Read Urdu Novel ‘Main Hun Badnaseeb’ Part 14 Online – Complete Episode for Free

Read Main Hun Badnaseeb Part 14 online for free and immerse yourself in the latest chapter of this highly popular Urdu novel. In this gripping episode, the emotional depth and suspense continue to captivate readers. Don’t miss out on this Urdu novel online experience. Enjoy the complete episode of Main Hun Badnaseeb Part 14 and follow the intense journey of the characters. Keep up with the story by reading all episodes of Main Hun Badnaseeb online now!

urdu novel read online

Main Hun Badnaseeb novel online

Read Here Part 13 Main Hun Badnaseeb Urdu Novel

” لل لیکن اگر سردار کے آنے سے پہلے دوبارہ سردار بی بی نے کوئی سازش کی تو ۔۔ ؟”

منہ میں بڑبڑاتی وہ حویلی کے گیٹ کے پاس کھڑی تھی

سردار بی بی نے اس سے اس کی چھت بھی چھین لی تھی وہ جانتی تھی اب وہ اسے کسی صورت پناہ نہیں دیں گی اسے سب سے زیادہ فکر اپنی آبرو کی تھی جو کہ اب یہاں محفوظ نہیں تھی سردار بی بی جب ایک مرتبہ اتنی گری ہوئی حرکت کر سکتیں ہیں تو دوبارہ ان سے کچھ اچھائی کی امید نہیں کی جا سکتی تھی سردار شیر دل سے بھی التجا نہیں کر سکتی تھی کہ وہ جانتی تھی جب وہ ایک دو بار عباس کے پاس آئے تھے تو کس قدر حقارت سے وہ اسے دیکھتے تھے کئی مرتبہ وہ عباس کو ان سے نورے سے شادی والے معاملے پر بحث کرتا سن چکی تھی  حویلی کے کسی بھی مکین سے اسے امید نہیں تھی کہ کوئی اس کی مدد کرے گا

” میرے اللہ میں کہاں جاؤں ۔۔ ؟؟ ماں ۔۔ بابا ۔۔ ؟”

دعا کو سینے میں بھینچتی وہ سسک اٹھی تھی

کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی کہاں جائے کوئی بھی تو نہیں تھا جو اس کا ساتھ دیتا یہ تو طے تھا کہ وہ عباس کو  اس کی ماں کی حقیقت بتائے گی مگر عباس کے آنے تک اسے کہیں تو رہنا تھا نگاہیں سامنے کھڑے گارڈز کی جانب کیں کہ ان سے موبائل لے کر عباس کو سب حالات سے آگاہ کرے مگر وہ جانتی تھی کوئی اس کی مدد نہیں کرے گا پھر بھی کچھ سوچتے ہوئے اس نے ان میں سے ایک کو مخاطب کیا جو کہ سردار بی بی کے حکم پر اسے حویلی سے نکالنے کے منتظر تھے

” پپ پلیز سردار سے بات  کرنی ہے مجھے ۔۔ موبائل دے دیں ۔۔ ؟”

بمشکل آنسو پونچھتی وہ بولی تھی مگر گارڈز نے سر جھکا لیا اور خاموش رہے

” پپ پلیز ۔۔ !!”

سسکتی ہوئی دعا کو سنبھالتی وہ روتے ہوئے التجا کر رہی تھی مگر وہ ہنوز سر جھکائے کھڑے رہے حُرّہ جانتی تھی وہ اپنے مالک کے حکم کے غلام ہیں تبھی خاموش ہو گئی

” حویلی کے دروازے پر بیٹھنا پڑے میں بیٹھوں گی ۔۔ اور وہیں بیٹھ کر سردار کا انتظار کروں گی ۔۔ مگر حویلی سے کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔ “

منہ میں بڑبڑاتی وہ چند قدم پیچھے ہوئی تھی آخر وہ اس ظالم دنیا سے کیسے اکیلے مقابلہ کر سکتی تھی جو قدم قدم پر نوچنے کو کھڑی تھی ایسے حالات میں عباس جیسے ہمدرد ساتھی و محافظ سے کیسے دور جا کر بے وقوفی کر سکتی تھی

” میرے اللہ سردار کو بھیج دیں ۔۔ پلیز آ جائیں ورنہ میں مر جاؤں گی ۔۔ “

مسلسل دعا کرتے ہوئے وہ رو رہی تھی

” سنو ۔۔ !”

یہ کوئی جانی پہچانی آواز تھی جو حُرّہ کو پشت سے سنائی دی تھی کسی نے شاید اسے پکارا تھا لمحہ ضائع کیے بغیر اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے ناعمہ کھڑیں تھیں پہلے حُرّہ نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا پھر دل میں خیال آیا کہ ان سے مدد مانگی جائے شاید وہ انہیں سردار بی بی سے یہاں رہنے کی اجازت لے دیں ابھی حُرّہ نے کچھ بولنے کو لب وا کیے ہی تھے کہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا

” تم جانتی ہو لڑکی ۔۔ ؟؟  تم اور تمہاری گود میں یہ بچی  اس وقت قابل رحم ہو ۔۔ کسی کو بھی تم پر ترس آ جائے مگر ۔۔”

انہوں نے عام سے انداز میں بات کا آغاز کیا تھا حُرّہ اس وقت اس بات کی توقع ان سے نہیں کر رہی تھی وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی تھی

جبکہ وہ سامنے کھڑی حُرّہ کو بغور دیکھ رہیں تھیں مندے سے کپڑوں میں مٹی کے واضح نشان نظر آ رہے تھے دوپٹے سے خود کو لپیٹے ہوئے ، لمبے سیاہ بالوں کی چٹیا میں سے آدھے بال نکلے ہوئے تھے ، چہرے پر خشک آنسوؤں کے نشان اور آنکھیں سوجی ہوئیں گود میں سال بھر کی بچی بلک رہی تھی ایک پل کو تو اسے دیکھ کر ان کا ہاتھ دل پر بے اختیار پڑا تھا مگر پھر سر جھٹکا انہیں کمزور نہیں پڑنا تھا اپنی بیٹی کی خاطر اگر انہیں حُرّہ جیسی بے ضرر لڑکی سے قربانی بھی مانگنی پڑی تو وہ ایسا ضرور کریں گیں

ہاتھ کے اشارے سے انہوں نے گارڈز کو وہاں سے بھیجا اور پھر سے حُرّہ کی جانب متوجہ ہوئیں

” چلی جاؤ ۔۔ چلی جاؤ ہماری زندگی سے ۔۔ چلی جاؤ چھوٹے سردار کی زندگی سے ۔۔ چلی جاؤ میری بیٹی کی زندگی سے ۔۔ تاکہ خوشیاں اس کی زندگی میں آ سکیں ۔۔ “

وہ سفاکیت سے کہہ رہیں تھیں حُرّہ نے ٹھٹھک کر انہیں دیکھا

” کک کیا مطلب ہے آپ کا ۔۔ ؟؟”

حُرّہ کی آواز بمشکل نکلی تھی

” تم جب تک چھوٹے سردار کی زندگی میں رہو گی ۔۔ اس وقت تک وہ نورے کو قبول نہیں کرے گا ۔۔ میری بچی کی خوشیوں میں رکاوٹ مت بنو ۔۔ کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گی تم میری بیٹی کی خوشیوں کی رکاوٹ بن کر ۔۔ “

وہ سخت لہجے اور انداز میں بات کر رہیں تھیں

” مم میں کیسے نورے کی خوشیوں میں رکاوٹ ہوں ۔۔ ؟”

حُرّہ کی آواز جیسے کھائی سے آئی تھی

” یہ تو تم جانتی ہی ہو کہ چھوٹے سردار اور نورے کی نسبت پچپن سے طے تھی ۔۔ اگر عابی کے قتل کے بعد اس کے خون بہا میں تم چھوٹے سردار کی ونی بن کر نہ آتی تو آج میری بیٹی چھوٹے سردار کے ساتھ خوش رہ رہی ہوتی ۔۔ جیسے آج تمہاری گود میں اولاد ہے ایسے ۔۔ میری بیٹی کی گود میں بھی ہوتی ۔۔ مگر افسوس تم آ گئی ۔۔ ہماری خوشیوں کو آگ لگانے ۔۔”

وہ جیسے جیسے بول رہیں تھیں ویسے ہی حُرّہ کے وجود میں خنجر پیوست ہو رہے تھے

” مم میرا کوئی قصور نہیں ہے ۔۔ میں نے کبھی بھی سردار کی نورے کے ساتھ شادی پر اعتراض نہیں کیا ۔۔ مم میں دل سے اس بب بات سے راضی ہوں ۔۔ “

بہتے آنسوؤں کو بار بار ایک ہاتھ کی پشت سے رگڑتی وہ بولی تھی

” اتنے عرصے میں تم سردار کو جان تو گئی ہو گی ۔۔ وہ کتنے نرم دل ہیں ۔۔ تم سے ہمدردی کی وجہ سے وہ نورے سے شادی نہیں کر رہے کیونکہ نورے سے اگر اس کی شادی ہو گئی تو نورے کا مرتبہ تم سے زیادہ ہوگا ۔۔ نورے کو سردار بی بی کی حیثیت ملے گی کیونکہ وہ خاندانی بیوی ہو گی ۔۔ اور تمہاری اور تمہاری اولاد کی کوئی اوقات نہیں رہے گی۔۔ جبکہ نورے کی اولاد کو ہی سردار کی اولاد کی حیثیت دی جائے گی ۔۔ !”

ان کی باتیں حُرّہ کو سر جھکانے پر مجبور کر گئیں تھیں پرنم نگاہیں دعا کی جانب کیے وہ تڑپ گئی تھی

 کیا اس کی طرح اس کی بیٹی کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی جبکہ انہوں نے اس پل حُرّہ سے نگاہیں چرائیں تھی کیونکہ سامنے کھڑی بے بس لڑکی کتنی دکھی تھی اور کن حالات سے گزری تھی یا گزر رہی تھی وہ جانتی تھیں کہ حُرّہ کی زندگی کتنے کانٹوں سے بھری ہوگی اگر انہوں نے اس کی مدد نہ کی

” مم میں کک کیا کر سکتی ہوں ۔۔ ؟”

الفاظ حلق سے نکلنے سے انکاری تھے مگر وہ اذیت کی حدیں پار کرتی بولی تھی

” سرداد کو چھوڑ دو ۔۔”

انہوں نے فٹ سے کہا تو حُرّہ انہیں دیکھتی رہ گئی

” مم میں ایسا کسی قیمت پر نہیں کر سکتی ۔۔ “

ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ گویا ہوئی

” میری بیٹی کی آہیں تمہیں جینے نہیں دیں گی ۔۔ دیکھو ذرا عباس جیسے ہمسفر کے ساتھ کے باوجود تم اس مشکل میں میں ہو ۔۔ اس کا مطلب خدا بھی یہی چاہتا ہے کہ تم نکل جاؤ اس کی زندگی سے ۔۔ “

وہ بولیں تو حُرّہ نے اس بےرحم عورت کو دیکھا جو اپنی بیٹی کی خاطر  کیسے اسے بددعا دے رہیں تھیں

” مم میں نہیں جا سکتی ۔۔ کچھ رحم کریں ۔۔ میرا کوئی نہیں جس کے پاس جاؤں ۔۔ “

وہ التجائی انداز میں بولی

” کہیں بھی چلی جاؤ ۔۔ دنیا بہت بڑی ہے ۔۔ شاید تمہاری زندگی میں بھی سکون آ جائے ۔۔ “

آخری بات جانے کیا سوچ کر انہوں نے کہی تھی کہ حُرّہ نے انہیں دیکھا

” مم میرا کوئی نہیں ہے ۔۔ ! مم میں کہاں جاؤں گی ۔۔ ؟”

بے بسی کی انتہا تھی

” کہیں بھی جاؤ ۔۔ مگر ہماری زندگی سے چلی جاؤ ۔۔ ! میری بیٹی کی خوشیوں سے دور ۔۔ بہت دور ۔۔ !”

ان کی سفاکیت سے کہی بات پر حُرّہ نے انہیں تڑپ کر دیکھا تھا

اگر اس کے ماں باپ نہیں تھے تو کیا ہوا دنیا نے تو اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا تھا سامنے کھڑی ماں کو محض اپنی بیٹی کی خوشیاں عزیز تھیں بدلے میں وہ حُرّہ سے اتنی بڑی قربانی مانگ رہی رہیں تھیں اب حُرّہ انہیں کیسے سمجھاتی کہ یہ قربانی اس کے وجود سے سانسیں بھی نکال دے گی

” مم میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔ مم میرا سردار کے سوا کوئی نہیں ہے ۔۔ مم میں کہاں جاؤں گی ۔۔ ؟”

وہ اس مرتبہ بے تحاشہ روتے ہوئے بولی تھی جبکہ دعا کا بھوک سے برا حال تھا وہ معصوم بچی رو رو کر بھی نڈھال ہو چکی تھی مگر اس کی ماں کے پاس اسے دینے کے لیے دودھ بھی نہیں تھا

” اگر تم یہاں رہی تو کبھی خوشیاں نہیں پا سکو گی ۔۔ ہمیشہ میری بیٹی کے آنسو تمہاری زندگی کو اذیتوں سے بھر دیں گے ۔۔ کیونکہ میری بیٹی اگر ہمسفر کے بغیر زندگی گزارے گی تو ۔۔ تم کبھی سکون سے نہیں رہ سکو گی ۔۔ “

وہ کٹیلے انداز میں بولیں تھیں جبکہ حُرّہ ان کی مسلسل بد دعاؤں سے تڑپ رہی تھی

“آ آ آپ مم میرا یقین کریں میں ۔۔  میں چھوٹے سردار کو نورے کے ساتھ شادی پر راضی کر لوں گی ۔۔ نورے بے رنگ زندگی نہیں گزارے گی ۔۔ “

حُرّہ دل پر ضبط کرتی بولی تھی کیونکہ جانتی تھی کہ نورے کی شادی عباس کے سوا حویلی والے کہیں نہیں کریں گے

” تم چلی جاؤ گی سردار کی زندگی سے تو خودبخود سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ سب پہلے جیسا ہو جائے گا ۔۔ “

وہ نفی میں سر ہلاتی بولیں تھیں

” مم میں آپ کو کیسے سمجھاؤں ۔۔ میں نن نہیں جا سکتی ایسے کہیں بھی ۔۔ مم میرا کوئی بھی نہیں ہے ۔۔ مم میرے ماں باپ نن نہیں ہیں ۔۔ اا اور بھی کوئی نہیں ۔۔ سرداد کے سوا کوئی سہارا نہیں میرا ۔۔ خدا کے لیے مجھ سے یہ واحد سہارا مت چھینیں ۔۔ “

حُرّہ مسلسل روتی ہوئی بول رہی تھی

” میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔ چلی جاؤ ہماری زندگی سے بہت دور ۔۔ یہاں تمہیں اور تمہاری بیٹی کو کبھی کوئی قبول نہیں کرے گا ۔۔ کبھی نہیں کرے گا ۔۔ “

وہ انداز میں حقارت لیے طنزیہ ہاتھ جوڑتی بولیں تھیں

” اا ایسا نہیں ہے ۔۔ سرداد اپنی بیٹی سے بہت پپ پیار کرتے ہیں ۔۔ “

حُرّہ نے فوراً کہا تو وہ تمسخرانہ ہنسی

” اور سردار بی بی ۔۔ ؟؟ بڑے سرداد ۔۔ ؟؟ اگر تمہاری اور تمہاری بیٹی کی کوئی حیثیت ہوتی تو تم آج حویلی میں ہوتی ۔۔ یہاں در در کی ٹھوکریں نہ کھا رہی ہوتی ۔۔ چھوٹے سردار یہ بات سمجھتے ہیں کہ تمہیں حویلی میں کبھی سردار کی بیوی کی طرح عزت نہیں ملے گی ۔  تبھی انہوں نے تمہیں حویلی سے دور رکھا ہوا تھا ۔۔ “

ان کے الفاظ نہیں خنجر تھے جو حُرّہ کے وجود کو چھلنی کر رہے تھے مگر وہ خاموش رہی

” تمہیں تمہاری بیٹی کا واسطہ ہے ۔۔ چلی جاؤ یہاں سے ۔۔ تم تو خود ایک ماں ہو ۔۔ میری بیٹی کی زندگی ویران ہونے سے بچا لو ۔۔”

حُرّہ کی خاموشی پر اس مرتبہ وہ التجائیہ انداز میں بولیں تھیں

” مم میں ککک کیسے ۔۔ ؟”

حُرّہ ان کی بات پر سر جھکا گئی

” تم بات ختم کیوں نہیں کرتی ہو ۔۔ چلی کیوں نہیں جاتی ہو ۔۔ روز روز کا تماشہ ختم کرو ۔۔ تمہارا اور گاؤں کے سردار کا کیا مقابلہ ۔۔ ؟ تم کسی لحاظ سے ان کے قابل نہیں ہو ۔۔ وہ واحد اولاد ہیں بڑے سردار کی ۔۔ آج نہیں تو کل وہ چھوٹے سردار کو راضی کر لیں گے نورے کے ساتھ شادی پر ۔۔ پھر کیا حاصل ہوگا تمہاری زندگی کا ۔۔ اس سے پہلے چلی جاؤ یہاں سے ۔ “

وہ پھر اسی انداز میں آئیں تھیں اور خاصے کڑوے لہجے میں بولیں تھیں اس سے پہلے حُرّہ کوئی جواب دیتی دعا پھر بھوک سے رونے لگی تھی

” پپ پلیز ممم میری بیٹی بھوک کی وجہ سے رو رہی ہے ۔۔ پلیز اسس ۔۔”

” جتنے مرضی پیسے چاہیے لے جاؤ  ۔۔ لیکن ہمیشہ کے لیے چلی جاؤ ۔۔ ۔۔!”

وہ حُرّہ کی بات کاٹ کر بولیں تھیں اور چند نوٹ حُرّہ کی جانب اچھالے تھے جو زمین بوس ہو چکے تھے  حُرّہ نے اس خود غرض عورت کو دیکھا جو ہر صورت اسے حویلی سے دور کرنا چاہتی تھی

” سرداد کے آنے تک مم میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔ “

ان کی بےرحمی پر حُرّہ نے کہا

” اگر تم نہ گئی تو یاد رکھنا تم بھی بیٹی والی ہو ۔۔ اگر عباس اور تم میری بیٹی کے ساتھ ناانصافی کرو گے تو وقت آنے پر تم دونوں کی بیٹی بھی تم دونوں کا کیا بھگتے گی ۔۔ ایسے ہی تڑپے گی جیسے میری بیٹی تڑپ رہی ہے ۔۔ انہیں اذیتوں سے گزرے گی جن سے میری بیٹی گزر رہی ہے  ۔۔ “

وہ اب دھمکی دے رہیں تھیں بلکہ بددعا دینے لگیں تھیں

” خدا کے لیے میری معصوم بچی کے متعلق ایسے نہ کہیں ۔۔ مم میں چلی جاتی ہوں۔۔ چچ چلی جاؤں گی۔۔ لیکن پلیز میری بیٹی کو بد دعا نہ دیں ۔۔ “

ان کے الفاظ سن کر حُرّہ تڑپ کر بولی تھی اور مضبوطی سے دعا کو خود میں بھینچا

” پلٹ کر آنے کا سوچنا بھی مت ۔۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے تمہارا سایہ بھی پڑے ہمارے بچوں کی خوشیوں پہ ۔۔ “

وہ حُرّہ کو بیرونی دروازے کے جانب اشارہ کر کے کہہ رہیں تھیں جبکہ حُرّہ نے افسوس اور اذیت کے ملے جلے تاثرات لیے انہیں دیکھا اور کچھ سوچتے ہوئے پیچھے مڑی جبکہ وہ جا چکیں تھیں

حُرّہ نے بے ساختہ آسمان کی جانب دیکھا

” مم میں کیا کروں میرے مالک ۔۔ ؟؟ کچھ تو راہ نکالو ۔۔ “

وہ اپنا سب کچھ ہار کر جا رہی تھی اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا

اس کی زندگی میں خوشیاں عباس کے ساتھ گزارے گئے اس ڑیڑھ سال کی مدت جتنی تھیں وہ یہ بات قبول کر چکی تھی ان کا الگ ہونا مقصود تھا کیونکہ ان دونوں کے ساتھ سے کسی کی زندگی خراب ہو رہی تھی وہ جانتی تھی عباس اس کی موجودگی میں کبھی نورے سے شادی نہیں کرے گا اسی لیے نورے کی خوشیوں کے لیے اسے بہت دور جانا تھا ان لوگوں سے تاکہ حویلی والے خوش رہ سکیں بے شک اس کے لیے اسے کتنی ہی بڑی مشکل سے گزرنا پڑے

/////////////////////////

” احمد میں پاکستان واپس جا رہا ہوں ۔۔ تم دیکھ لینا یہاں سب کچھ ۔۔ “

وہ موبائل پر مسلسل انگلیاں چلاتے ہوئے بولا تو احمد نے چونک کر اسے دیکھا

” کیا ہو گیا ہے ۔۔ ابھی ایک دن نہیں ہوا ہمیں آئے ہوئے ۔۔ اور تم یہ اچانک جانے کا کیوں کہہ رہے ہو ۔۔”

احمد نے اس کا بوجھل انداز نوٹ کرتے ہوئے پوچھا

” سب ٹھیک تو ہے نا عباس ۔۔ رات بھر جاگتے رہے ہو کیا ۔۔ ؟؟؟”

عباس کے خاموش رہنے پر احمد نے اس کی بوجھل اور سرخ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا

” ہممم نیند نہیں آئی ۔۔ !”

عباس نے انگلیاں بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا تو احمد اس کے سامنے جا کھڑا ہوا

” کیا ہوا عباس پریشان لگ رہے ہو ۔۔ ؟ “

احمد نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو عباس نے بوجھل انداز میں اسے دیکھا

” حُرّہ کال پک نہیں کر رہیں ۔۔ پتہ نہیں دعا کیسی ہوگی ۔۔ مجھے مس کر رہی ہوگی ۔۔ “

عباس نے دوبارہ موبائل پر حُرّہ کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا تو احمد ہنسنے لگا

” کیا ہو گیا ہے یار ۔۔ ابھی کل ہی تو آیا ہے بھابھی کے پاس سے ۔۔ ایک دن میں ہی یاد ستانے لگی ان کی ۔۔ “

عباس نے شرارت سے کہا مگر عباس ہنوز سنجیدہ تھا

” حُرّہ لاپرواہ نہیں ہیں ۔۔ انہیں پتہ ہے کہ میں صبح ہوتے ہی انہیں کال کروں گا ۔۔ پھر فون کیوں نہیں اٹھا رہیں وہ میرا ۔۔ ؟؟ چوکیدار کا بھی فون بند ہے ۔۔ “

عباس کے انداز اور لہجے سے پریشانی عیاں تھی اس کی بات سن کر احمد کے مسکراتے لب بھی سکڑے تھے

” یار تو کسی گارڈ کو کال کر ۔۔ اس سے معلوم کر ۔۔ شاید بھابھی مصروف ہوں چھوٹی بچی ہے ان کی اس میں مصروف ہوں گی ۔۔ ایسے پریشان نہ ہو ۔۔ “

احمد کے کہنے پر عباس نے سرد آہ بھری تھی رات بھر بے چینی ہوتی رہی تھی کہ نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہی تھی سارا وقت کمرے میں مختلف سوچوں میں گزری تھی صبح ہوتے ہی حُرّہ کو مسلسل کال کر رہا تھا بیل جا رہی تھی مگر وہ کال پک ہی نہیں کر رہی تھی اس وقت سے عباس پریشان تھا مزید پریشان یہ بات کر رہی تھی کہ نہ اس کا گارڈ اور نہ چوکیدار کال پک کر رہا تھا اس وقت سے عباس مضطرب تھا

” نہیں یار ۔۔ کیسے پریشان نہ ہوں کوئی کال پک نہیں کر رہا میری ۔۔ حُرّہ اور دعا پتہ نہیں کیسی ہوں گی ۔۔ !”

عباس داڑھی پر ہاتھ پھیرتا مضطرب انداز میں بولا

” یار پریشان مت ہو ۔۔ ایسے کرتے ہیں ہم عالیان کو کال کرتے ہیں اسے تیرے گھر بھیجتے ہیں ۔۔ وہ بھابھی اور دعا کی خیریت معلوم کرے گا ۔۔ “

احمد نے اس کو بےچین دیکھتے ہوئے کہا

” ہاں ۔۔ لیکن میری فلائٹ بک کرواؤ میں خود جاؤں گا پاکستان ۔۔ !”

اثبات میں سر ہلاتے ہوئے عباس نے کہا

” یار ابھی کل تو آئیں ہیں ہم ۔۔ تو پریشان نہ ہو ۔۔ سب ٹھیک ہو گا ۔۔ عالیان جائے گا نا ابھی ۔۔ “

“ہاں ۔۔ لیکن مجھے حُرّہ اور دعا کو خود دیکھنا ہے جا کے ۔۔ جب تک انہیں دیکھوں گا نہیں مجھے چین نہیں آئے گا ۔۔ “

عباس اب کوئی نمبر ڈائل کرکے سیل فون کان سے لگا چکا تھا یقیناً وہ عالیان کو کال کر رہا تھا

/////////////////////////

”  بی بی جی ۔۔ !”

حُرّہ شکست زدہ چال سے چلتی حویلی سے دور جا رہی تھی جب اسے اپنی پشت سے پکار آئی

” آ آپ ۔۔ !”

مڑ کر دیکھنے پر ناہید سامنے کھڑی نظر آئی تو حُرّہ نے پتھرائی نگاہوں سے اسے دیکھا

” آپ کہاں جا رہیں ہیں بی بی جی ۔۔ ؟”

ناہید ان کے قریب آتے ہوئے مؤدب سی پوچھنے لگی تو حُرّہ چند لمحوں کے لیے سوچ میں پڑ گئی یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جائے گی

” کیا ہوا بی بی ۔۔ ؟”

ناہید نے اسے پھر سے مخاطب کیا تھا

” کک کچھ نہیں ۔۔ آپ بتائیں حویلی سے باہر کیا کر رہیں ہیں ۔۔ “

حُرّہ کے سوال پر وہ دکھ سے مسکرائی

” جب چھوٹے سردار ، آپ کو لے کر شہر چلے گئے تھے تو سردار بی بی نے مجھے آپ کی خدمت کرنے کی سزا یوں دی کہ سارے اختیار مجھ سے چھین لیے ۔۔ کھانا بھی ایک وقت کا دیتی تھیں بہت مشکل وقت گزار رہی تھی حویلی میں ۔۔ پھر ایک دن چھوٹے سردار نے سردار بی بی کا میرے ساتھ سلوک دیکھا تو مجھے پیسے دیے اور کہا حویلی سے چلی جاؤ ۔۔ جیسے چاہوں زندگی گزاروں ۔۔ تو میں بہن کے پاس چلی گئی ۔۔  ان کے اس فیصلے سے میری زندگی میں سکون تو آیا مگر میں اکثر حویلی آتی ہوں بڑے سردار کی خدمت میں ۔۔ “

ناہید کے تفصیل سے بتانے پر حُرّہ نے سر ہلایا

” یی یہ چھوٹے سردار کی بیٹی ہے نا ۔۔ ماشااللہ اتنی پیاری ہے ۔۔ “

حُرّہ کی گود میں رو رو کر پھر سے سوئی ہوئی دعا کو دیکھ کر ناہید خوش ہوتی بولی اور تھکی تھکی حُرّہ کی گود سے دعا کو لے لیا حُرّہ نے اذیت سے مسکرا کر ناہید کو دیکھا وہ پہلی تھی جس نے دعا کو اتنے پیار سے گود میں لیا تھا ورنہ سرداد بی بی اور ناعمہ بی بی نے تو حقارت سے اس کی بچی کو دیکھا تھا

” میں نے سنا بی بی جی سب کچھ جو ناعمہ بی بی نے آپ کو بولا ۔۔ اب آپ کیا کریں گیں ۔۔ “

ناہید نے دور سے نظر آتی حویلی کو افسوس سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا اسے سردار کی بیوی اور بیٹی کو دربدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھ کر دلی دکھ ہوا تھا

” کرنا کیا ہے ۔۔ میں اور میری بیٹی مر بھی جائیں تو کسی کو کیا فرق پڑے گا ۔۔ کہیں بھی چلی جاؤں گی ۔۔ میرے جانے سے حویلی میں خوشیاں آ جائیں گیں ۔۔ “

حُرّہ بھیگی آواز میں بولی تھی اس کے بہتے آنسو اور لہجے کی اذیت کوئی بھی باآسانی محسوس کر سکتا تھا

” چھوٹے سردار کی زندگی تو آپ دونوں ہی ہیں نا بی بی جی ۔۔ میں نے دیکھا ہے عابی بی بی کے قتل کے بعد سردار کتنی اذیت سے گزرے ہیں ۔۔ مگر آپ کے آنے سے اور پھر اپنی بیٹی کے آنے سے ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے ۔۔ وہ زندگی جینے لگے ہیں ۔۔ “

ناہید بتاتے ہوئے پیار سے دعا کے گلابی گالوں پر انگلی رکھتی بولی

” جس طرح میں اور دعا ان کے لیے اہم ہیں ۔۔ ویسے ہی ان کے ماں باپ بھی ان کے لیے اہم ہیں ۔۔ ہر بار میری وجہ سے وہ اپنے گھر والوں سے الجھتے ہیں ۔۔ میرے جانے سے ان کی زندگی بھی پرسکون ہو جائے گی ۔۔ “

وہ اذیتوں کی انتہا پر پہنچتی کہہ رہی تھی اسے اس طرح دیکھ کسی بھی پتھردل کا دل پگھل جائے مگر حویلی والے بہت کٹھور تھے

” ا اور نورے سے شادی بھی کر لیں گے وہ ۔۔ “

وہ مزید بولی تھی جبکہ ناہید نے ذرا سا چہرہ دوپٹے میں چھپا کر اپنے آنسو صاف کیے وہ کیسے بھول سکتی تھی اس لڑکی کی مشکلات جن کی وہ خود گواہ تھی اس بےضرر لڑکی نے کتنے ظلم و ستم سہے تھے

” اگر آپ حکم کریں بی بی تو چھوٹے سردار سے رابطہ کریں ۔۔ اور انہیں سب بتائیں ۔۔ “

ناہید کے سوال پر حُرّہ نے نفی میں سر ہلایا

” نہیں ۔۔ بلکل نہیں ۔۔ مزید مشکل میں نہیں ڈال سکتی میں انہیں اپنی وجہ سے ۔۔ صحیح کہتے ہیں سب حویلی والے ۔۔ نورے بی بی کی بےرنگ زندگی ہے جو مجھے بھی سکون سے نہیں رہنے دے گی ۔۔ کسی کی خوشیوں کے قبرستان پر اپنے لیے سکون اور خوشی ڈھونڈنا حماقت ہے ۔۔ میں دور چلی جاؤں گی تو سردار شادی کر لیں گے نورے سے ۔۔ “

بے تحاشہ سرخ اور بوجھل آنکھوں سے ناہید کو دیکھتی وہ گویا ہوئی تھی

” کک کہاں جائیں گی بی بی پھر ؟؟۔۔ “

ناہید نے دل پر جبر کر کے یہ سوال کیا تھا لیکن وہ جانتی تھی حُرّہ کا تو کوئی بھی نہیں ہے جس کے پاس اپنی بیٹی کو لے جا کر پناہ لے

” جس خدا کے آسرے پر نکلی ہوں وہی پہنچائے گا منزل تک ۔۔ “

یہ کہتے ہوئے حُرّہ نے دوپٹہ درست کیا اور دعا کو اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے

” بی بی جی میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی ۔۔ خدا کا واسطہ ہے منع نہ کیجئے گا ۔۔ چھوٹے سردار کے احسان ہیں بہت مجھ پر ۔۔ میں ان کی بیوی اور بیٹی کو اس مشکل وقت میں اکیلا چھوڑ دوں تو لعنت ہے مجھ پر ۔۔ “

ناہید نے دعا کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا تو حُرّہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

” مجھے تو میری منزل کا ادراک نہیں ۔۔ پھر آپ کیوں رلیں گیں میرے ساتھ ۔۔ “

حُرّہ نے تھکے ہوئے وجود کو گھسیٹتے ہوئے کہا وہ دونوں اب آہستہ آہستہ چل رہیں تھیں

” جس دن چھوٹے سردار نے مجھے آپ کی خدمت کے لیے مختص کر دیا تھا اسی دن سچے دل سے آپ کی خدمت کرنے لگی تھی ۔۔ با خدا آپ کے ساتھ جتنا ظلم کیا وہ سردار بی بی کے کہنے پر کیا ۔۔  اور مجھے مرتے دم تک اس بات کا افسوس رہے گا ۔۔ مگر میں آپ کو اس مشکل وقت میں اکیلے نہیں چھوڑ سکتی بی بی جی ۔۔ “

ناہید دعا کو گود میں اٹھائے حُرّہ کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کہہ رہی تھی

” میں کبھی نہ آنے کے لیے جا رہی ہوں ۔۔ وعدہ کریں آپ کبھی مجھے واپس پلٹنے پر مجبور نہیں کریں گیں ۔۔ “

حُرّہ نے رک کر کہا تو ناہید نے اثبات میں سر ہلایا

” میری بیٹی بھوک سے بےحال ہے ۔۔ پلیز یہ دے کر کچھ پیسوں سے اس کے لیے فیڈر اور دودھ لا دیں ۔۔ کچھ سامان بھی کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے سارا سامان گھر پر ہے ۔۔  “

اپنی انگلی میں موجود سونے کی انگوٹھی نکال کر ناہید کو دیتی وہ رونے لگی تھی کان میں موجود ایک بالی کو وہ چھو کر دیکھنے لگہ تھی یہ واحد نشانی تھی اس کے ماں باپ کی جو انہوں نے جانے کس طرح روپیہ روپیہ جوڑ کر اسے دی تھیں اسی لیے انگلی میں موجود انگوٹھی دی تھی

 تھی تو وہ بھی قیمتی کیونکہ وہ عباس نے اسے دی تھی مگر اپنی بیٹی کو وہ بھوک سے بلکتا ہواہل نہیں دیکھ سکتی تھی جبکہ ناہید اس پل تڑپی تھی گاؤں کے وہ سردار جن کے دیے گئے پیسوں سے گاؤں کے غریبوں کے گھر چلتے تھے بچے پلتے تھے ان کی بیٹی بھوک سے بے حال تھی 

” بی بی جی چھوٹی بی بی کو تو بخار ہے ۔۔ “

ناہید نے دعا کے ماتھے کو چھوتے ہوئے کہا تو حُرّہ نے جھپٹ کر اسے اپنی گود میں لیا

” رات سے رو رہی ہے ۔۔ اتنا کبھی بھی نہیں روئی میری بچی ۔۔ “

حُرّہ مزید روتے ہوئے بولی تھی

” دعا میری جان آپ تو میری پیاری بیٹی ہو نا ۔۔ آپ کو صابر بننا ہے ۔۔ کیونکہ ہمارے مزید امتحان ہیں ابھی ۔۔ “

دعا کو کہتی وہ سسک اٹھی تھی جبکہ ناہید ان دونوں ماں بیٹی کو دکھ سے دیکھتی رہ گئی

” مجھے معاف کر دیجیے گا سردار ۔۔ آپ سے بہت دور جا رہی ہوں ۔۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔۔ خدا شاہد ہے ۔۔ ہر ممکن کوشش کی ہے حالات سے مقابلہ کرنے کی ۔۔ مگر جدائی لکھی جا چکی ہے ۔۔ میرے پاس جینے کے لیے آپ کی نشانی دعا کی صورت میں ہوگی یہی حاصل ہے میری زندگی کا ۔۔ “

دعا کے چہرے پر بوسہ دیتے ہوئے وہ تخیر میں عباس سے مخاطب تھی

” کیا مطلب ہے ۔۔ پاگل سمجھا ہوا ہے مجھے ۔۔ ؟؟ تم لوگوں کی باتوں میں آ جاؤں گا ۔۔ ؟؟ میں جان سے مار دوں گا تم لوگوں کو ۔۔  مجھے بتاؤ میری بیوی اور بیٹی کہاں ہیں ۔۔ ؟”

عباس کی دھاڑ گھر کی در و دیوار کو ہلا رہی تھی وہ اس قدر مشتعل تھا کہ اس سے مخاطب ہونے کی کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی

جب سے وہ پاکستان واپس آیا تھا آ کر حُرّہ اور دعا کی گمشدگی کا علم ہوا تھا اس وقت سے سب تہس نہس کر رہا تھا

پاس کھڑ ے عالیان اور احمد خود بھی پریشان ہکا بکا تھے کہ آخر ایک دن کے اندر اندر حُرّہ اور دعا کہاں جا سکتی ہیں ان دونوں سمیت کسی نے عباس کو اتنے اشتعال میں کبھی نہیں دیکھا تھا وہ جب سے آیا تھا اس وقت سے تلاش جاری کر چکا تھا اب سامنے کھڑے گارڈز کی جان لینے پر تلا تھا

” عباس ۔۔ !”

عباس ایک گارڈ پر جھپٹا تھا جب عالیان نے بمشکل اسے روکا تو وہ اسے خونخوار نگاہوں سے دیکھتا اپنا آپ چھڑانے لگا

” ان سب کو جان سے مار دوں گا ۔۔ ساری غلطی میری ہے ۔۔ مجھے حُرّہ اور دعا کو یہاں چھوڑنا ہی نہیں چاہیے تھا اکیلا ۔۔ !”

غصے سے غراتا وہ آخر میں لہجے میں اذیت لیے بولا تھا اک پل کو اسے چین نہیں آرہا تھا

” صص صاحب ہہ ہمیں نہیں معلوم بی بی جی کہاں گئیں ہیں ۔۔ !”

ہاتھ جوڑے کھڑے ایک گارڈ نے ڈرتے ڈرتے کہا تو عباس نے ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر مارا کہ اس کے ناک سے خون کی ایک دھار بہنے لگی

” یہی تو کہہ رہا ہوں ۔۔ تم اتنے مدہوش تھے کیوں نہیں معلوم کہاں گئیں ۔۔ ؟ یہ ڈیوٹی دی ہے تم لوگوں نے ۔۔”

عباس کے دھاڑنے اور شدید ردعمل پر وہاں موجود تمام نفوس کانپنے لگے

” ریلیکس عباس ۔۔ میں بات کرتا ہوں ۔۔ “

احمد نے عالیان کو اشارہ کرتے ہوئے کہا تو عالیان نے عباس کو بازو سے پکڑ کر پیچھے کیا

” جو کچھ جانتے ہو ۔۔ فوراً بتاؤ ۔۔ کہاں گئیں بھابھی ۔۔ ؟؟”

احمد نے ایک دوسرے گارڈ کو دیکھتے ہوئے پوچھا جس کی پہلے ہی عباس کو دیکھ کر جان نکل رہی تھی

” سس سر بی بی جی صبح صبح گیٹ سے نکل رہیں تھیں ۔۔ دعا بی بی کو لے کر ۔۔”

وہ ڈرتے ہوئے بولا تھا

” کچھ بتایا انہوں نے ۔  کہ کہاں جا رہیں ہیں ۔۔ ؟”

احمد نے اس کے خاموش ہو جانے پر پھر سے پوچھا جو عباس کو دیکھتا کانپ رہا تھا

” ہہ ہم نے پوچھا تو انہوں نے جواب نہیں دیا ۔۔ اور کہتیں کہ۔۔ تم لوگ میرے پیچھے مت آنا ۔۔ میں کسی کام سے جا رہی ہوں   ۔۔ “

یہ دوسرا گارڈ تھا

” بکواس بند کرو نہیں تو کاٹ دوں گا ۔۔ حُرّہ کہیں نہیں جا سکتیں ۔۔ وہ گھر سے نکلتی ہی نہیں تھیں ۔۔ یہ بکواس کر رہا ہے ۔۔ “

عباس نے آگے بڑھ کر اس گارڈ کا گریبان پکڑ کر کہا

” عباس یار ریلیکس ۔۔ “

احمد نے عباس کو کاندھے سے تھام کر پیچھے کیا

” احمد یہ سب جانتے ہیں ۔۔ اور مجھے بھی ضرور بتائیں گے ۔۔ میں ان سب کی چمڑی ادھیڑ دوں گا ۔۔ “

عباس نے اس سے خود کو چھڑایا اور ایک گارڈ کو بالوں سے جکڑ لیا

” کس کے کہنے پر ۔۔ بتاؤ ۔۔ کس کے کہنے پر غائب کیا ہے میری بیوی اور بیٹی کو ۔۔ ؟؟”

سختی سے اس کے بالوں کو جکڑے وہ غرایا تھا جبکہ وہ گارڈ درد کی شدت برداشت کرتا کراہنے لگا

” مم مجھے ککک کچھ نن نہیں معلوم ۔۔ سس سر ججی جی۔۔”

خود کو عباس کی سخت گرفت سے چھڑاتا وہ بمشکل بول رہا تھا

” بولو نہیں تو ۔۔ تم لوگوں کے ٹکڑے کر کے کتوں کے آگے ڈال دوں گا ۔۔ “

عباس پھر غصے میں پھنکارا تھا کہ سب جی جان سے کانپنے لگے

” عباس ریلیکس یار ۔۔ “

احمد اور عالیان نے آگے بڑھ کر بمشکل عباس کی گرفت سے اسے نکال جو عباس کے عتاب کا شکار تھا

” کیسے ریلیکس کروں ۔۔ دو دن سے لاپتہ ہیں میری بیوی اور بیٹی ۔۔ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا ۔۔ “

عباس نے پھر سے آگے بڑھ کر ایک گارڈ کو جکڑا تھا

” کس کے کہنے پر یہ سب کیا ہے ۔۔ بتاؤ ۔۔ “

اس کا گلہ دباتے ہوئے عباس دھاڑا تھا

” سس سر ممم مجھے نن نہیں مم معلوم کک کچھ بب بھی ۔۔”

بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے وہ الفاظ حلق سے مشکل نکال رہا تھا

” اگر میری بیوی اور بیٹی کو ذرا بھی کانٹا چبھا ۔۔ تو تم لوگوں کا وہ حشر کروں گا کہ مرتے دم تک غداری کرنے پر پچھتاؤ گے ۔۔ “

غراتے ہوئے عباس نے اس کو جھٹکے سے پیچھے کیا وہ لڑکھڑاتا ہوا بمشکل سنبھلا جبکہ عباس مٹھیاں بھینچے بمشکل خود پر ضبط کرنے لگا تھا

” عباس تم حویلی سے معلوم کرو ۔۔ شاید بھابھی اور دعا وہاں ہوں ۔۔ !”

عباس کی اندرونی کیفیت کو سمجھتے احمد نے کہا تو عباس نے نفی میں سر ہلایا

” اگر وہ وہاں ہوتی تو بابا سرکار مجھے بتاتے ۔۔ “

عباس نے سر جھٹک کر کہا

” پھر بھی ایک بار جا کر پتہ تو کرو یار ۔۔ “

عالیان نے بھی اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا

” ٹھیک ہے میں حویلی جا رہا ہوں ۔۔ لیکن ان کو ۔۔ ان سب کو جیل میں ڈالو تم ۔۔ !! ان کے ہوتے ہوئے میری بیوی اور بیٹی کہاں غائب ہو سکتی ہیں ؟؟۔۔ ان کو سزا میں خود دوں گا ۔۔ !”

عباس کہتا ہوا تیز تیز قدم سے چلتا باہر کی جانب بڑھ گیا

” ان سب کو جیل میں ڈال دو ۔۔ اور اچھی طرح خاطر داری کرو ۔۔ جب تک یہ لوگ اپنی زبان نہ کھول دیں ۔۔ “

عباس کے جاتے ہی احمد نے ایک سپاہی کو دیکھتے ہوئے حکم جاری کیا تو وہ سب ان کو لے کر چلے گئے جبکہ احمد اور عالیان معاملے پر باریک بینی سے غور کرنے لگے

” تمہیں کیا لگتا ہے احمد ۔۔ بھابھی کہیں خود گئیں ہیں ۔۔ یا پھر اغوا ہوئیں ہیں ۔۔ ؟”

عالیان پرسوچ انداز میں احمد سے پوچھ رہا تھا

” ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔۔ معلوم تو پڑے اصل بات کیا ہے ۔۔ “

احمد خود بھی کشمکش میں تھا

” سوچنے والی بات ہے ۔۔ کوئی لڑکی اتنا اچھا شوہر چھوڑ کر خوشی خوشی کیسے جا سکتی ہے ۔۔ وہ بھی سب زیور اور پیسہ لے کر ۔۔ وہ ایسی بلکل نہیں تھی یار ۔۔ عباس بلکل درست کہتا ہے ضرور کسی کی سازش ہے ۔۔  “

عالیان بول رہا تھا اور اس کے لہجے سے پریشانی عیاں تھی

“ہمم ۔۔ اور گارڈ کا کال نہ پک کرنا ۔۔ چوکیدار کا چھٹی پر چلے جانا ۔۔ یہ سب اسی بات کی طرف اشارہ کر رہیں ہیں ۔۔ کہ کچھ تو ہوا ہے ۔۔ کچھ گڑبڑ تو ہے ۔۔”

احمد بھی سر ہلاتا بولا تھا

” اور عباس بھی یہی کہہ رہا ہے کہ کسی کے کہنے پر ہوا ہے یہ سب ۔۔ مطلب کہ ۔۔ “

عالیان نے بات ادھوری چھوڑی تھی

” مطلب کہ عباس کو کسی پر شک ہے ۔۔ !”

احمد نے اس کی بات مکمل کی تو عالیان نے اثبات میں سر ہلایا

” عباس کا اتنا شدید ری ایکشن پہلی بار دیکھا ہے یار ۔۔ “

تھوڑی خاموشی کے بعد عالیان پھر سے یاد کرتا ابرو اچکا کر گویا ہوا

” ہاں یار کبھی بھی اتنا غصہ نہیں ہوتا عباس ۔۔ ہر طرح کے حالات میں صبر و تحمل سے کام لیتا ہے ۔۔ ضبط کرتا ہے ۔۔ لیکن آج تو اسے دیکھ کر میں شوکڈ ہوں ۔۔ “

احمد بھی بھی حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا

” دو دن ہو گئے ہیں ۔۔ اس کی بیوی اور بیٹی لاپتہ ہیں ۔۔ دیکھ نہیں رہے ایک منٹ کے لیے سکون نہیں آ رہا اسے ۔۔”

اس کے لہجے میں عباس کے لیے فکر و پریشانی تھی

” خدا کرے بھابھی اور دعا ٹھیک ہوں ۔۔ “

احمد سچے دل سے دعا کرتا گویا ہوا

” آمین یار ۔۔ اللہ بھی انہیں سے امتحان لیتا ہے جو سہنے کی سکت رکھتے ہوں ۔۔ “

عالیان کے اداس انداز سے کہنے پر احمد نے بھی سر ہلایا

” سلام سرکار ۔۔ !”

عباس گاڑی سے اترا تو تمام ملازمین سمیت گارڈز نے سر جھکائے سلام کیا جبکہ عباس کا بے حد سنجیدہ اور چہرے کا جلال اس کے روعب و دبدبے میں مزید اضافہ کر رہا تھا اور اپنے مخصوص انداز میں تیز تیز قدم بڑھاتا وہ تمام لوگوں کو الرٹ کر گیا

سارے راستے وہ یہی سوچتا آیا تھا کہ آخر حُرّہ کہاں جا سکتی ہے کچھ شک اسے حویلی والوں پر ہو رہا تھا اسی لیے شک کی تصدیق کرنے فوراً آ پہنچا تھا

” سلام سرکار ۔۔ !”

شہزاد نے عباس کے پیچھے چلتے ہوئے سلام کیا

” بابا سرکار کہاں ہیں شہزاد ۔۔ ؟؟”

چلتے ہوئے اس نے پوچھا

” سرداد وہ حویلی میں ہی ہیں ۔۔ “

شہزاد نے اسے آگاہ کیا تو عباس کی رفتار مزید تیز ہو گئی شہزاد اس کے پیچھے چلتا ہانپ گیا

وہ لاؤنج عبور کرتا ڈائننگ ہال کی جانب بڑھا جہاں حویلی کے مکین رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے ڈائننگ ہال میں داخل ہو کر عباس نے ایک نظر سب کو دیکھا باقی سب بھی اس کی جانب متوجہ ہو چکے تھے

” السلام علیکم ۔۔”

سلام کرنے کے بعد وہ چند قدم آگے بڑھا تھا سردار بی بی اور ناعمہ نے اچانک عباس کی آمد پر ایک دوسرے کو دیکھا جبکہ اس کے سلام کا جواب سب نے تپاک سے دیا

” ارے اتنی جلدی باہر سے آ گئے تم ۔۔ خیریت ہے ۔۔ ؟”

سردار شیر دل خود آگے بڑھے تھے اور اسے گلے لگاتے بولے تھے

” حُرّہ اور دعا کہاں ہیں ۔۔ ؟”

اس کے اچانک سوال پر وہ چونکے عباس کا انداز ان سب کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر گیا سردار بی بی اور ناعمہ نے اس پل اس سے نگاہیں چرائیں

” کیا مطلب ہے ۔۔ ہمیں کیا معلوم کہاں ہیں وہ ۔۔ ہم سے کیوں پوچھ رہے ہو ۔۔ ؟”

سردار شیر دل ماتھے پر بل ڈالے بولے تھے

” دو دن سے میری بیوی اور بیٹی غائب ہیں ۔۔ بابا سرکار کہاں ہیں وہ دونوں ۔۔ ؟”

عباس کے انداز میں بے چینی واضح تھی جبکہ باقی سب حیرت زدہ سے اسے دیکھ رہے تھے نورے بھی مکمل متوجہ ہوئی معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی

” تمہاری بیوی اور بیٹی کا ہمیں کیا پتہ کہاں ہے ۔۔ ہم سے کیوں پوچھ رہے ہو عباس ۔۔ ؟”

سردار شیر دل خاصے بلند آواز میں بولے تھے

” بابا سرکار اگر آپ نے یا ماں نے حُرّہ اور دعا کو کہیں غائب کیا ہے تو مجھے بتا دیں ۔۔ “

عباس کی بات سن کر سردار شیر دل اور سردار بی بی نے اسے غصے سے دیکھا سرداد بی بی ماتھے پر بل ڈالے اپنی نشست سے اٹھیں

” تمہارا دماغ ٹھیک ہے عباس ۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو ۔۔ “

اس مرتبہ سردار شیر دل دھاڑے تھے

” دو دن سے لاپتہ ہیں حُرّہ اور دعا ۔۔ مجھے صرف اتنا بتائیں کہ وہ دونوں کہاں ہیں ۔۔ مجھے بتائیں بابا سرکار ۔۔”

عباس نے اپنی بات دوہرائی تو جہاں باقی سب کو سن کر جھٹکا لگا وہیں ناعمہ بی بی نے پہلو بدلا

” تو ہم نے غائب کروایا ہے تمہاری بیوی اور بیٹی کو ۔۔ یہ کہنا چاہ رہے ہو تم ۔۔ الزام لگا رہے ہو اس دو ٹکے کی لڑکی کی وجہ سے اپنے ماں باپ پہ ؟۔۔ “

سردار بی بی عباس کو دیکھتی طنزیہ پوچھ رہیں تھیں

” میں حقیقت بیان کر رہا ہوں ماں ۔۔ میرے گھر سے میری بیوی اور بیٹی اچانک غائب ہیں ۔۔ ایسی جرات کون کر سکتا ہے ۔۔ میں جانتا ہوں یہ سب آپ لوگوں کے کہنے پر ہوا ہے ۔۔ بتائیں کہاں ہیں حُرّہ اور دعا ۔۔ ؟”

عباس ہنوز ادب سے گویا ہوا تھا مگر اس کے الفاظ سردار شیر دل اور سردار بی بی کو خفا کر گئے

” ہمیں نہیں معلوم عباس ۔۔ بہت ہو گیا اب تم اس لڑکی اور اس کی بیٹی کی خاطر اپنے ماں باپ سے پوچھ گچھ کرو گے۔۔ ؟”

سردار شیر دل سر جھٹکتے بولے تھے انہیں دکھ پہنچا تھا کہ ان کا بیٹا انہیں اتنا غلط سمجھ رہا تھا جبکہ سردار بی بی دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر رہیں تھیں کہ ان کا منصوبہ ناکام نہیں ہوا تھا

” بابا سرکار ۔۔ میں جانتا ہوں آپ لوگوں کو حُرّہ اور دعا کا وجود میرے آس پاس پسند نہیں ہے مگر مجھے جاننا ہے میری بیوی کہاں ہے ۔۔ میری بیٹی میرے بغیر نہیں رہتی ۔۔ پلیز بتائیں کہاں ہے وہ ۔۔ ماں سے پوچھیں کیا کیا ہے اس کے ساتھ ۔۔ “

عباس اضطرابی حالت میں تھا اس کو اپنی بیوی اور بیٹی کے لیےتڑپا دیکھ کر نورے کے دل میں بھی ٹیس اٹھی تھی

” تم غلط فہمی کا شکار ہو۔۔ ہر چیز ایک طرف مگر ہم یہ حرکت نہیں کر سکتے تم یقین کرو ۔۔ “

عباس کی سرخ اور بوجھل آنکھیں دیکھتے سردار شیر دل کے دل کو کچھ ہوا تھا

” آپ دونوں جانتے تھے کہ میں پاکستان سے باہر ہوں ۔۔ میری غیر موجودگی میں آخر یہ سب کیسے ہوا  ۔۔ مجھے بتائیں ماں ۔۔ بتائیں مجھے کہاں اچانک غائب ہو گئیں وہ ۔۔ “

عباس کا انداز اور لہجہ اس قدر مضطرب تھا کہ وہاں موجود ہر ایک نے نوٹ کیا

” تم اپنی ماں پر الزام لگاؤ گے اب ۔۔ یہ دن دیکھنا رہ گیا تھا ۔۔ دیکھ لیا آپ نے سرداد جی ۔۔ میں نے کہا تھا نا آپ کو وہ لڑکی جادوگرنی ہے ۔۔ ہمارے فرمانبردار بیٹے کو ہمارے خلاف کھڑا کر دیا ۔۔ “

سردار بی بی لہجے میں مصنوعی حیرت اور دکھ لیے گویا ہوئیں جبکہ ان کی باتوں پر عباس نے سر جھکایا یقیناً آپ دنیا سے لڑ سکتے ہو مگر اپنوں سے لڑنا کٹھن ہوتا ہے

” عباس تم ہمارے بیٹے ہو ۔۔ اور ہم جانتے ہیں تم اس لڑکی اور اس کی بیٹی کو بہت اہمیت دیتے ہو ۔۔ تم جانتے ہو ہم اسے قبول بھی کر چکے ہیں ۔۔ اگر مجھے یا تمہاری ماں کو اسے غائب ہی کروانا ہوتا تو بہت پہلے کروا چکے ہوتے ۔۔ یقین کرو بیٹا ۔۔ “

عباس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر سردار شیر دل دھیمے انداز میں بولے

” جیسے آپ میری تکلیف پر تڑپ رہے ہیں نا بابا ۔۔ اسی طرح میں بھی باپ ہوں ۔۔ میری بیٹی پتہ نہیں کس حال میں ہوگی ۔۔ مجھے چین نہیں آ رہا ۔۔ خدایا اگر کچھ معلوم ہے اس بارے میں تو پلیز بتائیں مجھے ۔۔ “

التجائی انداز میں بولتے ہوئے آخر میں عباس نے سرداد بی بی کو دیکھا جبکہ اس کے لہجے میں موجود درد سب نے محسوس کیا نورے ، عباس کی اپنی بیوی اور بیٹی کے لیے دیوانگی دیکھ کر سر جھکا گئی

” ارے میرے بیٹے تم کیوں تڑپ رہے ہو اس لڑکی کی خاطر ۔۔ اور اس کی اولاد کی خاطر ۔۔ ایسی لڑکیوں کا کیا بھروسہ ۔۔ یہ تو پیسے کی بھوکی ہوتی ہیں  ۔۔ آج کسی کے ساتھ تو کل کسی کے ساتھ جب دل بھر جائے   ۔۔   “

عباس کو دکھ میں دیکھتی وہ اپنے ظرف کے مطابق بولیں تھیں

” خدا کے لیے ماں ۔۔ بار بار حُرّہ پر کیچر مت اچھالا کریں ۔۔عزت ہے میری ۔۔ “

عباس ان کی بات پر تڑپ کر بولا تھا

” بیٹا تم نہیں جانتے ایسی لڑکیوں کو ۔۔ معصوم شکل کے پیچھے کیا ہوتی ہیں ۔۔ سب ان کی سازش ہوتی ہے ۔۔  زیورات اور پیسے چیک کر لینے تھے ۔۔ ظاہر ہے خالی ہاتھ تو گئی نہیں ہو گی وہ چالاک اور بدکردار لڑکی ۔۔ “

وہ نفرت سے بولیں تھیں جبکہ ان کے الفاظ بمشکل عباس نے برداشت کیے تھے

” خدا کے لیے ماں ۔۔ مزید حُرّہ کے متعلق ایسے الفاظ

برداشت نہیں کروں گا ۔۔ “

وہ ایک ہاتھ بلند کرتا بولا اور جانے کے لیے واپس مڑ گیا

” کہاں جا رہے ہو ۔۔ ؟؟”

اسے جاتا دیکھ سرداد شیر دل نے بیوی کو گھورا اور عباس کو پکارا باپ کی پکار پر وہ رکا

” اس ونی کی خاطر تم ماں باپ سے منہ موڑ کر جا رہے ہو ۔۔ ؟؟”

اس مرتبہ سردار بی بی بولیں تھیں

” بے فکر رہیں اتنا ظالم نہیں ہوں ۔۔ “

رک کر جتاتی نگاہوں سے دیکھتا وہ جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے حویلی سے جا چکا تھا جبکہ پیچھے حویلی کے مکین خاموش ہو گئے تھے کیونکہ کہنے کو کچھ باقی ہی نہیں رہا تھا ان سب کی زندگی کا سب سے بڑا کانٹا یعنی حُرّہ اور اس کی بیٹی ان کی زندگی سے نکل چکی تھیں ناعمہ بی بی اور سردار بی بی نے ایک دوسرے کو گردن اکڑا کر دیکھا یقیناً اب نورے اور عباس کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی تھی

///////////////////////////

کتنے ہی دن گزر گئے تھے اسے حُرّہ اور دعا کو تلاش کرتے ہوئے مگر کوئی راستہ اسے ان تک نہیں پہنچا رہا تھا دن رات وہ ایک کر چکا تھا مگر وہ کہیں نہیں مل رہیں تھیں وہ دن رات تکلیف میں تھا بہت سے پچھتاوے اسے گھیرے ہوئے تھے کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹی کی حفاظت نہ کر سکا

” مجھے معاف کر دیں حُرّہ میں اپنا وعدہ نہیں نبھا سکا ۔۔ آپ کی حفاظت نہیں کر سکا ۔۔ پلیز میرے اللہ مجھے میری حُرّہ اور دعا سے ملا دے ۔۔ پتہ نہیں وہ دونوں کیسی ہوں گی ۔۔ کس حال میں ہوں گی ۔۔ دعا تو بہت مس کرتی ہوگی مجھے ۔۔ “

کافی رات ہو چکی تھی اور وہ آج بھی رات کے اس پہر کراچی کی سڑکیں ناپ رہا تھا آج بھی وہ پاگلوں کی طرح ان دونوں کو ڈھونڈ رہا تھا مگر وہ یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ جو گم جائیں انہیں ڈھونڈنا تو ممکن ہے مگر جو جان بوجھ کر اوجھل ہو جائیں انہیں تلاش کرنا دنیا کا مشکل ترین عمل ہے

” کیسے رہوں میرے مالک میں ان کے بغیر ۔۔ ؟ “

گاڑی میں بیٹھا وہ سیٹ کی پشت پر سر ٹکائے آنکھیں موند گیا اسے اپنی اور حُرّہ کی پہلی ملاقات یاد آئی تھی

” نام کیا ہے ۔۔ ؟”

حُرّہ کی لرزتی پلکوں پر اپنی تھکان سے بوجھل آنکھیں جمائے اس نے سرد انداز میں پوچھا

” کک کس کا ۔۔؟”

ہنوز آنکھیں جھکائے حُرّہ نے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا اس کے لہجے میں نا سمجھی تھی دراصل عباس کی نگاہیں اسے گھبرانے پر مجبور کر رہیں تھی

” آپ کا ۔۔ !”

ہنوز سرد انداز میں پوچھا گیا حُرّہ کی غائب دماغی پر عباس کے ماتھے پر ایک لکیر ابھری تھی

” حح حُرّہ ۔۔ “

کپکپاتی آواز میں بولتے ہوئے حُرّہ نے اپنی چادر کو سر سے مزید ماتھے پر کیا عباس اس کی حرکت کو بغور دیکھ رہا تھا

” حُرّہ ۔۔ ! یہ کیسا نام ہے ۔۔؟ کیا مطلب ہے حُرّہ کا ۔۔ ؟”

نام واقعی عباس نے پہلی مرتبہ سنا تھا اس لیے اسے دلچسپی ہوئی جبکہ چند پل حُرّہ خاموش رہی عباس کو لگا اسے اپنے نام کا مطلب نہیں آتا اس لیے خاموش ہو گئی

” آزاد عورت ۔۔ !”

الفاظ ادا کرتے ہوئے حُرّہ کی آواز بھیگ گئی ناہید کی دھمکی یاد کرتے ہوئے اس نے بمشکل آنکھیں جھپکا کر اپنے آنسو نکلنے سے روکے

” حُرّہ مطلب ۔۔ آزاد عورت ۔۔”

عباس نے دہراتے ہوئے تمسخرانہ ہنسی لبوں پر سجائی جبکہ اسی پل حُرّہ نے نگاہیں اٹھا کر عباس کو دیکھا عباس کا یوں ہنسنا وہ سمجھ گئی تھی کیونکہ وہ تو اس کی قید میں تھی اپنے نام کے بلکل الٹ

” عمر کیا ہے ۔۔؟”

حُرّہ کے وجود سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے عباس نے اگلا سوال کیا

” ا انیس سال ۔۔”

جواب دیتے ہوئے حُرّہ نے پھر سے نگاہیں جھکا لیں جبکہ عباس نے پھر سے نگاہوں کا رخ حُرّہ کی جانب کیا اور اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا اسے وہ کم عمر لگ رہی تھی

” پڑھتی تھی ۔۔ ؟”

عباس کے’ تھی ‘ کہنے پر حُرّہ نے چونک کر اسے دیکھا

” جج جی ۔۔”

وہ صحیح ہی تو کہہ رہا تھا اب کہاں وہ پڑھ سکے گی

” کیا ۔۔ ؟”

” بی اے ۔۔!”

عباس کے اگلے سوال پر حُرّہ نے جواب دیا تو عباس چند پل خاموش رہا جبکہ حُرّہ بھی سر اور نگاہیں جھکائے کھڑی رہی اسے عباس کا یوں سوال پہ سوال کرنا عجیب لگ رہا تھا اور پھر اس کا انداز اتنا سرد تھا اور نگاہیں اتنی گہری تھیں کہ حُرّہ دل میں خدا سے رحم کی دعائیں مانگنے لگی

” یہاں آئیں ۔۔ !”

عباس نے حکمیہ انداز میں کہتے ہوئے آنکھیں موند لیں جبکہ عباس کے حکم پر حُرّہ لرز گئی مگر ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اس کے پاس تبھی مردہ چال چلتی عباس کے قریب پہنچی

” بیٹھیں ۔۔!”

ہنوز آنکھیں موندے عباس نے اگلا حکم دیا تو حُرّہ لرزتے ہوئے عباس کے قدموں میں بیٹھ گئی اسی پل عباس نے آنکھیں وا کیں حُرّہ کو اپنے قدموں میں بیٹھے دیکھ کر ماتھے پر بلوں میں اضافہ ہوا اور سرعت سے ہاتھ بڑھا کر حُرّہ کی کلائی اپنے سخت شکنجے میں لی اور اپنی جانب کھینچا اچانک افتاد پر حُرّہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی عباس کے سینے سے مس ہونے کے بعد وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر صوفے پر بیٹھتے ہوئے اپنے اور عباس کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ قائم کر گئی جبکہ لرزتا ہاتھ ابھی بھی عباس کے شکنجے میں تھا عباس ہنوز نگاہیں اس پر جمائے ہوئے تھا جب  موبائل کی ٹون بجی

” میں حویلی میں ہوں ۔۔ “

کال اٹینڈ کرتے ہی دوسری جانب سے کچھ پوچھا گیا تھا جس کا جواب عباس نے دیتے ہوئے حُرّہ کو دیکھا جو کہ رخ موڑے شاید رو رہی تھی

” ٹھیک ہوں ۔۔”

دوسری جانب موجود عالیان نے اس کا حال پوچھا تھا یقیناً اسے عباس کی  فکر تھی جبکہ عباس ایک ہاتھ سے موبائل کان سے لگائے دوسرے سے حُرّہ کی کلائی جکڑے ہوئے تھا

” دیکھ غم بھلانے کے دو طریقے ہیں ایک شراب اور دوسرا شباب ، اور تو ان دونوں چیزوں سے فاصلہ رکھتا ہے ۔۔ تبھی تیری یہ حالت ہے۔۔  میں نے تو تجھے کہا تھا ایک سپ لے گا تو سب بھول جائے گا ۔۔ یا پھر ششب ۔۔ “

ابھی وہ آگے کچھ بولتا اس سے پہلے عباس نے کال کاٹ دی اور موبائل میز پر پٹخا اس کی اس حرکت پر حُرّہ کانپ گئی اور اپنی کلائی اس کی آہنی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی جبکہ عباس کے دماغ میں عالیان کی باتیں گردش کر رہیں تھیں

” چچ چھوڑ دیں مجھے ۔۔ “

حُرّہ کی لرزتی آواز پر عباس نے چونک کر اسے دیکھا پھر اپنے ہاتھ میں موجود اس کا ہاتھ دیکھا اگلے پل عباس نے اس کی کلائی چھوڑ دی اور اٹھ کھڑا ہوا دروازے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے وہ اپنی شرٹ کر بٹن کھول رہا تھا جبکہ حُرّہ اپنی کلائی کو سہلاتی ہوئی پھٹی آنکھوں سے عباس کو اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے دیکھ رہی تھی عباس نے دروازہ لاکڈ کیا اور پھر سے حُرّہ کی جانب بڑھا اس دوران وہ اپنی شرٹ اتار چکا تھا صوفے سے چپکی حُرّہ کو اپنی باہوں میں لے کر جب وہ بیڈ پر لایا تو حُرّہ نفی میں سر ہلانے لگی

” نن نہیں ۔۔ پلیزز  رر رحم کریں ۔۔ رحم کریں سرکار ۔۔”

عباس کو اپنی چادر کھینچتے دیکھ کر حُرّہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ التجا کرنے لگی

” ششش سکون چاہیے فی الحال مجھے ۔۔ “

حُرّہ کے اپنے سینے سے ہاتھ ہٹا کر اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نے اس کا چہرہ اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھا

ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بھی بند کر دی کمرے میں تاریکی چھا گئی جبکہ حُرّہ نے مزاحمت کرنا بھی چھوڑ دی تو عباس نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے حُرّہ نے ایک ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے عباس کے سینے کے بالوں کو سختی سے پکڑ لیا اتنے دن میں پہلی بار عباس کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا پھر کمرے میں خاموشی چھا گئی

وہ پل یاد کرتے ہوئے ایک اذیت بھری مسکراہٹ اس کے چہرے پر آ ٹھہری تھی اس نے معاملات کو سلجھانے کی بہت کوشش کی تھی حُرّہ کو عزت اور محبت دے کر اس نے ونی کی رسم کو بدل دیا تھا مگر لوگوں کی سوچ بدلنا مشکل ترین کام تھا کسی اور کے کیے کی سزا ایک بےقصور معصوم لڑکی کو دینا اپنا اولین حق سمجھتے تھے جس میں پیش پیش اس کے اپنے بھی تھے اس کے اپنے ماں باپ دل میں گنجائش نہیں رکھتے تھے

جب وہ حویلی میں داخل ہوا تو رات کافی گہری ہو چکی تھی وہ تھکے تھکے انداز میں چلتا شکست زدہ سا لگ رہا تھا سفید شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک موڑے ، بےترتیب بال ، داڑھی کچھ بڑھی ہوئی ایک ہاتھ میں سیاہ کوٹ اور دفتری بیگ تھامے دوسرا ہاتھ بالوں میں پھیرتا وہ چل رہا تھا آنکھیں سرخ اور بوجھل تھیں

کسی کی نگاہوں کو مسلسل محسوس کرتا وہ رکا تھا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو نورے اسی کو دیکھ رہی تھی عباس کے متوجہ ہونے پر وہ بوکھلائی فوراً سر جھکا گئی

” السلام علیکم ۔۔ “

نورے کے سلام کا جواب اس نے محض سر ہلا کر دیا

” آآ آپ ٹھیک نہیں لگ رہے چھوٹے سردار ۔۔ خیریت ہے ۔۔ ؟”

نورے کے جھجھک کر پوچھنے پر عباس نے طویل سانس لیا

” ہمم ٹھیک ۔۔ “

مختصر جواب دیتا وہ آگے بڑھنے لگا جب دوبارہ نورے کی بات نے اس کے قدم جکڑے

” کچھ پتہ چلا حُرّہ اور دعا کا ۔۔ ؟؟”

” نہیں ۔۔ !”

عباس نے نگاہوں کا زاویہ دوسری سمت کرتے ہوئے یک لفظی جواب دیا

” آپ پریشان نہ ہوں ۔۔ انشاءاللہ جلدی ہی وہ دونوں مل جائیں گی ۔۔ “

نورے نے کہا تو عباس نے سر ہلایا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا جبکہ نورے بے چینی سے اپنے کمرے میں چلی گئی

Read Here Part 15 Main Hun Badnaseeb

Updated: February 27, 2025 — 4:20 pm

2 Comments

Add a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *