Talab Tere Pyar Ki Novel Part 2 – New Heart Touching Urdu Novel | Download & Read Full Story


Talab Tere Pyar Ki Part 2 introduces a soulful journey of love and longing that speaks directly to the heart. It’s not just a novel — it’s an experience for readers who are drawn to soulful Urdu stories, realistic romance, and emotional bonding.

This is the first chapter of a highly awaited novel series, written in elegant Urdu script and designed for mobile-friendly reading. Whether you enjoy new-age Urdu fiction or traditional love sagas, this part sets the perfect tone.

💘 Touching story of pure love
📖 Read Urdu story without login
📥 High-quality PDF download free
🔥 Popular Urdu fiction 2025

Heart Touching Urdu Novel

Talab Tere Pyar Ki Part 2 – New Heart Touching Urdu Novel | Download & Read Full Story

Read here Talab Tere Pyar Ki Part 1 – New Romantic Urdu Novel

اگر آپ کو ناول پسند آتا ہے تو مہربانی کر کے اسے اپنے دوستوں کے ساتھ لازمی بیجھا کریں اور کمنٹس میں اپنا ریوو بھی ضرور دیا کریں

میں بہت محبت سے کہہ رہا ہوں حورین تم مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو ” وہ اسکے بازو کو اپنی گرفت میں لیتا آگے بڑھا جبکہ حورین یہ سوچتی رہ گئی کہ اسکی تو محبت میں بھی سختی تھی اس نے اسکا نام سٹون مین بلکل صحیح رکھا تھا

وہ اسے کرسی پاس لے آیا اسکو بیٹھا کر خود بھی برابر والی کرسی پر آبیٹھا تھا

ختم کروا سے بس دس منٹ ہے تمہارے پاس اپنی بے کار سی ضد کی وجہ سے تم پہلے

ہی بہت ٹائم برباد کر چکی ہو “

وہ ٹیبل انکے سامنے کرتا ہوا بولا اور حورین بس کھانے کو دیکھ کر رہ گئی تھی مطلب وہ

اب اسکے کھانا کھانے کا ٹائم بھی سیٹ کر چکا تھا۔

وہ وقت کو دیکھتے ہوئے جلدی اپنا کھانا ختم کرنے میں لگ گئی جانتی تھی دس منٹ میں اسے یہ سب ختم کرناہی تھا جلدی جلدی کھانے کی وجہ سے کھانا سکے گلے میں اٹکا اور زور کی کھانسی نے مصطفی کی توجہ اپنی طرف کھینچی تھی

جنگل سے آئی ہو جو اس طرح سے کھارہی ہو یا پہلی بار کھانے کو مل رہا ہے۔۔ آرام

سے کھاؤ نہ

وہ ہاتھ بڑھا کر اسکی کمر سہلاتا ہوار عب د ار انداز میں بولا تھا

اسکا مضبوط ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کر کے حورین کو اپنا دل حلق میں آتا ہوا محسوس ہوا تو اس نے جلدی سے پانی کا گلاس اپنے لبوں سے لگا یا تھا

پانی پینے کے بعد اس بچا ہوا کھانا اس بار بہت آرام سے ختم کیا خود پر جمی مصطفی کی نگاہوں سے اسے کھانا لگانا مشکل لگ رہا تھا جبکہ مصطفی کی نگاہ ایک جگہ ٹھر گئی تھی

مجھ سے اتنامت ڈرا کر وعین میں اتنا بھی خوفناک نہیں ہوں جتنا تم مجھے تصور کرتی

وہ اسکے ہونٹ کے نیچے لگے چاول کے دانے کو اپنی انگلی سے صاف کرتا ہوا سنجیدگی سے بولا نظریں ابھی بھی اسی جگہ جھی ہوئی تھی

جبکہ اسکی بات پر حورین آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی اسکو اپنے خوفناک روپ دیکھانے کے بعد یہ شخص اسکو بول رہا تھا کہ وہ خوفناک نہیں ہے اسکی سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ اسکی بات کا کیا جواب دے اسلئے خاموش رہنا مناسب سمجھا تھا اسکی خاموشی پر وہ

اپنی جگہ سے اٹھا تھا وہ کھانا کھا چکی تھی اسکا یہاں کام ختم ہوا تھا

مجھے اس کمرے اور اس گھر میں اور کتنے دن قید رہنا پڑے گا جبکہ میں آپ سے وعدہ کر چکی ہوں کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرونگی “

دروازے کی جانب اٹھتے اسکے قدم حورین کی آواز پر رکے تھے کچھ دیر وہ یوں ہی

خاموشی سے کھڑا رہا

بہت جلد تمھیں اس کمرے اس گھر سے ہی نہیں بلکہ مجھ سے بھی آزادی مل جائے

وہ بغیر پلٹے بولا اور پھر وہاں رکا نہیں تھا تیزی سے اسکے روم سے لگاتا چلا گیا

جبکہ اسکا جواب سن کر حورین کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی وہ اس کمرے سے تو

آزادی چاہتی تھی مگر اسکی قید سے نہیں۔۔۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

اپنے چہرے پر نرم گرم سالمس محسوس کر کے اسکی بند چلکوں میں ہلکی سی لرجش سہی ہوئی تھی وہ اپنی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر سر میں اٹھتی درد کی ایک تیز لہر نے اسکو پھر سے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیا تھا

وہ کچھ دیر یوں ہی آنکھیں بند کئے لیٹی رہی تھی کہ اچانک اسکو ایسا لگا کہ کوئی اسکو پکار رہا ہے اس بار جیسے بہت ہمت کر کے اسے بمشکل اپنی آنکھوں کو کھولا

پہلے تو اسکو کچھ صاف نظر نہیں آیا شاید سر میں اٹھتی درد کی میں کی وجہ سے اسکو اپنی آنکھیں کھولنا مشکل لگ رہا تھا جب منظر صاف ہو اتو وہ کچھ لئے یوں ہی چھت کو گھورتی رہی وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہے

یکھیں داد و اینجل اٹھ گئی ہے جلدی یہاں آئیں “

جانے وہ یوں ہی کب تک لیٹی خود اسے سوال کرتی رہتی جب ایک خوشی سے بھری اور پیاری سی آواز نے اسکی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی حفصہ نے گردن موڑ کر دیکھا تو ایک چھوٹا خوبصورت سا بچہ اسکے قریب کھڑا تھا اس نے حفصہ کے ایک ہاتھ کو اپنے چھوٹے

چھوٹے ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا

اللہ کا شکر ہے بیٹی تمہیں ہوش آگیا میں اور میر اپو تاتوڈر ہی گئے تھے “

حادی کی بات سن کر حیات صاحب صوفہ سے اٹھ کر بیڈ کی جانب بڑھے انکے چہرے

پر ایک سکون سا اتر گیا تھا اسکو ہوش میں دیکھ کر

معاف کرنا میں آپکو پہچانی نہیں اور میں کہاں ہوں

حفصہ اپنا چکر انا سر تھامتی ہوئی اٹھ کر بیٹھی اور ایک نظر اپنے چاروں طرف ڈالی کمرہ

بہت ہی شاندار تھا جو کہیں سے بھی ہسپتال کا نہیں لگ رہا تھا

میں اس بچے کا دادا ہوں جسکی جان تم نے بچائی ہے تم بے ہوش ہو گئی تھی تو میں تمھیں اپنے گھر لے آیا بیٹا میں تمہارا کتنا احسن مند یہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا

و بیڈ کے قریب اسٹول پر بیٹھتے بولے

اور پاس ہی کھڑے حاد کو اپنے ساتھ لگا یا جو اپنی معصوم آنکھوں سے اپنی اینجل کو دیکھے

رہا تھا

انکی بات سن کر اب حفصہ نے اس بچے کی طرف دیکھا جو بہت ہی معصومیت سے اسکو تک رہا تھا اور یکدم سے سب یاد آتا چلا گیا

وہ دو دن سے اپنی یونی کی ایک دوست کے پاس ہوسٹل میں رہ رہی تھی مگر وہاں کی سخت وارژن کی وجہ سے اسکی دوست زیادہ دن اسکو وہاں رکھ نہیں سکی اس لئے وہ وہاں

سے نکل کر اپنے لئے رہنے کی کوئی جگہ تلاش کرنے میں لگی ہوئی تھی جب سڑک پر دوڑتے اس بچے نے اسکی توجہ اپنی جانب کھینچی اور وہ بغیر سوچے سمجھے اسکی جان بچانے کے لئے بھاگی حفصہ نے اسکی جان تو بچائی مگر اس کے سر پر کافی چوٹ لگی تھی جس وجہ

سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی

احسان والی بات نہیں ہے انکل آپکے اتنے ہینڈ سم سے پوتے کی جان بچانے کے

لئے میری جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا

اس نے ہاتھ بڑھا کر حاد کے نرم ملائم ہی ر خسار کو چھوا پہلی بار وہ اس بچے کو غور سے دیکھے رہی تھی کہ اچانک اسکی نیلی آنکھوں پر نظر پڑتے ہی حفصہ کی نظروں کے سامنے ایک

چہرہ گھوم گیا تھا

تم پانچ گھنٹے تک بے ہوش رہی میرا پوتا ایک لمحے کے لئے بھی تمہارے پاس سے دور نہیں ہوا نہ ہی کھانا کھایا یہ اپنی بنجل کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا

حیات صاحب کی آواز پر حفصہ سے اپنی سوچ سے باہر نکلی اور سر درد کو نظر انداز ہوئے

ہاتھ بڑھا کر حاد کو اپنے قریب کیا تھا

تو میں آپکی اینجل ہوں تو آپ اپنی پینجل کو اپنا نام نہیں بتاؤ گے

وہ بہت محبت سے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتی ہوئی بولی جانے کیوں یہ بچہ اسے کسی کی یاد

دلار ہا تھا

میر انام هاد اسفند یار خان ہے اور میں پورے پانچ سال کا ہوں ” حادی نے اسکی بات کا جواب پر جوش انداز میں دیا تھا جبکہ اسکا نام سن کر حاد بالوں میں چلاتے حفصہ کے ہاتھ ایک لمحے کے لئے رکے تھے

یہ صرف اتفاق ہی ہو سکتا ہے ہاں ایسا ہی ہے اس نے جیسے اپنے دل کو سمجھا یا تھا

بیٹا رات کافی ہو گئی ہے تمہارے گھر والے تمہارے لئے پریشان ہور ہے ہونگے تم

مجھے انکا نمبر دوتا کہ میں انہیں بتا سکو کہ تم کہاں ہو

اسکو کسی سوچ میں گم دیکھ کر حیات صاحب اس سے مخاطب ہوئے تھے اپنے گھر والوں

کا سن کر حفصہ نار کنے والے آنسوؤں کا سلسلاشروع ہو گیا تھا جبکہ اسکو یوں روتا ہوا دیکھے کر حیات صاحب کے ساتھ ھاد بھی پریشان سا اسکو دیکھنے لگا

کیا ہوا پیٹا ایسے کیوں رورہی ہو کوئی پریشانی ہے تو تم مجھے بتاؤ”

انہونے نرمی سے اسکو چپ کروایا تھاتو وہ بہت مشکل سے اپنے آنسو ضبط کرتی ہوئی انہیں سب بتاتی چلی گئی اسکی بات پر حیات صاحب کچھ دیر خاموشی سے اسکو دیکھنے لگے

تھے

بیٹا تمہارا بہت احسان ہے ہم پر جو شاید میں ادانہ کر پاؤ پر میں اتناتو کر سکتا ہوں تم جب تک چاہو میرے گھر میں رہ سکتی ہو مجھ پر بھروسہ رکھو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گا ” وہ سر پر ہاتھ رکھ کر بہت محبت سے بولے تو حفصہ کے اندر ایک سکون سا اثر تا چلا گیا تھا اسے سہارےکی ضرورت تھی جو اسکومل گیا تھا

واو دادوکتنا اچھا ہو گیا نہ میری اینجل اب میرے ہی پاس رہے گی ” کب سے خاموش کھڑ ا حادی خوشی سے چہکا تھا ا سکے انداز پر حیات صاحب اور حقہ

دونوں مسکرادئے

وہ تینوں کافی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے حیات صاحب اسے اپنی فیملی کے بارے میں بتانے لگے وہیں کمرے میں حادنے اسکے ساتھ کھانا بھی کھایا کافی رات ہو جانے کی

وجہ سے وہ اسکو آرام کا کہہ کر اسکے کمرے سے چلے گئے۔۔

کچھ دیر کروٹ بدلتے رہنے کے بعد اسکو نیند آگئی تھی پر کچھ دیر بعد پیاس کی وجہ سے اسکی آنکھ کھلی تھی سائیڈ ٹیبل پر جنگ میں پانی موجود نہیں تھا وہ بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر کچن کی تلاش میں نکلی قسمت سے وہ اسکو مل گیا پانی پینے کے بعد وہ نیند میں

جھولتی پھر سے کمرے میں آکر لیٹ گئی

اس بات سے انجان کی اسکے علاوہ بھی کوئی اس کمرے میں موجود تھا ایک کمرے میں دو لوگ ایک دوسرے کی موجودگی سے ناواقف تھی اور وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود

تھی۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

میں نے سب پتہ لگالیا ہے وہ بلکل پر فیکٹ ہے ویسے بھی میں اسکے باپ کو تمہارے ڈیڈ کے ٹائم سے جانتا ہوں ان لوگوں کی طرف سے تم بلکل مطمعین ہو جاؤ ” داؤد مرزا کی آواز پر اسکے پنچنگ بیگ پر پیچ کرتے ہاتھ ایک لمحے کے لئے رکے تھے اس وقت وہ اپنے جم روم میں تھا مسلسل پنچنگ کرنے کی وجہ سے اسکا جسم پسینے میں شور و ہار تھا اسکے کسرتی جسم کو دیکھ کر داؤد کور شک محسوس ہوا تھا بے شک وہ ایک

شاندار پرسنالٹی کا حامل تھا

گی

میں مطمعین تب ہو نگا جب حورین با حفاظت اس ملک کو چھوڑ کر چلی جائے گی

وہ اپنے ہاتھوں میں پہنے گلوکوز اتارنا ان سے مخاطب ہوا

اور حورین کیا اسکو معلوم ہے تمہارے اس فیصلے کے بارے میں وہ راضی ہو جائے

داؤد نے اپنا صد شہ ظاہر کیا تھا

وہ نکاح کر کے اس ملک سے چلی جائے اس میں اسکی ہی بہتری ہے مجھے اسکی مرضی سے کوئی غرض نہیں رہی بات اسکو بتانے کی تو کل تم اسے میرے فیصلے کے بارے میں

بتا دینا

وہ بے تاثرات چہرا لئے انکی طرف مڑا تھا

اس نے یہ فیصلہ بہت پہلے لے لیا تھا بس اسے صحیح وقت اور صحیح شخص کی تلاش تھی جو

اب اسکی پوری ہو چکی تھی

اور ہاں داؤد یہ کام اتنی خاموشی اور چھپ کر ہو نا چاہیے کہ تمہاری پر چھائی کو بھی

خبر نہ ہو تم جانتے ہو نہ میں حورین کے معملے میں کوئی بھی غلطی برداشت نہیں کرتا

حورین ۔۔۔ حوریں۔۔ ان پانچ سالوں میں کچھ نہیں بدلا تمھیں جہاں چھوڑ کر گئی تھی تم آج تک وہیں موجود ہو وہی تم اور وہی تمہاری اسکے لئے فکر “”

وہ ٹیبل پر رکھا ناول اٹھانے کے لئے آگے بڑھا تھا جب دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل

ہوا تھا

جانی پہچانی آواز پر دونوں نے مڑ کر دیکھا لیک ٹائٹ چین پر لائٹ پنک کلر کا ٹاپ پہنے اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر بندھے وہ سامنے ہی کھڑی تھی اسکو یہاں دیکھ کر مصطفی

ایک لمحے کے لئے حیران ہوا تھا

میری حورین کے لئے فکر آخری سانس تک رہیگی اسکی حفاظت کرنامیری زندگی کا خالص مقصد ہے سال گزرنے سے میرا مقصد نہیں بدلنے والا

وہ سپاٹ نظروں سے اسکی طرف دیکھتا گہری سنجیدگی سے بولا

پانچ سال گزرنے کے بعد بھی وہ بلکل ایسی ہی تھی جیسی پانچ سال پہلے تھی

حیرت ہوتی ہے مجھے یہ دیکھ کر کہ تمھیں اپنے خون کے رشتوں سے زیادہ اپنے

فرض کارشتہ عزیز ہے “

وہ استہاز یہ مسکراتی ہوئی مزید اس کے قریب ہوئی تھی جبکہ اسکی بات اور انداز سے مصطفی

کی رکے تن گئی تھی

یہ تمہاری سوچ ہے ورنہ میرے لئے خون کا رشتہ بھی اتنا ہی عزیز ہے ورنہ جو کچھ تم کر چکی ہو اسکے بعد تم اس وقت یہاں میری نظروں کے سامنے موجود نہ ہوتی

رباب زمان

وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہو ابولا

ارباب زمان شاہ نہیں رباب اسفند یار خان

مصطفی کا جواب سن کر وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھی مگر اسکے قریب آتے ہی مصطفی اسکی گردن کو اپنی گرفت میں لیتا اسکو سختی سے دیوار سے لگا چکا تھا

تمہارا اس سے اب کوئی رشتہ نہیں ہے رہاب نہ ہی اسکے بیٹے پر تم پہلے ہی اسکی زندگی برباد کر چکی ہو تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم اسے اکیلا چھوڑ دو

وہ اسکی نازک گردن پر اپنی گرفت سخت کرتا ہوا بولا اسکے لیے اور انداز میں نرمی بلکل

بھی نہیں تھی

و۔ وہ میرا بھی بیٹا ہے میرا حق مانگنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا “” اسکی سختی کا اس پر کوئی اثرانداز نہیں ہو رہا تھا دم گھٹنے کی وجہ سے اسکی آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے پر ہونٹوں پر ایک دل جلانے والی مسکراہٹ تھی جو مصطفی کا غصہ مزید بڑھا گئی تھی اگر وہ درندہ تھاتو وہ بھی اسکی ہی بہن تھی

مصطفی چھوڑ و بہن ہے تمہاری کیا اسکی بھی جان لے لو گے

ان دونوں کے جنونی انداز کو خاموشی سے دیکھتاد اؤ د یکدم سے آگے بڑھا تھا

میں نے اسے انہیں ہاتھوں سے پال کر بڑا کیا ہے اگر اسکی غلطی سے کسی بھی معصوم کی زندگی برباد ہو تو میں اپنے انہیں ہاتھوں سے اسکی جان لینے میں دیر نہیں

کرونگا “

وہ اسکی نازک گردن کو ایک جھٹکے میں چھوڑ تا دیوار پر اسکے چہرے کے برابر ایک

زور دار پانچ مار چکا تھا

میں تمہاری حورین نہیں ہوں جو خاموشی سے تمہارے ہر حکم مانتی رہوں گی وہ میرا بیٹا ہے اور میں اسے اسفند سے لیکر رہو گی تم مجھے روک نہیں سکتے

وہ اپنی گردن کو سہلاتی ہوئی بولی اسکی گردن پر مضبوط پکڑ سے نشان پڑ چکے تھے پر اسے کوئی فکر نہیں تھی وہ اپنے بھائی کی طرح سخت تھی اور اسکے سخت انداز کی عادی بھی اتنے سال گزرنے کے بعد تمہارے اندر بھی کچھ نہیں بد لہ تم آج بھی وہی

خد غرض رباب زمان شاہ ہو صرف اپنے بارے میں سوچنے والی “

وہ سی کی بات او نا تا ایک حصے بھری نظر اس پر ڈالنا تیزی سے وہاں سے لٹکاتا چلا گیا تھا

جبکہ داؤد افسوس بھری نظروں سے ان دونوں بھائی بہن کو دیکھتے رہ گئے تھے۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

تھکا دینے والی بزنس پارٹی کے بعد وہ رات دیر سے گھر لوٹا تھا وہ جانا تو نہیں چاہتا تھا پر یہ پارٹی اسکے کمپنی کے لئے ضروری تھی اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکو جانا پڑا

سب سے پہلے وہ ھادی کے کمرے میں آیا ایک نظر اسکے نے سوئے ہوئے وجود پر ڈالی اسکو سوتا دیکھ کر ایک سکون اسکے اندر اترا تھا

پارٹی کے درمیان جب اس نے اپنے بابا کو فون کیا تو انہونے ھاد کے ساتھ ہونے والے حادثے کے بارے میں اسکو بتادیا وہ فورا ہی وہاں سے آناچاہتا تھا پر نکل نہیں پایا تھا

اسکے بیٹے کو کوئی چوٹ نہیں لگی تھی یہ بات اسکے لئے سکون کا بائس بنی تھی کچھ دیر یوں ہی کھاڑا اسکو دیکھتا رہا پھر پلٹ کر بھاری قدم اٹھانا اپنے کمرے میں داخل

اس وقت اسکے کمرے میں نیم اند میرا تھا اس نے لائٹ اون کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اپنا کوٹ پیڈ پر ڈال کرہ واشروم میں جا  گھساتھا

کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر واشروم سے نکلنا سیدھا بیڈ پر گرنے سہی کے انداز میں آلیتا تھا نرم ملائم بستر کا احساس ہوتے ہی اسکی پلکیں بھاری ہونے لگی تھی گہری نیند میں جانے سے پہلے اس نے کروٹ بدلی ہی تھی کہ نیند میں ایک الگ سے احساس کہ تحت اسکے حواس جاگے تھے پر اپنے اپنی آنکھیں بند ہی رکھی تھی اسے لگا کہ کوئی اسکے قریب ہے بہت ہی قریب وہ آنکھیں بند کئے تھوڑا اور قریب ہوا تو اپنے عقب سے آتی ایک دلفریب خوشبوں نے ابکہ بار اسکے حواس کو پوری طرح

بےدار کیا تھا ایکدم ہی اسکی بند آنکھوں کے پیچھے کسی کا چہرہ ہرایا تھا

اسے لگ رہا تھا نیند میں ہونے کی وجہ سے اسکا وہم ہے مگر اگلے ہی لئے جب اسے اپنے سینے پر کیسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہو تو اسکی آنکھیں یکدم سے کھلی تھی وہ بے دردی

سے اس ہاتھ کو ہٹانا ایک جھٹکے میں اٹھ بیٹھا تھا

حفصہ جسکی ابھی آنکھ ہی لگی تھی بری طرح سے جھٹکادینے پر اسکی آنکھ کھلی تھی اپنے قریب ہی کسی کو بیٹھاہوا دیکھ کر خوف سے اسکی نیند یکدم ہی اڑی اس نے ڈر کر چیخ مارنی چاہی تھی پر وہ جیسے اکا ارادہ بھانپ چکا تھافور ہی اسکے منہ پر اپنابھاری ہاتھ رکھتاہے اسکی چیخ کا کالا گھونٹ چکا تھا

کون ہو تم اور یہاں میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو میں تمہارے منہ پر سے ہاتھ

ہٹا رہا ہوں بغیر شور کئے میر کی بات کا جواب دینا

اس نے اپنی ر عبدار آواز میں اس سے استفسار کیا تھا اگر وہ کوئی چور ہوتی تو اس طرح تو

بلکل بھی سو نہیں رہی ہوتی

پر یہ لڑکی کون تھی اسکو تفتیش ہوئی تھی۔۔۔

دوسری طرف حفصہ جو خوف کے مارے کانپ رہی تھی سامنے والی کی آواز سن کر جیسے

سکتے میں آگئی تھی

یہ آواز لب لہجہ جسکو و لا کھوں میں بھی پہچان سکتی تھی اتنے سال بعد یہ آواز سن کر وہ

اپنی جگہ گنگ سی بیٹھی رہ گئی تھی

میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے کون ہو تم

اسکی خاموشی پر اسفند اپنی جگہ سے اٹھا اور کمرے کی لائٹ اون کی

مگر اگلے ہی لمے اسکی نظریں بیڈ پر بیٹھی ہستی پر پڑی تو وہ بھی اپنی جگہ سکت کھڑا رہ گیا تھا

دونوں ایک دوسرے کو بس خاموشی سے نکلتے جارہے تھے کتنے ہی لمحے یوں ہی

خاموشی سے گزر گئے مگر دونوں کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا تھا

وہ پورے 6 سال بعد اسے دیکھ رہا تھا اور ان گزرے سالوں میں کوئی ایسا لمحہ نہیں تھا جس میں اسفند یار خان نے اس لڑکی سے نفرت نہ کی ہو

ان گزرے سالوں میں وہ بلکل بھی نہیں بدلی تھی بلکہ اسکی خوبصورتی میں مزید نکھار آ

گیا تھا

اسکی حیرانی سے کھلی بڑی بڑی جھیل سی آنکھوں میں اسفند کو اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس

ہوا تھا اس نے فورا ہی خود کو ڈپٹا تھا

تم اس وقت میرے گھر اور میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو “

وہ اپنی کیفیت پر قابو پا تا چہرے پر نگواری لئے اس سے پوچھ رہا تھا

اسکے پوچھے گئے سوال سے حفصہ کو اپنے اندر چلتے سوالوں کے جواب مل گئے تھے یہ کوئی اتفاق نہیں تھا ھاد کا باپ اور کوئی نہیں اسکا اسفی تھا اسکی پہلی اور آخری محبت

تمہارے ڈیڈ کے اسرار پر میں یہاں رکی ہوں مجھے نہیں معلوم تھا یہ تمہارا گھر ہے

اور ھاد تمہار ا بیٹا

اپنے آخری جملہ بہت مشکل سے ادا کیا اور ایک نظر اس پر ڈالی

بلیک ٹی شرٹ اور گرے ٹراؤزر میں اسکا کسرتی جسم نمایا تھا ان 6 سال میں اسکی شخصیت مزید نکھر گئی تھی وہ بغیر پلکیں جھپکائے بس اسکو تک رہی تھی

اور اسفند جو چہرے پر پتھر جیسی سختی لئے کھڑا اسکو دیکھ رہا تھا حفصہ کے جواب پر جیسے اسکو ساری بات سمجھ آگئی تھی اسکے بیٹے کی جان بچانے والی لڑکی اور کوئی نہیں حفصہ ہی تھی۔۔

عجیب بات ہے نہ تمہارے جیسے سنگدل اور لوگوں کو تکلیف دینے والے انسان بھی

کسی کی جان بچا سکتے ہیں

وہ تلخی سے کہتا مسکرایا جیسے اسکامذاق اڑارہا ہو جبکہ اسکے اس انداز اور حفصہ کی آنکھیں

نم ہوئی تھی وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھی

” میں نے کسی کو تکلیف نہیں دی

وہ اپنے آنسوں بمشکل ضبط کرتی ہوئی ہوئی جبکہ اسکی بات پر اسفند زور سے ہنسا تھا اور پھر کتنی ہی دیر ہنستا ہی چلا گیا یہاں تک کہ اسکی آنکھ سے آنسوں ٹوٹ کر کار پیٹ میں

جذب چکا تھا مگر اسکو خبر نہیں ہوئی تھی

صحیح کہا تم نے حفصہ تم کسی کو تکلیف نہیں دیتی سیدھا اسکا قتل کرتی ہو ” وہ لہو ر نگ آنکھیں لئے اسکی طرف پلٹا تھا اتنے سالوں سے اسکے دل میں دبی نفرت

اسکے سامنے آجانے پر یکدم سے جیسے باہر نکل آئی تھی

حفصہ نے کتنی دعا کی تھی کہ اسکا کبھی اسفند سے سامنا نہ ہو مگر آج وہ اسکے کمرے میں

اسکے سامنے موجود تھی

اسفی تم مجھ پر ایسے الزام نہیں

ابھی اسکی بات مکمل نہیں ہو پائی تھی جب وہ بیچ میں انگلی کا اشارہ کر کے اسے روک چکا

حفصہ ابراهیم خان تمہارے سامنے جو کھڑا ہے وہ اسفند یار خان ہے اسفی نہیں۔۔ اس اسفی کا تم 6 سال پہلے قتل کر چکی ہو

اسکے لجے کی سرد مہری سے اسکا تھا سا دل ٹوٹ سا گیا تھا

وہ اسکے اس لہجے کی عادی کہاں تھی پر سامنے کھڑا شخص بھی غلط نہیں تھاوہ اسی کا دیا ہوا

درو اسکو لو ٹارہا تھا

وہ اپنے آنسوؤں کو ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی مگر انہیں بھی جیسے آج ضدی ہو گئی تھی

تم نے میرے بیٹے کی جان بچائی ہے اس لئے تم یہاں اب تک موجود ہو ورنہ میرا بس چلتا تو تمھیں یہاں ایک لمحے کے لئے بھی رکھنے نہیں دیتا اس لئے تم اس کمرے

سے چلی جاؤ میری نظروں سے دور

اسکو مسلسل آنسوں بہاتا دیکھ کر وہ سنگدلی سے بولا تھا ہاتھ کی مٹھی بیچی وہ جیسے اپنے

غصے کو ضبط کر رہا تھا

اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ تمہارا گھر ہے تو میں خود یہاں نہ رکتی ویسے بھی میں کسی کی تکلیف کی وجہ نہیں بننا چاہتی “

وہ اپنی بات کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی تیزی سے اس روم سے نکلتی چلی گئی تھی

اسکے جانے کے بعد اسفند نے غصے میں پاس رکھی ٹیبل پر ایک زور دار لات ماری تھی

اور اس جگہ کو دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑی تھی

وہ دعا کر رہا تھا کہ یہ سب ایک خواب ہو اور وہ اس خواب سے جاگ جائے پر ایسا نہیں تھا اسکا تکلیف دہ ماضی اسکے سامنے آکھڑا ہوا تھا جسے بھولانے کی کوشش میں وہ آجتک

ناکام رہا تھا

اسکی زندگی میں دو عور تیں آئی تھی اور دونوں نے اسے چھوڑا تھا

و ہ

ر باب سے اتنی نفرت نہیں کرتا تھا جتنی نفرت اسے حفصہ سے تھی

کیونکہ حفصہ ابراہیم خان سے اسے شدید محبت تھی لکن اب وہ اس سے اتنی ہی نفرت

کرتا تھا۔۔۔۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

یہ میں کیا سن رہا ہوں تم جانے سے انکار کر رہی ہو

وہ کسی آندھی طوفان کی طرح دند نا تا ہوا اسکے کمرے میں داخل ہوا تھا

وہ جو بیڈ پر بیٹھی ڈر سے اپنی انگلیاں چٹکار ہی تھی کمرے کی خاموشی میں مصطفی کی ر عبدار آواز پر ڈر کے مارے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور خوفزدہ نظروں سے اسکو

دیکھنے لگی جو ماتھے پر بل ڈالے اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔

منہ میں زبان نہیں ہے کیا پوچھ رہا ہوں میں اپنے نا جانے کی وجہ بتانا پسند کرو گی ” آج اسے حورین کو لیکر اس لڑکے سے ملنے جانا تھا جس سے وہ اسکا نکاح فکس کر چکا تھا پر اسکے انکار سے وہ غصے میں کھولتا اسکے پاس آیا

ایک تو اسکاد ماغ رباب کی حرکتوں کی وجہ سے پہلے ہی گھوما ہوا تھا پر سے یہ لڑکی اسکے

صبر کا امتحان لے رہی تھی۔۔۔

مجھے نہیں جانا آپکے ساتھ اور اس بار آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے

اس بار وہ اپنے ڈر کو پیچھے رکھ کر بے خوف ہو کر بولی تھی

جب داؤد صاحب نے اسے اسکے نکاح کے بارے میں بتا بات وہ کتنے ہی لمحہ بولنے کے قابل نہیں رہی تھی وہ جانتی تھی مصطفی اسکے لئے کتنا پور یوتھ پر اسکے تو وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اسکی زندگی کا فیصلہ اتنی آسانی سے بغیر اسکی مرضی جانے لے لیگا

کل سے اسکار ور و کر برا حال تھا اسکی سرخ آنکھیں اس بات کی گواہ تھی

اور تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں یہاں تمہاری مرضی جاننے آیا ہوں فورا تیار ہو

جا کر ہمیں دیر ہو رہی ہے “

وہ ا سکی سرخ آنکھیں دیکھ کر ایک لمحے کے لئے ٹھٹکا تھا پر چہرے کے تاثرات کو نارمل

بناتے ہوئے فورا بولا

میں نے کہہ دیا ہے میں آپکے ساتھ کہیں نہیں جاؤ گی اور نہ ہی یہ نکاح کرو گی سنا آپ نے۔۔ آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے “

اس بار وہ حلق کے بل چلاتے ہوئے بولی

زندگی میں پہلی بار اور شاید آخری بار وہ اسکے سامنے یوں مضبوطی سے بولی تھی کیونکہ وہ جن خونخار نظروں سے کھڑا اسکو گھور رہاتھا حورین کو لگ رہا تھا کہ آج اسکا یہ شاید

آخری دن ہو گا

یہ نکاح تو ہو گا حورین چاہے زبردستی ہی سہی”

وہ آنکھیں سکیڑ تا اسکی جانب بڑھا آج اسکارویہ دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا پہ ظاہر نہیں

نہیں ہونے دیا

آپکے ایک بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی میں یہ نکاح نہیں کرو گھی بلکہ میں کسی سے

بھی نکاح نہیں کرونگی سمجھے آپ “

وہ بہت مضبوط لہجے میں بولی تیز بولنے کی وجہ سے اسکا بدن دھیرے دھیرے لرج رہا رھا پر وہ آج خود کو کمزور نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی کم از کم آج کے دن تو بلکل بھی نہیں

” کیوں نہیں کرنا تمھیں یہ نکاح “

وہ اپنے حصے کو ضبط کرتا ہوا بولا مگر اسکے جواب پر حورین نے سختی سے اپنے لب بھینچ

لے تھے

میں کچھ پوچھ رہا ہوں حورین جواب دو مجھے کیوں نہیں کرنا نکاح

اس بار دھاڑا تھا

اپنے غصے کو زیادہ دیر ضبط کرنا اسکے بس میں نہیں تھا

کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں اور اگر میں نکاح کرو گی تو صرف آپ

ہے۔۔ سنا آپ نے

وہ اپنی نازک انگلی اسکے سینے پر رکھتی ہوئی چلائی تھی

وہ نہیں جانتی تھی کہ آج اس میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی

شاید اپنی اس محبت کے کھو جانے کا ڈر تھا جو وہ بچپن سے اس سے کرتی آرہی تھی اسے اچھی طرح یاد تھا اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا مصطفی رباب اور داؤد صاحب کو ہی اپنے قریب پایا تھا اسکے والیدین کون تھے وہ نہیں جانتی تھی نہ ہی اس نے پوچھنے

کی کبھی کوشش کی

اسے رہاب سے بھی محبت تھی پر وہ حورین کو اسکی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتی

تھی

جب تھوڑی سمجھدار ہوئی تو اسکور باب نے ہی بتا یا تھا کہ وہ مصطفی کی بس ذمہداری ہے جسے وہ بخوبی نبھارہاتھا اور بس تبھی سے اسکے دل میں مصطفی کے لئے ایک الگ مقام بن

گیا تھا

مصطفی کا خود کے لئے پوزیسو ہو ناہمیشہ فکر مند رہنا کب اسکے دل میں محبت کے پھول

کھلا گیا تھا اسے خبر بھی نہیں ہوئی

کہیں نہ کہیں اسکو بھی لگتا تھا کہ شاید مصطفی بھی اسکے لئے جذبات رکھتا ہے مگر کل اسکی یہ اس ٹوٹ ہی گئی تھی مگر اسے بھی فیصلہ کر لیا تھا وہ اپنی محبت کو یوں کھونے نہیں دیگی

اسکے لئے چاہے اسے سٹون مین کے آگے مضبوط ہی کیوں نہ بننا پڑے

وہ تو اپنی بات کہہ کر خاموش ہو گئی تھی مگر مصطفی کتنی ہی دیر اسکو سکت نظروں سے دیکھتا رہا اسکے کبھی وہم گمان میں نہیں تھا کہ وہ اس لڑکی کے منہ سے یہ لفاظ سنے گا

تم جانتی بھی ہو کیا بکواس کر رہی ہو ” اور تمہارے اس چھوٹے سے دماغ میں یہ

بات آئی بھی کیسے

وہ خود کو پوری طرح کمپوز کرتا بتاثرات چہرہ لئے سرد لہجے میں بولا تھا

مگر اس وقت اسکے اندر ایک جنگ ہی چل رہی تھی

میں نے کوئی بکواس نہیں کی میں نکاح کرو گی تو صرف آپ سے یہ میرا آخری فیصلہ ہے

وہ اٹل انداز میں بولی

آج اس لڑکی کا لب و لہجہ بلکل الگ ہی تھا مصطفی کو آج یہ کہیں سے بھی اپنی ھورین لگ ہی نہیں رہی تھی۔

تم میرے لئے صرف ایک ذمہ داری ہو ایک وعدہ ہو تمہاری حفاظت کرنا تھیں

محفوظ رکھنا میرا فرض ہے اس سے آگے اور کچھ نہیں

وہ سختی سے کہتا اپنے لب بھینچ گیا تھا

اسے آج بھی اچھے سے یاد ہے جب پندرہ سالہ بچے نے تین سال کی حورین کو گود میں

لیکر اسکی حفاظت کا وعدہ کیا تھا

اس نے یہ وعدہ کس سے کیا تھاوہ اسکو نہیں بتا سکتا تھا اگرو بتا یا تو اسکے بعد حورین کے جو سوال ہوتے ان سوالوں کے جو اب وہ اسکو نہیں دے سکتا تھا شاید زندگی میں کبھی

نہیں

اگر میری حفاظت آپکے لئے اتنی ضروری ہے تو آپ مجھے خود سے اتنی دور کیوں

بھیج رہے ہے

مصطفی کے الفاظ سن کر اسکا دل ٹوٹ کر بکھرا تھا مگر وہ خود کو سنبھالتی پھر سے گو یہ ہوئی

تھی۔

کیونکہ اس میں تمہاری بہتری ہے

وہ اسکی سرخ آنکھوں سے نظریں چراتا ہوا بولا اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی یہ

سب اسکے لئے بھی مشکل تھا پر وہ اپنی کیفیت پر قابورکھنے میں ماہر تھا

گر آپکو ایسا لگتا ہے کہ میں اس بار آپکا حکم مان لو گی تو ایسا نہیں ہے میں آپکے علاوہ کسی سے نکاح نہیں کرونگی یہ میرا بھی آخری فیصلہ ہے

وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ضدی انداز میں بولی۔۔

مصطفی کی گہری کالی آنکھوں نے گرین آنکھوں میں دیکھا جہاں اس وقت اسکا اپنا

عکس صاف نظر آرہا تھا اس نے گھبرا کر نظریں پھیر لی تھی

تو تم میرا بھی فیصلہ سن لونہ میں تم سے محبت کرتا ہوں نہ تم سے نکاح کا خواہشمند

ہوں

وہ سنگدلی سے کہتا جانے کے لیے پلٹنا تھا

میں آپکو خود سے نکاح کرنے پر مجبور کر دو گی اور محبت بھی

حورین کی بات سن کر دروازے کی طرف اسکے بڑھتے قدم رکے تھے

اپنے الفاظ سنبھال کر رکھو حورین کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن تم اپنے کہے لفاظوں پر پچھتاو

اپنی بات کہتا وہ وہاں رکا نہیں تھا جبکہ پیچھے کھڑی حورین کتنی ہی دیر اسکی بات پر غور

کرتی رہ گئی تھی

@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@

اینجل یہ دیکھو میں نے کیا بنایا ہے اچھا ہے نہ

حفصہ جو اپنی سوچوں میں گم بیٹھی تھی ھادی کی آواز پر جیسے ہوش میں آئی تھی اور گردن موڑ کر اسکی طرف دیکھا جو معصومیت سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا اسے یکدم ہی اس پر بے انتہا پیار آیا تھا اسے یہاں رہتے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور اس ایک ہفتے میں اس دن کے بعد اسکا اسفند سے سامنانہ ہونے کے برابر ہی ہوا تھا

حفصہ تو اگلے دن ہی وہاں سے جارہی تھی مگر حیات صاحب اسکے یوں اچانک جانے سے پریشان ہوئے تھے پر وہ انکو اپنے جانے کی اصل وجہ نہیں بتاسکتی تھی مگر اسکے منع کرنے کے باوجود اور حاد اسکوروک چکے تھے اسے ائی اتنی محبت کے آگے ہار ماننی پڑی

تھی

دوسرا وہ وہاں رکنے کے لئے مجبور بھی تھی

اس نے اس سچ کو بھی تسلیم کر لیا تھا کہ اسفند اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا تھا وہ اسکے لئے رکتا بھی کیوں وہ اسکی زندگی سے اپنی واپسی کے سارے راستے بند جو کر کے

جاچکی تھی

پر دل کے کسی کونے میں ایک چھن سی تھی جو اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔۔۔


Updated: July 25, 2025 — 11:04 am

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *