Read Main Hun Badnaseeb Part 11, a gripping Urdu novel filled with romance, suspense, and intense emotions. Dive into this thrilling story and uncover the twists that will keep you hooked till the end!

Read Main Hun Badnaseeb Part 11, a gripping Urdu novel
Read here Part 10 main hun badnaseeb urdu novel
صبر و ضبط کی انتہا کو چھوتا وہ بولا زندگی میں پہلی بار اس کی آنکھوں کی وحشت دیکھ کر سر دار بی بی بے چین ہو ئیں یقیناً وہ اپنے بہت نرم دل اور صابر بیٹے کو اپنے الفاظ سے توڑ رہیں تھیں جن کا انہیں
احساس بھی تھا
” عباس میرے شیر ۔ ۔ کیا حماقت ہے یہ ؟؟ اب یہ معمولی لڑکی ہماری نسل آگے بڑھائے گی
اس مرتبہ وہ دھیمے مگر کاٹ دار انداز میں بولی تھیں۔
آپ یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہیں ماں جی یہ میری بیوی ہے اور یہی اس کی حیثیت ہے اور اب تو یہ میرے بچے کی ماں بننے والی ہے ۔ ۔ اس لیے ہر کوئی سن لے حُرہ کو حویلی میں اگر کسی طرح کا مسئلہ ہوا تو میں حُرہ کو لے کر یہاں سے چلا جاؤں گا اور واپسی کی امید مت رکھئے گا مجھ سے ۔ ۔ ” عباس تنک کر بولا تھا کہ وہ اپنے ارادے سے انہیں پہلے آگاہ کر رہا تھا
تم ایسے کیسے کر سکتے ہو عباس ۔ ۔ تم اس لڑکی کے لیے ہمیں چھوڑ دو گے ۔ ۔ ؟؟ عباس کی بات سن کر وہ صدمے میں بولیں تھیں
میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا ۔ ۔ مگر آپ مجھے اپنے رویے سے مجبور کر رہیں ہیں ۔ ۔
صبر و ضبط کی انتہا کو چھوتا وہ بولا زندگی میں پہلی بار اس کی آنکھوں کی وحشت دیکھ کر سر دار بی بی بے چین ہوئیں یقینا وہ اپنے بہت نرم دل اور صابر بیٹے کو اپنے الفاظ سے توڑ رہیں تھیں جن کا انہیں
احساس بھی تھا
“عباس میرے شیر ۔ ۔ کیا حماقت ہے یہ ؟؟ اب یہ معمولی لڑکی ہماری نسل آگے بڑھائے گی
اس مرتبہ وہ دھیمیے مگر کاٹ دار انداز میں بولی تھیں
آپ یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہیں ماں جی یہ میری بیوی ہے اور یہی اس کی حیثیت ہے اور اب تو یہ میرے بچے کی ماں بننے والی ہے ۔ ۔ اس لیے ہر کوئی سن لے خود کو حویلی میں اگر کسی طرح کا مسئلہ ہوا تو میں حُرہ کو لے کر یہاں سے چلا جاؤں گا اور واپسی کی امید مت رکھئے گا مجھ سے ۔ ۔
عباس تنک کر بولا تھا کہ وہ اپنے ارادے سے انہیں پہلے آگاہ کر رہا تھا
” تم ایسے کیسے کر سکتے ہو عباس ۔ ۔ تم اس لڑکی کے لیے ہمیں چھوڑ دو گے ۔ ۔ ؟؟”
عباس کی بات سن کر وہ صدمے میں بولیں تھیں
میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا ۔ ۔ مگر آپ مجھے اپنے رویے سے مجبور کر رہیں ہیں ۔۔
عباس نے ماں کا تقدس قائم رکھتے ہوئے اپنی حتمی بات کہتے ہوئے سر دار بی بی کو بہت کچھ باور کروایا اور سختی سے بھینچی ہوئی مٹھیوں کو کھولا اور حُرہ کا ہاتھ تھام کر وہاں سے نکل گیا۔
عباس کے نکلنے کے بعد سر دار شیر دل نے کاٹ دار نگاہوں سے سر دار بی بی کو دیکھا
بار بار اس لڑکی کے لیے اپنی نفرت کا اظہار کر کے تم اپنے بیٹے کو خود سے بدگمان کر رہی ہو بے
وقوف عورت ۔ ۔ “
وہ انہیں سخت نگاہوں سے دیکھتے غرائے تھے۔
میں منافقت نہیں کر سکتی۔ مجھے اس لڑکی سے نفرت ہے تو اظہار بھی نفرت کا ہی کروں گی ۔ ۔
وہ سر دار شیر ول کو بہت کچھ جتاتے ہوئے بولیں۔
میں منافقت نہیں کر رہا۔ ۔ مجھے بھی نفرت ہے اس لڑکی سے مگر مت بھولو کہ ہمارا بیٹا اسے بیوی کا درجہ دے چکا ہے اور جلد ہی وہ ہمیں وارث دینے والی ہے ۔ ۔ اور خبر داراب تم نے کوئی بکواس کی تمہیں قبول کرنا ہو گا ہر حال میں اس لڑکی کو ۔ ۔ سردار بی بی کے دوبارہ اب کھلتے دیکھ کر سردار شیر دل ہاتھ کے اشارے سے انہیں بولنے سے روک گئے اور تنبیہی نگاہوں سے دیکھتے بولے۔۔
میری بیٹی کا کیا ہو گا سردار جی ۔ ۔ ظلم کیا ہے آپ سب نے مل کر میری بیٹی کے ساتھ ۔ ۔ سردار شیر دل کی باتیں سن کر کب سے خاموش کھڑی نامہ نے جیٹھ کو دیکھتیں خاصی بلند آواز میں
بولیں۔
نورے ہماری بیٹی ہے ناعمہ ۔ ۔ اس کی ذمہ داری میری ہے ۔ ۔ میں اب کسی بھی تاخیر کے بغیر
جلد ہی عباس اور نورے کا نکاح کرواؤں گا ۔ ۔
سردار شیر دل نے سر جھکائے کھڑی نورے کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
ابھی آپ نے حکم دیا کہ اس لڑکی کو عباس کی بیوی کے طور پر قبول کر لیں کیونکہ وہ عباس کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔اور اب آپ کیسے کہہ رہے ہیں کیا ابھی بھی عباس سے مید رکھوں کہ عباس
میری بیٹی کو اپنائے گا ۔ ۔ ؟؟
ناعمہ ، دھیمی آواز میں بولیں تھیں۔
تو کیا چاہتی ہو تم ۔ ۔ ؟ ختم کرنا چاہتی ہو رشتہ ۔ ۔ ؟ کیا تم یہ نہیں جانتی کہ جب ہمارے خاندان کی لڑکی کا ایک بار جس شخص سے رشتہ طے ہو جائے پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔ رشتہ ختم نہیں کر سکتے ۔۔
بیشک ساری زندگی بھی وہ مرد اس لڑکی کو نہ اپنائے مگر اس لڑکی کی ساری زندگی اسی کے نام پر کٹتی
ہے۔۔
سر دار شیر دل نے انہیں اپنے خاندان کے سخت اصول یاد کروائے جنہیں وہ پہلے سے جانتی تھیں
آپ لوگوں نے میری یتیم بچی کے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ ۔
وہ گم صم کھڑی نورے کو دیکھتی روتی ہوئی بولیں۔
نہیں ہو گا ظلم نورے کے ساتھ ۔ ۔ اسلام میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے تو کیا ہو گیا اگر ہم عباس کی دوسری شادی نورے سے کر دیں ۔۔ تم جانتی ہو ۔ ۔ عباس جب اس دشمن کے خاندان کی
لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکا اور اسے اس کے سارے حقوق دیے توکیا وہ نورے کے ساتھ کوئی زیادتی کر سکتا ہے بھلا۔۔
سر دار شیر دل کہتے ہوئے آخر میں ناعمہ سے سوال کر گئے تو وہ ان کی یقین دلانے پر خاموش ہو گئیں۔
وہ کمرے میں آکر بیڈ پر ٹک گئی تھی مگر وقفے وقفے سے عباس کے غصے میں تلملائے چہرے کو دیکھ لیتی تھی جو صوفے پر بیٹھا انگوٹھے اور ایک انگلی سے اپنے سر کو دبا رہا تھا کافی دیر گزر گئی تھی مگر کمرے
میں ہنوز خاموشی چھائی ہوئی تھی عباس کے چہرے سے صاف دیکھائی دے رہا تھا کہ وہ کس قدر پریشان ہے حُرہ نے کچھ سوچتے ہوئے عباس کی جانب قدم بڑھائے حُرہ کے قریب آنے پر عباس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور نرمی سے کلائی تھام کر اسے اپنے برابر صوفے پر بیٹھا لیا
آ آ آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ۔ !”
عباس کے کاندھے پر سر رکھتے ہوئے حُرہ نے مدھم آواز میں کہا تو عباس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے حُرہ کے بالوں پر لب رکھ دیے
اور حُرہ آپ بھی پلیز کسی بات کی ٹینشن نہیں لیں گی ۔ ۔ !!ماں جی کے رویے کو اگنور کریں ۔ ۔ جب ہمارا بچہ دنیا میں آئے گا تو وہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گی ۔ ۔ “
عباس نرمی سے اسے سمجھاتے ہوئے اس کی کمر سلا ہاتا
جی ۔ ۔ ۔
حُرہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
آپ نے کبھی میرے نام کا مطلب نہیں پوچھا ۔ ۔ کیا آپ کو معلوم ہے میرے نام کا مطلب
عباس اب حرہ کا دھیان بٹاتا ہوا اسے باتوں میں لگا رہا تھا
” مجھے تو نہیں پتہ مطلب ۔ ۔ ؟ “
حُرہ نے ذرا سا عباس کے کاندھے سے سر اٹھاتے ہوئے شرمندگی سے کہا حُرہ کی معصومیت پرعباس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری
عباس عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے شیر ۔ ۔ !
عباس ، حُرہ کا سر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے گویا ہوا
واؤ ۔ ۔
بے ساختہ حُرہ کے منہ سے نکلا
“آپ پر بلکل سوٹ کرتا ہے ۔ ۔ نام ۔ ۔ اور مطلب ۔
حُرہ مزید گویا ہوئی تو عباس کی مسکراہٹ گہری ہوئی یقیناً یہ اسی کا دیا گیا اعتماد تھا کہ حُرہ آرام سے اس سے بات کر رہی تھی ورنہ وہ اتنا خاموش رہتی تھی کہ وہ اسے باتیں کرنے کے لیے اکساتا تھا
اور جانتی ہیں میں نے ایک بات سوچی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
عباس اب اس کے چہرے پر خوشی دیکھتے ہوئے مزید گویا ہوا
“کیا ۔ ۔ ؟ “
حُرہ نے ابروا چکاتے ہوئے پوچھا
” میں اپنے بیٹے کا نام حیدر رکھو گا ۔ ۔ اور حیدر کا مطلب بھی شیر ہے ۔ ۔ !” عباس اپنے ہی جوش میں بولا تھا جبکہ اس کی بات پر حُرہ کے لب سکڑے تھے جنہیں فوراً عباس نے
نوٹ کیا اور پوچھا
“کیا ہوا ۔ ۔ ؟ “
” بب بیٹا نہ ہوا ۔ ۔ اگر بیٹی ہوئی تو ۔ ۔ ؟
حُرہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا
پھر تو بیٹے سے بھی زیادہ خوشی ہو گی مجھے ۔ ۔ “
عباس نے حُرہ کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے لبوں پر گھری مسکراہٹ سجائے کہا تو عباس کی بات سن
کر خرہ نے اطمینان کا سانس لیا۔
” آپ بہت اچھے ہیں ۔ ۔ !” بے ساختہ حُرہ نے کہا
“جانم ۔ ۔ ۔ !”
عباس مسکراتے ہوئے اس کا نام پکارتے ہوئے والہانہ انداز میں حُرہ کے مسکراتے چہرے پر جھک گیا اور بے اختیار ہونے لگا۔۔۔۔
وہ اپنے آفس میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا جب سے وہ عباس کے ولیمے کی تقریب سے آیا تھا تب سے اس لڑکی کی سرخ آنکھیں وہ اداس چہر ہ اسے نہیں بھول رہا تھا آسمانی رنگ کے ہلکے کام والے جوڑے میں دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ سرخ و سفید رنگت والی لڑکی جو جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی اداس بھی تھی عالیان نے کبھی لڑکی کے بارے میں اتنا نہیں سوچا تھا جتنا وہ اس اداس خوبصورت چہرے والی کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اسے محض چند لمحوں کے لیے دیکھائی دی تھی پھر تو وہ ساری تقریب میں اسے ڈھونڈتا رہا تھا مگر وہ اسے پھر نظر نہیں آئی تھی مگر کل سے وہ جانے کیوں بے چین ہو رہا تھا۔۔
اس کی زندگی میں لڑکی صرف ایک صورت میں آتی تھی وہ بھی گرل فرینڈ کی حیثیت سے ورنہ اسے تو اپنی ماں کی شکل بھی یاد نہیں تھی بچپن سے اسے صرف باپ کا رشتہ ملا تھا یا پھر اس کی زندگی میں عباس اور احمد جیسے دوست تھے جو بھائیوں سے بھی بڑھ کر تھے عباس اور احمد کی اچھی صحبت کا اثر تھا کہ اب عالیان کم ہی برے کاموں میں پڑتا تھا بلکہ اب تو اپنے باپ کے بزنس کو مینڈل کر رہا تھا
حسین مگر او اس لڑکی ۔ ۔
آنکھیں میچے ہی عالیان کے لبوں نے حرکت کی تھی وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے کیا نام ہے اس لڑکی کا مگر عالیان نے اسے یہی نام دے دیا تھا اور اب وہ اپنی اس حرکت پر مسکرایا تھا جب تک اس اداس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ نہ دیکھ لیتا اس کے بے چین دل کو قرار نہیں آنا تھا کچھ سوچتا ہوا
وہ اپنا کوٹ اٹھا کر اپنے آفس سے نکلتا چلا گیا۔
عباس کافی دنوں سے شہر نہیں آیا تھا کال پر اس نے کچھ دن حویلی رہنے کا بتایا تھا عالیان نے کچھ سوچتے ہوئے گاڑی کا رخ عباس کے گاؤں کی سمت کیا سارے راستے وہ اسی اداس لڑکی کو سوچتا رہا مگر جب حویلی پہنچ کر وہ گاڑی سے نکلا تو اب یہ پریشانی ہوئی کہ عباس سے اس لڑکی کے بارے میں کیسے پوچھے گا وہ تو اس لڑکی کا نام بھی نہیں جاتا تھا جانے عباس اس لڑکی کو جانتا بھی ہوگا یا نہیں اور وہ عباس سے اس لڑکی کا کس طرح پوچھے گا۔
” صاحب آپ مردان خانے میں بیٹھیں ۔ ۔ سر کار کو پیغام بھیجوا دیا ہے وہ آتے ہی ہوں گے ۔ ۔ ” ایک ملازم نے نہایت مؤدب ہو کر عالیان کو کہا تو عالیان بغیر کوئی جواب دیے اس وسیع و خوبصورت قدیم حویلی کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے لگا جب اس کی نگاہ اوپر ایک کھڑکی کے کھلے پٹ پر پڑی اور عالیان کے قدم وہی زمین میں جم گئے مگر عالیان کو کھلی کھڑکی کے پاس کھڑی اس اداس لڑکی کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی بے اختیار اس کے لب مسکرائے مگر وہ لڑکی پر دے برابر کر کے وہاں سے اوجھل ہو چکی تھی اور یکدم عالیان کو بے چینی نے آن گھیرا ابھی تو وہ اسے ملی تھی اور ایک لمحے بعد ہی
پھر سے کھو گئی۔
صاحب چلیں ۔ ۔ ؟ ؟
ملزم نے اسے ایک ہی سمت کھڑے دیکھ کر اس بلند آوازمیں پکارا ور ایان نے چونک کراسے دیکھا اور پھر بند کھڑکی کو دیکھا مگر وہاں اب وہ موجود نہیں تھی مایوسی سے عالیان نے سر جھٹکا اور حویلی کے اندر جانے کے بجائے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا وہ ملازم حیرت زدہ اسے گاڑی حویلی سے لے
جاتا دیکھتا رہ گیا۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں بابا سر کار آپ ۔ ۔ ؟؟ “
سردار شیر دل کی بات سنتے ہی عباس نے افسوس سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا
وہ دونوں اس وقت حویلی کی بیٹھک میں موجود تھے ملازم نے اسے عالیان کی آمد کی خبر دی تھی تبھی وہ یہاں آیا تھا مگر عالیان ملے بغیر واپس چلا گیا تھا اور اب بابا جان نے اسے جو بات بولی تھی اسے سن کر
عباس بے یقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا
” عباس میں پھر سے اپنی بات دہرا دیتا ہوں ۔ ۔”
سر دار پر سکون انداز میں بولے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے عباس ان کا فرمانبر دار بیٹا ہے وہ کبھی ان کی
بات سے انکار نہیں کرے گا
ہم چاہتے ہیں تمہاری اور نورے کی شادی مزید تاخیر کے بغیر جلد از جلد ہو جانی چاہیے ۔ ۔ ” وہ عباس کے حیرت زدہ تاثرات دیکھتے ہوئے پھر سے بولے جبکہ عباس نے ان کی بات سن کر نفی
میں سر ہلایا
بابا سر کار میری شادی ہو چکی ہے ۔ ۔ “
عباس نے دھیمے انداز میں جتاتے ہوئے کہا تو سر دار شیر دل مسکرائے۔
ہم جانتے ہیں بیٹے ۔ ۔ وہ تمہاری نظر میں شادی ہے مگر ہماری نظر میں کوئی حیثیت نہیں اس رشتےکی۔۔
حتمی انداز میں وہ بولے تھے جبکہ عباس کو شدت سے احساس ہوا تھا کہ وہ ان سب کی سوچ نہیں بدل
سکتا۔۔۔
کسی کی نظر میں میرے اور حُرہ کے رشتے کی حیثیت ہویا نہ ہو میرے خدا کے نزدیک بہت ہے ۔ ۔
اس لیے مجھے فرق نہیں پڑتا ۔ ۔
عباس نے خفا سے لہجے و انداز میں کہا
آپ جتنے بھی دلائل دے دیں مری بات فرموش نہیں ہوسکتی کہ وہ ایک خون بامیں آئی ہے ۔
سر دار شیر دل نے اس مرتبہ ذرا بلند آواز میں کہا جبکہ ان کے الفاظ عباس کے دل میں چبھے تھے حُرہ کے لیے ایسے الفاظ سننا بلاشبہ اس کے لیے مشکل تھا
با با پلیز ۔ ۔
عباس اس لڑکی کی کبھی بھی نورے جتنی حیثیت نہیں ہو سکتی ۔ ۔ نورے ہمارا خون ہے ۔ ہمارے چھوٹے بھائی کی اکلوتی بیٹی ۔ ۔ بچپن سے تمہارے نام کے ساتھ منسوب ہے وہ بچی ۔ ۔ دشمن کی بیٹی کے ساتھ انصاف کرتے کرتے کیا تم اس لڑکی کے ساتھ نا انصافی کرو گے جس نے بچپن سے تمہارے
علاوہ کسی کو سوچا تک نہیں ۔
سر دار شیر دل کی آواز کرخت تھی جبکہ ان کے لہجے میں نورے کے لیے دکھ تھا
یہ آپ کو پہلے سوچنا چاہئے تھا بابا سر کار ۔ ۔ حُرہ کے ساتھ آپ نے ہی میرا نکاح کروایا تھا ۔ ۔ اس وقت آپ کو اپنے بھائی کی اولاد کا خیال نہیں تھا ۔ ۔
نا چاہتے ہوئے بھی عباس تلخ ہو گیا تھا
مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اُس دو ٹکے کی لڑکی کو بیوی مان لو گے۔
وہ خاصی حقارت سے بولے تھے جبکہ عباس نے بمشکل ان کے الفاظ برداشت کیے تھے
بابا سر کا ر جب نکاح ہوا ہے تو بیوی تو وہ بن گئیں نا میری ۔ ۔ اگر ان کے حقوق میں کوتاہی کروں تو
خدا کے آگے جوابدہ ہوں میں ۔ ۔
الفاظ چبا کر ادا کرتا وہ مٹھیاں بھینچے گویا ہوا تھا۔۔۔
تو نورے کا کیا عباس ۔ ۔ ؟؟ ۔ اس کو ٹھکرا کر کیا خدا کے آگے جوابدہ نہیں ہو گے تم ۔ ۔ ؟” وہ اس کا چہرہ دیکھتے سوال کر رہے تھے
نورے چچا سر کار کے بعد آپ کی ذمہ داری ہیں بابا سر کار ۔ ۔ میرا نورے کے ساتھ اگر نکاح ہوا ہو تا تو بیشک وہ میری ذمہ داری ہوتیں مگر حُرہ میری ذمہ داری ہیں کیونکہ حُرہ میری بیوی ہیں ۔ ۔ اس لیے میں حُرہ کے ساتھ ہوئی زیادتی کا خدا کے آگے جوابدہ ہوں ۔ ۔ کسی اور کی وجہ سے میں اپنی بیوی کی
حق تلفی نہیں کر سکتا ۔ ۔
عباس جیسے جیسے بول رہا تھا سر دار شیر دل کا غصہ بڑھتا گیا
کیسی حق تلفی ۔ ۔ ؟ اتنا تو سر چڑھا لیا ہے تم نے اس لڑکی کو ۔ ۔ “
وہ پھر دھاڑے تھے
میں نے انہیں سر نہیں چڑھایا ۔ ۔ بلکہ میں جو بھی کرتا ہوں ان کے لیے ۔ ۔ وہ میرا فرض اور ان کا حق
ہے۔۔
عباس ہنوز سنجیدگی سے ان کی بات کا دھیمی آواز میں جواب دے رہا تھا
تو عباس آپ میرے فیصلے سے انکار کر رہے ہیں ۔ ۔ ؟؟
دبے دبے غصے سے وہ بولے
میں آپ کی کسی حق بات سے انکار نہیں کر سکتا بابا سر کار ۔ ۔ مگر میں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا
عباس ان کے غصے کو دیکھنا نہایت پر سکون ہو کر گویا ہوا تھا
آخر مسئلہ کیا ہے دوسری شادی میں ۔ ۔ ؟ ؟ میں کون سا تمہیں اس لڑکی کو چھوڑنے کو کہہ رہا ہوں ۔ ۔
اس بار وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے تھے کیونکہ عباس کے ارادے انہیں پختہ لگ رہے تھے
مگر میں پر بھی نہیں کرسکتا ۔ اس بار
عباس نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو وہ دھاڑے
وجہ ۔ ۔ ؟؟
بس نہیں کرنا چاہتا ۔ ۔ عباس نے چند الفاظ میں ہی بات ختم کی۔۔
تم خاندانی اصولوں کو جانتے ہو نا نورے کی تمہارے علاوہ کسی سے شادی نہیں ہو سکتی ۔ ۔
اپنے فرمانبردار بیٹے کو دیکھتے وہ بہت کچھ یاد کرواتے ہوئے بولے
میں محض آپ لوگوں کے پست اور بے بنیاد بنائے گئے اصولوں کو مانتے ہوئے تو ہر گز نہیں آپ
کی بات مانوں گا ۔ ۔ عباس صاف گوئی سے بولا تھا جبکہ سردار شیر دل نے عباس کے پر سکون چہرے کو دیکھا
تو ٹھیک ہے پھر نورے تمہارے نام سے ساری زندگی حویلی میں بیٹھی رہے گی اور تم اپنی بیوی
بچوں کے ساتھ انصاف کرتے رہنا ۔ ۔
وہ خاصے جتاتے ہوئے بولے تھے جبکہ عباس نے نفی میں سر بلایا۔۔
با با سر کار آپ بے بنیاد باتوں کو اپنے خاندان کے اصول کی شکل دے کر مجھے نورے سے شادی کرنے کے لیے اکسا کر غلط کر رہے ہیں ۔ ۔ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔ ۔ بلکہ آپ اپنے بھائی کی بیٹی کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں انہیں خاندانی اصولوں کی بھینت چڑھا کر ۔ ۔
بلاشبہ وہ نرم دل انسان تھا نورے کے لیے دل میں کبھی خاص جذبات تو نہیں رکھتا تھا مگر اس کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی بھی نہیں ہونے دے سکتا تھا ۔۔
اگر فکر ہے نورے کی تو شادی کیوں نہیں کر لیتے تم اس سے ۔ ۔ کیونکہ اب خاندان میں تمہارے علاوہ کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرے گا ۔ ۔ اور خاندان سے باہر تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ۔ عباس کو نورے کی فکر میں بولتا دیکھ کر وہ پوچھنے لگے تو عباس نے لب بھینچ لیے۔
آپ کے بنائے گئے اصولوں کی داستان سن کر تو اب میں کبھی بھی ان سے شادی نہیں کروں گا ۔ ۔ بات کرتے ہوئے عباس اٹھ کھڑا ہوا تھا جبکہ اس کا جذبات سے عاری انداز دیکھ کر سر دار شیر دل
ٹھٹک گئے۔
تو یہ تمار آخری فیصلہ ہے ۔
سر دانداز میں پوچھا گیا
جی ۔ ۔ ۔ !
عباس یک لفظی جواب دے کر آگے بڑھ گیا تھا مگر سردار شیر دل کے الفاظ سن کر عباس کے قدم تھم گئے۔۔
یہ بات یاد رکھنا ۔ ۔ ! نورے کے ساتھ ہوئی زیادتی کے ذمے دار پھر عباس تم ہو گے ۔ ۔ ! عباس کی پشت کو دیکھتے وہ تلخ انداز میں گویا ہوئے
مجھے یقین ہے بابا سر کار آپ اپنے بھائی کی بیٹی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے ۔ ۔ ” عباس بغیر مڑے بولا تھا اور اپنی بات مکمل کرتا وہ آگے بڑھ گیا جبکہ پیچھے کھڑے سردار شیر دل نے
اپنے لب بھینچ لیے۔
بہت دنوں سے عباس اس کے پاس حویلی میں ہی تھا اور کس قدر اس کا خیال رکھتا تھا خُرہ کو اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں میں آتا تھا کیا اتنے دکھوں کے بدلے ایسا صلہ بھی ملتا ہے عباس سے ملی اتنی محبت اور عزت کی وجہ سے حُرہ عباس سے بے پناہ محبت کرنے لگی تھی وہ اب عباس سے اپنا ہر دکھ بانٹنے لگی تھی جس کے بعد عباس محض اسے گلے لگا لیتا اور اسے رونے دیتا جب وہ خاموش ہوتی تو
عباس محض مسکرا کر اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اپنے ہونے کا احساس دلاتا اب عباس کی بدولت ہر طرح سے اسے حویلی میں آسائشیں مل رہی تھی حویلی کے ملازم سے لے کر سردار بی بی تک کوئی اسے منہ پر برا نہ کہہ سکتا تھا مگر حُرہ جانتی تھی سر دار بی بی کا دل اس کی طرف سے صاف نہیں ہوا اور پھر ناعمہ بھی زبان سے تو کچھ نہ بولتی مگر اس کی آنکھوں کی چبھن حُرہ کو محسوس ہوتی تھی۔
زندگی کی اتنی تلخیاں سہنے کے بعد وہ لوگوں کے چہرے پڑھنا سیکھ چکی تھی جانتی تھی کہ حویلی کے تمام مکین دل میں اس کے لیے قطعی گنجائش نہیں رکھتے یہ صرف عباس کا ساتھ ہے جس وجہ سے کوئی اسے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا
حُرہ بی بی یہ پھل کھا لیں ۔ ۔ سردار نے سختی سے کہا ہے اس وقت آپ کو پھل دینے ہیں ۔ ۔ ” وہ اس وقت عباس کا انتظار کرتے کرتے کمرے سے باہر نکل آئی تھی جب ناہید مؤدب سی ٹرے میں ایک باؤل رکھے اس کے سامنے کھڑی تھی جس میں چار پانچ طرح کے پھل کیوبز کی شکل میں کٹے ہوئے تھے حُرہ نے ایک نظر باؤل کو دیکھا اور ایک نظر ناہید کو دیکھا وہ پہلے کتنا ظلم کرتی تھی اس پر اور اب ایسے خیال رکھتی تھی اس کا جیسے اس کے علاوہ اس کا کوئی کام ہی نہ ہو اسی طرح کبھی کچھ لے کر حاضر ہو جاتی تھی تو کبھی کچھ لے کر آجاتی تھی اور اتنے مؤدب ہو کر کہتی کہ اب حُرہ کا دل اس کی طرف
سے بالکل صاف ہو چکا تھا۔
سر کا رکہاں ہیں ۔ ۔ ؟
حُرہ نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اپنا سوال پوچھا
“وہ جی بڑے سر کار کے ساتھ ہیں ۔ ۔ “
ناہید نے با آوب کہا تو حُرہ نے سر ہلایا ۔۔؎
” بب بی بی آپ کمرے میں چل کر یہ کھا لیں ۔ ۔ ورنہ سر کار میرے پہ غصہ ہونگے ۔ ۔ ” نورے کو حُرہ کی سمت آتا دیکھ کر ناہید نے اپنی سمجھداری سے کام لیتے ہوئے حُرہ کو کمرے میں بھیجنا چاہا کیونکہ نورے اگر حُرہ کو کچھ برا بولتی تو عباس نے اس پر غصہ کرنا تھا کیونکہ ڈاکٹر نے حُرہ کو ہر طرح کی پریشانی سے دور رہنے کا سختی سے کہا تھا مگر اس سے پہلے حُرہ کمرے میں جاتی نورے اس کے قریب
پہنچ گئی
سردار بی بی کے کمرے میں چائے دو جا کر تم ۔ ۔
حکمانہ انداز میں ناہید کو دیکھ کر کہتی اب نورے ، حُرہ کی جانب مڑی حُرہ بھی اس کی جانب متوجہ ہو چکی
” بب بی بی وہ میں حُرہ بی بی کو کمرے میں چھوڑ آؤں پھر دے آتی ہوں ۔ ۔ ” ناہید نے سر جھکا کر کہا
“آپ جائیں میں چلی جاؤں گی روم میں ۔ ۔ !”
ناہید کی بات سن کر حُرہ نے فورا کہا اور نورے کو دیکھنے لگی جو خود بھی اسی کی جانب متوجہ تھی جبکہ ناہید فوراً جی کہتی وہاں سے جانے لگی جب نورے نے اسے پکارا۔۔
” جی بی بی ۔ ۔ ؟ ” ناہید نے سر جھکائے کہا
” چھوٹے سر دار کہاں ہیں ۔ ۔ ؟
نورے نے ناہید سے پوچھا تو بے ساختہ حُرہ کے بڑھتے قدم تھے وہ اک پل کو وہیں کھڑی ہو گئی
بی بی وہ بڑے سردار کے ساتھ ہیں ۔ ۔
ناہید نے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی حُرہ کی جانب چور نگاہوں سے دیکھا
ہمم ۔۔
نورے ، حرہ کو نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی مگر حُرہ وہیں بے حس و حرکت کھڑی تھی جب ناہید نے
اسے پکارا
حُرہ بی بی ۔ ۔
ناہید کے پکارنے پر حُرہ چونکی اور سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی
” وہ بی بی جی کمرے میں چلیں ۔ ۔ ؟ “
ناہید نے حُرہ کے بے چین چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا
حُرہ دور جاتی نورے کو دیکھتی غائب دماغی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔
یار تو حویلی آیا تھا اور ملے بغیر ہی واپس چلا گیا سب خیریت تھی نا ۔ ۔ ؟؟” عباس آہستہ آہستہ چلتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا جب اس نے عالیان کو کال ملا کر فون کان
سے لگالیا عالیان کے کال پک کرتے ہی عباس نے سوال کیا اک پل کو تو عالیان بوکھلا گیا
یار تو اتنے دن سے آیا نہیں تو تیری یاد آگئی تھی ۔۔ لیکن پھر کال آگئی ڈیڈ کی ۔ ۔ تو بس آفس پہنچا تھا
جلدی میں بہانہ بناتے ہوئے عالیان نے کہا تو عباس خاموش ہو گیا۔۔
احمد سے کوئی بات ہوئی ہے کیا تمہاری کیس کے بارے میں ۔ ۔ ؟ ؟ ” عباس کو عالیان کا بات بنا نا محسوس ہوا تھا تبھی تشویش ہونے پر پوچھا
نہیں میری کیس کے بارے میں احمد سے کوئی بات نہیں ہوئی ۔۔ سب ٹھیک ہے نا کچھ پتہ چلا ہے
کیا ۔ ۔ ؟ “
عباس کی بات پر عالیان چونکا اور پھر پریشانی سے پوچھنے لگا
نہیں وہ ایچولی میری کافی دن سے احمد سے عابی کے کیس کے متعلق بات نہیں ہوئی اس لیے تم سے پوچھا ۔ ۔ “عابی کے ذکر پر عباس کے دل میں پھانس سی چبھی وہ بوجھل قدم اٹھا تا یکدم رک گیا کیونکہ
نورے اسے اپنے قریب آتی دیکھائی دی تھی
ہمم چل بعد میں بات کرتا ہوں ۔ ۔
الوداعی کلمات ادا کرتا وہ کال کاٹ چکا تھا۔۔
السلام م علیکم
نورے کے سلام کرنے پر عباس نے سر ہلایا اور نگاہیں کا رخ دوسری سمت کر لیا۔
وہ مجھے آپ سے ایک ایمپورٹنٹ بات کرنی ہے !’
نورے عباس کو دیکھتی پھر گویا ہوئی
” جی جی بولیں ۔۔؟”
عباس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسے اجازت دی
” مجھے ماسٹرز میں ایڈمیشن لینا ہے ۔۔ تایا سردار نہیں مانیں گے ۔۔ آپ کی ہیلپ کی ضرورت ہے ۔۔”
نورے نے دوپٹہ سر پر درست کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا عباس کی مدد سے ہی اس کی پڑھائی جاری تھی ورنہ خاندان کی لڑکیوں کو کہاں اجازت تھی ہمیشہ وہ عباس سے کہتی تھی پھر وہ سردار شیر دل سے اجازت لے دیتا تھا ابھی بھی سارے مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے نورے نے عباس سے مدد لینے کا سوچا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی عباس کی سپورٹ کے بعد کوئی کچھ نہیں کے گا
” آپ بے فکر رہیں میں فارم لے آؤں گا ۔۔ بابا سرکار منع نہیں کریں گے ۔۔ “
عباس نے نرمی سے کہتے ہوئے سرسری نگاہ نورے پر ڈالی
” تھینکس ۔۔!”
نورے شکریہ ادا کرتی آگے بڑھ گئی تو عباس بھی قدم بڑھانے لگا
عباس کمرے میں داخل ہوا جہاں حُرّہ کمرے میں تیز تیز چکر کاٹ رہی تھی حُرّہ کی اس حرکت پر عباس کے ماتھے پر بل پڑے وہ موبائل جیب میں رکھتا حُرّہ کی جانب بڑھا
” حُرّہ میری جان کیا ہو گیا ہے ۔۔ ؟”
حُرّہ کی کلائی تھام کر اسے روکنے کو آگے بڑھا مگر حُرّہ اچانک آواز پر ڈر پر پیچھے ہونے لگی جب اس کا پاؤں مڑا اس سے پہلے وہ گرتی عباس نے اس کی کمر نرمی سے اپنے شکنجے میں لی اور نہایت نرمی سے پوچھا جبکہ حُرّہ یکدم عباس کی آمد پر بوکھلا گئی
” آ آپ ۔۔!”
عباس کے سوال پر حُرّہ خاموش ہو گئی اسے اب احساس ہوا کہ عباس کے اتنا خیال رکھنے اور احتیاط کے باوجود وہ ابھی کیا لاپرواہی کر چکی تھی ندامت کے باعث اس نے سر جھکا لیا
” ایٹس اوکے جانم ریلیکس رہیں ۔۔ !”
ہنوز لہجہ اور انداز نرمی لیے ہوئے تھا عباس کے اس قدر نرم رویے پر بے ساختہ آنسو حُرّہ کی آنکھوں سے بہنے لگے
” جانم اس میں رونے والی کیا بات ہے ۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔ یہ سوچا کریں آپ کے وجود میں بہت ننھی سی جان ہے ۔۔ بس خیال کیا کریں ۔۔ !”
لہجہ اور انداز ہنوز نرمی لیے ہوئے تھا مگر اس مرتبہ عباس کی آواز تھوڑی بلند تھی
” اا ایم سوری ۔۔”
حُرّہ نے ہچکیاں بھرتے ہوئے کہا تو عباس نے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ لیے تو حُرّہ اس کی گرفت میں ذرا سی کسمائی تھی
” اب کیا ہوا ۔۔؟”
عباس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا
” آپ کی مونچھیں چبھی ہیں ۔۔ “
حُرّہ نے بے اختیار منہ بسور کر کہا تو عباس کا جاندار قہقہہ فضاء میں بلند ہوا حُرّہ بھینپ گئی اور خفت مٹانے کو منہ عباس کے کشادہ سینے میں چھپا گئی
” اب بتائیں میری جان کو کیا پریشانی تھی ۔۔ ؟”
حُرّہ کو نرمی سے کاندھوں سے تھام کر عباس نے سنجیدگی سے پوچھا تو حُرّہ کے لب کاٹے
” کیا بات ہے حُرّہ ۔۔؟”
حُرّہ کے سرخ لبوں پر اپنے ہاتھ کا انگوٹھا پھیرتے ہوئے عباس نے اس کے معصوم چہرے کو دیکھا
” آپ اتنے اچھے کیسے ہیں ۔۔ کیا کوئی اتنا اچھا بھی ہو سکتا ہے ۔۔ آپ کو کبھی غصہ نہیں آتا ۔۔ ؟”
عباس کے چہرے کو قریب سے دیکھتی وہ بھیگی آواز میں پوچھ رہی تھی
ایسا نہیں ہے کہ حُرّہ نورے کی وجہ سے پریشان ہو گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی عباس کبھی اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گا ہاں بے چین ہوئی تھی مگر عباس کے اتنے نرم رویے پر وہ چاہ کر بھی کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتی تھی جو اس کے اور عباس کے درمیان کشیدگی پیدا کرے
” اب میں اپنی تعریف اپنی زبان سے کیسے کروں ۔۔ جانم آپ نے کر دی اتنا بہت ہے ۔۔ “
عباس نے چہرے پر شرارت سجائے کہا تو حُرّہ مسکرانے لگی
” خیر یہ بتائیں سیدھی طرح کوئی مسئلہ تو نہیں ہے نا ۔۔ ؟ کسی بات کی پریشانی ۔۔؟”
عباس جانتا تھا حُرّہ کا اس کے سوا دنیا میں کوئی نہیں ہے وہ ہر طرح سے حُرّہ کا خیال رکھتا تھا تاکہ حُرّہ بے جھجک کوئی بھی بات یا اپنی پریشانی اس سے بانٹ سکے تبھی نہایت نرمی سے دوبارہ پوچھا
” جس لڑکی کے نصیب میں آپ جیسا ہمسفر ہو ۔۔ اس کا ہر درد و دکھ کا مداوا ہو جاتا ہے ۔۔ جانتے ہیں کیوں ۔۔ ؟”
عباس کے وجود سے اٹھتی خوشبو کو محسوس کرتی حُرّہ بے خودی میں بول رہی تھی جبکہ عباس چہرے پر گہری مسکراہٹ سجائے حُرّہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا حُرّہ کے سوال کرنے پر عباس نے بھویں اور کاندھے اچکائے
” کیونکہ آپ خوبصورت ثواب ہیں جو خدا نے امتحانوں کے ثمر کے طور پر مجھے دیے ہیں ۔۔ “
عباس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی حُرّہ خوش دلی سے بولی جبکہ عباس مسکراتے چہرے سمیت اسے دیکھ رہا تھا
” مجھے خدا سے بہت شکوے تھے ۔۔ میرے بابا اور ماں جب مجھے چھوڑ کر گئے تو میں اپنے مرنے کی دعا بھی کرتی تھی ۔۔ “
روندی آواز میں بولتے ہوئے حُرّہ چند لمحوں کے لیے رکی جبکہ عباس کے مسکراتے لب سکڑے
” مم مگر اب خدا کا بے انتہا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی آخری سانس تک آپ کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں ۔۔ “
کہتے ہوئے حُرّہ نے سر عباس کے کاندھے پر ٹکا لیا عباس کو پل پل احساس ہوتا تھا کہ حُرّہ نے کس قدر محرومی اور سختی کی زندگی گزاری تھی
” حُرّہ میری جان کبھی بھی خود کو اکیلا مت سمجھیے گا ۔۔ میں ہر اچھے برے وقت میں آپ کے ساتھ ہوں ۔۔ “
عباس نے حُرّہ کے گرد اپنے بازو حمائل کرتے ہوئے محبت سے کہا
” آپ کے بغیر مر جاؤں گی میں ۔۔ “
حُرّہ نے بھی اپنے بازو عباس کے گرد حائل کرتے ہوئے کہا تو عباس نے تڑپ کر اسے دیکھا جو آنکھیں موندے اس کے کاندھے پر سر رکھے کھڑی تھی
” پلیز حُرّہ ۔۔ ایسے نہیں کہیں ۔۔ !”
عباس نے خفگی سے کہا تو حُرّہ کے لب مسکرائے
” جو حکم سرکار ۔۔!”
ذرا سا چہرہ بلند کر کے عباس کو دیکھتے ہوئے حُرّہ نے مسکرا کر کہا تو عباس نے بھی مسکراتے ہوئے اسے خود میں مزید بھینچ لیا۔
وہ اپنا ماسٹرز میں ایڈمیشن کروا کر شہر سے حویلی واپس جا رہی تھی صبح عباس ہی اسے شہر لے کر آیا تھا مگر پھر مصروفیت کے باعث اس نے نورے کو ڈرائیور کے ساتھ واپس حویلی بھیج دیا وہ ابھی گاڑی میں بیٹھی حُرّہ اور عباس کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی
حُرّہ اور عباس کے رشتے کی نوعیت ہر ایک پر یہی بات واضح کر چکی تھی کہ حُرّہ ، عباس کے بچے کی ماں بننے والی تھی اور یہ بات سوچتے ہی نورے کے دل میں پھانس سی چبھ رہی تھی اور گود میں دھری ہوئی ہتھیلیاں آنسوؤں سے تر ہو رہیں تھی
نورے وہ لڑکی ہے جس کا دکھ وہ دکھ ہے جسے معاشرے کی وہ لڑکیاں محسوس کر سکتیں ہیں جنہیں ٹھکرا دیا جاتا ہے وہ شخص جسے بچپن سے محبت کی ہو ، اس کے ساتھ کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوں اسی کو کسی دوسرے کی دسترس میں دیکھنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے یہ وہی جانتا ہے جو اس اذیت ناک لمحوں سے گزر رہا ہوتا ہے مگر وہ ایک حقیقت پسند اور صابر لڑکی تھی جس نے اس بات کو خاموشی سے قبول کیا تھا ورنہ اگر وہ واویلا کرتی اور جذبات سے کام لیتی تو یقیناً اپنا نقصان کر بیٹھتی مگر اس نے سب کچھ خدا پر چھوڑ دیا تھا وہ جانتی تھی خاندان کے سخت اصولوں کے باعث وہ ساری زندگی عباس کے نام پر گزارے گی کیونکہ عباس کبھی بھی اسے نہیں اپنائے گا عباس کی آنکھوں میں حُرّہ کے لیے محبت وہ پہلی نگاہ میں ہی محسوس کر چکی تھی عباس کی نگاہ میں اسنے اپنے لیے ہمیشہ عزت و احترام دیکھا تھا مگر حُرّہ کے لیے اس کی آنکھوں میں محبت تھی
ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اس نے اپنی نم آنکھیں کھڑکی کے باہر مرکوز کر لیں اور شہر کی رونقیں دیکھنے لگی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ گاڑی ایک جھٹکے سے گزری
” کیا ہوا بابا جی ۔۔؟”
نورے نے یکدم پریشانی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ڈرائیور سے پوچھا
” معلوم نہیں بی بی جی ۔۔ اچانک کیا ہو گیا ۔۔ “
ڈرائیور نے خود بھی پریشانی سے کہا
” بابا جی چیک کریں گاڑی کیوں رک گئی اچانک ۔۔ ؟”
نورے نے آس پاس اکا دکا گاڑیاں گزرتے دیکھ کر خاصی گھبراہٹ سے دوبارہ کہا تو ڈرائیور جی کہتا گاڑی سے نکل گیا جبکہ نورے نے چادر کو درست کرتے ہوئے گاڑی کی کھڑکی سے آس پاس نگاہ دوڑانے لگی کافی دیر گزر گئی تھی جب نورے نے گاڑی کا شیشہ کھولتے ہوئے ڈرائیور کو دیکھا جو گاڑی چیک کر رہا تھا
” کیا ہوا بابا جی ۔۔ ؟ کتنی دیر لگے گی ۔۔؟”
چہرے پر چادر سے نقاب کرتے ہوئے نورے نے پوچھا
” بی بی جی پتہ نہیں کیا خرابی ہو گئی ہے ۔۔ آپ فکر نہیں کریں میں چھوٹے سردار کو کال کرتا ہوں ۔۔ وہ آپ کو لے جائیں گے ۔۔ “
ڈرائیور نے نورے کا گھبرایا ہوا انداز دیکھتے ہوئے سر جھکائے کہا تو نورے نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا مگر جانے کیوں اسے انجانے سے خوف نے آن گھیرا جب سے عابی کے ساتھ وہ الم ناک سانحہ ہوا تھا اس وقت سے ایسے خوف اسے اپنے گھیرے میں لیے رکھتے تھے
” بی بی جی سرکار کال نہیں اٹھا رہے ۔۔ “
ڈرائیور نے گاڑی کے پاس آ کر نورے سے کہا تو نورے مایوسی سے سڑک پر آس پاس اکا دکا گاڑیوں کو دیکھنے لگی
” بابا گاڑی ٹھیک نہیں ہو سکتی کیا ۔۔؟”
نورے نے کچھ فاصلے پر کھڑے ڈرائیور کو پھر سے مخاطب کیا اس کی آواز میں خوف واضح تھا
” بی بی جی دیر لگے گی ۔۔ کیونکہ مکینک کو دیکھانی پڑے گی ۔۔ “
ڈرائیور کے کہنے پر نورے نے سر ہاتھوں میں گرا لیا
” یا اللہ مجھے اس مشکل سے نکال دیں ۔۔ کسی کو محسن بنا کر بھیج دیں ۔۔ عباس ہی آ جائیں پلیز ۔۔ “
بمشکل بہتے آنسوؤں کو روکتے ہوئے وہ دل میں دعائیں کرنے لگی مگر دل زور و شور سے دھڑک رہا تھا جب ایک بڑی کالے رنگ کی گاڑی ان کی گاڑی کے آگے آکر رکی نورے نے فوراً سر اٹھا کر ایک خوش شکل وجہہ مرد کو گاڑی سے نکل کر ان کی گاڑی کہ سمت بڑھتے دیکھا اس اچانک افتاد پر نورے یک ٹک اسی کو دیکھے گئی جو پینٹ پر نیلی شرٹ پہنے اجلے چہرے پر کالے چشمے لگائے ہلکی مسکراہٹ چہرے پر سجائے نورے تک پہنچ چکا تھا وہ ضروری میٹنگ سے واپس آ رہا تھا جب بے خیالی میں نگاہ سڑک پر موجود گاڑی میں بیٹھی اسی اداس چہرے والی لڑکی پر پڑی جو اسے اب وہ مسلسل سوچا کرتا تھا ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عالیان نے گاڑی روکی اور نورے کی جانب بڑھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا جس نے اسے اس اداس چہرے والی لڑکی سے ملا دیا تھا ورنہ وہ اسی کشمکش میں ہی تھا کہ عباس سے کیسے اس کے بارے میں پوچھے
” کیا ہوا میڈم ۔۔ کین آئی ہیلپ یو ۔۔ ؟”
ڈرائیور کو مکمل نظرانداز کرتا وہ نورے کے اداس و خوبصورت چہرے پر نگاہیں جمائے خوش دلی سے پوچھ رہا تھا اپنے چہرے پر عالیان کی نگاہیں محسوس کرتے ہی نورے نے اپنے چہرے پر چادر سے پھر سے نقاب کر لیا اور خشک لبوں کو تر کیا
” کیا آپ انگریزی نہیں سمجھتی ۔۔ ؟”
عالیان نے بھرپور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے مصنوعی افسردگی سے پوچھا جبکہ عالیان کی بات سن کر نورے پہلے سٹپٹائی پھر غصے سے عالیان جو تکنے لگی جو اسے ان پڑھ سمجھے ہوئے تھا جبکہ وہ تو ابھی اپنا ایم اے انگریزی میں داخلہ کروا کر آرہی تھی
” میرا مطلب ہے محترمہ ۔۔ آپ کو شاید میری مدد کی ضرورت ہے ۔۔ ؟”
نورے کی جانب سے مکمل خاموشی پر عالیان نے اپنی بات کا ردوبدل کرتے ہوئے پھر سے کہا تو نورے نے چہرہ موڑ کر اسے نظرانداز کیا
” کیا آپ کو اردو بھی سمجھ نہیں آتی ۔۔ یا خدا مجھے تو پشتو بھی نہیں آتی ۔۔ “
نورے کے چہرہ موڑنے پر عالیان مسکراہٹ لبوں پر سجائے خاصی بلند آواز میں اسے تنگ کرنے کی غرض سے بولا جبکہ اس کی بات سن کر نورے نے ماتھے پر بل ڈالے اسے گھورا جو بلاوجہ ہی اس سے فری ہو رہا تھا
” صاحب تم جاؤ یہاں سے ۔۔ خبردار اگر ہماری بی بی کو پریشان کیا ۔۔ جانتے نہیں ہو کہ کون ہیں یہ ۔۔ “
ایک اجنبی کو مسلسل نورے سے مخاطب ہوتا دیکھ کر ڈرائیور نے خاصی بلند آواز میں عالیان کو دھمکی دی
” وائے قسمت ۔۔ مائی گڈنس ۔۔ کیا تمہاری بی بی گونگی ہے ۔۔ ؟؟”
عالیان نے پہلے مصنوعی افسردگی اور پھر خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخر میں ڈرائیور کو مخاطب کیا جبکہ اس کی بات پر نورے کو سامنے کھڑے شخص پر شدید غصہ آیا
” ہمیں آپ کی کوئی مدد نہیں چاہیے ۔۔ آپ مہربانی کریں اور اپنے راستے چل پڑیں محترم ۔۔ “
لفظ چبا کر ادا کرتے ہوئے نورے خاصی جھنجھلا کر بولی تو عالیان کے لبوں پر سجی مسکراہٹ گہری ہوئی
” اوہ میں تو کچھ اور ہی سمجھ رہا تھا لیکن آپ تو ماشااللہ بہت شیریں آواز میں بول لیتی ہیں ۔۔ یہ الگ بات ہے کہ الفاظ تیر کی مانند ہیں ۔۔ مگر آپ کے دیے گئے تیر بھی خوش دلی سے قبول ہمیں ۔۔ “
کالا چشمہ اتار کر ہاتھ میں لیتے ہوئے عالیان نے نورے کی چادر میں چھپے ہوئے چہرے کو تکتے ہوئے مسلسل مسکراتے ہوئے کہا جبکہ نورے کو اس پر شدید غصہ آیا مگر خاموش رہی
” مجھے لگتا ہے آپ کی گاڑی خراب ہو گئی ہے ۔۔ آپ چاہیں تو میں آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا سکتا ہوں ۔۔ “
اس مرتبہ عالیان نے قدرے سنجیدگی سے کہا
” بہت شکریہ آپ کا ۔۔ لیکن میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی ۔۔ آپ جا سکتے ہیں ۔ “
عالیان کو پہلی مرتبہ سنجیدہ دیکھتے ہوئے نورے نے بھی نارمل انداز میں کہا
” دیکھیں آج کل کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ میں آپ کو اکیلا سنسان سڑک کے بیچ چھوڑ دوں ۔۔ آپ بھروسہ کریں مجھ پر ۔۔ عباس کے گھر کی عزت ہیں آپ ۔۔ اور عباس میرا بھائی ہے ۔۔ “
عالیان نے ہنوز سنجیدگی سے کہا نورے نے عباس کے نام پر چونک کر اسے دیکھا
” میں نے عباس کی حویلی میں آپ کو دیکھا تھا ۔۔ اگر ابھی بھی انسکیوئر ہیں آپ تو آپ کا ڈرائیور گاڑی ڈرائیور کر لے گا ۔۔ “
عالیان نورے کی ناسمجھی کو سمجھتے ہوئے گویا ہوا
” بی بی جی جیسا آپ حکم کریں ۔۔ ؟”
عالیان کی بات پر ڈرائیور نورے سے مخاطب ہوا کیونکہ ان کی گاڑی تو فی الحال ٹھیک نہیں ہو سکتی تھی
” آپ یقین کر سکتی ہیں مجھ پر ۔۔ “
عالیان نے مضبوط لہجے میں کہا تو نورے اپنا پرس ہاتھ میں لے کر سورتیں پڑھ کر خود پر پھونکتی گاڑی سے نکل گئی جبکہ ڈرائیور گاڑی لاکڈ کرتا عالیان کی گاڑی کی جانب بڑھ گیا عالیان نے آگے بڑھ کر نورے کے لیے بیک ڈور کھولا تو وہ گاڑی میں سوار ہو گئی جبکہ عالیان ڈرائیور کے ساتھ براجمان ہو گیا
” کیا نام ہے آپ کا ۔۔ ؟”
عالیان کے پوچھنے پر کھڑکی سے باہر جھانکتی نورے نے چونک کر عالیان کو دیکھا
” آپ نے مدد کی اس کے لیے شکریہ ۔۔ اس سے زیادہ آپ امید نہ رکھیں مجھ سے ۔۔”
نورے نے دوٹوک الفاظ میں کہا تو عالیان نے لب بھینچ لیے
” آپ کی انسکیورٹی سمجھ سکتا ہوں ۔۔ خیر ایم سوری ڈئیر ۔۔ !”
عالیان نے نورے کے لیے دیے رویے پر سر ہلاتے ہوئے کہا اور پھر تمام سفر بلکل خاموشی سے کٹا حویلی پہنچ کر ڈرائیور نے عالیان کی شرافت سے متاثر ہوتے ہوئے بہت سی دعاؤں اور شکریہ کے ساتھ رخصت کیا جبکہ نورے گاڑی سے اتر کر ایک نگاہ بھی عالیان پر ڈالے بغیر حویلی میں داخل ہو گئی جبکہ عالیان اس کی پشت ہی تکتا رہ گیا
//////////////////////////
” خدا جانے کیسا کالا علم کر دیا میرے بچے پہ اس منحوس لڑکی نے ۔۔ جب سے آئی ہے ۔۔ میرا بیٹا ہی مجھ سے چھین لیا ہے ۔۔ میرا تو رہا ہی نہیں میرا بیٹا ۔۔ وہ جو ہر وقت ماں ماں کرتا تھا اب ماں کی ہر بات سے اسے اختلاف ہوتا ہے ۔۔ بس ہر وقت اس خون بہا میں آئی لڑکی کی خدمت میں لگا رہتا ہے ۔۔ جیسے وہ انوکھی اور پہلی عورت ہے جو بچہ پیدا کر رہی ہے ۔۔ “
عباس پچھلے چند دن سے شہر گیا ہوا تھا حُرّہ کو بہت سمجھا کر مگر جانے کیوں عباس کے بغیر کچھ اچھا ہی نہیں لگتا تھا اور حویلی والوں کو تو ویسے بھی حُرّہ کا وجود کھٹکتا تھا ابھی بھی وہ تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر نکلی تھی کہ سردار بی بی نے اسے دیکھتے ہی طنز و طعنوں کے تیر چلانا شروع کر دیے حُرّہ نے ان کی بات ان سنی کی اور ڈائننگ ہال میں داخل ہو کر کرسی پر براجمان ہو گئی
” یہ دن بھی آنے تھے کہ دو ٹکے کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا پڑ رہا ہے ۔۔ “
سردار بی بی پھر سے پھنکاری تھی ان کی بات پر وہاں پہلے سے موجود ناعمہ اور نورے نے حُرّہ کے بے تاثر چہرے کو دیکھا جبکہ ناہید نے بھی پہلے پریشانی کے عالم میں سردار بی بی کو دیکھا پھر حُرّہ کو جو سر جھکائے گم صم بیٹھی تھی
” اے ناہید اس نواب زادی کو کمرے میں کھانا دیا کر ۔۔ بے وجہ ہمارا دن اس کی منحوس شکل دیکھ کر شروع ہوتا ہے ۔۔ “
وہ مسلسل حُرّہ کو حقارت سے دیکھتی پھنکار رہیں تھی ان کے الفاظ حُرّہ کو سر جھکانے پر مجبور کر رہے تھے
” بی بی جی ۔۔ چھوٹے سرکار کا حکم ہے ۔۔ حُرّہ بی بی کو حویلی میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے ۔۔”
ناہید نے سر جھکائے سردار بی بی کو عباس کی باتیں یاد کروائیں جو مسلسل حُرّہ کو اپنے الفاظ سے تکلیف دے رہیں تھیں
” تو کیا سر پر بیٹھا لیں ۔۔ ؟؟”
سردار بی بی کرسی دھکیلتی اٹھ کھڑی ہوئیں اور ناہید کو دیکھتی غرائیں جبکہ حُرّہ سہم کر اپنی کرسی سے اٹھ گئی
” اے لڑکی بات سن ۔۔ بہت برداشت کر لیا ہم نے تجھے ۔۔ اب مزید نہیں ۔۔ میری بیٹی کی جگہ تو ہی کیوں نہیں مر گئی ۔۔ ارے مجھ سے تو میرا بیٹا ہی چھین لیا ۔۔ “
اس مرتبہ وہ حُرّہ کو دیکھتی غرائیں جبکہ حُرّہ ان سے تیزی سے دور ہوئی تا کہ وہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں
” سردار بی بی بلکل ٹھیک کہہ رہیں ہیں ۔۔ جب سے ہماری زندگی میں آئی ہے ایک دن سکون کا نہیں ملا ہمیں ۔۔ میری بیٹی کے حق پر ڈاکا مارا ہے اس نے ۔۔ میں کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں ۔۔ دیکھنا کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گی تم ۔۔ جیسے میری بیٹی ویران زندگی گزار رہی ہے نا ایسے ہی تم بھی رہو گی ۔۔ کسی کی خوشیاں چھین لینے کے بعد تم کیسے خوش رہ سکتی ہو ۔۔ “
ناعمہ بھی آج اپنے دل کی بھڑاس حُرّہ کو تنہا پا کر نکال رہی تھی جبکہ ان کے الفاظ سن کر حُرّہ کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا
” ماں پلیز ایسے نہیں کہیں ۔۔ “
حُرّہ کو بے آواز روتا دیکھ کر نورے نے انہیں التجائیہ انداز میں کہا
” ناعمہ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے نورے ۔۔ اسی لیے تمہارے ہاتھ خالی ہیں اس لڑکی جیسی چلاکیاں جو نہیں ہیں تم میں ۔۔ دیکھتی نہیں ہو میرا وہ بیٹا جو نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا کسی کو ۔۔ اب اس جادوگیرنی سے نگاہ ہی نہیں ہٹتی اس کی ۔۔ “
نورے کے چہرے پر حُرّہ کے لیے ہمدردی دیکھ کر سردار بی بی مزید غصے میں دھاڑیں جبکہ نورے نے افسوس سے سر جھکا لیا اور حُرّہ دوپٹے سے پرنم چہرہ صاف کرتی ہال سے نکلنے لگی
” میری بیٹی کی خوشیوں کے راستے پر حائل ہو تم ۔۔ اگر تم چلی جاؤ سردار کی زندگی سے تو میری بیٹی کی حصے کی خوشیاں مل جائیں اسے ۔۔ ذرا دیکھو مڑ کر میری بیٹی کا اداس چہرہ ۔۔ کیا ایسے میں تم خوش رہ پاؤ گی ۔۔ “
ناعمہ کے الفاظ نے حُرّہ کے آگے بڑھتے قدم روک دیے وہ مڑ کر نورے کو دیکھنے لگی
” ارے ناعمہ اس مکار لڑکی سے امید لگا رہی ہو تم ۔۔ بھول ہے تمہاری ۔۔ یہ عباس کا پیچھا چھوڑے گی ۔۔ ارے جانتی نہیں ہو تم ایسی مکار لڑکیوں کو ۔۔ جانے کیا کیا ادائیں دیکھائی ہیں میرے بیٹے کو ۔۔ مجھے تو یقین ہے یہ بدکردار لڑکی ہے ۔۔ اور یہ بچہ بھی میرے بیٹے کا نہیں ہے ۔۔ “
وہ اپنے الفاظ سے حُرّہ کے سینے میں چھید کر رہیں تھیں حُرّہ نے تڑپ کر انہیں دیکھا جو اس پر بہتان لگا رہیں تھیں
” میں ہمیشہ آپ کی ہر بات پر خاموش رہی ہوں مگر اب بات میرے کردار کی ہے تو ۔۔ میری پاکیزگی میرا خدا جانتا ہے ۔۔ مجھے کسی کو اپنے کردار کی صفائیاں دینے کی ہرگز ضرورت نہیں ۔۔ رہی بات آپ کو آپ کی بات کا جواب دینے کی ہے تو سن لیں اگر میرا کردار مشکوک ہوتا تو آپ کا بیٹا اتنا غیرت مند تو ہے ہی جو اگر میں آپ کی کند سوچ کے مطابق ہوتی تو وہ مجھے ہرگز اتنی عزت کے ساتھ کبھی حویلی میں نہ شریک حیات کے طور پر نہ رکھتا ۔۔ “
سپاٹ چہرہ بلند کیے اپنی آنکھیں بھی سردار بی بی کی آنکھوں میں گاڑے حُرّہ پہلی مرتبہ بلند آواز میں مضبوط انداز میں بولی تھی کہ سردار بی بی سمیت وہاں موجود تمام نفوس ہونقوں کی طرح اسے بولتے دیکھ رہے تھے
” تمہاری اتنی ہمت تم میرے سامنے زبان چلا رہی ہو ۔۔ ؟؟”
ماحول پر چھایا سکوت سردار بی بی کی کرخت آواز نے توڑا جبکہ حُرّہ ہنوز سپاٹ چہرہ لیے انہیں دیکھ رہی تھی
” میں تو محض بات کر رہی ہوں سردار بی بی ۔۔ “
حُرّہ نے کاندھے پر ڈالی شال پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے عام سے انداز میں کہا
” تمہاری اوقات ہے ہم سے بات کرنے کی ۔۔ ؟”
سردار بی بی غضب ناک تاثرات لیے اس کی سمت بڑھیں جبکہ حُرّہ حلق تر کرتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوئی
” بب بی بی جی ۔۔ !”
ناہید بوکھلا کر حُرّہ کے قریب آئی اسے سردار بی بی کے تاثرات خاصے خطرناک لگے
” اے ناہید تو ہٹ جا اس کے آگے سے ۔۔ !”
ناہید کو دیکھتے ہی سردار بی بی چیخیں
” کیا کیا بکواس کر رہی تھی تو میرے سامنے ۔۔ ؟؟ تیری اتنی جرات کے تو میرے ۔۔ گاؤں کی سردار بی بی کے سامنے بکواس کر رہی تھی ۔۔ “
سردار بی بی انگشت شہادت سے اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے غرائیں ان کے تاثرات دیکھ کر حُرّہ مزید چند قدم ان سے دور ہوئے
” تو بدکردار ہے ۔۔ ہم نہیں مانتے کہ یہ بچہ جس کے نام سے تو میرے بیٹے کو بےوقوف بنا رہی ہے وہ ہمارا خون ہے ۔۔ “
انہوں نے چنگھاڑتے ہوئے حُرّہ کو جھنجوڑ کر دھکا دیا مگر اس سے پہلے وہ حُرّہ کا سب سے بڑا نقصان اسے اس قدر جارحانہ انداز میں دھکا دے کر کرتیں کہ دو مضبوط ہاتھوں نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں بھر لیا حُرّہ بے تحاشہ خوفزدہ ہو کر عباس کو بنا دیکھے اس کے سینے سے لگ گئی مگر وہ اس کی خوشبو سے ہی پہچان گئی تھی کہ اس کو نقصان سے بچانے والا اس کا محسن اس کا شوہر عباس ہی ہے جبکہ عباس حُرّہ کے گرد اپنے بازؤں کا گھیرا بنائے پتھرائے تاثرات لیے کھڑا تھا وہ باآسانی حُرّہ کا لرزتا وجود محسوس کر رہا تھا خود بھی تو اس کا دل کانپ گیا تھا اگر وہ وقت پر نہ آتا تو کیا ہو سکتا تھا
عباس کی اچانک آمد پر وہاں موجود ہر نفوس کو جیسے سانپ سونگھ گیا سردار بی بی نے عباس کے پتھرائے ہوئے تاثرات دیکھے تو یکدم گھبرا گئیں اسی وقت سردار شیر دل حویلی میں داخل ہوئے تمام مکینوں کی وہاں موجودگی اور پھر عباس سے لپٹی لرزتی ہوئی حُرّہ کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئے
” عباس کیا ہوا ۔۔؟؟ تم کب آئے ۔۔؟”
سردار شیر دل کی آواز نے خاموشی میں اشتعال برپا کیا
” یہ تو مجھے آپ سے پوچھنا چاہیے بابا سرکار ۔۔ کہ میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے ہوتے ہوئے میری بیوی کے ساتھ یہ کس طرح کا سلوک رواں رکھا گیا ہے آپ کی حویلی میں ۔۔ “
عباس حُرّہ کے گرد اپنا بازو حمائل رکھے ہوئے سپاٹ انداز میں بولا تو سردار شیر دل کی پیشانی پر بل پڑے
” یہ صرف میری حویلی نہیں ہے ۔۔ آپ وارث ہیں ہمارے ۔۔ اور اب آپ کی اولاد وارث ہے اس حویلی کی ۔۔ “
سردار شیر دل ، عباس کی بات کا جواب نہایت سنجیدگی سے دیتے ہوئے حُرّہ کو دیکھنے لگے جو ان کی آمد پر عباس کی گرفت سے نکلنا چاہتی تھی مگر عباس نے ایک بازو سے اسے اپنے گھیرے میں لیے رکھا تھا
” وہ اولاد جسے میری ہی ماں جب چاہے گالی دے دیتیں ہیں بابا سرکار ۔۔ وہ اولاد جسے ابھی میری ہی ماں ختم کرنا چاہتیں تھیں اپنے فعل سے ۔۔ “
عباس اس مرتبہ سردار بی بی کو دیکھتے ہوئے کرب سے بولا تھا اس کی بات پر سردار شیر دل نے سردار بی بی کو دیکھا تو وہ گھبرا کر پیچھے ہوئیں
” کیا کہہ رہے ہو یہ ۔۔ ؟؟”
سردار شیر دل نے عباس سے پوچھا وہ لب بھینچ گیا
” میں نے کچھ غلط نہیں کیا عباس ۔۔ یہ تمہاری اولاد نہیںںں ۔۔”
ابھی سردار بی بی بول ہی رہیں تھیں کہ عباس نے تڑپ کر انہیں دیکھا
” خدا کا واسطہ ماں جی ۔۔ میری اولاد کے متعلق ایسے الفاظ بول کر مجھے تکلیف مت دیں ۔۔ “
عباس نے حُرّہ کو اپنے کاندھے سے جدا کرتے ہوئے اس کی کلائی تھامتے ہوئے کمال ضبط سے کہا
” عباس تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ۔۔ میں ہرگز اس لڑکی کو تمہاری بیوی کی حیثیت سے قبول نہیں کر سکتی ۔۔ “
عباس کے چہرے پر اذیت کے تاثرات محسوس کرتے ہوئے اس مرتبہ سردار بی بی آہستگی سے بولیں سردار شیر دل نے ملامت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھا وہ معاملے کو کافی حد تک سمجھ چکے تھے
” ٹھیک ہے ماں ۔۔ میں آپ کو مزید اذیت سے دوچار نہیں کروں گا ۔۔ “
عباس نے حُرّہ کی کلائی چھوڑ کر سردار بی بی کے قریب جا کر ان کے ہاتھ کو عقیدت سے اپنے ہاتھوں میں لے کر لبوں سے لگایا
” عباس ۔۔ !”
سردار بی بی نے اسے پکارا
” خیال رکھیے گا ماں اپنا ۔۔ میں چکر لگاتا رہوں گا ۔۔ “
سردار بی بی کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے وہ بولا اور پھر حُرّہ کا ہاتھ تھام لیا
” کیا کرنا چاہ رہے ہو عباس ۔۔ ؟؟”
سردار شیر دل نے ٹھٹھک کر پوچھا
” میں اب کوئی رسک نہیں لے سکتا بابا سرکار ۔۔ اب حُرّہ وہاں رہیں گیں جہاں میں رہوں گا ۔۔ “
عباس سرسری سا کہتا حُرّہ کو اپنے ساتھ لگائے جیسے اچانک حویلی آیا تھا ویسے ہی اچانک سب کو حیرت ۔۔زدہ چھوڑ کر جا چکا تھا
2 Comments
Add a Comment