Main Hun Badnaseeb Part 7 – A Heartbreaking Romantic Urdu Novel

Read “Main Hun Badnaseeb” Part 7, a heart-touching romantic Urdu novel filled with love, betrayal, and suspense. Dive into an emotional journey that keeps you hooked till the end.

Read here part 6 . Main Hun Badnaseeb urdu novel

Romantic Urdu Novel

Main Hun Badnaseeb Part 7 – Heartbreaking Romantic Urdu Novel

سردار بی بی کو سینے پر ہاتھ رکھ کر گھر اگر اسانس لیتے دیکھ کر عباس پریشانی کے عالم میں ان کی جانب بڑھا مگر ان کی تو حالت ہی بگڑنے لگی سب ہی پریشان سے سردار بی بی کو پکار رہے تھے مگر ان کی
آنکھیں بند ہونے کے در پہ تھیں
شہزاد گاڑی نکالو ۔ ۔
بلند آواز میں شہزاد کو حکم دیتے ہوئے عباس نے سردار بی بی کو اٹھایا اور باہر کی سمت بڑھے سردار
شیر دل ، ناعمہ ہمدانی اور نورے بھی اس کے پیچھے لیکے جبکہ حُرہ اچانک ہوئی اس کاروائی پر حقیقتاً
پریشان ہو گئی
سردار بی بی کو مائنر اٹیک ہوا تھا جس باعث سب پریشان تھے اگلے چند دن انہیں ہسپتال میں رکھا گیا تھا اس دوران سردار بی بی ہر وقت عباس کو اپنے پاس رکھتیں وہ محض کپڑے بدلنے یا کھانا کھانے حویلی جا تا پھر ہسپتال چلا جاتا تقریباً ایک ہفتہ انہیں ہسپتال رکھا گیا اس دوران عباس کی ایک مرتبہ حُرہ سے حویلی میں سرسری سی ملاقات ہوئی جبکہ باقی گھر والوں کی طرح حُرہ بھی پریشان تھی بیشک سردار بی بی نے ہمیشہ اسے اپنی نفرت اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا مگر تھیں تو وہ ایک ماں اور ماں کیا ہوتی ہے یہ کوئی

حُرہ سے پوچھے جو آخری وقت میں اپنی ماں سے بھی نہ مل سکی پھر عباس اس قدر پریشان رہتا تھا کہ حُرہ سردار بی بی کی صحت اور زندگی کی دعائیں مانگنے لگی
اس دن کے بعد ناہید نے پھر کبھی اس سے بد تمیزی سے بات نہیں کی تھی مگر کام وہ پورے اپنے
حصے کے کرتی تھی
دو دن پہلے ہی سردار بی بی کو طبیعت بہتر ہونے پر عباس گھر لے آیا تھا اور پھر فوراً ہی شہر کو روانہ ہو گیا تھا جبکہ آج سردار بی بی نے اپنے کمرے میں نور ےکو بلوایا تھا
ناہید میرے کنگن لے کر آ ۔ ۔
ناہید کو ڈریسنگ ٹیبل کے دراز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سردار بی بی نے حکم دیا اس وقت ناعمہ
اور نور ے دونوں ہی ان کے پاس ان کے کمرے میں موجود تھیں
بی بی جی یہاں تو کنگن نہیں ہیں ۔ ۔
دراز کھنگارنے کے بعد ناہید نے کہا تو سر دار بی بی کے ماتھے پر بل پڑے یہ وہ کنگن تھے جو وہ ہر وقت پہنے رکھتی تھیں بیماری کے دوران ہسپتال میں اتارے گئے تھے
ارے باولی ہو گئی ہے کیا ۔ ۔ یہیں ہوں گے دیکھ صحیح ہے ۔ اسے کہتے ہوئے وہ خود بھی بیڈ سے اٹھ گئیں۔

سردار بی بی آپ بیٹھیں آرام کریں نورے تم دیکھو ذرا ۔ ۔ نامہ نے انہیں اٹھتا دیکھ کر نورے کو کہا تو نورے فوراً اٹھی اور دراز کھنگالنے لگی
یہاں تو نہیں ہیں سردار بی جی ۔ ۔
نورے کا جواب سن کر سر دار بی بی خود اٹھیں اور دیکھنے لگیں مگر بے سود
کہاں جاسکتے ہیں ۔ ۔ ارے ناعمہ ہر وقت پہنے کی عادت تھی مجھے ۔ ۔ زندگی میں پہلی بارا تارے تو سوچا اپنی ہونے والی بہو کو پہناؤں گی اب ۔ ۔ مگر یہ کیا بد شو گنی ہو گئی ۔ ۔ عباس کی دادی نے عباس کے
پیدا ہونے پرمجھے دیے تھے

مگر بی بی آج تک کبھی حویلی میں کوئی چیز ادھر سے ادھر نہیں ہوئی ۔ پھر آج کیسے ہو سکتی ہے ۔ ناہید ، ان کے قریب جا کر کہتی ہے تو سر وار بی بی اس کی بات سن کر ٹھٹک جاتیں ہیں
ہاں ۔ ۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ ۔ تو آج چوری کیسے ہو سکتی ہے ۔ ۔ انہوں نے سر بلاتے ہوئے پر سوچ انداز میں کہا۔

بی بی مجھے سب ملازمین پر بھروسہ ہے مگر وہ جو لڑکی ہے نا اس پر شک ہو رہا ہے ۔ سردار بی بی کے کان کے قریب سر گوشی کرتے ہوئے کہا کہ اس کی آواز اتنی مدھم تھی کہ وہاں موجود نورے اور ناعمہ نہ سن سکیں جبکہ سر دار بی بی یکدم غصے میں بولیں
اس لڑکی کو بلواؤ
پھر اگلے چند لمحوں میں حُرہ ان کے سامنے موجود تھی
اے لڑکی مجھے سچ سچ بتا دے ۔ کہ میرے کنگن تو نے چوری کیے ہیں ۔ ۔ ؟؟ حُرہ کے بال جکڑے وہ دھاڑیں جبکہ ان کی بات سن کر حُرہ کے پیروں سے زمین نکل گئی
نن نہیں ۔ ۔ م میں نے نہیں کی ۔ ۔ مم میں چ چور نہیں ہوں ۔ حُرہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی آنکھیں اس کی آنسوؤں سے بھر گئیں
جھوٹ بولی تو زبان کاٹ دوں گی تیری ۔ ۔ بول کہاں ہیں کنگن ۔ ۔ ؟؟
حُرہ کا چہرہ دبو چےوہ دھاڑیں تھیں ناعمہ اور نورے پریشانی سے ساری صورتحال دیکھ رہیں تھیں جبکہ ناہید کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی۔

مجھے ن نہیں معلوم ۔ ۔ روتی ہوئی وہ بمشکل بول سکی تھی
گھٹیا ، نیچ خاندان کی لڑکی ہے تو ۔ ۔ تجھ سے کوئی بھی امید کی جا سکتی ہے ۔ ۔ شرافت سے بتا دے
نہیں تو ہاتھ کٹوا دوں گی ۔ ۔
انہوں نے ایک جھٹکے سے اسے زمین پر پھینکتے ہوئے دھمکی دی جبکہ اب حُرہ مسلسل روتے ہوئے نفی میں سر بلا رہی تھی اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کنگن کہاں ہیں مگر چوری کا الزام لگ
گیا تھا
م میں چ چور نہیں ہوں مجھے کچھ نہیں پتہ۔
حُرہ سسکتی ہوئی کہہ رہی تھی
ناہید میرے کمرے کی صفائی کون کرتا ہے ۔ ۔
سردار بی بی نے مڑ کر ناہید سے پوچھا
یہی کرتی ہے بی بی جی ۔ ۔

ناہید نے فرش پر گری سہمی ہوئی حُرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
ابھی اس کے کمرے کی تلاشی لیتے ہیں پتہ چل جائے گا کہ چوری کس نے کی ہے ۔ ۔ سر وار بی بی نے کہتے ہوئے حُرہ کا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ چلنے لگیں جبکہ ناعمہ نورے اور ناہید بھی ان
کے پیچھے تھیں
کمرے میں داخل ہو کر سردار بی بی نے ملازمہ سے کمرے کی تلاشی لینے کو کہا جبکہ حُرہ سہمی آنکھوں سے ملازمہ کو دیکھ رہی تھی جانے آگے کون کون سے امتحان دینے باقی تھے،۔ چٹائی کے اوپر رکھی حُرہ کی چادر کے پلو سے سردار بی بی کے کنگن اور کچھ نوٹ برامد ہو گئے۔
اور وہاں موجود تمام نفوس اپنی جگہ ساکت ہو گئے تھے حُرہ نے بے یقینی سے ان کنگن کو دیکھا جسے وہ پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی
ہاں اب بول کہ تو نے چوری نہیں کی ۔ ۔
سر وار بی بی کنگن ہاتھ میں لیتے ہوئے حُرہ کی جانب مڑتے ہوئے غرائیں

مم میں نے چ چوری نہیں کی ۔ ۔
حُرہ خوف سے چند قدم پیچھے ہوتی ہوئی روتے ہوئے بولی
ہمم اور یہ اتنے سارے پیسے تیرے پاس کہاں سے آئے ۔ ۔ ؟؟ اب انہوں نے نوٹ حُرہ کی جانب اچھالتے ہوئے پوچھا
یہ مجھے ۔ ۔ سس سردار ۔ ۔
لڑکی تو ، تو واقعی بہت بڑی چور ہے میرے کنگن بھی چرا لیے اور اتنے سارے پیسے بھی ۔ ۔ “
حُرہ کے بولنے سے پہلے ہی وہ اس کی بات کاٹ کر بولیں
اچھا اگر تو نے چوری نہیں کی تو یہ تیری چادر کے پلو میں کیا کر رہیں ہیں ۔ ۔
سر دار بی بی کنگن ہاتھ میں لیے دھاڑیں
م مجھے نہیں پتہ ۔ ۔ ہم میں نہیں جانتی ۔ ۔

حُرہ نفی میں سر ہلاتی آنکھوں میں خوف لیے بولی تو سر دار بی بی نے بازو سے جکڑ کر اسے سامنے کیا اور اس کے چہرے پر زور دار طمانچے مارنے لگیں یہ ہولناک منظر دیکھ کر نورے سے رہا نہیں گیا اور آگے بڑھی جب ناعمہ نے اس کا بازو تھام کر اسے روک دیا
اپنے کمرے میں جاؤ نورے ۔ ۔ !” ناعمه دھیمی آواز میں حکمیہ انداز میں بولیں تھیں
ماں وہ ۔ ۔
” تم چلو یہاں سے ۔ نورے نے کچھ بولنا چاہا تھا
جب ناعمہ نے اسے روک دیا اور اسے لے کر کمرے سے نکل گئیں جبکہ سے
پیچھے سردار بی بی حُرہ کو بری طرح مار رہیں تھیں یہاں تک کہ وہ شدت در دسے نڈھال ہو گئی
میرے بیٹے کے ساتھ کے خواب دیکھے نا تو نے تو آ نکھیں نوچ لوں گی تیری ۔ ۔ حُرہ کو فرش پر پٹخ کر وہ دندناتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں ان کے پیچھے ناہید بھی لبوں پر مکروہ مسکراہٹ سجائے نکل گئی جبکہ حُرہ بری طرح رونے لگی۔

یا اللہ اور کتنے امتحان باقی ہیں ۔ ۔ اتنی نفرت ۔۔ اتنی حقارت ۔ ۔ اتنے الزام ۔ ۔ اور نہیں برداشت ہو تا مجھ سے ۔ ۔ ماں بابا مجھے اپنے پاس بلالیں پلیز ۔ ۔ اور نہیں سہہ سکتی ۔ ۔ زمین پر اوندھے منہ گری وہ شدت سے رو رہی تھی
مگرا بھی اس کے امتحان باقی تھے ہر ملے گئے دکھ کی طرح اس دکھ ، اذیت کو ساری رات رو لینے کے بعد اسکے طلوع ہونے والے دن پھر سے وہی نفرت ، وہی ذلت اس کی زندگی میں شروع ہو گئی مگر اگلے دودن سزا کے طور پر اسے ایک وقت کا کھانا دیا جاتا کھاتی تو وہ پہلے بھی بچا ہوا تھا اور پھر جب وہ رات کو سارے اپنے ذمے کے کام نبٹا کر اس کمرے میں بچھی چٹائی پر آلیٹی تھی تو اس کی طبیعت اچانک خراب ہونے لگی جی متلی کرنے لگا ، ابکائیاں آنے لگیں، سر بری طرح چکرانے لگا مگر اس بڑی سی حویلی میں کسی کو اس کے دکھوں ، کا احساس نہ تھا جانے ابھی اس کی اور کتنی آزمائشیں باقی تھیں۔

منصور یہ شور کیسا ہے ۔ ۔
وہ اپنے آفس میں بیٹھا کیس کی فائل چیک کر رہا تھا جب اسے باہر کچھ ہل چل محسوس ہوئی
سر وہ ایک عورت اور اس کی بیٹی آپ سے ملنا چاہتی ہیں ۔ ۔ آپ نے ڈسٹرب کرنے سے منع کیا تھا اس لیے میں نے انہیں ویٹ کرنے کو کہا مگر وہ مان ہی نہیں رہیں ۔ ۔

منصور جو کہ اس کا گارڈ تھا عباس کے پوچھنے پر بتانے لگا
اچھا انہیں بھیجو ۔ ۔
عباس نے سامنے رکھی فائل بند کرتے ہوئے حکم دیا کچھ دیر میں ایک عورت اپنی بیٹی کے ساتھ
کمرے میں داخل ہوئی
تشریف رکھئیے ۔۔
عباس نے ایک سرسری سی نگاہ ان پر ڈال کر سامنے رکھیں کرسیوں کی جانب اشارہ کیا عباس کو وہ
عام طبقے سے تعلق رکھنے والی لگ رہی تھیں
ان کے پیچھے کھڑے منصور کو حکم دے کر وہ ان ماں بیٹی کی جانب متوجہ ہوا
جی میں کیا مدد کر سکتا ہوں آپ کی ۔ ۔ ؟
دھیے نرم انداز میں اس نے پوچھا تو ان دونوں ماں بیٹی کی کچھ ہمت بندھی

وکیل صاحب ہم آپ کی فیس ادا نہیں کر سکتے ۔ ۔ مگر میں چاہتی ہوں آپ ہی میری بیٹی کا کیس لڑیں
اس عورت نے اپنی سترہ اٹھارہ سالہ بیٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
“آپ بتائیں کے مسئلہ کیا ہے ۔ ۔ ؟؟ عباس نے بھر پور سنجیدگی سے پوچھا
میری بیٹی کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے صاحب ۔ ۔ میں نے سال پہلے اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ بیاہ دیا تھا اسے ۔ ۔ شادی کے ایک ماہ بعد میرا داماد باہر چلا گیا ۔ ۔ پھر تو جیسے میری بیٹی کی زندگی ہی اجیرن ہو گئی ۔ ۔ مگر صبر کر لیا ہم نے ۔ ۔ لیکن اب تو ظلم کی انتہا ہو گئی ۔ ۔ میری بیٹی کے ساتھ ۔ ۔ وہ عورت بولتے ہوئے رونے لگی تو عباس نے پانی کا گلاس اے دیا اور دوسرا گلاس
عباس نے عبائے میں لپٹی اس لڑکی کی جانب بڑھایا جو چہرہ چھپائے رو رہی تھی
دیور نے ۔ ۔
وہ دکھی ماں پھر سے بمشکل دو لفظ ادا کر پائی تھی کہ رونے لگی جبکہ وہ لڑکی بھی اب اس قدر رونے لگی تھی کہ عباس لب بھینچے سر جھکا گیا یقینا آگے کی بات وہ سمجھ گیا تھا کہ اس لڑکی کے ساتھ کیا ظلم ہوا تھا بے
ساختہ اسے عابی کے ساتھ ہوئے ظلم کا خیال آیا اور سامنے بیٹھی لڑکی میں اسے عابی کا عکس نظر آیا جسکے
باعث اس کا دل پھٹنے لگا
آپ نے مقدمہ درج کروایا ۔ ۔ ؟ چند لمحوں بعد عباس اپنی ذہنی حالت پر قا بو پا پایا تھا تو اس عورت سے پوچھا لگا جو خود بھی رو رہی تھی
ہم اپنی عزت کی خاطر خاموش ہو گئے ۔ ۔
عورت نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تو عباس نے چونک کر انہیں دیکھا
” کیا مطلب ۔ ۔ ؟ “
نا سمجھی سے پوچھا گیا
آپ کی بیٹی بے قصور ہے ۔ ۔ ظلم اس کے ساتھ ہوا ہے ۔ ۔ اگر عزت خراب ہوئی ہے تو وہ اس شخص کی ہوئی ہے جس نے یہ شرمناک حرکت کی ہے ۔ ۔ کہ اپنی ہی بھا بھی ۔ ۔ !!
دیکھیں یہی تو ہمارے معاشرے کی خرابی ہے کہ جس کے ساتھ یہ ظلم ہوتا ہے ہم اسے ہی کہتے ہیں کہ اس کی عزت خراب ہو گئی ۔ ۔ ہم اس سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ جبکہ نفرت کے قابل تو وہ

درندہ ہے ۔ ۔ جس نے یہ انسانیت سے گرمی ہوئی حرکت کی ہے ۔ ۔ آپ کیسے اس ظلم پر خاموش ہو
سکتیں ہیں ۔ ۔ ؟ “
عباس کے لہجے میں درد بول رہا تھاوہ سمجھ سکتا تھا کہ سامنے بیٹھی ماں اور بیٹی کس اذیت سے گزر رہیں عابی کے کیس کی وجہ سے بھی تو سردار شیر دل بھی عزت کی خاطر خاموش ہو گئے تھے اور کتنی مشکل سے اس نے انہیں کیس پر راضی کیا تھا
صاحب انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر کسی کو بتایا تو وہ میری بیٹی کو بدنام کر دیں گے ۔
وہ عورت دوبارہ بولی
اب بھی تو آپ میرے پاس آئیں ہیں نا ۔ ۔
کتنا عرصہ ہوا اس بات کو ۔ ۔ ؟
عورت کا جھکا سر دیکھ کر عباس نے لب بھینچ لیے پھر اگلا سوال کیا
دو ماہ ۔ ۔
اس عورت کے لہجے میں مزید شرمندگی در آئی تھی

آپ نے میڈیکل تو نہیں کروایا ہوگا ۔ ۔ ؟ ” عباس کے اگلے سوال پوچھنے پر ماں نے پھر سے سر جھکا لیا
ایف آئی آر بھی نہیں کروائی ۔ ۔ ؟؟
توقع کے مطابق تمام جواب پانے کے بعد اگلا سوال پوچھا
یہاں آنے سے پہلے کروائی تھی صاحب ۔ ۔ ۔ آپ نے میری بیٹی سے کوئی سوال تک نہیں کیا ۔ ۔ مگر وہ پولیس والے بہت عجیب سوال کر رہے تھے اس لیے ۔ ۔
وہ ماں بتاتے ہوئے پھر سے رونے لگی جبکہ عباس اس کی بات سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا
ظلم کے خلاف جتنا دیر سے اٹھیں گے ۔ ۔ اتنا ہی لمبا اور کٹھن سفر طے کرنا پڑے گا ۔ ۔
عباس نے کہتے ہوئے گہرا سانس لیا اس کے لیجے میں دکھ کی آمیزش واضح تھی
آپ ہماری مدد کریں گے نا ۔ ۔

اس سارے وقت میں پہلی بار وہ لڑکی عباس سے مخاطب ہوئی تھی شاید عباس کا نظریں جھکی رکھنا اور نرمی سے بات کرنے سے اس لڑکی کا حوصلہ کچھ بحال ہوا تھا عباس نے سرد آہ بھری اور اپنی جگہ سے
اٹھا اس لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اثبات میں سر ہلایا ۔

کیا ہوا آج بہت پریشان لگ رہا ہے ۔ ۔ ؟؟
عباس کال نہیں اٹھا رہا تھا تو عالیان اور احمد پریشان سے اس کے بنگلے پہنچ گئے اور عباس کو لاؤنج میں گم سم ساکسی گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر احمد نے سوال کیا جواباً عباس نے سرسری سا آج آئے کیس کے بارے میں اسے بتا دیا جبکہ عالیان کافی بناتا ہوا سر سری انداز میں سن رہا تھا
عباس اور احمد کو اکثر اپنے کیسز میں ایک دوسرے کی مد دور کار ہوتی تھی اور اس کیس میں بھی اسے احمد کی مدد درکار تھی اسی لیے بتانے لگا جسے سن کر احمد کو افسوس ہوا
اتنا عرصہ ہو گیا تم دونوں کو اس طرح کے کیس حل کرتے ہوئے لیکن آج بھی تم دونوں اپنے پہلے کیس کی طرح ایسے پریشان ہو جاتے ہو جیسے وکٹم سے تم لوگوں کا گہرا رشتہ ہے ۔۔ چل یار ۔۔ دل پر
مت لیا کرو اتنا تم دونوں ۔ ۔ ایسے تو جلدی ہی تم دونوں دل کے مریض بن جاؤ گے ۔ ۔

ان دونوں کے چہرے پر بے انتہا افسردگی دیکھ کر عالیان نے کہا تو احمد اور عباس کواس کا اس وقت مذاق کرنا سخت ناگوار گزرا۔
وہ جو آئے روز تمہیں شدید والی محبت ہو جاتی ہے اس سے دل پہ بہت اچھا اثر پڑتا ہے نا
احمد نے خاصا چڑ کر کہا تو عالیان دانٹ نکالنے لگا۔
یار ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی یہ جو مرد باہر کمانے چلے جاتے ہیں، وہ اپنی بیوی بچوں کو اس ہوس پرست دور میں کسی کے بھروسے کیسے چھوڑ جاتے ہیں؟ چاہے وہ اس کے اپنے گھر والے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ بات کسی صورت صحیح نہیں ہے
اس مرتبہ عالیان نے سنجیدگی سے کہا تو احمد نے بھی اس کی تائید میں سر ہلایا۔

بہت کیس آتے ہیں میرے پاس بھی کہ شوہر آؤٹ آف سٹی ہے یا کنٹری… پیچھے سے اس کے گھر والے اس کی بیوی بچوں سے کیسا سلوک کر رہے ہیں، کن حالات سے وہ گزر رہی ہے… ان جناب کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر معلوم ہو تو وہ کس پر یقین کرے، ماں باپ بہن بھائی پر یا بیوی پر؟
احمد نے پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے اپنی رائے دی جبکہ عباس خاموشی سے بیٹھا ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا، مگر کچھ بولا نہیں۔

ہاں بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے تو ۔ ۔ ساری غلطی ہی ایسے مردوں کی ہوتی ہے ۔ ۔ جو دو دو تین تین سال
گھر نہیں آتے ۔ ۔ بھئی بیوی کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جو مرد پر لازم ہوتے ہیں ۔ ۔ اب آپ چار
سال محض کمانے کی خاطر بیوی سے دور رہ کر گزارو گے تو ایسی نوکری پر لعنت ہے جو اپنی بیوی بچوں
سے دور رکھے ۔ ۔
عالیان دو ٹوک انداز میں بولا تھا جبکہ احمد نے بھی اس کی بات پر متفق ہوتے ہوئے سر ہلایا
عباس بہت دھیان سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا بے ساختہ اس کو حُرہ کا خیال آیا تھا جانے کیوں
اچانک اس کا دل ہر شے سے اچاٹ ہو گیا اور حُرہ کا بار بار ڈرا سہما چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے
آنے لگا جو اس کا دل بے چین کرنے لگا ۔

صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو شدید نقاہت محسوس ہورہی تھی مگر جانتی تھی کہ اگر ذراسی بھی کسی کام میں دیر ہوئی تو مزید ذلت اور سزا دی جائے گی تبھی خود کو مضبوط کرتی اٹھ بیٹھی۔
یا اللہ میں اتنی سخت جان کیسے ہو سکتی ہوں ۔ ۔ کہ اتنا سب ہونے کے بعد بھی زندہ ہوں ۔ ۔ میرے
بابا تو مجھے ایک کانٹا بھی چبھنے نہیں دیتے تھے ۔۔ اور اب روز اتنی ذلت و رسوائی اور اذیت کے بعد بھی
زندہ ہوں ۔ ۔

چکراتے سر کو ہاتھوں میں گرائے خُرہ بے انتہا اذیت میں مبتلا بولی تھی
پھر چادر اٹھا کر خود پر اوڑھی اور بمشکل اٹھ کھڑی ہوئی چہرے پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے اور چادر
سے چہرہ صاف کرتی لڑکھڑاتے قدموں سے باورچی خانے کی جانب بڑھی رات سے قے کی وجہ سے جو
تھوڑی بہت طاقت تھی جسم میں اب وہ بھی نہیں رہی تھی مگر اپنا درد کر تا وجود گھسیٹے وہ بے حسی کی
چادر اوڑھے ناشتے کی تیاری میں لگ گئی مگر سر شدید چکرانے لگا اور انڈے کو دیکھ کر تو اسے ابکائیاں
آنے لگیں منہ پہ ہاتھ رکھتی وہ واشروم کی جانب بڑھی
یا اللہ اب کیا کروں میں ۔ ۔ یہاں تو کوئی دوائی بھی نہیں دے گا مجھے ۔ ۔ ایسے تو کام نہیں ہو گا مجھ سے
۔۔ کیا کروں ۔ دیوار کا سہارا لیے وہ کھڑی سوچ رہی تھی پھر بمشکل چلتے ہوئے دوبارہ باورچی خانے میں آئی
کاش سر دار بی بی وہ پیسے اس سے نہ لیتی جو عباس نے اسے دیے تھے اگر وہ پیسے بھی اس کے پاس
ہوتے تو کم از کم اپنے لیے دوائی تو منگوالیتی۔۔

سنیں پلیز مجھے کوئی سر درد کی دوائی دے دیں ۔ ہاتھ میں جھاڑو لیے ایک ملازمہ کو دیکھ کر حُرہ نے التجائیہ کہا۔
دیکھو تمہاری کسی بھی طرح مدد کرنا منع ہے ۔ ۔ اگر کسی نے کی تو وہ جان سے جائے گا ۔ ۔ اس لیے میں تو تمہاری مدد نہیں کر سکتی ۔ ۔
ملازمہ نے حُرہ کا زرد رنگ دیکھ کر افسوس سے کہا،
آپ کے پاس درد کم کرنے کی کوئی تو دوا ہوگی ۔ وہی دے دیں ۔ ۔ پلیز کسی کو معلوم نہیں ہو گا ۔ ۔
بات کرتے ہوئے حُرہ کی آواز بھیگ گئی تو ملازمہ کو اس پر بہت ترس آیا مگر سردار بی بی کے خوف کے باعث وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی۔
صرف اتنا بتا سکتی ہوں کہ وہ حویلی کے پچھلے طرف ایک دو کمرے نظر آئیں گے، تمہیں وہاں حکیمہ رہتی ہے شاید وہ تمہیں دوائی دیدے ۔ ۔
ملازمہ سرسری انداز میں بتاتی، باورچی خانے سے نکل گئی جبکہ حُرہ کے قدم اب حویلی کی پچھلی جانب تھے۔

وہ کمرے کے باہر کھڑی ہوئی تو اندر روشنی دیکھ کر دروازے پر دستک دینے لگی اور دل میں دعا مانگنے لگی کہ یہ عورت اس کی مدد کر دے۔ تھوڑی دیر بعد بھی جب دروازہ نہ کھلا تو حُرہ مایوس ہو کر واپس جانے لگی۔
کون؟
ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نکلی تو حُرہ نے اس کی آواز سن کر اپنا رخ موڑا۔ یہ وہی عورت تھی جس نے بخار میں اس کا علاج کیا تھا۔ وہ عورت بھی حُرہ کو پہچان چکی تھی۔ ادھر ادھر نگاہیں گھمانے کے بعد اس نے حُرہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے کمرے میں کیا اور دروازہ بند کر دیا۔
کیا بات ہے لڑکی، تم یہاں کیا کر رہی ہو
م میرا سر بہت درد کر رہا ہے، چکر بھی بہت آ رہے ہیں۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میں کیا کر سکتی ہوں؟ تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا لڑکی۔
حُرہ ابھی دھیمی اور نقاہت بھری آواز میں بول ہی رہی تھی کہ وہ عورت اس کی بات کاٹتی بولی۔

براہ کرم مجھے کوئی دوا دے دیں…
یہ بے بسی کی انتہا تھی کہ سردار کی بیوی ملازمین کی منتیں کر رہی تھی۔ یہ سوچتے ہی پھر سے حُرہ کی آنکھوں کے گوشے پھیلنے لگے۔
تمہاری مدد کرنا حویلی میں جرم ہے… تم جانتی ہو اگر کسی کو معلوم ہوا تو میری پناہ گاہ مجھ سے چھن جائے گی۔
وہ عورت دو ٹوک انداز میں بولی جبکہ اب حُرہ اپنے آنسو صاف کرتی واپس جانے کے لیے مڑی۔
اچھا سنو۔۔
شاید اسے حُرہ کی تکلیف اور بے بسی پر ترس آگیا تھا تبھی ہاتھ پکڑ لیا اور چار پائی پر لیٹنے کا اشارہ کیا۔
اپنے تجربے کے مطابق حُرہ کو دیکھتے ہی وہ سمجھ گئی تھی کہ حُرہ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے مگر معائنہ کرنے کے بعد شک پر یقین کی تصدیق ہو گئی۔
تم امید سے ہو۔…
حُرہ کا معائنہ کرنے کے بعد اس عورت نے یقین سے کہا تو خرہ کی سماعتوں میں یہ الفاظ کسی ہتھوڑے کی مانند لگے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ یقین سے کہہ سکتی ہیں؟”
نفی میں سر ہلاتے ہوئے وہ بے یقینی سے بولی۔
“میں سو فیصد یقین سے کہہ رہی ہوں
اس عورت نے خنکی میں بھی چہرے پر آئے پسینے کو دیکھ کر کہا۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سردار بی بی تو مجھے مار دیں گی۔
مسلسل سر ہلاتی حُرہ بولی تھی جبکہ اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔
میں سمجھ سکتی ہوں تو کیا بچہ ضائع کروانا چاہتی ہو۔
وہ عورت دھیمی آواز میں رازداری سے پوچھ رہی تھی جبکہ اس کی بات سن کر حُرہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
ضائع … میں کیسے؟
خوف اور تکلیف کے ملے جلے تاثرات لیے وہ بولی، “بچے کو خود ہی مارنا یہ سوچ ہی اس قدر تکلیف دہ تھی کہ حُرہ رونے لگی۔

پھر چھوٹے سردار کو بتا دو کہ تم امید سے ہو ۔ . اگر بیٹا پیدا کر دیا نا تم نے تو بڑے سردار اور سردار بی بھی شاید تم سے خوش ہو جائیں اور وارث پا کر یقینا خوش ہی ہوں گے وہ ۔
وہ عورت شانے پر ہاتھ رکھے کہنے لگی
اور اگر بیٹی پیدا ہوگئی تو . . ؟
حُرہ نے ڈرتے ہوئے اس سے پوچھا
ارے کیوں ایسی بات نکال رہی ہو زبان سے . . اگر بیٹی پیدا ہوئی تو تمہاری زندگی مزید مشکل ہو جائے گی ۔
یہ رکھو دوا . . اس سے طبیعت بہتر ہو جائے گی تمہاری اب وہ عورت حُرہ کو ایک شاپر تھماتے ہوئے کہہ رہی تھی
کب معلوم ہوگا کہ بیٹا ہے یہ بیٹی . . ؟
شاپر تھامتے ہوئے حُرہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

اس کے لیے تھوڑا صبر کرنا پڑے گا تمہیں ۔ ۔
اس نے دھیمی آواز میں کہا تو حُرہ نے سر ہلایا۔
شکریہ آپ کا بہت ۔ ۔
حُرہ دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے گویا ہوئی تو حکمیہ نے محض سر بلایا۔
اگر تم خون بہا میں نہ آئی ہوتی تو یہ خبر سن کر حویلی میں جشن منایا جاتا ۔ ۔
اس عورت کے الفاظ سن کر حُرہ کے اٹھتے قدم وہیں زمین پر تھم گئے اور ایک تیز درد اس کے دل میں پیوست ہوا۔ پھر بغیر کچھ کہے حُرہ آنسو پونچھتے وہاں سے نکل گئی، مگر افسوس کہ کسی نے اسے حکمیہ کے کمرے سے نکلتے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

Updated: February 22, 2025 — 10:01 am

4 Comments

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *