Urdu novel download Aurat Aik Khilona Part 4 Novel – Urdu Kahani, Drama aur Jazbaat Ka Naya Safar


Discover the thrilling continuation of Aurat Aik Khilona with Part 4, now available for Urdu novel download! This gripping Urdu kahani takes you deeper into a world of intense drama, raw emotions, and a woman’s unforgettable journey through love, betrayal, and resilience. Perfect for fans of emotional Urdu novels online, this installment unveils new twists in a saga that’s captivated readers since Part 1. Whether you’re seeking free Urdu novels PDF or the next big read in 2025, Aurat Aik Khilona Part 4 delivers a rollercoaster of jazbaat (emotions) and a fresh safar (journey) you can’t miss. Download this Urdu novel today and lose yourself in a story that echoes the soul of Pakistan’s literary heartbeat

Urdu novel download

Aurat Aik Khilona Part 4: The Latest Urdu Novel Packed with Emotions – Ready for Urdu Novel Read!

Read Here Part # Aurat Aik Khilona Part 3

یشب اس روز تو خود کو ڈ پٹ کر واپس لے آیا تھا مگر دل پھر سے وہاں جانے کو بے چین تھا ہوسکتا ہے وہ دوبارہ وہاں آئے ۔ یا پھر آئی ہو ۔ مجھےو ہاں جانا چاہے تھا۔ ۔ ۔ بلاوجہ دون
صرف اس خوبصورت چڑیل کو سوچ کر ہی ضائع کیے ۔ ۔ ۔ وہ مسکرایا
یسں مجھے وہاں جانا چاہیے ہو سکتا ہے پھر سے دیدار ہی ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ خیالوں میں گم تھا جب مہر و
کی آواز اسے حقیقت میں کھینچ لائی
ارے یشب کن سوچوں میں مگن ہو بھی دو دن سے نوٹ کر رہی ہوں کھوئے کھوئے سے ہو ۔ ۔ ۔ کہیں کسی پری کا سایہ تو نہیں ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ مہر و چھیڑتی ہوئی سامنے پڑے تخت پر بیٹھی۔۔

ارے کہاں ڈئیر بھا بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ کسی پری کا سایہ ہو ہاں البتہ چڑیل کا سایہ ضرور ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ مسکراہٹ دبا کر بولا
کون ہے چڑیل ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ؟ ؟
جانے دیں بھا بھی مزاق کر رہا تھا
یشب مکرمت میں جان چکی ہوں کوئی ہے اور آجکل میں ہی ملی ہے تمہیں ۔ ۔ ۔ تمہاری حالت سے میں پہلے ہی مشکوک ہو گئی تھی اور اب تم اپنی ہی بات میں پھنس چکے ہو اس لیے شرافت سے بتاؤ
کون ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کون ارے بھا بھی سچ میں کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ یشب نے زور وشور سے نفی میں سر ہلایا مت بتاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ میں یشار کے تھر و پتا کر والوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہرونے دھمکی دی غصب خدا کا بھا بھی۔ ۔ لالہ کو مت بتائیے گا کچھ بھی ۔ ۔ ۔
تو پھر سیدھی طرح لائن پر آ و
بتایا
تو ہے چڑیل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مہر وکی چالاکی پر چڑ کر بولا
کہاں ملی یہ چڑیل ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ؟ ؟
جھیل والی سائیڈ پر ۔۔۔۔
ہمارے گاؤں کی ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟
نہیں ساتھ والے ۔ ۔ ۔ ۔
تمہیں کیسے پتا کہ وہ ساتھ والے گاؤں کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مشکوک ہوئی

ہمارے گاؤں کی لڑکیاں اتنی بہادر نہیں ہیں کہ اکیلیے اتنی دور جا سکیں ۔مطلب کافی سے زیادہ ایمپریس ہو چکے ہو۔۔۔
نہیں مزید دو ، چار ملاقاتوں میں ہو سکتا ہے کافی سے زیادہ ایمپریس ہو جاؤں ۔ ۔ ۔ وہ سر کھجاتا سیدھا ہو کر
بیٹھا
بہت بد تمیز ہو یشب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں پہلی ہی ملاقات میں اس سے اگلی بار ملنے کا وعدہ تو نہیں لے
آئے ۔ ۔ ۔
پوچھا تو تھا کے کب ملو گی دوبارہ مگر ۔۔۔۔۔
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟
مگر کافی نک چڑی سی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب براسا منہ بنا کر بولا۔ دیکھنے میں کیسی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مہر وایکسائیڈ ہوئی
پتہ نہیں ۔
مطلب – – – – – ؟؟؟
پتہ نہیں مطلب ۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کو دیکھ نہیں پایا
اوووففف ۔ ۔ ۔ ۔ یشب تم پاگل ہو چکے ہو یا پھر مجھے کرو گے
خود ہی تو پوچھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چڑا
ارے ڈفر ۔ ۔ ۔ ۔ جب دیکھا نہیں تو اچھی کیسے لگ گئی۔

تو یوں پوچھیں ناں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایکو ئچلی بھا بھو ۔ ۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ وہ ناں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب مہرو کے دوپٹے کو
انگلی پر لپیٹتا شرمانے کی ایکٹینگ کرنے لگا
یشب ۔ ۔ ۔ مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا ۔
یشب ہنستا ہوا کھڑا ہوا
آج کے لیے اتنا ہی BBC News
۔ ۔ ۔ وہ آنکھ دبا کر چھیڑ تا ہال سے نکل گیا یشب ۔ ۔ ۔ ۔ یشب رکو ۔ ۔ ۔ رکو تو
بد تمیز انسان ۔ ۔ ۔ سسپینس پھیلا کر کہاں جا رہے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ مہر و جلدی سے سامنے آئی قسم سے بھا بھی آپکی شکل پر ۔۔۔۔
چھوڑو میری شکل میں جانتی ہوں بہت پیاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اب مجھے پوری بات بتاؤ ماشاء اللہ کیا خوش فہمی ہے آپکی ۔ ۔ ۔ کب سے ہے ویسے یہ خوش فہمی ۔ ۔ ۔ یشب نے ہونٹوں پر
انگلی رکھی
اہاہاہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ او کے ۔ ۔۔۔۔۔ پہلے لمبے لمبے سانس لے کر خود کی شکل پر بچے بارہ کو دس پر
لائیں پھر بتا تا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
یشب تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہرو نے پاس پڑا گلدان اٹھایا
اوہ نوڈ ئیر بھا بھی ریلیکس آئی ایم جسٹ جو کنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کر تا پیچھے ہوا فضول میں گھاؤ مت سمجھے ۔۔۔۔۔ پوری بات سن کر ہی جان چھوڑوں گی تمہاری ۔۔۔۔

بھابھی آئی سوئیر میں ساری بات اے ٹو زی بتاؤں گا مگر ابھی مجھے جانے دیں میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا بولا۔۔
ہو سکتا ہے وہ میرا وہاں انتظار کر رہی ہو۔۔۔۔پھر آ کر دوسری ملاقات کی بھی ساری باتیں آپ کو سناؤں گا ڈن۔۔۔۔۔۔اب پلیز جانے دیں
اوکے جاؤ۔۔۔۔مگر چھوڑنے والی نہیں میں اگلوا کر ہی دم لوں گی۔۔۔۔۔
مجھے آپ کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دبا کر چھیڑتا باہر بھاگ گیا
بدتمیز انسان۔۔۔۔۔مہرو اسکی بات سمجھ کر مسکرا دی
یشب خان آفریدی۔۔۔۔۔ہیر اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی اسے ہی سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
یقینا ساتھ والے گاؤں کا ہی ہو گا کیونکہ آفریدی قبیلے کے لوگ ساتھ والے گاؤں میں ہی رہتے ہیں
اوف کتنا ڈیشنگ تھا کمینا اور بدتمیز بھی اتنا ہی۔۔۔۔وہ سوچ کر مسکرا دی
مجھے خوبصورت چڑیل کہہ رہا تھا۔۔۔۔ڈفر۔۔۔۔پتہ نہیں دوبارہ دیکھ پاؤں گی اسے کے نہیں۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی
پر میں اسے دوبارہ دیکھنا کیوں چاہتی ہوں۔۔۔۔وہ حیرانگی سے خود سے پوچھ رہی تھی
کہیں میرے دل میں۔۔۔۔
ارے نہیں ہیر۔۔۔۔پہلی ہی ملاقات میں ایسا کیسے ہو سکتا بھلا۔۔۔۔نہیں میں ایسی نہیں ہوں اور نہ ہی ایسا سوچ سکتی ہوں۔۔۔۔۔اسنے خود کو مطمعین کیا
لیکن اگر واقعی ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔؟؟؟ چند منٹ کے وقفے سے اسکے دل نے پھر سے اس سے سوال کیا
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں ہیر ایسا کچھ مت کرنا یہ دل کے معاملے بہت مشکل ہوتے ہیں۔۔۔۔تم ایک اچھی لڑکی ہو اور اچھی لڑکیاں کبھی کسی نامحرم کو دل میں جگہ نہیں دیتیں ہیں۔۔۔۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ اس معاملے سے دور رہو۔۔۔۔اور یشب خان آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر بھول جاؤ اس سے پہلے کے تم اتنی آگے بڑھ جاؤ کہ تمہارے لیے واپسی ناممکن ہو جائے۔۔۔۔اس کے ضمیر نے اسے بہترین مشورہ دیا
ہیر بی بی۔۔۔۔۔۔
ہیر رحیمہ کی آواز پر چونک کر مڑی ۔۔۔
رحیمہ کتنی دفعہ کہا ہے کہ دروازہ ناک کر کے آ یا کرو۔۔۔۔وہ ناگواری سے بولی
معاف کر دیں ہیر بی بی بھول گئی میں۔۔۔۔رحیمہ نے سر پر ہاتھ مارا
اچھا بتاؤ کیوں آئی ہو۔۔۔۔۔
وہ جی۔۔۔۔۔آپ کو بڑے خان سائیں بلا رہے ہیں
میں آتی ہوں تم جاؤ۔۔۔
جی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتی چلائی گئی
ہیر نے ایک لمبی سی سانس خارج کر کے خود کو یشب آفریدی کی سوچوں سے آزاد کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر بابا کی بات سننے چل دی
یشب تم نے بتایا ہی نہیں مجھے دوبارہ اپنی اس خوبصورت چڑیل کے بارے میں۔۔۔۔مہرو نے اس کے کپڑے پیک کرتے ہوئے پوچھا
کون سی خوبصورت چڑیل بھرجائی۔۔۔۔؟؟؟ یشب نے چلغوزہ منہ میں رکھ کر حیرانگی سے پوچھا
زیادہ انجان بننے کی ایکٹنگ مت کرو۔۔۔۔تمہاری سبھی چلاکیوں کو سمجھتی ہوں میں
سمجھتی ہیں تو پوچھ کیوں رہی ہیں۔۔۔۔؟؟
یشب۔۔۔تنگ مت کرو بتا دو اب۔۔۔ پھر ایک سال بعد روبرو ملاقات ہو گی ہماری۔۔۔ہو سکتا ہے تمہارے بتا دینے پر میں تب تک تمہاری راہیں ہموار کر سکوں۔۔۔۔۔
گریٹ۔۔۔۔بھابھی ہو تو آپ جیسی۔۔۔۔یشب نے بیڈ پر لیٹے لیٹے مہرو کی بلائیں لیں
بہت مسخرے ہو۔۔۔۔وہ مسکرائی
تھینکس۔۔۔اب پوچھیں جو پوچھنا ہے۔۔۔۔؟؟
ملی پھر دوبارہ۔۔۔۔؟؟
نہیں۔۔۔۔۔۔
تم گئے تھے وہاں جھیل پر۔۔۔۔؟؟
کئی دفعہ۔۔۔بلکہ روز ہی جاتا ہوں مگر وہ دوبارہ وہاں نہیں آئی۔۔۔۔
اوہ سیڈ۔۔۔۔۔مہرو افسوس کرتی یشب کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھی
پھر اب کیسے پتہ چلے گا کہ اس کا نام کیا تھا اور وہ واقعی ساتھ والے گاؤں ہی کی تھی یا پھر کسی کے ہاں آئی مہمان تو نہیں۔۔۔۔مہرو نے خدشہ ظاہر کیا
یہ تو کنفرم ہے کہ وہ ساتھ والے گاؤں ہی کی تھی۔۔۔۔۔اور نام۔۔۔۔۔وہ رکا
مہرو نے مشکوک ہو کر آنکھیں سکیڑیں
یشب اسکے ایکسپریشنز دیکھ کر مسکرایا
اس کا نام ہیر دلاور خان ہے۔۔۔۔
ہیر دلاور خان۔۔۔۔واہ۔۔۔۔نام تو بہت یونیق ہے
خود بھی یونیق ہی تھی۔۔۔وہ مسکرایا
پر تم نے تو اسے دیکھا نہیں تھا ناں۔۔۔۔؟؟؟
اوہ مائی ڈئیر BBC News ۔۔۔۔ میں نے اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا پر اسکی کاجل لگی بڑی بڑی نشیلی آنکھیں ضرور دیکھیں تھیں۔۔۔وہ آنکھ دبا کر بولا
آہہہہہہممم مطلب۔۔۔۔۔مہرو مسکرائی
ایگزیٹلی۔۔۔۔وہ بھی مسکرا کر اٹھ بیٹھا
پر مجھے تم اتنے ہلکے لگتے نہیں تھے۔۔۔۔
میں اتنا ہلکا ہوں بھی نہیں۔۔۔۔
اچھا جی۔۔۔تو پھر ایک لڑکی کی صرف آنکھیں دیکھ کر ہی اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہو۔۔۔اور کہہ رہے ہو ہلکے نہیں۔۔۔مہرو نے مزاق اڑایا
عشق میں تو نہیں کہہ سکتی آپ ہاں البتہ 100 میں سے 60 پرسنٹ کے چانسز لگ رہے ہیں وہ بھی فلحال صرف پسندیدگی کے ۔۔۔وہ آنکھ مارتا تسمے کس کر اسکی طرف آیا
اب آپ سے ایک ریکویسٹ ہے بھابھی۔۔۔۔
ہوں بولو۔۔۔۔۔
پلیز اب یہ خبر اپنے نیوز چینل پر نشر مت کیجئیے گا۔۔۔۔وہ چھیڑتا ہوا دروازے کیطرف بھاگا
بدتمیز۔۔۔۔مہرو نے دانت کچکچا کر پاس پڑا برش اسکیطرف پھینکا جسے وہ کیچ کر کے ٹیبل پر رکھتا سیٹی کی دھن پر
جب سے تیرے نیناں۔۔۔۔۔
میرے نینوں سے لاگے رے۔۔۔۔
میں تو دیوانہ ہوا۔۔۔۔۔
خود سے بیگانہ ہوا۔۔۔۔
جگ بھی دیوانہ لاگے رے۔۔۔۔
گنگناتا ہوا باہر نکل گیا
جی بابا آپ نے بلایا۔۔۔۔ہیر مسکراتی ہوئی دلاور خان کیساتھ آ کر بیٹھی
ہاں بابا کی جان۔۔۔۔ہم نے بلایا
کیا کہنا تھا بابا۔۔۔۔؟؟
تمارے لیے ایک اچھی خبر ہے
کیسی خبر۔۔۔؟؟وہ ایکسائیٹڈ ہوئی
میری بیٹی کا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔۔۔
اوہ سچ۔۔۔۔ہیر اچھل کر کھڑی ہوئی
بلکل سچ۔۔۔۔۔دلاور خان بیٹی کی خوشی پر مطمعین ہوئے
اوف بابا۔۔۔۔آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔اور آپ کو پتہ ہے میں آپ سے بہت بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے انکے سامنے ٹیبل پر بیٹھ کر بانہیں پھیلائیں
جانتا ہوں سب۔۔۔۔۔۔وہ اسکی ناک کھینچ کر مسکرائے
چلو پھر تیاری پکڑو۔۔۔۔اگلے ہفتے تمہیں جانا ہے
پر بابا میں ہوسٹل میں آپ سب کے بغیر کیسے رہوں گی۔۔۔۔وہ اداس ہوئی
اب اتنا تو کرنا ہی پڑے گا ناں۔۔۔۔یا پھر کینسل کروا دوں سب۔۔۔۔
ارے اب ایسی بھی بات نہیں۔۔۔۔۔میں ہر ویک اینڈ پر حویلی آ جایا کروں گی کیسا۔۔۔۔؟؟
بہت اچھا۔۔۔۔۔چلو اب اس خوشی کے موقعے پر اپنے بابا کی چائے سے تواضع کرو
ضرور۔۔۔۔ناصرف چائے بلکہ آپ کا فیورٹ گاجر کا حلوہ بھی۔۔۔۔
ارے واہ۔۔۔۔۔پھر تو جلدی کرو اس پہلے کہ تمہاری اماں کو خبر ہو۔۔۔۔وہ رازداری سے بولے
ہاہاہاہا۔۔۔۔جا رہی ہوں۔۔۔۔ہیر انکی رازداری پر ہنستی ہوئی کیچن کی طرف بڑھ گئی
یشب کل اسلام آباد جا رہا تھا اور وہاں سے اسے واپس لندن کے لیے فلائی کرنا تھا۔۔۔واپس جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سے دل میں دید کی امید جگائے جھیل پر جانا چاہتا تھا۔۔۔اپنی پیکنگ مکمل کرنے کے بعد وہ وہاں جانے کے لیے نکل پڑا۔۔
ہیر بی بی پیکنگ ہو گئی ہے۔۔۔۔۔اب میں جاؤں۔۔۔؟؟رحمیہ نے ہیر سے پوچھا جو کبڈ میں سر دیے کھڑی تھی
ہاں جاؤ۔۔۔۔۔
جی اچھا۔۔۔۔۔رحیمہ سر ہلاتی چلی گئی
ہیر نے اسکے جانے کے بعد شال نکال کر اوڑھی اور چپکے سے باغ میں جانے کے لیے نکل کھڑی ہوئی
باغ میں پہنچ کر اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور کسی کو بھی نہ پا کر دل میں چور لیے وہ جھیل کیطرف چل پڑی۔۔
یشب نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر ادھر أدھر دیکھا اور مایوس ہو کر پتھر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔وہ پتھر پر بیٹھا جھیل کے پانی میں کنکر پھینکنے لگا۔۔۔۔
ہیر نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر درخت کی اوٹ سے یشب کی پشت کو دیکھا
ارے یہ تو پہلے سے موجود ہے۔۔۔کہیں یہ میرا انتظار تو نہیں کر رہا۔۔۔۔۔؟؟
واہ۔۔۔بھئی ہیر بی بی کیا خوش فہمی ہے تیری۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر مسکراتی آگے کو ہوئی کہ پیچھے سے پتھر لڑھک کر اسکے پاؤں پر گرا
ہیر کی گھٹی گھٹی چیخ نے یشب آفریدی کے دونوں کان کھڑے کیے
وہ پلٹا اور درخت کی اوٹ میں ہرے آنچل کو لہراتے دیکھ کر اسکی طرف بھاگ کھڑا ہوا

ہیر نے جیسے ہی یشب کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ فورا واپسی کے لیے بھاگی۔۔۔۔
ہیر لسن۔۔۔۔۔رکو بات سنو۔۔۔۔یشب چلاتا ہوا جب تک وہاں پہنچا وہ درختوں کے جھرمٹ میں گم ہو چکی تھی
“اے خوبصورت چڑیل” وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر پوری قوت سے چلایا
ایک بار۔۔۔۔دو بار۔۔۔۔کئی بار۔۔۔۔۔مگر ہیر وہاں ہوتی تو سنتی
شٹ۔۔۔۔۔۔۔یشب نے درخت پر مکا جڑا
اور چند منٹ انتظار کے بعد مایوس سا واپس لوٹ گیا
ہیر نے اپنی دوڑ کو بریک حویلی میں آ کر لگائی تھی
ارے لڑکی کیا ہوا۔۔۔سانس کیوں پھولا ہوا ہے۔۔۔۔کہاں تھی تم۔۔۔۔۔۔؟؟خدیجہ نے ایک ساتھ اتنے سوال پوچھے
پا۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل بول پائی
رحیمہ پانی دو اسے۔۔۔۔۔
رحمیہ بوتل کے جن کی طرح پانی لیے حاضر ہوئی
ہیر نے دل پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی سانس میں پانی ختم کیا
کہاں تھی۔۔۔۔۔خدیجہ نے کڑی نظروں سے ہیر کو دیکھا
باغ میں۔۔۔۔۔
وہاں ایسا کیا دیکھ لیا بی بی جی۔۔۔۔رحیمہ نے بتیسی نکال کر پوچھا
بھوت۔۔۔۔۔
ہائے سچ میں ہیر بی بی بھوت تھا وہاں۔۔۔
ہیر نے اسے ایک گھوری دی اور اٹھ کر اماں کے پاس آ بیٹھی
کیا کرنے گئی تھی باغ میں وہ بھی بنا اجازت۔۔۔۔وہ خفا ہوئیں
اماں کل ہوسٹل چلی جاؤں گی میں خفا مت ہوں۔۔۔۔بس دل چاہ ریا تھا اس لیے ٹہلنے کو گئی تھی۔۔۔۔اس نے نظریں چراتے ہوئے جھوٹ بولا
ہیر کبھی بھی کوئی بھی کام ماں باپ کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے ہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں۔۔۔
اچھا ناں اماں سوری آئندہ ایسا نہیں ہو گا سچ میں۔۔۔۔۔ہیر نے لاڈ سے انکے گلے میں بانہیں ڈالیں
اچھا ٹھیک ہے جاؤ اپنی چچیوں سے مل آؤ۔۔۔پھر شکوہ کریں گیں کے تم مل کر نہیں گئی
اوکے مسز دلاور خان جو حکم۔۔۔۔اس نے سر خم کرتے ماں کو چھیڑا
چل جا مسخری نہ ہو تو۔۔۔۔وہ مسکرائیں
ہیر کھلکھلاتی ہوئی باہر نکلی کہ سامنے سے آتے شمس سے ٹکرا گئی
کیا ہے لالہ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا۔۔۔وہ ناک پکڑے چلائی
زیادہ لگ گئی کیا۔۔۔؟؟وہ فکرمند ہوا
نہیں بس تھوڑی سی وہ ناک سہلاتی بولی
کس اسٹیشن پر پہنچنے کی جلدی تھی تمہیں۔۔۔۔؟؟
اسی اسٹیشن پر جس اسٹیشن پر آپ کو بھی جانے کی جلدی ہوتی ہے
بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔شمس نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچی
شکریہ نوازش۔۔۔۔اب بتائیں کوئی پیغام دینا ہے تو۔۔۔؟؟
ہیر۔۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسی
میں کہوں گی کہ بھابھی آپ کو لالہ پیچھلے باغ میں بلا رہے ہیں کیسا۔۔۔؟؟
شمس اسکی بات پر مسکرایا
شرافت سے جاؤ اور مل کر واپس آؤ خبردار اگر کوئی ہوشیاری دیکھائی تو۔۔۔
ارے کیا ہے لالہ مل لیں چند ماہ بعد تو وہ بذات خود یہاں موجود ہوں گی مسز شمس دلاور خان بن کر اس لیے میری مانیں تو ان دنوں میں چھپ چھپ کر ملنے کو انجوائے کریں۔۔۔وہ رازداری سے بولی
اپنے قیمتی مشورے خود تک محدور رکھو اور کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کی تو سزا بھی برابر ملے گی سمجھی۔۔۔
اونہہ۔۔۔انتہائی بور ہیں آپ تو ناجانے پروشہ (چچا زاد) بھرجائی کا کیا ہو گا۔۔۔وہ افسوس سے سر پر ہاتھ مارتی آگے بڑھ گئی
شمس اسکی اداکاری پر مسکراتا ہوا سیڑھیاں پھلانگ گیا
اگلے روز یشب اسلام آباد کے لیے اور اسلام آباد سے لندن کے لیے فلائی کر گیا تھا
یشب نے ہیر دلاور خان کو اسکی باتوں سمیت ایک اچھی یاد سمجھ کر دل میں سنبھال لیا تھا
دوسری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیر پشاور آ چکی تھی ہاسٹل میں۔۔۔۔دلاور خان نے اسکا ایڈمیشن پشاور یونیورسٹی میں کروایا تھا۔۔
اس نے بھی یشب آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر سائیڈ پر کر دیا تھا وہ یہاں پڑھنے آئی تھی اور پوری دلجمعی سے صرف پڑھنا ہی چاہتی تھی۔۔ویسے بھی اسکی تربیت جس انداز میں کی گئی تھی اس کے مطابق کسی بھی غیر مرد کو سوچنا اسکے لیے عبث تھا۔۔۔لہذا اس نے بھی یشب کو مزید یاد کرنا مناسب نہ سمجھا تھا کیونکہ وہ قسمت پر یقین رکھنے والی لڑکی تھی جو مل گیا اسی کو صبر و شکر کیساتھ قبول کر لیا۔۔۔
یوں وقت کے ساتھ ساتھ ہیر یشب کے لیے اور یشب ہیر کے لیے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے تھے
کون کہتا ہے مٹ جاتی ہے دوری سے محبت
ملنے والے تو خیالوں میں بھی ملا کرتے ہیں
چھ سال بعد۔۔۔۔۔۔پورے چھ سال بعد پھر سے ہیر دلاور خان کا نام یشب کے اردگرد گونجا تھا
جب نکاح خواہ بلند آواز میں ہیر دلاور ولد دلاور خان کے نام پر اسکی رضامندی لے رہا تھا ۔۔۔وہ اس نام پر ساکت تھا۔۔۔۔برسوں بعد یہ نام سن کر یشب کے سوئے ہوئے جذبات نے بھرپور انگڑائی لی تھی۔۔
اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہیر اسی شمس خان کی بہن ہے جس نے یشار لالہ کا قتل کیا تھا۔۔۔۔وہ اسی کشمکش میں تھا۔۔۔۔۔جب بابا جان نے یشب کا کندھا ہلایا
سائن کرو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔
یشب نے ناسمجھی سے خاقان آفریدی کیطرف دیکھا اور پین پکڑ کر دھڑا دھڑ سائن کر دیے۔۔۔۔۔
نکاح کے بعد وہ غائب دماغی سے پجارو دوڑاتا ہوا حویلی پہنچا تھا
مگر اب جھٹکا لگنے کی باری ہیر کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جب اس نے اپنی نم آنکھوں سے سامنے یشب آفریدی کو غصے سے چلاتے دیکھا تھا
جو اسے ،اسکے گھر والوں ، اسکے لالہ کو برا بھلا کہتے ہوئے کف اڑا رہا تھا
نکاح کے وقت تو ہیر سن دماغ لیے بیٹھی تھی جس میں صرف ایک ہی بات گونج رہی تھی کہ وہ وہاں کی روایات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔۔۔۔اسے ونی کر دیا گیا ہے۔۔۔وہ بےقصور ماری گئی ہے۔۔۔۔اور اب سامنے یشب آفریدی کو دیکھ کر اسکا دماغ پھر سے سن ہو چکا تھا
ہیر نے آنکھوں میں آئی نمی ہاتھ سے صاف کر کے پھر سے ایک بار دیکھا کہ شاید اسکی نظر کا دھوکا ہو مگر نہیں سامنے وہی ینگ سا ہیرو اب ایک مکمل مرد کی صورت میں موجود تھا
تب کے یشب میں اور اب کے یشب میں بہت فرق تھا
تب وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا اور اب وہ غصے سے بھرا اس پر چلا رہا تھا
وہ مزید کچھ سوچتی کہ یشب نے پاس آ کر جھٹکے سے اسکی گردن دبوچی
میں ابھی اسکا قصہ تمام کر کے یہ حساب برابر کر دوں گا۔۔۔وہ ہیر کی گردن دبوچ کر چیخا تھا
یشب کے اس ردعمل پر ہیر کے اندر رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔دل میں موجود یشب آفریدی کی دھندلائی ہوئی شبیہہ مزید دھندلا گئی تھی۔۔۔۔ یہ وہ یشب نہیں ہے۔۔۔ اسکے دل میں ابھرتی مدھم سی سرگوشی نے اسکی آنکھوں دیکھے کو جھٹلایا تھا
اسی وقت خاقان آفریدی نے بیچ میں آ کر یشب کے ہاتھ ہیر کی گردن پر سے ہٹوائے تھے
وہ ایک خون آلود نظر ہیر کی کاجل پھیلی آنکھوں میں گاڑتا ہال سے نکل گیا تھا
پیچھے ہیر قسمت کی اس ستم ضریفی پر ساکت تھی
یشب۔۔۔۔۔ہیر کو اپنے کمرے سے نکال کر تہہ خانے چھوڑ آیا تھا
وہ ہیر کو دیکھ کر ڈر چکا تھا۔۔۔۔وہ ڈر چکا تھا کہ کہیں اسکا دل پھر سے اسکے ساتھ دغا نہ کر جائے۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہیر کی صورت اسے وہ سب بھلا دینے پر مجبور کر دے جو وہ بھولنا نہیں چاہتا
وہ خون بہا میں آئی صرف ایک خونی کی بہن تھی۔۔۔جو وہاں سزا بھگتنے آئی تھی اور بس۔۔۔۔وہ خود کو باور کروا چکا تھا
ہیر کو بیسمنٹ میں بند ایک ہفتہ ہو چکا تھا جب مہرو یشب کے کمرے میں آئی تھی
یشب مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
جی بھابھی بیٹھیں۔۔۔۔۔یشب کتاب ٹیبل پر رکھ کر اسکی طرف آیا
مہرو اسکے سامنے صوفے پر ٹک گئی
کیا یہ ہیر وہی ہیر ہے جو تمہیں چھ سال پہلے ملی تھی جھیل پر۔۔۔۔؟؟
یشب نے حیرانگی سے مہرو کو دیکھا
ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔جو پوچھا ہے اسکا جواب دو
جی۔۔۔۔۔یشب نے سر جھکا کر اقرار کیا
تو پھر بھی تم اسے تہہ خانے میں چھوڑ آئے ہو
اس کا اصل ٹھکانہ وہی ہے۔۔
اسکا اصل ٹھکانہ کہاں ہے اپنے دل سے پوچھو۔۔
بھابھی پلیز۔۔۔۔وہ سب میری ٹین ایج کی فیلنگز تھیں اب ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔
کیا واقعی ایسا ہی ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے آنکھیں اچکائیں
آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں صاف صاف کہیں۔۔۔۔
میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس میں ہیر کا کوئی قصور نہیں اسلیے یشار کے خون کی سزا اسے مت دو۔۔۔وہ رسان سے بولی
وہ یہاں سزا بھگتنے ہی آئی ہے بھابھی۔۔۔
کس جرم کی۔۔۔۔؟؟؟
وہ لاجواب ہوا۔۔۔
دیکھو یشب تم ایک پڑھے لکھے انسان ہو۔۔تمہارے منہ سے ایسی جہالت آمیز گفتگو جچتی نہیں ہے۔۔۔۔جو کچھ ہو چکا وہ سب قسمت میں تھا۔۔۔یشار اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔۔۔۔شمس خان تو صرف ان کی موت کی وجہ بنا ہے۔۔۔وہ نہ بنتا تو کوئی اور وجہ بن جاتی۔۔۔۔جانا تو تب ہی ہوتا ہے جب بلاوا
آ جاتا ہے۔۔۔۔
موت برحق ہے یشب آج نہیں تو کل ہم سب کو چلے جانا ہے۔۔۔پھر یہ لڑائی جھگڑے۔۔۔خون۔۔۔۔قتل۔۔۔۔۔بدلے۔۔۔۔اس سب سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟
بھابھی آپ۔۔۔۔
یشب میں جانتی ہوں تم میری بہت عزت کرتے ہو۔۔۔۔میری ہر بات بلاتردود مانتے ہو۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب بھی میری ایک بات مان کر میرا مان رکھ لو یشب۔۔۔۔۔
یشب نے سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھا
ہیر کو اس قید سے نکال کر اپنے کمرے میں لے آؤ۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی
جیسے بھی سہی اب وہ بیوی ہے تمہاری۔۔۔تم نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس کیساتھ نکاح جیسا پاکیزہ رشتہ جوڑا ہے۔۔۔اس لیے اس رشتے کی بے حرمتی مت کرو۔۔۔۔
کسی اور ناطے نہ سہی تو مجھے اپنے بھائی کی بیوہ سمجھ کر ہی۔۔۔۔
بھابھی پلیز ایسا مت کہیں۔۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں آپ میرے لیے کیا ہیں۔۔۔
میں آپکی کوئی بات نہیں ٹالتا ہوں اس لیے یہ بھی نہیں ٹالوں گا مگر بھابھی اس سے آگے مزید کچھ اور نہیں۔۔۔۔۔
میں ماضی کو بھول چکا ہوں۔۔۔۔اس لیے دوبارہ یاد کرنے کی بھی کوئی خواہش نہیں ہے مجھے۔۔۔
تم نے میرا مان رکھ لیا اتنا کافی ہے میرے لیے۔۔۔۔اس سے آگے تم جو چاہو کرو۔۔۔مگر یہ بات مت بھولنا کہ ہیر بے قصور ہے۔۔۔مہرو نے آہستگی سے باور کروایا
ہوں۔۔۔۔یشب نے پرسوچ انداز میں سانس خارج کر کے بات ختم کی۔
مہرو سے وعدے کے دو دن بعد وہ ہیر کو اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔۔۔۔مگر دل فلحال اسے بے قصور ماننے کو راضی نہ تھا۔۔۔اسی لیے یشب نے ہیر کیساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں برتی تھی۔
جھوٹی مسکان لیے اپنے غم چھپاتے ہیں
سچی محبت کرنے کی بھی کیا خوب سزا ملی
ہیر کا سارا کانفیڈینس تو اسی دن بھر بھری ریت ہو چکا تھا۔۔۔۔جب اسکو قربانی کے لیے پنچائیت میں پیش کیا گیا تھا۔۔۔
وہ ہمیشہ سے ہی اپنے علاقے کی ان فرسودہ اور ظالمانہ روایات سے بہت نالاں تھی۔۔۔مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن وہ بھی انہیں ظالمانہ روایات کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔۔۔۔اور اسے بلی چڑھانے والے اسکے اپنے سگے رشتے ہوں گے۔۔۔۔
نکاح کے بعد جب وہ اپنے بھاری قدم گھسیٹتی آفریدی حویلی میں داخل ہوئی تھی تو وہ ایک نئی ہیر بن چکی تھی جو ڈرپوک بھی تھی اور بزدل بھی تھی۔۔۔۔مگر اب بہادر نہ رہی تھی۔۔۔۔کیونکہ اب اسے ساری زندگی اپنے لالہ کی غلطی کی سزا جو بھگتنی تھی۔۔۔
وہ بھی ویسا ہی دن تھا۔۔۔جیسے دن کو ہیر باغ اور جھیل کنارے جا کر انجوائے کرتی تھی۔۔۔سردیاں جا رہی تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی۔۔
انہی دنوں کے پرسوز لطف کو محسوس کرنے وہ ٹیرس پر آئی تھی۔۔۔مگر اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔نہ تو دل میں کوئی خوشی تھی اور نہ ہی کوئی امنگ۔۔۔
اس لیے وہ انجوائے کرنے کی بجائے وہاں بیٹھ کر ماضی میں گزرے ایسے ہی دنوں کو یاد کرنے لگی۔۔اسے چھ سال پہلے کا وہ دن پوری جزئیات سے یاد تھا جب وہ ایسے ہی موسم کا لطف لینے جھیل گئی تھی جہاں اسے پہلی دفعہ یشب خان آفریدی ملا تھا۔۔۔
ہیر کو اس دن کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔۔۔وہ اپنی اور یشب کی کہی ہر بات کو اپنی زبان سے دہرا کر تازہ کر رہی تھی۔۔۔۔وہ ماضی میں بھٹکتی اور ناجانے کیا کچھ سوچتی کہ مؤذن کی آواز پر حال میں لوٹی۔۔۔۔
اوہ۔۔ہ۔۔مغرب بھی ہو گئی اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھی
ہیر نے مغرب کی نماز پڑھ کر جیسے ہی دعا کے بعد ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر ہٹائے اسکی نظر بیڈ پر بیٹھے یشب پر پڑی
جسکے بازو پر بندھی پٹی دیکھ کر وہ ناجانے کس جذبے کے تحت بےچین ہوتی جلدی سے اس کے پاس پہنچی
یہ۔۔۔یہ کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔؟؟وہ فکرمندی سے پوچھتی بیڈ پر یشب کے سامنے بیٹھی
کچھ نہیں۔۔۔۔
یہ پٹی کیوں بندھی ہے اور یہ خون۔۔۔
کہا ہے ناں کچھ نہیں ہوا۔۔۔وہ چڑ کر بولا
یشب یہ۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ کو چوٹ کیسے آئی۔۔۔۔مجھے بتائیں ناں یشب۔۔۔۔۔ایک آنسو چپکے سے ہیر کی آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلا
وہ رو رہی تھی اس شخص کے لیے جو ماضی میں کبھی اسے اچھا لگا تھا۔۔۔جسے بھلا کر بھی وہ بھول نہیں پائی تھی۔۔۔۔
جس نے اسے صرف اور صرف ایک خونی کی بہن سمجھا تھا۔۔۔جس نے اس سے کوئی نرمی نہ برتی تھی پھر بھی وہ اس ظالم شخص کی تکلیف پر رو رہی تھی۔۔
یشب نے حیرت سے اس کے آنسو کو دیکھتے ہوئے ہیر کی آنکھوں میں جھانکا
جن میں فکر تھی۔۔۔پریشانی تھی۔۔۔۔تکلیف تھی۔۔۔۔پرواہ تھی اور شاید چاہ بھی تھی۔۔۔۔
یہ وہی آنکھیں تو تھیں جن کو بار بار دیکھنے کی خواہش کی تھی کبھی۔۔۔
اب یہ آنکھیں اسکی اپنی ملکیت تھیں۔۔۔۔وہ ان میں ڈوب جانے کا حق رکھتا تھا۔۔۔۔اور وہ ان کاجل بھرے نینوں میں ڈوب ہی گیا تھا
صرف ایک لمحہ۔۔۔۔ایک لمحہ لگا تھا یشب آفریدی کے جزبات کو اسکی بے نیازی پر حاوی ہونے میں اور وہ سب کچھ بھلا کر ہیر کی ذات میں گم ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
کیا کشش تھی اسکی آنکھوں میں
مت پوچھو
مجھ سے میرا دل لڑ پڑا
مجھے وہ شخص چاہیے


1 thought on “Urdu novel download Aurat Aik Khilona Part 4 Novel – Urdu Kahani, Drama aur Jazbaat Ka Naya Safar”

  1. Pingback: Urdu Novel Aurat Aik Khilona Part 5 – Romantic Urdu Kahani

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top