Main Hun Badnaseeb Part 8 Urdu Novel – Complete Story and Free Read

Read the latest episode of ‘Main Hun Badnaseeb Part 8’ in Urdu. Dive into this captivating story filled with twists, emotions, and unforgettable characters. Free online access to the complete chapter !

Urdu Novel

Urdu Novel Main Hun Badnaseeb Episode 8

Read Here Part 7

ap ka aik coment humari hosla afzai karta hai please comment zaroor kia karen.

آپ کا ایک کمنٹ ہماری حوصلہ آفزائی کرتا ہے تو پلیز کمنٹ ضرور کیا کریں تاکی آنے والے نئے یوزر کو پتا چلے کہ سٹوری اچھی ہے یا نہیں

اس عورت کی دی ہوئی دوا کھانے کے بعد حُرہ کی طبیعت کچھ سنبھلی تو اپنے ذمے کے کام نبٹانے لگی مگر یہ خبر جب سے اس نے سنی تھی تب سے اس کے آنسو جیسے تھم گئے تھے یا شاید اپنے وجود میں اس ننھی جان کا تصور کرتے اب حرہ کو صبر آگیا تھا مگر پریشانی تو اس کی مزید بڑھ گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی یہ خبر حویلی میں طوفان لے کر آئے گی۔

چھوٹے سردار یہ نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔۔ حویلی میں تو جب مجھے عزت نہیں دی جاتی تو میری اولاد کو کیسے دی جائے گی ۔ ۔ خدایا

یہ کیسی خوشی ہے جس میں دکھ پوشیدہ ہے ۔ ۔

 وہ نہیں جانتی تھی کہ عباس یہ خبر سن کر کیسا تاثر دے گا مگر اس کا اپنا دل بے  چین ہو رہا تھا بار بار اس عورت کی بات یاد آرہی تھی کہ بچہ ضائع ۔۔

اور اس سے آگے سوچتے ہوئے خرہ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے

حُرہ لاؤنج کی صفائی کر رہی تھی جب نورے نے اسے مخاطب کیا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی

 جی ۔ ۔ ؟

حُرہ اس کی جانب مڑتے ہوئے بولی

کیا نام ہے تمہارا ۔ ۔ ؟

حُرہ کو بغور دیکھتے ہوئے نورے نے پوچھا

حُرہ۔۔۔

حُرہ نے بتاتے ہوئے سر جھکا لیا اسے بے اختیار عباس کا خیال آیا تھا اس سے ہوئی اپنی پہلی ملاقات یاد آئی بے ساختہ اس ملاقات کو یاد کرتے ہوئے اس کا چہرہ حیا کے باعث سرخ ہوا جبکہ نورے نے

اس پل اس کا جھکا چہرہ بغور دیکھا تھا

 تم بیمار ہو کیا ۔ ۔ ؟

نورے نے اس کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے پوچھا

 حج جی ۔ ۔ وہ بس ۔ ۔

حُرہ کو سمجھ نہیں آئی کہ کیا جواب دے تبھی بات ادھوری چھوڑ دی۔

کاش تم ہماری زندگیوں میں نہ آئ ہوتی ۔ آج چھوٹے سرکار صرف میرے ہوتے ۔ ۔  نورے کی بات پر حُرہ نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا اس کے انداز میں خفگی کے علاوہ کچھ نہیں تھا

آپ کو میرے وجود سے کوئی خطرا نہیں ہے نورے ۔ ۔ میں نہ کبھی سردار اور آپ کے بیچ میں تھی

اور نہ کبھی آؤں گی ۔ ۔

حُرہ نے نگاہیں نورے کے خوبصورت چہرے پر جما کر کہا۔۔

 تمہارا وجود اتنا بھی بے ضرر نہیں ہے جس سے بے خبر رہا جائے ۔ ۔

نورے نے حُرہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جہاں اسے ایک الگ سکون نظر آ رہا تھا اتنی مشکل زندگی کے باوجود چہرے پر سکون ہو نا شاید اس کے صبر کے باعث خالق کی عطا تھی جبکہ حُرہ نورے کی بات کا مطلب سمجھ نہیں سکی تھی۔

میں ہمیشہ اپنی بات پر قائم رہوں گی ۔ ۔ کہ میں آپ کے اور سردار کے بیچ کبھی نہیں آؤں گی ۔ ۔

وہ لہجے میں یقین لیے بولی تھی۔۔۔

 تم ہمارے بیچ اسی وقت آگئی تھی جب ان کا تمہارے ساتھ نکاح ہوا تھا ۔ ۔  نورے نے جتا کر کہا تو کچھ پل تو حُرہ  کچھ بول ہی نہ سکی۔۔

میں جانتی ہوں کہ تم بہت اذیت سے گزر رہی ہو ۔ ۔ مگر تم یہ نہیں جانتی کہ میں کس اذیت سے گزر رہی ہوں ۔ ۔ یہ سوچ ہی کتنی اذیت ناک ہے کہ جو آپ کا ہو اسے کسی اور کی دسترس میں دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ ۔ اس سے بڑی اذیت کیا ہوگی کہ میں دیکھ کر بھی زندہ ہوں ۔ ۔  نورے نے حُرہ کو خاموش پا کر دوبارہ کہا تو حُرہ  نے نفی میں سر ہلایا

ہم میں سمجھ سکتی ہوں ۔ ۔

نہیں سمجھ سکتی تم ۔ ۔ جانتی ہو کیوں ۔ ۔ ؟

 نورے نے ہاتھ کے اشارے سے حُرہ  کو چپ رہنے کا کہا

کیونکہ تمہیں ہر ظلم کے بدلے میں عباس جیسا ہمسفر ملا ہے ۔ ۔ تمہاری خوش بختی پر رشک آتا ہے

نور ے بول رہی تھی اور حُرہ  کے آنسو دل پر گر رہے تھے

لاکھ برا رویہ ہے سب کا تمہارے ساتھ مگر ۔ ۔ تم نہیں جانتی کہ عباس جیسا ہمسفر ہر دکھ کا مداوا ہے

۔ ۔ ہر خزاں میں بہار۔

خیر میں نے اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے ۔ ۔ وہ جو کرے مجھے منظور ہے ۔ ۔  حُرہ  کے بہتے آنسو دیکھ کر نورے نے بات ختم کر دی اور اپنے آنسو نکلنے سے پہلے لاؤنج سے نکل گئی

جبکہ حُرہ  کے کرب سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔

سلام سر کار

عباس کو گاڑی سے نکلتا دیکھ کر شہزاد نے فوراً با ادب ہو کر سلام کیا

جبکہ باقی گارڈز اور ملازمین بھی اچانک عباس کی حویلی آمد پر بڑ بڑا گئے اور مؤدب ہو کر کھڑے ہو گئے عباس نے ایک نظر سب پر ڈالی اور اپنا بیگ اور لیپ ٹاپ گاڑی سے نکالا جسے آگے بڑھ کر شہزاد نے تھام لیا اب وہ اپنے کالے کوٹ کا بٹن کھول کر اپنی سفید شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک موڑتے

ہوئے ایک نظر ملازمین اور گارڈز پر ڈالتا قدم قدم چلتا آگے بڑھ رہا تھا

وہ آفس سے سیدھا حویلی کے لیے نکل گیا تھا کل عالیان اور احمد کی باتوں کے بعد وہ بہت بے چین ہو گیا تھا رہ رہ کر حُرہ کا خیال ستا رہا تھا

اور شہزاد سب ٹھیک رہا ۔۔؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا ۔ ۔؟ اپنے پیچھے چلتے شہزاد سے سرسری سا پوچھا

 جی سر کار سب ٹھیک ہے ۔ ۔ لیکن

 شہزاد کہتا کہتا جھجھکتے ہوئے رک گیا تو عباس کے قدم رک گئے عباس کے رکنے پر شہزاد بھی رک گیا

کیا ہوا ۔ ۔ ؟؟ کیا کہنا چاہتے ہو ۔ ۔

عباس ما تھے پر بل ڈالے پوچھ رہا تھا۔۔

” صاحب آپ نے کہا تھا کہ ہر ایک پر نظر رکھنی ہے ۔۔ حویلی میں کون آرہا ہے کون جا رہا ہے ۔ ۔ تو

شہزاد کہتے ہوئے پھر سے رک گیا

“آگے بولو شہزاد ۔ ۔ ؟ کیا بات ہے ۔ ۔ ؟ “

عباس کے لہجے میں سختی تھی جسے محسوس کر کے شہزاد کانپ گیا

سر کار آپ جانتے ہیں میری چھوٹی بہن سردار بی بی کی خدمت کرتی ہے وہ بتا رہی تھی کہ چھوٹی بی بی

کے ساتھ حویلی میں بہت برا سلوک ۔ ۔

شہزاد پھر بتا تا ہوا خاموش ہو گیا اور سر جھکا لیا جبکہ عباس پورا اس کی جانب متوجہ ہو چکا تھا

حُرہ کے بارے میں بات کر رہے ہو تم ۔۔ ؟؟

عباس نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔۔

 حج جی سر کار ۔ شہزاد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔

 ہاں بولو ۔ ۔

حُرہ کے ذکر پر عباس کو تشویش ہوئی تھی

اور پھر شہزاد نے ایک ایک بات جو جو حُرہ کے ساتھ ہو رہا تھا جو حویلی کے مالکان کرتے تھے اور جو ملازمین کرتے تھے سب عباس کے گوش گزار کر دیا کہ کیسے سر دار بی بی اور ناہید نے کتنی مرتبہ اس پر تشدد کیا ، اور اس کے ساتھ نوکروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے ، وہ کام جو چار ملازمہ مل کر کر نہیں تھیں وہ اکیلی حُرہ سے کروائے جاتے ہیں، سٹور کی طرح کے کمرے میں رکھا گیا ہے اسے جہاں بستر تک میسر نہیں ہے ، یہاں تک کہ چوری کا الزام بھی اس پر لگایا گیا ، پھر سزا کے طور پر اس کا کھانا پینا بند کر دیا گیا ، بات بات پر تذلیل کرنا ،

شہزاد نے سب بتا دیا اور جیسے جیسے وہ بتا تا جارہا تھا عباس کا چہرہ غصے کے باعث سرخ ہو رہا تھا ، گردن کی رگیں تن گئی وہ جبڑے سختی سے بھینچے کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا شہزاد نے اپنی بات مکمل کر کے سر اٹھا کر عباس کو دیکھا اور عباس کے چھرے پر سختی دیکھ کر کانپ کر چند قدم پیچھے ہوا

“بابا سر کار کو معلوم ہے یہ سب ۔ عباس نے مٹھیاں سختی سے بھینچے پوچھا

حج جی سر کار ۔۔ اور ۔ ۔ “

شہزاد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا

 اور کیا ۔ ۔

اپنے غصے کو ضبط کیے عباس نے پوچھا

 سر کار صبح سویر سے چھوٹی بی بی ۔ ۔ کو حکیمیہ کے کمرے سے نکلتے دیکھا ہے میں نے ۔ ۔ شاید وہ بیمار

ہیں ۔ ۔

شہزاد نے آج صبح کا واقعہ بھی بتا نا مناسب سمجھا جب اس نے حُرہ کو سر تھام کر لڑکھڑاتے قدموں سے چلتے حکمیہ کے کمرے سے نکل کر حویلی کے اندر جاتے دیکھا

عباس نے محض ہنکار بھرا۔

اور تیز تیز قدم اٹھا تاحویلی کی جانب بڑھ گیا جبکہ شہزاد جانتا تھا کہ عباس کتنے غصے میں گیا ہے

ظلم کرتے وقت تو یہ بڑے لوگ خدا بن جاتے ہیں ۔ ۔ کسی غریب کو تو اپنے آگے کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں ۔ اپنے انجام سے نہیں ڈرتے ۔ ۔ اب چھوٹے سر کار سبق سکھائیں گے سب کو ۔ ۔

ایک طرح سے تو وہ ڈر بھی رہا تھا یہ باتیں بتاتے ہوئے ۔۔ جانے سردار کے لیے وہ لڑکی کوئی حیثیت رکھتی بھی ہے یا نہیں ۔ ۔ مگر عباس کا غصہ دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا کہ اس نے عباس کو بتا کر ٹھیک کیا عباس کو یہ سب جاننے کا پورا حق ہے کہ اس کے پیچھے یہاں ہو کیا رہا ہے۔

وہ اپنے اطراف میں دیکھتا ہوا حویلی میں داخل ہوا یقینا اس کی آنکھیں حُرہ کی تلاش میں تھیں لاؤنج کی جانب بڑھا تو اسے محسوس ہوا جیسے حویلی کے تمام مکین لاؤنج میں موجود ہیں۔

عباس جب لاؤنج میں داخل ہوا تو اس کے کانوں میں سردار بی بی کی کرخت آواز پڑی یقیناً وہ کسی کو ڈانٹ رہیں تھیں اور جھٹکا عباس تو تب لگا جب سردار بی بی نے حُرہ کو سخت سست سناتے ہوئے دھتکارا۔

 اس سے پہلے حُرہ بری طرح زمین پر کرتی عباس نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا کاندھوں سے تھام کر اپنے سہارے کھڑا کیا اور اسے اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھنے لگا۔

وہ کالی چادر کو اچھی طرح اوڑھے ہوئے تھی، جبکہ رنگت زرد ، چہرے پر نیل کے نشان ، آنکھوں سے نکلتے آنسو اس کے سارے غموں کی گواہی دے رہے تھے ایک پل کو عباس نے حُرہ کی حالت دیکھ کر کرب سے آنکھیں میچ لیں لاؤنج میں اس وقت سر دار شیر دل ، سر دار بی بی ، ناعمہ اور نورے سمیت چند ملازمین بھی موجود تھے عباس کو دیکھ کر لاؤنج میں بلکل سناٹا چھا گیا جبکہ حُرہ بھی چونک کر عباس کو دیکھ رہی تھی۔

ع عباس ۔ ۔ ہم میرے بیٹے تت تم ۔ ۔ ؟

سر دار بی بی اپنی نشست سے کھڑی ہوتی ہو ئیں عباس کی جانب بڑھی جب عباس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں وہیں روک دیا جبکہ حُرہ نے عباس کے تیور دیکھ کر پیچھے ہونا چاہا مگر عباس نے اسے اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر اپنے ساتھ لگالیا۔

سر دار بی بی اور سردار شیر دل عباس کے سرخ چہرے اور بگڑے تیور دیکھ کر ٹھٹھک گئے

یہ کیا حال بنایا ہوا ہے آپ نے حُرہ ۔ ۔ ؟؟ آپ نے اپنا بلکل بھی خیال نہیں رکھا ۔ ۔ ؟” عباس نے سب کو نظر انداز کر کے حُرہ کے آنسو اپنے ہاتھوں کی پوروں سے صاف کرتے ہوئے نہایت نرمی اور فکر مندی سے پوچھا جبکہ حُرہ نے جواباً اس کے سینے پر سر رکھ دیا اور بے آواز رونے

لگی عباس کو اچانک دیکھ کر مزید اس کا نرم انداز دیکھ کر ہمیشہ کی طرح حُرہ بکھر گئی جبکہ حویلی کے مالکان اور ملازمین یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے عباس کا نرم لمس اور انداز وہ بھی حُرہ کے لیے دیکھ کر نورے کے آنسو بہنے لگے

آپ کو اس طرح دیکھ کر کتنی اذیت پہنچی ہے مجھے ۔ ۔ ؟؟ اور جانتی ہیں اس طرح رو کر مجھے مزید تکلیف دے رہی ہیں آپ ۔ ۔

حُرہ کی کمر کے گرد باز و حمائل کرتے ہوئے عباس نرم مگر اتنی بلند آواز میں کہہ رہا تھا کہ وہاں موجود ہر

شخص با آسانی سن رہا تھا

آپ ایک بار مجھے بتا دیتیں حُرہ ۔ ۔ کہ یہ سب ہو رہا ہے آپ کے ساتھ ۔ ۔ مگر نہیں مجھے خود سمجھنا چاہیے تھا کہ ۔ ۔ جو لوگ انسانوں کی انسانیت کے معیار سے گرمی ہوئی رسموں کو زندہ رکھ سکتے ہیں ۔ ۔ وہ کسی بے قصور کے ساتھ غیر انسانی سلوک بھی رواں رکھ سکتے ہیں ۔ ۔

حُرہ کے چہرے پر نیل دیکھ کر وہ بے حد سفاک انداز میں سر دار شیر دل کی جانب دیکھتے ہوئے جتا کر

کہہ رہا تھا۔۔۔

عباس ۔ ۔

 سردار شیر نے اسکی بات پرکچھ کہنا چاتا  تھا عباس نے جب اس نے ان کی جانب رخ کیا

میں پوچھ سکتا ہوں یہ کیسا سلوک ہو رہا ہے میری بیوی کے ساتھ ۔ ۔ ؟؟

عباس نے بے حد سر وانداز میں پوچھا وہاں موجود تمام ذی روح نہایت توجہ اور حیرانگی سے سب

دیکھ اور سن رہا تھے۔

عباس تمہیں اس لڑکی کے ساتھ ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ جانتے ہونا یہ تمہاری بہن

کے قاتل کے خاندان سے ہے ۔ ۔

 مزید سر دار بی بی سے برداشت نہیں ہوا تبھی بلند آواز میں دھاڑیں ان کے بیٹے نے ان سے تو ان کا حال بھی نہیں پوچھا تھا اس ونی کے ساتھ ہمدردی دیکھ کر تو جیسے ان کے لیے برداشت کرنا ناممکنات

میں سے تھا۔

قانون کی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ قتل اگر ایک شخص نے کیا ہے تو ۔ ۔ سزا سارے خاندان کو دو

عباس نے سر دار بی بی کو دیکھتے ہوئے سپاٹ انداز میں کہا تو سر دار بی بی پہلی مرتبہ اپنے بیٹے کو اس طرح بات کرتا دیکھ کر جیسے سکتے میں آگئی۔

مت بھولو عباس یہ لڑکی خون بہا میں آئی ہے ۔ ۔

اس مرتبہ سر دار شیر دل نے دبی دبی آواز میں بیٹے کو مخاطب کیا

مجھے محض اتنا پتہ ہے کہ یہ لڑکی میرے نکاح میں آئی ہے ۔ ۔ اور میری بیوی ہے ۔ ۔  عباس نے اب باپ کو دیکھتے ہوئے نہایت سر دانداز میں کہا۔

خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی صرف ونی ہوتی ہے ۔۔ بیوی کی حیثیت اسے نہیں دی جاتی ۔ ۔

سر دار بی بی نے عباس کو دیکھتے لفظ چبا کر ادا کرتے ہوئے کہا

جس سے نکاح کیا جائے اس کو بیوی کی حیثیت بھی دی جاتی ہے ۔ ۔ اور اس کے ہر طرح سے حقوق

بھی پورے کیے جاتے ہیں ماں جی ۔ ۔

عباس نے انہیں کے انداز میں انہیں جواب دیا

ہم نہیں مانتے اس لڑکی کو تمہاری بیوی ۔۔

سر دار بی بی غصے میں دھاڑیں تھیں

اماں جان کسی کے مانے یا نہ مانے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ سارے گاؤں کے سامنے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق گواہان کی موجودگی میں نکاح ہوا ہے ۔ ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ حُرہ میرے نکاح میں ہیں ۔ ۔ پھر یہ نکاح چاہے کسی بھی رسم کے تحت ہوا ہو میں

صرف اتنا جانتا ہوں کہ اب حُرہ میری بیوی ہیں ۔ ۔

عباس نے آواز کو اتنا رکھا تھا کہ ہر کوئی سن رہا تھا حُرہ کے لیے عباس کو ڈھال بنا دیکھ کر نورے سمیت ہر کوئی سانس روکے کھڑا تھا۔۔

یہ دشمنوں کی بیٹی ہے عباس ۔ ۔  سر دار بی بی بلند آواز میں بولیں

مگر بے قصور ہے ماں جی ۔ ۔

عباس نے لہجے میں دکھ لیے کہا

میں جان سے ماردوں گی اس لڑکی کو ۔ ۔ اس نے جادو کر دیا ہے میرے بیٹے پر ۔ ۔ سردار بی بی طیش کے عالم میں غرائی ہو ئیں حُرہ کی جانب بڑھیں جب عباس کے الفاظ نے ان کے

قدم وہیں روک دیے۔۔

ذرا سی تکلیف بھی ہوئی اگر حُرہ کو تو یاد رکھئیے گا آپ کا بیٹا پہلے مرے گا ۔

عباس نے اپنے کوٹ کے اندر سے پسٹل نکال کر اپنے ماتھے پر رکھ لی جبکہ حُرہ یہ منظر دیکھ کر خوف

کے مارے کانپنے لگی

عباس ۔ ۔

 سر دار بی بی نے عباس کے ماتھے پر پسٹل دیکھ کر بے یقینی سے اسے پکارا

یہ لیں پہلے اپنے بیٹے کو ماریں پھر کسی کو مارئیے گا ۔ ۔

عباس نے پسٹل سردار بی بی کے سامنے کرتے ہوئے پھر سے کہا تو سر دار شیر دل نے آگے بڑھ کر

عباس کے ہاتھوں سے پسٹل لے لی

کیا ہو گیا ہے عباس ۔ ۔ صرف ایک تم کل کائنات ہو ہماری ۔ ۔ اس طرح کر کے کیوں جان نکال

رہے ہو ہماری ۔ ۔

سردار شیر دل تڑپ کر آنکھوں میں آئی نسی صاف کرتے ہوئے بولے

آپ نہیں جانتے بابا جان ۔ ۔ مجھے ماں جی کا یہ روپ دیکھ کر کتنا دکھ ہوا ہے ۔ ۔ آپ جانتے ہیں سے نظریں نہیں ملا پاؤں گا ۔ ۔ کہ میری بیوی ہو کر اسے اتنے درد ناک شب و

روز گزارنے پڑے ہیں ۔ ۔ شرم کا مقام کے ملازمین سردار کی بیوی سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں

عباس کے لہجے اور انداز میں درد بول رہا تھا یقیناً اس کا مان اور بھر وسہ ٹوٹا تھا جو اس نے اپنے ماں باپ پے  کیا تھا شہزاد کی زبانی حُرہ پر ہوئے ظلم کی داستان سن کر مزید حُرہ کی حالت دیکھ کر اس کا دل تڑپ رہا تھا کہ کس حال میں رہی ہوگی۔

سر دار شیر دل نے بیٹے کے الفاظ سن کر ندامت سے سر جھکا لیا جبکہ عباس نے پھر اپنا رخ حُرہ کی جانب کیا اور اس کے دونوں ہاتھ نرمی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیے

مجھے معاف کر دیں حُرہ ۔ ۔ آپ کے ساتھ جو بھی ہوتا رہا ہے حویلی میں میری غیر موجودگی میں ۔ ۔ میں کسی کو قصوروار نہیں کہتا اس کے لیے ۔ ۔ کیونکہ یہ صرف میری لا پرواہی کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ۔ مجھے

اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا کسی پے بھی ۔ ۔ پلیز مجھے معاف کر دیں ۔ ۔

عباس اب حُرہ کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا ہر کسی کی موجودگی کو فراموش کیسے معافی مانگ رہا تھا

جبکہ سر دار شیر دل اور سر دار بی بی حیرت سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے تمام ملازمین سکتے کی کیفیت میں یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے یہاں آج تک کسی خاندانی بیوی کو اتنی عزت نہیں دی گئی تھی اور ان کے چھوٹے سردار خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی سے ہاتھ جوڑ کر سب کے سامنے ناکردہ گناہ کی معافی مانگ

رہے تھے

س سر کار ۔ ۔

۔۔ حُرہ نے عباس کے جڑے ہاتھوں کو اپنے نرم ہاتھوں میں لیتے ہوئے نفی میں سر بلایا

نہیں حُرہ ۔ ۔ سب کے سامنے آپ کی تذلیل کی گئی ہے اور یہ صرف میری لا پرواہی کی وجہ سے ہوا

ہے اس لیے سب کے سامنے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں ۔ ۔ عباس کے لہجے میں شرمندگی تھی جبکہ حُرہ کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے شاید ہی اس نے ایسا مرد دیکھا ہو جسے حقیقاً مرد ہونا جچ رہا تھا

عباس تم مرد ہو ۔ ۔ سب کے سامنے اس لڑکی سے معافی کیوں مانگ رہے ہو ۔ ؟ اس مرتبہ سر دار شیر دل سے برداشت نہیں ہوا تو چیختے ہوئے بولے

تم مرد ہو ۔ ۔ تم مرد ہو ۔ ۔ یہی کہ کہہ کر تو ہمارے معاشرے نے مرد کو مرد سے درندہ بنا دیا ہے

۔ ۔ تم مرد ہو ہے ۔تمیں ہر گناہ کی معافی ہے ۔

سوری با با جان مگر میں

ایسا ہی ہوں ۔ ۔ چاہے آپ مجھے سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ ۔ مرد وہ نہیں جسے اونچی آواز یا ہاتھ کا استعمال کر کے بتانا پڑے کہ میں مرد ہوں ۔ ۔ بلکہ میری نظر میں در حقیقت مرد تو وہ ہے جسے دیکھ کر عورت کو تحفظ محسوس ہو جس کا ساتھ پا کر عورت سر شار ہو جائے ۔۔ اور اگر غلطی پر ہو تو نا کے انا کی خاطر خاموش ہو جائے بلکہ اپنی غلطی تسلیم کرے ۔ ۔ “

سر دار شیر دل کی بات سن کر تو جیسے عباس اپنا ضبط کھو گیا تھا مگر انداز مضبوط رکھتے ہوئے اتنی آواز میں وہ بول رہا تھا کہ لاؤنج میں موجود سب لوگ با آسانی سن رہے تھے.

ناہید ۔ ۔

اب عباس نے اپنے پیچھے کچھ فاصلے پر کھڑی ناہید کو بغیر دیکھے پکارا تو وہ ڈر کر دو قدم آگے آئی

حج جی حکم سر کار ۔ ۔ ؟” ڈرتے ہوئے بمشکل وہ بول پائی

اس دن کیا کہا تھا میں نے تمہیں ۔ ۔ ؟ ؟

عباس نے حُرہ کے کپکپاتے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں مقید کرتے ہوئے ناہید سے پوچھا

آپ نے کہا کہ ک بی بی سے اونچی آوازمیں  بات نہیں کرنی ۔ قسم لےلیں سر کار میں نے بی بی جی سے اونچی آواز میں بات بھی کی ہو یا ۔ آپ پوچھ لیں ان سے ۔ا

ناہید عباس کی پشت کو تکتی کا نپتی ہوئی کہہ رہی تھی اور آخر میں اس نے حُرہ کی جانب انگلی سے اشارہ کیا جبکہ حُرہ نے سہم کر عباس کے چہرے کو دیکھا جس کے چہرے پر چٹانوں جیسی سختی تھی

وہ کنگن خزہ کی چادر میں رکھنے کو کس نے کہا تھا تم سے ۔ ۔ ؟

ناہید کی بات نظر انداز کر کے عباس نے پوچھا تو چندیل کے لیے لاؤنج میں سناٹا چھا گیا۔

آگے پڑیں نمبر 9 قسط میں ہوں بدنصیب

جاری ہے

Updated: February 24, 2025 — 6:05 pm

5 Comments

Add a Comment
  1. Plz sir story bohat Achi hai is liye jaldi parhna chatty hain so plz next episode jaldi Diya karain plz

  2. Bihat achi story he .. episode jldi bhj dia krn

  3. Nyc boht Kamal 👍👍👍🌹🌹🌹

  4. plz sir jaldi next episode send kr diea kren buht zabardast story ha ziada pahrne ka dil krta ha plz jaldi send kr diea kren

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *