Main Hun Badnaseeb Part 10 – Best Urdu Romantic Novel with Emotional Twist & Love Story

Read ‘Main Hun Badnaseeb Part 10,’ the best Urdu romantic novel filled with deep emotions, twists, and a captivating love story. Follow the journey of heartbreak, love, and fate in this unforgettable romantic saga. Don’t miss out on the emotional rollercoaster!

Main Hun Badnaseeb

Best Urdu romantic novel Main Hun Badnaseeb Part 10

Read here Main Hun Badnaseeb Part 9

آپ کا ایک کمنٹ ہماری حوصلہ آفزائی کرتا ہے تو پلیز کمنٹ ضرور کیا کریں تاکی آنے والے نئے یوزر کو پتا چلے کہ سٹوری اچھی ہے یا نہیں

Heartbreaking love story Urdu novel Main Hun Badnaseeb

” چلیں بولیں ۔۔!”

بمشکل اپنے ابھرتے جذبات کو قابو کرتے ہوئے حُرہ سے جدا ہوتے ہوئے عباس نے اب اس کے شرم وحیا کے باعث ہوئے سرخ چہرے اور لرزتے وجود کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے دوبارہ بات کو

وہیں سے شروع کیا

لک کیا ۔ ۔ ؟”

حُرہ کا تنفس جب بہتر ہوا تو اس نے مدھم آواز میں پوچھا

“کچھ بھی ۔۔؟”

عباس نے ابنارمل انداز میں پوچھا کہ حُرہ نے اب ناسمجھی سے اسے دیکھا

اچھا یہ بتائیں کہ آپ کی فیملی میں کون کون ہے ۔ ۔ ؟”

وہ حُرہ کو بولنے پر اکسا رہا تھا جبکہ اس کا سوال سن کر حُرہ کے مسکراتے لب سکڑے

 ہم ماں تھیں ۔ ۔

آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے وہ بمشکل بولی دل میں یہ درد ہمیشہ رہنا تھا کہ وہ اپنی ماں کو

آخری مرتبہ نہ دیکھ سکی

تھیں؟

عباس نے نا سمجھی سے پوچھا

اب نہیں رہیں ۔ ۔ حُرہ بتاتے ہوئے رونے لگی تو عباس نے لب بھینچتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگالیا مہر بان پاتے

ہی وہ مزید بکھر گئی مزید شدت سے رونے لگی

آپ صبر کریں حُرہ ۔ اور

ایم سوری ۔ مجھے نہیں معلوم تھے ان کے لیے دعا کریں ۔۔

پلیز صبر کریں ۔ ۔

وہ لہجےمیں درد لیے بول رہا تھا یہی تو حسرت تھی حُرہ کی کہ کسی نے اس سے افسوس کرنا تو دور صبر کی دعا تک نہیں دی تھی اب عباس کا مہربان لمس پاتے ہی اس کے رونے میں شدت آگئی تھی عباس نے اسے رونے دیا کافی دیر بعد جب وہ کچھ سنبھلی تو عباس نے اس کی جانب پانی کا گلاس بڑھا یا حُرہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے چند قطرے پانی کے پیئے اس سے پہلے ہی عباس مزید کچھ بولتا دروازے پر دستک ہوئی تو وہ حُرہ کے ہاتھ سے گلاس لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتا دروازے کی جانب بڑھا۔

” صاحب یہ ۔ ۔ “

عباس کے دروازہ کھولتے ہی ناہید نے چند شاپر اس کی جانب بڑھائے

” اور کوئی حکم سر کار ۔ ۔ ؟”

ناہید نے مؤدب انداز میں پوچھا

” نہیں ۔ ۔ جاؤ ۔ ۔

نفی میں سر بلا کر عباس نے شاپر حرہ کی جانب بڑھائے جبکہ ناہید دروازہ بند کر کے جاچکی تھی

“جانم پہلےآپ فریش ہوجائیں ۔ پر ڈنر کے لیے جائیں گے ۔

شا پر حرہ کی جانب بڑھاتے ہوئے عباس نے کہا تو حرہ نے فوراً اس کی بات کی تکمیل کی

رات کے کھانے کے وقت وہ دونوں ایک ساتھ ڈائٹنگ ہال میں داخل ہوئے سردار شیر دل اور سردار بی بی کی موجودگی میں حرہ سہم کرو ہیں دروازے پر رک گئی جب عباس نے اس کی سہمی ہوئی۔

آنکھوں میں دیکھا اور حرہ کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے ساتھ کا احساس دلایا حرہ نے عباس کے مسکراتے چہرے کی جانب دیکھا جہاں اسے عباس کا نرم لمس اسے اعتماد بخش رہا تھا حرہ عباس کے ساتھ قدم قدم چلتی کرسیوں کی جانب بڑھ رہی تھی عباس نے اپنے ساتھ والی کرسی پر پہلے حرہ کو بیٹا یا پھر خود بھی اپنی کرسی پر براجمان ہو گیا جبکہ سردار بی بی خونخوار نگاہوں سے حرہ کو دیکھ

رہیں تھیں مگر سردار شیر دل نے انہیں نظر انداز کیا ہوا تھا

ناعمہ بی بی اور نور ے بی بی کو بھی بلوا لو ۔ ۔ ! سر دار شیر دل نے ناہید کو دیکھتے ہوئے کہا

سر کار پیغام بھجوایا تھا مگر ۔ ۔ انہوں نے منع کر دیا ۔ ۔ کھانا ان کے کمرے میں بھیج دیا ہے ۔ ۔  ناہید نے سر جھکائے کہا تو عباس نے لب بھینچ لیے جبکہ سردار شیر دل نے عباس کی جانب متلاشی نگاہوں سے دیکھا جیسے عباس کے تاثرات جانچنے چاہ رہے ہوں مگر عباس اب مصروف ساحرہ کی

پلیٹ میں کھانا نکال رہا تھا

با با سر کار میں چاہتا ہوں ایک چھوٹی سی تقریب ہو جائے تاکہ حرہ کو میں اپنی بیوی کے طور سے متعارف کروا دوں ۔ ۔ جس کو نہیں بھی معلوم اسے بھی معلوم ہو جائے کہ حرہ کی میری زندگی میں کیا حیثیت ہے ۔

کھانا کھانے کے دوران عباس نے سردار شیر دل کو مخاطب کیا جبکہ اس کی بات سن کر سر دار بی بی اور سر دار شیر دل چونک گئے

بہت ہو گیا عباس ۔ ۔ اب کیا ہم اس دو کوڑی کی لڑکی کو اپنے سروں پر بیٹھا دیں ۔ ۔ لوگ کیا کہیں گے کہ اس خون بہا میں آئی وفی کو سر داروں نے بہو مان لیا ۔ ۔ ؟”

سردار بی بی عباس کی بات سن کر سیخ پا ہو ئیں تھیں اور لہجے میں نفرت لیے پھنکاریں

آپ کو معلوم ہے ماں جی لوگ پیٹھ پیچھے کیا کہتے ہیں ۔ ۔ مجھ سے بہتر جانتی ہوں گی آپ تو ۔ ۔ لوگ کہتے ہیں سر دار اتنے ظالم ہیں کہ بے قصور لڑکی کو ظلم کرنے کی خاطر لے گئے ہیں ۔ ۔ ہاں اگر ہم حُرہ کو اس کا حق دیں اور اس کا مقام دیں تو یہی لوگ کہیں گے کہ سر دار کتنے انصاف پسند ہیں ۔ ۔ سزا قا تل کودے رہے ہیں نا کہ لڑکی کو۔

عباس بحث کرنا نہیں چاہتا تھا اسی لیے اپنے ماں اور باپ کو انہیں کے انداز میں سمجھا رہا تھا جبکہ اس کی

بات سن کر سردار شیر دل نے اثبات میں سر ہلایا

عباس بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ۔  سردار بی بی کی جانب سخت نگاہوں سے دیکھتے وہ انہیں مزید کچھ نہ کہنے یہ تنبیہ کر رہے تھے ۔۔۔

ٹھیک ہے میں سارے انتظام کروا دیتا ہوں ۔ ۔ “

سردار بی بی کے مزید کچھ بولنے سے پہلے ہی سردار شیر دل پھر سے عباس سے ہمکلام ہوئے

” جی با با سر کار ۔ ۔ “

عباس نے ہلکا سا مسکرا کر حُرہ کو دیکھتے ہوئے کہا جو سر جھکائے بیٹھی بظاہر لا تعلق بنی بیٹھی تھی مگر

سب کی گفتگو بہت غور سے سن رہی تھی۔۔۔۔

وہ رات سے جانے کہاں مصروف تھا حُرہ کل رات سے اس کا انتظار کرتی رہی تھی ابھی اسے عباس کو ایک بہت بڑی خبر دینی تھی عباس کے اس قدر اچھے رویے کے بعد حُرہ نے اسے جلد ہی اپنے امید سے ہونے کا ارادہ کیا مگر پھر دوپہر میں ایک لڑکی غالبا وہ بیوٹیشن تھی جو بمع ایک قیمتی جوڑا اور جیولری

ناہید کے ہمراہ حاضر ہوئی

“بی بی جی انہیں سرکار نے بھیجا ہے ۔

حُرہ نے سوالیہ نگاہوں سے ناہید کو دیکھا تو وہ مؤدب سی بولی اور ساتھ ہی ایک چٹ حُرہ کی جانب بڑھائی جسے تھام کر حُرہ نے کھولا۔

یہ سب میں نے خود پسند کیا ہے آپ کے لیے ۔۔ اصل میں پہلی بار کسی لڑکی کے لیے شاپنگ کی ہے تو پتہ نہیں آپ کو پسند آتے ہیں یا نہیں ۔ ۔ میری طرف سے میری جانم کے لیے چھوٹا سا گفٹ ۔ ۔ تحریر کے نیچے عباس کا نام لکھا تھا جبکہ تحریر پڑھتے ہوئے بے ساختہ حُرہ کے لبوں کو دلکش مسکراہٹ

نے چھوا تھا

تمام مہمان  آچکے تھے عباس خود عالیان اور احمد کے ساتھ چہرے سے مسکراہٹ سجائے کھڑا تھا جس وقت اس نے اچانک عالیان اور احمد کو اپنی شادی کا سرسری سا بتایا اور ولیمے کی تقریب کی دعوت

دی تو وہ دونوں تو شاک  میں آگئے تھے

ا بھی بھی نہ بتاتا ۔ ۔ ایک دو بچے پیدا کر کے پھر ڈبل نیوز دے دیتا کہ تم لوگ چاچو بھی بن گئے ۔ ۔  عالیان جب سے آیا تھا عباس کو ایسی ہی جلی کٹی سنا رہا تھا جب کہ اس کی بات سن کر عباس اور احمد کا جاندار قہقہہ فضاء میں بلند ہوا۔۔

یار بس کراب ۔ ۔ شکر کر ہمارے دوست کے چہرے پر شادی کے بعد مسکراہٹ تو آئی ہے ۔۔

ہمیں اور کیا چاہیے ۔ ۔ “

احمد نے عالیان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر عباس کے مسکراتے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا

اچھا اب سمجھ آئی کہ تو اتنا خوش خوش کیوں رہنے لگا تھا ۔ ۔ ہماری بھا بھی کے بارے میں سوچ کر

مسکراتا رہتا تھا ہے نا ۔ ۔ ؟؟

عالیان جا نچتی نگاہوں سے عباس کو دیکھتے پوچھنے لگا تھا

” ہاں یہی بات ہے ۔ ۔ “

عباس نے مسکراتے ہوئے کہا تو احمد اور عالیان نے داد دیتی نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا

بھئی ہمیں تو بس تیری خوشی چاہیے ۔ ۔ شکر ہے بھائی ۔۔

 عالیان اس بار عباس کے گلے لگ کر خوش دلی سے بولا

لو بھا بھی بھی آگئیں ۔ ۔

احمد نے دلہن کو دور سے آتے دیکھا تو ان دونوں کو بھی متوجہ کیا۔

یچ کلر کی نفیس کام سے آراستہ میکسی پہنے ہلکے میک اپ سمیت حُرہ کا نازک سا وجود جیسے کھل گیا تھا جب عباس کی نگاہیں اس پر پڑیں تو پلٹنا ہی بھول گئیں وہ مبہوت ساحُرہ  کو دیکھ رہا تھا جبکہ حُرہ نے بھی اپنے سامنے کھڑے عباس کو دیکھا جو بلیک تھری پیس میں اپنی پوری وجاہت کے ساتھ کھڑا اس کا

ہاتھ تھا منے کو آگے بڑھ رہا تھا۔

” یولُکس سٹنگ جانم –!”

حُرہ کے کان میں سر گوشی نما انداز میں کہتے ہوئے عباس نے اس کا کپکپاتا  ہاتھ اپنی محبت بھری گرفت میں نرمی سے لے لیا جبکہ عباس کے تعریفی الفاظ سن کر حُرہ نگاہیں جھکائے سر شار ہو گئی

” یہ باتیں واتیں بعد میں کرنا ۔ ۔ پہلے ہمیں اپنی بھا بھی سے ملنے دو ۔ ۔

عباس کو چھیڑنے کے انداز میں عالیان نے کہا تو عباس نے اسے گھوراجبکہ حُرہ نے ذراسی نگاہیں اٹھا

کر عالیان کو دیکھا

 السلام علیکم بھا بھی ۔ ۔

احمد نے احترام سے حُرہ کو دیکھ کر سلام کیا اور پھر عالیان نے بھی سر کو خم دیتے ہوئے حُرہ کو سلام کیا جس کا جواب حُرہ نے سر کو ہلا کر دیا۔

بھا بھی ابھی تو میں نے آپ کو آپ کے شوہر کے بہت سے راز بتانے ہیں ۔ ۔ بتانا ہے کہ کیا چیز ہے آپ کا شوہر کتنی لڑکیاں اس کے پیچھے ہیں ۔ ۔ اس پر خاص نظر رکھنی ہے آپ نے ۔ ۔ ” عالیان ، احمد کو آنکھ مارتا شوخ انداز حُرہ سے کہہ رہا تھا جبکہ اس کی بات سن کر حُرہ کے مسکراتے لب سکڑ گئے اسے بے ساختہ نورے کا خیال آیا عباس نے بغور حُرہ کا اترا چہرہ دیکھا

حُرہ یہ مذاق کر رہا ہے ۔ ۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ۔

 خرہ کی نم آنکھوں کو دیکھتے ہوئے عباس نے فورا کہا تو حُرہ نے ڈگمگائی ہوئی آنکھوں سے عباس کو

دیکھا۔

میں بلکل مذاق نہیں کر رہا سردار صاحب ۔ ۔ میں بلکل سیریس ہوں ۔ عالیان نے عباس کو دیکھتے ہوئے کاندھے اچکا کر کہا۔۔۔۔

یارشی از سوانوسینٹ ۔ ۔ وہ تیرے مذاق کو سچ سمجھ لیں گی ۔ ۔ عباس نے عالیان کو گھورتے ہوئے کہا تو عالیان اور احمد نے چونک کر حُرہ کو دیکھا

ایسی کوئی بات نہیں ہے جانم ۔ ۔ میری زندگی میں صرف آپ ہیں ۔ ۔ حُرہ کی جانب اپنی جیب سے رومال نکال کر بڑھاتے ہوئے عباس نے دھیمی آواز میں کہا۔

“جی جی بھا بھی عالیان کو تو عادت ہے مذاق کرنے کی ۔ ۔ احمد نے بھی عباس کی بے چاری سی شکل دیکھتے ہوئے کہا” جی جی میں تو عباس کو تنگ کر رہا تھا ۔ ۔ مذاق کے بغیر اصل بات تو یہ ہے کہ آپ کا شوہر انتہائی شریف انسان ہے ۔۔ کوئی بری عادت تک نہیں ہے اس میں ۔ ۔ ایسے بندے سو میں سے کوئی دوفیصد ملیں گے آج کل کے زمانے میں ۔ ۔ “اس مرتبہ عالیان نے سچے دل سے عباس کی تعریف کرتے ہوئے کہا تو احمد اور عباس نے چونک کر اسے دیکھا کیونکہ اتنی شرافت کی امید عالیان سے کی تو نہیں جا سکتی تھی

ویسے عباس تو بھی بہت لکی ہے ۔ بیکوز  ایسی انوسینٹ بیوی بھی آج کل کے زمانے میں نہیں ملے گی۔۔

Make for eachother.

عالیان نے بلند آواز میں عباس کو کہا تو حُرہ نے عباس کے مسکراتے چہرے کو دیکھا۔

وہ تقریب کے بعد عباس کے کہنے پہ کمرے میں آچکی تھی کھانا اس نے عباس کے ساتھ ہی کھایا تھا ہنوز سجے سنورے روپ میں بیڈ پہ بیٹھی وہ عباس کا انتظار کر رہی تھی بس دل کر رہا تھا عباس جلدی سے کمرے میں آجائے تاکہ وہ اسے جلد از جلد خوشخبری دےتھکاوٹ کے باعث بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹانگے دراز کیے وہ آنکھیں موندے بیٹھ گئی۔

 جب اسے نورے کی نم آنکھیں بند آنکھوں کو کھولنے پر مجبور کر گئی تھوڑی دیر پہلے اسے تقریب میں نورے نظر آئی تھی مگر اس کی آنکھوں کا درد دیکھ کر حُرہ نے بے چینی سے پہلو بدلہ تھا اور آنکھیں واکرلیں اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور عباس بازو پر کوٹ لٹکائے کمرے میں داخل ہوا دروازہ لاکڈ کر کے اس نے ایک مسکراتی نگاہ حُرہ کے دلکش سجے سنورے وجود پر ڈالی اور کوٹ صوفے پر رکھا اور حُرہ کی سمت بڑھا” تھینک یو ۔ ۔

  حُرہ کے قریب بیڈ پر اس

 کے پاس بیٹھتے ہوئے عباس نے اس کی پیشانی پر محبت بھرا لمس چھوڑا”

 فاروٹ ۔ ۔ ؟ “حُرہ نے ہلکا سا مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔۔

“میرا ویٹ کرنے کے لیے ۔ ۔ ورنہ میں سمجھ رہا تھا کہ آپ کافی تھکی ہوئی لگ رہیں تھیں تو چینج کر کےریسٹ کر رہی ہوں گی ۔ ۔ “عباس نے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے ایک ڈبی نکالتے ہوئے حُرہ کو جواب دیا اورڈبی میں سے ایک خوبصورت سی چین نکال کر خرہ کی گردن میں پہلے سے موجود نکلس  اتار کر وہ چین حُرہ کی نازک و خوبصورت گردن میں پہنائی۔

یہ منہ دکھائی ہے آپ کی ۔ ۔ اسے ہمیشہ پہنے رکھیے گا یہ تو ہوا محض ایک تحفہ مگر ہاں ایک اہم بات جو میں آپ کو آج کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حُرہ میں بہت بڑے بڑے دعوے نہیں کروں گا مگر میں آج آپ سے وعدہ کرتا ہوں ہمیشہ ہر حال میں آپ کا ساتھ دوں گا ۔ ۔ میری ذات کبھی آپ کے لئے ۔تکلیف کا باعث نہیں بنے گی ۔۔

عباس حُرہ کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر مضبوط انداز میں بولا تھا اس کی آنکھیں اس کی بات کی سچائی کی عکاسی کر رہیں۔۔۔۔۔

 حُرہ  کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری اور تشکر بھری نگاہوں سے عباس کو دیکھنے لگی وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ کیا وہ واقعی اتنی خوش قسمت ہو سکتی ہے جو ایسے شخص کی بیوی ہے جو اس قدر بلند ظرف

رکھتا تھا کہ سب کی مخالفت کے باوجود اپنی بہن کے خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی کے تمام حقوق پورے کر رہا تھا اور ہمیشہ اس کے ساتھ کس قدر حسن سلوک کا مظاہرہ کرتا تھانورے نے ٹھیک کہا تھا بیشک وہ بہت بڑی آزمائشوں سے گزر رہی ہے مگر عباس اس کی ہر آزمائش کا مداوا تھا خزاں میں بہار کی طرح تھا زندگی میں اتنے دکھوں کے بعد جہاں عباس کی صورت میں یہ خوشیاں ملیں تھیں۔

 تو وہ کیوں کر کفران نعمت کرتی عباس جیسے جیون ساتھی کو پا کر کیوں کر وہ اس سےمنہ موڑ سکتی تھی جو ساری دنیا حتی کہ اپنے ماں باپ سے بھی اس کے حق کی خاطر لڑ رہا تھا اگر اس معاملے میں نورے اسے خود غرض بھی کہتی تو وہ خاموشی سے یہ الزام برداشت کر لیتی مگر عباس کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی تھی چاہے کیسے بھی حالات کا سامنا اسے کرنا پڑتا مگر اس مہربان کے سائے سے کبھی دور نہیں جائے گی۔

کہا کیا سوچ رہیں ہیں جانم ۔ ۔ ؟ کیا زیادہ ہینڈ سم لگ رہا ہوں آج ۔ ۔ ؟ حُرہ  کو بے خودی سے اپنی جانب تکتا پا کر عباس نے آنکھوں میں شرارت لیے پوچھا تو اس کی آواز پر حُرہ  یکدم چونکی مزید عباس کی بات نے اسے سر جھکانے پر مجبور کر دیا” چلیں میں ہی کہہ دیتا ہوں ۔ ۔ آپ اتنی پیاری لگ رہیں ہیں کہ بس نہیں چل رہا خود پہ کہ روکوں خود کو۔۔

حُرہ  کا دلکش سراپا عباس کو بار بار بہکا رہا تھا اور اس کی قربت پر مچل رہا تھا تبھی گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے عباس نے ذو معنی انداز میں کہا اور حُرہ  کے چہرے پر جھکا اس سے پہلے وہ کوئی شرارت کر حُرہ  نے گھبرا کر اس کے سینے پر ہاتھ رکھا

“وو وہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔ ۔ !”حُرہ  چہرہ موڑے بولی جبکہ دونوں ہاتھ ہنوز عباس کے سینے پر تھے”

          جی بولیں ۔ ۔ ؟ “عباس نے اس کی جھکی پلکوں کو تکتے ہوئے کہا

دل کے ہاتھوں  

مجبورر ہو کر ایک تہیہ دل میں کرتی اسنے عباس کو دیکھا جواس کے بولنے کا منتظرتھا ۔

وہ مجھے اا ایک بات پوچھنی ہے آپ سے ۔ ۔ ؟”عباس کی آنکھوں میں دیکھتی وہ مدھم آواز میں بولی انداز میں خوف تھا جیسے اگر عباس کا جواب اس کے دل کی دعا سے بر عکس ہوا تو کیا وہ واقعی خوش قسمت ہوتی یا پھر۔۔۔۔

” جی جی جان پوچھیں ۔ ۔ ؟

پہلی بار خود سے حُرہ  اس سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی پھر وہ کیوں کر انکار کر سکتا تھا فوراً اس کو اجازت دیتا اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا” و و وہ آپ اور نورے ۔۔۔۔۔ میرا مطلب نورے کے ساتھ آپ کا رشتہ !! ۔ ۔

مجھے لگتا ہے میں نے ان کی جگہ لے لی ہے ۔ ۔ !”حُرہ  نے آنکھیں اور سر جھکاتے ہوئے ندامت سے کہا تو اس کی بات سن کر عباس نے ایک گھرا سانس لیا یہ وہ معاملہ تھا جس کے بارے میں اگر عباس سوچتا تھا تو اس کی سوچیں مفلوج ہو جاتیں تھی وہ جانتا تھا نورے محبت کی راہ کی مسافر تھی اور اس میں اس کا قصور نہیں تھا وہ بچپن سے اس کے نام کے ساتھ جڑا ہوا تھاعباس کی خاموشی پر خرہ نے سر اٹھا کر اس کا بے تاثر چہرہ دیکھا۔۔

 تو خود بخود اس کی آنکھیں بھیگنے لگی حُرہ   کے سسکنے پر عباس چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا

میری جان – – میری بات غور سے سنیں اور سمجھیں ۔ ۔ نورے اور میرے درمیان محرم رشتہ نہیں ہے ۔۔ اس لیے آپ یقین کریں میں نے ان کے بارے میں کبھی نہیں سوچا ۔ ۔ ہاں میرا شرعی رشتہ آپ کے ساتھ ہے ۔ ۔ اس لیے میں آپ کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ ۔ آپ بے فکر ہو جائیں نورے کے ساتھ کبھی زیادتی نہیں ہوگی ۔ ۔ مگر آپ پلیز اس میں خود کو بلیم نہیں کریں کیونکہ کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ ۔ اور میں نے سمجھایا تھا نا آپ کو کہ یہ سب تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ ۔

کون کس کے نصیب میں آتا ہے یہ خدا کا فیصلہ ہے ۔ ۔ سو پلیز آئندہ آپ اس بارے میں بات مت کیجیئے گا ۔ ۔ “وہ حُرہ   کے دونوں ہاتھوں پر دباؤ ڈالتا نرمی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتا سمجھا رہا تھا مگر آخر میں اس کا انداز تنبہی تھا جسے حُرہ   با خوبی سمجھ گئی کہ وہ آئندہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا”

حج جی ۔ ۔ !”حُرہ   نے سر ہلاتے ہوئے یک لفظی جواب دیاکیا ہوا کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہیں ۔ ۔ ؟”حُرہ   کو دوبارہ لب وا کرتے پھر جھجھک کر لبوں کو کاٹتے دیکھ کر عباس نے پھر پوچھا

 حج جی مجھے آپ کو ک کچھ بتانا ہے ۔

 .حُرہ   نے لبوں کو حرکت دی۔

 جی جانم ۔ ۔ بولیں ۔ ۔ ؟ کیا بات کرنی ہے میری جان کو ۔ ۔ ؟

وہ اس کے اتنے قریب تھا کہ بات کرتے ہوئے اس کے لب حُرہ   کے رخسار کو چھورہے تھے مگر حُرہ   کس طرح بات کرتی وہ ایک تو اس کی قربت مسلسل اس کو کپکپانے پر مجبور کر رہی تھی مزید بات بھی ایسی تھی کہ بتاتے ہوئے اس کی جھجھک درمیان میں آرہی تھی”

 وووہ ۔ ۔ آپ ۔ ۔ “کپکپاتے  لبوں میں جنبش ہوئی مگر پھر زبان دانتوں تلے دبالی عباس دلچسپی سے حُرہ   کے سرخ چہرےکو دیکھ رہا تھاہوں ۔ ۔ بولیں کیا ۔ ۔ !”اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے حُرہ   کے لبوں کو چھوتے ہوئے عباس نے نرمی سے پوچھا۔۔۔۔

وو وہ سر کار ۔ ۔ وہ آآپ۔۔۔۔۔

 حُرہ   عباس کی آنکھوں میں دیکھتی ایک بار پھر جھجھک کر ر کی تو عباس نے سوالیہ انداز میں بھویں اچکائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 و و وہ آ آپ ۔ ۔ ووہ مم میں ۔ ۔ مم میرا مطلب ۔۔ وہ ۔ ۔

بولتے بولتے ایک مرتبہ پھر وہ خاموش ہو گئی اور اب تو اسے رونا آنے لگا تھا وہ کیسے عباس کو بتائے گی یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا اور اب شرم کی وجہ سے الفاظ ہی ترتیب نہیں دے پا رہی تھی جبکہ حُرہ   کی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ کر عباس کے ماتھے پر ایک لکیر ابھری”کیا ہوا ہے حُرہ   ۔ ۔ کسی نے کچھ کہا ہے آپ سے ۔ ۔ ؟ رو کیوں رہیں ہیں ۔ ۔ ؟”

 حُرہ   کے چہرے پر موتی اپنے لبوں سے چنتے ہوئے عباس نے نہایت فکر مندی سے پوچھا”

ن نہیں ۔ ۔ کسی نے کچھ نہیں کہا ۔ ۔ “حُرہ   یکدم آنسو صاف کرتی سٹپٹا کر گویا ہوئی تو عباس نے سکھ کا سانس لیا۔

 پھر کیا بات ہے جانم ۔ ۔ ؟ “عباس نے ہنوز نرم انداز میں اس کے رخسار سہلاتے ہوئے پوچھا ،

وہ میری طبیعت ۔ ابھی اتنے ہی الفاظ حرہ کی زبان سے نکلے تھے کہ

 عباس نے اس کے ماتھے کو چھواکیا ہوا حُرہ   ؟ ۔ ۔

لہجے میں فکر مندی واضح تھی”

 میری طبیعت بلکل ٹھیک ہے ۔ ۔ وہ سر کار آپ وہ بننے والے ہیں ۔ ۔ !” خرہ نے اس بار اپنی طرف سے بھر پور عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلدی سے بات مکمل کی

 اور عباس کے چہرے کو دیکھنے لگی جس پر نا سمجھی کے اثرات تھےکیا بننے والا ہوں ۔ ۔ ۔ ؟ “عباس نے ماتھے پر نا سمجھی سے بل ڈالے پوچھا تو حُرہ   نے عباس کے نا سمجھنے پر مایوسی سے سر جھکالیا۔

کیا کہنا چاہ رہی ہیں حُرہ   ۔۔

   عباس نے اس کی تھوڑی کے نیچے انگلی رکھ کر اس کا چہرہ ذراسا بلند کیا اور پوچھا۔

آپ وہ بننے والے ہیں ۔ ۔ حُرہ   نے جھکی آنکھوں سے پھر سے وہی جملہ دوہرایا۔ 

 جبکہ عباس حقیقت میں حُرہ    کی بے ربط بات سمجھنے میں نا کام تھا۔

کھل کر بات کریں جانم ۔ ۔ کیا کہنا چاہ رہی ہیں ۔ ۔ ؟ ” عباس پوری طرح سے اس کی جانب متوجہ ہوئے پوچھا رہا تھا

آپ سمجھ جائیں نا ۔ ۔ !”اس بار حُرہ    نے جھنجھلا کر کہا کیونکہ وہ کتنی دیر سے اسے ایک ہی بات سمجھا رہی تھی آخر وہ خود سے کیوں نہیں سمجھ رہا تھا ۔

جبکہ عباس کے تو وہم و گمان میں بھی وہ بات نہیں تھی جو حُرہ    اسے اتنی دیر سے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی ایک مرتبہ پھر عباس نے سوالیہ انداز میں بھویں اچکا ئیں تو حُرہ    کو پہلی بار عباس پر غصہ آیا۔

آپ با با بننے  والے ہیں ۔ ۔ اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی تھی آپ کو ۔ ۔ کب سے سمجھا رہی ہوں

حُرہ    خاصی جھنجھلا کر بلند آواز میں بولی تھی جبکہ عباس کے کانوں میں تو جیسے حُرہ    کا پہلا جملہ ہی گونج رہا تھا آگے وہ جانے کیا بولی تھی عباس نے سنا کہاں تھا بے یقینی اور خوشگوار حیرت سے وہ اب خرہ کودیکھ رہا تھا۔حُرہ    آپ سچ کہہ رہی ہیں ۔ ۔ ؟

حُرہ    کے دونوں کاندھوں کو اپنے ہاتھوں سے تمام کر وہ یقین دہانی چاہ رہا تھا دل تھا کہ خوشی کے مارے جھوم اٹھا تھا جبکہ حُرہ    نے اب کے ہلکا سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلا کر اپنی ہی بات کی تصدیق کی تو عباس نے فوراً اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا کئی پل جب وہ اسے یوں ہی سینے سے لگائے بیٹھا رہا تو حُرہ    ا چند لمحوں بعد اس سے جدا ہوئی اور عباس کی آنکھوں میں تیرتی نمی جو وہ اب حُرہ    کے پیچھے ہونے پر فوراً صاف کر رہا تھا دیکھنے لگی۔

بلاشبہ آپ نے مجھے خوبصورت زندگی جینے کی نوید سنائی ہے حُرہ    ۔ ۔ آپ نہیں جانتی یہ خبر جو آپنے مجھے ابھی دی ہے ہر خوشی سے بڑی خوشی ہے میرے لیے ۔ ۔ تھینک یو جانم ۔ ۔ ” عباس محبت سے چور انداز میں کہتے ہوئے حُرہ    کے چہرے پر جھکا اور اس کے چہرے پر والہانہ لمس چھوڑنے لگا جبکہ عباس کی آنکھوں اور لہجے سے جھلکتی خوشی دیکھ کر حُرہ    کی خوشی دوگنی ہو گئی تھی کئی لمحے کمرے میں معنی خیز خاموشی چھائی رہی چند سوں بعد حُرہ    اپنا تنفس بہتر کرتی عباس کے سینے پر ہاتھ رکھے سر بھی شرم و حیا کے باعث عباس کے سینے پر ٹکا چکی تھی۔۔۔۔

حُرہ    صحیح سے کھانا کھا ئیں ۔ ۔اگلی صبح وہ احتیاط ناشتے کے بعد حُرہ    کو ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر گیا تھا اور ڈاکٹر نے اسے حُرہ    کا بہت خیال رکھنے کی تائید کی تھی اور اب رات کے کھانے کے وقت میز پر حویلی کے تمام مکین موجود تھے حُرہ    جو کہ ہمیشہ کی طرح حویلی کے تمام مکینوں کی موجودگی میں سہمی ہوئی تھی بمشکل چند لقمے حلق سے اتار پائی تھی اور اب دوسری مرتبہ عباس اسے نوٹ کرتا ٹوک رہا تھا ۔

جبکہ وہاں موجود ہر شخص کو عباس کا حُرہ    کی اس قدر فکر کرتے دیکھ کر کچھ خاص اچھا نہیں لگ رہا تھا سر دار بی بی مسلسل حُرہ    کو خونخوار اور حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہیں تھیں، ناعمہ بھی ناگواری سے حُرہ    کو دیکھ رہیں تھیں ان میں سردار شیر دل اور نورے تھے جو اپنی پلیٹ پر جھکے ہوئے تھے مگر نورے کی آنکھوں کی اداسی ہرایک با آسانی دیکھ سکتا تھا

عباس تم شہر کب جا رہے ہو ۔ ۔

سردار بیبی نے اپنا موڈ بہتر بنانے کے لئے  اس کا دھیان حُرہ    سے بٹانا چاہا تھا

ابھی کچھ دن یہیں پر ہوں ماں جی ۔ ۔ عباس نے سر سری انداز میں جواب دیا

کیا جادو کیا ہے اس ونی نے تم پر ۔ ۔ پہلے تو تم یہاں کم آتے تھے ۔ ۔ اور اب تو لمبا قیام چاہتے ہو۔۔۔۔

حُرہ    کو دیکھتے ہوئے وہ طنزیہ جملوں سے بولی تو عباس نے ناشتے سے ہاتھ روک لیا”ماں جی ونی والا لفظ آئندہ میں حُرہ    کے لئے نہ سنو ۔ ۔ کیونکہ میں حُرہ    کی حیثیت اور مقام دنیا پر واضح کر چکا ہوں ۔ ۔ آئندہ یہ فضول خطاب میرے کانوں تک نہ پہنچے ۔ ۔ ! لہجہ  نرم اور تنبیہی تھا جبکہ اس کے الفاظ سر دار بی بی نے بمشکل ضبط کیے باقی سب خاموش تماشائی بنے ان ماں بیٹے کی گفتگو سن رہے تھے۔

میں کبھی دشمن کے خاندان کی لڑکی کو قبول نہیں کروں گی ۔ ۔  جوا با سر دار بی بی تڑخ کر بولیں ۔۔

آپ محض یہ یاد رکھیں کہ حُرہ    میری بیوی اور میرے ہونے والے بچے کی ماں ہے ۔ ۔

 ۔ ۔ عباس نے بلند آواز میں مضبوط انداز میں کہا جبکہ اس نے سب کو حُرہ    کے امید سے ہونے کی خبر سے آگاہ کرنا مناسب سمجھا مگر اس کے اتنے بڑی خبر اس طرح عام سے انداز میں کہنے پر حویلی کے تمام مکینوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا وہ سب ہونق بنے عباس کو دیکھ رہے تھے۔

 یقیناً عباس کے چہرے پر سنجیدگی تھی وہ مذاق نہیں کر رہا تھانورے پتھرائی آنکھوں سمیت عباس کو دیکھ رہی تھی جس کی خود کی نگاہیں اب حُرہ    کے چہرے پر تھیں۔

کیا کہہ رہے ہو عباس تم ۔ ۔ ؟؟”سب سے پہلے سردار شیر دل کا سکتہ ٹوٹا

 تو وہ دبے دبے غصے سے بولے۔

بابا جان آپ دادا بننے والے ہیں ۔ ۔ ” عباس نے سر جھکائے بیٹھی حُرہ    کو دیکھتے ہوئے سردار شیر دل کو ان کی بات کا جواب دیا.

ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ۔

یہ سب ۔۔ نہیں نہیں ۔۔ عباس یہ بد کردار لڑکی ہے ۔ ۔ یہ تم سے جھوٹ بول رہی ہے ۔ ۔ یہ تمہارا بچہ نہیں ہے ۔ ۔ یہ بے وقوف بنا رہی ہے تمہیں ۔ ۔ یہ پیچھے سے لائی ہو گی سردار بی بی ہتک آمیز انداز میں غرائیں۔

 جبکہ عباس زور سے میز پر ہاتھ مارتا کھڑا ہوا اس کا چہرہ اور آنکھیں غصے کے باعث سرخ ہو رہیں تھیں باقی سب بھی ڈر کر اپنی جگہ سے اٹھے جبکہ حُرہ    کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی تھی سردار بی بی کے الفاظ عباس کا دل چیر گئے تھے حُرہ    نے سہمی نگاہوں سےعباس کو دیکھا۔

آپ نے میری اولاد کو گالی دی ہے ماں اور یہ میں بلکل برداشت نہیں کروں گا ۔ ۔

Read Here Next Part 11 Main Main hun Badnaseeb

جاری یے

Updated: February 25, 2025 — 4:49 pm

2 Comments

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *