Maka Zonga – Imran Series Full Novel Download in PDF Free


Download Maka Zonga – Imran Series Full Novel in PDF Free and dive into a thrilling Urdu spy novel filled with mystery, suspense, and action. Read the legendary Ibn-e-Safi Imran Series and uncover the secrets of Maka Zonga, a powerful secret organization aiming to rule the world. Get your free Urdu novel PDF now!

Maka Zonga Full Novel PDF Free Download

سردی اپنے پورے شباب پر تھی۔ عموم زندگی کی جوانیاں شام ہوتے ہی ختم ہو جاتی ہیں لیکن امراء طبقہ کی اصل زندگی شام سے ہی شروع ہوتی ہے۔ اس لیے شہر کے تمام بڑے بڑے ہو ٹلوں،رقص گاہوں، جوئے خانوں اور عیاشی کے خفیہ اڈوں میں شام ہوتے ہی چہل پہل شروع ہو جاتی ہے اور پھر صبح تک رنگ و نور کا ایک سیلاب ہر طرف روں دوں نظر آتا۔ رین بو ہوٹل دار الحکومت کا انتہائی شاندار اور وسیع و عریض ہوٹل تھا جہاں صرف اعلیٰ امراء طبقہ ہی داخل ہونے کی جرات کر سکتا تھا۔ ویسے تو چہل پہل یہاں ہر رات ہوتی تھی لیکن آج تو یہ چہل پہل اپنے پورے شباب پر تھی۔ ہول میں کرسیاں انتہائی قرینے سے سجائی گئی تھیں ہر خالی ٹیبل پر ریزرویشن کار ڈلگا ہوا تھا۔ ہال کو اتنے خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا کہ انسان دیکھتے کادیکھتاہی
رہ جاتا۔ وہ ایسا محسوس کرتا جیسے الف لیلی دنیا میں آپہنچا ہو۔ پورا ہال بھرا ہوا تھا۔ صرف چند میزیں خالی تھیں۔ یہ سجاوٹ اور رونق رقاصہ میری کے دم سے تھی جس کی شہرت کا ستارہ آج کل بام عروج پر پہنچا ہوا
تھا۔ پوری دنیا میں اس کے رقص اور حسن کی شہرت تھی ، ہوٹل رین بو میں یہ اس کا دوسرا اقص تھا۔ کل رقص ہی اتنا جذ بات خیز اور نشہ آور ثابت ہوا کہ لوگ اس کے فن حسن اور شباب پر مر مٹے تھے۔ اس لیے
آج کل سے بھی زیادہ رونق تھی۔ ابھی پروگرام شروع ہونے میں کافی دیر تھی۔ اس لیے تمام لوگ کافی اور شراب وغیرہ سے شغل کر رہے تھے۔ ہال میں ہلکے ہلکے مترنم قمقے گونج رہے تھے جن کی شیرینی کے سامنے ہال میں بجنے والا آرکسٹرا بھی کبھی کبھی ماند پڑ جاتا۔
اچانک ہال کے دروازے پر عمران نمودار ہو اوہ زور سے کھنکھارا تو ایک دم تمام لوگوں کی نظریں اس طرف کی اٹھ گئیں اور پبر ہال میں ایک دم قہقے گونج اٹھے اس کی حالت ہی اتنی مضحکہ خیز تھی کہ سنجیدہ سے سنجیدہ انسان

بھی ہنسنے پر مجبور ہو جاتا۔ ایک تو میکنی کلر لباس پھر چہرے پر حماقت کی دبیز تہیں وہ ہال کو اتنی حیرانگی سے دیکھ رہا تھا جیسے پتھر کے زمانے کا انسان ہو۔ اور یہ سب کچھ زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ دیکھنے کا انداز ہی اتنا مضحکہ
خیز تھا کہ لوگوں کو بے تحاشہ بننے پر مجبور کر دیتا۔ وہ غور سے ہر چیز کو دیکھتا پہلے ایک آنکھ بند کر کے پھر دوسری اور پھر دونوں آنکھیں جب دونوں آنکھوں سے کچھ نہ نظر آتا تو چہرے پر جھنجلا ہٹ طاری ہو جاتی اسے وہاں اس طرح دیکھ دیکھ کر ایک ویٹر ادب سے اس کی طرف بڑھا اور اس سے ریزرویشن کارڈ کے متعلق پوچھنے لگا پہلے تو عمران نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جب ویٹر زور سے بولا تو وہ ایسے اچھلا جیسے کسی سانپ نے اسے ڈس لیا ہو وہ سنبھلتے سنبھلتے ویٹر کو اپنے ساتھ زمین پر لے آیا ویٹر کے چہرے پر شدید غصے کے آثار تھے آئے۔ لیکن وہ کچھ نہ بولا اور عمران کھڑے ہو کر ایسے کپڑے صاف کر رہا تھا جیسے گرنا اس کا معمول ہو پھر وہ
وہاں سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک میز پر جا بیٹھا میز پر اس کے نام کا کارڈ لگا ہوا تھا۔ جو اس کے بیٹھتے ہی پاس کھڑے ہوئے ویٹر نے اٹھا کر میز کے نیچے رکھ دیا اس میز پر چار کرسیاں تھیں۔ عمران نے ساتھ والی کرسی پر ٹانگیں رکھ دیں اور اطمینان سے جیب میں ہاتھ ڈال کر چیونگم کا پیکٹ نکالا اسے پھاڑا اور پھر چیونگم کا ایک پیس منہ میں ڈال لیا۔ لوگ اسے انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور پھر اس کے بیٹھنے کا اند از اب بھی ہنسی لوگوں کی برداشت سے باہر تھی۔ ایک سمارٹ نوجوان پاس والی میز سے اُٹھ کر اس کے پاس آیا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا عمران کے انہماک میں کوئی فرق نہ آیا۔ نوجوان بولا۔ کیا آپ پہلی بار کسی ہوٹل میں آئے ہیں ؟ عمران چونکا اور نوجوان کی طرف دیکھ کر فوراً کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ
پکڑ کر سینے سے لگایا اور زور سے بولا ہائے میری جان تیری تلاش میں میں نے تو سمندر چھان مارے ہیں، روسی راکٹ میں بیٹھ کر خلا میں ہو آیا ہوں مگر تم کہیں نہ ملے تو جوان گھبرا گیا اور غصے سے بولا کیا تم پاگل ہو۔ میری جان ہر عاشق کو پاگل ہی کہا جاتا ہے اور پھر تمھاری جیسی حسینہ کا عاشق نوجوان جھینپ گیا اور پھر اس نے

کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس کا حالت دیکھ کر ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ ہنستے ہنستے بے حال ہو گئے مگر عمران پھر اسی طرح بیٹھ گیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔ اتنے میں صفدر جو لیا اور چوہان ہال میں داخل ہوئے وہ تینوں اعلیٰ لباس میں ملبوس تھے خاص تور پر جو لیا تو آج خوب بن سنور کر آئی تھی آج کی دعوت بھی انھیں عمران نے دی تھی۔ وہ عمران کی طرف تیر کی طرح بڑھے اور ہیلو کا نعرہ لگاتے ہوئے کرسیوں پر بیٹھ گئے مگر جولیا کی کرسی پر تو عمران پیر پھیلائے بیٹھا تھا اس لیے وہ کھڑی رہی اور عمران کی یہ حالت دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
یہ کوئی بیٹھنے کا انداز ہے۔ ہٹاؤ میری کرسی پر سے پیر۔ لیکن عمران بھلا ایسی کچی عرض کہاں سنتا ہے ؟ اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی وہ اس طرح پیر پھیلائے چیونگم چباتارہا اب تو جو لیا کا پارہ ایک دم ایک سو دس ڈگری پر پہنچ گیا وہ اور تو کچھ نہ کر سکی۔ اس نے میز پر سے ایش ٹرے اُٹھایا اور عمران کے سر پر دے مارا مگر مقابل بھی عمران تھا۔ اس صدی کا چالاک ترین انسان۔ ایش ٹرے لگنے سے پہلے وہ کرسی چھوڑ چکا تھا جو لیا جھنجلا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ عمران پھر اپنی کرسی پر ایسے بیٹھ گیا جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔ تمام ہال کی نظریں ان کی طرف تھیں ان میں سے چند کی نظروں میں ملامت کے آثار تھے اور باقی مسکرارہے تھے۔ صفدر عمران کی طرف
دیکھ کر بولا۔ عمران صاحب آج کی دعوت آخر کس مقصد کے لیے ہے؟ آج میں اور جو لیا اپنے عشق کی پہلی سالگرہ منارہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ دعوت دی ہے ورنہ مجھے کسی حکیم نے بتایا تھا کہ میں اتنے پیسے خرچ کروں صفدر اور چوہان ہنسنے لگے اور جو لیا بھنا کر رہ گئی۔ مگر کچھ نہ بولی۔اس کے بعد باتوں کا سلسلہ چل نکلا عمران نے کافی منگائی تھی آہستہ آہستہ جولیا بھی باتوں میں دلچسپی لینے لگی۔ اور اس کا غصہ اتر گیا مگر عمران باتوں کے ساتھ ساتھ ہال پر بھی نظر دوڑا لیتا۔ اچانک وہ بری طرح چونکا اور کچھ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ لیکن یہ صرف چند سیکنڈ کے لیے ہوا۔ اس کے بعد وہ اسی طرح لاپر واہ ہو گیا لیکن صفدر

خاص تو ر پر تشویش میں پڑ گیا کیوں کہ عمران کا اس طرح چونکنا اس کے لیے کسی خاص بات کی طرف اشارہ کرتا تھا اس کی نظریں فوراداخلی دروازے کی طرف اٹھیں وہاں سے ایک غیر ملکی نوجوان انتہائی اعلی گرم سوٹ میں ملبوس آہستہ آہستہ ایک میز کی طرف بڑھ رہا تھا صفدر نے سمجھ لیا کہ عمران اسے ہی دیکھ کر چونکا
ہے اس نے عمران سے پوچھا یہ کون ہے ؟
میری ہونے والی بیوی کے داماد کا سسر ۔
کیا بات ہوئی چوہان نے حیرت سے منہ پھاڑ کر پوچھا۔ کمال ہے اتنی بڑی بات ہو گئی۔ اور تم کہتے ہو کوئی بات
ہی نہیں۔ عمران منہ بناکر بولا۔
آخر ہوا کیا؟ جولیا نے پھاڑ کھانے والے انداز میں پوچھا۔ عمران نے ان کی طرف منہ کر کے آہستہ سے کہا۔ یہ نوجوان جرمنی کی سیکرٹ سروس سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا نام ملڈن ہے ” جر منی “مگر یہ یہاں
کہاں۔ صفد ر اپنی حیرت نہ چھپاسکا۔
” یہی تو میں سوچ رہا ہوں۔” مگر تم اسے کس طرح جانتے ہو ؟
میں کس کو نہیں جانتا کہو تو اس کی سات پشتوں کا حال بیان کر دوں خیر ہو گا ہمیں کیا چوہان بولا۔ لیکن اس کے
چہرے پر بھی تشویش کے آثار نمایاں تھے۔
صفدر کیا تمھارے پاس ریوالور ہے ؟ عمران اچانک صفد رسے مخاطب ہوا” نہیں کیوں ہم یہاں دعوت کھانے آئے ہیں نشانہ بازی کرنے نہیں۔ ” ہوں لیکن مجھے یہاں ہنگامہ ہوتا نظر آتا ہے خیر دیکھا جائے گا۔ اتنے میں رقص شروع ہو گیا، رقص واقعی ہیجان خیز تھا سب لوگ رقص دیکھنے میں مصروف ہو گئے لیکن

عمران برے برے منہ بنارہا تھا جولیا سے رہانہ گیا۔ اس نے عمران سے پوچھا۔ تم یہ کو نین کیوں چبار ہے ہو ؟ میں سوچ رہاہوں کہ لوگ اس بے معنی اچھل کود پر عاشق ہو گئے ہیں اس سے زیادہ اچھی اچھل کود تو کلو کی
اماں کلو کے ابا سے لڑائی کے وقت کر لیتی ہو گی۔
رقص اپنے پورے عروج پر تھا اور میری کا جسم آہستہ آہستہ لباس سے بے نیاز ہوتا جار ہا تھا۔ لوگوں کے منہ سے سکاریاں سی نکل رہی تھیں۔
اچانک عمران تیر کی طرح سیڑھیوں کی طرف بڑھا چلا گیا۔ اس کو گئے تھوڑی دیر ہوئی تھی۔ کہ ایک زور دار چیخ بلند ہوئی۔ رقص رک گیا۔ تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ان تینوں نے دیکھا کہ وہی نوجوان سینے پر ہاتھ رکھے فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہا ہے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ قتل قتل کا شور مچ گیا لوگ جلدی سے کھسکنے لگے لیکن منتظمین نے دروازے بند کر دیئے جس پر چند لوگوں نے احتجاج کیا لیکن منیجر نے معزرت کی کہ جب تک پولیس نہ آجائے وہ دروازہ نہیں کھول سکتے اتنے میں عمران وا پس آتا ہوا نظر آیا اس کے بال کچھ بکھرے تھے اور چہرے پر بھی دو تین خراشیں تھیں وہ آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ جولیا نے کہا کہاں گئے تھے ؟ اپنی بیوی کے داماد کے سر کے قاتل کو پکڑنے۔
مگر تم نے اسے دیکھ کیسے لیا۔ مجھے گیلری کے پردے کے پیچھے پستول کی نالی کی جھلک نظر آگئی تھی۔ لیکن اپنے سے پہلے ہی وہ گولی چلا چکا تھا۔ اور پھر بھاگ گیا خیر میں نے اسے دیکھ لیا ہے اتنے میں پولیس آپہنچی اور تھوڑی سی تفتیش کے بعد دروازے کھول دیئے گئے۔ اور حسب توقع قاتل کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔
☆☆☆
ٹیلی فون کی گھنٹی زور سے بھی جولیا نے لیک کر ریسیور اٹھالیا۔

ہیلو جو لیا اسپیکنگ اس نے کہا۔
ایکسٹو ایک غراہٹ سی بلند ہوئی اور جو لیا سنبھل گئی۔
گڈمارننگ سر۔ مارننگ۔
جو لیا تمام ممبروں سے کہ دو کہ ایک گھنٹہ بعد دانش منزل میں جمع ہو جائیں آج ہماری ٹیم میں ایک نئے ممبر کا
اضافہ ہو رہا ہے۔اس کا تعارف تم سب سے کرایا جائے گا۔
جولیا نے تمام ممبروں کو فون کر کے یہ خبر سنادی۔
ایک گھنٹہ بعد سیکرٹ سروس کے تمام ممبران دانش منزل کے ایک ہال میں بیٹھے تھے۔ وہ آپس میں اس نئے
ممبر کے متعلق بات چیت کر رہے تھے۔ آخر اتنے سارے ممبر بھرتی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ہم لوگ کم ہیں ؟ تنویر نے ناک سکوڑ کر کہا۔ ایکسٹو تم سے بہتر سمجھتا ہے جولیا نے تنگ آکر جواب دیا۔ ایکسٹو کوئی خدا نہیں۔ آخر وہ بھی ہماری طرح انسان ہے۔ خیر یہ تو نہ کہو۔ ایکسٹو جیسادماغ تو ہم سب مل کر بھی
پیدا نہیں کر سکیں گے ۔ چوہان نے کہا اتنے میں عمران دروازے میں داخل ہوا۔
یہ تم سب مل کر کسے پیدا کر رہے ہو کیا اس کے لیے جو لیا اکیلی کافی نہیں۔سب قہقہ مار کر ہنسنے لگے لیکن جو لیا
اور تنویر کامنہ بن گیا۔ ابھی وہ جواب دینے ہی والے تھے کہ یکا یک ٹرانسمیٹر کا بلب سپارک کرنے لگا اور وہ سب ایکسٹو سننے کے لیے سنبھل گئے۔ لیکن عمران اسی طرح لا پرواہی سے بیٹھا رہا۔ کیا تمام ممبر آگئے ہیں ؟ ایکسٹو کی آواز آئی۔ جی ہاں ! جولیا نے جواب دیا۔

خوب! تو سنو آج میں آپ کا ایک نئے ممبر سے تعارف کرا رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تم سب بھی اس سے مل کر ضرور خوش ہوں گے اور وہ ہماری ٹیم میں ایک شاندار اضافہ ہو گا اس کا نام کیپٹن شکیل ہے میں نے اسے ملٹری انٹیلی جنس سے لیا ہے اور اس کا سابقہ ریکار ڈ انتہائی شاندار ہے باقی رہی پرسنالٹی والی بات تو وہ آپ سب
خود دیکھ لوگے۔ ایکسٹو کی آواز آنا بند ہوگئی تھی۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک دراز قد سید ھے بالوں والا
نوجوان جس نے انتہائی خوبصورت چا کلیٹی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اس کا قد تقریباً چھ فٹ چار انچ کے قریب
تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا جسم بھرا ہوا اور فولاد کی طرح سخت معلوم ہوتا تھا۔ چہرہ بالکل سپاٹ تھا صرف کشادہ پیشانی پر دو لکیریں ابھری ہوئی تھیں جو اس کی وجاہت میں اور بھی اضافہ کر رہی تھیں۔ سب اس کی وجاہت اور خو بصورت شخصیت سے متاثر نظر آنے لگے۔ کیپٹن شکیل نے اندر داخل ہو کر سب کو سلام کیا اور پھر ایک ایک سے ہاتھ ملانے لگا۔ صفدر نے تعارف کی رسم ادا کی اور پھر وہاں چائے کا دور چلنے لگا۔ اور اس دوران باتوں کا سلسلہ چھڑ گیا جس کا تعلق کیپٹن شکیل کی ذات ہی سے تھا۔ کیپٹن شکیل نے اپنا تعارف تفصیل کرایا کہ وہ ایک اعلیٰ پٹھان خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملٹری میں چلا آیا وہاں سے ملٹری انٹیلیجنس میں لیا گیا اور اب اسے یہاں بھیج دیا گیا۔ اس کی باتیں کرنے کا انداز بھی انتہائی دلکش تھا لیکن یہ عجیب بات تھی کہ باتیں کرنے کے دوران اس کا چہرہ انتہائی سپاٹ رہتا تھا جیسے وہ میک اپ میں ہو۔ اس چیز کو جولیا اور صفدر نے محسوس کیا لیکن وہ چپ رہے
ایکسٹو کی آواز ٹرانسمیٹر سے دوبارہ ابھری۔
کیپٹن شکیل
لیس سر کیپٹن شکیل فوراً بولا۔ باقی سب لوگ قہقہ مار کر ہنس پڑے۔

صفدر بولا۔
آپ حیران نہ ہوں کیپٹن صاحب یہ ہیں ہی ایسے ابھی تو آگے آگے آپ پر ان کے جو ہر کھلیں گے۔ میں کوئی مس جو ہر کلکتے والی ہوں جو میرے جو ہر کھلیں گے۔ صفدر تم نے میری توہین کر دی ہے اب میں سے ہر گز نہیں جاؤں گا۔ عمران براماننے والے انداز میں بولا اور ایک بار پھر سب ہنس پڑے جن میں
کیپٹن شکیل بھی شامل تھا پھر یہ دلچسپ مجلس برخاست ہو گئی۔
☆☆☆
شہر میں گہما گبھی پورے زوروں پر تھی ہر شخص اپنے اپنے حال میں مست تھار یڈیو پر دو پہر کی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ کہ اچانک ریڈیو کی نشریات میں گڑ بڑ ہونے لگ گئی اور پھر ایسا معلوم ہوا جیسے اناؤنسر کی آواز مدھم ہوتی چلی گئی وہ کہ رہی تھی کہ اے کرہ عرض کے لوگو سنبھل جاؤ۔ اب بھی وقت ہے کہ تم لوگ اپنے ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دو جنہوں نے تمھارے حقوق ضبط کر رکھے ہیں جمع تمہیں غربت کی چکیوں میں پیس رہے ہیں یہ سب غدار ہیں ان کو ان کی غداری کی بھیانک سزاد و یہ پہلا الٹی میٹم ہے اگر دوروز کے اندر اندر تم لوگوں نے اپنے موجودہ حاکموں کے خلاف بغاوت نہ کی تو ماکاز و نگا کی نظروں میں تم بھی غدار ہو جاؤ گے۔اور پھر تمہاری بھی وہی سزا ہو گی جو ان کی ہے۔ سنواب بھی سنبھل جاؤ ” ماکاز و نگا تمہیں وقت
دے رہا ہے دو دن صرف 48 گھنٹے اس کے بعد تم سب پر ایک آفت ٹوٹ پڑے گی جس سے نہ جوان بچ سکیں گے نہ بوڑھے نہ عورتوں کو پناہ دی جائے گی اور نہ بچوں کو ہر امیر و غریب کو یکساں سزادی جائے گی اگر دوروز کے اندراندر تم نے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تو عوام اس سزا سے بچ جائیں گے اور ماکاز و نگا کی
نگرانی میں یہ دنیا جنت بن جائے گی۔ “ما کاز و نگا ” زندہ باد۔ تقریر ختم ہوتے ہی اناؤنسر کی آواز دوبارہ آنے

اس آواز کو سنتے ہی حکومت کی تمام مشنیری پریشان ہو گئی ٹیلی فون پر ٹیلی فون ہونے لگے اس کی آواز کا مخرج معلوم کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا۔ صرف اتنا معلوم ہوا کہ اسی وقت تمام دنیا کی نشریات جام ہو گئیں اور یہی آواز تقریبا ہر ملک کے اس علاقہ کی قومی زبان میں نشر ہوئی تمام دنیا اس اعلان
سے بوکھلا اٹھی عوام میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ چند لوگ اس کی حمائیت میں تھے اور چند اس کے خلاف۔ شر پسند عناصر نے اپنی سر گرمیاں تیز کر دیں۔ لیکن ہر ملک کی حکومت نے سختی سے اس تقریر کی تردید کی۔ لوگوں کو ہوشیار کیا کہ اس کالے پروپیگنڈے سے بچیں دارالحکومت میں فوری طور پر حکام کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں کافی بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے پایا گیا کہ نظم و نسق کو ہر حالت میں برقرار رکھا جائے اور غنڈہ عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے۔
شام کی خبروں میں ایک بار پھر یہ اعلان دہرایا گیا جس سے ہلچل میں اضافہ ہو گیا پھر تو خبروں کے ہر بلٹن کے دوران یہ اعلان داہر ایا گیا اور مہلت کی مدت با قاعدہ گھنٹوں میں بتائی جاتی پوری دنیا کے لوگوں میں خوف و ہر اس پھیل گیا ساری دنیا میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا جیسے جیسے مدت ختم ہوتی جاتی خوف وہراس میں
اضافہ ہوتا چلا جاتا۔
دار الحکومت کا نظم و نسق فوج نے سنبھال لیا لیکن حکام اور عوام دونوں پریشان تھے کہ یہ مصیبت کہاں سے نازل ہو گئی اور کس طرح ہو گی۔ اور کس قسم کی ہو گی سب کے ذہنوں میں ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا جس کا کوئی مناسب جواب نہ مل سکا تھا۔ آخر اس مہلت کے ختم ہونے میں ایک گھنٹہ باقی رہ گیا پھر آہستہ آہستہ وہ گھنٹہ بھی گزر گیا لوگ پریشانی کے عالم میں گھروں میں گھس گئے اچانک فضا میں وہی آواز گونجنے لگی کرہ ارض کے لو گو تمھاری سزا کا وقت آ پہنچا “ماکاز و نگا تمھیں بھیانک سزادینا چاہتا ہے لیکن چونکہ یہ پہلی وار ننگ تھی اس لیے سزا انتہائی کم دی جائے گی اس کے بعد جو سزا ہو گی وہ انتہائی بھیانک ہو گی لو گو تیار ہو جاؤ۔

اب سے ٹھیک پانچ منٹ کے بعد تمہاری زمینوں میں پانی کی سطح اونچی ہو جائے گی اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔زمین کے چپے چپے میں سے پانی نکلنے لگا۔ تمام عمارتیں چاہے وہ کچی تھیں یا پکی ایسے گرنے لگیں جیسے ریت کی دیوار میں لوگ ڈوبنے لگے تمام انتظامی مشینری فیل ہو کر رہ گئی سڑکوں پر پانی ہی پانی بہنے لگا۔ لوگ دھڑا دھڑ اونچی اونچی جگہوں پر پہنچنے لگے لیکن اس دھکم پیل میں سینکڑوں لوگ مر گئے لوگ حکومت کے خلاف ہو گئے یہ سب کچھ آدھے گھنٹے کے لیے ہوا اس کے بعد زمین سے پانی نکلنا بند ہو گیا اب ہر طرف قیامت کا سماں تھا طوفان نوح کی تو صرف حکائتیں سنی ہوئی تھیں اب لوگوں نے اپنی آنکھوں سے طوفان نوح کا منظر دیکھ لیا تھ ہر طرف پانی ہی پانی تھا اب پانی نکلنا تو بند ہو گیا تھا لیکن عمارتیں دھڑادھڑ گررہی تھیں لوگ عمارتوں سے سامان نکالنے لگے لیکن ہر طرف پانی ہی پانی تھا سینکڑوں لاشیں اس پانی میں تیر رہی تھیں۔ ان میں بچے بھی تھے بوڑھے بھی اور عور تیں بھی مختلف سامان بھی پانی میں تیر رہا تھا ہر طرف موت کی سی ویرانی چھائی ہوئی تھی لیکن یہ اچھا ہوا کہ ہر لحہ پانی کی سطح نیچے گر رہی تھی۔ آخر جب پانی کی سطح بالکل نیچے ہو گئی تو بچے کھچے بد حال لوگ بلڈ نگوں کی آخری منزلوں سے نکل آئے اب شہر میں ہر طرف ماتم ہورہا تھالا کھوں کی تعداد میں لوگ مر چکے تھے کروڑوں کا نقصان ہو چکا تھا۔ دارالحکومت کو فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا اور فوجی گاڑیاں اور ٹینک شہر میں گشت کر رہے تھے۔ ہر طرف اداسی ہی اداسی چھائی ہوئی تھی ویرانی ہی ویرانی موت کی ویرانی۔
☆☆☆
صفدر آرام سے بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ ایک دم اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کا نام لیا ہو وہ چونک اٹھا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ لیکن ہوٹل کے سب لوگ اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے وہ بڑا حیران ہوا پھر سوچا شائد کسی کے ساتھی کا نام ہو چنانچہ وہ پھر چائے کی پیالی کی طرف متوجہ ہو گیا کہ اچانک اسے ایک چھوٹا سا کنکر لگا بے ساختہ اس کی نظر او پر اٹھ گئی تو گیلری میں اسے کیپٹن تشکیل بیٹا ہوا نظر آیا۔ کیپٹن شکیل نے اسے آنکھ

سے اشارہ کیا وہ خوداٹھ کر باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ صفدر نے اطمینان سے چائے کا آخری گھونٹ لیا اور اٹھ کر باتھ روم کی قطار کی جانب بڑھ گیا ایک طرف اسے کیپٹین تشکلیل سگریٹ پیتا نظر آیا اس کی آنکھوں میں بے تعلقی تھی اور چہرہ ہمیشہ کی طرح ہر قسم کے جزبات سے عاری۔ صفد ر جیسے ہی اس کے پاس سے گزرا ایک کاغذ کا پرزہ اس کے ہاتھ میں منتقل ہو گیا صفدر فورا ایک خالی باتھ روم میں
گیا اس نے پرزہ پڑھاتو لکھا تا صفدر اپنی سامنے والی میز پر گرے سوٹ والے کا خیال
رکھنا وہ تمہارا تعاقب کرتا ہوا یہاں تک آیا ہے۔ صفدر نے کاغذ کو مروڑ کر بیسن میں بہادیا اور خود دروازہ کھول دیا۔ باہر آگیا تو اسے وہی گرے سوٹ والا اپنی طرف آتا ہوا نظر آیا صفدر کو دیکھتے ہی اس کے چہرے ہر اطمینان کی جھلک نمایاں ہوئی صفدر بغیر توجہ دیئے اس کے پاس سے گزرتا چلا گیا صفدر سیدھا کاؤنٹر پر گیا اور کاؤنٹر گرل سے فون کی اجازت چاہی۔ صفد ر نے ایکسٹو کے نمبر گھمائے فورا ادھر سے ایکسٹو کی مخصوص آواز ابھری۔

Read Here Best Urdu Novel


ایکسٹو۔
میں صفدر بول رہا ہوں جناب۔
کہو کیا بات ہے ؟ آواز میں سختی نمایاں تھی۔
جناب میں آپ کے حکم کے مطابق ہوٹل شیز ان میں ٹھیک چھ بجے پہنچ گیا تھا وہاں مجھے کیپٹن شکیل نے ایک گرے رنگ والے سوٹ کے متعلق بتایا کہ وہ میرا تعاقب کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔
صفدر۔۔۔۔۔۔ایکسٹو غرایا۔
لیس سر صفدر نے فورا کہا۔
تم فور اہوٹل سے چلے جاؤ گرے سوٹ والا تمہارا پیچھا کرے گا اسے ہر حالت میں لے کر دانش منزل میں پہنچ
جاؤ۔ میں ناکامی کی بات نہیں سنوں گا۔
او کے سر۔ صفدر نے جواب دیا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔ اس نے فون رکھ کر کاؤنٹر گرل کی طرف دیکھا لیکن وہ اس طرف متوجہ نہ تھی۔ صفدر نے آہستہ سے جیب سے پیسے نکالے اور کاؤنٹر پر رکھ کر باہر نکلتا چلا گیا۔ باہر آ کر اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور ایک ٹیکسی کو بلا کر اس میں بیٹھ گیا۔ ڈرائیور کو نیو ہائی سٹریٹ کی طرف چلنے کا حکم دیا۔ ٹیکسی چل پڑی صفدر نے تھوڑی دیر بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک سرخ رنگ کی کار بڑی تیزی س ان کے آگے نکل گئی اسے وہی گرے سوٹ والا ڈرائیو کر رہا تھا۔ صفدر مسکرایا اور اس نے ڈرائیور کو کہا کہ اس کا
پیچھا کرو۔
ڈرائیور نے کہا مگر جناب۔
صفدر نے کہا کہ یہ پولیس کا کام ہے گھبر اؤمت اور ڈرائیور بڑی مستعدی سے اس کا پیچھا کرنے لگا۔ اچانک سرخ رنگ کی کار جھرنا جھیل کی طرف مڑگئی۔ یہ ایک سنسان سڑک تھی صفدر سنبھل گیا اب تمام راسته سنسان شروع ہو گیا تھا اچانک سرخ رنگ کی کار سڑک پر ٹیڑھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے بڑی پھرتی سے بریک ماری ٹیکسی رک گئی ایک کار پیچھے بھی آر کی اس میں سے چار آدمی پستول لئے نیچے اتر آئے صفدر بری طرح گھر چکا تھا لیکن وہ اطمینان سے بیٹھارہاوہ چاروں اس کی کار کے گرد کھڑے ہو گئے ان میں سے ایک نے صفدر کو نیچے اترنے کو کہا جیسے ہی صفدر نیچے اتر اوہ سرخ رنگ کی کار تیزی سے آگے بڑھ گئی اور صفدر اپنی قسمت کو کوسنے لگاوہ چاروں اسے پستول کی زد میں لئیے اپنی کار کی طرف بڑھنے لگے صفدر نے سوچا اس طرح تو وہ خود کسی حقیر چوہے کی طرح چوہے دان میں پھنس جائے گا۔ اسے کچھ کرنا چاہیے۔ یہ سوچتے ہی
وہ چلتے چلتے ایک دم بیٹھ گیا۔ اس سے بالکل پیچھے آنے والا اس کے اوپر سے گرتا ہوا آگے جاپڑا اصفدر کو اتنا موقع
کافی تھا۔ وہ باقی تینوں سے الجھ پڑا اور اتنی تیزی سے لاتیں اور گھونسے مارنے لگا کہ ان کے ہاتھ سے پستول
چھوٹ گئے اور وہ صفدر سے گتھ گئے صفدر بھلا تین آدمیوں کے بس میں کہاں آتا تھا۔ اس نے دومنٹ سے بھی کم عرصے میں تینوں کو لناد یا چانک اس کے پیچھے سے ایک چینی ابھری اور وہ اچھل کر ایک طرف ہٹ گیا اسے اپنے پیچھے ایک آدمی جس کو اس نے نیچے بیٹھ کر گرایا تھا گرتا ہوا نظر آیا۔ یہ کارنامہ لیکسی ڈرائیور کا تھا جس نے ایک پتھر سے اسے مار گرایا تھا۔ صفدر نے ان چاروں کی تلاشی لی تو سب کی جیبوں سے ایک عجیب و غریب کارڈ نکلا جس پر سرخ روشنائی سے ماکازونگا لکھا ہوا تھا۔ نیچے موت کی تصویر یعنی کھوپڑی اور اس کے نیچے دو ہڈیاں بنی ہوئی تھیں۔اتنے میں وہ ٹیکسی ڈرائیور بھی قریب آگیا صفدر نے اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا اور اس کی مدد سے ان چاروں کو اٹھا کر ان کی کار میں ٹھونس دیا اور خود ٹیکسی میں بیٹھ کر واپس شہر کی طرف چل پڑا کیوں کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس سرخ رنگ کی کار کو نہیں پاسکتا وہ ایکسٹو سے سخت شر مندہ تھا اب نہ جانے اس کی اس ناکامی پر ایکسٹو کا یہ عمل کیا ہو گا لیکن شاید ان کارڈوں کی وجہ سے جان بچ جائے۔ شہر آنے پر اس نے ٹیکسی فون بو تھ کے قریب رکوادی۔
☆☆☆
جیسے ہی گرے سوٹ والا ہوٹل سے اٹھا کیپٹن شکیل نے اپنی جگہ چھوڑ دی بل وہ پہلے ہی ادا کر چکا تھا وہ تیر کی طرح گرے سوٹ والے کے پیچھے گیا۔ گرے سوٹ والا ایک سرخ رنگ کی سپورٹس کار میں بیٹھ رہا تھا۔ کیپٹن شکیل نے تیزی سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر وہ ڈگی کو آہستہ سے اٹھا کر پھرتی سے اندر کھس گیا۔ اتنے میں کار آہستہ آہستہ چل پڑی پھر وہ تیزی سے بھاگنے لگی کیپٹن شکیل ایک جھری سے پیچھے کا نظارہ
دیکھ رہا تھا اچانک کارنے ایک ٹیکسی کو کر اس کیا اس میں اسے صفدر کی قمیض کے کف میں لگے ہوئے
مخصوص بٹن کی جھلک نظر آئی۔ پھر وہ سرخ ٹیکسی تیزی سے کار کے پیچھے بھاگتی ہوئی نظر آئی۔ اچانک کار رک
گئی۔ کیپٹن شکیل نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا نہیں تو اس کا سر ڈگی کے ڈھکنے سے جانکر آتا۔ ٹیکسی کے
بریک بھی بڑی تیزی سے لگے تھے۔ کیپٹن شکیل کو ڈر تھا کہ کہیں کار میں موجود گرے سوٹ والا اتر کر پیچھے نہ چلا آئے لیکن کوئی نہ آیا۔ اس نے دیکھا کہ صفدر کی کار کے پیچھے ایک اور کار آکر ر کی اور صفدر چار پستولوں کی زد میں نیچے اتر رہا ہے ابھی وہ کچھ کرنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ کار تیزی سے چل پڑی۔ اب ساری سکیم اس کی سمجھ میں آگئی تعاقب کو روکنے کا بہترین طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔
کار تیزی سے چل رہی تھی اچانک وہ کچے میں اتر گئی۔ اب کیپٹن شکیل سخت مشکل میں پھنس گیا۔ کیوں کہ اسے خطرہ تھا کہ کہیں ڈگی کے اچھلنے یا خود اس کے اچھلنے سے گرے سوٹ والا ہو شیار نہ ہو جائے۔ لیکن کچے
میں تھوڑی دیر ہی چل کر کار رک گئی اور وہ گرے سوٹ والا اتر کر ایک طرف چل پڑا۔ کیپٹن شکیل بھی پھرتی سے ڈگی میں سے اترا اور ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ سامنے ہی ایک پہنچی سی عمارت نظر آرہی تھی وہ کار سے اترنے والا شخص اس میں داخل ہو گیا۔ کیپٹن شکیل نے بھی اس عمارت میں داخل ہو کر عمارت کے دروازے کے بعد ایک راہداری بنی ہوئی تھی جس کے دونوں طرف کمرے تھے۔ ایک دروازے کی در زمیں سے روشنی کی تنگی سی باہر کیر آرہی تھی۔ کیپٹن شکیل بلی کی سی چال چلتے ہوئے اس دروازے تک پہنچا اس کے ہاتھ میں ریوالور مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ اور وہ انتہائی چوکنا نظر آرہا تھا۔ اس نے درز سے آنکھ لگا کر دیکھا
تواند ر چار آدمی نقاب پہنے صوفوں پر بیٹھے تھے۔ گرے سوٹ والا ایک طرف کھڑا تھا۔
کیا ر ہا۔ ایک نقاب پوش نے پوچھا
سب ٹھیک ہے۔
گرے سوٹ والے نے جواب دیا۔ کسی نے تعاقب تو نہیں کیا؟ تعاقب کیا تھا مگر ترکیب نمبر چار سے روک دیا۔

اچانک پیپٹین کو پیچھے سے ایک لات لگی۔ اور کیپٹن بے خیالی میں کمرے کے اندر جا گرا لیکن فوراً اٹھ کھڑا ہوا دروازے پر ایک قوی ہیکل حبشی ہاتھ میں پستول تھامے کھڑا تھا اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے چار کتاب پوش ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ کیپٹن کا پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرے سوٹ والے کے قدموں میں جا گرا تھا۔ جسے اس نے اٹھالیا تھا اب کیپٹن شکیل خالی ہاتھ تھا۔
صاحب یہ کتا باہر سے باتیں سن رہا تھا حبشی غرایا۔|
ہوں۔ ایک نقاب پوش کی پھنکارتی ہوئی آواز آئی۔ کون ہو تم اور یہاں کیسے آئے اس نے کیپٹن شکیل کی طرف مخاطب ہو کر پو چھا۔ سوال کے پہلے حصے کا جواب میں نہیں دے سکتا۔ البتہ دوسرے کا بتا سکتا ہوں کہ میں (گرے سوٹ والے کی طرف اشارہ کر کے ) ان کی کار کی ڈگی میں آیا ہوں۔ تمہیں یہ بتانا پڑے گا کہ تم کون ہو اور یہاں کیسے آئے ہو نقاب پوش کی غراہٹ بھیانک ہو گئی۔ لیکن کیپٹن شکیل نے کوئی جواب نہ دیا۔ نقاب پوش نے حبشی کی طرف دیکھ کر کہا اس کے دماغ ٹھکانے لگاؤ اس گرانڈیل حبشی نے اپنا پستول ایک نقاب پوش کے حوالے کر دیا اور خود آہستہ آہستہ کیپٹن
شکیل کی طرف برھا۔ اس کا انداز انتہائی مرعوب کن تھا لیکن کیپٹن شکیل ایک ٹھوس چٹان کی طرح کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر کوئی شکن نہ تھی۔ وہ انتہائی اطمینان سے اس حبشی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ حبشی اس کا یہ اطمینان دیکھ کر ایک لمحے کے لیے جھے پا لیکن پھر اچانک اچھل کر کیپٹن شکیل کی طرف آیا۔ کیپٹن شکیل انتہائی پھرتی ایک طرف ہٹ گیا۔ حبشی اتنی تیزی میں ہی آگے کی طرف بڑھا پیچھے سے کیپٹن شکیل نے اس کی پشت سے ایک بھر پور لات ماری اور حبشی اچھل کر سامنے والی دیوار ٹکڑا گیا پھر اچانک وہ تیزی سے پلٹا اس کا چہرہ لہولہان ہو گیا تھا اور انتہائی بھیانک لگ رہا تھا آنکھوں میں شعلے سے بھڑک اٹھے تھے اس نے اپنا دایاں ہاتھ تیزی سے ہلا یا کیپٹن شکیل نے فوراً پہلو بدلا لیکن حبشی اسے ڈاج دینے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے فوراً انتہا

پھرتی سے اور زور سے اپنے بائیں ہاتھ سے کیپٹن شکیل کے منہ پر بھر پور گھونسہ مار دیا اور کیپٹن شکیل لڑکھڑاتا ہوا تین قدم پیچھے چلا گیا۔ اب کیپٹن شکیل کی آنکھوں میں سرخی آگئی لیکن چہرے پر وہی اطمینان تھا اچانک کیپٹن شکیل اپنی جگہ سے اچھلا اور اس کے دونوں پیر تیزی سے حبشی کے سینے سے ٹکڑائے حبشی کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور وہ زمین پر گر پڑا اس کے منہ اور ناک سے خون کے فوارے ابل پڑے کیپٹن شکیل کی زور دار فلائنگ لک سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں وہ چند سیکنڈ کے لیے تڑپا اور ٹھنڈا ہو گیا چاروں نقاب پوش ایک لمحے کے لیے حیران رہ گئے کیپٹن شکیل انتہائی تیزی سے گھوما اور دوسرے لمحے گرے سوٹ والا اس کے ہاتھوں میں تھاوہ دروازے کی طرف بھاگا گرے سوٹ والا اس کے ہاتھوں میں ایک بے بس پرندے کی طرح مچل رہا تھا۔ اچانک نقاب پوشوں کو ہوش آیا ایک نے گولی چلا دی لیکن بے سود گولی دروازے کے سامنے والی دیوار سے ٹکرائی تھی کیپٹن تکلیل راہداری کے آخری سرے تک دوڑتا گیا پھر اچانک پلٹا اور ایک ساتھ کے کمرے میں گھس گیا۔ گرے سوٹ والا اب بھی اس کے ہاتھوں میں مچل رہا تھا لیکن کیپٹن شکیل نے اس کا منہ سختی دبادیا۔ نقاب پوش ڈرتے ہوئے راہداری میں آئے لیکن کیپٹن شکیل انہیں نظر نہ آیادہ راہداری سے باہر نکل گئے وہاں بھی کیپٹن شکیل کا کوئی پتہ نہ تھا۔
اتنی جلدی بھلا کہاں جاسکتا ہے ایک نقاب پوش نے کہا۔
پتہ نہیں ایک غراہٹ بلند ہوئی۔ کہیں پچھلے دروازے سے تو نہیں بھاگ گیا پہلے نے کہا اور چاروں پچھلے دروازے کی طرف بھاگے لیکن وہاں بھی نہ تھا۔ ایک نقاب پوش نے جو ان کا سردار تھائیوں کو عمارت کے مختلف کونوں میں دیکھنے کے لیے ہو گا دیا اور خود بلڈ نگ دیکھنے کے لیے گیا۔ اتنا وقفہ کیپٹن شکیل کے لیے کافی تھا اس نے گرے سوٹ والے کو ہاتھوں پر اٹھایا اس کے منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا وہ گیٹ کے سامنے کھڑی ہوئی سرخ کار میں

پھرتی سے بیٹھ گیا۔ گرے سوٹ والے کو اس نے پچھلی سیٹ پر پھینکا اور پھر انتہائی تیزی سے کر بیک کی۔ اور سڑک پر سے ہوتا ہوا تیزی ایک طرف چل پڑا اس کی کار کی پچھلی طرف سے گولیاں ٹکرائیں لیکن جلد ہی اس کی کار پستول کی رینج سے نکل گئی چند ہی لمحوں میں وہ جام نگر والی سڑک پر تھا۔ اس کی کار انتہائی تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ اور اس کارخ دانش منزل کی طرف تھا۔
☆☆☆
عمران کی سرخ رنگ کی کار سر سلطان کی وسیع و عریض کو ٹھی کے پورچ میں جا کر رک گئی۔ عمران دروازہ کھولتے ہی تیزی سے نیچے اترا۔ اس بار اس کے جسم پر سلیقے کے کپڑے تھے اور چہرے پر حماقت کی تہیں باکل غائب تھیں ایسا محسوس ہو تا تھا کہ یہ عمران کی بجائے کوئی اور ہے۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہواسر سلطان کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو گیا۔ سر سلطان اپنے ڈرائنگ روم میں بڑی پریشانی سے ٹہل رہے تھے ان کی پریشانی پر غور و فکر کی گہری لکیریں نمایاں تھیں۔ عمران کو دیکھتے ہی ان کے چلتے قدم رک گئے عمران نے سلام کیا۔ سر سلطان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بھی ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ سر سلطان عمران کو اس روپ میں دیکھ کر اور بھی سنجیدہ ہو گئے۔ دو منٹ تک تو کوئی بھی نہ بولا پھر سر سلطان نے
سکوت توڑا۔
عمران بیٹے حالات کا تو تمہیں علم ہے۔
جی ہاں بخوبی۔ عمران نے جواب دیا۔
میں تو سوچتے سوچتے تھک گیا ہوں کچھ بھی سمجھ نہیں آتا اُدھر عوام حکومت کے خلاف بغاوت پر تلے کھڑے ہیں اور ادھر حکومت بے بس نظر آتی ہے کہ وہ کس طرح اس مصیبت کا مقابلہ کرے۔ سر سلطان نے اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو تھپکی دیتے ہوئے کہا۔

جی کچھ نہ کچھ تو ہو جائے گا میں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا ہوں۔ بیٹا اب سب کی نظریں تمہاری طرف ہی لگی ہوئی ہیں اور ہاں ملنڈن کا پتہ چلا کہ وہ یہاں کس لیے آیا تھا۔
بلیک زیرو نے اس کے متعلق تحقیق کی ہے اس رپورٹ کے مطابق وہ بھی اسی “ماکاز و نگا” کے چکر میں یہاں آیا تھا لیکن کسی سے رابطہ قائم کرنے سے پہلے ہی ہوٹل میں قتل کر دیا گیا۔ ہوں ” سر سلطان نے سوچتے
ہوئے کہا۔
کیا جرمن حکومت کو اس کی ہلاکت کی خبر پہنچادی ہے؟ ہاں۔ ہماری حکومت نے اسے مطلع کر دیا ہے۔ اچھا مجھے اجازت دیجئیے میں نے بہت سے کام کرنے ہیں۔ عمران نے اٹھتے ہوئے کہا۔ اچھا اللہ تمہیں کامیاب کرے سر سلطان نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اور عمران تیزی سے باہر نکل گیا۔اس نے بڑی تیزی سے کار کو ٹھی سے باہر نکالی۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی اور دراصل بات ہی کچھ ایسی تھی دارالحکومت میں اس دفعہ ایسی تباہی آئی تھی کہ اس سے پہلے اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور دارالحکومت غیر ملکی جاسوسوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ ان حالات میں عمران اور اس کی ٹیم کے سر پر بھی تمام ذمہ داریاں آ
گئی تھیں۔ عمران کی کار بڑی تیزی سے جھرنا جھیل کی طرف جارہی تھی۔اس کی آنکھیں چاروں طرف گردش کر رہی تھیں وہ بے انتہا چوکنا تھا جھرنا جھیل کے قریب جا کر اس نے کارروک دی اور پھر وہ آہستہ سے کار کادروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔ اس کا دایاں ہاتھ اس کے کوٹ کی جیب میں تھا آہستہ آہستہ وہ ہاتھ کوٹ کی جیب سے باہر آیا اس میں کارڈ تھا جس پر “ماکازونگا لکھا ہوا تھا اس نے وہ کارڈ نکال کر غور سے دیکھا اور پھر اسے جیب سے لائٹر نکال کر جلایا اور اس کارڈ کو اس کی لو پر رکھ دیا آہستہ آہستہ اس کارڈ پر ایک عمارت ابھرتی ہوئی نظر آئی اس نے غور سے اس عمارت کی طرف دیکھا اور پھر کارڈ کو جیب میں ڈال دیا اب وہ آہستہ آہستہ

درختوں کی قطاروں کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا تھا۔ تھوڑی دور چل کر اسے یہ عمارت نظر آگئی جس کی تصویر اس پر اسرار کارڈ پر تھی۔ عمارت انتہائی خستہ اور پرانی تھی۔ کسی زمانے میں یہ عمارت واقعی فن تعمیر کا شاندار نمونہ تھی لیکن اب بے رحم زمانے کے ہاتھوں اس کی تمام دلکشی اور خوبصورتی مٹ چکی اب تو وہ شکستہ اینٹوں اور گرد و غبار کا ایک ڈھیر تھی لیکن اس کے باوجود کھنڈر بتارہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی۔ عمران نے ایک نظر اس پر ڈالی کچھ دیر سوچتا رہا پھر واپس اپنی کار کی طرف چل پڑا اب اس کے قدم تیز تیز بڑھ رہے تھے اس نے کار کا سٹیر نگ سنبھالا اور اسے سڑک کے ایک طرف لمبی لمبی گھاس میں اگی ہوئی خود ر د جھاڑیوں کے گھنے جھنڈ میں اس طرح چھپادیا کہ وہ بالکل نظر نہ آتی تھی اور خود وہ دوبارہ اس عمارت کی طرف چل پڑا جب
وہ اس جگہ پہنچا جہاں سے وہ واپس مڑا تھا۔ تو اس نے ایک بار پھر غور سے عمارت کو دیکھا لیکن عمارت کا ارد گرد کاماحول بالکل خاموش تھا ایک بار اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ اس عمارت کو رات کی تاریکی میں چیک
کرے لیکن پھر وہ آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف چل پڑا اسے یہ تو یقین تھا کہ کسی نہ کسی واسطے سے یہ عمارت “ماکاز و نگا سے تعلق رکھتی ہے اس لیے وہ انتہائی محتاط تھاوہ لمبی لمبی گھاس کی آڑلے کر آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ جب وہ عمارت کے نزدیک پہنچا تو کچھ دیر اس گھاس میں دبک کر بیٹھا رہا پھر وہ آہستہ سے اٹھا اور عمارت میں داخل ہو گیا۔ عمارت تمام تر سنسان تھی کوئی بھی ایسا کمرہ نہ تھا جو شکستہ نہ ہو۔ ہر طرف مکڑی کے جالے تنے ہوئے تھے۔ وہ سخت پریشان ہو گیا۔ کہ اس ویران عمارت کا ماکاز و نگا سے کس طرح تعلق ہو سکتا
ہے۔ اس عمارت کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہاں کوئی نہیں آیا ہر چیز گرد و غبار سے اٹی ہوئی تھی۔ اس کی باریک بین نظریں چاروں طرف گردش کر رہی تھیں اچانک وہ چونکا اسے ایک چھوٹا سا بیج پڑا ہوا
نظر آیا جو عموماً کوٹ کے کالر پر لگایا جاتا ہے اس پر ایم زیڈ کے الفاظ کندہ تھے اور اس پر ایک بل کھاتا ہوا اثر دہا ابھرا ہوا تھا جس کی سرخ زبان باہر کو نکلی ہوئی تھی اس نے وہ بیج اٹھا کر جیب میں ڈال دیا۔ اب وہ انتہائی
احتیاط

سے ادھر اُدھر نظریں ڈال رہا تھا۔ ایک جگہ اسے گرد و غبار ذرا کم نظر آیا۔ اس نے بغور دیکھا تو کسی کے جوتوں کے ہلکے ہلکے نشان نظر آنے لگے وہ کچھ سوچ کر مسکرایا اب اس کا ازلی احمق پن اس کے چہرے پر دوبارہ نظر
آنے لگا اس نے ایک بار پھر چاروں طرف دیکھا پھر منہ لٹکالیا اور مایوسی سے گردن جھٹک کر واپس مر گیا وہ
آہستہ آہستہ چلتا ہوا باہر آیا اور پھر تھوڑی دور چل کر ایک اونچے درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا ابھی اسے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک اس عمارت سے دو آدمی نکلے ان کے ہاتھوں میں سٹین گنیں تھیں۔انہوں نے۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف دیکھا اور پھر کسی کو نہ پا کر واپس چلے گئے عمران کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا اور وہ وہاں سے اتر کر واپس کار کی طرف آیا اور تھوڑی ہی دیر بعد اس کی کار شہر کی طرف دوڑنے لگی اب اس کے ہاتھ سراغ کی ایک کڑی آگئی تھی۔ اسے معلوم ہو گیا کہ کم از کم یہ ان کا کوئی اہم اڈہ ہے جس میں یقیناً تہہ
خانوں کا ایک جال بچھا ہوا ہو گا۔
☆☆☆
جو لیا جھلائی ہوئی ایک بس اسٹینڈ پر کھڑی تھی۔ نجانے آج کیا بات تھی کہ اس کے اشارے پر کوئی ٹیکسی بھی نہیں رکھتی تھی۔ وہ اپنے فلیٹ میں آرام سے لیٹی ہوئی تھی کہ ایکسٹو کا فون آیا کہ فوراوانش منزل پہنچو اور وہ اس وقت سے ٹیکسی کے انتظار میں کھڑی سوکھ رہی تھی۔ آخر تنگ آکر وہ بس سٹاپ پر آگئی لیکن بس تھی کہ آنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی کہ اچانک ایک کار اس کے پاس آکر ر کی اس میں سے عمران اپنی تمام حماقت مابیوں سمیت تشریف فرما تھے۔ جوزف کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ عمران نے اسے دیکھتے ہی آنکھیں جھپکنی شروع کر
دیں۔
میں نے کہا کہ محترمہ اندر تشریف لائیے دھوپ میں رنگ کالا ہو جائے گا۔ نہیں مجھے دانش منزل جانا ہے جو لیا نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔

تو میں تمہیں کون سا تمہارے میکے لے جارہا ہوں۔ عمران نے آنکھیں جھپکا کر کہا۔ میں بھی تمہارے سسرال ہی جارہا ہوں۔ عمران نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
بکو اس مت کرو میں ٹیکسی میں آجاؤں گی۔ جولیا نے بھرتے ہوئے لہجے میں کہا مگر عمران اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچنے لگا۔
کیا یہ بد تمیزی ہے ؟ جولیا نے بازو چھڑواتے ہوئے کہا۔ اسے اغوا بالخیر کہتے ہیں۔ اور پھر جوزف کو مخاطب ہو
کر کہا چلو۔ جوزف نے کار چلادی۔
جو زف انتہائی تیز رفتاری سے کار چلارہا تھا کار کاسٹیر نگ اس کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح معلوم ہو رہا تھا جسے وہ انتہائی تیزی سے ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر گھمارہا تھا۔ کار اب بھری سڑکوں سے گزر کر ویران
سڑکوں پر چلنے لگی۔ جولیا نے عمران سے پوچھا یہ کہاں چلے دانش منزل چلو۔

کیوں کیا میر اگھر تمہیں پسند نہیں۔ عمران نے آنکھیں بند کر کے کہا۔ میں کہتی ہوں بکواس بند کرو۔ جوزف کار رو کو۔ میں نیچے اتروں گی لیکن جوزف کے کان پر جوں بھی نہ رینگی بلکہ اس نے کار کی رفتار تیز کر دی جولیا نے جھنجلا کر کار کے دروازے پر ہاتھ رکھا تو ایک سر د سی آواز آئی پاگل نہ بنو۔ جو لیا ہمارا تعاقب ہو رہا ہے یہ
عمران تھا جولیا نے اچانک پیچھے مڑ کر دیکھا تو کافی دور اسے ایک نیلے رنگ کی شیورلیٹ آتی ہوئی نظر آئی۔ عمران نے جوزف کو مخاطب ہو کر کہا جوزف گاڑی کی رفتار آہستہ کرو تا کہ میں پیچھے آنے والوں کا آملیٹ بنا کر سر کنڈوں پر منڈلانے والی روح کو ڈنر کھلا سکوں۔
جوزف نے فورا گاڑی کی رفتار آہستہ کر دی اور بولا۔ باس جمعرات کے دن سرکنڈوں کی روح کا نام مت لیا کرو ورنہ ہمیشہ شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

ابے تیرا دماغ خراب ہے۔ آج کوئی دن ہے آج تو جمعرات ہے یعنی جمعہ کی رات کیوں جو لیا۔
مجھے معلوم نہیں مجھے بور مت کرو۔ جو لیا آہستہ سے بولی۔
اتنے میں نیلے رنگ کی شیورلیٹ بالکل نزدیک آگئی اور پھر وہ آہستہ سے پاس سے گزرنے لگی تو عمران کی آواز آئی۔ ہوشیار اور سب نے اپنا سر نیچے کر لیا اسی لمحے گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی لیکن کچھ نہ ہوا۔ اب نیلے رنگ کی شیورلیٹ آگے نکل گئی۔ جوزف نے اپنی بساط سے بڑھ کر عقل مندی کا مظاہرہ کیا کہ کار کی رفتار نہ صرف
بالکل آہستہ کر لی بلکہ اچانک سڑک سے نیچے کھیتوں میں اتاری جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹامی گن سے آنے والی گولیوں کی بوچھاڑ کار کی دائیں طرف گئی ورنہ سامنے سے پڑنے والی گولیاں یقیناً ان میں سے ایک آدھ کو ضرور چاٹ جاتی۔ اب نیلے رنگ کی شیورلیٹ کار کا فاصلہ عمران کی کار سے اتنازیادہ ہو گیا تھا کہ عمران کی کار گولی کی رینج سے باہر تھی۔ جوزف کار کو پھرتی سے واپس موڑ لو عمران نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور جوزف ڈرائیونگ کا
انتہائی حیرت انگیز کمال دکھاتے ہوئے تقریباً پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جاتی ہوئی کار کا ایک دم سٹیر نگ موڑ لیا اور کار صرف دو پہیوں کے بل ایک چکر کھاتی ہوئی بیک ہو گئی جو لیا کی تو چیخ نکل گئی لیکن عمران کے چہرے پر تحسین کے تاثرات نمایاں تھے۔ تھوڑی دیر بعد کار کی رفتار خود بخود آہستہ ہونے لگی۔
کیا ہوا جوزف ! عمران نے چونک کر پوچھا۔
باس شاید پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ پٹرول ختم ہو گیا گدھے جب چلا تھا تو پٹرول چیک نہیں کیا تھا۔ باس غلطی ہو گئی۔ اب پھر غلطی کا خمیازہ بھگت
چل باہر نکل اور پانچ سو ڈنڈ نکال۔
باس مر جاؤں گا۔
مر جاؤ فاتحہ میں دلوادوں گا اور وعدہ کرتا ہوں تیر امزار بھی بناؤں گا اور ان پر جنگل کے جنگل اگواؤں گا۔ کیا

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے جو لیا عمران پر برس پڑی۔ جوزف میں نے کیا کہا ہے۔ عمران نے جو لیا کا کوئی نوٹس نہ لیتے ہوئے کہا اور پھر جوزف کو نیچے اتر ناپڑا اور پھر وہ کار کے پیچھے ڈنڈ نکالنے کے لیے گیا لیکن عمران نے اسے بیچ سڑک میں جانے کا حکم دیا جولیا کو اس وقت شدید غصہ آگیا بھلا یہ بھی کوئی مزاق کا وقت ہے اس نے عمران کو جھنجوڑ ڈالا لیکن عمران مزے سے چیونگم
چبا تار ہا اور جوزف غریب سڑک کے درمیان کھڑاڈنڈ نکالتا رہا اس کا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا۔
اچانک وہ کھڑا ہو گیا۔
باس اس بار معاف کر دو آئندہ غلطی نہیں ہو گی۔
تم کھڑے کیوں ہو گئے ہو میرے حکم کی عدم تعمیل پر سوڈنڈ اور جرمانہ جلادی کرو ورنہ سواور ۔
اور جوزف جلدی سے دوبارہ ڈنڈ نکالنے لگا۔
جولیا کا غصے سے برا حال تھا اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اچانک اس نے عمران کے بالوں میں ہاتھ ڈال دیا اور اس کے بال مٹھی میں پکڑ کر جھنجوڑنے لگی اور عمران ارے ارے کرتا ہوا اپنے بال چھڑانے لگا۔ میں کہتی ہوں بند کرو یہ ناٹک نہیں تو میں تمہارا سر توڑ دوں گی اور عمران کو مجبور جوزف کو منع کرناپڑ انگر
جوزف نے ڈنڈ پیلنے بند کرنے سے انکار کر دیا۔
اس نے رک کر صرف یہ کہا۔ باس میں عورت کا حکم نہیں مان سکتا۔
ارے گدھے کیا میں عورت ہوں۔
بہر حال حکم دلانے والی تو عورت ہی ہے جوزف نے بدستور ڈنڈ نکالتے ہوئے کہا اور جو لیا کا دل چاہا کہ وہ خود کشی کر لے۔اس نے جھنجلا ہٹ میں کار کا دروازہ اور باہر نکل کر ایک طرف تیزی سے چل دی۔

اتنے میں ایک کار سامنے سے آتی ہوئی نظر آئی وہ جو زف کے نزدیک آکر رک گئی مگر جوزف اپنی دھن میں
ڈنڈ پیلتا رہا۔
اس کار میں دو مر د تھے وہ نیچے اتر آئے اور اتنی حیرانی سے جوزف کو دیکھنے لگے جیسے وہ کسی چڑیاگھر میں پہنچ گئے
ہوں۔
جو زف اب بند کرو۔ اور جازف یک لخت رک گیا۔ جیسے کسی مشین کو بریک لگا یا گیا ہو اس کا سارا جسم پسینے سے شرابور تھاوہ دونوں اب عمران کے پاس آئے اور پوچھنے لگے۔
جناب یہ کیا قصہ ہے ؟
ہیر امن طوطے کا ہے میں نے نانی اماں سے سنا تھا۔ کیا مطلب حیرت سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
مطلب تو مجھے بھی نہیں آتا بہر حال کیا آپ کے پاس کچھ فالتو پٹرول ہو گا؟
” پٹرول”
جی ہاں پٹرول۔ جسے انگلش میں پٹرول کہتے ہیں اور اردو میں بھی پٹرول کہتے ہیں۔ یار یہ اردو بھی کیسی زبان ہے کوئی لفظ بھی تو اس کا اپنا نہیں اب بتاؤ بھلا بول اردور ہے ہیں اور لفظ انگریزی یہ کیا دھاندلی ہے۔ پٹرول کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں اس کا اردو ترجمہ مشمک تیل ہونا چاہیے عمران پوری روانی سے بول
رہا تھا۔
مشک تیل کیا ؟ ان میں سے ایک نے دیا ہی سے پوچھا۔
شائد انہوں نے عمران کو پاگل سمجھ لیا تھا۔ ارے مشمک تیل نہیں جانتے یعنی صاف شدہ مٹی کا تیل ان کے پہلے کے لیے ان کے پہلے کے لئے یعنی صاف

سے ص شدہ سے ش مٹی سے م اور کار سے ک یہ بن گیا مشمک اور تیل ساتھ ملالیا یہ بن گیا مشمک تیل۔ لیکن تیل کو پورا کہنے کی کیا ضرورت ہے تیل کات بھی ساتھ ملالو ایک نے بحث کرتے ہوئے کہا۔
نہیں تیل در اصل بنیادی چیز ہے تیل چاہے مٹی کا ہو یاسر سوں کا ہو تیل ہی ہوتا ہے۔
باس پٹرول جوزف نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا۔اب اس کا سانس ٹھیک ہو گیا تھا۔ ہاں جناب کیا آپ کے پاس پٹرول ہے ؟ عمران نے پھر پوچھا۔
جی ہاں۔ ان میں سے ایک نے اپنی کار کی ڈگی کھول کر پٹرول کا ایک کین اسے لاد یا غنیمت تھا کہ یہ سڑک اکثر سنسان رہتی تھی ورنہ اب تک تو یہاں ٹریفک کا اثر دہام ہو جاتا جوزف نے وہ پٹرول اپنی کار میں ڈالا اور عمران الناسے کچھ کہے بغیر کار میں بیٹھ گیا جو لیا ایک درخت کے بچے کھٹڑی اپنے ہونٹ چہار ہی تھی وہ بھی کار میں آ
کر بیٹھ گئی اور جوزف نے کار سٹارٹ کر دی۔اب اس کارخ دانش منزل کی طرف تھا۔
☆☆☆
دانش منزل کے ساؤنڈ پروف کمرے میں عمران بلیک زیر و اور گرے سوٹ والا جسے کیپٹن شکیل لے آیا تھا موجود تھا۔ وہ گرے سوٹ والا انتہائی خوفزدہ معلوم ہوتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر اس
قسم کے تاثرات تھے جیسے وہ اپنی رہائی کے بارے میں ناامید نہ ہو۔ دیکھوا گر تم نے میرے سوالوں کے صحیح صحیح جواب دیئے تو تمہارے لیے بہتر ہو گا۔ عمران نے اسے مخاطب
ہوتے ہوئے کہا۔ مجھے کچھ نہیں معلوم گرے سوٹ والے نے جواب دیا اب اس کا چہرہ قدرے پر سکون ہو گیا تھا۔ میں کہتا ہوں مجھے تشدد پر مجبور نہ کرو ورنہ تم تو تم تمہارے فرشتے بھی سب کچھ بتادیں گے۔ تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لو اگر تم میری زبان کھلوا سکو تو تم سے زیادہ مجھے خوشی ہو گی۔

ہوں تو یہ بات ہے اچھا اپنا نام تو بتاؤ۔
ہاں نام بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے میر ا نام جیکل ہے۔
جیکل کیا تم امریکی ہو ؟
لیکن جیکل نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ چپکے سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ عمران نے طویل سانس لی اور پھر بلیک زیرو کی طرف مخاطب ہو کر بولا میرے خیال میں ترکیب نمبر 13 مناسب رہے گی۔
بلیک زیرو یہ سن کر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ جب واپس تو اس کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی جو اس نے عمران کو دے دی عمران نے بلیک زیر و کو اشارہ کیا اور اس نے جلدی سے جیکل کو دونوں ہاتھوں کی طرف سے کس لیا۔ جیکل تلملانے لگا لیکن عمران نے ایک بھورے رنگ کا سفوف نکال کر جیکل کی نتھنوں میں ڈال دیا اور پھر ایک ہاتھ سے اس کا منہ سختی سے بند کر دیا۔ جیکل تلملا کر زور سے سانس لی اور بلیک زیر و اور عمران دونوں اسے چھوڑ کر ایک طرف ہٹ گئے اچانک جیکل ایک زور دار چھینک آئی اور پھر تو چھینکوں کا ایک تانتا بندھ گیا جیکل سارے کمرے میں ناچتا پھر رہا تھا۔ اس کے ناک منہ اور آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا۔ آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں سارے جسم کا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا اور وہ پاگلوں کی طرح کمرے میں ہر طرف چھینکتا پھر رہا تھا۔
دیکھو میں کہتا ہوں اب بھی سب کچھ بتادوور نہ چھینکتے چھنکتے دم نکل جائے گا۔ اب جیکل کی بری حالت تھی چھینکیں تھیں کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں شائد اسے انتہائی طاقتور قسم کی نسوار
دی گئی تھی۔ یہ مجرموں کا منہ کھولنے کا ایک نرالا طریقہ تھا جو یقیناً عمران ہی نے ایجاد کیا تھا۔ اب جیکل اور چھینکنے کی تاب نہ رہی اس کی حالت غیر ہو رہی تھی اس نے عمران کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اشارہ کیا کہ وہ سب کچھ بتانے کے لیے تیار ہے۔ عمران نے بلیک زیر و کو اشارہ کیا اس آگے بڑھ کے الماری

سے ہلول نکالا اور جیکل کی نتھنوں میں دو دو قطرے ٹپکا دیئے اور جیکل کی چھینکیں بند ہو گئیں۔ مگر اس کا سانس دہو نکنی کی طرح چل رہا تھا اور وہ بے دم ہو کر فرش پر پڑا ہانپ رہا تھا کچھ دیر بعد اس کی حالت اعتدال پر آئی اور وہ کچھ بتانے کے قابل ہوا۔ بلیک زیرو نے اسے برانڈی کا ایک گلاس دیا جس کے بعد اس کے اعصاب معمول
پر آگئے۔
تمہارا صحیح نام کیا ہے ؟
اب عمران نے اس سے دوبارہ پوچھا۔
صحیح نام۔ میں نے بتایا تو ہے میر انام جیکل ہے اس نے جواب دیا۔
کیا اب تک تمہارا دماغ ٹھکانے نہیں آیا۔ کیا ایک ڈوز کی ابھی ضرورت ہے عمران غرایا۔
بلیک زیرو نے پھر شیشی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
نہیں نہیں میں سب کچھ بتاتا ہوں مجھے کچھ نہ کہو۔
عمران نے اشارے سے بلیک زیر و کو منع کر دیا۔ اور اس سے کہا بتاؤ۔
آپ سوالات پوچھتے جائیں میں جوابات دیتا جاؤں گا۔
لیکن دیکھو اب میں غلط جواب ہر گز نہیں سنوں گا۔ عمران نے کہا اور پھر پوچھا۔
تمہارا نام ؟
کارل بر گر۔
قومیت۔
نیدر لینڈ۔
پاسپورٹ کس ملک کا ہے ؟

غیر قانونی طریقے سے آیا ہوں۔
آنے کی وجہ ؟
تخریب پسندانہ حربے استعمال کر کے آپ کے ملک کو نقصان پہنچانا۔ یہاں کس پارٹی کے تحت کام کر رہے ہو ؟
ماکارونگا کے تحت۔
اس کا ہیڈ کوراٹر کہاں ہے ؟
مجھے نہیں معلوم گروپ میں مجھے ابھی اتنی اہمیت نہیں ہے کہ مجھے ہیڈ کوارٹر کے متعلق پتہ چل سکے۔
تمہاری پوزیشن کیا ہے؟
میرا کام پیغام پہنچانا ہے۔
کیا مطلب؟
کبھی کبھی ایک شخص سے دوسرے شخص تک پیغام پہنچانا۔
پیغام کون دیتا ہے ؟
پیغام مجھے ہمیشہ فون پر ملتا ہے۔ اور جس شخص کو پہنچانا ہوتا ہے اس کا پتہ بھی۔
پھر تم اسے پہنچاتے کیسے ہو ؟
اس کے دستانوں سے۔
دستانوں سے۔
جس شخص کو پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ سفید رنگ کے دستانے پہنے ہوتا ہے۔
احکامات کیا ہوتے ہیں۔ عمران نے پوچھا۔

بالکل مختصر مثلا پانی چڑھ گیا بارش ہو گئی ہے اس قسم کے فقرے۔ لیکن صرف پیغام پہنچانے کے لیے تمہیں دوسرے ملک سے بلایا گیا ہے۔ کیا اس کے لیے کوئی مقامی شخص نہیں مل سکتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں۔ تمہارے سر پر سینگ کیوں نہیں ہیں ؟ عمران یک لخت پوچھا۔ جی۔ اور کارل آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا۔
میں کہتا ہوں تمہارے سر پر سینگ کیوں نہیں ہیں۔ عمران غرایا۔ سینگ اور پھر وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے عمران کو دیکھنے لگا۔
گدھے۔ اس سے میر امطلب یہ ہے کہ تم نے یہ سب کچھ اتنی تفصیل سے کیوں بتایا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم گدھے ہو لیکن تمہارے سر پر سینگ نہیں ہیں اس لیے تم گدھے نہیں بیل ہو۔
اور کارل بے تحاشہ ہنسنے لگا پھر بولا۔ جناب یہ سب کچھ میں نے اس لئیے بتادیا ہے کہ اب مجھ میں مزید چھینکنے کی طاقت نہیں تھی۔ اور سچ سچ اس لئیے بتادیا ہے کہ یہ سب کچھ بتا کر میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ تنظیم مجھے ہر حالت مجھے مار ڈالے گی اس لئیے کیا فائدہ مرنے سے پہلے جھوٹ بولوں۔
عمران نے اس کا شکر یہ ادا کیا اور بلیک زیر و کولے کر اس ساؤنڈ پروف کمرے سے باہر نکل آیا۔
☆☆☆
ابھی رات کے صرف دس بجے تھے لیکن جو لیا بے حد بور ہو چکی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وقت کیسے گزارے۔ ایکسٹو نے آج صبح ہی اسے کہا تھا کہ وہ اس کی طرف سے جب تک دوبارہ اطلاع نہ ملے سیکرٹ سروس کا کوئی ممبر اپنے فلیٹ سے باہر نہ نکلے۔ صبح دس بجے یہ اطلاع ملی اور اب رات کے دس بج چکے

تھے۔ بارہ گھنٹے سے ایکسٹو نے کوئی اطلاع نہ دی تھی۔ اب انہیں کمروں میں بند ہوئے بارہ گھنٹے گزر چکے تھے کئی بار صفدر، تنویر ، چوہان، اور نعمانی جولیا کو فون پر بوریت کی شکائیت کر چکے تھے لیکن جو لیا کیا کر سکتی تھی
جولیا حیران تھی کہ کیپٹن شکیل نے اسے اب تک فون نہیں کیا تھا پھر جو لیا کا ذہن کیپٹن شکیل کے متعلق سوچنے لگا۔ جب سے کیپٹن سروس میں آیا تھا صفدر اور جولیا کے درمیان کئی بار اس سلسلے میں بحث ہو چکی تھی کہ آیا کیپٹن شکیل ہی ایکسٹو ہے شک کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کیپٹن شکیل کا چہرہ ہر وقت سپاٹ رہتا تھا نہ خوشی نہ غمی نہ فکر نہ غصہ کے تاثرات غرضیکہ کسی چیز کا بھی تاثر اس کے چہرے پر نہیں ابھرتا تھا اس سے جولیا یہ نتیجہ نکالتی تھی کہ وہ پلاسٹک میک اپ میں ہے اور سوائے ایکسٹو کے اور کس کو ضرورت ہے کہ وہ سروس میں میک اپ میں آئے۔ لیکن صفدر کا دوسرا خیال تھا اس کا خیال تھا اس کا کہنا تھا کہ اگر ایکسٹو نے ضرور میک اپ کر کے ہمارے ساتھ شامل ہونا تھا تو پھر اتنا بھونڈا میک اپ کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ جسے
ہم لوگ بھی پہچان جائیں۔ بھونڈا تو خیر تم یہ نہیں کہ سکتے ہم نے کتنی بار بغور اس کا چہرہ دیکھا تھا لیکن کسی صورت میں بھی میک اپ معلوم نہیں ہو تا صرف اس کے چہرے کا سپاٹپس دیکھ کر شک ہوتا ہے کہ ضرور کا میک اپ ہو گا لیکن پھر کیپٹن شکیل کی موجودگی میں ایکسٹو کی آواز کا کیا بنے گا اسے کس خانے میں فٹ کیا جائے گا لیکن صفد ر اسے کوئی اہمیت نہ دیتا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا ہو سکتا ہے کہ ایکسٹو نے ایک آدمی ایسا رکھا ہوا ہے جو اس کی آواز کی نقل کر کے اس کے لکھے ہوئے الفاظ اس کے سامنے بول دے معاملہ شک وشبہ ہی میں تھا آخر کار صفدر اور جولیا نے یہ طے کیا تھا کہ کسی طرح کیپٹن شکیل کا منہ امونیا سے دھویا جائے تا کہ معلوم ہو کہ میک اپ ہے یا نہیں۔ لیکن اس کا موقع کب آئے گا اچانک جولیا کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی مانند کوندا کہ کیپٹن تکمیل کو فون کر کے دیکھا جائے کہ آیا وہ فلیٹ میں ہے یا نہیں۔ اس نے تیزی سے نمبر گھمائے اور بے تابی سے ریسیور کو کانوں سے لگالیا۔ چند لمحوں کے بعد دوسری طرف سے ریسور اٹھانے کی۔۔۔

آواز آئی اور جو لیا کے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے۔ اوپر سے ایک غیر مانوس آواز آئی کون بول رہا ہے۔ آپ کیپٹن شکیل بول رہے ہیں۔ جولیا نے پوچھا حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ کیپٹن شکیل کی آواز
نہیں۔ نہیں جناب میں ان کا ملازم جمیل بول رہا ہوں فرمائیے۔
شکیل صاحب کہاں ہیں ؟
وہ دوسرے کمرے میں کتاب پڑھ رہے ہیں۔ انہیں بلواؤا نہیں کہو جو لیا کا فون ہے۔
چند ہی لمحوں بعد جولیا کے کانوں میں ایک بھاری مگر مانوس آواز آئی۔
ہیلو جولیاباؤ آریو۔ اوکے۔
کس سلسلے میں فون کیا۔
کچھ نہیں ویسے سارادن کمرے میں بند پڑے پڑے بور ہو گئی تھی تقریبا سب کے فون میرے پاس آئے۔ سب ہی بوریت کی شکائیت کر رہے تھے۔ ایک تمہارا فون نہیں آیا تھا میں نے سوچا خود ہی فون کر کے حال معلوم کروں۔
جولیا دراصل میری طبیعت کچھ عجیب و غریب واقع ہوئی ہے۔ آج سارادن میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ مجھے مطالعہ کا بے حد شوق ہے میرے پاس دس ہزار نایاب کتابوں کا ذخیرہ ہے مجھے جب بھی زراسی
فرصت ملتی ہے میں کتابوں میں گم ہو جاتا ہوں اس لیے بوریت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
ہوں اچھا شغل ہے کبھی مجھے بھی کوئی کتاب دینا۔

اچھا کبھی میرے پاس آجانا جو کتاب اچھی لگی لے جانا۔
او کے پھر اجازت دو خدا حافظ۔
خدا حافظ اور جولیا کو رسیور رکھنے کی آواز آئی۔
جولیا نے ایک طویل سانس لے کر رسیور رکھ دیا ابھی رسیور رکھے ہوئے ایک ہی منٹ ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی زور سے بجی اس نے سوچا شائد ایکسٹو کا فون ہو اس لئے بڑی پھرتی سے اس نے رسیور اٹھا کر کانوں سے لگایا اور
بولی ہیلو جولیا سپیکنگ۔
جولیا نہیں۔ جو لیا تے فٹرز واٹر بولو عمران کی آواز آئی۔ عمران تم ہو۔ جو لیا ذراسی مسکرائی۔
جی ہاں میں ہی ہوں وہ حقیر فقیر پر تقصیر بیچ مدان بندہ نادان بسمی علی عمران نوکر جس کا سلمان کھارہاہوں آپ
کے کان۔
جو لیا ہنسنے لگی خوب تو آج شاعری کا دورہ پڑا ہے۔
شاعری کون چغد کر رہا ہے میں تو اپنی شان میں مرثیہ پڑھ رہا ہوں۔
کیوں کیا ہوا؟
ہائے ظالم دل کو جلا کر راکھ کر دیا جگر میرا خاک کر دیا۔ اور اب پو چھتی ہو کیوں کیا ہوا۔ یہ کیا بکواس لگارکھی ہے کیا میں رسیور رکھ دوں۔ جولیا نے جھنجلا کر جواب دیا۔
نہیں جو لیا خدا کے لیے رسیور نہ رکھناور نہ میں مارے بوریت کے آج خود کشی کرلوں گا۔ غضب خدا کا اب تمہارا یہ چوہا مجھ پر بھی رعب ڈالنے لگا آج صبح فون کیا کہ جب تک میں نہ کہوں فلیٹ نہ چھوڑنا بھلا بتاؤ یہ بھی

کوئی تک ہے بھلا میں اس کے باپ کا نوکر ہوں کہ اس کے حکم کی پابندی کروں۔
پھر تم نے فلیٹ کیوں چھوڑا جولیا نے پوچھا۔
کیسے چھوڑتا اب اس نے کہ تو دیا تھا۔
اور پھر جولیا کے حلق سے ایک طویل قہقہ نکلا اور پھر وہ لگاتار ہنستی ہی چلی گئی۔
ہائیں ہائیں یہ تمہیں کیا ہوا خدا کے لیے چپ ہو جاؤ ورنہ میرے کانوں کے پر دے پھٹ جائیں گے۔ ارے تمہیں کیا ہو گیا؟ آخر جھنجلا کر عمران نے رسیور رکھ دیا جو لیا کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا تھا اسے جنسی اس خوشی میں آرہی تھی کہ ایکسٹو نے عمران پر اپنی برتری منوالی۔ عمران اسے کچھ نہیں سمجھتا تھا اور اکثر ممبران کے سامنے ڈینگیں مارتا تھا کہ وہ ایکسٹو سے نہیں دیتا۔ آج وہی عمران ایکسٹو کی پابندی کے احکام کے سامنے بے بس ہو گیا ہے حالانکہ اگر غریب جولیا کو یہ معلوم ہو جاتا کہ عمران ہی ایکسٹو ہے تو معلوم نہیں اس کا کیا حشر ہو تا ابھی تک جو لیا اپنی جنسی پر پوری طرح قابونہ پاچکی تھی کہ فون کی گھنٹی پھر بجنے لگی۔ اس نے فوراگر سیور اٹھایا اور پھر غراہٹ آمیز آواز جو یقین ایکسٹو کی تھی سن کر اسے جنسی کا گلا گھونٹنا پڑا۔
میں سر ہنسی کو دبانے کی وجہ سے اس کی آواز عجیب ہو گئی۔ کیا ہو رہا ہے۔ تم شائد فون اٹھانے سے پہلے ہنس رہی
تھی۔
آواز حد درجہ سرد تھی۔
لیس سر عمران نے فون کیا تھا اس کی باتوں پر ہنس رہی تھی۔
جولیا نے خوشگوار موڈ میں جواب دیا تھا۔ جو لیا۔ ایکسٹو کی غراہٹ تیز ہو گئی اور سردی کی ایک شدید لہر جولیا کے جسم میں سرائیت کر گئی۔

میں سر جولیا نے پژمردہ سا جواب دیا۔
میں نے تمہیں ہزار بار کہا ہے کہ فون کو ز یاد و انگیج نہ کیا کرو۔
ہو سکتا ہے کسی انتہائی ضروری کال کے لئیے تم کو فوراً احکام دینے ہوں۔
ایکسٹو کا لہجہ انتہائی سر د تھا۔
معافی چاہتی ہوں باس۔ شدت جزبات سے جولیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
سنو کیپٹن شکیل کو فورا اطلاع دو کہ وہ جھرنا جھیل کے پاس والی قدیم عمارت کے پاس عمران کو ملے۔ او کے سر اور جولیا نے رسیور رکھنے کی آواز سُن کر رسیور رکھ دیا۔ اسے ایکسٹو پر بُری طرح سے غصہ آرہا تھا اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ کیا کرے اور وہ بیچاری کر بھی کیا سکتی تھی۔ ایکسٹو تو ایک پتھر تھا جزبات کا شیشہ تو اس سے جتنی بار بھی ٹکر آتا ٹوٹ جاتا۔ بہر حال اس نے کیپٹن شکیل کو ایکسٹو کے احکام پہنچا دیئے اور خود نڈھال ہو کر پلنگ پر گر گئی۔
☆☆☆
پورے ماحول میں ایک پر اسرار خاموشی چھائی تھی اور گھور تاریکی کی وجہ سے اس پر اسراریت میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا جھاڑیوں اور درختوں میں چھپی ہوئی وہ شکستہ سی عمارت تاریکی میں ایک ہیولہ محسوس ہو رہی تھی اس پر اسراریت میں اس عمارت کی شکستگی بھی کر دار ادا کر رہی تھی عمران ایک شکستہ سے کھنڈر میں دبکا ہوا تھا اس نے چست سیاہ لباس پہنا ہوا تھا اور منہ پر نقاب پہنی ہوئی تھی۔ وہ اس سیاہ لباس میں تاریکی ہی کا ایک
حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ اچانک اس تاریکی کو ایک کار کی مدھم سی روشنی نے چیر ڈالا۔ یہ روشنی صرف چند سیکنڈ کے لئے چمکی تھی اور پھر تاریکی میں مدغم ہو گئی وہ کار ایک سیاہ کشتی کی طرح آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف بڑھ رہی تھی اس کی

تمام لائیٹیں بند تھیں اندر کی لائیٹیں بھی بند تھیں اس لیے کٹھ محسوس تک نہیں ہوتا تھا کہ کار میں کتنے آدمی ہیں اور کون کون ہیں۔ کار آہستہ آہستہ عمارت کے بالکل قریب پہنچ گئی اچانک عمارت میں سے ایک
روشنی کا سگنل ہو ادور سے بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی جگنوچ کا ہو اس روشنی کے ہوتے ہی کار کا دروازہ آہستہ سے کھلا اور پھر اس میں سے دو آدمی نکلے اور عمارت کی طرف بڑھے اور پھر وہ تاریکی میں جذب ہو گئے۔ ایک بار پھر اس پر اسرار تاریکی نے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھوڑی دیر بعد اسی طرح ایک کار اور آئی اور اس میں سے تین آدمی نکل کر اندر چلے گئے۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اب عمران بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔
اچانک فضا میں آلو کی کرخت آواز کو نجی یہ کیپٹن شکیل کا سگنل تھا کہ میدان صاف ہے چنانچہ ادھر سے عمران نے بھی اسی آواز میں سگنل دیا اور پھر وہ آہستہ آہستہ اس کھنڈر سے نکل کر عمارت کی طرف بڑھنے لگا یہ کیپٹن شکیل تھا۔ عمارت کے نزدیک آکر وہ دونوں مل گئے اور پھر رینگتے رہینگتے اس عمارت کی طرف بڑھنے لگے اب وہ ایک شکستہ کمرے میں موجود تھے وہ وہاں دم سادھے پڑے تھے کہ اچانک اس کمرے کی دیوار ایک طرف سرکتی چلی گئی اور ایک شخص اس میں سے باہر نکلا اور پھر وہ کمرے میں سے ہوتا ہوا باہر چلا گیاد یوار پھر سے مل رہی تھی اچانک عمران نے چھلانگ لگائی اور اس ملتی ہوئی دیوار سے اندر چلا گیا بس چند سیکنڈ کا فرق تھا اگر ایک سیکنڈ وہ دیر سے چھلانگ لگاتا تو آج اس کی ہڈیاں دیواروں کے درمیان پھنسی ہوئی ہوتی کیپٹن شکیل ابھی تک
باہر پڑا تھا عمران کی یہ چھلانگ اتنی خطر ناک تھی کہ کیپٹن کھیل جیسے آدمی کے اعصاب جھنجلا اٹھے اور وہ عمران کی بے جگری کا دل سے قائل ہو گیا۔ اب مسئلہ تھا کہ وہ اندر کیسے داخل ہو اس کے لئے انتظار کرنا پڑا کہ
وہ شخص جو ا بھی اندر سے باہر آیا ہے جب وہ دوبارہ اندر جائے گا تو اس وقت کوشش کی جائے گی چنانچہ دم سادھے ایک کونے میں کھڑا رہا اب وہ تاریکی میں آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران نے اندر جاکر

کیا کیا ہو گا ؟ قد موں کی مدھم چاپ دور سے ابھری اور کیپٹن شکیل مستعد ہو گیا وہی شخص اندر آرہا تھا وہ تیزی سے کمرے میں آیا اس نے شکستہ دیوار میں ایک سوراخ میں انگلی تھمائی اور دیوار ایک بار پھر سے سرکنے لگی اور وہ اندر داخل ہو گیا۔ دیوار ایک بار پھر تیزی سے مل گئی چند لمحے ٹھہر کر کیپٹن شکیل اس سوراخ کی طرف بڑھا اس نے اس سوراخ میں انگلی ڈالی تو اسے ایک جگہ ابھری ہوئی محسوس ہوئی اس نے اسے دبایا اور دیوار ایک بار پھر کھل گئی اور وہ تیزی سے اندر داخل ہو گیا اندر بھی ایک کمرہ ساتھا جیسے ہی اس نے قدم اندر رکھا دیوار ایک بار پھر تیزی سے مل گئی وہ چند لمحے کمرے کے ایک کونے میں کھڑارہا پھر وہ کونے میں بنے ہوئے دروازے کی
طرف بڑھا اس نے دروازے سے سر باہر نکال کر دیکھا اسے لمبی سی ایک گیلری نظر آئی جس کے دونوں طرف کمرے بنے ہوئے تھے اور گیلری میں ایک طاقتور بلب لگا ہوا تھا جس سے گیلری روز روشن کی طرح چمک رہی تھی کیپٹن شکیل اس گیلری میں داخل ہوا اور دیوار کے ساتھ چپک کر آگے بڑھنے لگا۔ جب پہلے
کمرے کا دروازہ آیا تو اس نے اپنے کان دروازے کے ساتھ لگا دیئے لیکن کوئی آواز نہ آئی۔ شکر یہ ہے کہ گیلری بالکل سنسان تھی وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا ایک دروازے میں اسے کچھ روشنی نظر آئی اس نے کی ہول میں سے نظر اندر ڈالی اسے ایک شخص عجیب سی مشین کے سامنے بیٹھا نظر آیا ابھی وہ اسے اچھی طرح دیکھ بھی نہ سکا تھا کہ گیلری میں بھاری قدموں کی آواز ابھری وہ فورا ایک طرف جھکا مگر وہاں چھپنے کی کوئی
جگہ نہیں تھی۔ اس نے دیوار کے ساتھ چپکنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بے سود تھی سامنے سے آنے والے دو اشخاص تھے جن کے ہاتھوں میں ٹامی گئیں تھیں۔ جیسے ہی انھوں نے کیپٹن شکیل کو دیکھ وہ ایک لمحے کو ٹھٹکے مگر دوسرے لمحے ان کی ٹامی گئیں اس کی طرف تن گئیں۔ کیپٹن شکیل کے ہاتھوں کو جنبش ہوئی اور گیلری میں جلنے والا ہلب ایک دھماکے سے بجھ گیا۔ کیپٹن شکیل نے انتہائی پھرتی سے چھلانگ لگائی اور دوسری
طرف زمین پر لیٹ گیادونوں ٹامی گنوں سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور اب وہ اندھادھند گولیاں چلار ہے

تھے کیپٹن شکیل انتہائی تیز رفتاری سے زمین پر رینگ رہا تھا اس کی جان سخت خطرے میں تھی گولیاں اس کے ارد گرد پڑ رہی تھیں اچانک اس نے دو بایا اور ایک بھیانک چیخ ابھری اور ایک نامی گن خاموش ہو گئی پھر دوسری پیچ ابھری اور دوسری نامی گن بھی خاموش ہو گئی۔ اچانک کمروں کے دروازے دھڑادھڑ کھلنے لگے
پھر پوری گیلری فلش لائٹ سے چمک اٹھی اب کیپٹن شکیل کو سوائے ہاتھ اٹھانے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کر ارد گرد ٹامی گنوں سے لیس نقاب پوش کھڑے تھے انہاں نے کیپٹن شکیل کو ایک طرف چلنے کا اشارہ کیا اور کیپٹین شکیل ہاتھ اٹھائے ہوئے ان نقاب پوشوں کی رہنمائی میں چلنے لگا وہ گیلری کی سیدھی سمت جار ہے ہیں لیکن کیپٹن شکیل سوچ رہا تھا کہ عمران کہاں ہو گا ابھی تک عمران کہیں نظر نہیں پڑا تھا اور نہ ہی اس
سے پہلے اسے کوئی گڑ بڑ ہوتی نظر آئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران کسی مخصوص جگہ بحفاظت پہنچنے میں کامیاب ہو چکا ہے پھر وہ یہاں آنے کے مقصد پر غور کرنے لگا آج صبح جولیا نے اس عمارت کے پاس پہنچنے کے لیے ایکسٹو کا حکم سنایا تھا پھر یہاں اسے عمران ملا اور اس نے اسے بتایا کہ اس عمارت میں شائد ماکا زونگا کی مقامی برانچ کا ہیڈ کواٹر موجود ہے اس لئے آج رات تم اور میں اس عمارت میں گھسیں گے شائد کوئی سراغ مل جائے چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ اس وقت یہاں موجود تھا اچانک اس کی سوچ میں خلل پڑ گیا کیوں کہ اسے دائیں طرف مڑنے کا حکم دیا گیا وہ دائیں طرف مڑ گیا یہاں گیلری کا اختتام تھا اور سامنے ایک بڑادر وازہ نظر آ رہا تھا جو بند تھا اور جس پر پینل کی دو تلواریں جڑی ہوئی تھیں اس دروازے کے سامنے ایک نقاب پوش نامی کن ہاتھ میں لیے ٹہل رہا تھا انہیں دیکھتے ہی وہ رک گیا اس نے تشکلیل کی طرف گن سیدھی کر لی تشکیل ایک لمحے کے لیے رک گیا لیکن پیچھے سے ٹھو کا ملتے پھر آگے بڑھنے لگا جب وہ اس محافظ کے پاس پہنچا تو پیچھے آنے
والے نقاب پوشوں میں سے ایک نے دروازے کے محافظ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
ماکا عظیم ہے ۔

دروازے پر ٹہلنے والے محافظ نے جواب دیا۔
زونگا عظیم ترین ہے۔
اس کے بعد دروازے والے محافظ نے اپنی ٹامی گن نیچے کر لی۔ اس نے شکیل کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ
یہ کون ہے اور اس جگہ کیسے آئے۔
معلوم نہیں کیسے آیا ہے ویسے مجھے تو کوئی مقامی جاسوسی معلوم ہوتا ہے پیچھے سے آواز آئی کیپٹن شکیل ہاتھ اٹھائے خاموشی یہ مکالمے سنتا رہا۔
دروازے پر ٹہلنے والے محافظ نے ایک تلوار کے دستے پر بنے ہوئے کسی بٹن کو دبایا پھر دوسری تلوار کے دستے پر زور دیا پھر ان دونوں کی نوکوں کو کھینچا اور پھر ان تلواروں کے نیچے بنے ہوئے ہینڈل کو گھمایا۔ اب در واز و ا یک زور دار چڑ چڑاہٹ سے کھل گیا اندر ایک بہت بڑا ہال نظر آیا جس میں چاروں طرف قسم قسم کی مشینیں چل رہی تھیں۔ ان میں سے ہر ایک مشین کے سامنے ایک ایک شخص بیٹھا ہوا تھا چند مشینوں میں اسکرین بھی تھے۔ جن پر مختلف انمارے نظر آ رہے تھے ہر شخص اپنے اپنے کام میں لگا ہوا تھا چند نقاب پوش یہاں بھی نامی تھیں لئے ٹہل رہے تھے کیمپین غور سے مشینوں کو دیکھتا ہو اور میان میں سے گزرتا چلا گیا بال کے ایک طرف پہلے دروازے کی طرح بڑا دروازہ تھا جس کے پار ایک اور گیلری نظر آرہی تھی۔ کیپٹن شکیل اس ٹوٹی پھوٹی عمارت کے نیچے اس قدر عظیم الشان اور پر اسرار انتظامات دیکھ کر حیران رہ گیا اب وہ گیلری میں گزر رہے تھے ایک دروازو پر جاکر وہ رک گئے اس کے باہر ایک سرخ بلب جل رہا تھا۔ ایک نقاب پوش نے کونے میں لگاہوا بٹن دبایا اور پھر دروازے کی طرف منہ کر کے اٹنشن کھڑا ہو گیادوسرے نقاب پوش بھی عد کھڑے تھے۔ اچانک دروازے کے سامنے لگا ہو اہلب سرخ سے سبز رنگ میں تبدیل ہو گیا اور در واز و آہستہ آہستہ کھلنے لگا نقاب پوشوں نے کیپٹن شکیل کو اندر چلنے کا اشارہ کیا اور کیپٹن شکیل آہستہ آہستہ

اندر داخل ہو گیا نقاب پوش بھی اندر داخل ہو گئے اندر ایک تاریک سا کمرہ تھا سامنے ایک بڑی مشین نظر آرہی تھی جس پر مختلف قسم کے بٹن نظر آرہے تھے سینکڑوں کی تعداد میں ڈائل تھے اس مشین کے ایک کونے میں اسکرین بھی تھارنگ رنگ کے بلب بڑی تیزی سے اسپارک کر رہے تھے جس پر سرخ رنگ کی بہتات تھی اس پورے کمرے میں کوئی بھی شخص نہ تھا شکیل حیران تھا کہ اب کیا ہو گا کہ اچانک بلب تیزی سے اسپارک کرنے لگا اور پھر سکرین روشن ہو گئی جس میں ایک سایہ ساکرسی پر بیٹھا نظر آرہا تھا اس سایہ کو دیکھتے
ہی تمام نقاب پوشوں نے بیک وقت بلند آواز میں کہا۔
“ما کا عظیم ہے”
” زونگا عظیم ترین ہے”
ہم ماکاز و نگا کو سلام کرتے ہیں۔
اچانک اس سائے کے ہونٹ ہلے اور پھر مشین پر لگی ہوئی ایک جالی میں سے آواز آئی۔
ماکاز و نگا کے غلاموں میں یہ کون ہے ؟
یہ شخص گیلری نمبر ایک میں پھر رہا تھا۔
یہ آواز اتنی غضب ناک تھی کہ مشین کی جالی بھی تھر تھرا اٹھی۔
اور کیپٹن شکیل کے کانوں میں جیسے لوہے کی گرم سلاخ اترتی چلی گئی اور وہ نقاب پوش جھک گئے۔ کیا کسی نے غداری کی ہے جو اس شخص نے یہاں داخل ہونے کاراستہ پالیا ہے۔
نقاب پوش
اچھا اسے چھوڑ کر باہر چلے جاؤ۔
اور گیلری نمبر ایک کے آپر یٹر کو فور حاضر کرو۔

آواز میں غراہٹ بدستور موجود تھی۔
چاروں نقاب پوش باہر نکل گئے اور دروازہ ایک بار پھر ہند ہو گیا اب کیپٹن شکیل اس مشین کے سامنے اکیلا کھڑا تھا تم کون ہو ؟ منہ سے نقاب اتار و جالی سے آواز آئی لیکن کیپٹن شکیل چپکے سے کھڑارہا۔ کیا تم نے سنا نہیں۔ اس بار آواز میں شدید غراہٹ تھی۔ لیکن کیپٹن شکیل گم صم کھڑا تھا۔ اس نے کوئی حرکت نہ کی۔
اچانک بلب انتہائی تیزی سے سپارک کرنے لگے اور پھر ایک بار یک شعاع تیزی سے کیپٹن تشکیل پر پڑی اس شعاع کا پڑ نا تھا کیپٹن شکیل کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی ہوں اور کوئی شخص اسے منہ پر سے نقاب اتارنے کا حکم دے رہا ہو۔ اچانک کیپٹن شکیل کاہاتھ اٹھا اور اس نے اپنے منہ پر سے نقاب اتار لی۔ دماغ میں سکون ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی مشین میں بلبوں کی سیار کنگ بھی کم ہو گئی۔ کیپٹن تشکیل حیران رہ گیا جالی میں سے ایک قہقہ بلند ہوا۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور وہ چاروں نقاب پوش ایک آدمی کو لے کر آگئے جس کا رنگ زرد پڑ گیا۔
وہ مشین کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
گیلری نمبر ایک پر تم تھے۔ آواز آئی۔
میں سر ۔ اس نوجوان نے بدستور سر جھکائے جواب دیا۔
پھر یہ نوجوان کیسے پہنچ گیا۔ آواز انتہائی غضب ناک ہو گئی۔
لیکن نوجوان بدستور سے جھکائے کھڑا رہا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
ہوں تم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہو۔ اتنا کہتے ہی ایک سبز کی شعاع اس مشین سے نکلی اور اس نوجوان پر پڑی اور
نوجوان کی ایک بھیانک چیخ نکلی اور ایک لئے کے بعد اس کی لاش وہاں پڑی تھی۔ بالکل جلی ہوئی لاش ایسا

معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے اسے روسٹ کر دیا ہو۔
نقاب پوش فور جھکے اور اور ماکاز و نگازندہ باد کا نعرہ لگانے لگے۔ اس کے بعد جالی سے پھر آواز آئی۔
اب تم بتاؤ تم کون ہو۔ دیکھو سچ سچ بتاؤ ورنہ تمہارا حشر بھی یہی ہو سکتا ہے۔
میں سی آئی ڈی انسپکٹر ہوں۔
ہوں تم غلط بیانی کر رہے ہو۔
میں سچ بول رہا ہوں کیپٹن شکیل نے زور دے کر کہا۔
اچھا تم یہاں کیسے آئے؟
میں راہ بھنک کر ادھر آگیا لیکن یہاں سے اچانک دیوار کھلی دیکھ کر نیچے اتر آیا۔ بکو اس تم جھوٹ بول رہے ہو۔ دیکھو اپنی جان کے گاہک نہ بنو سب کچھ بتادوور نہ یہاں لوگ موت کو ترستے ہیں اور موت نہیں آتی۔
میں نے سب کچھ بتادیا ہے کیپٹن شکیل نے کہا۔
ماکاز و نگا کے غلاموں تم باہر جاؤ اور چند منٹ کے بعد اس کی لاش لے جانا۔
اور نقب پوش دروازہ کھول کر باہر نکل گئے۔
ابھی دروازہ پوری طرح بند نہیں ہوا تھا کہ کیپٹن شکیل نے پھرتی سے ریوالور نکال لیا اور پھر اس نے مشین پر لگاتار فائر کرنے شروع کر دیئے پہلا فائر ہوا اور ایک بہت بڑا بلب جو مسلسل سپارک کر رہا تھا ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد دوسرافائر ہوا اور سکرین تاریک ہو گئی اس کے ساتھ ہی مشین سے ایک عجیب سی شعاع نکلی اور کیپٹن شکیل کی طرف بڑھی لیکن کیپٹن شکیل پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا شعاع سیدھی سامنے کے دروازے پر پڑی اور دروازہ پگھل گیا جیسے موم پگھلتا ہے کیپٹن شکیل نے ایک اور فائر کیا ایک اور ڈائل ٹوٹا مگر اس کے بعد کیپٹن کیل کے دماغ پر دھندی چھا گئی اور اس کے تمام احساسات یکدم سو گئے اسے اتنا یاد تھا کہ وہ بری طرح

ہاتھ پیر مارتا ہوا نیچے گر رہا ہے اس کے بعد مکمل تاریکی تھی۔
عمران جیسے ہی چھلانگ مار کر اندر آیاوہ ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا۔ عمران چند لمحے اس کمرے میں کھڑا رہا پھر ہاتھ میں پستول لے کر دروازے سے باہر نکل آیا سامنے ایک لمبی سی گیلری تھی جس میں ایک بہت بڑا تیز بلب جل رہا تھا اور گیلری کے دونوں طرف کمروں کے دروازے تھے اور سامنے سے دو ٹامی گنوں والے راؤنڈ لگا کر واپس جارہے تھے۔ عمران آہستی آہستہ ان کے پیچھے چل دیا اچانک وہ آخری سرے پر جا کر مڑنے
لگے اب عمران کے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہ تھی عمران ایک لمحہ کے لیے ٹھٹکا لیکن پھر بجلی کی تیزی سے ساتھ والے دروازے کی طرف بڑھا اس نے دروازے پر زور دیا اور اتفاق سے وہ دروازہ کھلا تھا۔ عمران پلک
جھپکتے ہی اندر داخل ہو گیا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا راؤنڈ لگانے والوں کی قدموں کی آواز ویسے ہی نیچی تلی اور پر سکون تھی اس لئیے عمران کو اطمینان ہو گیا کہ انہوں نے اسے نہیں دیکھا اب عمران کمرے کے اندر کی طرف متوجہ ہوا کمرہ خالی تھا لیکن اس میں ایک میز اور کرسی رکھی ہوئی تھی۔ ایک طرف ایک بہت بڑی الماری رکھی ہوئی تھی۔ اس کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا اس میں قسم قسم کے کپڑے دکھائی دے رہے تھے میز پر ایک گلاس رکھا جس میں ابھی تک شراب تھی۔ عمران گلاس کے پاس آیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا اسے
محسوس ہوا جیسے گلاس میں شراب کی سطح تھر تھرارہی تھی۔ وہ فور اوار ڈروب کے پیچھے چھپ گیا ایک لمحے کے بعد سامنے کی دیوار میں ایک شگاف ہوا اور ایک لمبانڑ نگا شخص نمودار ہوا اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی اور وہ جیسے ہی اس شگاف سے باہر آیا شگاف دوبارہ بند ہو گیاوہ
آہستہ آہستہ چلتا ہوا کرسی پر آبیٹھا اور گلاس میں رکھی ہوئی باقی ماندہ شراب اٹھا کر حلق میں انڈیل لی۔ فائل کھول کر اسے پڑھنے لگا۔ عمران کی طرف اس کی پشت تھی عمران آہستہ سے الماری کے پیچھے سے نکلا اور قدم پر
قدم رکھتا ہوا اس کی طرف بڑھا ویسے بھی قالین پر ربڑ سول جوتے آواز نہیں دیتے تھے اس نے اپنی جیب سے رومال نکالا اور عمران نے ایک ہاتھ اس شخص کے گلے میں ڈالا اور رومال اس کی ناک پر رکھا ایک لمحے کے لیے
وہ نثر پالیکن شائد رومال میں کلور و فارم کی مقدار کافی سے زیادہ تھی کیوں کہ دوسرے لمحے وہ عمران کے ہاتھوں جھول گیا عمران نے اسے پکڑ کر زمین پر لٹادیا اور اس کی نبض دیکھ کر اندازہ لگایا پھر مطمئن ہو کر فائل کی طرف متوجہ ہو گیا فائل پر نظر ڈالتے ہی وہ بری طرح چونکا اس نے جھپٹ کر وہ فائل اٹھائی اور پھر جیسے جیسے
وہ اسے پڑھتا گیا اس کی حالت متغیر ہوئی گئی پھر اس نے وہ فائل موڑ توڑ کر اپنے کوٹ کی اندر والی جیب میں رکھ دی۔ اب وہ الماری دیکھ رہا تھا جس میں کپڑے ٹنگے ہوئے تھے اس نے کپڑوں کے پیچھے ہاتھ بڑھا کر دیکھا تو اسے ایک اور خانہ محسوس ہوا اس نے اسے کھولا اس میں مختلف کا غذات تھے جو تمام کے تمام کو ڈور ڈز میں لکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے عمران نے یہ سب نکال کر اپنی جیبوں میں ٹھونس لیے یکدم وہ اچھل پڑا کیونکہ گیلری میں ٹامی گنیں چلنے کی آوازیں آنے لگیں ایک فائر ہوا اور پھر ایک چیخ نکلی۔ عمران نے جلدی سے اس شخص کے کپڑے اتارے خود پہنے اپنے کپڑے اسے پہنائے کاغذات نکال کر اپنی جیبوں میں رکھے اور الماری میں رکھا ہوا ایک نقاب جس پر ایم زیڈ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے اپنے منہ پر چڑھالیا اب گیلری میں شور مچ گیا تھا۔ وہ دروازے کے پاس آیا اس نے زر اس دروازہ کھول کر دیکھا تو کیپٹن شکیل ٹامی گنوں کے درمیان کھڑا تھا اس نے طویل سانس لی اور دروازہ بند کر دیا۔ اب وہ اس خفیہ دروازے کو کھولنے کا طریقہ معلوم کرنا چاہتا تھا اس نے تمام دیواروں کو ہلکا ہلکا ٹھونکا مگر بے سود آخر اس نے آتشدان پر رکھی ہوئی تصویر کو ہلا یا مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی اچانک اسے تصویر کے کونے سے ایک سرخ رنگ کا نقطہ نظر آیا اس نے اس پر انگلی رکھ کر اسے دبایا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا اس نے کوٹ کے کالر سے پن نکالا اور اس کے سرے سے اس رخ نقطہ کو دبایا تو دیوار کھٹ سے کھل گئی عمران کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی وہ جلدی سے اس شگاف
کی طرف بڑھا نیچے سیڑھیاں جارہی تھیں وہ ایک ایک کر کے نیچے اتر تا گیا دوسری سیڑھی پر اس کا قدم پڑتے ہی دیوار پھر برابر ہو گئی اب وہ انتہائی چوکنا ہو کر نیچے اتر رہا تھا دسویں سیڑھی کے بعد وہ ایک کمرے میں پہنچ گیا
جس میں ایک بہت بڑی میز تھی۔ میز پر ایک بہت بڑی مشین تھی جو اس وقت بند پڑی تھی عمران نے اسے غور سے دیکھا لیکن وہ کچھ نہ سمجھ سکا اس نے کمرے میں ادھر اُدھر نظریں گھمائیں تو اسے ایک کونے میں ایک دروازہ نظر آیا اس نے وہ دروازہ ذرا سا کھولا اور دوسری طرف دیکھنے لگا ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں بہت سی مشینیں چل رہی تھیں آپریٹر ان کے سامنے بیٹھے انہیں کنٹرول کر رہے تھے وہ اندر داخل ہو گیا جیسے ہی وہ اندر کرر۔
وہ
داخل ہوا تمام ٹامی گن والے جو وہاں ٹہل رہے تھے اٹینشن ہو گئے وہ سر ہلاتا ہوا ایک سرے سے دوسرے
سرے کی طرف بڑھاوہ سمجھ گیا کہ جس کا اس نے لباس پہنا ہوا ہے وہ شائد یہاں کا انچارج ہو یا کوئی اچھی پوزیشن رکھتا ہو۔ وہ باری باری ایک ایک مشین کے پاس رکتا اور پھر اسے غور سے دیکھنے لگا ایک مشین کے سکرین پر اسے صدر مملکت اپنے آفس میں کام کرتے دکھائی دیئے پھر صدر مملکت نے میز کی دراز میں سے ایک فائل نکالی اور اس کا مطالعہ کرنے لگا آپریٹر نے اب وہ فائل ایک زاویہ سے دکھائی دینے لگی پھر آپریٹر نے
ایک اور بٹن دبایالاب مشین نے اس فائل کے فوٹو اتارنے شروع کر دیئے عمران یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا اسی طرح ہر مشین کسی نہ کسی اہم شخصیت کی نگرانی کر رہی تھی نگرانی کا یہ طریقہ دیکھ کر عقل جواب دے گئی اتنی ترقی یافتہ اور بڑی تنظیم کے متعلق تو اس نے سوچا ہی نہ تھا اور نہ ہی اس عمارت میں گھستے وقت اسے خیال آیا تھا کہ وہ اتنی بڑی تنظیم کے ہیڈ کواٹر میں جارہا ہے خیر وہ آہستہ سے ہال کے سامنے کے دروازے میں چلا گیا سامنے ایک گیلری نظر آرہی تھی اس کے دونوں طرف بھی دروازے تھے اس نے ایک دروازے پر دباؤڈالا
تو وہ کھل گیا عمران اندر گھسا در وازہ پیچھے سے بند ہو گیا کمرے میں ایک میز کرسی پر ایک نوجوان جس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک معلوم ہو رہی تھی بیٹا شراب پی رہا تھا۔ اس نے عمران کو کرسی پر پیٹھنے کا اشارہ
کیا اور پھر بولا آج ایک مقامی جاسوس پکڑا گیا ہے اس نے مشین گن نمبر ایک پر فائر نگ کر دی ہے اب وہ مشین ٹھیک ہو رہی ہے میں نے اسے ہلاک اس لئے نہیں کیا کہ اتنی جرات کرنے والا یقینا کوئی معمولی شخص نہ ہو گا اب میں اس سے تمام راز اگلواؤں گا مگر تم بولتے کیوں نہیں ہوا چانک عمران نے اچھل کر اس کے ناک پر ٹکر دے ماری اور وہ ڈ کراتا ہوا کرسی سے نیچے جا گرا لیکن پھر سنبھل کر کھڑا ہو گیا عمران کی کوٹ کی جیب میں سے فائر ہوا اور گولی اس شخص کی کھوپڑی میں سوراخ کرتی ہوئی نکل گئی کمرہ چونکہ ساؤنڈ پروف معلوم ہوتا
تھا اس لئے آواز باہر جانے کا خطرہ نہ تھا ایسا کرنا عمران کے لئے ضروری ہو گیا تھا کیوں کہ عمران بول نہیں سکتا تھا اور نہ ہی کوئی ایسی حرکت کر سکتا تھا اس نے جس کا لباس پہنا ہوا تھا اس کی آواز ہی نہیں سنی تھی اور وہ کو ڈورڈ بھی نہیں جانتا تھا اس نے دوبارہ اپنے کپڑے اتارے اور دوسرے کے کپڑے اتار کر خود پہنے اس کا نقاب منہ پر لگایا اور اسے اٹھا کر الماری میں ٹھونس دیا اور خود کمرے کا معائنہ کرنے لگا پھر بغلی دروازے سے وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا سامنے ایک کمرہ نما مشین رکھی ہوئی تھی۔ جس پر مختلف بٹن لگے ہوئے تھے ایک کونے میں سکرین تھی اس نے میز پر بیٹھ کر ایک سبز رنگ کا بٹن دبایا تو اچانک ساری مشین کے ڈائل جلنے لگے بلب سپارک کرنے لگے اور پھر سکرین پر ایک کمرے کا عکس ابھر نے لگا جس کا دروازاہ بند تھا اور کمرہ خالی تھا۔ وہ پریشان ہو گیا اچانک کمرے کے دروازے کے اندر لگا ہوا سرخ بلب جلنے بجھنے لگا عمران نے کچھ سوچتے ہوئے مشین کے پیلے رنگ کا بٹن دبایا یہ ٹھیک کہ وہ اس طرح ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہا ہے کیوں کہ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ ان بٹنوں کے دبانے سے کیا ہو گا کہیں ان کارد عمل خطر ناک نہ ہو لیکن وہ عمران تھا اس کے دل میں جو خیال آجاتا پھر دنیا کا کوئی خوف اس کو اس خیال پر عمل کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا تھا بہر حال زردرنگ کے بٹن دبانے سے کائی خاص رد عمل نہ ہوابلکہ دروازے کے اندر کا بلب بند ہو گیا اور عمران نے دیکھا کہ دروازہ آہستہ آہستہ کھل رہا ہے پھر دروازے سے ایک نقاب پوش اندر داخل ہوا
جس نے ٹامی گن اٹھائی ہوئی تھی اس نے اندر داخل ہو کر سر جھکایا اور پھر عمران کے سامنے کی مشین سے آواز سنائی دی وہ نقاب پوش سر جھکائے ما کا عظیم ہے زونگا عظیم ہے کے نعرے لگارہا تھا عمران نے بغیر سوچے سرخ
رنگ کا بٹن دباد یا اب مشین کے بلب تیزی سے جلنے بجھنے لگے اچانک عمران نے دیکھا کہ مشین میں سے
سرخ رنگ کی شعاع نکلی اور اس نقاب پوش پر پڑی جو سر جھکائے کھڑا تھا نقاب پوش کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور ایک منٹ کے بعد اس نقاب پوش کی جلی ہوئی لاش وہاں پڑی ہوئی تھی۔ عمران یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اب صرف ایک بٹن تھا جو نیلے رنگ کا تھا اس نے وہ باد یا تھوڑی دیر بعد اسے سکرین پر وہ بال نظر آیا جس میں تمام آپریٹر کام کر رہے تھے۔ سکرین کے نیچے ایک چھوٹاسا ہینڈل لگا ہوا تھا اس نے اسے گھمایا اس کے ساتھ ساتھ منظر بھی تبدیل ہونے لگا اسے سکرین پر ہر کمرہ باری باری نظر آنے لگا کہیں پر جدید اسلحہ
کے ڈھیر لگے ہوئے تھے کسی کمرہ میں شراب کی بوتلوں کے انبار تھے ایک چھوٹے سے کمرے میں کرنسی نوٹ بنانے کی مشین تھی اس طرح وہ باری باری ہر کمرہ دیکھتا گیا اس کی آنکھ میں شدید حیرت تھی اتنی بڑی اور
مکمل تنظیم اس کی آنکھوں کے سامنے تھی وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا اتنے انتظامات ہوئے اسے آج تک خبر نہ تھی۔ بہر حال ایک کمرے کو دیکھ کر وہ چونک پڑا کیوں کہ اس میں کیمپٹن شکیل ایک کرسی پر بندھا ہوا تھا اب اس کے سامنے دو مسئلے تھے ایک تو کیپٹن شکیل کو آزاد کرنا اور دوسرا ان تمام مشینوں پر یاتو حکومت کا قبضہ کر انا یا انہیں تباہ کرنا اسے اطمینان تھا کہ اس نے ہیڈ کوارٹر کے انچارج کو ختم کر دیا ہے یہ بھی ایک اتفاق تھا ور نہ نجانے انچار ج تک پہنچنے کے لیے عمران کو کتنے ہاتھ پیر مارنے پڑتے لیکن اس کے باوجود جو لحہ بھی گزر رہا تھا اس کے لیے خطرہ بڑھ رہا تھا آخر کار اس نے ایک فیصلہ کن قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پھر کچھ سوچ کر انچارج کا لباس پہنے وہ کمرے سے باہر نکل کر گیلری میں آگیا یہ ایک انتہائی خطر ناک اقدام تھا کیوں کہ عمران کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ آیا انچارج کبھی راؤنڈ بھی لگاتا تھایا نہیں اگر لگاتا تھا تو باقی لوگوں سے اس کا رویہ کیسا ۔
تھا بہر حال جو ہو سو ہو کے مصداق اس نے فیصلہ کن قدم اٹھایا اب وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی تو نہیں بیٹھ سکتا تھا بہر حال جیسے ہی اس نے گیلری میں قدم رکھا ایسا معلوم ہوا جیسے پورے ماحول میں ایک عجیب قسم کی بے چینی سنسنی اور کے اسراریت کی پھیل گئی جسے عمران نے بھی بخوبی محسوس کر لیا۔ اس سے اسے معلوم ہوا کہ انچارج اول تو کبھی باہر نہیں نکلا دوسرا اس کاروبیہ دیگر لوگوں سے انتہائی سخت رہا ہو گا۔ ورنہ اسے دیکھتے ہی پورے ماحول میں ایک بے چینی اور عدم اطمینان کی لہر نہ دوڑ جاتی جیسے ہی عمران آہستہ آہستہ سے گیلری میں نکل سامنے پہرہ دینے والے نقاب پوشوں کے گروہوں سے ا کا عظیم ہے زونگا عظیم ترین ہے کے نعروں سے اس کا استقبال کیا لیکن عمران آہستہ آہستہ سے ان کے پاس سے گزر گیا اس نے صرف ایک ہاتھ جس پر سیاہ رنگ کے دستانے پہنے ہوئے تھے اٹھانے پر اکتفا کیا۔ وہ ہال میں داخل ہو گیا اسے دیکھتے ہی تمام آپر یٹر اپنے کاموں میں اور بھی زیادہ تندہی سے مصروف ہو گئے کسی نے ایک نظر بھی اٹھا کر اوپر نہ دیکھا عمران ان کے درمیان میں سے گزرتا ہوا دوسری گیلری میں نکل آیا وہ کتاب ہوش نامی گن اس کے پیچھے پیچھے بطور باڈی
گارڈ آرہے تھے عمران ایک دروازہ کھول کر ایک کمرے میں داخل ہو گیا پھر اس کے عقبی دروازے سے داخل ہو کر وہ بڑے ہال میں داخل ہو گیا۔ یہاں ایک بہت بڑا پلانٹ کسی بہت بڑے مقصد کے لیے نصب تھا
عجیب و غریب مشینیں تھیں عمران سمجھ گیا کہ یہ پلانٹ کسی بہت بڑے مقصد کے لیے یہاں نصب ہے
بہر حال وہ اس کے آپریٹر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اس نے اس پلانٹ کا مقصد سمجھنے کے لیے اسے غور سے دیکھنے لگا اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے اٹھا کر ہواؤں میں اچھال دیا ہو لیکن یہ صرف اس کہ ذہنی کیفیت تھی کیوں کہ اب اس پلانٹ کا مقصد وہ کسی حد تک سمجھ گیا تھا یہ پلانٹ زمین سے پانی باہر نکالنے لے لیے نصب تھا جس کا مظاہرہ پچھلے دنوں ماکاز و نگا بطور سزا کر چکا تھا اب عمران کے لیے یہ لازمی ہو گیا کہ وہ ہر قیمت پر اس پلانٹ کو تباہ کر دے وہ فورامڑا اور اس کمرے کی طرف چل دیا جس میں کیپٹن شکیل بند تھا کمرہ کا
نمبر سکرینگ مشین سے وہ دیکھ چکا تھا وہ کمرے کے سامنے رکا اس کے باہر تالا لگا ہوا تھا اور ایک نقاب پوش ٹامی گن اٹھائے باہر پہرہ دے رہا تھا عمران نے اسے تالا کھولنے کا اشارہ کیا اس نے جھٹ تالا کھول دیا اور دروازہ کھول کر عمران اور اس کے ساتھ دو باڈی گارڈ اندر داخل ہوئے کیپٹن شکیل کرسی پر بندھا ہوا تھا لیکن اس کا چہرہ انتہائی سپاٹ تھا عمران اسے دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا پھر اس نے انچارج کے لہجے میں پکارا۔
تمہار ادماغ ٹھکانے لگا یا نہیں۔ لیکن کیپٹن شکیل نے کوئی جواب نہ دیا۔
عمران نے دوسرے نقاب پوشوں کو اس کے کھولنے کا حکم دیا اور اسے اپنے کمرے میں پہنچانے کے لیے کہا انہوں نے جھٹ کیپٹن شکیل کو کھول دیا اور پھر اسے لے کر انچارج کے کمرے کی طرف بڑھے عمران ان سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکا تھا وہ لوگ کیپٹن شکیل کو چھوڑ کر خود باہر چلے گئے کیپٹن شکیل کے ہاتھ ابھی تک بندھے ہوئے تھے۔ عمران نے ہر طرف سے اطمینان کر کے اپنا نقاب اتار دیا اور کیپٹن شکیل اسے دیکھ کر حیران رہ گیا لیکن حیرت صرف اس کی آنکھوں ٹپک رہی تھی چہرے سے نہیں عمران نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ کھول دیئے اور آہستہ سے اسے تمام حالات بتادیئے اب دونوں نے مل کر اس ہیڈ کوارٹر کو تباہ کرنا تھا
عمران نے اس کے لیے ڈائنامیٹ تجویز کیا لیکن سوال یہ تھا کہ ڈائنامیٹ لایا کہاں سے جائے اسے آپریٹ کہاں سے کیا جائے کیپٹن شکیل نے ٹائم بم کا مشورہ دیا لیکن یہاں مسئلہ ان کی فوری فراہمی کا تھا اچانک عمران
کو ایک تجویز سو جبھی اس نے نقاب چہرے پر ڈالا اور خود اٹھ کر اس مشین پر جا بیٹھا اس نے سبز رنگ کا بٹن د با یا اور مشین کو سٹارٹ کر دیا سکرین پر کمرے کا عکس ابھر اتو اس نے فور آنیلے رنگ کا بٹن دبادیا اب کسی حد تک وہ اس مشین کو سمجھ چکا تھا اس لیے آسانی سے اسے آپریٹ کر چکا تھا سکرین پر ہال کا عکس ابھر الیکن وہ ہینڈل گھماتارہا اور ایک کمرہ میں ایک نقاب پوش کرسی پر بیٹا شراب پیتا نظر آیا اس کے سینے پر نمبر 3 لکھا ہوا ۔

تھا عمران نے ہینڈل کو اہیں روک دیا اور پھر اس نے زردرنگ کا بٹن دبایا اور پھر اس نے سکرین پر اس شخص کو چونکتے دیکھا اور پھر وہ شخص تیزی سے اٹھا اور چہرے پر نقاب ٹھیک کرتا ہو ادر وازہ کھول کر باہر نکل گیااب
عمران نے ہینڈل کو دوبارہ گھمایا اور جب اس کمرے کا عکس نظر آیا جو پہلے نظر آتا تھا تو اس نے ہینڈل کو چھوڑ دیا۔ اچانک اسے کمرے کے اندر لگا ہو ابلب جلتا بجھتا نظر آیا اس نے زردرنگ کے بٹن کو ایک بار پھر دبایا بلب بجھنے سے رک گیا اور دروازہ آہستہ سے کھلا اور وہی نقاب پوش نمبر 3 اندر داخل ہوا۔ اس نے اندر داخل ہو کر مخصوص نعرہ لگایا اور پھر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا عمران نے مائیک کا بٹن دبایا اور پھر سر سراتی ہوئی آواز میں بولا۔
نمبر 3۔ میں سر ، نمبر 3 نے سر اٹھا کر کہا۔
ہماری سٹاک میں کتنے ٹائم بم موجود ہیں۔
عمران انچارج کی آواز آئی۔
جناب ہمارے سٹاک میں دس ہزار ٹائم بم موجود ہیں۔
نمبر 3 ادب سے جواب دیا۔
ہوں۔ اچھا ابھی جاؤان میں سے پانچ سومیلگا پاور کے دس ٹائم بم لے آؤ۔ بہت بہتر اس نے کہا اور پھر تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گیا عمران نے پھر ہینڈل کو گھمایا تو سکرین پر وہ نقاب پوش ایک گیلری میں تیزی سے جاتا نظر آیا عمران سکرین پر اسے فالو کر رہا تھا نقاب پوش چلتا ہوا ایک دروازے پر رک گیا۔ اس نے دروازے پر مخصوص دستک دی دروازہ کھل گیا اور وہ اندر داخل ہو گیا اندر ایک
بہت بڑا اسلحہ خانہ تھا عمران اس اسلحہ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اسے اس اسلحہ خانہ کا علم نہیں تھا اس نے دیکھا نقاب پوش وہاں بیٹھے ایک نقاب پوش سے دس ٹائم بم لے رہا تھا عمران اب شکیل کی طرف متوجہ ہوا اس نے
اسے ساری سکیم بتائی کہ جیسے ہی نمبر تین بم لے کر اندر داخل ہو میں اس کی جگہ لے لوں گا تم اس مشین پر بیٹھ جانا عمران نے اسے آپریٹ کرنے کا طریقہ بتلادیا اس نے اسے بتایا کہ میں یہ بم مختلف کمروں میں رکھوں
گا تم اس مشین کے ذریعے مجھے فالو کرنا جہاں کچھ خطرہ معلوم ہو یہ سرخ رنگ کا بٹن د بادینا فوکس میں جتنے لوگ ہوں گے وہ جل جائیں گے۔ لیکن یہ اس وقت کرنا جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو یہ کہ کر اس نے اپنا انچارج والا لبادہ اتار کر شکیل کو پہنادیا اور شکیل وہ مخصوص نقاب لگا مشین پر بیٹھ گیا اتنے میں نمبر تین بموں کا ڈبہ لے کر مخصوص کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا کیپٹن شکیل نے اسے اندر آنے اجازت دی اور پھر اسے ہدایت کی کہ وہ اسے کمرہ ایک میں پہنچاد و کمرہ نمبر ایک انچارج کا ذاتی کمرہ تھا نمبر تین وہ ڈبہ لے کر کمرہ ایک کی طرف بڑھ گیا جہاں عمران اس کی تاک میں تھا جیسے ہی نمبر تین اندر داخل ہوا عمران نے اسے چھاپ لیا چوں کہ یہ افتاد اس کے لیے اچانک پڑی تھی اس لیے وہ بے خبری میں مار کھا گیا چنانچہ چند ہی لمحوں بعد وہ عمران کے ہاتھوں میں جھول رہا تھا۔ عمران نے پھرتی سے اس کے کپڑے اتارے اور اپنے کپڑوں پر پہن لیے پھر اس نے بموں کو نکال کر اپنے لبادے میں مختلف جگہوں پر چھپانا شروع کر دیا اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکل
☆☆☆
عمران کمرے سے باہر تیزی سے گیلری میں چلنے لگا اس نے تمام ہم نکالے اور پندرہ منٹ کا ٹائم سیٹ کیا اور پھر ایک بم گیلری میں لگی ہوئی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ عمران کے خیال میں یہ اس ٹوکری کا بہترین مصرف تھا بہر حال وہ آگے بڑھا۔ اور ہال میں داخل ہو گیا وہ آہستہ سے چلتا ہوا ایک کونے میں گیا اور ایک مشین کے پاس کھڑا ہو گیا۔ آپریٹر نے اسے دیکھا اور پھر اپنے کام میں لگ گیا۔ عمران نے ہاتھ میں وہ چھوٹا سا مگر انتہائی طاقتور ہم لیا اور پھر آہستہ سے اس کی مشین اور پچھلی دیوار کے درمیان ڈال دو یا پھر وہ خاموشی سے
باہر نکلا اسلحہ خانے کا انچارج اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا اس نے اس سے رجسٹر مانگا اور پھر اس رجسٹر کو دیکھنے لگا پھر اچانک وہ زور سے چونکا اور غور سے دوسرے کمرے کی طرف دھیان کر کے سننے لگا۔اسلحہ خانے کا انچارج بھی نقاب لگائے ہوئے پریشان ہو گیا اس نے نمبر تین کی طرف حیرانگی سے دیکھا عمران نے اس کے کان میں یہ کہا کہ دوسرے کمرے سے کوئی آواز آرہی ہے جا کر دیکھو کون ہے۔ وہ تیزی سے اس کمرے کی طرف بڑھا اور عمران نے پھرتی سے اسلحہ کے ڈھیر کے درمیان وہ بم چھپا کر رکھ دیا وہ انچارج واپس آیا تو اس نے بتایا کہ وہاں کوئی نہیں ہے عمران نے اپنا وہم جان کر مطمئن کر دیا اور پھر وہ واپس مڑ گیا۔ اب اس نے گیلری میں بنے ہوئے مختلف خالی کمروں میں ہم چھپا دیئے اب وہ اس پلانٹ کی طرف جارہا تھا جس نے
پچھلے دنوں پورے دار الحکومت میں بھیانک تباہی پھیلا دی وہ اس کمرے میں داخل ہو اوہاں صرف ایک آپر یٹر ڈیوٹی پر موجود تھا۔ پلانٹ مکمل طور پر بند تھا آپر میٹر نے اسے دیکھتے ہی سلوٹ کیا اس نے سلوٹ کا جواب
دیا اور پھر اسے اشارے سے اپنی طرف بلایا وہ اس کی طرف بڑھا عمران نے اس کی گردن پکڑ لی وہ بھی خاصہ طاقتور تھا لیکن عمران کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ چلی اور چند لمحوں بعد اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں اور وہ دم توڑ چکا تھا۔ عمران نے اس کی لاش گھسیٹ کر ایک طرف ڈالی اور خود سکریو ڈرائیور لے کر اس پلانٹ کی ایک سائڈ کھولی اس میں سے اس نے بم رکھ کر اسے دوبارہ کس دیا اب اسے اطمینان ہو گیا کہ اگر کسی نے آپریٹر کی
لاش دیکھ لی تو وہ پلانٹ کو نہ بچا سکیں گے۔ یہاں سے فارغ ہو کر وہ اطمینان سے باہر نکلا لیکن باہر نکلتے ہی وہ ٹھٹھیک گیا کیوں کہ سارے ہال میں ہلچل مچ رہی تھی اس کی سمجھ میں اس سب کہ وجہ نہ آسکی۔ لیکن اچانک اسے خیال آیا کہ کہیں کیپٹن شکیل کار از تو نہیں کھل گیا کیوں کہ اس نے بہت سے نقاب پوش ٹامی گن اٹھائے کمرہ نمبر ایک کی طرف بھاگتے دیکھے ٹائم بم پھٹنے میں صرف دس منٹ باقی رہ گئے تھے اب ان دس منٹوں میں اسے بھی اور کیپٹن شکیل کو بھی اس عمارت سے باہر نکل جانا تھا لیکن یہ اچانک افتاد اور آپڑی تھی لیکن بھاگتے
بھاگتے ایک نقاب پوش سے ٹامی گن لینا نہ بھولا اس پہرے دار نے اسے اپنا آفیسر سمجھتے ہوئے اپنی ٹامی گن اسے پکڑادی وہ تیزی سے کمرہ نمبر ایک کی طرف بڑھا دروازہ کھلا ہوا تھا اور بہیں بچھپیں نقاب پوش اند رٹامی گئیں اٹھائے کھڑے تھے وہ نمبر تین کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے لیکن وہ اسے پہچان نہ سکے کیوں کہ یہاں تمام لوگ منہ پر نقاب ڈالے پھرتے تھے اس لیے وہ کچھ نہ سمجھ سکے عمران نے دیکھا کہ کیپٹن شکیل ایک شیشے
کے بہت بڑے جار میں بند ہے عمران کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیپٹن شکیل یکدم یہاں کیسے بند ہو گیا لیکن اب وقت سوچنے کا نہ تھا مکمل تباہی میں اب صرف سات منٹ باقی رہ گئے تھے عمران نے نامی گن سیدھی کی اور پھر کمرہ ٹامی گن کی ریٹ سے گونج اٹھا ایک ہی وار میں تمام نقاب پوش فرش پر تڑپ رہے تھے عمران نے ٹریگر پر بدستور دباؤ ڈالے رکھا سینکڑوں گولیاں ان کے جسموں سے پار ہو گئیں اور چند لمحوں بعد وہاں فرش
پر خون ہی خون تھا اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں عمران بھاگ کر کیپٹن تشکیل کی طرف بڑھا اس نے چاروں
طرف دیکھا کہ اس جار میں کہیں بھی دروازو نہ تھا اس نے کیپٹن شکیل کو آواز دی لیکن بے سود اور کیپٹن شکیل کے ہونٹ ہلے لیکن عمران کو کوئی لفظ نہ سنائی دیاب عمران نے کیپٹن تکمیل کو ایک طرف ہلنے کا اشارہ کیا اور گولیوں کی باڑ اس شیشے پر ڈالی لیکن اس پر کوئی اثر نہ پڑا۔ اب عمران گبھرا گیا کیوں کہ بم پھٹنے میں صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے اور انہی پانچ منٹوں میں اسے سب کچھ کرنا تھا بہر حال اس نے ہمت نہ ہاری فوری طور پر اسے ایک ہی خیال آیا اس نے جیب سے آخری ٹائم بم نکالا اور کیپٹن شکیل کو اشارہ کیا کہ وہ فرش پر لیٹ جائے اب جو کچھ ہوا سو ہوتا اگر رہائی کی صورت نکل آئی تو خیر ورنہ موت تو سامنے ہی تھی کیپٹن شکیل اشارہ پاتے ہی فور از مین پر لیٹ گیا عمران نے ہم پر دو سیکنڈ کا ٹائم لگایا اور ہم شیشے کی دیوار کے پاس رکھ کر خود بھی پھرتی سے
زمین پر لیٹ گیا پلک جھپکتے ہی دو سیکنڈ گزر گئے اور پھر ایک زبردست دھماکہ ہوا اور اس شیشے کے جار کے پرزے اڑ گئے اس کے ساتھ ہی وہ کمرہ بھی تباہ ہو گیا ایک بھاری شہتیر عمران کے بالکل پاس آگرا اس شہتیر کی
وجہ سے کیپٹن شکیل اور عمران بچ گئے کیوں کہ تمام ملبہ اس شہتیر نے روک لیا اب دونوں وہاں سے اٹھے اور باہر کی طرف بھاگنے لگے ہم پھلنے میں صرف تین منٹ باقی رہ گئے تھے وہ تیزی سے ایک گیلری میں بھاگے اس دھماکے کی وجہ سے تمام اڈوں میں دوڑ مچی ہوئی تھی گھنٹیاں بج رہی تھیں سرخ اور سبز بلب جل رہے تھے
وہ دونوں تیزی سے ایک طرف بھاگے اس گیلری کی طرف ایک ٹنل سی بنی ہوئی تھی وہ دونوں تیزی سے اس میں دوڑنے لگے یہ پانی کا بہت بڑا پائپ تھا وہ بے تحاشہ بھاگ رہے تھے اچانک عمران کا پاؤں پھسلا اور وہ تیزی سے اس ٹنل میں پھسلتا چلا گیا دوسرے لمحے وہ ٹنل کے دوسرے سرے سے باہر ہوا میں اڑتا چلا جار ہا تھا شنل زمین سے کافی اونچائی پر بنی ہوئی تھی۔ اس لیے وہ تقریباً ہوا میں اڑتا ہو از مین پر جا گرا کیپٹن شکیل اس سے پہلے زمین پر پڑا تھا۔
چند لمحوں تک اسے کچھ محسوس نہ ہوا لیکن پھر اچانک کان پھاڑ کر دھماکہ ہوا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی آتش فشاں پہاڑ گرج رہا ہو پے در پے دھما کے ہو رہے تھے عمران اور شکیل کے نیچے کی زمین ہل رہی تھی پھر ایک زبردست دھماکہ ہوا اور ایسا محسوس ہوا جیسے عمران اور شکیل کے اعصاب جواب دے گئے ہیں اور ان کی
قوت سماعت ختم ہو گئی ہو۔
☆☆☆
صفدر نے اپنی موٹر سائیکل ریستوران کے پارکنگ شیڈ کی طرف گھمادی وہ نیچے اترا اور جیبوں میں ہاتھ ڈالے
ریستور ان کے ہال میں داخل ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ دونوں غیر ملکی ایک کونے والی میز پر بیٹھ رہے ہیں۔ صفدر آہستہ سے چلتا ہوا ان کی طرف بڑھا اور ان کے قریب کی میز پر جا کر بیٹھ گیا وہ اسے دیکھ کر قطعاًنہ چونکے جس سے صفدر نے اندازہ لگایا کہ انہیں تعاقب کا علم نہیں ہو اوہ آج صبح سے ایکسٹو کے حکم سے ان دونوں کا تعاقب کر رہا تھا اس لئے کسی حد تک صفدر بور ہو گیا تھا لیکن حکم بہر حال حکم تھا بوریت کی انتہا ہی
کیوں نہ ہو جائے صفدر نے بیرے کو کافی کا آرڈر دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر منہ سے لگایا اب اس نے جیب سے لائٹر نکالا جو جسامت میں عام لاکٹروں سے قدرے بڑا اور وزن میں قدرے زیادہ تھا اس نے لائٹر سے سگریٹ سلگا یا لیکن اس دوران دوان دونوں کے دود و پوز لے چکا تھا اس لائٹر میں ایک انتہائی چھوٹا مگر انتہائی طاقتور کیمرہ نصب تھا۔ صفدر نے لائٹر جیب میں رکھ لیا اور پھر اطمینان سے کافی پینی شروع کر دی جو بہرہ اس کی میز پر رکھ گیا تھا وہ دونوں بھی چپ چاپ کافی پی رہے تھے۔ اچانک ان میں سے ایک بولا۔
آج کدھر جانا ہے۔ نمبر تین میں۔
نمبر ایک تباہ ہو گیا ہے۔
ہاں زبردست نقصان پہنچا ہے۔
اور پھر چپ ہو رہے اتنے میں ایک لڑکی ان کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آئی وہ کوئی غیر ملکی نظر آرہی تھی۔ صفدرا کے چہرے سے اس کی قومیت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہاوہ۔ اس کے نزدیک آتے ہی وہ دونوں احتراماً کھڑے ہو گئے اور وہ بھی ان کے برابر کرسی پر بیٹھ گئی۔ پھر صفدر کو بھی چونکنا پڑا کیوں کہ جولیا بھی ہال میں داخل ہو رہی تھی اور اس کی نظریں ہال میں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں صفدر سمجھ گیا کہ جو لیا اس لڑکی کے تعاقب میں یہاں آئی ہے۔ چنانچہ جیسے ہی جو لیا کی نظریں اس لڑکی پر پڑیں اس کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نظر آئی صفدر نے جولیا کو اشارہ کیا اور وہ سیدھی اس کی میز کی طرف چلی گئی۔
کیسے بیٹھے ہو ؟ جولیانے بیٹھتے ہی سوال کیا۔
دو شعروں پر غور کر رہا ہوں۔ صفدر نے جواب دیا۔ شعروں پر ایک لمحے کے لیے جو لیا کو حیرت ہوئی لیکن پھر وہ سمجھ گئی کہ صفدر کسی کا تعاقب کرتے ہوئے
یہاں تک آیا ہے اس لئیے اس نے اور سوال نہ کیا۔ صفدر نے اس کے لیے کافی کا آرڈر دیا اور پھر غور سے ساتھ والی میز کی گفتگو سنتار ہاوہ لوگ اب اطالوی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ صفدر کسی حد تک اطالوی زبان سمجھ رہا تھا لیکن جو لیا اس زبان سے نابلد تھی چناچہ خاموشی سے بیٹھی کافی پیتی رہی صفدر نے سنا کہ وہ آپس میں کسی آپریشن کے سلسلے میں بات کر رہے ہیں لیکن ان کی آواز اتنی مدھم تھی کہ صفدر کافی کوشش اور توجہ کے بعد سوائے چند لفظوں کے اور کچھ نہ سن سکاکافی
دیر تک گفتگو کرنے کے بعد وہ لڑکی اٹھ کر چلی گئی اور اس کے ساتھ جو لیا بھی چلی گئی صفدر نے دوبارہ کافی منگائی اور اسے پینے بیٹھ گیا۔ اب دونوں اٹھ کر اوپر بنے ہوئے کمرے میں جارہے تھے اور صفدر سوچ رہا تھا کہ آیا یہ اسی ریستوران میں رہائش پزیر ہیں یا کسی اور سے ملنے جارہے ہیں چنانچہ اس نے چیک کرنے کا فیصلہ کیا
اور جیسے ہی وہ دونوں اوپر جا کر ایک اور گیلری کی طرف مڑے صفدر نے پھرتی سے اپنی میز چھوڑی اور سیر ھیوں کی طرف بڑھ گیا اس سے پہلے وہ میز پر نوٹ رکھنانہ بھولا تھا صفدر جب اس گیلری تک پہنچا جس پر وہ دونوں مڑے تھے تو اسے وہ ایک کمرے میں گھستے دکھائی دیئے وہ اس کمرے کی طرف بڑھا اور پھر گیلری میں ادھر ادھر دیکھا تمام گیلری سنسان تھی صفدر نے اپنی آنکھیں کی ہول پر لگائیں اندر اسے چار آدمی ایک
میز کے گرد بیٹھے نظر آئے اچانک قدموں کی چاپ ہوئی اور صفدر پھرتی سے دروازے کے ایک طرف ہٹ گیا اور پھر آہستہ آہستہ آگے جانے لگا یہ ایک ویٹر تھا جو ٹرے ہاتھ میں لئیے اسی کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا اس کی ٹرے میں چار گلاس تھے صفدر آگے بڑھ کر نیچے اتر گیا اور پھر اس نے ایکسٹو کو فون کیا تا کہ اس سے مزید ہدایات لے ایکسٹو نے اسے وہاں سے فوراً کیفے گلستان پہنچنے کو کہا جہاں عمران اس کا انتظار کر رہا تھا اور یہاں صفدر کی بجائے نعمانی کی ڈیوٹی لگادی تھوڑی دیر بعد نعمانی ہال میں داخل ہو ا صفدر نے اسے تمام حالات سے آگاہ کر دیا اور خود باہر نکل کر موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے سڑک پر نکل آیا اب اس کارخ کیفے گلستان کی طرف
تھا کیفے گلستان اس شہر کا ایک ماڈرن کیفے تھا اس کی سب سے بڑی شہرت اس کا باغ تھا شائد اس شہر کا بہترین باغ تھا اس وجہ سے شام کے وقت لوگ عموماً کیفے گلستان جانازیادہ پسند کرتے۔ صفدر کی موٹر سائیکل بڑی تیزی سے سڑک پر بھاگ رہی تھی اور صفدر کاذہن ان دو آدمیوں کی طرف لگا ہوا تھا جنہیں وہ پیچھے نعمانی کی نگرانی میں چھوڑ آیا تھا اس ادھیٹرپن میں اسے تعاقب محسوس نہ ہوا حالانکہ اسی ریستوران ہی سے ایک چھوٹی سفید رنگ کی کار اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ اس میں دو آدمی سوار تھے صفدر کی موٹر سائیکل کیفے گلستان کے کمپاؤنڈ میں مرگئی اور اس کے ساتھ ہی وہ موٹر بھی اس کمپاؤنڈ میں آکر ر کی صفدر موٹر سائیکل کو لاک کرتے ہوئے ہال کی طرف بڑھا یہاں عمران ایک میز پر بیٹھا اونگھ رہا تھا صفدر اس کی میز کی طرف بڑھا اس نے عمران کے کاندھے پر ہاتھ رکھا لیکن پھر وہ اپنی جگہ سے اچھل پڑا کیوں کہ عمران اس کے ہاتھ لگاتے ہی کرسی کے نیچے آگرا تھا لیکن فور اٹھ کھڑا ہوا اس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلق سے بے اختیار قیقے نکل پڑے لیکن عمران صفدر کو اس طرح آنکھیں جھپکا جھپکا کر دیکھ رہا تھا جیسے پہلی بار دیکھ رہاہو صفدر ندامت سے سرخ ہو رہا تھا عمران کا یہ مذاق اسے کھل گیا مگر وہ کر بھی کیا سکتا تھا چپکے سے ساتھ بیٹھ گیا عمران دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے
لگا جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو آخر تنگ آکر صفدر نے عمران کو کہا۔
عمران صاحب۔
عمران نے آنکھیں پھاڑ کر صفدر کی طرف دیکھا اور پھر بولا آپ نے مجھے کچھ کہا ہے ؟
نہیں تو تمہارے فرشتوں سے کہ رہاہوں۔ صفدر نے جھنجلا کر کہا۔ معاف کیجئیے میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ عمران نے معصومیت سے جواب دیا۔ صفدر سمجھ گیا کہ عمران کسی وجہ سے اس سے انجان بنا چاہتا تھا اس لئے اب وہ بھی چپ چاپ بیٹھ گیا اور عمران
پھر اونگھنے لگا صفدر راتنی شدت سے بور ہو گیا کہ جس کی انتہا نہیں اس کا ذہن لگاتار بوریت بوریت کی گردان
کر رہا تھا اس نے عمران کو دیکھا اور دوسرے لمحے وہ جھٹکے سے اپنی کرسے چھوڑ چکا تھا وہ تیزی سے باہر کو لپکا اس کے اٹھتے ہی وہ دونوں بھی اپنی اپنی میزوں سے اٹھ کر باہر کو لیکے عمران نے کن آنکھوں سے انہیں دیکھا اور پھر وہ بھی کرسی سے اٹھ کر باہر جارہا تھا لیکن باہر جانے لے لیے اس نے سامنے والے دروازے کی بجائے عقبی دروازے کا رخ کیا اس طرف سے وہ تیزی سے گھومتا ہوا باہر نکل کر دیکھا تو اسے وہ دونوں ایک کار میں بیٹھے تیزی سے ایک طرف جاتے دکھائی دیئے۔ عمران نے ایک ٹیکسی رو کی اور پھر تیزی سے اس کار کا تعاقب
کرنے لگا۔ صفد ر اپنے تعاقب سے بے خبر انتہائی جھنجلاہٹ میں مبتلا اپنے فلیٹ کی طرف جارہا تھا یہ اس کی زندگی کا پہلا موقع تھا جب وہ اتنی شدید جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو گیا تھا کہ وہ ایکسٹو کے حکم کو بھی بھلا بیٹھا تھا اور تیزی سے اپنے فلیٹ کی طرف چل پڑا۔ عمران سیکسی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کسی طرح صفدر کو اس کے فلیٹ جانے سے روکا جائے وہ نہیں چاہتا تھا کہ صفدر کی رہائش گاہ دشمنوں کی نظر میں آجائے کیوں کہ عموما سیکرٹ سروس کے ارکان ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہتے ہیں اس طرح تھوڑی سی نگرانی کے بعد تمام سیکرٹ سروس کے ارکان سے واقف ہو جائیں گے وہ دوسروں کو بھی بحیثیت ایکسٹو صفدر کے فلیٹ میں جانے سے روک سکتا ہے لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ صفدر کا فلیٹ ان کی نظروں میں آئے لیکن صفدر کی موٹر سائیکل کچھ اتنی تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی کہ وہ کچھ نہ کر سکتا تھا اچانک صفدر کا ذ ہن پلٹا اور اسے ایکسٹو کا حکم یاد آیا کہ وہ عمران سے ملے اس کا مطلب تھا کہ وہ عمران سے کوئی ہدایت لے یا اس کے ساتھ مل کر کام کرے لیکن عمران نے اسے وہاں نہ پہچانا جس سے بور ہو کر وہ واپس پلٹ پڑا تھا لیکن اب اسے خیال آیا کہ عمران نے یہ سب کچھ کسی وجہ سے کیا ہوگا اور پھر اسے اپنے تعاقب کا خیال آتے ہی اس کے ذہن پر چھائی ہوئی تمام دھند چھٹ گئی اور اب وہ اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ وہ ایک سیدھی اور صاف بات بھی نہ سمجھ سکا یقینی
بات تھی کہ صفدر کا تعاقب کیا جارہا ہے اس لئے عمران نے اسے نہ پہچانا بھی عمران کوئی اور راستہ نکالتا کہ
صفدر واپس جانے کی حرکت کر بیٹھا۔ اب اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا اچانک اسے خیال آیا کہ اگر اس وقت اس کا تعاقب ہو رہا تھا تو یقینا اب بھی ہو رہا ہو گا یہ سوچتے ہی وہ ایک اور سڑک مڑ گیا عمران نے جیسے ہی اسے وہ سڑک مڑتے دیکھ وہ سمجھ گیا کہ صفدر کو عقل آگئی ہے چنانچہ اس نے ایک ٹیلی فون یوتھ کے پاس اپنی ٹیکسی روک لی اور خود اتر کر ٹیلی فون بوتھ میں گھس گیا ٹیلیفون میں سکے ڈالنے کے بعد اس نے ڈائل گھمایا
دوسری طرف فون اٹھانے والا بلیک زیر و تھا۔
ہیلویکسٹو سپیکنگ۔ بلیک زیرو کی آواز آئی۔
عمران سپیلنگ۔
میں سر۔
ایکسٹو پہلے تو کار نمبر 1210 کے جے ڈی کے مالک کا پتہ کر اؤ جلدی دوسرے تمام ممبران سے کہہ دو کہ وہ
اب صفدر کو مت ملیں وہ ماکاز و نگا کہ نظروں میں آگیا ہے۔
او کے سر میں ابھی ہدایات جاری کر دیتا ہوں۔
نعمانی سے جیسے ہی رپورٹ ملے مجھے مطلع کر دینا۔ اس کے ساتھ ہی عمران نے رسیور رکھ دیا۔ ادھر صفدر نے دو تین موڑ کاٹنے سے ہی محسوس کر لیا کہ واقعی اس کا تعاقب ہو رہا ہے چنانچہ وہ مالا بار ہوٹل کی طرف چلا گیا مالا بار ہوٹل میں وہ تیزی سے داخل ہوا پھر فور ار یکریشن ہال سے ہوتا ہوا عقبی دروازے سے باہر نکل آیا۔ اب وہ گھومتا ہو اد و بارہ ہوٹل کے سامنے ایک چھوٹے سے کیفے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر گھنی مونچھوں کا اضافہ ہو چکا تھا ایک انتہائی سادہ سا میک اپ مگر اس سے اس کا چہرہ بدل گیا تھا اب سوائے غور سے دیکھنے کے اسے پہچان نہ جاسکتا تھا بھی اسے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ وہ دونوں اشخاص جو اس
کا پیچھا کر رہے تھے سراسیمگی کی حالت میں باہر نکلے انہوں نے صفدر کی موٹر سائیکل دیکھی شند لمحے باتیں
کرتے رہے اور پھر کار میں بیٹھ کر ایک طرف چل دیئے صفدر تیزی سے اٹھا ایک چھوٹا نوٹ میز پر رکھا اور ٹیکسی پکڑ کر ان کے پیچھے چل دیا۔ وہ نزدیک ہی ایک کو عظمی میں کھس گئے یہ ران منزل تھی شہر کے مشہور رئیں رانا شہزاد کی کوٹھی صفدر اس کے بعد نزد یکی ہو تھ کی طرف چلا گیا اور ایکسٹو کو تمام حالات بتائے اور پھر
اپنے فلیٹ کی طرف چلا گیا اسے کیفے گلستان سے اٹھ آنے پر کافی جھاڑ پڑی تھی۔
☆☆☆
آج کا دن پورے دارالحکومت پر قیامت بن کر گزرا۔ آج سارا دن سڑکوں پر فائرنگ ہوتی رہی بے گناہ لوگ گولیوں کی بوچھاڑ میں مرتے رہے پولیس کی پوری مشینری حرکت میں آگئیلیکن اس قتل و غارت پر قابونہ پایا جاسکا اور یہ قتل وغارت عجیب طریقے سے ہوتی بھرے بازار میں اچانک ایک خوش پوش آدمی پستول نکالتا اور پھر چھ سات آدمی زمین پر گر کر تڑپنے لگتے۔ لیکن اچانک ایک نامعلوم سمت سے گولی آئی اور اس کا سینہ توڑتی نکل جاتی سارا دن شہر میں یہی ہو تا رہا دو پہر تک لوگ گھروں میں بندر ہے سارا شہر سنسان ہو گیا صرف
پولیس شہر میں گشت کر رہی تھی لیکن پھر یہ وباپولیس میں بھی پھیل گئی اور پولیس والوں نے اپنے سروس ریع الور نکال لئیے اور پھر پولیس کے سپاہی اور آفیسر سڑکوں پر ڈھیر ہونے لگے اب تو حکام انتہائی پریشان لیکن چار بجے کے بعد یہ قتل و غارت ختم ہو گئی اس کے بعد رات تک کچھ نہ ہوا تو لوگ ڈرتے ڈرتے گھروں سے نکلنے لگے ایک بار پھر بازاروں میں ازدھام ہو گیا ہر طرف اس قتل و غارت کے چرچے تھے انداز دس پندرہ ہزار آدمی مر چکے تھے ساری رات حکام پریشان ہو کر میٹنگ پر میٹنگ بلاتے رہے لیکن کسی کی بھی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب کچھ کیا ہے ؟ ادھر عمران بھی سخت پریشان ہو گیا اس کے خیال میں کسی مخصوص مقناطیسی اثر کے تحت ایسا ہوا تھا اس نے اپنے تمام ممبروں کو حکم دیا کہ وہ صبح ہوتے ہی بازاروں میں گشت کریں اور جہاں کسی شخص کو پستول نکالتے دیکھیں اسے فورا گولی مار دیں اگر ہو سکے تو ایسے کسی ایک دو اشخاص کو دانش منزل
پہنچادیں ساممران کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لئے اینٹی میگنٹ آلات دیئے گئے جو انہوں نے جیبوں میں رکھے ہوئے تھے۔ یہ عجیب و غریب حکم ملتے ہی سارے ممبران سخت پریشان تھے زندگی میں پہلی بار نہیں سرکاری حکم کے تحت کھلے بندوں قتل و غارت کرنی تھی یہ ان کا پہلا بھیانک تجربہ تھا لیکن اس کے باوجود مجبور تھے چنانچہ صبح ہی صبح وہ سارے شہروں میں پھیل گئے ان میں سے ہر ایک کے پاس دو دوریوالور اور فالتو کارتوسوں کا کافی ذخیرہ تھا۔ عمران کا خیال تھا کہ سورج نکلتے ہی قتل و غارت شروع ہو جائے گی۔ چنانچہ ایساہی ہوا چھ بجے صبح جیسے ہی سورج طلوع ہوا ایک بار پھر بازاروں میں فائرنگ کی آواز میں اور زخمیوں کی چیخوں اور آہوں کی فریادیں گونجنے لگیں۔ اس بار بالواسطہ تو ر پر سیکرٹ سروس کرار کان بھی ملوث تھے۔ وہ جیبوں میں ریوالوروں ہر ہاتھ رکھے ہر شخص کو غور سے دیکھتے پھر رہے تھے پھر جیسے اچانک کوئی شخص پستول نکالتا ان کے ریوالور سے ایک گولی نکلتی اور اس شخص کی کھوپڑی سے پار ہو جاتی کہیں کہیں وہ گولی مارتے دیکھے جاتے تو انہیں لوگوں سے جان بچانے کے لئیے بھاگنا پڑتا ابھی تک کیپٹن شکیل اور صفدر ہی ایک ایک شخص کو دانش منزل میں پہنچانے میں کامیاب ہو سکے تھے دن کے بارہ بجے تک ایک بار پھر سینکڑوں لوگ مر چکے تھے اگر سیکرٹ سروس کے ارکان واقعی قتل و غارت نہ کرتے تو شائد تعداد ہزاروں میں تبدیل ہو جاتی۔ دارالحکومت میں کرفیو نافز کر دیا گیا شہر کا نظام فوج نے سنبھال لیا جو ٹامی گنوں اور مشین گنوں سے مسلح تھے ایک گھنٹے تک امن وامان رہا لیکن پھر اس دن کا بھیانک دور شروع ہواوہ و باملٹری کے سپاہیوں پر اثر انداز ہو گئی اور پھر پستول کی گولیوں کی بجائے ٹامی گن مشین گنیں اور ٹینکوں پر لگی ہوئی تو ہیں چلنے لگیں اور ملٹری کے نوجوان مکئی کے دانوں کی طرح بھنے لگے حکام چیخ پڑے یہ صور تحال انتہائی بھیانک پریشان کن اور نازک تھی۔ فوراً اعلیٰ حکام کی میٹنگ ہوئی اس میں صدر مملکت تک شامل ہوئے۔ عمران بھی بحیثیت ایکسٹو نقاب پہن کر اس میں شامل ہوا اس نازک مسئلے پر بحث شروع ہو گئی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا ادھر بُری سے بُری خبریں آرہی تھیں اگر چند
گھنٹے اور اسی طرح قتل و غارت ہوتی تو شائد ساری فوج ختم ہو جاتی اور اس صور تحال کو بند کر ناضروری تھا انتہائی ضروری تھا مگر اس کا حل کسی کے پاس نہ تھا سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے آنکھوں کی چمک مدھم ہو چکی تھی لیکن ایکسٹو نے صرف ایک لفظ کہہ کر سب کے چہروں پر رونق بڑھادی وہ کہہ رہا تھا۔
حضرات اس و با کا علاج میں نے ڈھونڈ لیا ہے۔
اور سب کے چہرے اس کی طرف مڑ گئے۔
خدا کے لئیے بتاؤ میر اتو دماغ خراب ہو نیوالا ہے۔ صدر مملکت چیخ اٹھے۔
بتاتو رہا ہوں جناب۔ دراصل یہ مقناطیسی قوت کا کرشمہ ہے۔ مقناطیسی قوت کا کیا مطلب۔ کمشنر حیران ہو کر بولے۔ میر امطلب اس سے یہ ہے کہ کسی مخصوص مقناطیسی اثر سے لوگوں کے دماغوں کارخ قتل و غارت کی طرف موڑ دیا گیا ہے چنانچہ آج میں نے اپنے آدمیوں کو اینٹی میگنٹ آلات دے کر شہر میں پھر ایا ان میں سے کسی پر بھی اس و با کا اثر نہ ہوا چنانچہ میری رائے میں تمام ملٹری کو یہ آلات فوری طور پر تقسیم کر دیئے جائیں در مملکت نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر فورا کمانڈر انچیف کی طرف مخاطب ہوئے ایکسٹو ٹھیک کہتے ہیں آپ جلد از جلد ایسے آلات تقسیم کرنے کا انتظام کریں۔ یہ کہہ کر صدر مملکت اٹھ کھڑے ہوئے اور میٹنگ ختم ہو گئی اور پھر آدھے گھنٹے کے اندراندر ایسے آلات تمام
صدر
ملٹری میں تقسیم کر دیئے گئے اور نتیجہ حسب توقع رہا کیوں کہ ملٹری کے ذہنوں سے دھند چھٹ گئی اور پھر حالات معمول پر آگئے لیکن یہ دودن دارالحکومت کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ اس عبرت ناک تباہی کی یاد دلاتے رہیں گے۔ دس دن تک شہر میں کر فیور ہا فوج گشت کرتی رہی پھر کر فیوہٹالیا گیا اور حالات معمول پر آگئے۔
☆☆☆
عمران پر آج صبح سے ہی شاعری کا دورہ پڑا ہوا تھا چنانچہ اس سلسلے میں سلیمان بیچارے کی کم بختی آگئی تھی وہ صبح سے عمران کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور اس کے اوٹ پٹانگ شعروں کی داد دے رہا تھا جان بچانے کا فی الحال
کوئی راستہ اسے نظر نہیں آرہا تھا۔
ہاں سلیمان یہ شعر سنو بھی غضب خدا کا قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔
میں نے شعر تو بہت سے سنے ہیں اب گیدڑ بھی سنادیں۔
ابے الو کی دم فاختہ میں شعر کہہ رہا ہوں۔ شیر نہیں۔ ابے اگر کبھی لکھنو میں ہوتا تو ایک سیکنڈ زندہ نہ رہ سکتا۔
اچھا جناب آپ چاہے شیر سنائیں یا گیدڑ میں نہیں سن سکتا مجھے چائے بنانی ہے۔ سلیمان میں کہتا ہوں تم کبھی اچھے شاعر نہیں بن سکتے سنو شعر سنو، نہیں تو ساری عمر باورچی ہی رہ جاؤ گے۔ میں باور چی اچھا ہوں جو شعریت دیچی میں چمچہ چلانے میں ہوتی ہے وہ بھلا آپ کے شعروں میں کہاں۔
میں کہتا ہوں سلیمان شعر سن۔
سناؤ جی سناؤ سلیمان جماہی لیتے ہوئے بولا۔ میں سڑک کے اس پار۔
دیکھتا ہوں کسی مہ جبین کو جس کے سر پر سینگ نہیں۔
جس کے کان ہیں اتے اتے۔ اس کے ساتھ ہی عمران نے ہاتھ سے بڑے کا اشارہ کیا۔ جناب شاعری میں ہاتھوں کی اشارہ بازی ایکدم نہیں چلتی۔ سلیمان آخر بول پڑا۔
تم سنتے جاؤد خل در نامعقولات نہ کرو۔
جس کے کان اتے اتے ہیں۔ جس پر لدی ہے مٹی کی بوری۔
مٹی کی بوری بابا واہ جناب واہ ایکدم مزہ آگیا۔
مجھے تو اس شاعری میں مسور کی دال کا مزہ آرہا ہے بڑا گرم گرم شعر ہے
بالکل گرم مصالحہ کی طرح واہ واہ جناب مہ جبیں پر مٹی کی بوری۔
ابے تو داد دے رہا یا میر امذاق اڑا رہا ہے۔
نہیں جناب میں بھلا آپ کا مذاق اڑا سکتا ہوں صرف بچپن میں کبوتر اڑاتا تھا۔ اب قسم لے لیجئیے کبھی پتنگ بھی اڑائی ہو ۔ مگر واہ واہ مٹی کی بوری مہ جبیں پر۔
ابے الو کی دم فاختہ یہ جدید شاعری ہے کچھ سمجھا بھی کر د یہ مہ جبیں دراصل گدھی ہے گدھی آج کل تمام مہ جبیں گدھیاں ہوتی ہیں گدھیاں جو خواہ مخواہ فیشن اور محبت کا بوجھ اٹھائے پھر کتی پھرتی ہیں۔
عمران نے فلسفہ چھانٹا۔ اچھا اچھا یہ گدھی پر شاعری کر رہے ہیں خوب خوب آخر نسل کا بھی اثر ہوتا ہے سلیمان جان چھڑانے کے
لئے کہا۔
کیا کہا کہ میں گدھی کی نسل میں سے ہوں۔ سلیمان تم ہوش میں تو ہو۔
عمران نے آنکھیں نکالیں۔
جناب اسے داد کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ ایک مشاعرے میں یہ فقرہ سنا تھا آج بول دیا اور جناب ذرا سوچیں تو جب ساری مہ جبیں گدھیاں ہیں تو پھر میں نے نسل کا اثر بنادیا تو کون سا برا کیا۔ سلیمان نے بھی عمران کے
مقابلے میں فلسفہ چھیڑا۔
تم فوراً چلے جاؤ تم ہو ہی اسی قابل کہ ساری عمر باورچی خانے میں گزار و تم بھلا علی عمران المتخلص بودم بے دال
اس کو کہاں سمجھ سکتے ہو۔ عمران کی اس کی داد سے گھبراکر رہا۔
تو جناب صرف ایک بات بتادیجئیے۔ یہ آپ کے تخلص کا کیا مطلب ہے ؟
بودم بے دال یعنی ایسا بودم جس میں “د” نہ ہو اور بودم میں سے “د” نکال دو تو باقی بچ جائے گا بوم۔
اور بوم کے معنی ہیں الو۔
تو آپ الو ہیں۔
ہاں سلیمان آٹھ کل کے سارے شاعر الوہیں دن کو اونگھتے ہیں رات کو شاعری کرتے ہیں پریشان اور انتہائی درجے کے نحوستی جس کسی نے ان کی شکل دیکھی گیا کام سے۔
اچھا اب تو جاذرا چائے بنادے۔
اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے عمران نے رسیور اٹھایا میں بودم بے دال رہا ہوں۔
عمران میں سلطان بول رہا ہوں۔
سلطان بول رہے ہو یا گدھا مجھے کیا اعتراض۔
عمران نے دیوار کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
تم ہوش میں ہو فوراً مجھے ملوانتہائی اہم معاملہ ہے۔ سر سلطان نے یہ کہہ کر رسیور رکھ دیا۔ عمران نے رسیور رکھا اور پھر کپڑے تبدیل کرنے گیا اتنے میں سلیمان نے چائے میز پر رکھ دی عمران نے آدھی پیالی پی اور پھر سلیمان کو منہ چڑاتا ہوا نیچے اتر گیا اور چند منٹوں کے بعد اس کی کار سر سلطان کی کو ٹھی میں تھی سر سلطان اپنے ڈرائنگ روم میں عمران کے منتظر تھے عمران جیبوں میں ہاتھ ڈالے اندر داخل ہواسر
سلطان نے اسے دیکھتے ہی بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ صوفوں کے درمیان میں رکھی ہوئی میز پر بیٹھ گیا۔
یہ کیا بے ہودگی ہے صوفوں پر بیٹھو۔ جناب آپ کے ہاتھ کا اشارہ میز کی طرف تھا۔
بکو نہیں تمہاری یہ حرکتیں کبھی کبھی بڑا پریشان کرتی ہیں۔
عمران میز سے اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا اب وہ لا تعلق ساڈرائنگ روم میں لگی ہوئی تصویروں کو دیکھ رہا تھا اندز ایسے تھا جیسے جام جہاں نما میں دنیا کا مشاہدہ کر رہا ہو۔
عمران میں نے تمہیں یہ بتانے کے لیے یہاں بلایا ہے کہ جو کچھ پچھلے دنوں دار الحکومت میں ہوا تھا اور جو صرف تمہاری ذہانت کی وجہ سے رک گیا وہی سب کچھ بقیہ دنیا کے چودہ ممالک کے دارالحکومتوں میں ہوا لیکن وہاں کا اتنا جانی نقصان ہوا جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکا۔ اس سے پہلے زمین سے پانی نکلنے کا واقعہ بھی ساری دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہوا تھا۔ لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ قتل وغارت “ماکاز و نگا” کے تحت ہوئی ہے اس
کا مقامی ہیڈ کوارٹر تو میں نے تباہ کر دیا تھا۔ عمران بولا۔
ابھی وہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئے یہ دیکھو کل ہی صدر مملکت کے نام یہ خط آیا ہے اسی سے میں نے اندازہ لگا یا ہے کہ سب کچھ ماکازو نگا کے تحت ہوا ہے۔
عمران نے سر سلطان سے وہ خط لیا جو سرخ رنگ کے لفافے میں تھا اور کا غز کار نگ بھی انتہائی سرخ تھا۔ اس
میں تحریر تھا کہ ماکاز و نگا کی نافرمانی کی ہلکی سی سزاد یکھ لی یہ صرف ایک ہلکا ساٹچ تھا۔ جو آپ لوگوں کو اپنی طاقت کا ہم نے دکھایا ہے صرف ایک معمولی سا اڈہ تباہ کرنے پر ایک بہت بڑی تنظیم کا کچھ نہیں بگڑتا۔ ماکا زومگا عنقریب دنیا پر حکومت کرے گی یہ اس کے مقدر میں لکھا جاچکا ہے اب بہتر تو یہ ہے کہ تم اور تمہاری حکومت رضا کارانہ طور پر دستبردار ہو جائے اور نظم و نسق ما کاز و نگا کے کارکنوں کے حوالے کر دیا جائے ورنہ
بھیانک ترین سزا کے لئیے تیار رہوما کازونگا عظیم قوتوں کی مالک ہے اس کی معمولی سی معمولی سزا بھیانک
موت ہے۔
اور بڑی سزا کا تو تم تصور ہی نہیں کر سکتے ماکاز و نگازندہ باد۔
ماکارونگا۔
عمران نے خط پڑھ کر زور کا سانس لیا سر سلطان اس دوران عمران کے چہرے کو بغور دیکھ رہے تھے لیکن خط پڑھنے کے دوران عمران کے چہرے پر چھائی ہوئی حماکتوں کی تہہ میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
اب کیا کیا جائے سر سلطان نے پریشان ہو کر پوچھا۔
ٹوئسٹ ڈانس عمران نے مختصر جواب دیا۔ کیا مطلب؟ میں کہتا ہوں یہ مذاق کسی اور وقت کے لئے اٹھار کھو سر سلطان جھنجلا گئے۔ دیکھئیے میں کوشش کر رہاہوں امید ہے کچھ نہ کچھ ہو جائے گا عمران نے کہا۔ ہاں مجھے یاد آیاد یکھو اس ماکاز و نگا کے سلسلے میں دنیا کے چودہ ممالک کے ارکان کا اجلاس نیویورک میں ہو رہا ہے تاکہ اس کی سرکوبی کے لئے کوئی مشتر کہ قدم اٹھایا جائے میں چاہتا ہوں تم اس میں شرکت کرو شائد کوئی راہ نظر آجائے۔
کب ہو رہی ہے یہ میٹنگ۔ عمران نے پوچھا۔
ایک ہفتے تک۔ سر سلطان نے جاب دیا۔ کتنے ارکان کی اجازت ہے۔
تم اپنے ساتھ تین اور ممبر لے جاسکتے ہو۔ بہتر مجھے تفصیلات بھجوادیجئیے میں ہو آؤں گا۔ پھر تمہای تمہاری شرکت کے لئیے لکھ دوں۔
ہاں۔ اچھا مجھے اجازت دیجئیے میں نے کچھ کام کرنے ہیں۔ بہتر خداحافظ سر سلطان نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
اور عمران کار میں بیٹھ کر کوٹھی سے باہر چلا گیا۔
☆☆☆
جولیا آج کل با قاعدگی سے اخبار کا مطالعہ کر رہی تھی کیوں کہ ماکازو نگانے شہر میں اور ھم مچارکھا تھا اور روزانہ اخباروں میں ان کے متعلق کچھ نہ کچھ لوگ اندازہ لگایا کرتے تھے جولیا نے سوچا تھا شائد ان میں سے کوئی اشارہ
ان کے کام کا نکل آئے لیکن آج جب اس نے پڑھا کہ ما کاز و نگا در اصل حکومت کا اسسٹنٹ ہے جو اس نے
آئندہ آنے والے انتخابات ملتوی کرنے کے لئیے رچایا ہے تو اس نے جھنجلا کر اخبار پھینک دیا کیوں کہ اسے لوگوں کی کم عقلی اور نا سمجھی پر غصہ آ گیا تھا لیکن پھر اس کا خیال ان کی عدم واقفیت کی طرح چلا گیا اور اس کے اعصاب کافی حد تک ڈھیلے ہو گئے کیوں کہ یہ تو ظاہر تھا کہ سیکرٹ سروس میں ہوتے ہوئے جو کچھ اسے
معلوم تھا عام لوگوں کو تو شائد اس کی ہوا بھی کبھی نہیں لگی تھی اور نہ لگ سکتی تھی۔ ابھی جو لیا یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی کی کرخت آواز اس کے کانوں میں پہنچی وہ فوراً اٹھ کر سائڈ ٹیبل کی طرف مڑ گئی جہاں فون رکھا ہوا تھا ہیلو جو لیا اسپیکنگ جولیا نے رسیور کان سے لگاتے ہوئے کہا۔
ایکسٹو۔ بھرائی ہوئی مخصوص آواز بولی۔
مار ننگ جو لیا تم نے شائد ا بھی ناشتہ نہیں کیا۔
مار ننگ سر جولیانے پر سکون لہجے میں جواب دیا۔
ایکسٹو کی آواز میں نرمی تھی۔
نہیں جناب جو لیا کی آواز انتہائی شیریں ہو گئی کیونکہ ایکسٹو کانرم لہجہ ہی اسے جنت کی لطیف فضاؤں میں پہنچا
دیتا ہے جو اسے بھی بھی ہی نصیب ہوتا ہے۔
اچھا تم ناشتہ کر کے صفدر کو لے کر دانش منزل پہنچ جاؤ وہاں سے تم صفدر شکیل اور عمران نے نیو یارک جانا
ہے اس لیے اپنار وزمرہ کا سامان ساتھ لے آنا۔
تو کیا جناب نیو یارک جانا سر کاری کام سے ہو گا۔ اس نے نیچی آواز میں پوچھا۔
جو لیا۔ ایکسٹو غرایا تو کیا میں تمہیں وہاں کسی کی شادی میں شرکت کے لئیے بھیج رہا ہوں۔ تم ہوش میں تو ہو۔ معافی چاہتی ہوں جناب در اصل میں غلطی سے پوچھ بیٹھی میں یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ وہاں ہم ماکازو نگا کے سلسلے میں جارہے ہیں یا کوئی اور سلسلہ ہے۔ جولیا نے بڑی مشکل سے اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے جملہ پورا
کیا۔ ورنہ وہ تو درمیان میں ہی رو پڑتی۔
ہاں یہ ماکاز و نگا کا ہی سلسلہ ہے وہاں دنیا کے ان چودہ ممالک نے جن میں ماکاز ونگا نے اپنی سر گرمیاں شروع کی ہوئی ہیں امریکہ کی زیر صدارت ایک میٹنگ ہو گی جس میں اجتماعی طور پر ماکاز و نگا سے نپٹنے کے طریقوں پر غور کیا جائے گا۔ تاکہ اس کے سدِ باب کے لئیے کوئی مناسب قدم اٹھایا جائے اس لئے میں تمہیں عمران صفدر اور شکیل کو وہاں اپنی حکومت کی طرف سے نمائندگی کرنے کے لئے بھیج رہاہوں اور وہاں تم سب عمران کی سر کردگی میں کام کرو گے۔ مگر جج جناب جو لیانے ہکلاتے ہوئے کہا کیونکہ یہ فقرہ کہتے ہوئے دل سے بہت ڈر رہی تھی۔ عمران اپنی
ناشائستہ حرکات سے اپنے ملک کا وقار بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ دیکھو جو لیا تم ہزاروں بار دیکھ چکی ہو کہ اس کی کوئی حرکت فائدے سے خالی نہیں ہوئی اس کا طریقہ کار یہی ہے کہ وہ خود کو بے وقوف پوز کر کے دوسروں کو بے وقوف بنا دیتا ہے اور پھر اپنا مطلب صاف نکال لیتا ہے اور تم نے دیکھا ہے کبھی وہ اپنے مشن میں ناکام نہیں رہتا اس کے باوجود تم ہر وقت اس کی شکائیت کرتی رہتی۔

ایکسٹو کا لہجہ انتہائی بھیانک ہو گیا تھا۔
معافی چاہتی ہوں جناب۔ جولیا نے جواب دیا مگر ایکسٹو کی آواز نے اس پر کیپکپی طاری کر دی تھی اور جب ادھر سے رسیور رکھنے کی آواز سنائی دی تو اس نے اطمینان سے سانس لیا جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ہو اس نے رسیور رکھ دیا اور پھر آہستگی سے چلتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی پھر کچھ سوچ کر ر کی اور پھر فون کی طرف تیزی سے آئی اور صفدر کو ٹیلیفون کیا ادھر صفدر نے فورار سیور اٹھایا۔
ہیلو صفدر سپیکنگ صفدر کی آواز جولیا کے کانوں میں گونجی۔
میں جولیا بول رہی ہوں جولیا نے جواب دیا کیا تم ناشتہ نہیں کر چکے تو آج ناشتہ میرے پاس آکر کرو۔ شکریہ ناشتہ سے تو میں ابھی فارغ ہوا ہوں۔ پھر کبھی تمہارے ہاں کھاؤں گا۔
صفدر نے جواب دیا۔
اچھا تم ضروری سامان لے کر میرے پاس پہنچو۔ ہم عمران اور کیپٹن شکیل کی ہمراہی میں آج نیو یارک جار ہے
ہیں۔
نیو یارک وہ کس خوشی میں۔
اسی ماکازونگا کے چکر میں وہاں چودہ ممالک کی میٹنگ ہو رہی ہے جس میں ماکاز ونگا کے سد باب کے متعلق
تدبیریں سوچی جائیں گی۔
اچھا میں ابھی آتا ہوں اور صفدر نے رسیور رکھ دیا۔
جولیانے رسیور رکھا اور خود کچن کی طرف بڑھ گئی۔ اور پھر آدھے گھنٹے کے بعد کیپٹن شکیل عمران جولیا دانش منزل کی میٹنگ ہال میں بیٹھے ایکسٹو کی کال کے منتظر
تھے عمران کی چلبلی شخصیت سے جو لیا سخت بیزار تھی اور جب سے کیپٹن شکیل اس ٹیم میں داخل ہوا تھا عمران سے بیزاری اور بھی بڑھتی جاتی تھی اس سے جولیا کے کردار پر کوئی حرف نہیں آتا جولیادراصل ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ کیپٹن شکیل دراصل ایکسٹو ہے اور کیپٹن شکیل میک اپ کر کے ہمارے در میان شامل ہے اس لئے کیپٹن شکیل کی شخصیت میں وہ کبھی کبھی اپنے لئے بے انتہاد لچپسی محسوس کرتی لیکن ادھر کیپٹن
شکیل کا کردار ایکسٹو سے دو قدم شائد آگے تھاوہ عورتوں سے رومانی باتیں کرنا اور ان میں دلچسپی لینے کو مردوں کی تو ہین سمجھتا ہے اس لئے آج تک نہ ہی اس نے شادی کی تھی اور نہ ہی اس کی شخصیت سے کوئی رومان ٹنگا ہوا تھا۔ اس کی شخصیت ایک بے داغ شخصیت تھی جو لیا سے بھی اس کی دلچسپی صرف اسی حد تک تھی جس حد تک وہ اس کی کرنٹ آفیسر تھی اس کے سوا اور کچھ نہیں آج جب ایکسٹو نے اسے صرف صفدر کو فون پر اطلاع دینے کے لئیے کہا اور کیپٹن شکیل کے متعلق کوئی ہدایت نہ ملی تو اس کے ذہن کے کسی گوشے میں ایک خیال رینگ رہا تھا کہ کیپٹن شکیل ہی دراصل ایکسٹو ہے حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ کیپٹن شکیل عمران کے ساتھ کسی وجہ سے پہلے ہی دانش منزل میں موجود تھا بہر حال اس وقت ان سب میں نیو یارک میں ہونے والی میٹنگ کے متعلق بات چیت ہو رہی تھی صفدر کا کہنا تھا کہ یہ میٹنگ قطعی ناکام رہے گی۔ لیکن عمران اس کے خلاف تھا۔
کیسے ناکام رہے گی۔ عمران نے صفدر کو چیلج دیتے ہوئے کہا اس لئیے کہ اتنی بڑی تنظیم کی بیخ اس طرح کی میٹنگوں سے نہیں کی جاسکتی۔ جو تنظیم اتنے بڑے پیمانے پر قتل وغارت کر سکتی ہے وہ اس میٹنگ کا سد باب
نہیں کر سکتی صفدر نے با قاعدہ بحث کرتے ہوئے کہا۔
صفدر کا خیال ٹھیک ہے کیپٹن شکیل نے بھی تائید کرتے ہوئے کہا۔ صفدر کا خیال غلط ہے دراصل یہ ماکاز ونگا سے ذہنی طور پر مرعوب ہو گئے اور پھر یہ اپنے سکول کے امتحانات
میں چونکہ ہمیشہ فیل ہوتے ہیں اس لئے ناکامی کا بھوت ہر وقت اس کے ذہن پر سوار رہتا ہے عمران نے مضحکہ خیز دلیل پیش کی خیر امتحانات میں فیل ہونے کا ریکارڈ تو عمران صاحب ہی توڑتے رہے ہیں میں نے تو ایک
دلیل دی تھی صفدر نے ہنستے ہوئے کہا ریکار ڈ تو نہیں البتہ ریکارڈ پلئیر ضرور توڑا ہے۔
عمران نے انگلی سے سر کھجاتے ہوئے نیم وا آنکھوں سے جواب دیا اور مس دل موہ لیا کو تو میں نے ایک مدرسے میں کان پکڑے مرغا بنا ہوا بھی دیکھا ہے عمران نے جولیا کی طرف دیکھتے ہوئے مزید ٹکڑ الگا یا شکیل اور صفدر نے دل موہ لیا کے اصطلاح پر دل کھول کر قہقے لگائے اور جو لیا پھٹ پڑی۔
دیکھو عمران مجھے مت چھیڑا کرو میں بُری طرح پیش آؤں گی۔ غزل ہم نے چھیڑی کوئی ساز دینا عمران بے نیازی سے گن گنانے لگا اور جو لیا کا چہرہ مارے غصے سے سرخ ہو
شٹ اپ وہ زور سے چیخنی۔
ابھی عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ٹرانسمیٹر کا بلب سپارک کرنے لگا اور سب سنبھل کر بیٹھ گئے جو لیانے آگے بڑھ کر بٹن دبایا اس کے چہرے پر اب تک سرخی تھی لیکن وہ اپنے جزبات پر قابو پانے کی شدید کوشش کر
رہی تھی۔
ہیلوایکسٹو اسپیکنگ ٹرانسمیٹر سے مخصوص آواز ابھری۔
مین جو لیا بول رہی ہوں جناب جولیا نے جواب دیا۔
کیا سب ممبر آچکے ہیں۔
میں سر۔
تو سنواب سے آدھے گھنٹے بعد تم سب لوگ اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے لئیے نیو یارک جار ہے ہو وہاں
اس بار میٹنگ کو خفیہ رکھنے کے لئے انتہائی سخت اقدامات کیے جارہے ہیں تم سب لوگ یہاں سے میک اپ میں جاؤ گے تمہارے پاسپورٹ ابھی تمہیں مل جائیں گے پاسپورٹوں پر سفر کا مقصد سیاحت ہو گا اس کے بعد تمہیں عمران کی رہنمائی میں کام کرنا ہو گا باقہ ہدایات اسے دے دی گئی ہیں عمران سے کہو وہ تم سب کے میک آپ کر دے۔
مگر جناب کیپٹن شکیل تو پہلے ہی میک اپ میں ہیں جو لیا نے کیپٹن شکیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ فقرہ سن کر کیپٹن شکیل سمیت تمام افراد بُری طرح چونک پڑے اور سب کی نظریں کیپٹن شکیل کے
چہرے پر پڑنے لگیں۔
کیا کہا ایکسٹو کی بھی حیرت آمیز آواز ابھری۔
میرے خیال میں جناب کیپٹن شکیل صاحب شروع سے ہی ہمارے ساتھ میک اپ میں شامل ہیں۔ اس خیال کہ وجہ ۔ ایکسٹو کی آواز میں کچھ تلخی ابھر آئی۔
اس کا چہرہ بالکل سپاٹ رہتا ہے جناب کسی قسم کا تاثر ان کے چہرے پر نہیں ابھرتا صرف آنکھیں ہی اس تاثر کی غمازی کرتی ہیں اس لئے مجھے شک ہوا کہ شائد یہ میک اپ کی وجہ سے ہے۔
جولیا کیپٹن شکیل کو سیٹ پر بلاؤ۔
لیکن کیپٹن شکیل اطمینان سے اٹھ کر سیٹ کی طرف بڑھا جولیا سیٹ سے ہٹ گئی۔
شکیل۔
میں سر ۔ کیپٹن شکیل نے مؤدبانہ جواب دیا۔
جولیا کیا کہہ رہی ہے کیا واقعی تم میک اپ میں ہو۔
مس جولیا کو غلط فہمی ہوئی ہے جناب در اصل ان کا شک بھی بجا تھا اور میں ان کی دور بین نظروں کی داد دیتا
ہوں۔ میرے چہرے کا یہ سپاٹ پن در اصل قدرتی ہے اس میں میرے کسی ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔
کیا تم جو لیا کی تسلی کرا سکتے ہو ؟ ایکسٹو کی آواز میں پر اسراریت شامل تھی۔
جس طرح وہ چاہیں جناب کیپٹن شکیل نے جولیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں جناب مجھے تسلی ہو چکی ہے صرف میرا ایک شک تھا امید ہے کیپٹن شکیل صاحب مجھے معاف کر دیں گے
جولیا نے فوراد خل اندازی کرتے ہوئے کہا۔
نہیں جب ایک بات چل نکلی ہے تو اسے اختتام تک پہنچانا چاہیے۔
صفدر تم ایمونیا کی بوتل الماری میں سے نکالو اور کیپٹن شکیل تم اس سے منہ دھوؤ تا کہ جولیا کا شک ہمیشہ کے
لیے دور ہو جائے۔ صفدر جلدی سے الماری کی طرف بڑھا اس نے وہاں سے ایمونیا کی بوتل نکال کر کیپٹن شکیل کو دی کیپٹن شکیل نے اس سے اپنا منہ اچھی طرح دھو یا اور پھر خشک تولیے سے رگڑا لیکن وہاں میک اپ کے کوئی آثار نہ تھے۔ جولیا سخت ندامت محسوس کر رہی تھی اسے افسوس تھا کہ اس نے خواہ مخواہ شک کر کے کیپٹن شکیل کادل
دکھایا۔
کیار زلٹ رہا۔ ایکسٹو کی آواز ٹرانسمیٹر سے ابھری۔
جو لیا کچھ نہ بولی تو صفدر نے جواب دیا۔
جناب شکیل میک اپ میں نہیں ہیں۔
ہوں جو لیا کیا تمہاری تسلی ہو چکی ہے۔
میں معافی چاہتی ہوں جناب میں سخت شرمندہ ہوں۔
جولیا نے ندامت سے بھر پور لہجے میں کہا۔

اس میں ندامت کی کوئی بات نہیں اور میر اخیال ہے کہ کیپٹن شکیل بھی اسے محسوس نہیں کریں گے کیوں کہ ہمارا کام بھی ایسا ہے کہ ہمیں ہر وقت آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں میں نے کیپٹن شکیل کا منہ اس لئیے دھلوایا تھا
کہ جولیا کا شک ہمیشہ کے لئیے دور ہو جائے ورنہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ کیپٹن شکیل کا چہرہ قدرتی طور پر سپاٹ ہے یہ سب کچھ میں نے اس لئیے کیا ہے کہ جب سے کیپٹن شکیل اس ٹیم میں داخل ہوا ہے جو لیا اس پر ایکسٹو کا شک کر رہی ہے اور اس شک میں کیپٹن شکیل کے چہرے کا سپاٹ پن بہت معاون ثابت ہوا ہے مجھے جولیا کے خیالات اور اندیشوں کا علم تھا لیکن کوئی توجہ نہ دی۔ اب جب جولیا نے خود بات چھیڑ دی تو میں نے مناسب سمجھا کہ بات پوری طرح کھل جائے۔ اچھا اب سب لوگ چلنے کی تیاری کریں پاسپورٹ آپ سب
کو ائیر پورٹ پر مل جائیں گے اس کے ساتھ ہی ٹرانسمیٹر خاموش ہو گیا۔
میں ایک بار پھر معافی چاہتی ہوں جو لیا نے کیپٹن شکیل سے کہا کوئی بات نہیں کیپٹن شکیل نے جواب دیا۔ اور
پھر عمران سے مخاطب ہو کر کہا۔
عمران صاحب آپ میک اپ شروع کریں۔
اور عمران جو اس سارے ہنگامے کے دوران بیٹھا اونگھ رہا تھا اٹھا صفدر کو ساتھ کی الماری سے میک اپ کا سامان
لانے کو کہا۔
☆☆☆
طیارے نے اشارہ ملتے ہی ائیر پورٹ پر رینگنا شروع کر دیا اور پھر اس کی رفتار انتہائی تیز ہوتی چلی گئی اور چند ہی لمحوں بعد وہ زمین چھوڑ چکا تھا اور فضا کی بلندیوں میں پرواز کر رہا تھا اے آرسی کمپنی کا طیارہ تھا۔ جو صفدر کیپٹن شکیل جو لیا اور عمران کے ساتھ تھیں اور مسافروں کو لے کر نیو یارک کی جانب جارہا تھا جو لیا اور کیپٹن شکیل آگے بیٹھے تھے اور ان کے پیچھے صفدر اور عمران تھے۔
سمارے ہلکے ہلکے میک اپ میں تھے جس سے ان شخصیت کچھ اور نکھر آئی تھی صفدر کے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں انتہائی شاندار لگ رہی تھیں۔ اور عمران اسے بیٹھا چھیڑ رہا تھا۔
صفدر یار تمہارے چہرے پر گلہری کی ڈ میں بڑی شاندار ہیں۔
یہ سب کچھ تمہارا کیا دھرا ہے صفدر نے آہستہ سے جواب دیا۔
خدا کے لئیے صفدر کیا میں مونچھیں اگانے کا کام کرتا ہوں۔
یہ سب تو باتوں میں مشغول تھے مگر ایک اکہرے بند کا نوجوان جہاز کی تیسری رو میں بیٹھا ان کی طرف بڑی پُر اسرار نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کبھی وہ ان کی شخصیتوں پر نظر ڈالتا اور کبھی اس کی نظریں عمران کی گود میں
پڑے کیمرے کی طرف پڑتیں۔
طیارہ رواں دواں اپنی منزل کی طرف گامزن تھا اچانک نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور پھر وہ آہستہ سے عمران اور صفدر کے نزدیک سے گزرتا ہو اطیارے کی دم میں بنی ہوئی کیوٹری کی طرف جانے لگا جیسے ہی وہ عمران کے پاس سے گزرا اس نے جھپٹ کر عمران کی گود سے کیمرہ اٹھایا اور پھر پوری تیزی سے لیوٹری کی طرف بھاگ نکلا عمران نے بھی اس کے پیچھے جست لگائی مگر وہ لیوٹری میں داخل ہو کر دروازہ بند کر چکا تھا تمام مسافر اس حرکت سے بری طرح بو کھلا اٹھے عمران لیوٹری کے دروازے پر سمکے برسارہا تھا صفدر شکیل اور جولیا بھی اپنی جگہوں سے کھڑے تھے ائیر ہوسٹس تیزی سے عمران کی طرف بڑھی عمران نے اسے کسی طرح بھی لیو ٹری کا دروازہ کھولنے کے لیے کہا مگر ہو سٹس بے بس تھی یہ واقعہ ہی اتنا اچانک ہوا تھا کہ سب چکرا کر رہ گئے تھے اچانک عمران نے جیب سے ریوالور نکالا اور دروازے پر بنے ہوئے لاک پر گولی چلادی گولی پڑتے ہی لاک ٹوٹ گیا اور عمران نے تیزی سے دروازے کو دھکا دیا لیکن خالی لیوٹری اس کا منہ چڑا رہی تھی لیوٹری کی پشت کی کھڑ کی کھلی ہوئی تھی عمران نے تیزی سے کھڑ کی کی طرف دیکھا اور اسے فضاؤں میں ایک پیراشوٹ نظر آیا ۔

اور عمران زندگی میں پہلی باربے بسی سے ہاتھ ملتا ہوارہ گیا۔ لیکن شائد یہ کیمرہ اتنا قیمتی تھا کہ عمران نے بے بسی کی بجائے کچھ کرنے کا ارادہ کیا اس نے پیچھے مڑ کر کیپٹن شکیل کو کہا کہ تم نیو یارک ائیر پورٹ پر میرا انتظار کرنا اور پھر وہ تیزی سے اپنی سیٹ کی طرف بڑھا اور اس نے جہاز کی طرف سے ملنے والے پیراشوٹ کو اپنی کمر کے
گرد باندھا اور پھر اس نے صفدر کے کان میں تیزی سے سر گوشی کی اور صفدر پستول نکالتا ہوا کاک پٹ کی طرف بھاگا جہاں پائلٹ بیٹھا جہاز کو کنٹرول کر رہا تھا ائیر ہوسٹس مجبور نظروں سے یہ ہنگامہ دیکھ رہی تھی اس
کی سمجھ میں نہ آیا تھا کہ یہ سب کیا ہے ؟ ادھر صفدر نے پائلٹ کی پشت پر پستول لگایا اور اسے مجبور کیا کہ وہ جہاز کو پیچھے کی طرف لوٹادے دیکھو پائلٹ اپنا جہاز فور آبیک کرد و وہ آدمی ہماری ایک ایسی چیز لے کر جہاز سے کو د گیا ہے جس کے لئیے ہم سارے جہاز کو تباہ کر سکتے ہیں اس لئے اچھا تو یہ ہے کہ تم فوراًجہاز موڑ کر اس کے پیچھے چلو اور اس کے پاس سے گزرتے ہوئے جہاز کی رفتار تیز کر دو ہمارا ایک آدمی جہاز سے کود جائے گا اس کے بعد تم اپنی منزل کی طرف چلے جاناور نہ تم جانتے ہو سب کچھ کر گزریں گے۔ پائلٹ نے بے بسی سے پستول کی طرف دیکھا اور پھر جہاز کا رخ موڑ دیا جہاز ایک بار پھر واپس جارہا تھا۔
عمران کھڑکی سے کودنے پر تیار کھڑا تھا ائیر ہوسٹس اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔ لیکن جولیا نے اسے ریوالور د کھا کر چُپ رہنے پر مجبور کر دیا۔ جہاز آہستہ آہستہ فضاؤں میں بلند پیراشوٹ کے نزدیک ہوتا ہوا جارہا تھا جیسے وہ اس پیراشوٹ کے پاس سے گزرا تو عمران نے کھڑکی سے چھلانگ لگادی اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ عمران کا پیراشوٹ کھل چکا تھا اور اب وہ بھی فضاؤں میں جھول رہا تھا اس کا پیراشوٹ پہلے پیراشوٹ کے کافی نزدیک تھا یہ عمران کا اندازہ تھا کہ اس نے ایسے وقت چھلانگ لگائی جب جہاز پیراشوٹ کے بالکل پاس
سے گزرا اب جہاز ایک لمبا چکر لگا کر دوبارہ واپس اپنی منزل کی طرف جارہا تھا۔
عمران نے جیب سے پستول نکال کر ہاتھ میں لیا اب دونوں پیراشوٹ آہستہ آہستہ زمین کی طرف جارہے تھے ۔
اور کچھ دیر بعد وہ دونوں زمین کے نزدیک آگئے تھے۔ عمران زمین پر کودنے کے لئے تیار ہو گیا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ یہ شخص زمین پر کو دتے ہی بھاگ جانے کی کوشش کرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسے ہی دونوں زمین پر گرے اس شخص نے جلدی جلدی اپنے آپ کو رسیوں سے چھڑا ناشروع کر دیا عمران اس سے تقریباً ڈیڑھ سو گز دور گرا تھا یہ جگہ ایک خشک پہاڑی تھی عمران نے بھی جلدی سے اپنے آپ کو پیراشوٹ سے آزاد کرایا اور پھر پستول ہاتھ میں لے کر تیزی سے آگے بڑھا وہ بھی بھاگ رہا تھا کیمرہ اس کے ہاتھوں میں تھا چونکہ وہ پستول کی رینج سے دور تھا اس لئے عمران اس پر گولی نہیں چلا سکتا تھا اس لئے وہ بھاگنے پر ہی اکتفا کر رہا تھا ناہموار پتھروں کی وجہ سے اسے بھاگنے میں دشواری ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود اس کی رفتار کافی تیز تھی اس لئے وہ آہستہ آہستہ اس کے نزدیک ہوتا جارہا تھا۔ وہ شخص پہاڑی کی دوسری طرف بھاگ رہا تھا عمران کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور اس پہاڑی کی دوسری طرف کیا ہے ؟ اس لئیے وہ پہاڑی کی طرف پہنچنے سے پہلے ہی اس شخص کو پکڑنا چاہتا تھا اس نے اپنی رفتار اور تیز کر دی اب وہ شخص عمران کے پستول کی رینج میں تھا لیکن اب عمران پستول نہیں چلا سکتا تھا کیوں کہ اسے خدشہ تھا کہ اب اگر اس نے اسے گولی مار دی تو وہ کیمرہ سمیت پہاڑ سے نیچے جا گرے گا اور پھر جو اس شخص کا تو حشر ہوتا تو ہوتا کیمرہ عمران کو صحیح سلامت نہ
مل سکتا تھا۔
اس لئے عمران چاہتا تھا کہ اسے زندہ پکڑے اتنے میں وہ شخص پہاڑی کی دوسری طرف پہنچ کر عمران کی نظروں سے اوجھل ہو گیا عمران بھی ایک لمحے کے بعد چوٹی پر پہنچ گیا لیکن اس نے نیچے پہاڑی کے دیکھا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور وہ شخص کیمرہ ہاتھ میں ڈالے سمندر کی طرف گولی کی طرح اڑا جار ہا تھا اتنی بلندی سے سمندر میں چھلانگ لگانا یقیناً اس شخص کی انتہائی دلیری اور جرات کی دلیل تھی پہاڑی تقریباً سمندر سے
سوفٹ اونچی تھی۔
اسی وقت ایک زور کا جھپا ک ہوا اور وہ شخص سمندر کے پانی میں کیمرے سمیت گم ہو گیا۔ عمران نے پستول جیب میں ڈال لیا پنجے جوڑے اور پھر سمندر میں چھلانگ لگادی وہ تیر کی طرح اڑتا ہوا سمندر کی طرف جارہا تھا اور سمند ر لمحہ بہ لمحہ نزدیک آتا جارہا تھا اور چند ہی لمحوں بعد وہ سمندر کی پہنائیوں میں تھا یہ غنیمت تھا کہ سمندر اس جگہ انتہائی گہرہ تھا و گرنہ اتنی بلندی سے کودنے کے بعد وہ یقیناً سمندر کے نیچے کی زمین سے ٹکرا جاتا اور پھر اس کے گوشت کا قیمہ مچھلیوں کی خوراک بن جاتا عمران کافی گہرائی تک تیر کی طرح گیا اور اس کی رفتار جب تیز ہوئی تو سمندر نے اسے تیزی سے اوپر کی طرف اچھالنا شروع کیا تیر نے میں انتہائی مشاق ہونے کی وجہ سے لمحہ بہ لمحہ اس شخص کے نزدیک ہوتا جارہا تھا۔ لیکن اچانک اس کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ کیوں کہ ایک لانچ تیزی سے اس شخص کی طرف بڑھ رہی تھی جتنی تیزی سے وہ لانچ اس شخص کی طرف بڑھ رہی تھی عمران کا خیال تھا کہ وہ شخص گرفتار ہونے سے پہلے لانچ میں سوار ہو جائے گالانچ اس شخص کے پاس پہنچ کر آہستہ ہو گئی اور لانچ پر کھڑے دو آدمیوں نے اسے پکڑ کر لانچ پر چڑھالیا اتنے میں عمران بھی اس کے نزدیک پہنچ گیا تھا عمران کو دیکھتے ہی ان میں سے ایک شخص نے پستول نکالنے کی کوشش کی لیکن یہاں عمران نے ایک ایسا جمپ لگایا کہ ایک انسان کی اس سے توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی وہ سمندر سے ایسے اچھلا جیسے کوئی شخص زمین سے اچھلا ہو اور وہ جمپ بھی اتناز ور دار تھا کہ وہ دوسرے لمحے لانچ میں پڑا تھاوہ دونوں شخص یہ دیکھ کر اتنے حواس باختہ ہوئے کہ ایک لمحے کے لئیے حیران رہ گئے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی انسان سمندر سے اتنا بڑا جمپ لگا سکتا ہے لیکن یہ عمران تھا جو خطرے میں واقعی مافوق الفطرت بن جایا کرتا تھا عمران جیسے ہی لانچ پر گرا اس نے تیزی سے پلٹا کھایا اور پھر اٹھ کر کھڑا ہوا چھلانگ لگانے میں اسے جنتناز ور لگانا پڑا تھا
وہ خود ہی جانتا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پھیپھڑے پھٹ گئے ہوں اور پھر لانچ کے ٹخنوں پر گرنے سے اس کو چوٹ بھی کافی آئی تھی۔ لیکن عمران جانتا تھا کہ یہی لمحہ فیصلہ کن ہے۔اگر اس نے ذرا

کمزوری دکھائی تو سارا کیا دہرابے سود ہو کر رہ جائے گا اس لئے وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اسے اٹھتا دیکھ کر دونوں شخص بھی چونک پڑے جیسے خواب سے جاگے ہوں وہ تیزی سے عمران کی طرف بڑھے لیکن عمران نے پھر ایک ہائی جمپ لگا یا اور اس کی دونوں ٹانگیں سامنے والے ایک شخص کے سینے پر پڑی اور وہ چیخ مار کر نیچے الٹ گیادوسرا شخص عمران سے لپٹنے لگا لیکن ایک ہی گھونسے نے اسے بھی نیچے گراد یا اب عمران تیسرے شخص کی طرف بڑھا جو یہ سیچوئشن دیکھ کر کیمرے کو سمندر میں پھینکے جار ہا تھا عمران نے ایک جھپٹامارا اور کیمرہ اس کے ہاتھوں سے چھین لیا گھونسہ کھانے والا شخص دوبارہ عمران کی طرف بڑھ رہا تھا۔ عمران نے تیزی سے بھاگ کر کیمرے کو ایک کونے میں رکھا اور پھر آنے والے شخص کو پھرتی سے ہاتھوں پر اٹھالیاوہ شخص حالانکہ کافی قوی ہیکل تھا لیکن عمران کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کی طرح بے بس ہو چکا تھا
عمران نے پھرتی سے اسے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ پھر وہ اس شخص کی طرف بڑھا جو کیمرہ لے آیا تھا وہ شخص اب پھر کیمرے کی طرف بڑھ رہا تھا عمران نے ایک زور دار گھونسا اس کے منہ پر مارا اور پھر اسے بھی ہاتھوں پر اٹھالیا ایک جھپا کے سے وہ سمندر میں گر پڑا عمران کے چہرے پر اس وقت ایک درندگی پھیلی ہوئی تھی۔ تیسرا شخص ابھی فرش پر پڑا تھا اس کے سینے پر پڑنے والی لات اسے عدم کا راستہ دکھا چکی تھی عمران نے اس کی طرف سے مطمئن ہو کر لانچ کو سنبھالا جو تیزی سے آؤٹ آف کنٹرول ہو کر سمندر میں چکر لگارہی تھی عمران نے سٹیر نگ سنبھالا اور لانچ تیز کر کے ایک مخالف سمت کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں شخص سمندر میں پڑے ہاتھ پیر مار رہے تھے لیکن عمران ان سے بے پرواہ ہو کر لانچ چلا رہا تھا اب اس کے چہرے پر اطمینان کی جھلک نمایاں تھی اس کی لانچ تیزی سے پہاڑی کی طرف بھاگی جارہی تھی جہاں سے اس نے چھلانگ لگائی تھی۔ اب اس طرف سے فارغ ہو کر وہ یہ سوچ رہا تھا کہ نجانے وہ کس ملک میں ہے اور کس شہر سے کتنی دور ہے۔۔

اسے فورائنیو یارک پہنچنا تھا کیوں کہ اس کے بغیر اس کے ساتھی بے بس تھے انہیں نہیں معلوم تھا کہ میٹنگ کہاں ہو رہی ہے اور اس کے کو ڈ الفاظ کیا ہیں اس لیے اس کا آج نیو یارک پہنچ جانالازمی ہے اب لانچ ساحل کے قریب پہنچ گئی اس نے لانچ کو ساحل کے پاس جا کر رو کا پھر کیمرہ اٹھایا اور چھلانگ لگا کر ساحل پر اتر گیا اب وہ تیزی سے دوبارہ پہاڑ کی جانب جار
حمية دود
جیسے ہی عمران نے چھلانگ لگائی اور طیارہ پھر مڑ کر اپنی منزل کی طرف چلا۔ کیپٹین شکیل، صفد ر اور جولیا دوبارہ اپنی سیٹوں کی طرف بڑھے۔ وہ تینوں اپنی اپنی جگہ سخت پریشان تھے کہ نجانے عمران پر کیا گزرے گی طیارے کہ مسافر سارے ان تینوں کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ چند ایک نے تو ان سے سوالات بھی پوچھے لیکن انہوں نے کچھ بتلانے سے انکار کر دیا۔
کیمرے کے متعلق ان تینوں میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیمرہ کیا تھا انہوں نے تو یہ سمجھا تھا کیوں کہ وہ سیاح بن کر نیو یارک جارہے ہیں اس لئے عمران نے ایک کیمرہ بھی ساتھ لے لیا لیکن اب انہیں معلوم ہوا کہ یہ کیمرہ بشر طیکہ یہ کیمرہ ہو کوئی انتہائی اہم چیز تھی کیپٹین شکیل سوچ رہا تھا کہ وہ شخص کون تھا اور اسے اس کیمرے کے متعلق معلومات کہاں سے ملیں ؟ صفدر اور جو لیا سوچ رہے تھے کہ نیو یارک جا کر وہ کیا کریں
گے کیوں کہ انہیں بذات خود کوئی معلومات نہ تھیں سب کچھ عمران کو معلوم تھا اور عمران نہ جانے کب

نیو یارک پہنچے لیکن وہ سب بے بس تھے ان تو آئندہ کا لائحہ عمل نیو یارک جا کر ہی بنایا جا سکتا ہے اس لئے وہ اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے رہے۔
ایک گھنٹے کے بعد طیارہ نیویارک ائر پورٹ پر لینڈ کر رہا تھا لیکن صفدر وغیرہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ ائیر پورٹ پر ہر طرف پولیس ہی پولیس نظر آرہی تھی صفر سمجھ گیا کہ پائلٹ نے اس واقعے کی اطلاع ائیر پورٹ پر دے دی ہے اب سوالات اور تفتیش کا ایسا چکر چلتا نظر آتا تھا کہ جان چھڑانی مشکل ہو جاتی۔ اس لئے صفدر نے شکیل کے کان میں سرگوشی اور شکیل نے جولیا سے کہا طیارہ ابھی تک ائیر پورٹ کے چکر لگارہا تھا۔
جیسے ہی طیارہ چکر لگاتا ہوا شہر کی ایک طرف سے گزرا ان تینوں نے اس لمحے اپنے پستول نکال کر کھڑکیوں سے نیچے پھینک دیئے ان کی اس حرکت کو کسی نے محسوس نہ کیا کیونکہ تمام لوگ اترنے کی تیاریوں میں مشغول تھے اب ان تینوں نے اطمینان کا سانس لیا کیونکہ کم از کم وہ اس کہانی سے ہی منکر ہو جاتے تو پستول کی عدم
موجودگی اس بات میں وزن پیدا کر دیتی آہستہ آہستہ طیارہ ائیر پورٹ پر اتر گیا جیسے ہی طیارہ پولیس نے طیارے کو گھیرے میں لے لیا مسافر باری باری اترنے لگے صفدر اور جو لیا بھی نیچے اترے پولیس کے پاس کھڑی ائیر ہوسٹس نے ان کی طرف اشارہ کیا اور پولیس نے انہیں ایک طرف آنے کی ہدایت کی۔انہوں نے چہرے پر حیرت کے تاثرات پیدا کئے اتنے میں کیپٹین شکیل بھی نیچے اتر آیا ائیر ہوسٹس کے اشارے پر اسے بھی ایک طرف بلالیا، انہوں نے ایک آفیسر سے اس بارے میں احتجاج کیا کہ انہیں کیوں روکا جارہا ہے لیکن وہ انہیں لے کر ائیر پورٹ کی ایک عمارت کی طرف چلے گئے۔ وی آئی پی روم میں لے جا کر ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی لیکن وہ تینوں صاف مکر گئے کہ انہیں اس واقعہ کا کوئی علم نہیں، اور نہ ہی ان کا کوئی چو تھا سا تھی

تھا لیکن پولیس آفیسر مطمئن نہ تھے ان کی تلاشی لی گئی لیکن ان کے پاس سے پستول قسم کی کوئی چیز برآمد نہ ہوئی پولیس آفیسر حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ بہر حال وہ انہیں مزید تفتیش کے لیے ہیڈ کوارٹر کی طرف لے چلے راستے میں صفدر نے کیپٹین شکیل اور جولیا کی طرف مخصوص لہجے میں اشارہ کیا ان دونوں نے سر ہلا دیا اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگے اب وہ فرار کی سوچ رہے تھے، کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا جیسے ہی کسٹم حد سے باہر نکلے تو صفدر تیزی سے اور ایک دس منزلہ عمارت کے صدر دروازے میں گھس گیا پولیس آفیسر ز پریشان ہو گئے وہ صفدر کو پکڑنے کے لئے دوڑے اب کیپٹین شکیل کی باری تھی۔ اس نے انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور پاس سے گزرنے والی ایک موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر جمپ لگادیا موٹر سائیکل تیزی سے گزر رہی تھی، یہ ایک اندھی چھلانگ تھی کہ وہ ٹھیک موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا پھر تو وہ
موٹر سائیکل سے چمٹ گیا دھکا لگنے سے موٹر سائیکل کا توازن بگڑنے لگالیکن موٹر سائیکل سوار بھی کوئی تھا جس نے کنڑول کر لیا پہلے تو ساتھ جانے والے سپاہی گھبراگئے مگر فوراً انہوں نے ریوالور چلادیئے مگر اتنی دیر میں کیپٹین شکیل ان کی رینج سے باہر ہو گیا تھا اب انہوں نے جولیا کی طرف توجہ دی تو وہ غائب تھی۔ جولیا
دراصل انتہائی پھرتی سے ایک کھڑی ہوئی کار کے پیچھے رینگ گئی تھی اب تو سب پولیس والے گھبراگئے، سیٹوں پر سیٹیاں بجنے لگیں صفدر اس عمارت کے صدر دروازے سے ہوتا ہوا پچھلے دروازے سے گزر گیا چلتے
چلتے اس نے مونچھیں اتار دیں اپنا کوٹ الٹ کر پہن لیا۔ اس کا کوٹ ڈبل تھا، ایسے کوٹ مخصوص طور پر سیکرٹ سروس والوں کے لئے بنائے گئے تھے۔ اب صفدر کافی حد تک بدل چکا تھا اس نے راہ جاتی ایک ٹیکسی رو کی اور پھر اس میں سوار ہو کر اسے رائل پارک جانے کو کہا چاروں طرف پولیس پھیل چکی تھی مگر صفدر
اطمینان سے ٹیکسی میں بیٹھا ہوا تھاوہ بیٹھا ہوا ان حالات پر غور کر رہا تھا جن سے ناگہانی طور پر انہیں نپٹنا پڑ گیا اس نے ٹیکسی ایک مچھیروں کی بستی جاکر ر کو ادی یہاں اسے معلوم تھا کہ اس کی مملکت کا ایک جاسوس رہتا ہے جو نیو یارک میں اس کے ملک کی طرف سے کام کرتا تھا ایسے جاسوس ہر ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور پچھلی بار عمران کے ساتھ نیو یارک آنے پر اس کا پتہ معلوم ہوا تھا پولیس سے بچنے کے لئے اس سے بہتر فی الحال اسے کوئی اور جگہ نظر نہیں آرہی تھی وہ ہلکے ہلکے قدم اٹھاتا جھونپڑیوں سے گزرتا گیا ایک پرانی سی جھونپڑی کے دروازے پر تین دفعہ مخصوص انداز سے دستک دی چند لمحوں بعد دروازہ کھولنے والا اد میٹر عمر کا مچھیراتھا اس نے حیرانی سے صفدر کو دیکھا صفدر نے آہستہ سے ایکسٹو کا لفظ کہا اور مچھیرے کے چہرے پر پھیلی حیرت یک لخت دور ہو گئی وہ ایک طرف ہو گیا۔ اور صفدر سر جھکا کر جھونپڑی میں داخل ہو گیا تھوڑی ہی دیر بعد اسے ایک دوسری کہانی سنارہا تھا اھر کیپٹین شکیل کی موٹر سائیکل کافی دور تک چلی گئی لیکن توازن سنبھلتے ہی اس نے موٹر سائیکل روک دی لیکن کیپٹین شکیل نے اپنا فاؤنٹ پن نکال کر اس کی کمر سے لگادیا اور اسے پستول کی دھمکی دے کر موٹر سائیکل چلانے پر مجبور کر دیا۔ موٹر سائیکل سوار نے موٹر سائیکل دوبارہ بھگانا شروع کر دیا کیپٹن شکیل اسے ایک گلی میں لے گیا اور پھر ایک ہی سکے سے موٹر سائیکل سوار کو بے ہوش ہونے پر مجبور کر دیا اب موٹر سائیکل کیپٹن شکیل کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسے گلیوں میں بھگار ہا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ کہاں جائے کیوں کہ اس میک اپ میں کسی ہوٹل میں جانا پولیس کے ہاتھوں میں جانے کے مترادف تھا اور
دوسری جگہ اس کے علم میں نہیں تھی آخر کار موٹر سائیکل اس نے ایک سڑک پر چھوڑ دی اور خود پیدل
گلیوں میں چلنے لگا چلتے چلتے جب وہ تھک گیا تو اس نے ایک گلی میں ایک مکان کے دروازے پر دستک دی
دروازہ فوراًکھل گیا۔ کھولنے والا صورت سے کوئی بد معاش نظر آرہا تھا۔
کیا بات ہے؟ وہ آدمی غرایا۔
میرے پیچھے پولیس لگی ہوئی ہے مجھے پناہ دو کیپٹن شکیل نے التجائیہ لہجے میں کہا۔ پولیس۔ اچھا اندر آجاو۔ اس آدمی نے راستہ چھوڑ دیا۔
صدر دروازے کے آگے ایک تنگ سی گلی تھی کیپٹن شکیل اس آدمی کے پیچھے پیچھے چلتارہ۔ گلی سے گزر کر وہ ایک بہت بڑے ہال میں آگئے یہاں میزیں بچھی ہوئی تھیں جن پر جو اکھیلا جار ہا تھا کیپٹن شکیل اس اتفاق پر حیران تھا کہ کس طرح وہ خود بخود ایک خفیہ جوئے خانے میں آنکلا گروہ اس کے سردار کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر فی الحال وہ پولیس کے پھندے سے بچ جائے گاوہ شخص ہال میں سے گزر کر پھر ایک راہداری میں کھس گیا کیپٹن شکیل اس کے پیچھے تھا۔ راہداری سے چلتے چلتے وہ شخص ایک دروازے کے سامنے
جا کر رک گیا۔ اس کے دروازے پر دستک دی۔
آجاؤ۔ ایک غراہٹ آمیز آواز آئی۔
وازہ کھل کر کیپٹن شکیل اور وہ شخص اندر گیا۔
اندر ایک لمبی چوڑی میز کے پیچھے ایک بھاری بھر کم شخص بیٹھا تھا میز پر شراب کی بوتل کھلی پڑی تھی۔ اس شخص کی آنکھیں سرخ تھیں۔ کیا بات ہے بوٹو یہ کون ہے ؟ اس بھاری بھر کم آواز نے پوچھا کیپٹن شکیل نے اس سردار کو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کیوں کہ وہ پہچان گیا تھا کہ یہ نیو یارک کا مشہور غنڈہ جیگر

ہے جسے نیو یارک کی پولیس کا پتی ہے اور جیگر اس کا دوست تھا چند سال پہلے جب وہ ایک ملٹری آپریشن کے لئے یہاں موجود تھا تو ایک موقع پر اتفاقی طور پر اس نے جیگر کی جان بچائی تھی۔ چنانچہ جیگر اس کا ممنون تھا وہ کافی دن جیگر کے ساتھ ایک ہوٹل میں بھی رہا جیگر اس ہوٹل کا مالک تھا لیکن اس کے اس خفیہ اڈہ کا پتہ کیپٹن
شکیل نہیں تھا یہ تو اتفاق کہ وہ یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
جناب یہ شخص غیر ملکی ہے اور پولیس سے بچنے کے لئے یہاں آیا ہے۔ بوٹو نے مؤدب ہو کر جواب دیا۔ تمہارا دماغ خراب ہے جو ہر شخص کو اس جگہ لے آتے ہو ، ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی سی آئی ڈی کارندہ ہو جیگر
غرایا۔
نہیں جناب بوٹو سے سی آئی ڈی کا کوئی کارندہ چھپا ہوا نہیں۔ میں سی آئی ڈی کا کارندہ نہیں ہوں جیگر کیپٹن شکیل نے اطمینان سے کہا جیگر نے جیسے ہی اپنا نام سنا بری طرح چونکا اور جیگر کے ساتھ ساتھ بونو بھی بری طرح چونک اٹھا۔
تم میرا نام کیسے جانتے ہو ؟ جیگر کی آنکھیں کیپٹن شکیل پر جمی ہوئی تھیں اس کی آنکھوں کی سرخی بڑھتی جارہی تھی کیپٹن شکیل نے جواب دینے کی بجائے بونو سے ایمونیا کی بوتل لے آنے کو کہا۔ جیگر میں میک اپ میں ہوں، اس لئے تم مجھے نہیں پہچان سکے ایمونیا کی ایک بوتل منگواؤ پھر مجھے پہچان جاؤ گے
میں تمہارا دوست ہوں۔
کیا نام ہے تمہارا۔ جیگر نے کاٹ کھانے والے انداز میں پوچھا۔
شکیل جس نے آج سے پانچ سال پہلے پیراڈائز ہل پر تمہاری جان بچائی تھی۔

وہ شکیل ہو ۔۔ ٹھیک ہے تمہارا جسم اس سے ملتا ہے لیکن چہرہ خیر تم ہی کہہ رہے ہو کہ تم میک اپ میں ہو پھر اس نے بو نو کو ایمونیا کی بوتل لانے کو کہا بونو نے اسی کمرے کی ایک الماری سے ایمونیا کی بوتل سے منہ دھویا اور پھر رومال سے پو نچھ ڈالا اب وہ اپنی اصلی شکل میں تھا جیگر نے اسے دیکھتے ہی خوشی کا نعرہ لگایا اور کرسی سے اٹھ کر کیپٹن شکیل کو گلے سے لگالیا تم یہاں کیسے پہنچے ہو اس نے حیرت سے پوچھا اور کیپٹن نے من گھڑت کہانی سنا کر جیگر کو مطمئن کر دیا۔
ادھر جو لیا کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا فوری طور پر تو وہ ایک کار کے پیچھے رینگ گئی تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کدھر جانے کیوں کہ پولیس کی سیٹیاں اور پٹرول کاروں کے سائرن سے پورا علاقہ گونج اٹھا تھا۔ اب چیکنگ کا دائرہ ہر لمحہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہا تھا جو لیا تیزی سے ایک کار سے دوسری
کار کے پیچھے رینگ رہی تھی یہ بھی غنیمت تھا کہ وہ جگہ اس پورے علاقے کی پارکنگ پلیس تھی اس لئے سینکڑوں کی تعداد میں کاریں کھڑی تھیں جولیا نے جیسے ہی ایک کار کی سائیڈ سے سر نکالا اسے سامنے ہی دو سپاہی اپنی طرف آتے نظر آئے وہ فوراگار کی دوسری طرف مڑ گئی اس نے ایک لمحہ کے لئے سوچا اور پھر کار کے دروازے کے ہینڈل پر زور دیا اتفاق سے کار لاک نہیں تھی اس لئے فوراًدر وازہ کھل گیا۔ جولیا تیزی سے
پچھلی سیٹوں کے درمیان دبک گئی اور دروازہ آہستہ سے بند کر دیاوہ سپاہی تو گزر گئے لیکن اب ہر طرف سپاہیوں کے بھاری بوٹوں کی آواز میں آس پاس ہر چہار طرف سے آنی شروع ہو گئیں اب جو لیا حیران تھی کہ وہ کیا کرے کیوں کہ کب تک یہاں پڑی رہتی اگر کار کے مالک آئے تو وہ فورا گر فتار ہو جائے گی لیکن اب باہر نکلنے کا بھی موقع باقی نہیں رہا تھا کیوں کہ اب تو پولیس کے قدموں کی آوازیں اسے مستقل کار کے ارد گرد آنی
شروع ہو گئی تھیں۔ اس لئے وہ تن بہ تقدیر وہیں دیکی پڑی رہی اچانک اس کار کا دروازہ کھلا اور ایک شخص ڈرائیور کی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور پھر کار آہستہ آہستہ رینگنے لگی جولیا نے دل ہی دل میں خدا کا شکر یہ ادا کیا کہ کار والا اکیلا تھا اگر اس کے ہاتھ دوسرے لوگ ہوتے تو وہ فوراً پکڑے جاتے اب کار کھلی سڑکوں پر آگئی تھی اس کی رفتار بھی کافی تیز تھی جو لیا نے آہستہ سے سیٹوں سے باہر نکال کر ادھر ادھر دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کار
چلانے والا ایک خوش پوش نوجوان تھا جو بڑے اطمینان سے کار چلارہا تھا۔
اسے شائد معلوم نہیں تھا کہ وہ پولیس کی مطلوبہ مجرمہ کو اپنے ساتھ لئے جارہا ہے جو لیا اب آئندہ کے متعلق سوچنے لگی کیوں کہ اس بار ان کے ساتھ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا تھا،
نہ جانے کیپٹن شکیل اور صفدر کہاں ہوں گے اچانک کار ایک کو ٹھی کے کمپاؤنڈ میں مڑ گئی جو لیاد و بارہ سیٹوں میں دبک گئی کار آہستہ آہستہ پورچ میں جا کر رک گئی نوجوان نے کار کا دروازہ کھولا اور سیٹی بجاتا ہوا کو کٹھی میں داخل ہو گیا، جو لیا آہستہ سے باہر نکلی اور کو ٹھی کے صدر دروازے سے باہر نکل گئی اب وہ سوچ رہی تھی کہ کہاں جائیں اور پولیس سے کس طرف بچے ایک لمحہ کے لئے اس نے سوچا کہ رات کسی غیر معروف ہوٹل میں
گزار دے لیکن اسے معلوم تھا کہ پولیس سب سے پہلے ہوٹلوں کو چھانے گی آخر اس نے یہ سوچا کہ کسی کو ٹھی میں paying guests بطور کے رو پڑے گی نیو یارک میں paying guests کا
رواج عام تھا اس لئے جولیا نے نزدیک ہی ایک کو ٹھی کا رخ کیا تین چار کو ٹھیاں پھرنے کے بعد آخر کار اسے ایک معقول جگہ مل گئی اب کو ٹھی میں وہ ہر طرح محفوظ ہو گئی۔
عمران کیمرہ کاندھے پر لٹکائے دوبارہ پہاڑی پر چڑھنے لگا اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ وہ جلد از جلد پہاڑی پر پہنچنا چاہتا تھا تقریباً ایک گھنٹے کی لگاتار چڑھائی
کے بعد وہ پہاڑی کی دوسری طرف ایک بہت بڑا میدانی علاقہ تھا جس میں جابجا بڑے بڑے ٹیلے تھے درمیاں میں بل کھاتی ہوئی ایک سڑک موجود تھی عمران سڑک پر چلنے لگا اچانک اسے خیال آیا کہ یہاں کے لوگوں
نے پیراشوٹ اتر تے ضرور دیکھے ہوں گے اس لئے اگر انہوں نے یہاں کی پولیس کو اطلاع دے دی تو پولیس یہ تمام علاقہ چھان مارے گی اور عمران ان حالات میں کسی طور پولیس کے ہاتھوں میں نہیں آنا چاہتا تھا
لیکن کافی دیر چلنے کے باوجود اسے کوئی پولیس میں نظر نہیں آیا اب اسے اطمینان ہو گیا کہ یا تو شائد کسی نے پیراشوٹ اترتے نہیں دیکھا اگر دیکھا ہے تو اطلاع نہیں دی یا یہاں عموماً پیراشوٹ اترتے رہتے ہوں گے اس لئے کسی نے توجہ نہیں دی بہر حال جو کچھ بھی ہوا اس کے لئے صورت حال فائدہ مند تھی وہ تیزی سے سڑک پر چلتا گیا اب وہ میدان ختم ہو گیا تھا اور دور تک کھیتوں کا سلسلہ نظر آتا تھا عمران کے کپڑے بھی اسی اثناء میں سوکھ گئے تھے اس لئے اب وہ چلنے میں زیادہ تیزی پیدا کر سکتا تھا وہ سوچ رہا تھا نہ جانے کیپٹن شکیل، صفدر اور
جولیا پر کیا گزری ہو گی چلتے چلتے وہ ایک گاؤں میں پہنچ گیا یہاں آکر اسے معلوم ہوا کہ یہ امریکہ کا ایک دور افتادہ گاؤں ہے اور نیو یارک یہاں سے تقریباً دو سو میل ہے یہاں سے نزدیک ترین شہر 40 میل تھا اب وہ جلد از جلد اس شہر میں پہنچنا چاہتا تھا آخر اسے ایک شخص ایسا مل گیا جو اپنی ویگن پر سبزی لے کر شہر جارہا تھا۔ عمران بھی اس کے ساتھ شامل ہو گیا تقریب ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ لوگ شہر پہنچ گئے عمران سیدھا ایک ہوٹل میں گیا وہاں جا کر اس نے کھانے کا آرڈر دیا اور کھانے کا انتظار کا وقت کاٹنے کے لئے اس نے اخبار اٹھالی لیکن پہلے صفحے پر نظر پڑتے ہی وہ چونک اٹھا کیوں کہ اس میں دو مردوں اور ایک عورت کا ائیر پورٹ سے پر اسرار افراد کا حال دیا ہوا تھا کہ کس طرح وہ پولیس کو جل دے کر غائب ہو گئے اور انتہائی کوششوں کے باوجو داب
تک ان کا پتہ نہیں چل سکا اس میں ان کے کسی چوتھے ساتھ کے متعلق بھی لکھا ہوا تھا اخبار میں ان تینوں کے حلئے بھی درج تھے۔ جس سے عمران سمجھ گیا کہ یہ شکیل، صفدر اور جو لیا ہیں وہ سوچ رہا تھا کہ یہ تینوں نیو یارک
میں کہاں چھپے ہوں گے حالانکہ اخبار میں تو درج نہیں تھا لیکن وہ سمجھ گیا کہ طیارہ کے پائلٹ نے پولیس کو اطلاع دی ہو گی اور وہ تینوں مقامی پولیس سے بچنے کے لئے فرار ہو گئے ہوں گے۔ ان حالات میں اب اس کے
لئے اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ جلد از جلد نیو یارک پہنچے اور حالات کو سنبھالے کیونکہ کل سے میٹنگ شروع ہورہی تھی۔ ویٹر کھانا لے آیا تو اس نے بھی جلدی جلدی کھانا کھایا اور بل ادا کر کے باہر نکل آیا ہوٹل کے باہر ایک پبلک بو تھ تھا عمران اس میں گھس گیا اور ڈائرکٹری سے ائیر پورٹ انکوائری نمبر دیکھ کر اس نے ائیر پورٹ انکوائری کو رنگ کیا یہ اس کی انتہائی خوش قسمتی تھی یا محض ایک اتفاق کہ دس منٹ کے بعد ایک فلائٹ نیو یارک جارہی تھی وہ فوراً ٹیکسی پکڑ کر ائیر پورٹ روانہ ہو گیا اور تقریباً45 منٹ بعد وہ نیویارک کے ہوائی اڈے پر اتر رہا تھا یہ چونکہ ایک مقامی سروس تھی اس لئے کسی نے بھی اس سے پاسپورٹ چیک نہ کیا اور وہ اطمینان سے چلتا ہوا ائیر پورٹ کی بلڈنگ سے باہر آگیا۔ اب وہ فوراًC-I-B کے سر براہ سے ملنا چاہتا تھا۔ کیوں کہ کل کی میٹنگ کی سر براہی بھی C-I-B ہی کر رہی تھی چنانچہ اپنی آمد کی اطلاع بھی انہیں دینی تھی۔ اور اس کے بعد اپنے ساتھیوں کو بھی ڈھونڈ نا تھا اس لئے اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو منکن روڈ پر چلنے کو کہا
منکن روڈ پر ایک بہت بڑی عمارت میں
کا ہیڈ کوارٹر تھا۔C-I-B
عمران یو نہی کمرے میں داخل ہوا تو اسے ایک چوکیدار نے دروازے پر ہی روک لیا۔
اے مسٹر تم اندر کہاں جارہے ہو،

چوکیدار کی آواز میں سخی نمایاں تھی۔
اپنی خالہ کے گھر جارہا ہوں تمہاری کوئی دھونس ہے عمران اپنے مخصوص لہجے میں بولا۔ تمہارا دماغ خراب ہے۔ چلو بھا گو یہاں سے چوکیدار حیرت سے اس خوش پوش شخص کو دیکھ رہا تھا۔
کیوں کیا میرے خالو مسٹر کاپل اس گھر میں نہیں رہتے ، عمران نے جسم کو لچکاتے ہوئے کہا۔
مسٹر کابل۔
ہاں ہاں مسٹر کا پل وہی موٹے سے بند گلے کی جیکٹ پہنے اور نیلے رنگ کا مفلر پہنتے ہیں منہ میں ہر وقت پائپ رکھتے ہیں وہی تو ہیں میرے خالو، عمران تیزی سے بولتا چلا گیا۔
مسٹر کا پل ہیں تو سہی مگر یہ دفتر ہے گھر نہیں،
چوکیدار اب نرم پڑ گیا۔
چلو گھر نہ سہی دفتری سی تم کامل صاحب کو جا کر کہو کہ آپ کا بھتیجا عمران آیا ہے دیکھو کیسے بلاتے ہیں ہیں۔
اگر نہ بلا یا اور مجھے ڈانٹ پڑ گئی تو۔
چوکیدار شش و پنج میں بولا۔
اگر نہ بلا یا تو سوروپے دوں گا اور اگر بلا یا تور و پیہ تم مجھے دینا۔
چوکیدار اب بھی شش و پین میں تھا عمران کی خوش پوشاکی کو دیکھ کر وہ جانا چاہتا تھا لیکن اس کی باتیں اسے کوئی مخبوط الحواس ثابت کرتی تھیں بہر حال چند لمحے کی ہچکچاہٹ کے بعد وہ اندر چلا گیا عمران گیٹ سے گزرنے
والی لڑکیوں کو دیکھ کر سیٹیاں بجار ہا تھا اور ایک لڑکی کو تو اس نے با قاعدہ آنکھ مار دی لڑکی مسکرائی اور رک
گئی۔ مگر عمران اس دوران دوسروں کو آنکھ مارنے میں مشغول ہو گیا لڑکی کے چہرے پر حیرت کے آثار ظاہر ہوئے اور وہ سر کو جھٹکتے ہوئے اندر چلی گئی چند لمحے بعد چوکیدار واپس آگیا اور عمران کو اندر چلنے کو کہا۔
میرے سوروپے تو دو شرط لگی ہوئی ہے کوئی مذاق ہے عمران اڑ گیا چوکیدار نے دانت نکال دیئے اور عمران ایک چھوٹانوٹ اس کے ہاتھ میں رکھات اندر چلا گیا۔ چوکیدار ایسے دیکھ رہا تھا جیسے ساتویں عجوبے کو دیکھ رہا ہو۔ اندر عمران آرام سے مسٹر کا پل سے باتیں کر رہا تھا مسٹر کا پل بڑی مشکل سے آپ تک پہنچا ہوں عمران نے اسے تمام واقعہ بتاتے مسٹر کا پہل کو کہا۔
میں نے ابھی اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈنا ہے معلوم نہیں کہ وہ کہاں پریشانی کے عالم میں ہوں گے۔ آپ براہ مہر بانی مسٹر کاپل پولیس کو ان کے بارے میں خاص ہدایات جاری کر دیں۔
وہ تو ہو جائے گا مگر عمران صاحب وہ کیمرہ کیسا تھا جس کے لئے اتنا بڑا ہنگامہ ہوا،
مسٹر کابل نے پائپ کو منہ سے لگاتے ہوئے سوالیہ انداز سے کہا،
یہ میں میٹنگ میں ہی بتا سکوں گا،
اچھا اجازت عمران نے اٹھتے ہوئے کہا۔
مسٹر کا پل احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا مگر عمران انتہائی لو فرانہ انداز سے سیٹی بجاتا ہواان
کے اٹھتے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے باہر چلا گیا اور مسٹر کاپل چند لمحے تک حیران کھڑے رہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

Share with your friends on Facebook


Updated: March 27, 2025 — 3:57 pm

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *