ آج انہیں دعا کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا تھا
” آپ دعا کو تیار رکھیں میں آ رہا ہوں تھوڑی دیر تک ۔۔ “
مختصر بات کرکے وہ کال کاٹ کر اٹھ کھڑا ہوا
” یار آج دعا کی ویکسین ہے ۔۔ اس لیے مجھے جلدی جانا ہے ۔۔ لیکن اس موضوع پر جلد بات کریں گے ۔۔ “
وہ عجلت میں کہتا مڑ گیا جبکہ پیچھے عالیان لب بھینچ کر رہ گیا
” اسی بارے میں بات کرنے والے تھے نا تم ۔۔ ؟؟ پھر کی کیوں نہیں ۔۔؟؟ اور کتنا وقت ضائع کرو گے ۔۔ ؟؟”
احمد جھنجھلا کر بولا تھا کہ وہ کتنی بار اسے سمجھا چکا تھا کہ اگر نورے سے محبت کرتے ہو تو اقرار کرو
” خود کو وقت دے رہا ہوں ۔۔ خود ہی تو تم کہتے ہو کہ عالیان کو محبت نہیں ہو سکتی ۔۔ بس فلرٹ کرتا ہوں ہر لڑکی کے ساتھ ۔۔ ٹائم پاس کرتا ہوں ۔۔ “
عالیان اسے اس کے الفاظ جتاتا بولا
” مگر اب میں ہی کہہ رہا ہوں کہ تم کس بات کی دیر کر رہے ہو ۔۔ کیوں طول دے رہے ہو معاملات کو ۔۔ ؟؟”
احمد کے پوچھنے پر عالیان نے تھکن زدہ سانس خارج کی
” کیا عباس سے ڈر گئے ہو کہ وہ اس کے گھر کی لڑکی ہے ۔۔ یا عباس کے سخت خاندانی اصولوں سے مایوس ہو کر پیچھے ہو گئے ہو ۔۔ ؟”
احمد نے کاری ضرب لگائی جس کے نتیجے میں عالیان نے خونخوار نگاہوں سے اسے گھورا
” عباس سے کیوں ڈروں گا آخر میں اس کے گھر کی لڑکی کو اپنے گھر کی عزت بنانا چاہتا ہوں نا کہ ۔۔ !”
غصے میں کہتے عالیان نے بات ادھوری چھوڑی مگر پھر لمحہ بھر خاموشی کے بعد بولا
” اور ان کے خاندان کے اصولوں سے بھی مایوس نہیں ہوں ۔۔ میری محبت کے آگے وہ پست اصول کچھ نہیں ۔۔ بس ۔۔ !!”
” پھر کیا بات ہے ۔۔ ؟ کس بات کا انتظار کر رہے ہو ۔۔؟”
احمد نے پھر سوال داغا
” مجھے ایک چیز کا ڈر ہے کہ کہیں نورے کے ساتھ زبردستی نہ ہو جائے ۔۔ وہ اپنے دل اور زندگی میں کسی کے لیے ذرا سی جگہ کی گنجائش نہیں رکھتی ۔۔”
عالیان کے لہجے کا درد محسوس کرتا احمد چونکا
” مجھے یقین نہیں آ رہا یہ ہمارا وہی عالیان ہے جس کے لیے پیار و محبت محض ایک نام کی چیزیں تھی ۔۔ تم تو نورے کے عشق میں ڈوبے ہوئے ہو ۔۔ ایسا عشق کہ اتنی عاجزی آ گئی تم میں کہ سوائے محبوب کے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا ۔۔ “
احمد متاثر ہوا تھا مسکرا کر کہتا وہ عالیان کو دیکھنے لگا جس کے چہرے پر بظاہر تو مسکراہٹ تھی مگر اس مسکراہٹ میں چھپی اذیت وہ باآسانی محسوس کر سکتا تھا
///////////////////////////
” حُرّہ ۔۔ “
عباس کی پکار پر وہ کچن سے سارے کام چھوڑ کر ہاتھ صاف کرتی پانی کا گلاس بھرتی لاؤنج کی جانب بڑھی
یہ تو معمول ہو گیا تھا وہ جب بھی آفس سے آتا تھا یا تو خود ہی حُرّہ کو ڈھونڈتا ہوا کبھی کمرے میں یا کبھی کچن میں پہنچ جاتا تھا یا کبھی دعا کو آیا کی گود سے لے کر لاؤنج میں بیٹھ جاتا تھا
” السلام علیکم سردار ۔۔ “
حُرّہ نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا تو ہمیشہ کی طرح عباس کی سارے دن کی تھکاوٹ اور پریشانی معدوم پڑھ گئی
” وعلیکم السلام ۔۔ “
مسکرا کر جواب دیتے ہوئے عباس نے گہری نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا
وہ گہرے نیلے رنگ کے سادہ مگر قیمتی جوڑے میں ملبوس دوپٹہ کاندھے پر پھیلائے لمبے بال چٹیا میں مقید کیے ہوئے خاصی دلکش لگ رہی تھی بلاشبہ عورت کے چہرے کی خوبصورتی مرد کی محبت کے باعث برقرار رہتی ہے عباس کی بے پناہ عزت و محبت نے حُرّہ جیسی عام شکل و صورت کی لڑکی کو دلکش بنا دیا اس کے چہرے پر ایسی خاص مسکراہٹ اور ادا رہتی تھی کہ اک پل کو ہر کوئی ٹھہر کر اسے نگاہ بھر کر دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا خود عباس بھی نگاہیں نہیں ہٹا پاتا تھا
” ارے آپ نے دعا کا کوئی بھی گفٹ کھول کر نہیں دیکھا ۔۔ ؟؟ “
بمشکل حُرّہ کے وجود سے نگاہیں چرا کر عباس نے ایک نظر میز پر ڈھیر لگے تحائف کو دیکھا جو کہ کل ہی دعا کی پہلی سالگرہ پر اسے ملے تھے اور پھر اپنی گود میں بیٹھی سال بھر کی دعا کو پیار کرتے ہوئے پوچھا
” آپ کا انتظار کر رہی تھی سردار ۔۔ آپ کے ساتھ آرام سے بیٹھ کر سارے تحفے دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔ “
حُرّہ نے پانی کا گلاس عباس کی سمت بڑھاتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ صوفے پر براجمان ہو گئی کل ہی دعا کی پہلی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی تھی حویلی سے سردار شیر دل تھوڑی دیر کے لیے تشریف لائے تھے باقی عباس کے جاننے والے آئے تھے جن کی جانب سے خاصے تحائف وصول ہوئے تھے
” چلیں ڈنر کر کے آرام سے دیکھیں گے ۔۔ !”
عباس نے پانی پینے کے بعد گلاس میز پر دھرتے ہوئے کہا اور حسب عادت دعا کے ساتھ کھیلنے لگ گیا جو ہمیشہ کی طرح اپنی باپ کی آواز اور شفقت سے نہال ہو رہی تھی
جبکہ حُرّہ مسکراتے ہوئے باپ بیٹی کے لاڈ دیکھنے لگی واقعی عباس نے اپنا ہر عہد نبھایا تھا کس قدر عزت اور محبت دیتا تھا دعا کے ساتھ بھی اس قدر محبت کرتا تھا کہ دعا سارا دن اس کی آمد کا انتظار کرتی تھی اور جب وہ آتا تھا تو کھل سی جاتی تھی وہ دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے سے اس قدر مانوس تھے کہ اگر حُرّہ دو دن تک دعا کو اپنی شکل نہ دیکھائے تو دعا اپنے باپ کے پاس مطمئن رہے گی ایسا حُرّہ کا کہنا تھا جبکہ عباس حُرّہ کے اس دعوے پر قہقہے لگاتا تھا یہ حقیقت تھی وہ جانتا تھا حُرّہ کی بات میں سچائی ہے
” حُرّہ ۔۔ !”
دعا کے ننھے ننھے ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے عباس نے حُرّہ کو پکارا جو انہیں کو دیکھ رہی تھی
” حکم سردار ۔۔ ؟”
حُرّہ مدھم آواز میں بولی
” مجھے کچھ دن کے لیے ملک سے باہر جانا ہے ۔۔ !”
عباس نے جیسے اسے اطلاع دی ایک لمحہ لگا تھا حُرّہ کے مسکراتے لب سکڑنے میں
” کل آفس سے ہی نکل جاؤں گا ۔۔ !”
عباس کے مزید بولنے پر حُرّہ نے بے چینی سے پہلو بدلا جبکہ عباس کی نگاہیں دعا پر تھیں مگر وہ حُرّہ کی کیفیت سے باخبر تھا
” کک کتنے دن کے لیے ۔۔ ؟؟”
بے چینی سے اس نے پوچھا تو عباس نے چونک کر حُرّہ کو دیکھا
” ایک ہفتہ یا اس سے زیادہ ۔۔ !”
عباس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تو حُرّہ کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے
ایسا نہیں تھا کہ پہلی مرتبہ وہ ملک سے باہر حُرّہ اور دعا کو یہاں چھوڑ کر جا رہا تھا وہ اکثر آتا جاتا رہتا تھا اور ہمیشہ کی طرح حُرّہ بے چین ہو جاتی تھی وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ اگر ایسے پریشان ہونا ہے تو میرے ساتھ چلیں مگر حُرّہ ساتھ جانے پر بھی آمادہ نہیں ہوتی تھی
” مان جائیں محبت ہو گئی ہے ۔۔ “
عباس نے اس کا دھیان بٹانے کو بات بدلی
” میں کب انکار کر رہی ہوں ۔۔ !”
بے ساختہ حُرّہ کی زبان پھسلی اور احساس ہونے پر دانتوں تلے دبا لی
” اقرار بھی تو نہیں کرتیں نا آپ ۔۔ !”
عباس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے سنجیدگی سے کہا
” جانا ضروری ہے ۔۔ ؟؟”
حُرّہ نے بات بدلی اور دعا کو دیکھنے لگی جو عباس کو کاپی کر رہی تھی جیسے عباس اسے باری باری رخسار پر پیار کر رہا ویسے ہی وہ بھی عباس کے گالوں پر بھی بوسے دے رہی تھی
” آپ بھی ساتھ چلیں نا ۔۔ !”
اثبات میں سر ہلاتے ہوئے عباس نے پیش کش کی تو حُرّہ نے نفی میں سر ہلایا
” نہیں ۔۔ “
” کیوں جانم ۔۔ ؟؟ “
عباس کے ماتھے پر ایک لکیر ابھری تھی حُرّہ نے نگاہیں چرائیں
” بس آپ جلدی آ جائیے گا ۔۔ !”
وہ مدھم مگر التجائیہ بولی تھی جیسے عباس سے دوری وبال جان ہو
” کوئی خاص وجہ جلد بلانے کی ۔۔ ؟”
وہ حُرّہ کی کیفیت سے محظوظ ہوتا ہوا مسکراہٹ دبائے اس بار پوچھ رہا تھا
” دعا یاد کرتی ہے آپ کو ۔۔ “
حُرّہ نے دعا کے بھرے بھرے گلابی گال کو نرمی سے انگلی سے چھوتے ہوئے نگاہیں جھکا کر کہا
” اور آپ ۔۔ ؟؟”
وہ اس کے چہرے کو دلچسپی سے دیکھتا پوچھ رہا تھا
” مم میں بھی ۔۔ “
وہ نگاہیں جھکائے اقرار کر بیٹھی تو عباس نے ایک بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے اپنے میں بھینچ لیا
” دوری برداشت نہیں ہوتی تو کیوں مجھے اور خود کو مشکل میں ڈالتی ہیں ۔۔ “
وہ شکوہ کر رہا تھا وہ خود بھی ہر وقت اپنی بیوی اور بیٹی کو پاس رکھنا چاہتا تھا مگر حُرّہ رضامند ہی نہیں ہوتی تھی
” بس آپ جلدی آئیے گا ۔۔ ورنہ آپ کی بیٹی نے مجھے تنگ کر دینا ہے ۔۔ “
صوفے سے اٹھتی ہوئی وہ اس بار دعا کو گھورتی ہوئی بولی تھی جو اس کی جانب باپ کے سامنے دیکھتی بھی نہیں تھی
“یہ زیادتی ہے حُرّہ ۔۔ میری بیٹی بلکل میرے جیسی ہے ۔۔ کسی کو تنگ نہیں کرتی ۔۔ اپنے بابا کی طرح معصوم اور صبر والی ہے ۔۔ ہم دونوں ہی تنگ نہیں کرتے آپ کو ۔۔”
وہ معنی خیزی سے بولا تھا کہ یکدم حُرّہ کا رنگ سرخ پڑا تھا وہ بھاگنے کے سے انداز میں لاؤنج سے نکلی تھی جبکہ عباس کا جاندار قہقہہ لاؤنج میں گونجا تھا
” ماما تو شرما گئی ۔۔ “
مسکرا کر دعا کو کہتے ہوئے وہ بھی صوفے سے اٹھا تو دعا بھی اپنے باپ کے قہقہے پر کھکھلائی جیسے اسے عباس کی بات سمجھ آ گئی ہو
” چلو ماما کو اور شرمانے پر مجبور کرتے ہیں ۔۔ “
دعا سے باتیں کرتا ہوا وہ بھی اس سمت بڑھا جہاں حُرّہ گئی تھی
////////////////////////////
” زندگی کا ہر نیا طلوع ہونے والا سورج ہمارے لیے ان گنت امتحان لے کر آتا ہے ۔۔ ایسے امتحان جن کی تیاری کے بغیر ہمیں کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرنے کے لیے بیٹھا دیا جاتا ہے ۔۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کامیابیاں ہمارے قدم چومیں تو خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ۔۔ ثابت قدم رہو ۔۔ اور کہیں اور بھٹکنے کے بجائے خدا کا در کھٹکٹاؤ ۔۔ وہ واحد ذات ہے جو ہمیں کسی بھی بڑی چھوٹی مشکل سے نکال سکتی ہے ۔۔ اس نیت کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرو کہ تم کچھ بھی نہیں ہو خدا کے علاوہ تمہیں کوئی مشکلات سے نہیں نکال سکتا اور جب کوئی شخص یہ سوچ رکھتا ہے تو بلاشبہ وہ انکساری اختیار کیے ہوئے ہوتا ہے ۔۔ اور پھر خدا واقعی اس کی غیب سے مدد کرتا ہے ۔۔ مگر وہ شخص سمجھ جاتا ہے کہ اسے اس مشکل کے اللہ رب العزت نے نکالا ہے ۔۔
اگر آپ کو خود پر بہت اعتماد ہے کہ میں تو ہر مشکل وقت کا مقابلہ کر سکتا ہوں ۔۔ میں فلاں احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہوں اس لیے مجھے تو کوئی ناگہانی پیش نہیں آ سکتی ۔۔ تو یہ سراسر آپ کی نادانی ہے ۔۔ تقدیر میں لکھا اٹل ہے ۔۔ وہ ہر حال میں ہونا ہوتا ہے مگر دعا وہ واحد ذریعہ ہے جس سے تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں ۔۔ ہر وقت خدا رب العزت سے دعا کریں کہ ہر ناگہانی اور مشکل سے آپ کو محفوظ رکھے ۔۔ “
یکدم حُرّہ کے لکھتے ہوئے ہاتھ رکے تھے دعا کے رونے کی آواز پر وہ ڈائری میں ہی پین رکھتی جلدی سے کرسی سے اٹھی اور اسٹڈی روم سے ملحق اپنے کمرے کی سمت بڑھی اور بیڈ پر دعا کے ساتھ لیٹ کر اسے پھر سے سلانے لگی جو شاید خود کو اکیلا محسوس کرتی نیند سے بیدار ہوئی تھی
رات کے اس پہر وہ عباس کی غیر موجودگی میں اپنی ڈائری پر کچھ تحریر کرتی تھی ابھی بھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی تو دعا کو سلا کر عباس کے اسٹڈی روم میں چلی گئی تھی
” ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں یہی اقرار سننا چاہتے ہیں نا آپ ہم سے سرداد ۔۔ تو آپ کا یہ حکم بھی سر آنکھوں پر ۔۔ اس بار آپ آئیں گے تو یہ حکم بھی بجا لاؤں گی ۔۔ سرداد آپ پر تو حُرّہ اپنی جان بھی قربان کر دے ۔۔ کیونکہ میری ہر چلتی سانس آپ کے نام ہے ۔۔ “
ساتھ لیٹی اپنی بیٹی کا لمس محسوس کرتی وہ تصور میں عباس سے مخاطب تھی
” دعا آپ کو بھی یاد آرہے ہیں نا بابا۔۔ “
نیند میں بار بار بےچین ہوتی دعا سے ہلکی آواز میں مخاطب ہوئی جو واقعی عباس کی غیر موجودگی کے باعث بےچین تھی حُرّہ سمجھ رہی تھی کہ دعا ، عباس کے سینے سے لپٹ کر سونے کی عادی تھی اور جب عباس نہیں ہوتا تھا تو وہ ایسے ہی بےچین ہوتی تھی
” بابا کو کال کرتے ہیں ۔۔ “
سوئی ہوئی دعا کو دیکھتے اسے تدبیر سوجھی سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل کو اٹھایا اور عباس کو کال ملائی جو کہ پہلی ہی رنگ پر پک کر لی گئی مگر دونوں اطراف کئی پل خاموشی چھائی رہی دونوں ایک دوسرے کی سانسیں محسوس کرتے رہے
” السلام علیکم ۔۔ “
عباس نے مدھم آواز میں سلام کرکے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا
” وعلیکم السلام ۔۔ “
حُرّہ بھی دھیما بولی تھی عباس سمجھ گیا کہ دعا کی نیند خراب نہ ہونے کے باعث وہ اتنا مدھم بول رہی ہے
” آپ ابھی تک جاگ رہیں ہیں خیریت ۔۔ ؟”
وہ جواب جاتنا تھا کہ وہ اسے یاد کر رہی ہے
” نیند نہیں آ رہی تھی ۔۔ “
حُرّہ نے بات کو گول کیا جبکہ عباس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی
” اس کا مطلب مجھے مس کر رہیں ہیں ۔۔ ؟”
وہ مسکرایا تھا اس پل حُرّہ نے شدت سے خواہش کی کہ کاش وہ اسے مسکراتا دیکھ پاتی وہ کتنا حسین مسکراتا تھا نا کہ حُرّہ اس کی مسکراہٹ میں ہی کھو جاتی تھی
” حُرّہ ۔۔ !”
حُرّہ کی خاموشی پر عباس نے اسے پکارا
” ج جی سردار ۔۔ !”
وہ جیسے سٹپٹائی تھی
” سرداد کی جان کچھ بولیں بھی ۔۔ خاموش مت رہا کریں ۔۔ میں سننا چاہتا ہوں آپ کو ۔۔ !”
وہ تحکم انداز میں بولا تھا
” ج جی میں اور دعا مس کر رہی ہیں آپ کو ۔۔ “
حُرّہ بولی تو عباس مسکرایا اور ویڈیو آن کی حُرّہ نے بھی یس کا بٹن دبایا وہ سامنے ہی مسکرا رہا تھا کچھ خواہشیں کتنی جلدی پوری ہو جاتی ہیں نا بے ساختہ حُرّہ کے ذہن میں خیال آیا تھا
” کب آئیں گے آپ ۔۔ ؟”
” جب آپ بولیں ۔۔ “
وہ مسکراہٹ دبائے بولا
” جلدی آنے کی کوشش کریں پلیز ۔۔ !”
سکرین پر عباس کو دیکھتے وہ اس مرتبہ بولتے ہوئے نگاہ جھکا گئی
” جو حکم سردار کی جان ۔۔ “
عباس نے زرا سا سر کو خم دیتے ہوئے کہا تو حُرّہ کے چہرے پر بھی جاندار مسکراہٹ بکھری
پھر وہ دونوں کافی دیر ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہے جبکہ زیادہ تر خاموشی رہی کہ دونوں کے دل کے دھڑکنے کی آواز بھی باآسانی سنائی دے رہی تھی
وہ رات کے تیسرے پہر عجیب احساس کے تحت بیدار ہوئی تھی آنکھیں وا کیے اٹھ بیٹھی اور بے ساختہ نگاہیں سکون سے سوئی دعا پر گئی اطمینان ہونے پر زبان کے خشک ہونے کا احساس ہوا سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے شیشے کے گلاس میں پانی انڈیلا اور لبوں سے لگا لیا چند گھونٹ پی کر گلاس واپس رکھا جب دوبارہ سونے کے لیے لیٹنے لگی تو نگاہ بند کھڑکی کے وا پردوں کی جانب پڑی جہاں اسے کسی سائے کا گمان ہوا دل بے اختیار زور سے دھڑکا لبوں پر زبان پھیرتی بیڈ سے اتری اور بھاگ کر پردے برابر کیے اور واپس لیٹ گئی مگر اب نیند کہاں آنی تھی دل تھا کہ بے چین ہوئے جاتا تھا ابھی اسی بےچینی میں تھی کہ کمرے کے باہر سے کھٹ پٹ کی آوازیں آنے لگیں اور پھر حُرّہ کو کمرے کا لاک کھلنے کی آواز آئی یہیں حُرّہ خوف کی انتہا تک پہنچی تھی جسے وہ اپنا وہم اور ڈر سمجھ رہی تھی وہ حقیقت تھی مطلب کوئی اس کے گھر اور کمرے میں گھس چکا تھا فوراً ہڑبڑا کر اٹھی مگر اپنے سامنے کسی انجان مرد کو رات کے اس پہر کمرے میں دیکھنا حُرّہ جیسی لڑکی کی سانسیں روک گیا وہ مکروہ مسکراہٹ لیے قدم قدم چلتا آگے بڑھ رہا تھا اور اپنے کمرے میں موجود اس انجان شخص کی آنکھوں سے جھلکتی ہوس دیکھ کر حُرّہ کا دل بیٹھتا جا رہا تھا
کک کون ۔۔ ؟؟ کک کون ہو تم ۔۔ ؟؟ میرے گھر میں کک کیسے آئے ۔۔ ؟”
ڈر و خوف کے باعث بمشکل اس کے حلق سے آواز نکل رہی تھی یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنی سکیورٹی میں کوئی اس کے گھر بلکہ کمرے میں گھس آیا تھا جبکہ وہ انجان مسلسل مسکراتا حُرّہ کی سمت بڑھ رہا تھا
” دد دور رہو ۔۔ اگر ۔۔ اگر ایک قدم آگے آئے تو ۔۔ !!”
سوئی ہوئی دعا کو گود میں اٹھا کر اپنے سینے میں بھینچتی وہ بولتے بولتے خاموش ہو گئی اور بیڈ سے اٹھ گئی فوراً سرہانے پڑا دوپٹہ اپنے گرد لپیٹا
” ارے ارے بی بی جی ۔۔ بولیں بولیں اگر آگے آیا تو کیا کریں گی آپ ۔۔ ؟؟”
وہ چہرے پر مکروہ تاثرات لیے بولتا قہقہہ لگا گیا جبکہ حُرّہ کو سامنے کھڑے شخص کی صورت میں بہت بڑی مصیبت اپنے سامنے کھڑی نظر آئی
” تت تم جانتے نہیں ہو میں کون ہوں ۔۔ سرداد عباس کی بیوی ہوں ۔۔ اگر مجھے یا میری بیٹی کو ذرا سی کھرونچ آئی تو سردار جو تمہارا حال کریں گے اس وقت سے ڈرو ۔۔ !”
وہ خود کو مضبوط کرتی اس مرتبہ نڈر ہو کر بولی تھی جبکہ اس کے الفاظ سن کر اک پل کو اس شخص کے چہرے پر خوف کی پرچھائی آئی تھی مگر محض اک پل کے لیے پھر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا
” واہ واہ بی بی جی ۔۔ ہم ہمیشہ سوچتے تھے کہ پتہ نہیں آپ میں کیا بات ہے کہ نورے بی بی کی خوبصورتی بھی چھوٹے سردار کو نہیں دیکھائی دیتی اور انہوں نے ان پر آپ کو ترجیح دی ۔۔ مگر آپ میں تو واقعی کچھ تو ہے ۔۔ ہم بھی تو ذرا مزا چکھیں ۔۔ “
وہ زہریلی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سانولا سا ہٹا کٹا آدمی حُرّہ تک پہنچ چکا تھا اور اس کا دوپٹہ کھنچنے کو ہاتھ بڑھایا اس سے پہلے وہ کامیاب ہوتا حُرّہ نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹکا اور پیچھے ہوتی فاصلہ قائم کر گئی
” خبردار اگر میرے قریب آئے ۔۔ !”
وہ اس کی بات اور حرکت پر چیخی تھی
” ہاہا تو کیا کرو گی ۔۔ ؟؟”
وہ حُرّہ کو سر سے پاؤں تک گھورتا بولا
” دور رہو ۔۔ !! میں سرداد کو بتاؤں گی ۔۔ وہ تمہیں جان سے مار دیں گے ۔۔ !”
حُرّہ پھر سے چیخی تھی دل کی گہرائیوں سے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کی دعا مانگنے لگے
” تمہیں اس قابل چھوڑو گا تو بتاؤ گی نا کچھ تم ۔۔ چھوٹے سردار کو ۔۔ !”
وہ حُرّہ کے قریب پہنچ کر بولا تھا حُرّہ پیچھے ہوتے ہوئے دیوار سے جا لگی تھی جبکہ شور سے دعا اٹھ کر رونے لگی تھی
” خدا سے ڈرو ۔۔ جس نیت سے تم آئے ہو ۔۔ یہ حرکت عذاب کا باعث بنے گی تم پہ ۔۔ “
اپنے سامنے کھڑے حیوان کو وہ بولتی بھاگنے کی راہ تلاش کرنے لگی مگر افسوس کہ یہ آسان نہ تھا کیونکہ وہ پوری طرح اس کا راستہ روکے کھڑا تھا
” ارے عذاب بعد میں دیکھا جائے گا پہلے تمہارے ساتھ رات تو گزار لیں ۔۔ “
وہ بولا تو حُرّہ نے اس کے الفاظ سن کر اذیت سے آنکھیں میچی
” خوف کھاؤ خدا کا ۔۔ تمہارے بھی کوئی گھر میں عورت ہوگی ۔۔ “
وہ مسلسل اسے اللہ سے ڈرا رہی تھی مگر جو بہک جائے اسے کیا ہدایت ملے
” میرا کوئی گھر نہیں ۔۔ “
وہ آدمی دھاڑا تھا اور مزید مشتعل ہوا تھا
” پپ پلیز میرے قریب مت آؤ ۔۔ “
اس بار حُرّہ کی آواز میں بے بسی تھی ڈر و خوف تھا
” وقت ضائع مت کرو ۔۔ بچی کو سلاؤ اور کچھ وقت کے لیے میرا دل خوش کر دو ۔۔ !”
مکروہ چہرہ لیے وہ کہہ رہا تھا جبکہ اس کی غلیظ نگاہیں اپنے وجود کے آر پار محسوس کرتے حُرّہ نے اس پل اپنی موت مانگی
” دیکھو تمہیں جو کچھ چاہیے لے جاؤ جتنے پیسے ، زیور چاہیے سب لے جاؤ مگر پلیز چلے جاؤ یہاں سے ۔۔ “
حُرّہ نے بھیگی آواز میں کہا اور کمرے میں موجود سیف کی جانب اسے متوجہ کیا اس دوران دعا رو رو کر سہم چکی تھی
” ارے وہ بھی لے لوں گا ۔۔ پہلے اپنی آگ تو بجھا لوں جو تیرا معصوم چہرہ دیکھ مزید بڑھ گئی ہے ۔۔ “
ہاتھ بڑھا کر اس نے حُرّہ کے چہرے کو چھونا چاہا مگر حُرّہ نے چہرہ دوسری جانب کر لیا
” مجھے قتل کر دو مگر میری طرف غلیظ نگاہ سے مت دیکھو ۔۔ “
وہ بے بسی کی انتہا پر تھی جب بولی تو آواز بھیگی ہوئی تھی
” قتل بھی کر دوں گا ۔۔ پہلے مزے تو لے لوں ۔۔ “
وہ اس کی بے بسی سے محظوظ ہوتا بولا تھا
” یا اللہ میری مدد کر ۔۔ !”
وہ با آواز بلند بڑبڑائی تھی
” اب نخرے بند بھی کر ۔۔ اور چھوڑ بچی کو ۔۔ !”
وہ دھاڑا تھا اور دعا کی جانب ہاتھ بڑھائے مگر حُرّہ نے دعا کو خود میں چھپا لیا
” پپ پلیز تم مجھے قتل کر دو مگر میری عزت کو محفوظ رہنے دو ۔۔ اللہ سے ڈرو ۔۔ “
وہ اس بار التجائیہ بولی تھی
” تجھ پر رحم کیا تو مجھ پر رحم نہیں ہو گا ۔۔ “
وہ با معنی الفاظ میں بولا تو حُرّہ نے آنکھوں میں التجا اور بےبسی لیے اسے دیکھا جبکہ دعا کے رونے میں شدت آئی تھی حُرّہ نے دعا کو دیکھا جس کا مسلسل رونے کے باعث برا حال تھا بے اختیار اپنی بیٹی کو پہلی مرتبہ اتنا روتے دیکھ کر حُرّہ کا دل بھی کیا وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر روئے
” یا اللہ تیرے سوا کوئی نہیں جو میری مدد کرے ۔۔ میں تجھ سے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کی دعا کرتی ہوں ۔۔ “
بھیگی پلکیں گرا کر وہ دل میں دعا کرنے لگی
ابھی اس نے دوپٹہ کھینچنے کو ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ حُرّہ نے اپنی پوری طاقت لگا کر اسے دھکا دیا وہ حُرّہ جیسی دبلی پتلی لڑکی سے اس قدر طاقت کی امید نہ رکھتا تھا اور اس کے حملے سے فرش پر جا گرا یہیں حُرّہ نے موقع کو غنیمت جانا اور دعا کو سینے سے لگائے کمرے سے بھاگی اور باہر آ کر دروازہ لاک کر دیا لاؤنج کو عبور کرتی وہ اس غرض سے لان میں آئی کہ گارڈز کو اس نا گہانی سے آگاہ کرے مگر صد افسوس کہ جہاں دس دس گار ڈز ہوتے تھے وہاں آج ایک بھی نہیں تھا نیم اندھیرے میں جب ڈھونڈنے پر بھی کوئی نہ ملا تو آسمان کی جانب چہرہ کیا
” یا اللہ تیرے آسرے اس گھپ اندھیری رات میں اپنی عزت کو بچانے کی خاطر نکل رہی ہوں ۔۔ اب تو ہی مجھے منزل تک پہنچائے گا ۔۔ کیونکہ تیرے سوا یہ کوئی نہیں کر سکتا ۔۔ مجھ پر رحم کر میرے مالک ۔۔ “
شدت سے روتے ہوئے وہ آسمان کی جانب چہرہ بلند کیے بول رہی تھی اور پھر دعا کو سینے لگائے وہ بنگلے سے باہر نکل گئی
دعا کو سینے میں بھینچے تیز تیز بھاگتی وہ ہانپ گئی تھی جب گھر سے کافی دور آ گئی تو ایک جگہ رک کر تنفس بحال کرنے لگی آس پاس چند گھر تھے وہ مسلسل رو رہی تھی جبکہ دعا بھی مدھم آواز میں سسکیاں لے رہی تھی بے بسی ہی بے بسی تھی اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر وہ محض سر پر دوپٹہ اوڑھے اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے نکلی تھی مگر اب وہ کہاں جاتی اس اندھیری رات میں کون اسے پناہ دیتا مسلسل سورتوں کا ورد کرتی رات میں باقی دو تین گھنٹے ان دونوں ماں بیٹی نے سڑک پر گزارے جہاں سے تھوڑی دیر بعد اکا دکا گاڑی گزر جاتی تھی دعا کو اس نے تھپک کر سلا دیا تھا مگر خود خوف کے زیر اثر رات گزاری تھی بار بار ایسے لگتا جیسے وہی شخص دوبادہ آ جائے گا
جب افق پر روشنی نمودار ہوئی تو پاس سے گزرتی ایک گاڑی کو حُرّہ نے اشارہ کر کے روکا ڈرائیور نے مشکوک نگاہوں سے سامنے کھڑی عورت اور پھر اس کی گود میں سوتی ہوئی بچی کو گھورا مگر وہ دیکھنے میں شریف گھر کی لگ رہی تھی اس آدمی کی نگاہوں سے خوفزدہ ہوتے حُرّہ نے اسے ایک پتہ بتایا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گئی راستے میں وہ مسلسل روتی رہی تھی جس طرح حُرّہ نے یہ دو تین گھنٹے گزارے تھے اسے لگا یہ رات اس کی اذیتوں میں سب سے زیادہ مشکل ترین رات تھی نا سر پر چھت تھی اور نا خدا کی ذات کے سوا کوئی آسرا اللہ کے بعد وہ مسلسل عباس کو پکار رہی تھی اس کے لوٹنے کی دعا کرتی رہی تھی
” یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے میری عزت کو محفوظ رکھا ۔۔ آگے بھی تجھ سے مدد چاہتی ہوں ۔۔ “
مسلسل روتے ہوئے وہ رب سے راز و نیاز کر رہی تھی
موبائل بھی پاس نہیں تھا کہ عباس کو گزری قیامت کے بارے میں آگاہ کر سکتی اب صرف حویلی میں پناہ لینے کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا بچی کو لے کر وہ کہاں در در کی ٹھوکریں کھاتی اور اگر پھر سے وہی شخص آ گیا تو یہی سوچ اسے سہمنے پر مجبور کر رہی تھی اس سے بہتر وہ سردار بی بی سمیت حویلی کے مکینوں کی کڑوی باتیں اور سلوک برداشت کر لے
” سرداد کہاں ہیں آپ ۔۔ پلیز آ جائیں ۔۔ میں مر جاؤں گی اگر اب کچھ برا ہوا تو ۔۔ “
دل میں عباس سے مخاطب وہ اس کے جلد آنے کی دعا مانگنے لگی
” مجھ سے ہر طرح کا امتحان میرے مالک ۔۔ “
” ماں بابا اگر آپ لوگ ہوتے تو آپ کی بیٹی آج ٹھوکریں نا کھا رہی ہوتی ۔۔ بے دھڑک آپ کے پاس آ جاتی ۔۔ جن بیٹیوں کے سر پر باپ ، بھائی کا ہاتھ نہیں ہوتا زمانہ انہیں کتنا بے مول کر دیتا ہے ۔۔ “
کرب سے آنکھیں میچے وہ سوچ رہی تھی
” بس دعا میری جان ۔۔ مت رو میری بیٹی ۔۔ دعا کرو بابا آ جائیں ۔۔ “
دعا کے رونے پر حُرّہ نے اس کی روئی ہوئی آنکھیں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا
تین گھنٹے کے سفر کے بعد گاڑی حویلی کے سامنے آ کر رکی تو حُرّہ نے اپنے کان میں موجود ایک بالی اتاری اور ڈرائیور کی جانب بڑھائی ڈرائیور نے چونک کر پہلے حُرّہ کو دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ می موجود سونے کی چھوٹی سی بالی کو دیکھا
” مم میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔۔ !”
وہ جھکے سر کے ساتھ بولی تو ڈرائیور نے اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھا
” یہ سونے کی ہے ۔۔ ؟”
اس کے سوال پر حُرّہ نے فوراً سر ہلایا
” مگر پھر تو یہ زیادہ قیمت کی ہوگی ۔۔ “
ڈرائیور بولا تو حُرّہ اس بار خاموش رہی
” آپ رکھ لیں بھائی ۔۔ “
حُرّہ اسے بول کر حویلی کے گیٹ کی جانب بڑھ گئی جبکہ پیچھے وہ ڈرائیور کاندھے اچکا کر واپس مڑ گیا
/////////////////////////
وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا جانے کب اس کی آنکھ لگی تھی کچھ دیر بعد ہی ہڑبڑا کر اٹھا تھا یکدم بے چینی نے اسے آن گھیرا تھا ٹائی کی ناب ڈھیلی کی اور سفید شرٹ کی آستین کہنیوں تک فولڈ کیے وہ ہوٹل کے کمرے میں چکر کاٹنے لگا
” اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے مجھے ۔۔ “
عباس بالوں میں انگلیاں پھیرتا بولا تھا اسے پہلا خیال حُرّہ اور دعا کا آیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اس کی حُرّہ سے بات ہوئی تھی
دوسرا خیال اسے سرداد شیر دل کی باتوں کا آیا تھا جس میں انہوں نے اسے نورے سےشادی پر بہت زور دیا تھا مگر وہ ہمیشہ کی طرح انکار کر چکا تھا مگر ان کی دلیلیں اسے مسلسل یاد آ رہیں تھیں
” عباس آخر مسئلہ کیا ہے ۔۔ ؟؟ ہم نے اس لڑکی کو تمہاری زندگی میں قبول کیا ہے نا ۔۔ تو تم ہماری خاطر نورے کو کیوں نہیں قبول کر سکتے ۔۔ ؟ کیا ہماری بات کی کوئی حیثیت نہیں تمہاری نظر میں ۔۔ ؟ کیا ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں ۔۔ ؟”
” ایسی بات نہیں ہے بابا ۔۔ میں نہیں کر سکتا دوسری شادی ۔۔ !”
ان کے سوال پر وہ صاف انکار کرتا بولا تھا
” وجہ ۔۔ ؟”
” مجھے ایسا لگتا ہے میں نورے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکوں گا ۔۔ جس محبت کی وہ حق دار ہیں وہ میں نہیں دے سکوں گا انہیں ۔۔ “
عباس کی بات پر انہوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
” میں مان ہی نہیں سکتا یہ بات ۔۔ تم میرے بیٹے ہو ۔۔ جانتا ہوں تم حق دار کو اس کا حق دینے میں کوتاہی نہیں کرتے ۔۔ جب شادی ہوگی تو یقیناً نورے کو محبت دو گے ۔۔ “
وہ ہاتھ نہ کے انداز میں ہلاتے بولے تھے
” پلیز بابا سرکار آپ مجھ سے اس بارے میں امید نہ رکھیں ۔۔ میں اپنی بیوی سے محبت کرتا ہوں ۔۔ دوسری شادی کی چاہت نہیں مجھے ۔۔ “
عباس ہنوز اپنی بات پر قائم تھا
” تمہیں نہیں لگتا تم نورے کے ساتھ غلط کر رہے ہو ۔۔ کبھی اس کو غور سے دیکھو تو معلوم ہو کہ جس نورے کے چہرے سے مسکراہٹ کبھی جدا نہیں ہوتی تھی وہ کتنی مرجھا گئی ہے ۔۔ تم سے محبت کرتی ہے کیا بھول گئے تم ۔۔ اس کو اذیت دے کر سکون سے رہ سکو گے ۔۔؟ “
انہوں نے نرمی سے اسے سمجھایا ان کی بات پر عباس خاموش ہو گیا تھا
اس نے بے چینی سے ان سوچوں کو جھٹکا تھا
” کہیں نورے کا صبر تو نہیں جو مجھے بے چین رکھتا ہے ۔۔ ؟؟ لیکن میں نے تو غلط نہیں کیا ان کے ساتھ ۔۔ اگر میں نے ان پر حُرّہ کو ترجیح دی ہے تو اس لیے کہ حُرّہ کا مجھ پر حق ہے ۔۔ ان کا نکاح ہوا تھا میرے ساتھ جبکہ نورے کے ساتھ میرا کوئی شریعی رشتہ نہیں جس حیثیت سے میں ان کے باعث حُرّہ کی حق تلفی کرتا ۔۔ “
مختلف سوچیں اس کے دماغ میں آ رہیں تھیں بار بار نورے کی باتیں ، اس کی خاموش زبان ، اس کی نگاہوں میں موجود سوال اسے یاد آ رہے تھے
” یا اللہ میرے ہاتھوں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو ۔۔ “
کچھ سوچتے ہوئے اس نے خود ہی اپنی سوچ پر سر ہلایا
/////////////////////////
” دروازہ کھولو ۔۔ !”
ایک گارڈ نے جب دروازہ کھولا تو حُرّہ کو دیکھ کر وہ چونکا جبکہ حُرّہ نے اسے مخاطب کیا
” جی بی بی ۔۔ “
وہ جی کہتا پیچھے ہوا تو حُرّہ نے گیٹ عبور کیا
” اے لڑکی وہیں رک جا ۔۔ !”
یہ سردار بی بی کی کرخت آواز تھی جس نے حُرّہ کے قدم وہیں روک دیے
” تو یہاں کیا کر رہی ہے ۔۔ ؟”
وہ حُرّہ کے قریب آتی ہوئی پوچھ رہیں تھیں
” و وہ ۔۔ !”
حُرّہ کو سمجھ نہ آیا کہ اپنے اتنی صبح آنے کا کیا جواز پیش کرتی مگر یہ تو طے تھا کہ اسے ہر حال میں یہیں پناہ لینی تھی
” کیا وہ وہ ۔۔ ؟؟ “
وہ غصے سے پھنکاری تھیں تو ان کی غصیلی آواز سن کر دعا رونے لگی تھی اس معصوم بچی نے تو فقط دو شفیق چہرے دیکھے تھے ایک حُرّہ کا اور دوسرا عباس جیسے محبت کرنے والے باپ کا جو نرم اور دھیمے انداز میں بولتا تھا اور کل رات سے وہ بچی پہلے اس آدمی کا اور اب سردار بی بی کی آواز پر شدت سے رونے لگی
” کیوں آئی ہو یہاں تم لڑکی ۔۔ اور اسے بھی کیوں لے کر آئی ہو ۔۔ “
حُرّہ کی گود میں روتی بلکتی سال بھر کی دعا کو دیکھ کر وہ اک پل کے لیے اس کی جانب متوجہ ہوئی تھیں وہ بچی انہیں بلکل عباس کی کاربن کاپی لگی تھی نین نقش میں اس قدر اپنے باپ سے مشابہ تھی کہ کوئی بھی باآسانی کہہ سکتا تھا کہ یہ عباس کی بیٹی ہے مگر سردار بی بی نے سفاکیت کی انتہا کی اور حقارت بھرے تاثرات لیے ان دونوں ماں بیٹی کو دیکھا
” جج جب تک سرداد نہیں آ جاتے ۔۔ مجھے یہاں رہنے دیں ۔۔ سرداد بی بی ۔۔ “
حُرّہ نے التجائیہ کہا
” کیوں ۔۔ ؟؟”
وہ فٹ سے بولیں تو حُرّہ نے سر جھکا لیا اب وہ انہیں اپنے پر گزری رات کی قیامت کیسے بتاتی
” پلیز رہنے دیں ۔۔ کچھ دن ۔۔ جب سرداد آ جائیں گے تو ہم چلے جائیں گے۔۔ “
دعا کو کاندھے سے لگائے ہوئے وہ آنکھوں میں التجا لیے بولی تھی
” ہاں ہاں جانتی ہوں میرے بیٹے کو لے اڑو گی ۔۔ مگر اس بار میں ایسا نہیں ہونے دوں گی ۔۔ “
وہ غصیلی آواز میں بولیں تھیں
” سرداد بی بی پلیز چند دن کے لیے ۔۔ “
” دفع ہو جاؤ تم اپنی بیٹی کو لے کر یہاں سے ۔۔ یہاں کوئی جگہ نہیں تمہارے اور تمہاری بیٹی کے لیے ۔۔ “
وہ غصے سے پھنکاری تھیں
” یہ صرف میری بیٹی نہیں ہے ۔۔ یہ آپ کے بیٹے کا بھی خون ہے ۔۔ “
دعا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ بولی تھی لہجے سے تکلیف عیاں تھی
” ہم نہیں مانتے ۔۔ پتہ نہیں کس کا گند میرے بیٹے کی جھولی میں ڈال رہی ہو ۔۔ میرا بیٹا تو ہے ہی شریف ۔۔ آ گیا تمہارے جھانسے میں ۔۔ “
وہ اپنے الفاظ سے حُرّہ کے اندر زہر انڈیل رہیں تھیں یہی زہر عباس دن رات اپنے اندر انڈیلتا تھا مگر شاید وہ ضبط کرنا جانتا تھا کہ سامنے اس کی ماں تھیں مگر حُرّہ سے قطعی ان کا بہتان برداشت نہیں ہوا
” اللہ سے ڈریں ۔۔ آپ بھی جانتی ہیں کہ یہ آپ کے بیٹے کی اولاد ہے ۔۔ پھر کیوں بہتان لگا رہیں ہیں مجھ پر ۔۔ “
اس مرتبہ حُرّہ بھی خاصی بلند آواز میں بولی تھی
” بکواس بند کرو اپنی ۔۔ خبردار اگر میرے سامنے بلند آواز میں چیخی ۔۔ “
حُرّہ کی بلند آواز پر وہ بھی چنگھاڑیں تھیں
” میں صرف اتنا کہہ رہی ہوں مجھے اور میری بیٹی کو تھوڑے دن یہاں رہنے دیں ۔۔ سردار کا ہمارے ساتھ بھی کوئی رشتہ ہے ۔۔ اس لیے حویلی میں رہنا ہمارا بھی حق ہے ۔۔ “
اس مرتبہ حُرّہ دھیمی آواز میں بولی تھی کہ عباس کے آنے تک اسے حویلی میں پناہ چاہیے تھی
” خبردار اگر اپنے حق جتائے تم نے ۔۔ “
انہوں نے اسے غصے سے گھورا تھا
” ٹھیک ہے نہیں جتاتی مگر پلیز مجھے اندر جانے دیں سردار بی بی ۔۔ “
حُرّہ نے باقاعدہ ان کے آگے ہاتھ جوڑے تھے
” جانے کون سے جادو کرتی ہو ہر مشکل کو شکست دے دیتی ہو ۔۔ ضرور کالا علم کرتی ہو ۔۔ تبھی اس ہٹے کٹے آدمی کو ڈھا کر یہاں آ گئی ہو ۔۔ “
وہ غصے میں بولتی جا رہیں تھیں ان کی بات پر حُرّہ ٹھٹھکی تھی
” کک کیا مطلب ۔۔ “
حُرّہ کی زبان لڑکھڑائی تھی
” مطلب یہ بی بی کہ میں تمہیں کبھی پناہ نہ دوں ۔۔ لو اپنی بیٹی کو اور نکلو میرے گھر سے ۔۔ “
انہوں نے حُرّہ کو بازو سے پکڑ کر پیچھے کیا
” آ آپ کو کیسے معلوم کہ میں اس آدمی سے بچ کر یہاں آئی ہوں ۔۔ “
وہ حیرت زدہ سی پوچھ رہی تھی
” میں نے ہی اسے بھیجا تھا ۔۔ کہ بس کسی طرح تم سے جان چھوٹ جائے میرے بیٹے کی ۔۔ “
وہ حُرّہ کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولیں تھیں
جب سے انہیں فون کال آئی تھی حُرّہ کے گھر سے بھاگنے اور ان کا منصوبہ ناکام ہونے کی تب سے وہ حویلی کے دروازے پر نگاہ جمائے کھڑیں تھیں انہیں یقین تھا حُرّہ یہیں آئے گی
اتنی مشکل سے عباس کی غیر موجودگی میں انہیں موقع ملا تھا کہ عباس کو حُرّہ سے بدظن کر سکیں یہ منصوبہ تھا کہ جیسے ان کی بیٹی کے ساتھ ہوا اس کا بدلہ بھی وہ لے لیں گی اور اسے عباس کے قابل ہی نہ چھوڑے لیکن حُرّہ بھاگ نکلی تھی تب سے وہ غصے میں ٹہل رہیں تھیں
” آپ کو خدا کا خوف نہیں آیا ۔۔ میں آپ کے بیٹے کی عزت ہوں ۔۔ آپ نے مجھے بے آبرو کرنا چاہا ۔۔ “
چند پل لگے تھے حُرّہ کو سب سمجھنے میں اور جب سمجھ آ گئی تو صدمے کی کیفیت میں بولی
” تم ہمارے دشمن کی بیٹی ہو ۔۔ اس دشمن کی جس نے میری بیٹی کی عزت کو تار تار کیا اور اسے بےرحمی سے مار دیا ۔۔ پھر میں تم پر کیسے رحم کروں ۔۔ “
ان کے لہجے سے نفرت اور حقارت جھلک رہی تھی حُرّہ کو اپنے پیروں پر کھڑا رہنا دشوار لگا
” آپ اس حد تک جا سکتی ہیں ۔۔ خدا کا خوف نہیں ہے ۔۔ اگر میں نہ بھاگتی اس وقت وہاں سے تو ۔۔ تو جانتی ہیں کیا ہو جاتا ۔۔”
حُرّہ کو شدید صدمہ لگا تھا وہ سمجھتی تھی سردار بی بی اپنی بیٹی کی وجہ سے ہمیشہ اس سے نالاں رہتی ہیں مگر اس حد تک قدم اٹھا سکتی تھیں یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا عباس جیسے اتنے اعلی انسان کی ماں ایسی سوچ رکھتی ہوگی یہ قبول کرنا کس قدر مشکل تھا
” اگر تم اب بھی یہاں سے نہ گئی تو یہ سب پھر کروا سکتی ہوں تمہارے ساتھ ۔۔ “
وہ سفاکیت سے بولیں تھیں جبکہ حُرّہ نے افسوس سے انہیں دیکھا
” مجھے نہ سہی مگر اس معصوم پر بھی رحم نہ آیا آپ کو ۔۔ اگر اسے کچھ ہو جاتا تو ۔ “
ان کی بات سن کر وہ اندر سے کانپی تھی وہ کبھی نہیں چاہتی تھی جس قیامت سے وہ رات کو گزری تاحی دوبارہ اس سے سنا ہو
” اچھا تھا مر جاتی ۔۔ میرے بیٹے سے گند تو دور ہوتا ۔۔ “
وہ سفاک عورت حقارت سے بولیں تھی حُرّہ نے تڑپ کر انہیں دیکھا تھا
” بس کر جائیں ۔۔ بہت ہو گیا ۔۔ اب دیکھئے گا میں آپ کی ساری حقیقت سردار کو بتاؤں گی ۔۔ کس حد تک جا چکی ہیں آپ سب بتاؤں گی ۔۔ “
وہ بھی غصے میں بولی تھی
” کیسے بتاؤ گی ۔۔ میں تمہیں یہاں رہنے دوں گی تب نا ۔۔ اگر تم نے یہاں رہنے کا سوچا بھی تو جو ایک بار عزت بچ گئی نا ہر مرتبہ نہیں بچے گی ۔۔ “
وہ شاطرانہ انداز میں اسے دھمکی دے رہیں تھیں ان کی بات سن کر حُرّہ کے چہرے پر خوف کا سایہ گزرا
” کیا ملے گا آپ کو یہ سب کر کے ۔۔ “
وہ بے بس انداز میں پوچھ رہی تھی
” سکون ۔۔ “
انہوں نے یک لفظی جواب دیا تو حُرّہ نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا
” تمہیں تکلیف میں دیکھ کر مجھے سکون ملتا ہے ۔۔ “
وہ بولیں تو حُرّہ نے پتھرائی آنکھوں سے انہیں دیکھا
“ایک اچھی بیوی شوہر کا سکون ہوتی ہے ۔۔ اور آپ میرا سکون ہیں حُرّہ ۔۔ “
اس پل عباس کے الفاظ اسے یاد آئے تھے اب وہ انہیں کیسے بتاتی کہ ان کا بیٹا اسے اپنا سکون کہتا تھا
” میں اپنے لیے سوال نہیں کروں گی آپ سے ۔۔ مگر دعا اس حویلی کی بیٹی ہے ۔۔ اس کا بھی اتنا حق ہے حویلی پر جتنا ایک بیٹی کا اپنے باپ کے گھر پر ہوتا ہے ۔۔ “
اس نے کہا تو انہوں نے نحوت سے سر جھٹکا
” جب ہم مانتے ہی نہیں اسے اپنے بیٹے کا خون تو کیسا حق بی بی ۔۔ ؟ “
کہتے ہی انہوں نے حُرّہ کو دھکا دیا تھا وہ بمشکل اس حملے پر سنبھل سکی تھی
” عذاب کی مانند ہو تم ہماری زندگیوں میں ۔۔ دفع ہو جاؤ ہماری زندگی سے ۔۔ تاکہ خوشیاں دوبارہ ہماری حویلی کا احاطہ کر سکیں ۔۔ اگر تم نہ گئی ہماری زندگی سے تو جان سے تم تو جاؤ گی ہی تمہاری بیٹی کو بھی اس طرح غائب کرواؤں گی کہ قبر بھی نہیں مل سکے گی تمہیں اس کی ۔۔ چلی جاؤ یہاں سے ۔۔ نکل جاؤ ۔۔ “
وہ حتمی انداز میں حُرّہ کو دھمکا رہیں تھیں کہ ان کی دھمکی پر حُرّہ تڑپ گئی
” گارڈز یہ لڑکی حویلی کے آس پاس بھی نظر نہ آئے مجھے ۔۔ “
اس بار وہ گارڈز کو کہتی حویلی کے اندرون حصے کی سمت بڑھ گئیں
” مم میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔ آپ کی حقیقت سردار کو ضرور بتاؤں گی ۔۔ “
گارڈز کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ حُرّہ نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روکا اور چیخ کر بولی
” پلیز جلدی آ جائیں سردار ۔۔ زندگی اس دنیا نے تنگ کر دی ہے مجھ پر ۔۔ پلیز جلدی آ جائیں ۔۔ آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی میں ۔۔ مر جاؤں گی آپ کے بغیر ۔۔ میرے اللہ چھوٹے سردار کو بھیج دے ۔۔ نہیں دعا رو نہیں بس ویٹ کرو بابا کے آنے کا ۔۔ ہم بابا کو سب بتائیں گے ۔۔ پھر کبھی دور نہیں جائیں گے وہ ہم سے ۔۔ “
وہ بھوک سے بلکتی روتی ہوئی دعا کو کہتی جا رہی تھی
” نہیں میں کسی قیمت پہ سردار سے الگ نہیں ہو سکتی ۔۔ مجھے انہیں سب بتانا ہو گا کہ کیا کیا ہوا ہمارے ساتھ ۔۔ پلیز جلدی آ جائیں ۔۔ آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہمارا ۔۔ یا اللہ میری مدد کر ۔۔ “
آسمان کی جانب دیکھتی وہ بولی تھی

Read Here Part 14 Main Hun Badnaseeb Urdu Novel

Updated: February 27, 2025 — 6:38 am

2 Comments

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *