Urdu novel free Main Hun Bad Naseeb” is a captivating and thrilling Urdu novel that keeps readers engaged with its suspenseful and emotional storyline. If you enjoy romantic Urdu novels with unexpected twists, this novel is a must-read.
In Part 15, the story reaches a critical turning point, where secrets unfold, relationships are tested, and fate plays its final hand. Will the characters find happiness, or will destiny take them on a different path? Read now to discover the next chapter in this gripping journey!

Main Hun Bad Naseeb – Urdu Novel Online | Part 15
Read Here Par 14 main hun badnaseeb
” میں جانتا ہوں عباس تم اس وقت بھابھی اور دعا کی وجہ سے بہت پریشان ہو مگر مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے ۔۔ پہلے ہی بہت دیر کر چکا ہوں میں ۔۔ مزید دیر کرکے اپنا سب کچھ نہیں کھونا چاہتا ۔۔ !”
وہ دونوں اس وقت عباس کے آفس میں بیٹھے تھے عالیان نے بات کا آغاز کیا تو عباس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
” کیا بات ہے عالیان سب ٹھیک ہے نا ۔۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو ۔۔”
عباس نے پوری طرح عالیان کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا
” تمہاری کزن نورے کا رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں ۔۔ شادی کرنا چاہتا ہوں ان سے ۔۔”
عالیان نے عباس کو دیکھتے ہوئے کہا تو عباس کے ماتھے پر بل پڑے جنہیں دیکھ کر عالیان نے تھوک نگلا
////////////////////////
” بی بی جی چھوٹی بی بی کو بہت تیز بخار ہے ۔۔ رو رو کر بچی کا برا حال ہے ۔۔ میرے خیال سے پہلے اسپتال لے چلتے ہیں بچی کو ۔۔ “
ناہید نے حُرّہ کو دعا کو سینے سے لگائے سسکتے دیکھ کر خود بھی روتے ہوئے کہا
” جلدی چلیں پلیز ۔۔ اا اگر مم میری بچی کو کچھ ہو گیا تو ۔۔ !”
ناہید کی بات پر حُرّہ نے بے بسی سے کہا اور تیز تیز چلنے لگی
شہر جانے والی گاڑی پر سوار وہ سرکاری ہسپتال پہنچی تو دعا کی حالت تشویشناک بتائی گئی فوراً ایمرجنسی میں داخل کیا گیا کوریڈور میں بیٹھی حُرّہ کی سانسیں بھی مدھم ہو رہیں تھی
زیر لب اپنی بیٹی کی زندگی کی دعائیں تھیں آنسو مسلسل چہرے پر بہہ رہے تھے دل میں عجیب وسوسے تھے کہ اگر دعا کو کچھ ہو گیا تو ؟؟ اس سے آگے حُرّہ کی سوچیں ہی مفلوج ہو رہیں تھیں دل اپنی بیٹی کو کھو دینے کے ڈر سے خوفزدہ تھا
” بی بی جی کچھ کھا لیں ۔۔ “
ناہید بسکٹ کا پیکٹ حُرّہ کی جانب کرتے ہوئے کہہ رہی تھی حُرّہ نے نفی میں سر ہلایا
” بی بی جی ۔۔ چھوٹی بی بی کو کچھ نہیں ہو گا ۔۔ “
اس نے حُرّہ کو تڑپتے دیکھ کر تسلی دی
” پلیز دعا کریں ۔۔ میری بچی ٹھیک ہو جائے ۔۔ ۔۔”
حُرّہ نے ناہید کو دیکھتے ہوئے کہا
” میں قربان بی بی جی اپنے چھوٹے سردار کی اولاد کے ۔۔ خدا لمبی زندگی دے ہماری دعا بی بی کو ۔۔ “
ناہید عقیدت سے حُرّہ کو دیکھتے دعا دی
“میں نے سب کھو دیا ہے ناہید باجی ۔۔ سب کھو دیا ۔۔ بب بابا ۔۔ مم ماں ۔۔ سرداد کک کو بھی ۔۔ اب دعا کے علاوہ کوئی نہیں میرا ۔۔ دعا میرے جینے کی وجہ ہے ۔۔ ورنہ سرداد کے بعد میرے وجود میں روح کہاں باقی ہے ۔۔ مردہ وجود لیے پھر رہی ہوں ۔۔ صرف اپنی بچی کی خاطر ۔۔ !”
حُرّہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی تھی کہ اس کا انداز اور چہرہ اس پر بیتے ظلم و ستم کی داستان بیان کر رہا تھا
ناہید اس کی تکلیف محسوس کرتی خود بھی چہرہ جھکائے رونے لگی جبکہ کچھ فاصلے پر بیٹھی ایک خاتون جو مسلسل اسی کو دیکھ رہیں تھیں حُرّہ کی باتوں اور چہرے سے جھلکتے دکھ کو محسوس کرتی اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو چادر کے کونے سے صاف کرتی اٹھیں اور حُرّہ کے برابر آ بیٹھیں
” بیٹی ہمت کرو ۔۔ تمہیں دیکھ تو ہمارا دل تڑپ رہا ہے ۔۔ خدا تمہاری بیٹی کو صحت دے گا ۔۔ مت رو ۔۔ “
وہ حُرّہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعا دیتیں گویا ہوئیں تو ناہید اور حُرّہ اس انجان عورت کی جانب متوجہ ہوئیں
اس کی دعائیں دینے پر حُرّہ کو مزید رونا آیا وہ سسک اٹھی تو اس خاتون نے اسے شفقت سے گلے لگا لیا
” کک کتنے گھنٹے ہو گئے ۔۔ مجھے میری بچی سے بھی ملنے نہیں دے رہے ۔۔ پپ پتہ نہیں کیسی ہے ۔۔ پپ پلیز دعا کریں ۔۔ وو وہ بہت چھوٹی ہے ۔۔ ایک سال کی بچی کک کو اتنی مشینوں میں جکڑا ہوا ہے۔۔ “
حُرّہ بتاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو وہ خاتون اور ناہید بھی رونے لگیں تھیں
” کچھ نہیں ہوگا بیٹی تمہاری بچی کو ۔۔ “
انہوں نے حُرّہ کے آنسو پونچھتے ہوئے تسلی دی
” بچی کا باپ کہاں ہے ۔۔ ؟؟”
کچھ دیر بعد ان خاتون نے حُرّہ کو دیکھتے پوچھا تو حُرّہ کے چہرے پر اذیت کے کئی رنگ آئے جو ان خاتون نے اپنے تجربے اور عمر کے باعث فوراً محسوس کیا جبکہ ان کے سوال پر ناہید بھی بوکھلا گئی
اس سے پہلے حُرّہ مزید مشکل میں پڑتی ڈاکٹر کے آنے پر تینوں اس کی جانب متوجہ ہوئیں جبکہ حُرّہ ڈاکٹر کی سمت بڑھی
” میری بیٹی کیسی ہے ڈاکٹر صاحب ۔۔ ؟”
حُرّہ لہجے میں فکرمندی لیے پوچھنے لگی
” جی اب بہتر ہے آپ کی بیٹی کی طبیعت ۔۔ “
ڈاکٹر کے تسلی بخش جواب پر حُرّہ سمیت باقی دونوں نفوس کے بھی رکے سانس بحال ہوئے
” میں مل لوں ۔۔ “
” جی ۔۔”
ڈاکٹر کے اجازت دینے پر حُرّہ کمرے کی جانب لپکی
دو دن میں دعا کی طبیعت کچھ بہتر تھی مگر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ابھی کچھ دن اسے انڈرابزرویشن رکھنا تھا مگر حُرّہ مزید ہسپتال کا خرچہ نہیں اٹھا سکتی تھی اسی لیے دو دن بعد ہی اپیل کر کے حُرّہ دعا کو لیے ہسپتال سے نکلی
وہ خاتون جو کہ اپنی دل کے مرض کی دوائیاں لینے آئی تھی وہ حُرّہ کو اس دن کے بعد آج پھر باہر نکلتے ہوئے ملی
” ارے تم جا رہی ہو بچی کو لے کر بیٹی ۔۔ ؟”
وہ حُرّہ کے سامنے آتی پوچھنے لگیں تو حُرّہ نے اثبات میں سر ہلایا
” کیسی ہے اب تمہاری بیٹی ۔۔ ؟؟”
انہوں نے حُرّہ کی گود میں دوائیوں کے زیر اثر سوئی خوبصورت مگر مرجھائی ہوئی بچی کے رخسار پر پیار کرتے ہوئے پوچھا
” اب بہتر ہے ۔۔ دعاؤں میں یاد رکھئے گا ۔۔ “
اس انجان عورت کو اپنی بچی کے لیے پریشان دیکھ کر حُرّہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے مدھم آواز میں جواب دیا
” کہاں گھر ہے تمہارا ۔۔ ؟؟”
اثبات میں سر ہلاتے انہوں نے عام سے انداز میں پوچھا مگر حُرّہ اور ناہید کا رنگ زرد پڑا
” کیا ہوا ۔۔ ؟”
باری باری دونوں کے چہرے دیکھ کر فرحت بی بی نے دوبارہ پوچھا اور کھوجتی نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھنے لگی
” آؤ میرے ساتھ ۔۔ “
فرحت بی بی نے کچھ سوچ کر حُرّہ کا ہاتھ تھاما اور چلنے لگی جبکہ حُرّہ نے بے بسی سے ناہید کو دیکھا
” جانتی ہوں تم مشکل میں ہو بیٹا مگر ۔۔ اتنی چھوٹی بچی کے ساتھ تمہیں اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ۔۔ “
رش سے ایک طرف ہوتے ہوئے وہ بولیں تو ناہید نے کچھ کہنا چاہا جب حُرّہ نے اشارے سے اسے کچھ بھی بولنے سے روکا
” پتہ ہے کتنے حالات خراب ہیں آج کل کے ۔۔ !”
انہوں نے مزید کہا تو حُرّہ نے سر جھکا لیا
” یہ کیا لگتی ہیں تمہاری ۔۔ ؟”
انہوں نے ناہید کے جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
” بڑی بہن ۔۔ “
ناہید کو دیکھتے ہوئے حُرّہ نے جواب دیا تو سرشاری کے احساس کے تحت ناہید کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ حُرّہ اسے بہن کہہ رہی تھی
” بتاؤں ذرا ساری بات ۔۔ تم دونوں اکیلی بچی کو لے کر دو دن سے اسپتال میں ہو ۔۔ کیا اور کوئی نہیں ہے تمہارا ۔۔ ؟”
انہیں نے اگلا سوال کیا تو حُرّہ نے انہیں دیکھا
” ہم چلتے ہیں ۔۔ “
اس سے پہلے کہ وہ خاتون مزید کوئی سوال کرتیں حُرّہ جانے کے لیے مڑی
” رکو بیٹا ۔۔ “
انہوں نے حُرّہ کا بازو تھام لیا
” میری بھی ایک بیٹی ہے ۔۔ مجھے بیٹیوں کا احساس ہے ۔۔ اور آج کل کے حالات کے مطابق میں تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گی ۔۔ چلو میرے ساتھ ۔۔ “
انہوں نے رکشے کی جانب بڑھتے ہوئے کہا جبکہ وہ حُرّہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھیں
” مم مگر ۔۔ !”
ان کے ساتھ چلتے ہوئے حُرّہ نے کچھ بولنا چاہا کہ انہوں نے اس کی بات کاٹی
” جب خدا کی ذات پر بھروسہ کر کے نکلی ہو تو یقین رکھو خدا پر ۔۔ یقیناً اس نے وسیلہ بنایا ہے ۔۔”
ان کے جواب پر حُرّہ خاموش ہو گئی یقیناً اس نے سب کچھ خدا پر چھوڑا ہوا تھا وہی اس کی مشکلات آسان کرے گا ابھی بھی خدا کے بھروسے پر وہ اس انجان خاتون کے ساتھ ہو لی
طویل مسافت طے کرنے کے بعد وہ خاتون انہیں لیے حیدرآباد کے ایک عام علاقے میں آئی پھر ایک خستہ حال مکان کے دروازے کو بجایا کچھ دیر بعد ایک چوبیس پچاس برس کی لڑکی نے دروازہ کھولا اپنی ماں کے ساتھ دو انجان نفوس کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے جبکہ فرحت بی بی نے حُرّہ اور ناہید کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور ایک کمرے میں لیے داخل ہوئی جس میں دو چارپائیاں بچھی ہوئیں تھیں انہوں نے ایک پر حُرّہ کو دعا کو لٹانے کا کہا اور دوسری پر ناہید کو بیٹھنے کا کہا
” تہمینہ پانی اور کھانا لاؤ ۔۔ بہت بھوک لگی ہے ۔۔ “
فرحت بی بی نے سفید چادر کو اتار کر دوپٹہ اچھی طرح لیتے ہوئے بیٹی کو کہا جو کہ نئے چہرے دیکھ کر پہلے ہی حیرت زدہ تھی ماں کے حکم پر سر ہلاتی کمرے سے نکلی
” لیٹ جاؤ آپ دونوں ۔۔ بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو ۔۔ آرام کرو ۔۔ جب تک کھانا آتا ہے “
فرحت بی بی نے باری باری حُرّہ اور ناہید کو دیکھتے ہوئے کہا جو گم سم سی بیٹھیں تھیں ان کے پکارنے پر چونکی مگر بے حرکت رہیں
” ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہیں ۔۔ ہم دونوں ماں بیٹی اکیلی رہتی ہیں ۔۔ “
ان دونوں کی جھجھک دیکھتے ہوئے فرحت بی بی نے بتایا مگر وہ دونوں ہنوز ساکت بیٹھیں تھیں
” ہم دونوں ماں بیٹی کا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔۔ کوئی بھی نہیں ۔۔ ہم دونوں کئی سالوں سے اکیلے رہتی ہیں ۔۔ میری بیٹی کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے اس وقت سے یہ میرے ساتھ رہتی ہے ۔۔ “
فرحت بی بی کے بتانے پر حُرّہ دکھ سے انہیں دیکھنے لگی جو اب اداس سی بیٹھیں تھیں
/////////////////////
” آ جائیں ۔۔ !”
دروازے پر ہوتی مسلسل دستک پر عباس نے نماز سے فارغ ہو کر آنے والے کو اجازت دی اور خود ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا موبائل فون اٹھا کر چیک کرنے لگا جب سردار شیر دل اور سردار بی بی کمرے میں داخل ہوئیں
” بابا سرکار ۔۔ مجھے بلوا لیتے آپ ۔۔ “
ماں باپ کو دیکھتے عباس نے موبائل قمیض کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا
” ایسے سمجھو کہ آج ہم تمہارے پاس التجا لے کر آئیں ہیں ۔۔ امید ہے تم ہماری بات پوری کرو گے ۔۔ “
سردار شیر دل عباس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے اسے لیے صوفے پر آ بیٹھے جبکہ سردار بی بی بیڈ کے ایک کونے پر ٹک گئیں
” اگر میں استطاعت رکھتا ہوا تو ضرور پورا کروں گا بابا سرکار ۔۔ “
عباس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا جو کافی خوش دیکھائی دے رہے تھے
” ہم نے جمعہ کو نورے اور تمہارا نکاح رکھا ہے ۔۔ “
سردار شیر دل کی بات عباس کو سن کر گئی وہ چند پل تو کچھ بول ہی نہ سکا
” کتنے دن ہو گئے اس لڑکی کو گئے ہوئے ۔۔ اب اس دھوکے باز لڑکی کی یادوں سے نکالو خود کو ۔۔ آگے بڑھو زندگی میں ۔۔ ہم تمہیں پھر سے مسکراتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔ “
وہ مزید بولے تو عباس نے بے تاثر چہرہ لیے انہیں دیکھا
” جب میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا تو آپ لوگ بار بار کیوں زور دیتے ہیں ۔۔ “
وہ لفظ چبا کرادا کرتا بولا تھا
” تو ابھی وہ بدکردار لڑکی تمہارے حواسوں پر سوار ہے ۔۔ “
سردار بی بی دل میں حُرّہ کو کوسنے دیتی عباس سے مخاطب ہوئیں
” ماں جی وہ لڑکی صرف میرے حواسوں پر نہیں سوار بلکہ ۔۔ میرے دل و دماغ میں بس چکی ہے ۔۔ اور ہمیشہ رہے گی ۔۔ مجھے یقین ہے کہ ایک نا ایک دن وہ مجھے مل جائے گی ۔۔ “
ان کے چہرے کو دیکھتا وہ بولا تو اس کے لہجے سے یقین جھلک رہا تھا
” اس لڑکی کو چھوڑ کر اپنے باپ کی عزت کا بھی سوچ لو ۔۔ سارے گاؤں میں یہ خبر پھیل چکی ہے ۔۔ اگر جمعے کو نکاح نہ ہوا تمہارا اور نورے کا تو کیا عزت رہ جائے گی ہماری ۔۔ دنیا کہے گی سرداد شیر دل اپنی بھتیجی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکا ۔۔ “
سردار شیر دل رخ عباس کی جانب کرتے ہوئے دبے دبے غصے سے بول رہے تھے
” تو کریں نا انصاف اپنی بھتیجی کے ساتھ ۔۔ میرے ساتھ نکاح کروا کر تو ظلم کریں گے آپ نورے کے ساتھ ۔۔ میں حُرّہ کے علاوہ کسی دوسری لڑکی کا سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہوں ۔۔ اپنی زندگی میں شامل کرنا تو بہت دور کی بات ۔۔ “
عباس تحمل سے انہیں جواب دیتا کہہ رہا تھا
” میں نے کہا تھا نا آپ کو سردار جی ۔۔ وہ بدکردار لڑکی اتنی آسانی سے نہیں بھولے گی ہماری بیٹی کو ۔۔ “
سردار بی بی کے بولنے پر عباس نے آنکھیں میچے سر جھٹکا جبکہ سردار شیر دل نے انہیں خونخوار نگاہوں سے گھورا
” تم خاموش رہو ۔۔ اگر اب بیچ میں بولی تو بھول جائیں گے تم ہمارے وارث کی ماں ہو ۔۔ “
وہ غصے میں چیخے تھے جبکہ سردار بی بی ان کے چنگھاڑنے پر کانپ گئی
” بابا سرکار پلیز ۔۔ !”
عباس کو ماں کی توہین برداشت نہ ہوئی تو سردار شیر دل کا ہاتھ تھامتا انہیں مزید غصہ کرنے سے روک گیا
” تمہاری انہیں گھٹیا باتوں کی وجہ سے عباس کو ضد چڑھ گئی ہے ۔۔ ورنہ ہمارا بیٹا ہماری کوئی بات نہیں ٹالتا ۔۔ “
وہ اس بار دبی دبی آواز میں غرائے تھے
” دیکھو عباس ہمیں یا ناعمہ کو یا نورے کو ۔۔ کسی کو بھی تمہاری پہلی بیوی سے کوئی سروکار نہیں ۔۔ تم اسے بےشک تلاش کرو ۔۔ وہ مل جاؤ تو اسے ویسے ہی رکھو اپنے پاس مگر ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ نورے سے شادی کر لو ۔۔ اسلام میں تو چار شادیوں کی اجازت ہے ۔۔ تمہارے اگر نورے سے شادی کرنے سے نورے کی زندگی سنور جاتی ہے تو کیوں نہیں ہماری بات مان لیتے ۔۔ “
وہ اپنی باتوں پر زور دیتے ہوئے گویا ہوئے تھے
” بے شک اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے ۔۔ بابا اس بات پر کہ بیویوں میں مساوی سلوک رکھا جائے ۔۔ انصاف کیا جائے ان میں ۔۔ مگر میں پہلے بھی آپ کو یہ بات کہہ چکا ہوں ۔۔ میں نورے کے ساتھ انصاف نہیں کر پاؤں گا ۔۔ کیونکہ حُرّہ صرف بیوی نہیں ہیں میری ۔۔ بلکہ میری محبت ہیں ۔۔ وہ میرے دل میں خاص مقام رکھتی ہیں ۔۔ وہ مقام میں کسی اور کو نہیں دے سکتا ۔۔ کسی کو بھی نہیں ۔۔ “
عباس نفی میں سر ہلاتا بول رہا تھا تھا جبکہ سرداد بی بی نے عباس کی دیوانگی دیکھ کر غصے سے سر جھٹکا
“مگر اب تو وہ لڑکی یہاں نہیں ہے نا ۔۔ “
عباس کی تمام باتوں پر ضبط کرتے ہوئے سردار شیر دل نے کہا تو عباس کے لب مسکرائے
“میں پھر بھی بےوفائی نہیں کر سکتا ان کے ساتھ ۔۔ ان کی غیر موجودگی تو میری محبت کا امتحان ہے ۔۔ “
اپنے باپ کے ضبط کے مارے سرخ ہوئے چہرے کو دیکھتا وہ بڑے آرام سے بولا تھا
” تم سمجھتے کیوں نہیں ہو عباس ۔۔ تمہارے علاوہ نورے کی کسی سے شادی نہیں ہو سکتی ۔۔ “
وہ اس بار چیخے تھے
” کیوں نہیں ہو سکتی بابا سرکار ۔۔ “
عباس نے حیرت سے انہیں دیکھتے پوچھا
” تم بہتر جانتے ہو ہمارے خاندان کا اصول ہے ایک بار جس لڑکی کا نام کسی سے جڑ جائے پھر ساری عمر اسی کے نام پر گزارتی ہے ۔۔ چاہے وہ شخص اسے اپنائے یا نہ اپنائے ۔۔ یاد رکھو اگر نورے کو نہیں اپناؤ گے تو وہ ساری زندگی ایسے ہی تمہارے نام پہ گزارے گی ۔۔ “
بولتے ہوئے وہ اسے پتھردل سردار لگے
” میں نے بہت انتظار کیا کہ شاید آپ خود انصاف کریں بابا سرکار ۔۔ نورے کو اس خاندانی پست اصولوں سے آزاد کر دیں ۔۔ مگر افسوس آپ ایک سنگدل سردار کی حیثیت سے سوچتے رہے ۔۔ جس لڑکی کے سر پر باپ کے بعد ہاتھ رکھا تھا ۔۔ اسی کو اپنے اصولوں کے تحت زندہ درگور کر رہے ہیں ۔۔ “
عباس کے لہجے سے ہی افسوس عیاں تھا جبکہ سردار بی بی خاموش بیٹھی دونوں باپ بیٹے کو دیکھتی ان کی گفتگو سن رہیں تھیں
” ہاں کر رہا ہوں کیونکہ مجھے اپنے خاندان کی ساکھ برقرار رکھنی ہے ۔۔ نورے سے تمہارا نکاح کروا کر ۔۔ “
وہ سر اکڑا کر بولے تھے
” اگر ایسی بات ہے بابا سرکار تو میں ان خاندانی اصولوں کے خلاف جاؤں گا ۔۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ۔۔ آپ کو اپنی بھتیجی سے زیادہ یہ ناپید خاندانی اصول پیارے ہیں ۔۔ آپ نورے سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے بلکہ آپ صرف اس لیے میری شادی نورے سے کروانا چاہتے ہیں کہ یہ آپ کا خاندانی اصول ہے ۔۔ تو پھر ٹھیک ہے میری ایک بات بھی سن لیں اب میں نورے کی شادی خاندان سے باہر کرواؤں گا ۔۔ اور ضرور کرواؤں گا ۔۔ اور جمعے کو ہی کرواؤں گا ۔۔ “
عباس مضبوط انداز میں کہتا بالوں میں انگلیاں پھیرتا ان کے برابر سے اٹھ کھڑا ہوا تھا
” کیا بکواس کر رہے ہو یہ تم ۔۔ “
وہ بھی دھاڑتے ہوئے اٹھے
” جو آپ سن رہے ہیں وہی کہہ رہا ہوں ۔۔ میں نورے کی شادی اس سے کرواؤں گا جو اسے خوش رکھنے کی ضمانت لے ۔۔ جس کے ساتھ نورے حقیقتاً خوش رہ سکے ۔۔ “
دونوں باپ بیٹے کو مقابل دیکھ کر سرداد بی بی دل میں حُرّہ کو بددعائیں دیتیں خود بھی کھڑی ہوئیں
” تم میں غیرت نہیں رہی ۔۔ اپنے سے منسوب لڑکی کی شادی کسی اور سے کرواؤ گے اب ۔۔ “
سردار شیر دل حقیقتاً صدمے سے دوچار چیخے تھے
” بے غیرت میں تب ہوتا جب نورے کا میرے ساتھ شرعی رشتہ ہوتا ۔۔ تب ان کا نام کسی اور کے ساتھ جوڑ کر واقعی میں بےغیرتی کرتا مگر ۔۔ نورے باقیوں کی طرح نامحرم ہیں میرے لیے ۔۔ چچا کی بیٹی کی حیثیت سے میں ان کا نکاح جمعے کو ہی کرواؤں گا ۔۔ “
باپ کو اطلاع دیتا وہ آگے بڑھنے لگا
” اگر تم نے جمعے کو نورے سے نکاح نہ کیا تو میرا مرا منہ دیکھو گے ۔۔ پھر اٹھانا باپ کا جنازہ ۔۔ کیونکہ اپنے عزت کا جنازہ تو تمہیں نہیں نکالنے دوں گا میں ۔۔ “
وہ دھمکی دیتے ہوئے بولے تو عباس کے بڑھتے قدم رکے
” کیا معلوم آپ سے پہلے مجھے موت آ جائے بابا سرکار ۔۔ بیٹے کا جنازہ اٹھانا کافی کٹھن ہوتا ہے ۔۔ “
عباس جس انداز میں بولاتھا سردار شیر دل اور سردار بی بی ساکت ہو گئے جبکہ عباس کے لب مسکرائے
” جمعہ دو دن بعد ہے بابا سرکار ۔۔ نورے کا نکاح آج ہی ہو گا ۔۔ آپ اپنی بھتیجی کو رخصت کرنے کی تیاری کریں ۔۔ “
موبائل پر نمبر ڈائل کرتا وہ ماں باپ کو سکتے میں چھوڑ کر کمرے سے نکلا مگر دروازے پر نورے کو کھڑا دیکھ کر ٹھٹھکا نورے کے بہتے آنسو بیان کر رہے تھے کہ وہ اندر ہوتی گفتگو سن چکی ہے اس سے نگاہیں چرائے وہ آگے بڑھ گیا جبکہ نورے نے شکوہ کناں نگاہیں اس کی پشت پر ڈالیں
////////////////////
” آ آپ سے ایک بات پوچھوں ۔۔ ؟؟”
وہ چاروں عشاء کی نماز پڑھ کر اسی کمرے میں اپنے اپنے بستر پر آ بیٹھیں تھیں ایک چارپائی پر حُرّہ ، دعا کو پہلو میں لیے بیٹھی تھی اور دوسری پر فرحت بی بی لیٹیں ہوئیں تھیں جبکہ ناہید اور تہمینہ کا بستر فرش پر تھا وہ دونوں بھی بیٹھی ہوئیں تھیں انہیں یہاں رہتے کافی زیادہ دن گزر گئے تھے مگر فرحت بی بی اور تہمینہ نے اس سے کوئی سوال نہ کیا تھا اب حُرّہ کی آواز کی جانب ان سب کی توجہ مبذول ہوئی جبکہ حُرّہ فرحت بی بی سے مخاطب تھی
” ہممم ۔۔ “
ہنکار بھرتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھیں اور چادر سر پر درست کرتی حُرّہ کو دیکھنے لگی
” آ آپ تو کہہ رہیں تھیں کہ حالات بہت خراب ہیں آج کل کے پھر آپ نے ہم پر بھروسہ کیسے کر لیا اور ہمیں اپنے گھر لے آئیں ۔۔ جبکہ ہم تو آپ کے لیے بلکل انجان ہیں ۔۔ آپ ہمیں دھوکے باز بھی سمجھ سکتی تھیں ۔۔ “
وہ پوچھ رہی تھی جبکہ حُرّہ کی بات پر فرحت بی بی کے لب مسکرائے
” زندگی سے اتنے تجربات حاصل ہوئے ہیں کہ انسان کے چہرے دیکھ کر اس کی سچائی محسوس ہو جاتی ہے ۔۔ اور تم ہمیں دھوکے باز نہیں لگی ۔ “
سنجیدہ انداز میں کہتے ہوئے آخر میں وہ پھر سے مسکرائیں ان کی بات کو حُرّہ نے بہت غور سے سنا ناہید اور تہمینہ بھی ان کو خاموشی سے سن اور دیکھ رہیں تھیں ان چند دن میں ہی تہمینہ اور فرحت بی بی دعا سے بہت مانوس ہو گئیں تھیں
” اس کا باپ کہاں ہے ۔۔ ؟”
کچھ دیر خاموشی کے بعد فرحت بی بی کی آواز کمرے میں گونجی تو جہاں حُرّہ چونکی وہیں ناہید نے بھی حُرّہ کو دیکھا تہمینہ اور فرحت بی بی حُرّہ کے جواب کی منتظر تھی
” یہاں نہیں ہیں وہ ۔۔ !”
حُرّہ نے دعا کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں پھیرتے ہوئے نگاہیں جھکائے کہا
” اس نے تمہیں چھوڑا یا تم نے ۔۔ ؟”
حُرّہ کی گول مول بات پر فرحت بی بی نے دوبارہ استفسار کیا
” مم میں نے ۔۔ !”
حُرّہ کی زبان لڑکھڑائی تھی اور ہاتھوں میں لرزش پیدا ہوئی تھی
” کیا بہت مارتا پیٹتا تھا ۔۔ “
ان کے اگلے سوال پر حُرّہ تڑپ گئی اور نفی میں سر ہلایا
” نن نہیں بلکل نن نہیں ۔۔ “
بے ساختہ عباس کا نرم انداز اسے یاد آیا تھا ایک آنسو بہتا ہوا کپڑوں میں جذب ہو گیا تھا
” خرچہ نہیں دیتا تھا ۔۔ ؟؟”
انہوں نے مزید پوچھا
” دیتے تھے ۔۔ “
دو لفظی جواب دے کر حُرّہ نے آنسو پونچھے عباس تو دنیا کی ہر چیز اس کے قدموں میں لا رکھتا تھا
” بیٹی سے پیار نہیں کرتا تھا ۔۔ ؟؟ کیا اسے بیٹی نہیں چاہیے تھی ۔۔ ؟؟”
سوال کرتے ہوئے انہوں نے دعا کی جانب اشارہ کیا
” بب بہت پیار کرتے ہیں وہ بیٹی سے ۔۔ !”
روندی آواز میں جواب دیتے ہوئے اس نے دعا کی پیشانی پر مامتا بھرا لمس چھوڑا
” پھر تم سے پیار نہیں کرتا تھا ۔۔ ؟؟”
حُرّہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے انہوں نے مزید پوچھا تو حُرّہ نے سر جھکا لیا اب وہ انہیں کیا بتاتی اس شخص کی عنائتیں کہ جہاں باقی حویلی والوں کی طرح عباس کو اس سے نفرت کرنی چاہیے تھی وہیں اس شخص کی محبت کا آغاز ہوا تھا
” ایسی خالص محبت کرتے تھے کہ ۔۔ جس کی پاکیزگی کی گواہ میں خود ہوں ۔۔ !”
وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی جبکہ فرحت بی بی سمیت باقی دونوں نفوس نے بھی اس کے چہرے پر آئے محبت بھرے رنگ کو دلچسپی سے دیکھا
” کیا تم پیار نہیں کرتی ہو اس سے ۔۔ ؟؟”
” پیار چھوٹا لفظ ہے میرے احساسات کے آگے ۔۔ پیار سے اگلی منزل طے کر چکی ہوں کہ ان کی خاطر خود کو ان سے جدا کر دیا ۔۔ یوں کہہ لیں کہ اپنی ہی روح کو وجود سے کھینچ نکالا ۔۔”
بات کرتے ہوئے وہ اذیت سے مسکرائی
” تو پھر وہ یقیناً ناجائز تعلقات رکھتا ہو گا غیر عورتوں کے ساتھ ۔۔ ؟؟”
ان کے سوال پر حُرّہ نے فوراً سر نفی میں ہلایا
” نن نہیں ۔۔ بلکل ایسے نہیں وہ ۔۔ ان کی شرافت ۔۔ ان کا شفاف کردار ۔۔ مجھ سے بہتر خدا جانتا ہے ۔۔ “
وہ مضبوط انداز میں بولی تھی
” مارتا بھی نہیں تھا۔۔ خرچہ بھی دیتا تھا ۔۔ بیٹی سے بھی پیار کرتا تھا ۔۔ اور تم سے بھی پیار کرتا تھا ۔۔ تم بھی اس سے پیار کرتی ہو ۔۔ ناجائز تعلقات بھی نہیں تھے ۔۔ جب اتنا اچھا تھا تو کیوں چھوڑا تم نے اسے ۔۔ ؟؟”
فرحت بی بی نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا جبکہ ان کی بات پر حُرّہ نے ایک سرد آہ بھری
” حالات کا تقاضا یہی تھا ۔۔ !”
وہ بولی گو اس کی آنکھیں اس کا درد بیان کرنے لگیں جبکہ زبان سے اپنے دکھ کیسے وہ بیان کرتی کہ قدم قدم پر اتنی ستم ظریفی ہوئی تھی کہ اب تو آنکھوں سے ہی دکھ عیاں تھے
فرحت بی بی کو سب بتاتے ہوئے وہ کئی باتوں پر کرب سے آنکھیں میچ گئی اس کے خاموش ہونے پر ناہید نے بات کو جاری کیا
” ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سے زیادہ تکلیف میں تو اس دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں ۔۔ اللہ سے شکوہ کرتی تھی کہ ہمیں ہی ہر آزمائش سے گزارنا تھا ۔۔ مگر دیکھو ذرا تمہاری آزمائشوں کے آگے تو میری اور میری بیٹی کی تکلیفیں کچھ بھی نہیں ۔۔ “
حُرّہ پر بیتی ستم ظریفی سن کر وہ لہجے میں دکھ لیے بولیں تھیں
” تمہاری تو ایک سال کی بچی بھی آزمائش سے گزر رہی ہے ۔۔ “
وہ مزید بولیں تو حُرّہ نے دعا کا مرجھایا سا چہرہ دیکھا
” مجھ بد نصیب کا سایہ میری بچی پر پڑ گیا ۔۔”
حُرّہ ، دعا کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ چومتی بولی
” ایسے مت کہو بیٹی۔۔ تم تو وہ خوش نصیب ہو جسے خدا نے آزمائش کے لیے چنا ہے ۔۔ جو لوگ دکھ میں ، اذیت میں ہوتے ہیں ہم لوگ انہیں بدنصیب تصور کرتے ہیں ۔۔ کہ دیکھو کتنا بدنصیب ہے کہ اس کے ساتھ یہ ہوا ۔۔ مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ خدا تو انہیں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جو اس کے قریب تر ہوتے ہیں ۔۔ جو اسے عزیز ہوتے ہیں ۔۔ سنا نہیں کے خدا بہترین سے نوازنے سے پہلے آپ کو بدترین سے گزارتا ہے ۔۔ مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔۔ تمہیں اور تمہاری بیٹی کو دیکھ کر تو مجھے اور میری بیٹی کو ہمت ملی ہے ۔۔ ورنہ ہم تو شکوے ہی کرتے تھے خدا سے ۔۔ اب تم بھی میری بیٹی ہو یہیں رہو گی اب تم ۔۔ “
فرحت بی بی اٹھ کر حُرّہ کے پاس آئیں اور اسے گلے لگا لیا
” ہاں دعا کے آنے سے تو ہمارے ویران گھر میں رونق آ گئی ہے ۔۔ “
تہمینہ بھی اٹھ کر دعا کے پاس آئی اور اسے پیار کرنے لگی
” دیکھا چھوٹی بی بی خدا ایسے وسیلے بناتا ہے ۔۔ کہ ہماری سوچ بھی وہاں تک نہیں جاتی ۔۔”
ناہید بھیگی آواز میں بولی تو حُرّہ نے اس کی بات پر نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور پھر سر ہلایا
وہ تیز تیز قدم بڑھاتا حویلی کے مردان خانے میں آیا تھا سیل فون ابھی بھی کان سے لگا تھا
” کہاں ہو تم ۔۔ ؟؟”
عالیان کے کال پک کرتے ہی عباس نے پوچھا تو عالیان جوکہ شام کے اس پہر سڑک کے کنارے گاڑی میں بیٹھا سگریٹ نوشی کر رہا تھا عباس کے پوچھنے پر سٹپٹا گیا
” مم میں بس آفس سے گھر جا رہا تھا ۔۔ “
عالیان نے بات گول مول کی
” ہممم ۔۔ تم نے کہا تھا کہ تم نورے کا رشتہ لے کر آنا چاہتے ہو ۔۔ ان سے شادی کرنا چاہتے ہو ۔۔ !”
عباس کی بھاری آواز فون سے ابھری تو عالیان اس کی بات سنتا سیدھا ہو بیٹھا
” ہہ ہاں ایسا ہی کہا تھا میں نے مگر تم نے کہا تھا کہ تم اپنے بابا سردار سے پہلے بات کرو گے اس بارے میں پھر جواب دو گے ۔۔ “
عالیان نے دل تھامے بات کی تصدیق کی
” ہاں میری بات ہو گئی ہے بابا سرکار سے ۔۔ ہمیں یہ رشتہ قبول ہے ۔۔ تم ایسا کرو انکل کے ساتھ حویلی آ جاؤ ہم آج ہی نکاح کرنا چاہتے ہیں ۔۔ رخصتی کچھ عرصے بعد کر لیں گے ۔۔ “
عباس نے جیسے اسے خوشی کی نوید سنائی تھی وہ اپنی جگہ منجمد رہ گیا تھا
” کیا ہوا ۔۔ چپ کیوں ہو گئے۔۔ ؟”
عالیان کی خاموشی محسوس کرتا وہ پوچھ رہا تھا
” نن نہیں ۔۔ کچھ نہیں ۔۔ یہ خبر سنانے پر عباس اگر تم اس وقت میرے سامنے ہوتے تو گلے لگا لیتا تمہیں ۔۔ “
عالیان کے لہجے سے ہی خوشی عیاں تھی عباس نے پرسکون ہوتے ہوئے کال کاٹ دی
اب سب سے بڑا مرحلہ نورے سے بات کرنا تھا وہ جانتا تھا اگر وہ نورے سے بات نہیں بھی کرے گا تب بھی وہ بےضرر سی لڑکی اس کے ایک بار کہنے پر نکاح کے لیے رضامند ہو جائے گی مگر کس دل سے راضی ہو گی وہ یہ بھی جانتا تھا
کچھ انتظام کرنے کے بعد وہ وہیں مردان خانے میں موجود کرسی پر بیٹھ گیا
” نورے بی بی کو کہو میں نے بلایا ہے انہیں ۔۔ “
پاس کھڑے ملازم کو حکم دیتا وہ موبائل سکرین پر نگاہیں جمائے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھ گیا
وہ کمرا بند کیے بیڈ پر لیٹی بلند آواز میں سسکیاں بھر رہی تھی جب دروازے پر دستک ہونے لگی اور ہوتی رہی تنگ آ کر نورے اٹھی اور دروازہ کھولا
” چلی جاؤ یہاں سے مجھے پریشان مت کرو ۔۔ “
سامنے کھڑی ملازمہ پر وہ چلائی تھی جبکہ ملازمہ اس کو روتا چیختا دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی
” و وہ بب بی بی جی ۔۔ سرداد نے آپ کو مردان خانے میں بلایا ہے ۔۔ “
وہ سر جھکائے بولی
” کک کون سے سرداد نے ۔۔ “
یکدم گھبرا کر نورے نے دریافت کیا
” چھوٹے سردار نے ۔۔ “
ملازمہ نے کہا اور اسے دیکھنے لگی جس کی آنکھیں ساکن ہو چکیں تھیں
” تم جاؤ ۔۔ مم میں آتی ہوں ۔۔ “
” بی بی جی چھوٹے سردار نے حکم دیا ہے ۔۔ آپ کو ساتھ لے کر آؤں ۔۔ “
ملازمہ مزید بولی تو نورے نے آنسو پونچھے اور سر پر دوپٹہ درست کرتی کمرے سے نکلی اس کے قدم دھیمے انداز میں آگے بڑھ رہے تھے مردان خانے میں داخل ہو کر سیدھا نگاہ عباس پر پڑی جو موبائل پر کسی سے بات کرنے پر مصروف تھا اسے دیکھ کر کال کاٹ کر اٹھ کھڑا ہوا
” آپ سے ایک بات کرنی ہے نورے ۔۔ امید ہے آپ بہتر فیصلہ کریں گی ۔۔ پہلے ہی کہہ دوں کہ آپ کی مرضی میرے لیے بہت اہم ہے ۔۔ “
نورے کی نم آنکھوں سے نگاہیں چرائے وہ اپنے مخصوص دھیمے انداز میں بول رہا تھا جبکہ نورے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی
” آپ سب طے کر تو چکے ہیں ۔۔ پھر بات کرنے کو کیا رہ گیا چھوٹے سردار ۔۔ ؟”
نورے کے لہجے میں طنز کی آمیزش تھی عباس نے لب بھینچے بےشک وہ نورے پر کوئی بھی فیصلہ مسلط نہیں کرنا چاہتا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ اسے ایسا کرنا پڑ رہا تھا
” آپ سب سن چکی ہیں نورے ۔۔ مگر پھر بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں ۔۔ کہ آج عشاء کے بعد ہم نے نکاح رکھا ہے آپ کا ۔۔ ایک جاننے والے ہیں ۔۔ یقیناً ہمارا یہ فیصلہ غلط نہیں ہو گا ۔۔ “
عباس دھیمے انداز میں بولتا رخ دوسری جانب کر چکا تھا جبکہ اس کی بات سن کر کئی پل نورے اپنی جگہ ساکت کھڑی رہی تھی پھر تلخ سا مسکرائی
” بہت خوب سردار ۔۔ اپنے سر سے بوجھ اتارنے کا بہترین راستہ چنا ہے آپ نے ۔۔ مجھے کسی کے کھونٹے سے باندھنے کا ۔۔ “
وہ لہجے میں تلخی لیے بولی تھی
” آپ کسی پر بھی بوجھ نہیں ہیں نورے ۔۔ آپ کا اس حویلی پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ میرا ۔۔ “
نورے کے تلخ انداز پر بھی عباس کا مخصوص نرم انداز قائم تھا
” ہرگز نہیں چھوٹے سردار ۔۔ میرا کیا مقابلہ آپ سے ۔۔ آپ سردار شیر دل کے اکلوتے وارث ہیں ۔۔ یعنی گاؤں اور حویلی کے سرداد ۔۔ اور میں ۔۔ مم میں تو اس حویلی کی وہ بیٹی ہوں ۔۔ جسے خاندانی اصولوں اور عزت کی خاطر قربان کر دیا جانا کوئی بڑی بات نہیں ۔۔ “
نورے مزید تلخ ہوئی تھی کس قدر تکلیف دہ تھا اس کے لیے کسی اور کے ساتھ اپنا نام جوڑنا
” ایسا ہرگز نہیں ہے ۔۔ ٹھیک ہے اگر آپ رضامند نہیں ہیں اس نکاح پہ تو ٹھیک ہے یہ نکاح نہیں ہو گا ۔۔ “
عباس کے کہنے پر نورے کی آنکھوں میں نمی اتری تھی
” ہماری کیا مجال چھوٹے سردار کہ آپ کے فیصلے سے بغاوت کریں ۔۔ “
پلکیں جھپکائے وہ آنسوؤں کو بہنے سے روکتی بولی
” زندگی آپ کی ہے ۔۔ فیصلہ بھی آپ کا ہو گا ۔۔ آپ اگر نہیں چاہتی ایسا تو ٹھیک ہے نہیں ہو گا ۔۔ “
نورے کی آنکھوں میں چمکتے موتی دیکھ وہ نگاہیں جھکا کر بولا تھا
” ہم تیار ہیں نکاح کے لیے ۔۔ “
عباس کے جھکے سر کو دیکھتی وہ لمحے بعد بولی
“کسی قسم کا جبر نہیں کیا جائے گا آپ کے ساتھ ۔۔ آپ سوچ سمجھ لیں ہم نکاح کسی اور دن رکھ لیں گے ۔۔”
نورے کے اچانک بولنے پر عباس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو نورے نے اپنا رخ موڑ لیا
” اگر آپ بڑے سردار کو کہہ چکے ہیں کہ آج ہی نکاح ہوگا میرا تو ۔۔ پھر یہ بات کہنے کا کیا فائدہ ۔۔ جبکہ میں جانتی ہوں ۔۔ سرداد اپنی زبان سے نہیں پھرتا ۔۔ “
نورے طنزیہ انداز میں بولی تھی
” کسی کے احساسات سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوتا ۔۔ اگر آپ رضامند نہیں ہیں تو میں زبردستی نہیں کر سکتا آپ کے ساتھ ۔۔ “
نورے کے رخ موڑنے پر عباس بے چین ہوا تھا فوراً کہتا ہوا نورے کو منتظر نگاہوں سے دیکھنے لگا
” میں ایک شرط پر نکاح کے لیے راضی ہوں گی ۔۔ “
وہ ہنوز اسی طرح کھڑی گویا ہوئی آواز بھیگی ہوئی تھی
” جی کہیے ۔۔ “
” آج ہی رخصت ہونا چاہتی ہوں ۔۔ “
چند لمحوں بعد جب وہ بولی تو عباس کو منجمد کر گئی
” نن نورے ۔۔ “
” اگر آج نہیں تو کبھی نہیں ۔۔ “
وہ کہتی ہوئی بھاگتے ہوئے آگے بڑھ گئی
” یا اللہ میری مدد کر ۔۔ “
طویل سانس لیتا وہ حویلی کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا
//////////////////////////
کپکپاتے ہاتھوں اور لرزتے دل سے اس نے نکاح نامے پر دستخط کرنے کے لیے قلم پکڑا وہ نہیں جانتی تھی کہ جسے اپنی زندگی سونپ دی وہ کون ہے کیسا ہے کیا وہ جانتا ہے کہ اس کی بیوی کسی کو پہلے سے دل میں بسائے ہوئے تھی مگر نورے نے بہتے آنسوؤں کو سختی سے پونچھا
” خدا کو حاضر ناظر جان کر آج میں یہ نکاح کرتی ہوں ۔۔ خدا شاہد رہنا آج میں نے عباس نامی شخص سے صرف تیری رضا کی خاطر ہر دلی تعلق منقطع کر لیا ۔۔ تو مجھے اس مقام تک لایا کہ میں جان گئی محبت صرف تیری ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی ۔۔ کسی نامحرم کو دل میں بسانا میری غلطی تھی ۔۔ میرے مالک میں معافی مانگتی ہوں تجھ سے ۔۔ “
دل میں خالق سے مخاطب وہ نکاح نامے پر دستخط کر چکی تھی اور سرد آہ بھرتی آنکھیں میچ گئی
پاس کھڑی ناعمہ بی بی ساکن نگاہوں سے اسے دیکھ رہیں تھیں سفید سادے جوڑے میں سرخ دوپٹہ اوڑھے شفاف چہرہ کسی بھی آرائش و آسائش کے بغیر وہ کتنی سادہ دلہن تھی جس کی آنکھیں اس کے اندر چلتے طوفان کا پتہ دے رہیں تھیں کیا سوچا تھا انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے اور کیا ہو گیا تھا کس حد تک چلی گئیں تھیں وہ اپنی بیٹی کی خوشیوں کی خاطر کہ کسی بے قصور کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کر چکیں تھیں عباس تو ان کی بیٹی کا پھر بھی نہ ہو سکا تھا جانے سردار شیر دل اور سردار بی بی کیوں خاموش تھے انہیں بھی تو عباس نے سرسری سا بتایا تھا کہ نورے کا نکاح کر کے اسے شہر کے لیے رخصت کر رہے ہیں اب سرداروں کے فیصلے کے آگے بولنے کی جرات وہ کہاں کر سکتیں تھیں
مگر ان کا دل عجیب گھٹن کا شکار ہو رہا تھا جیسے حُرّہ کے آنسو ، اس کی آہیں ان کا سانس روک دیں گیں نورے کو مبارک باد دینے کے بجائے انہوں نے باہر کی راہ لی
جبکہ سردار شیر دل نے آگے بڑھ کر نورے کے سر پر ہاتھ رکھا تھا ان کے بیٹے نے خاندان سے بغاوت کر کے یہ فیصلہ کیا تھا مگر وہ بیٹے کی دل دہلا دینے والی بات سے ڈر گئے تھے ایک واحد عباس کا سہارا ہی تو تھا انہیں اگر وہ کچھ لیتا خود کو تو کس سے شکوہ کرتے وہ جانتے تھے کہ عباس پہلے ہی اپنی بیوی اور بیٹی کی وجہ سے پریشان تھا جذبات میں آ کر کہیں کچھ غلط ہی نہ کر لے اسی لیے خاموشی سے عباس کا فیصلہ مان لیا بغیر کچھ کہے وہ بھی کمرے سے نکل گئے
جبکہ سردار بی بی خود بھی صدمے میں تھیں بچپن سے انہوں نے نورے کو اپنی بہو بنانے کے خواب دیکھے تھے مگر انسان کے چاہنے نا چاہنے سے کیا ہوتا ہے جو خالق نے جس کے نصیب میں لکھ دیا ہو اسے وہی ملتا ہے پھر انسان کتنی ہی سازشیں ، مکاریاں کرتا رہے اسے حاصل کرنے کے لیے جو اس کی تقدیر میں ہوتا ہی نہیں وہ کبھی بھی نہیں ملتا نورے کو دیکھتی سردار بی بی وہیں کرسی کا سہارا لیے بیٹھ گئیں تھیں
” تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے “
( التکویر 29 )
/////////////////////////
نورے کی شرط کے مطابق وہ نکاح کے بعد اسے رخصت بھی کر چکا تھا مگر دل کو یہ بات اذیت دے رہی تھی کہ نورے کے جذبات کو کسی نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی آج بھی اچانک اسے نئے بندھن میں باندھ کر اس نے پھر نورے کے ساتھ بظاہر زیادتی کی مگر وہ جانتا تھا عالیان ، نورے کے دل کو اپنی محبت سے جیت لے گا عالیان میں آتے بدلاؤ کو وہ نوٹ کر چکا تھا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ بدلاؤ نورے کی محبت میں آیا ہے
” حُرّہ کہاں ہیں آپ ۔۔ ؟؟ آئی مس یو جانم ۔۔ دعا کیسے رہتی ہو گی ۔۔ کہاں ہیں آپ دونوں ۔۔ پتہ ہے کتنا انتظار کرتا ہوں آپ دونوں کا ۔۔ آپ دونوں زندگی ہیں میری ۔۔ کیوں دور چلی گئیں ہیں مجھ سے ۔۔ کیا میں اچھا شوہر نہیں ہوں آپ کا ۔۔ کیوں حُرّہ کیوں نہیں مل رہیں آپ مجھے ۔۔ میرے خدا میری بیوی اور بیٹی کی حفاظت کرنا ۔۔ میں نے انہیں تیری ضمانت میں دیا ۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔ میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ وہ دونوں ٹھیک ہیں کیونکہ میرا دل اپنی رفتار پر چل رہا ہے ۔۔ آپ دونوں میری دھڑکن ہیں ۔۔ “
موبائل کی سکرین پر جگمگاتی کھلکھلاتی حُرّہ اور دعا کی تصویر کو چھوتے ہوئے وہ تخیر میں ان سے مخاطب تھا
” جانم آ جائیں نا ۔۔ اب تو سارے وسوسے دور ہو گئے ۔۔ اب تو کوئی گلٹ نہیں رہا کہ نورے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔۔ نہیں رہا جاتا آپ کے اور دعا کے بغیر ۔۔ پلیز آ جائیں ۔۔ پلیز جانم ۔۔ “
جذبات سے چور انداز میں بولے ہوئے وہ آنکھیں میچ گیا
//////////////////////////
” آج کہاں گئی تھی حُرّہ تم ۔۔ ؟؟”
وہ ابھی کمرے میں داخل ہی ہوئی تھی کہ تہمینہ جو کہ دعا کو گود میں لیے بیٹھی تھی اسے دیکھتے ہی مخاطب کیا
” نوکری تلاش کرنے گئی تھی ۔۔ “
دوسری چارپائی پر بیٹھتے ہوئے حُرّہ نے عام سے انداز میں جواب دیا
” ہم نے تمہیں منع بھی کیا تھا ۔۔ دعا ابھی چھوٹی ہے ۔۔ ایسے میں تم بچی کو چھوڑ کر نوکری کرو گی ۔۔ ؟؟ ہم ہیں نا ۔۔ اپنا بھی تو گزارا کرتے ہیں نا سلائی کر کے تمہاری روٹی کیا بھاری ہے ہم پہ ۔۔ “
خفگی سے کہتی ہوئی وہ حُرّہ کو بلکل بڑی بہن لگی تھی
” دعا کا مسئلہ نہیں ہے وہ تو آپ سب کے پاس رہ لیتی ہے ۔۔ اب کافی بہتر ہو گئی ہے شکر ہے ۔۔ لیکن میں ایسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے تو نہیں بیٹھ سکتی ۔۔ اگر آپ لوگوں کا ہاتھ بٹا دوں گی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا میری شان میں ۔۔ “
حُرّہ نے بھی اس کو اسی کے انداز میں پچکارا تھا چند دن میں ہی فرحت بی اور تہمینہ کے اچھے اخلاق اور ہمدرد طبیعت نے انہیں آپس میں مانوس کر دیا تھا
” تو پھر کیا بنا نوکری کا ۔۔ ؟”
تہمینہ اندازہ لگا چکی تھی کہ حُرّہ خود دار لڑکی ہے وہ اپنے اخراجات کے لیے ان سے پیسہ نہیں لے گی اس لیے بات بدلتے ہوئے پوچھنے لگی
” ڈوکیومینٹس نہیں ہیں میرے پاس ۔۔ سب کچھ گاؤں میں ہے ۔۔ ظاہر ہے نوکری ملنا اس طرح مشکل ہے ۔۔ مگر ایک سکول میں گئی تھی میں ۔۔ انہوں نے کہا ایک ہفتہ دیکھیں گے پھر بتائیں گے ۔۔تو کل سے جاؤں گی پھر ۔۔ “
تفصیلاً بتاتے ہوئے حُرّہ چارپائی پر چٹ لیٹ گئی مگر اس کی باتوں کی آواز سن کر دعا نے ماں کے پاس جانے کے لیے شور مچا دیا تو تہمینہ اسے لیے حُرّہ کے پاس آئی اور اس کے برابر لٹا دیا
” دیکھو تو ماں کے پاس آ کر کیسے خوش ہو گئی ہے ۔۔ “
دعا کو کھلکھلاتے دیکھ کر تہمینہ مسکراتے ہوئے بولی اور کمرے سے چلی گئی جبکہ حُرّہ نے دعا کو اپنے سینے میں بھینچ لیا کتنی مشکل سے دعا سنبھلی تھی ورنہ کتنا یاد کرتی تھی وہ باپ کو کہ رو رو کر کئی روز بیمار رہی تھی
” میری گڑیا بھی بابا کو مس کرتی ہے نا ۔۔ بس ماما کی طرح آپ نے بھی صبر کر لیا ہے ۔۔ “
دعا کے ننھے ننھے ہاتھوں کو چومتے ہوئے وہ بول رہی تھی
” بابا بھی مس کرتے ہوں گے۔۔ لیکن ہمیں ان کے لیے ہمیشہ دعا کرنی ہے کہ خدا ان کو خوش رکھیں ۔۔ ان کی حفاظت کریں ۔۔ “
عباس کو عقیدت سے یاد کرتے ہوئے وہ دعا کے ساتھ ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے وہ اس کی باتیں سمجھ رہی ہے وہ ایسے ہی عباس کی باتیں دعا سے کرتی تھی آگے سے دعا کھلکھلاتی تھی
” جن ماؤں کی آزمائشیں زیادہ ہوتی ہیں نا دعا ۔۔ ان کی بیٹیوں کے نصیب بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔!! مگر کہتے ہیں دعائیں تقدیریں بھی بدل دیتی ہیں ۔۔ اور ماں کی دعائیں تو عرش ہلا دیتی ہیں ۔۔ !! خدا کرے تمہارے نصیب بہت اچھے ہوں ۔۔ “
دعا کے بالوں کو سہلاتے ہوئے وہ بولی تو ایک آنسو پلکوں کی باڑ سے جھلک کر بالوں میں جذب ہو گیا
” میرے مالک کیا امتحان محض ہمارے لیے ہیں ۔۔ جو اتنا برا کرتے ہیں دوسروں کے لیے وہ تو اپنی زندگی میں مگن ہیں ۔۔ میں اور میری بچی ۔۔ !!”
بولتے ہوئے وہ سسک اٹھی تھی کہ بات مکمل نہ کر سکی پھر خود کو مضبوط کرتے ہوئے اس نے آنسو پونچھے
” میرے مالک ہر حال میں تیرا شکر ۔۔ “
طویل سانس لیتے ہوئے وہ بولی
” آپ کا صبر کسی کے لیے بددعا ہی ہوتا ہے ۔۔ وقت آنے پر ہر انسان اپنے کیے کا پا لیتا ہے ۔۔
صبر کرنا یا نا کرنا آپ کے اختیار میں ہے ۔۔
معاف کر دینا آپ کے اجر کو بڑھا دیتا ہے اور اس معافی کے بدلے میں ہو سکتا ہے کوئی انعام خالق نے آپ کے لیے رکھا ہو ۔۔
مگر بدلا لینے کا حق بھی آپ کو ہے ۔۔ لیکن اگر آپ صبر کر رہے ہیں تو بےشک وہ زیادہ افضل ہے ۔۔
کسی بھی صابر انسان سے ززیادہ بہادر کون ہو سکتا ہے ۔۔ صبر بذدل انسان کر ہی نہیں سکتا ۔۔ صبر تو بہادر لوگ کرتے ہیں ۔۔ جو خالق کی رضا میں راضی رہنا جانتے ہیں ۔۔
اپنے صبر پر پچھتائیں مت بس خدا پر چھوڑ دیں ۔۔
بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔۔ “
یہ سب سوچتے ہوئے اس کے دل میں سکون اترا
//////////////////////
گاڑی میں مکمل خاموشی تھی وہ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر اس کی بیوی کی حیثیت سے براجمان تھی خواب ایسے بھی پورے ہوتے ہیں عالیان نے سوچا بھی نہیں تھا سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ اسے سب خواب لگ رہا تھا کہ ابھی آنکھ کھلے گی اور منظر بدل جائے گا مگر یہ حقیقت تھی وہ بہت خوش تھا کہ وہ لڑکی جسے اس نے چاہا وہ آج اسے زندگی میں شامل کر چکا تھا
گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے وہ وقتاً فوقتاً نگاہ نورے پر بھی ڈال لیتا تھا جو گاڑی کے دروازے کے ساتھ چپک کر سر جھکائے بیٹھی تھی دوسری جانب نورے بے حس و حرکت بیٹھی تھی اس کی سوچیں بلکل مفلوج ہو چکیں تھیں اس نے ایک نظر عالیان کو دیکھا تھا وہ پہچان گئی تھی اسے کہ وہ عباس کا دوست ہے مگر کسی طرح کی بات ابھی تک ان دونوں کے درمیان نہیں ہوئی تھی
طویل سفر کے بعد گاڑی ایک خوبصورت بنگلے میں داخل ہوئی عالیان گاڑی سے نکل کر نورے کی جانب آیا اور دروازہ کھول کر ہاتھ بڑھایا نورے ساکن نگاہوں سے اس کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جو اسے منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا
گود میں رکھا کپکپاتا ہاتھ عالیان کے ہاتھ پر رکھا ایک دلکش مسکراہٹ نے اس پل عالیان کے لبوں کو چھوا
عالیان کی تقلید میں وہ گھر میں داخل ہوئی سامنے عالیان کے ڈیڈ سوٹ بوٹ پہنے ان سے پہلے گھر پہنچ چکے تھے
” ویک کم میرے بچوں ۔۔ “
نورے کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے وہ خوش دلی سے بولے
” ڈیڈ ۔۔ !”
ان کو پکارتا عالیان آگے بڑھ کر ان کے سینے سے لگ گیا
” جانتے ہو آج تم نے خوش کر دیا مجھے ۔۔ زندگی کا سب سے اچھا فیصلہ کیا ہے تم نے ۔۔ ویل ڈن مائی سن ۔۔ ایسی ہی خاندانی لڑکی کو تمہاری زندگی میں چاہتا تھا میں ۔۔ “
بلند آواز میں بولتے ہوئے انہوں نے عالیان کی پیٹھ تھپکی جبکہ پاس سر جھکائے کھڑی نورے نے عالیان کے ہاتھ میں مقید اپنے ہاتھ کو کھینچنے کی کوشش کی مگر عالیان نے گرفت مزید مضبوط کر لی
” چلو اب بہو کو روم میں لے چلو ۔۔”
ان کے حکمیہ انداز میں کہنے پر عالیان نے سر ہلایا اور نورے کا ہاتھ تھامے اپنے کمرے کی جانب بڑھا
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے جب وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو ان کا استقبال گلاب کی مہک نے کیا خوبصورت سجاوٹ کو دیکھ کر دونوں نفوس کے دل تیزی سے دھڑکے مڑ کر دروازہ بند کرکے وہ نورے کے قریب ہوا تو اس کی آنکھوں میں جذبات کی چمک دیکھ کر نورے کا ہاتھ جو کہ عالیان کے ہاتھ میں مقیم تھا کپکپا گیا
” جانتی ہو اس پل کا بہت انتظار کیا ہے میں نے ۔۔ !”
خمار آلودہ انداز میں کہتا وہ نورے کی کمر میں بازو حمائل کر چکا تھا جبکہ نورے کا لرزتا وجود اسے مزید بہکا رہا تھا جبکہ نورے بری طرح لرز رہی تھی
” بہت خوبصورت ہو تم ۔۔ بلکل اپنے نام کی طرح ۔۔ !”
اس کے لرزتے لبوں پر جھکتا وہ بوجھل انداز میں بولا
” پلیز اب یہ آنسو تمہاری آنکھوں میں نہ دیکھوں نورے ۔۔ “
لبوں کے بعد وہ اس کی بند آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو چنتا ہوا نہایت نرمی سے گویا ہوا اور رک کر اس کا سرخ چہرہ دیکھنے لگا
” میں جانتا ہوں سب بہت جلدی میں ہوا ۔۔ تمہارے لیے مشکل ہے سب کچھ قبول کرنا ۔۔ لیکن کوشش ہم دونوں کو کرنی ہے تاکہ ہم ایک کامیاب زندگی گزار سکیں ۔۔ ! “
نورے کے بالوں کو کان سے پیچھے کرتے ہوئے وہ گویا ہوا جبکہ نورے اس کی جسارتوں پر بے حال ہو رہی تھی نگاہیں اٹھانا اس کے لیے محال تھا بلاشبہ سامنے کھڑا شخص اس کے حواسوں پر سوار ہو رہا تھا
” لیکن نئی زندگی کو شروع کرنے کے نام پر میں تم پر کسی قسم کی زبردستی نہیں کروں گا ۔۔ “
سنجیدہ انداز میں کہتا وہ نورے سے جدا ہو چکا تھا جبکہ اس کے پیچھے ہونے پر نورے نے اسے چونک کر دیکھا بےشک وہ اسے سمجھنے سے قاصر تھی
” تم ریسٹ کرو ۔۔ گڈ نائٹ ۔۔ “
مسکرا کر کہتے ہوئے وہ کوٹ کو اتارتا ٹیرس کی جانب بڑھ گیا جبکہ نورے منجمد وہیں کھڑی رہ گئی
1 Comment
Add a Comment